اس سے قبل کہ۱۹ویں صدی کے اردو قصائد میں تہذیبی و ثقافتی عناصر کی بابت اظہار خیال کیا جائے ضروری ہے کہ صنف قصیدہ کے آغاز و ارتقا اور فنی امور پر تھوڑی سے روشنی ڈالی جائے۔
قصیدہ دراصل اردو فارسی کی اصطلاح میں اس مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اوربقیہ اشعار کے دوسرے مصرعے ہم قافیہ وہم ردیف ہوں، جس میں مدح یاذم، وعظ ونصیحت یا مختلف کیفیات وحالات وغیرہ کا بیان ہو۔
عربی میں قصیدہ کے معنی ارادہ کرنے اور قصد کرنے کے آتے ہیں۔
جلال الدین احمدجعفری نے اپنی کتاب ’’تاریخ قصائد اردو‘‘ میں قصیدہ کے اصطلاحی معنی کے تعلق سے وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اہل لغت نے قصیدہ کے لغوی معنی سطبر (دل دار گودا) کے لیے ہیں اور اصطلاح شاعری میں اس نظم کو کہتے ہیں جس میں مدح یا ذم یا وعظ ونصیحت یاحکایت و شکایت وغیرہ موزوں ہوں۔ وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چوںکہ اس میں ایسے مضامین عالی وکثیرمندرج کیے جاتے ہیں جو طبع مذاق کے لیے لذت بخش ہوتے ہیں اس واسطے اس کو قصیدہ کہتے ہیں۔‘‘ ۱؎
۱۔ (تاریخ قصائد اردو ، جلال الدین احمد جعفری ،انوار احمدی پریس ،الہ آباد ،ص ۳ قصیدہ نگاران اتر پردیش ،علی جواد زیدی ،‘‘مقدنہ’’،اتر پردیش اردو اکادمی،)
اس ضمن میں ڈاکٹر ابومحمد سحر نے مختلف ناقدین کے اقوال کی روشنی میں نتیجہ کے طورپر لکھتے ہیں۔
’’قصیدہ کے لغوی واصطلاحی معنوں میں اول الذکر لغوی معنی کے اعتبار سے یہ مناسب بتائی جاتی ہے کہ چونکہ اس کے ’’مضامین جلیل و متین‘‘، ’’ذائقہ طبع سلیم کو لذت دیتے ہیں‘‘ اس لیے اس کو قصیدہ کہتے ہیں۔ایک توجیہہ یہ بھی ہے کہ چونکہ قصیدہ اپنے مضامین نادر وبلند کے لحاظ سے جملہ اصناف سخن میں وہی فوقیت رکھتا ہے جو جسم انسانی میں مغز سر کو حاصل ہے اس لیے اس کو مغز سخن سے تعبیر کرکے قصیدے کا بام دیاگیا۔ موخرا الذکر کے لغوی معنی اس مناسب سے بیان کیا جاتا ہے کہ اس صنف سخن میں مدح یاذم یا کسی اورمضمون کی طرح رجوع کرنا ہی مقصود شعرا تھا۔‘‘ ۲؎
۲۔ (اردو قصیدہ نگاری ،ابو محمد سحر،،تخلیق کار پبلیشرز ،دہلی،ص ۱۰ )
قصیدہ کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم جو کہ اردو، عربی اورفارسی لغات میں درج ہیں اس کے علاوہ محققین نے جو معنیٰ ومفہوم اخذ کیے ہیں۔
اس سے بخوبی اس بات کااندازہ ہوتاہے کہ لفظ ’’قصیدہ‘‘ عربی الاصل لفظ ہے ، مگر یہ اردواورفارسی کی طرح عربی میں بھی ایک شعری اصطلاح کے طورپرمستعمل ہے۔ یہ دعویٰ کرنا مشکل ہے کہ یہ عربی کی ایک صنف سخن ہے۔ ’’قصیدہ‘‘ کے معنانی مختلف لغات ہیں مختلف ہے۔ اورمحققین کی نظر نے بھی اس کی تفہیم اپنے اپنے طور پر کی ہے۔ اسی طرح اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ قصائد کے اشعار کے تعلق سے علمائے ادب کی کیا آرا ہیں۔ سب سے پہلے ہم عربی کی معتبر لغت قاموس میں دیکھتے ہیں کہ اس تعلق سے اس میں کیا لکھا ہوا ہے۔
قاموس میں ہے کہ:
’’قصیدہ اسے کہتے ہیں کہ جس کے ابیات کا شطر مکمل ہو اور تین یا سولہ شعر اس سے زیادہ ہوں‘‘۔ ۶؎
عربی کی ایک جدید معتبر اور مشہور لغت ’’المنجد‘‘ کے مولف کا اس تعلق سے خیال ہے کہ :
’’قصیدہ وہ ہے جو سات یا دس شعر سے تجاوز کرجائے۔‘‘ ۳؎
۳۔ (المنجد ،ص ۶۶۸ )
اسی طرح دیگر عربی، ترکی، فارسی، اردو اور انگریزی لغات کے علاوہ نقادوں، محققین ، شعرا اور ادبا اور لغات کے مرتبین کی قصیدہ کے تعلق سے مختلف رائیں ہیں۔ کسی نے کہا کہ سات یا بارہ شعر سے زیادہ کی نظم کو قصیدہ کہتے ہیں۔ ابوالحسن اخقش نے کہا کہ :
’’قصیدہ تین اشعار پر مشتمل نظم کو ہی کہتے ہیں ’’۔
اس تعلق سے امام راغب اصفہانی نے درمیان کی راہ اختیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قصیدہ وہ ہے جو مکمل سات اشعار پر مشتمل ہو۔‘‘
ابن رشیق نے لکھا ہے کہ:
’’جب اشعار کی تعداد سات تک پہنچ جائے تو اسے قصیدہ کہیں گے۔‘‘
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قصیدہ وہ ہے جس کے ابیات کی تعداد دس سے متجاوز ہو، خواہ ایک ہی شعر زائد ہو۔
اس طور پر اگر ہم تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قصیدے کے اشعار کی کوئی قیدنہیں ہے۔ کم سے کم کتنے اشعار ہوں اور زیادہ سے زیادہ کتنے ہوں اس تعلق سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا جاسکتا۔
بہر طور قصیدہ اس مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے مقفیٰ ہوں، جب کہ باقی اشعار کے صر ف ثانی مصرعہ میں قافیے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ قصیدے میں قافیہ کا ہونا لازمی ہے جب کہ ردیف کا ہونا شرط نہیں ہے۔اشعار مسلسل اور مربوط ہوتے ہیں۔ قصیدہ کا پہلا شعر بھی غزل کی طرح مطلع ہوتا ہے۔ مگر قصیدے میں مطلع کئی ہوتے ہیں دو مطلع والے قصیدے کو دو مطلعین اور دو سے زائد مطلع والے کو ذوالمطالع کہا جاتا ہے۔ بعض قصیدہ گو نے ہرجزو کے لیے الگ سے مطلع کا التزام کیا ہے۔
اسی طرح قصیدے کے اشعار کے تعلق سے بھی اختلاف ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے کہ سات، بیس، پچیس، سو، ایک سو بیس اور ایک سو ستر اشعار تک ہوتے ہیں۔ بالعموم دو سو اشعار تک کے قصائد ملتے ہیں۔ مگر یہ بات محل نظر رہے کہ اردو قصیدہ نگاروں نے کسی بھی متعینہ تعداد اور اصول کی پاسداری نہیں کی ہے، بلکہ اس سے بھی زائد اشعار کے قصیدے لکھے گئے ہیں جیسے نصرتی نے ۲۲۰ اشعار کے قصیدے کہے اور قدر بلگرامی نے ۲۳۰ اشعار کے قصیدے کہے۔ جب کہ سودا کے ایک شاگرد نے تو تقریباً آٹھ سو اشعار پرمشتمل قصیدہ لکھا۔ حیرت تو تب ہوئی جب جدید عہد کا ایک قصیدہ گو شاعر شاطر مدراسی نے ۱۳۹۶ اشعار کا قصیدہ لکھا۔
اردو کی اصناف سخن کا اگرہم جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ قصیدہ ہی واحد ایسی صنف ہے جس کی شناخت کے وقت ہیئت اور موضوع دونوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ باقی اصناف کی شناخت یاتو ہیئت کے طور پر کی جاتی ہے یا موضوع ، مثلاً آزاد نظم، معرا، ہائیگو، ترائیلے، سانٹ، مثنوی، رباعی وغیرہ ۔
قصیدے کواگر ہم موضوع اور مضمون کے تحت دیکھنا چاہیں کہ موضوعات اور مضامین کے لحاظ سے قصیدے کی کتنی قسمیں ہیں تو مدحیہ، ہجویہ، وعظیہ، بیانیہ، بہاریہ، عشقیہ، حالیہ اور فخریہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ویسے قصید ے کی ایک قسم دعائیہ بھی ہوتی ہے، جس میں قصیدہ کا براہ راست دعا سے آغاز ہوتا ہے۔ قصیدہ چاراجزا پر مشتمل ہے۔ تشبیب، گریز، مدح اور عرض مطلب؍حسن طلب یا دعا۔
ان اجزائے ترکیبی کو مطلع ، تخلص اور مقطع بھی کہا جاتا ہے۔ مطلع کے ذیل میں تشبیب ، تخلص میں گریز اور مدح اور مقطع کے ذیل میں دعا، عرض حال و حسن وطلب آتے ہیں۔
اس بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ قصیدے کا موضوع صرف زندوں کی تعریف وتوصیف ہی نہیں ہے بلکہ اس میں مدح بھی ہے۔ تاکہ جوقصائد بزرگان کی شان میں کہے گئے ہیں ان کا احاطہ ہوسکے۔ چوں کہ قصیدہ اپنے اصل موضوع کے اعتبار سے صرف مدح یا ہجو تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کا میدان مدح یا ہجو سے زیادہ وسیع ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ قصیدہ ایک خاص قسم کی نظم ہے ۔
مندرجہ بالا باتوں کو پیش نظررکھتے ہوئے اگر ہم اردو قصیدے کے پس منظر کو دیکھیں اور ابتدائی قصائد کا بالا ستیعاب مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ شروع میں قصائد کسی کی مدح کرنے یا ذم کے لیے نہیں کہے جاتے تھے بلکہ شعرا کا یہ معمول تھا کہ وہ اپنے خیالات احساسات وجذبات اور تجربات کو شعری پیکر میں ڈھالتے تھے۔ اور یہ چیز ہمارے جاہلی عہد کی تہذیب کا حصہ تھی۔ کیوں کہ جاہلی دورمیں عرب کی تہذیب میں شاعری مقبول تھی ، بلکہ اس زمانے میں شعرا کی قدر ومنزلت بھی بہت تھی۔ وہ اسی وجہ سے کہ یہ فن ان کی تہذیب کا اہم حصہ تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال عکاظ کا میلہ تھا جس میں شعرا شریک ہوکر اپنے اشعار سناتے تھے۔ اور اچھے اشعار کو آب زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر آویزاں کیا جاتاتھا۔ جسے تاریخ میں ’’سبعہ معلقات‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان تمام شعرا کی تخلیقات کااگر فنی ، تہذیبی اور موضوعاتی مطالعہ کیا جائے تو ان کے موضوعات ومضامین کے تنوع اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قصا ئد اپنے عہد کے موضوعات کی رنگا رنگی کا خوبصورت نمونہ ہیں ۔ جب جاہلی دور کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا سورج طلوع ہوا تو نہ صرف زندگی بدلی بلکہ ایک ایک چیز میں انقلاب برپا ہوا۔ سیاست ہو کہ معاشرت، عبادات ہوکہ تہذیب وتمدن بلکہ تمام شعبہ ہائے حیات میں تبدیلی واقع ہوئی۔اسی طرح ادب، زبان اور معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتسم ہوئے۔ طلوع اسلام کے بعد کے شعرا کی زبان بدلی، انداز بدلا اور لہجے میں فرق آیا، برتائو بھی یکسر بدلا اور اسلامی غزوات کا تفصیلی بیان بے حد خوبصورتی سے ہوا۔ ساتھ ہی زمانے کے اثرات اور حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ خیالات وافکار بھی بدلے۔ جس کی وجہ سے ہم ہر عہد کے ادب اور تہذیب کو فرق کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔جیسے عہداموی، عہدعباسی اور عہد سلجوقی کے فن اپنے اپنے عہد کی نمائندگی کرتے ہیں جس طرح ان کے زمانوں کے اتار اور چڑھائو کا عکس اس عہد کے فن پاروں میں دیکھنے کو ہمیں بہ آسانی مل جاتاہے۔ اسی طرح قسیدہ میں بھی اس عہد کی عکاسی نظرآتی ہے۔ ہر عہد میں خواہ موضوعات کے حوالے سے ہو، مواد کے حوالے سے ہو یا فن اور ہیئت کے حوالے سے ہو تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں۔ پھر سلطنت مغلیہ کے قیام کے بعد ایک طویل عرصہ سے جو مسلم سلاطین کے دور اقتدار کا عہد کہلاتا ہے۔ اس پورے عہد کے ادب، تہذیب، کلچر اور سیاست و معیشت اور معاشرت میں کافی ترقی ہوئی۔ چوں کہ ان ادوار میں حکومت اور بادشاہ کا اپنی زبان ، تہذیب اور کلچر سے وابستگی تھی یہی وجہ تھی کہ اس تہذیب سے انہیں محبت تھی لہٰذا اس عہد میں زبان اور تہذیب کے ساتھ ادب کو پھلنے اور پھولنے کا موقع ملا۔ نتیجہ کے طور پر شعرا کی معتد بہ تعداد درباروں سے وابستہ رہی امرا خود شعر کہتے تھے۔ اور ان درباری شعرا کو معاوضہ دیا جاتا تھا۔ ایک طرح سے شاعری ان کے معاش کا ذریعہ تھی۔ جب شعرا نے قصائد میں سیاست تہذیب وکلچر کے ساتھ مذہب کو جوڑا تب تک تو کہا جاسکتاہے ہمارا قصیدہ کسی حد تک بہتر رہا۔ مگر جب شعرا خالص امرا، سلاطین اور بادشاہ وقت کی مدح میں قصائد کہنے لگے اور اس پر انہیں خلعتیں ملنے لگیں تو پھر قصیدہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ حالات کے رد و بدل اور زمانے کی گردش نے جس طرح مختلف چیزوں کو بدلا قصیدے میں بھی اس کا اثر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ قصیدے صرف مدح وذم نہیں۔ تعریف وتحسین کے لیے لکھا جاتا رہا بلکہ مختلف النوع موضوعات پر قصائد لکھے جاتے رہے۔ ہندوستان میں قصیدے کا باقاعدہ آغاز دکن میں قلی قطب شاہ سے ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ قصیدے کا فروغ باقاعدہ صنف کی حیثیت سے اس طرح نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہیے باوجود اس کے اردو زبان وادب کے فروغ اور اس کی اشاعت میں قصیدے کا قابل قدر حصہ ہے۔ ان قصیدہ نگاروں میں قلی قطب شاہ، علی عادل شاہ ثانی، نصرتی اور غواصی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے قصیدے نہ صرف اس بنا پر اہم ہیں کہ ان میں موضوعات کا تنوع ہے اور خیالات کی بلندی ہے بلکہ اس بنا پر بھی اہم ہیں کہ اس عہد کی سیاسی ، سماجی ، معاشرتی اور اپنے عہد کی تہذیبی زندگی کا آئینہ دار ہیں وہ قصائد۔ البتہ یہ بات بھی محل نظر رہے کہ اس سے قبل صوفیائے کرام تبلیغ اسلام کی غرض سے عوام کی روحانی ، قلبی، ذہنی، تہذیبی اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ فکری اصلاح وتربیت کا کام کررہے تھے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تصوف کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے یہ بزرگ حضرات صرف تصوف کی تعلیم دیتے تھے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ انھوں نے اس کے پس پردہ زبان و تہذیب کی ترقی میں اہم رول ہی ادا نہیں کیا بلکہ اس کی بنیاد ہی ان بزرگان دین نے رکھی ہے۔ انھوں نے عوام کے ذہن و مزاج کو پڑھا اور پھر ان کی زبان میں اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دیا۔ انھوں نے سب سے پہلے حقیقی محبوب سے ہماری تہذیب اور ہمارے ادب کو آشنا کرایا۔ ان کے کلام کو اگر ہم دیکھیں تو ہمیں معتدبہ حصہ محبوب حقیقی ، بزرگان دین، صحابہ کرام کی شان میں مدحیہ کلام کے طور پر مل جاتا ہے اور اس عہد کے مثنوی نگاروں۔ مثلاً خوب محمد چشتی، بہاء الدین باجن اور علی جیو گام دھنی کی مثنویوں میں تصوف کے موضوعات، اخلاق اور مدح کے مضامین مل جاتے ہیں۔ اس طرح ایک طویل عرصہ ہے جس میں مثنویاں لکھی جاتی رہیں۔ اور ان میں حمد و نعت کے ساتھ بادشاہ وقت کی مدح کے مضامین مل جاتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ مثنوی کے بطن میں قصیدہ کی نشوونما ہوتی رہی۔
اس تعلق سے بہت ہی واضح انداز میں سیدہ جعفر لکھتی ہیں:
’’ایک طویل عرصے تک دکن میں قصیدہ کے آثار و اجزا کی نشوونما مثنوی کے بطن میں بھی ہوتی رہی۔ نہ صرف مدحیہ موضوعات مثنوی کے ادبی روپ میں جاگزیں رہے بلکہ شعرا نے اپنی طویل مثنویوں میں بطور عنوان ایسے اشعار کو جگہ دی جنھیں یکجا کردیں تو ایک مستقل قصیدہ تیار ہوجاتا ہے۔ ‘‘ ۴؎
۴۔ (دکنی ادب میں قصیدے کی روایت ،ورلڈ ماسٹر انفارمیٹک سنٹر ،حیدر آباد ،ص ۶۹۔۶۸ )
براہ راست ہم اسے قصیدہ تو نہیں کہہ سکتے مگر قصیدہ کے وجود میں آنے کی خشت اول یاProcessing of a genre کہہ ہی سکتے ہیں۔ کیوں کہ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو قصیدہ نہیں تھا مثنوی تھی لیکن موضوعات مواد اور ہیئت نے جب ترقی کی تو ایک شکل بنی او روہ شکل صنف قصیدہ کی شکل میں وجود میں آئی۔ جس طرح کسی چیز کی ایجادات کے کئی مراحل اور مدارج ہوتے ہیں ان سے گزر کر کسی ایک چیز کا ایجاد ہوتا ہے۔ مگر ایجاد ہوجانے کے بعد ان ساری چیزوں کو بھلایا نہیں جاتا بلکہ ان کا شمار معاون چیزوں میں ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک عمارت کی تیاری میں بہت ساری چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ اینٹ، سیمنٹ، مزدور اور دیگر چیزیں مگر عمارت کی تعمیر کے بعد ان تمام چیزوں کو جدا نہیں کیا جاتا۔ عمارت ایک شکل اور ایک مکمل بنی ہوئی چیز کا نام ہے، مگر وہ کیسے ، کن حالات میں اور کن چیزوں سے بنی ہے اس کی اہمیت اور ان کا شمار کسی بھی حال میں ناگزیر ہوتا ہے۔ اسی طرح قصیدہ کی صنفی شناخت کے لیے ہیئت اور مواد کی شرط ناگزیر ہے بغیر اس کے شناخت ممکن ہی نہیں مگر باقی چیزیں ، مثلاً موضوعات اور فکرو خیال کو درکنار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ہم انیسویں صدی کے چنداہم قصیدہ نگاروں کا ذکر کرتے ہیں۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق (۱۷۹۰۔۱۸۵۴)
ذوق، مومن اور غالب اردو قصیدہ کے متوسطین میں اہم قصیدہ نگار ہیں۔ ان کا عہد بہادر شاہ ظفر کا دور ہے جو سلسلہ شاہی میں عہد زریں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ اردو شاعری میں اس عہد کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس میں نہ صرف تقلید پسندی کا رجحان کم ہوا بلکہ اپنی قدیم روایات کی بھی پاسداری کی گئی۔ اس عہد میں شاعروں کے لیے قصیدہ نگاری معاش کا اہم ذریعہ تھی۔ بہت سارے شعرا اس دور میں قصیدہ لکھ کر اپنی روزی روٹی چلاتے تھے ۔ یہ سچ ہے کہ ذوق ، مومن اور غالب ایک ہی عہد کے شاعر ہیں مگر قصیدے میں تینوں نے اپنا الگ رنگ جمایا، کسی نے کسی کی پیروی نہیں کی بلکہ سب نے الگ الگ اپنی انفرادیت پیدا کی اور تینوں اپنے فن میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مومن نے صنف قصیدہ کو مذہبی عقیدت کے اظہار کا ذریعہ بنایا مگر ذوق نے اپنے ذوق کے مطابق قصیدے کو درباری مداحی تک محدود رکھا۔ رہے غالب تو انھوں نے درباری اور مذہبی دونوں رنگ کے قصیدے کہے اور وہ بھی اس طرح کہ اپنی مثال آپ ہوگئے۔ ذوق بادشاہ وقت کے استاد تھے اور استادی میں ذوق کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھے اوروہ اپنے عہد میں مقبول ترین شاعر تھے۔ ذوق اردو کے عظیم قصیدہ نگار ہونے کے ساتھ زبان و محاورے کے بھی شاعر۔ انھوں نے اپنے قصیدوں میں جو رنگ اور کمال پیدا کیا وہ کسی کو مداحیہ قصیدے میں حاصل نہ ہوسکا۔ ذوق کی زبان دانی معروف ہے۔ اسلوب نگارش میں بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ زبان کے معاملے میں تو وہ اہل زبان کہلاتے ہیں۔ وہ صرف اس وجہ سے کہ فارسی کے ماہر اور عربی داں تھے۔ اسی طرح وہ کئی زبانوں کو نہ صرف جانتے تھے بلکہ اس کے ماہربھی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کئی زبانوں میں وہ شاعر ی کرنے کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔ اور انھوں نے یہ کمال کر بھی دکھایا کہ ایک قصیدے میں انھوں نے اٹھارہ شعر اٹھارہ زبانوں میں کہہ دیا، تو اکبر شاہ ثانی کے دربار سے انہیں خاقانی ہند کا خطاب ملا۔
ذوق کی علمیت اور قابلیت ہی کا نتیجہ تھا کہ مقفعیٰ ومسجع زبان استعمال کرتے تھے۔ رواں، سادہ اور سلیس زبان بولنا صرف ذوق کا ہی کمال تھا۔ اور ان باتوں کا تقریباً تمام ادیبوں نے اقرار بھی کیا ہے کہ ذوق سے صاف زبان کسی کی نہیں تھی۔ اس تعلق سے پروفیسر کلیم الدین احمد لکھتے ہیں۔
’’ذوق نے بھی قصائد نہایت اہتمام وکاوش سے لکھے۔ ہر قصیدے کا رنگ جدا ہے ہر قصیدے میں ایک نئی بات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘ ۵؎
۵۔ ( اردو شاعری پر ایک نظر، حصہ اول ،ص ۲۹۸۔۲۹۹ ،کلیم الدین احمد ،بک امپوریم ،سبزی باغ،پٹنہ ۱۹۸۵)
ذوق نے اپنے اسلوب ، زبان و بیان اور اپنی شاعری کا ایک غیراعلانیہ معیار طے کررکھاتھا، چوں کہ ان کا عہد بادشاہوں کا عہد تھا لہٰذا ہر عہد کا ایک اپنا معیار اور اس کی تہذیب ہوتی ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے معیار کا ترازو کلاسیک کو بنایا ۔ اس لیے وہ اپنے عہد کے کامیاب ترین شاعر تھے ۔ باوجود اس کے تقریباً تمام نقادوں نے ذوق کو سودا اور غالب اور مومن کے سامنے ہمیشہ لاکھڑا کیا ہے اور طرح طرح سے ایک دوسرے کے مقابل میں تولنے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ بالآخر ذوق کی قصیدہ نگاری کا لوہا ماننا ہی پڑتا ہے۔ ان سب کے باوجود نہ ان کی شعری عظمت میں کوئی کمی واقع ہوئی اور نہ ہی ان پر تحقیق کے دروازے بند ہوئے۔بلکہ روز بروز ان کی شعری، فنی لسانی اور ادبی خوبیاں نکھر کر سامنے آرہی ہیں۔
شاید ہی کوئی ایسا ادیب ونقاد ہو جس نے ذوق کو اپنے معیار کے مطابق جانچا اور پرکھا نہ ہو اور تمام ہی نے الگ الگ رائے قائم کی ہے۔ کسی کی نظر میں وہ اعلیٰ قصیدہ نگار ہیں تو کوئی کہتا ہے کہ انھوں نے طبع کیا ہے، تو کسی کی نظر میں وہ زبان، مصطلحات اور محاورے کے شاعر ہیں تو کوئی کہتا ہے کہ ثقالت زبان کی وجہ سے ان کی شاعری بوجھل ہوگئی ہے۔ مگر ان تمام میں میں سمجھتا ہوں کہ امداد امام اثر نے تو ذوق کو کسی لائق گردانا ہی نہیں ہے۔ وہ انہیں شاعر تو مانتے ہیں مگر کسی کام کا نہیں۔ ایک جگہ تو انھوں نے ان کے تمام ہی قصیدے کو غیر نیچرل قرار دے دیا ہے۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یاتو ذوق کے قصائد واقعی ایسے ہیں یا یہ کہ چند ادبا نے یہ رائے قائم کی اور باقی لوگوں نے ان کے کلام کا بالاستیعاب مطالعہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بجائے قائم کردہ رائے میں اپنی رائے ملا کر ایک جیسی ہی بات کہہ دی گئی ، یہی وجہ ہے کہ رائیں اور خیالات ایک جیسے ہیں۔ جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ذوق نے صرف درباری مداحی ہی کی ہے اور غیر فطری قصیدے ہی کہے ہیں، یہ تو ہوسکتا ہے کہ زیادہ تر قصیدے ایسے ہوں اور قلیل تعداد میں قصائد ایسے ہوں جو ہر اعتبار سے عمدہ اور اچھے کہے جاسکتے ہوں، کیوں کہ ذوق کے یہاں علمی اور فنی مصطلحات کی بہتات ہے ، بلکہ وہ اردو قصیدے میں اس فن کے امام تصور کیے جاتے ہیں۔ ہاں یہ تو درست ہے کہ ذوق کے قصائد عام قاری کے اعتبار سے نہیں ہیں، مگر یہ کوئی ضروری بھی نہیں کہ عام قاری کا خیال کرتے ہوئے قصائد کہے جائیں۔ چوں کہ انھوں نے بعض دفعہ تو ایک شعر اور مصرعے میں پوری تاریخ بیان کردی ہے۔ ایک مصرعے میں علمی اور فنی موضوع قلم بند کردینا ان کے لیے آسان ۔ اکثر ادبا نے ذوق کے تخیل پر بھی کلام کیا ہے مگر میں سو فیصد اتفاق نہیں کرتا کیوں کہ ذوق کے اکثر قصیدوں کی تشبیب بہاریہ ہے۔
شبلی نعمانی(۱۸۵۷۔۱۹۱۴ء)
شبلی کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ ان کا شمار عناصراربعہ میں ہوتاہے۔ اور اس لیے کہ اپنے ہم عصروں میں بے دار مغز اور ذہین تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی کے علم و ادب ، تہذیب وتمدن ، سیاست و معیشت کی بساط کا ہر گوشہ ان کی نظر میں تھاوہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے دلدادہ تھے اور اسے کسی بھی حال میں باقی رکھنے کے خواہاں تھے۔ ان کی نگاہ میں ماضی اور حال دونوں تھا باوجود اس کے انھوں نے شعر بہت کم کہے مگر یہ کہاجاسکتا ہے کہ ان کے اشعار کمیت میں تو کم ضرور ہیں ، کیفیت میں نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی شاعری میں رنگا رنگی اور تنوع کم ہے۔ دراصل وہ فن قصیدہ نگاری سے قومی بیداری اور حب الوطنی کی پیغامبری کا کام لینا چاہتے تھے۔ وہ صرف اصول پسند انسان تھے بلکہ اصول پسند شاعر بھی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مدح و تعریف صرف تملق پسندی ، چاپلوسی یا خوش کرنے کے لیے روا نہیں جانتے تھے، بلکہ مداحی میں بھی وہ صداقت کے علم بردار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مدح و ہ بھی کرتے ہیں مگر قصیدے کی روش سے ہٹ کر ۔ سچ یہ کہ ان کے دل میں قوم کا دھڑکتا ہوا دل تھا اور بے چین دماغ وہ ہر حال میں قوم مسلم کو اپنے شاندار ماضی کی یاد دلاناچاہتے تھے تاکہ ہماری قوم اپنے ماضی سے نور حاصل کرے۔ اسی دردمندی، حب الوطنی، اصلاح پسندی نے شاندار ماضی سے کسب فیض کرنے کی نصیحت شبلی کے بعد جن شاعروں نے کی ہے وہ شبلی ہی کی دین ہے۔ اس لیے یہ بات بھی مشہور ہے کہ شبلی نے اقبال ، ابوالکلام آزاد، اور محمد علی جوہر جیسی شخصیتوں کو جنم دیا۔ گویا کہ یہ سب شبلی کے دیرینہ خواب کی تعبیر ہیں۔
مرزا غالب(۱۷۹۷ء۔۱۸۶۹)
مرزا اسد اللہ خاں غالب کے منتخب اردو دیوان میں صرف چار مختصر قصیدے موجود ہیں۔ ان میں دو قصیدے حضرت علیؓ کی منقبت میں اوردو قصیدے بہادر شاہ ظفر کی مدح میں ہیں۔ غالب کے قصائد کمیت میں کم اور مختصر بھی ہیں لیکن کیفیت میں یہ کسی طرح کم نہیں ہیں۔ ان کا سب سے طویل قصیدہ اٹھاون اشعار پر مشتمل ہے اس کی ابتدا میں انھوں نے مہِ نو سے خطاب کیا ہے۔ اس قصیدے کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے قصیدے کے اجزائے ترکیبی کا خاص خیال رکھتے ہوئے قصیدے میں تشبیب ، گریز، مدح اور دعا کے حصے کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنی فنی خوبیوں اور چابکدستی کے ساتھ اپنی فطری جودت کا بھی ثبوت دیا ہے۔ ان کے قصائد مضامین کی بلندی ، فکر وخیال کی رفعت ، پرشکوہ الفاظ ، جوش بیان اور ندرت خیال کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ انھوں نے تشبیب میں جدت پسندی سے خوب کام لیا ہے۔ ہم جب ان کے قصیدوں کو پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے کس خوبصورتی سے انوکھے تشبیہات ، استعارے اور انداز بیان کی نزاکت کا اہتمام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی تشبیب پر غرور کی حد تک فخر تھا۔ اور اپنے آپ کو عرفی اورانوری کا ہم پلہ بھی تصور کرتے تھے۔ جس کی شہادت خواجہ الطاف حسین حالی نے بھی دی ہے۔ غالب نے جو دو قصیدے منتخب کیے ہیں ان میں سے ایک کی تشبیب بہاریہ ہے دوسرے قصیدے کی جو تشبیب ہے اس میں تصوف کے رموز و معاملات اور مسائل کو بیان کیا ہے۔ علمائے ادب نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس میں انھوں نے کائنات کی نفی کی ہے اور متعلقات کائنات سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ یہاں گریز روایتی ہے۔ ہاں مدح اور دعا میں جذبہ عقید ت کا پتہ ضرور چلتا ہے ۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ اس میں وحدۃ الوجود اور فلسفہ وحدۃ الوجود کے دیگر مسائل کا ذکر ہے۔
یہ قصائد گو کہ ان کے دور اول کے ہیں باوجود اس کے ان کی فکر کی بلندی، تخیل کی پرواز اور اسلوب کی داد دینی ہوگی ۔غالب کا خیال تھا کہ ہم دنیا میں جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اسی راستے سے مل سکتا ہے۔ مگر خاص بات یہ بھی ہے کہ عارضی اور سستے مفاد کے لیے انھوں نے کبھی قصیدے نہیں کہے۔ بہت ہی حکمت، دوراندیشی اور مستقبل بعید کی سوچ رکھتے تھے۔ وہ اس کے ذریعہ سے عزت و توقیر کے ساتھ سیاسی مقام و مرتبہ کے بھی خواہاں تھے۔ یہی ان کی جدت اور تازہ فکر ہے کہ وہ موجود کو مستقبل کے ترازو میں تولتے تھے۔ اسی جدت نے ان کے اردو قصائد میں ایک اجتہادی شان پیدا کردی ہے۔ اس کی وجہ سے روایتی انداز فکر اور روایتی برتائو کو کبھی گوارا نہیں کیا۔ اور یہی جدت بہادر شاہ ظفر کی شان میں کہے گئے قصیدے کی جان ہے گوکہ وہ قصیدے چھوٹی بحروں میں ہیں مگران کا اختصار ، جامعیت اور ندرت بیان مثالی ہے۔ ڈاکٹر ابومحمد سحر نے اپنی کتاب میں اس تعلق سے ایک جگہ لکھا ہے۔
’’ان قصیدوں میں علوئے فکر، ندرت خیال اور شان وشکوہ کے ساتھ ساتھ تسلسل بیان، روانی اور برجستگی بھی موجود ہے۔ ‘‘ ۶ ؎
۶ ۔ (اردو قصیدہ نگاری ،ڈاکٹر ابو محمد سحر،ص ۱۶۱، تخلیق کار پبلیشرز، دہلی )
غالب جس قدر ایک ذہین شاعر تھے اور اسی قدر سیاسی بھی۔ اسی لیے اس نے اپنی ذہانت اور قابلیت کی مثال جابجا چھوڑی ہے۔ غالب نے قصائد کو بہتر اور مثالی بنانے کے لیے فارسی لفظیات کا سہارا لیا جس کی وجہ سے ثقالت پیدا ہوگئی ہے۔ یہ ان کی تصنع اور ظاہر داری کے سبب ہوا ہے ۔
مومن خاں مومن(۱۸۰۰ء۔۱۸۵۱ء)
مومن کی مثنوی ’’ شکایت ستم‘‘ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے سولہ سال کی نوعمری میں اس مثنوی کو لکھا، یہ متعجب کردینے والی بات ہے کہ کوئی شخص جب شاعری کی ابتدا کرتا ہے توکچھ سال مشق اور ریاضت میں گزارتا ہے تب ہی یہ ممکن ہوسکے گا کہ اس کا کوئی پختہ کلام منظر عام پر آئے۔ اس تعلق سے علماے ادب کا بھی یہی ماننا ہے کہ ان کی شاعری اور ان کے تیور سے ایسا احساس ہوتا ہے کہ یہ کلام کسی نو آموز کا نہیں ہے۔ اور پھر وہ اکیس برس کی عمر میں صاحب جی کے کلام پر اصلاح بھی دینے لگتے ہیں، یہ بھی ثابت ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی شاعر یکایک شاعری شروع کردے اور اس کا کلام بھی منظر عام پر آجائے اور وہ اس لائق بھی ہوجائے کہ کسی کے کلام پر اصلاح بھی دینے لگے۔ ایسا نہیں ہوسکتا ۔ کلب علی فائق کا خیال ہے کہ انھوں نے نوبرس کی عمر میں ہی شعر کہنا شروع کردیاتھا۔ فائق کے اس قول کو ظہیر احمد صدیقی نے اپنی کتاب میں حوالے کے طور پر درج کیا ہے میں اسے یہاں بطور دلیل پیش کرتا ہوں۔ کلب علی فائق لکھتے ہیں:
’’اس لیے جو بچہ نو سال کی عمر میں عشق و محبت سے واقف ہوچکا۔ وہ شعر و شاعری سے بھی غالباً اس عمر میں واقف ہوچکا تھا۔‘‘ ۷؎
۷۔ (مومن خان مومن ،ظہیر احمد صدیقی ، ص ۱۶۱، ساہتیہ اکادمی ،دہلی ،۲۰۱۰،)
اردو قصیدہ نگاری کے متوسطین میں ذوق، مومن اور غالب کا مقام ایک دوسرے سے بلند ہے۔ مومن اور غالب کے قصیدے نہ صرف عالمانہ اور بلند پایہ کے ہیں بلکہ شاعرانہ فن کاری کے بہترین نمونے بھی ہیں۔ مومن آداب شاعری سے پوری طرح واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نزاکت ولطافت میں کمی واقع نہیں ہونے دیتے۔ ان کے قصائد میں ہمیں الفاظ و تراکیب کا شکوہ بھی ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے قصیدوں میں انداز بیان کی شان قائم کرنے اورلفظی بازی گری کے ذریعہ شعری اور فنی برتری پیدا کرنے کے لیے بازی گرانہ رویہ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جگہ جگہ ہمیں انداز بیان کی سطح پر فطری آہنگ کا احساس ہوتا ہے۔
کلیات مومن میں سات قصائد شامل ہیں۔ ان میں حمد، نعت اور منقبت بھی ہیں۔ دو قصیدے اور ہیں ان میں ایک وزیرالدولہ والی ٹونک کی تعریف میں ہے اور ایک راجہ اجیت سنگھ کی مدح میں ہے جو بغیر کسی صلہ اور انعام کے حصول کی غرض سے لکھا تھا۔ اور آخری دو قصیدے بھی اس سے مبرا ہیں۔ مومن پہلے قصیدہ گو شعرا میں ہیں جنہوں نے پہلی دفعہ قصیدہ میں خلفا ئے راشدین کی علاحدہ علاحدہ مدح کی ہے، جن میں محبت وعقیدت الفت ومودت اور جوش وجذبہ کا دخل ملتا ہے۔یہ سچ ہے کہ مومن نے جس قدر مذہبی قصائدکے موضوعات میں تنوع پیدا کیا ہے کسی اور نے نہیں کیا مگر یہ نہیں بھولنا چاہے کہ ان کے قصائد میں خیالات کی بلندی، فکر کی جدت اور شان و شکوہ کی کمی عوامی طور پر محسوس کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عبارت بریلوی ایک جگہ اس تعلق سے لکھتے ہیں کہ:
’’مومن اپنے قصیدوں میں مواد اور ہیئت کو ہم آہنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں‘‘ ۸ ؎
۸ ۔ (کلیات مومن ،از مقدمہ ،عبادت بریلوی ،ص ۵۵، کتابی دنیا، کراچی ،لاہور ،۱۹۹۵ )
عبارت بریلوی کی اس رائے کے باوجود یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان کے قصائد میں انفرادیت ہے ، کیونکہ قصیدوں کے موضوعات میں جو مومن کے یہاں ایک طرح کا رکھ رکھائو ہے اور ایک قسم کا جو وقار ہے وہ علمی فضا سے مملو نظر آتا ہے۔ یہی وہ مخصوص انفرادیت ہے جس کی وجہ سے مومن کو ایک اچھا شاعر مانا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ مومن نے مختصر اور رواں بحروں میں نئی زمینوں کا انتخاب کیا۔ انھوں نے دو قصیدے ایسے بھی لکھے جو مشکل قافیہ اور ردیف میں ہیں۔ انھوں نے تشبیب میں بہاریہ ، عشقیہ اور رندانہ مضامین قلم بند کیے ہیں۔ بلکہ انھوں نے بزرگان دین کی شان میں جو مدح کیے ہیں اس میں بھی عاشقانہ اور رندانہ تشبیب روا رکھی ہے۔ ان کی تشبیبوں میں غزل کا ہی طرح رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور بعض تشبیبیں ناصح، رقیب اور رشک کے مضامین پر مبنی ہیں، ایک تشبیب میں تو انھوں نے بہت خوبصورتی سے معاشرتی حالات، زمانے کی تصویر اور مختلف طبقوں کی بے بسی اور بدحالی کا ذکر کیا ہے۔ جس میں تغزل کی آمیزش بھی ہے اور مضامین کی چاشنی بھی ہے۔
وہ قصیدے جس میں انھوں نے معاشرتی حالات کا عکس پیش کیا ہے۔ قصیدہ در منقبت حضرت ابوبکرؓ ہے جس میں زمانے کی ابتری اور مختلف طبقات کی بدحالی کا تذکرہ ہے۔
امیرمینائی (۱۸۲۹ء۔۱۹۰۰ء)
امیرمینائی کے قصائد میں دو طرح کے رنگ ابھرتے ہیں ۔ ایک رنگ وہ ہے جو روایتی ہے۔ انھوں نے روایتی اسلوب اور زبان استعمال کی ہے۔ مبالغہ آرائی اور تخیل کی پروازی ان میں روایتی شان پیدا کرتی ہے۔ دوسرے رنگ کے قصائد وہ ہیں جن میں انھوں نے حقیقی موضوعات و مضامین کو برتا ہے۔ ان میں جدت مضامین زبان و بیان کی سادگی اور سلاست ودلکشی اصلیت اور حقیقت کا مزہ دیتے ہیں۔ ان کے مطبوعہ دیوانوں میں بارہ قصائد موجود ہیں، مگر ان میں سات مکمل قصائد اور نونامکمل قصائد کا پتہ چلتا ہے۔ بزرگوں سے انھوں نے اپنے عقیدے کا اظہار پانچ قصائد میں کیا ہے۔ ان پانچ قصیدوں کے علاوہ جو انھوں نے بزرگوں کی شان میں کہے ہیں۔ دیگر قصائد نوابین کی تعریف میں کہے ہیں۔ ان میں نواب کلب علی خاں، نواب مشتاق علی خاں، نواب حامد علی خاں (والیان رام پور)، نواب شاہجہان بیگم، (والیہ بھوپال)، اور میر محبوب علی خاں (نظام حیدرآباد) قابل ذکر ہیں۔
اسلوب کی سطح پر امیر مینائی کے قصائد قابل تعریف ہیں۔ جو قصائد انھوں نے بزرگان دین کی شان میں کہے ہیں ان میں انھوں نے ان کی شان اور حقیقی اوصاف وفضائل اور ان کی سیرت کو بے حد خوش اسلوبی اور سلیقے سے پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے امرا و سلاطین کی شان میں جو قصائد لکھے ہیں ان میں بھی واقعیت ، جامعیت اور اصلیت پائی جاتی ہے۔ اس تعلق سے ڈاکٹر ابومحمد سحر لکھتے ہیں:
’’امیر نے ممدوحین کے جملہ روایتی اوصاف پورے اہتمام کے ساتھ نظم کیے ہیں۔ اس دور کے بعض قصیدہ نگاروں کی طرح ارباب دولت کی مدح کی ہے۔ ان کے قصائد میں بھی بہت تیز ہوگئی ہے۔ … امیر مینائی نے کہیں کہیں ممدوحین کے اصلی اوصاف اور ان کے زمانے کے حالات واقعات کا بیان بھی کیا جس سے ان کے قصائد میں اصلیت وواقعیت بھی ملتی ہے۔ ‘‘۹ ؎
۹۔ (اردو میں قصیدہ نگاری ،ڈاکٹر ابو محمد سحر ،ص ۷، تخلیق کار پبلیشرز ،دہلی ،۱۹۹ )
امیر مینائی کی بہاریہ تشبیب میں اصلی اور روایتی دونوں طرح کی کیفیات کا لطف ملتا ہے۔ انھوں نے تشبیب میں بہاریہ ، رندانہ، فخریہ اور حکیمانہ مضامین باندھے ہیں۔ اس کے علاوہ منظر نگاری، سراپانگاری اور تخیل کی کارفرمائی سے بھی خوب کام لیا ہے۔
محمد حسین آزاد (۱۹۱۰ء۔۱۸۳۲)
جدید اردو شاعری کے بنیاد گزاروں میں محمد حسین آزاد کا شمار ہوتا ہے۔ انھوں نے ۱۸۷۴ء میں کرنل ہالرائڈ کے مشورے سے انجمن پنجاب کے جلسے میں نئے انداز کی پہلی نظم پڑھی توانھیں بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا باوجود اس کے وہ گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوے اور حالی کے شانہ بشانہ اردو شاعری کی جملہ اصناف سخن کو جدید طرز سے ہم کنار کیا ۔ مگر یہ بات بڑی عجیب سی ہے کہ وہ اردو شاعری کو جدت اور ندرت سے مالا مال کرنے کے لیے تو گالی تک کھاتے ہیں، مگر قصیدہ نگاری میں وہ پرانی روش سے کیوں نہ ہٹ سکے اور اسی قدیم ڈھرے پر چلتے رہے جس کے نتیجے میں وہ علامہ حالی اور علامہ شبلی نعمانی سے اس میدان میں کافی پیچھے رہ گئے اور قصیدہ نگاری میں جدت وندرت پیدا نہ کرسکے۔ دراصل آزاد شوکت لفظی کے چکر میں الجھے رہے اور بھاری بھرکم الفاظ اور مبالغہ آرائی سے انہیں نجات نہ مل سکی۔ اور یہی وجہ بھی ہے کہ ان کی تشبیب میں تنوع کا فقدان ہے۔
محمد حسین آزاد نے بیشتر قصیدے درباری کہے ہیں، رو سا ، امرا اوروالیان ریاست کی مدح میں قصیدے کہے ہیں۔ جن کی تشبیہیں بہاریہ، طربیہ، رندانہ اور فخریہ موضوعات پر ہیں۔ انھوں نے موسم بہار کی مختلف کیفیات کو نظم کیا ہے۔ اور باغوں میں پھولوں کی تفصیلات بھی پیش کی ہیں۔
الطاف حسین حالی(۱۸۳۷۔۱۹۱۴ء)
حالی ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جب محمد حسین آزاد کے مشاعرہ لاہور (۱۸۷۴) سے جدید ادب کی بنیاد پڑی تو اس وقت انھیں اس کی قیادت نصیب ہوئی۔ حالی جس شاعرانہ ماحول میں جی رہے تھے اس سے بغاوت کرنا بہت مشکل تھا ۔ فاضلانہ ذہنیت کے لوگ تھے اور تقلید ان کے رگ وپے میں شامل تھی۔ باوجود اس کے انھوں نے جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے بنے بنائے فارمولے اور ڈھانچے کو توڑا اور نیچرل شاعری اور مقصدی شاعری کی آواز بلند کی۔ انھوں نے پر زور طریقے سے بتایا کہ ادب کو مقصدی ہی ہوناچاہے۔ انھو ں نے بتایا کہ اصناف سخن کی تقسیم عروضی ڈھانچے کے لحاظ سے غلط ہے اور موضوع شعر کے لحاظ سے انھوں نے اصناف سخن کو تقسیم کیا۔ انھوں نے مد ح کی مر کزیت کوباقی رکھتے ہوئے قصیدے میں دوسرے موضوعات بھی داخل کیے۔ اس طور پر انھو ں نے جدید رحجانات سے قصیدے کو ہم آہنگ کیا۔
حالی کی کلیات میں کل سات مکمل قصیدے ہیں اور تین قصیدے نامکمل ہیں۔ اس طر ح ان کے کل دس قصائد موجود ہیں۔ ان کے جو سات مکمل قصائد ہیں ان میں سے دو قصیدے لغت میں ہیں اور تین قصائد نواب سر آسماں جاہ ملکئہ وکٹوریہ اور نظام دکن کی تعریف میں اور ایک قصیدہ حیدر آباد کے ایک جلسئہ عام میں پڑھاگیا جو علی گڑھ کا لج کے ایک وفدکی طرف سے تھا۔ اس قصیدے میںدکن کے نظام کی تعریف کی گئی ہے اور رعیان ریاست کا شکر یہ بھی ادا کیا گیا ہے۔اس قصیدہ ’’قصید ہ ا لغیاثیہ عرض حال‘‘ ہے۔ رہے وہ قصیدے جو ناتمام ہیں تو ان میں ایک قصیدہ نواب کلب علی خاں، والی رامپور کی تعریف میں ہے اور ایک قصیدہ سر سید احمد خاں کی تعریف میں ہے۔
یہ تو سچ ہے کہ حالی کے زیادہ تر قصیدے مدحیہ ہیں، مگر یہ بات محل نظر رہے کہ یہ قصائد مدحیہ ہونے کے باوجود روایتی معیار سے قدر مختلف ہیں۔ چوں کہ انھوں نے مدحیہ انداز اختیار ضرور کیا ہے، مگر حقیقت اور مرکز یت پر زور دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کبھی بھی فطری اظہار کے دامن کو ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ انھوں نے یہ کمال کیا کہ روایت سے انحراف بھی کیا اور روایت کی پاسداری بھی کی۔ وہ اس طرح کہ وہ جانتے تھے مدح کی جان اور روح مبالغہ ہوتا ہے ۔اس لئے انھوں نے روایت سے منحرف ہوتے ہوئے اپنے ممدوح کی تعریف سیدھے سادے انداز میں بیان کرنے کی طرح ڈالی۔ انھوں نے قصیدے کے اجزائے ترکیبی ،تشبیب،گریز، اور مدح میں مکمل طور پر قدیم روایتی طریق سے انحراف کی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنی ذہانت سے کام لیتے ہوئے مبالغہ آرائی ،بلند تخیل، شان وشکوہ، تشبیہات اور استعارے میں بھی جدت اور نیاپن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تمہید کے چند اشعار بطورنمونہ دیکھے جو انھوں نے محمدحسین کی اصلی اور حقیقی خوبی وصفات اور ان کے مختلف کارناموں کوجس سادگی سلامت خوبی اور فطری انداز میںپیش کیا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہے۔
منیرشکوہ آبادی (۱۸۸۰۔۱۸۱۴)
منیرشکوہ آبادی جو اپنے اصل نام سید محمد اسماعیل حسین سے نہیں بلکہ منیر شکوہ آبادی کے نام سے پوری ادبی دنیا میں معروف ہیں۔ آپ روایت پسند قصیدہ نگار ہونے کے ساتھ جدید اور نیچرل شاعری کے پاسدار بھی ہیں، جس کا ثبوت انھوں نے اپنے کئی ایک قصیدوں میں دیا بھی ہے۔ انھوں نے قصیدہ نگاری پر بطور خاص توجہ دی ہے۔ ان کے کلیات میں اٹھائیس قصیدے ہیں۔ ارباب ثروت کی شان میں قصیدے لکھنے کے علاوہ انھوں نے نعت اور منقبت میں بھی قصیدے لکھے ہیں۔ جب کہ ان کے قصیدے کی یہ تعداد ان کے ہم عصر اور ان کے بعد کے قصیدہ نگاروں میں کئی بلکہ بیشتر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ورنہ زیادہ تر قصیدہ گو شعرا نے آٹھ یا دس قصیدے ہی کہے ہیں۔ جیسے امیر مینائی نے کل بارہ قصیدے کہے ہیں۔ اور معروف قصیدہ گو محسن کاکوری کے کلیات میںکل پانچ نعتیہ قصیدے ملتے ہیں۔ اسی طرح اور بھی قصیدہ وگو ہیں جنھوں نے اسی تعداد میں قصیدے کہے ہیں۔
(یہ بھی پڑھیں انشاء اللہ خاں انشاء کی قصیدہ گوئی- سید ثاقب فریدی )
منیر شکوہ آبادی کا کمال یہ ہے کہ انھوںنے قصیدے کے موضوعات اور اسالیب کی سطح پر جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔اس جدت اور ندرت کے پیش نظر انھوں نے جن واقعات و حالات کو قصیدے کا موضوع بنایا وہ اس طرح ہیں۔ سوانحی اشارے، سیاسی ومعاشرتی سرگرمیوں، انگریزی افواج کی کارگزاریوں، ذاتی احوال و کوائف اور پریشانیاں ۱۸۵۷ء کے انسانیت سوز واقعات ، تباہی و بربادی وغیرہ۔ اس ضمن میں منیر کی قصیدہ نگاری کے اوصاف کو گناتے ہوئے محمود الٰہی نے لکھا ہے کہ:
’’ان کی تراکیب وبندش میں چمک دمک اور آب وتاب نہیں، مگر جدت وندرت ہے اور کسی قدر بھاری پن اور شوکت بھی وہ مشکل الفاظ ولغات کے انتخاب میں اتنے انتہاپسند ہوجاتے ہیں کہ کبھی کبھی اغلاق ، نقل اور تنقید کا بھی خیال نہیں کرتے۔‘‘۱۰؎
۱۰۔ (اردو قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ ،محمود الہی ،ص ۴۰۲، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ،نئی دہلی ۲۱۱،)
اور یہ سچ بھی ہے کہ خواہ تشبیب کا حصہ ہو یا مدح کا ہر جگہ منیر شکوہ آبادی نے ندرت وجدت کے ساتھ حقیقت واصلیت سے کام لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ویسے تو انھوں نے اکثر قصیدے نواب کلب علی خاں اور والی رام پور کی مدح میں کہے ہیں لیکن ایک اور اس کی کیفیات پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی برسات کے حقیقی واصلی کیفیات ومناظر کی تصویر کشی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اہم اور خاص ہے کہ اس قصیدے کے لفظیات، تراکیب اور اس کی روح سے ہندوستانی تہذیب زندہ ہوتی ہے۔ ایک طرح سے قدیم تہذیب ، تمدن اور کلچر کا اشارہ ملتا ہے تو دوسری طرح ہندوستان کی فضا، آب و ہوا اور یہاں کے موسم و ماحول کا پتہ چلتا ہے ۔
محسن کاکوروی (۱۹۰۵۔۱۸۳۷)
محسن کاکوروی قصیدے کی دنیا میں صرف اس لیے شہرت کے آسمان پر نہیں ہیں کہ انھوں نے اپنے قصیدوں میں خیالات کی پاکیزگی اور زبان پرشکوہ استعمال کی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ انھوں نے اسلوب کی سطح پر تنوع پیدا کیا اور ہندوستانی رسم و رواج اور یہاں کی تہذیب و ثقافت اور ہندوستانی الفاظ کو بھی فن کاری کے ساتھ برتا ہے۔ ساتھ ہی قصیدوں میں ہندو دیو مالا، ہندوستانی تلمیحات واشارات، ہندی لفظیات، اساطیر و صنمیات اور ہندوئوں کی بعض تہذیبی اور مذہبی روایات کو بے حد خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
محسن کاکوروی کی کلیات میں کل پانچ نعتیہ قصیدے ہیں۔ گلدستہ کلام رحمت ، ابیات، نعت، مدیح خیرالمرسلین ، نطم دل افروز اور انیس آخرت ہیں۔ ان کے قصیدے مدیح المرسلین کو اس وجہ سے غیر معمولی شہرت حاصل ہے کہ کاکوروی نے اس قصیدہ کی تشبیب جو کہ بہاریہ تشبیب ہے اس کو موسم برسات سے ہم آہنگ کرکے مقامی رنگ بھر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو منفرد اور امتیازی مقام حاصل ہے۔ محسن کاکوروی کے قصیدہ کی خاص پہچان ان کی سادگی، ندرت الفاط، اسلوب کی شگفتگی اور تازگی ہے۔ ہم ان کا پہلا قصیدہ ، گلدستہ کلام رحمت، کو اگر دیکھیں تو یہ قصیدہ ان کی فکر و تخیل اور قدرت کاملہ کا ثبوت ہے۔ سادگی اس قصیدے کی پہچان ہے۔ انھوں نے سیدھے سادے پیرائے میں بہاریہ تشبیب لکھی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ انھیں عربی، فارسی اور ہندی الفاط، اسلامی وہندوتلمیحات واشارات اور دیومالا واساطیر پر قدرت حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے انھوں نے قصیدے میں اپنی قادر الکلامی کا برملا اظہار کیا ہے۔
اسماعیل میرٹھی (۱۹۱۷۔۱۸۴۴)
مولوی محمداسماعیل میرٹھی کی تربیت قدیم اور اصلاح پسند طرز تعلیم کے معلموں کے زیر سایہ ہوئی تھی اس لیے ان کا بھی ذہن اصلاح پسند تھا اور مفید ذریعہ تعلیم کے حامی بھی تھے۔جدید اردو شاعری کے منظر نامے پر اسماعیل میرٹھی کا نام روشن ہے چوں کہ وہ جدید اردو شاعری کے بنیاد گزاروں میں تھے۔ انھوں نے اردو شاعری کی دیگر اصناف سخن کی طرح قصیدہ گوئی میں بھی طبع آزمائی کی چوں کہ قصیدے کی روایت مبالغہ آرائی اور تخیل پروازی سے عبارت تھی مجموعی حیثیت سے قصیدہ میں سلاطین وارباب دولت کی مدح وستائش کرنا اور اس کے ذریعہ سے انعام و اکرام حاصل کرنا تھا۔ اس کے برخلاف جدید اردو شاعری کی بنیاد جس کے مولوی صاحب علم بردار تھے۔ حقیقت نگاری اور افادیت پر رکھی گئی تھی۔جدیدت کے علم برداروں نے صنف قصیدہ کو بھی حقیقت نگاری اور افادیت سے ہم کنار کرنے کی کوشش کی۔ اور اس کوشش میں جس جدید ذہن و فکر کے جدت پسند شاعر کا نام اہمیت کا حامل ہے وہ مولوی اسماعیل میرٹھی کا ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے جو کام قصیدے کے حق میں کیا وہ یہ کہ قصیدہ صرف مدح و تعریف کے لیے نہیں بلکہ دیگر موضوعات کے لیے بھی استعمال ہو اور تخیل کی بلند پروازی، تشبیہات واستعارات کے بجائے محاکات ، جزئیات اور حقیقت نگاری سے کام لیا جائے۔ انھوں نے یہ بڑا کام کیا کہ قصیدہ کو روایتی ڈگر سے آزاد کراکر نئی جہت اور سمت عطا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے قصیدے کے اجزائے ترکیبی کی پابندی نہیں کی اورنہ ہی روایتی موضوعات کو برقرار رکھا۔ اور قصیدہ سے تشبیب کو تقریباً بے دخل ہی کردیا۔
اگر ہم مولوی اسماعیل میرٹھی کے قصائد کے موضوعات کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ان کے یہاں کس قدر تنوع ہے۔ اور ہماری ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانیت سے یہ موضوع کس قدر میل کھاتا ہے۔ مثال کے طور پر خشک سالی، قحط سالی، شب برات، عیدالفطر، روم اور روس کی جنگ، مسلمانوں کی تنزلی، مختلف طبقات ، مثلاً شاعروں، عالموں، دنیا پرستوں، طبیبوں ، معلموں اور دیگر سماجی اور سیاسی موضوعات کو جگہ دی ہے۔ ہم ان کا قصیدہ ’خشک سالی‘ کو لیں اور دیکھیں کہ یہ قصیدہ حقیقت پسندی کے کس قدر قریب ہے بلکہ نیچرل شاعری کا یہ خوبصورت نمونہ ہے۔ یہ قصیدہ ۱۸۷۷ء میں لکھا گیا۔ جب ہندوستان قحط سالی سے دو چار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قصیدہ میں انھوں نے خشک سالی کی وجہ سے انسانوں، جانوروں، کھیت کھلیانوں، اور باغیچوں کی جو ابتر حالت تھی اس کوخوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہندوستانی اب و ہوا، فضا اور موسموں کا بھی دلکش اظہار ہے ۔
نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں
1 comment
[…] اردو قصیدہ تعارف […]