جب کسی شخص کے فکر و عمل سے انسان کی ذہنی تربیت،وسعت،علم اور ادب و تہذیب کی پاسداری کے ساتھ معاشرے میں مزید صفائی، پاکیزگی، شیفتگی، سلیقہ، نزاکت اور نفاست پیدا ہو تو ایسی شخصیت کے مالک کو عظمتِ انسانی اور اس کے فکر و عمل کو ’معراجِ انسانیت‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ استاذی مرحوم الحاج احمد جمال پاشا صاحب کی شخصیت اس کی امین تھی۔ہمدردی، اخوت اور ایثار کا مادہ انھیں روزِ اوّل سے ہی ودیعت ہوا تھا۔وہ جوڑواں پیداہوئے تھے۔ ان کی پشت سے ان کی بہن کی پشت جڑی ہوئی تھی۔ان دونوں بھائی بہن کو سرجری کی مدد سے الگ کیا گیالیکن کچھ ہی دنوں بعد جڑواں بہن کا انتقال ہوگیا اور اس نومولود پر اس کا اتنا شدید اثر ہوا کہ پورے بدن پر بڑے بڑے آبلے پڑگئے اور جینے کی امید جاتی رہی۔ان زخموںکی گہرائی کا اندازہ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ پاشا صاحب کے انتقال تک زخموں کے گڑھے بھرے نہیں تھے، جس کا ذکر وہ گاہے گاہے کرتے اور دکھاتے بھی تھے۔یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب انھوںنے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا۔ سنِ شعور کو پہنچنے کے ساتھ ساتھ ایثار و محبت کے جذبے بھی پروان چڑھتے گئے۔ نتیجتاً اپنے خانگی نوکروں، دوستوں، شاگردوں حتی کہ ملاقاتیوں کے ساتھ بھی ایثار وہمدردی کا برتاؤ کرتے تھے، مگر کبھی اپنی امداد کا ذکر کسی دوسرے سے نہیں کرتے۔ان کی اعانت کرنے کا اندازبھی مختلف تھا۔ وہ روپئے یا مطلوبہ اشیا دیتے وقت اس طرح شرماتے گویا حاجت مند ہی کے احسان سے زیر بار ہورہے ہوں۔ان کے اس رویے سے حاجت مند متاثرہوگئے بغیر نہیں رہتا۔ اس کا اعتراف رتن سنگھ نے بھی اپنی ’’دربدری‘‘ میں کیا ہے۔ میرے لیے یا کسی بھی ایسے فرد کے لیے جو اُن کی صحبت اور سایۂ عاطفت و عنایت میں رہا ہے ان کی رنگا رنگ شخصیت پررونی ڈالنا محال ہے۔لہٰذا جب سے میں ان کے حلقۂ شاگردی و سایۂ عاطفت میں آیا، اس وقت سے انھیں جس جس رنگ میں دیکھا ہے اسے قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ۱۹۷۶ میں ہم سب دوستوں کو جب یہ اطلاع ہوئی کہ پاشا صاحب لکھنؤ سے بحیثیت استاد تشریف لارہے ہیں، تو ہمیں بہت خوشی ہوئی۔مجھے کیا معلوم تھا کہ میں ان کا عزیز ترین شاگرد بن جاؤں گا اور ان سے غایت درجے کی عقیدت ہوجائے گی۔ اس وقت تو خوشی ہوئی تھی کہ مضافاتِ سیوان میں رہ کر لکھنوی طرزِ معاشرت اور آدابِ گفتگو سے واقف ہوجاؤں گا۔
اس وقت کا ان کا حلیہ ملاحظہ ہو۔ متوسط قد، کشادہ پیشانی، سر کے آگے سے بالائی حصہ تک مختصر بال لیکن لمبے لمبے گیسوؤں سے مشابہ آنکھوں پر ایک بڑی کالی سی عینک، سرخ و سفید رنگ، روزہ شیو کرنے کی وجہ سے چہرہ صاف شفاف، سفید کرتا اور علی گڑھ پاجامہ میں ملبوس، پاؤں میں ناگرہ جوتا۔بہت آہستہ قدم رکھتے کہ پاؤں کی چاپ سنائی نہ دے، لیکن ادھر ان کے لباس و آداب میں قدرے تبدیلی آئی تھی۔سفر میں اکثر سفاری سوٹ یا شرٹ پینٹ استعمال کرتے تھے۔حج سے واپسی کے بعد داڑھی رکھ لی تھی جس میں گاہے گاہے مہندی بھی لگاتے تھے۔ ان کی داڑھی خشخشی تھی۔ (یہ بھی پڑھیں رپورتاژ اور سفرنامہ کے نظریاتی پہلو – پروفیسر عبدُ البرکات )
پاشا صاحب ایک عظیم فنکار ہونے کے علاوہ ایک انسان بھی تھے اور انھیں پتھر پر پھول کھلانے کا گُر معلوم تھا۔وہ جس طالب علم میں علم و ادب کا تھوڑا بھی شوق دیکھتے ، اس کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑجاتے تھے۔بقول ان کے ’’اس کو پھانس رہے ہیں‘‘۔اسے اپنی لائبریری میں بلاتے، بڑے لگاؤ سے چائے پیش کرتے اور اس کے ذوق کے مطابق کتابیں دیتے۔مطالعہ کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ’’اماں! مطالعہ سے ذہن پختہ، فکر بالیدہ اور لکھنے کا سلیقہ آتا ہے۔‘‘ جب وہ اپنی معمولی زبان میں کچھ لکھ کر لاتا تو وہ مضمون دوبارہ خود لکھ دیتے، کہتے تھے:’’اگر ایک بار چھپ گیا تو پھنس گیا۔ادب کا چسکا ایسا ہے کبھی نہیں چھوٹتا۔‘‘اس طرح پاشا صاحب نے سیوان میں ایک وسیع حلقہ بنالیا تھا، اور اپنے مخصوص انداز میں چھوٹے چھوٹے ادبا کی ذہنی تربیت کرتے تھے۔پاشا صاحب مخلص اور سادہ انسان تھے چونکہ میں ان کے بہت قریب تھا اس لیے مجھے ان کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اورمتعدد بار چھوٹے اور طویل سفر میں ساتھ رہنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔انھیں تین چیزوں سے بے حد انس تھا۔ اپنی لائبریری، پھولوں اور شاگردوں سے۔ان کے لیے وہ پریشانیوں اور الجھنوںکو خندہ پیشانی سے مول لیا کرتے تھے۔ ایک بار سیوان سے پٹنہ کے ایک سفر میں ہم لوگوں نے کونارک ہوٹل میں قیام کیا۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد انھوں نے کہا’’چلو شاپنگ کرتے ہیں۔‘‘میں نے عرض کیا، کیا کیا خریدیں گے؟ ایک سفر میں میرا بیگ چوری چلا گیا جس میں سفر کا سامان رہتا تھا، ایک کم قیمت کی کی ریڈی میڈ شرٹ…چونکہ بیگم کام میں مصروف تھیں اس لیے دوسرا سوٹ نکالنے کے لیے نہیں کہا۔صرف ایک پینٹ باہر تھی وہ رکھ لی ، جو پہنے ہیں وہ گندی ہوگئی ہے۔شرٹ کم سے کم کتنے میں ہوسکتی ہے۔’’سستی یہی سو روپئے میں ہوجائے گی۔‘‘ سب سامان خرید لیا گیا، لیکن شرٹ نہیں خریدی گئی۔اس لیے کہ اس مارکیٹ میں ایک سو پچاس سے کم کی کوئی شرٹ ہی نہیں تھی۔پھر انھوں نے کہا کہ ’’چلو علامہ اسرار جامعی سے ایک شرٹ لیتے ہیں۔‘‘میں بہت فکرمندہوا کہ شاید ان کے پاس روپئے ختم ہوگئے ہیں۔اتفاقاً اسی مارکیٹ میں علامہ سے ملاقات ہوگئی۔پہلے علامہ کو انھوں نے سخت سست کہا۔ پھربولے’’اچھا علامہ ایک اچھی سی شرٹ دیجیے۔پہلے علامہ نے مذاق سمجھا لیکن جب پاشا صاحب نے مذکورہ واقعہ سنایا تو علامہ فوراً ایک گرد آلود شرٹ لے آئے جس کے تین بٹن غائب تھے۔ حکم ہوا’’اسے بٹن ٹنکواکر لاؤ۔‘‘علامہ دوسرے رنگ کے بٹن ٹنکوا لائے۔انھوںنے کہا ’’چلے گا‘‘پھر ہم لوگ کونارک آئے، ہم کو حکم ہوا’’صابن کی ایک ٹکیا لاؤ اور اسے دھوکر پھیلادو، یہی پہن کر کل لوگوں سے ملاقات کرنی ہے لیکن یہ بات کسی سے نہیں بتانا،ورنہ سب لوگ علامہ سے شرٹ مانگنے پہنچ جائیں گے۔دوسری صبح وہی شرٹ اور پینٹ پہن کر تیار ہوئے کہ ظفرکمالی پہنچ گئے۔سارے سامان کے ساتھ اپنے کواٹر لے گئے، پھر وہاں سے ہم لوگ ریڈیو اسٹیشن، اردو اکادمی اور دیگر جگہوں پر گئے۔ دوپہر کو ایک بڑے ہوٹل میں ہم لوگوں کو کھانا کھلایا۔ کھانے کی میز پر کہنے لگے’’جس طرح شیر اپنے بچوں کو شکارکرنا سکھاتا ہے، اسی طرح میں بھی تم لوگوں کو علم و ادب کے ساتھ اونچی سوسائٹی کے آداب بھی سکھاتا چلتا ہوں۔‘‘شام کو ہم لوگ کتابوں کی دکان پر پہنچے جہاں انھوں نے لائبریری کے لیے پانچ سو روپئے کی کتابیں خریدی۔ پٹنہ میں دو ایسے طالب علم زیرِ تعلیم تھے جن کو وہ نہایت خاموشی سے پڑھائی کے اخراجات بہم پہنچایا کرتے تھے۔ان کو پانچ پانچ سو روپئے خرچ دے کر خوشی خوشی سیوان چلے آئے۔ یہ تھے احمد جمال پاشا جو اپنے لیے پانچ سو کی شرٹ نہیں خرید سکتے تھے، لیکن اپنے شاگردوں کو اچھی رقم خرچ کرکے خوش ہوتے تھے۔اس تناظر میں کون کہہ سکتا ہے کہ احمد جمال پاشا لاولد تھے۔کیاکیا شاگردانِ پاشا ان کی اولاد سے کم ہیں؟کون سی ایسی قربانی ہے جوشاگردوں کے لیے انھوںنے نہیں دی؟ اگر کسی شاگرد کے چہرے پر اُداسی کی شکن دیکھ لیتے تو ان کی آنکھیں نم ہوجاتیں اور اس کے مسائل کو اپنا مسئلہ بناکر اس کی اعانت فرماتے۔ میں اپنے والدین کی طرف سے بے توجہی کا شکار تھا اور عام بچوں کی ٹولیوں میں بھٹکتا پھرتا تھالیکن پاشا صاحب نے تعلیم کی طرف توجہ دلائی، زندگی کی سمت کا تعین کیا، علم و ادب سے رغبت دلائی۔ (یہ بھی پڑھیں جمہوری ادب کا تصور – پروفیسر عبدُ البرکات )
ان کو پھولوں سے بھی بے پناہ لگاؤ تھا۔کہیں جاتے ان کی نظر پھولوں کی کیاریوں پر لگ جاتی۔ جب میں ان کے ساتھ بنگلور گیا تو انھوں نے وہاں پھوںکی نرسری سے تین پودے خریدے، مجھے حکم ہوا ’’اس کی تھیلی کی مٹی جب خشک ہوجائے تو اتنا پانی ڈالنا کہ صرف مٹی گیلی رہے۔انھیں جب بھی پڑھنے لکھنے سے تھوڑی فراغت یا تھکاوٹ محسوس ہوتی تو فوراً پھولوں کی کیاریوں میں پہنچ جاتے۔حالانکہ بارہا ان کی انگلی میں کانٹے چبھے لیکن پھولوں کی محبت نے اس درد کو زائل کردیا۔وہ خود کثرت سے پودے لگاتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔اسی سال مدرسہ سراج العلوم (سیوان) میں انھوں نے اپنے ہاتھوں سے پھولوں کے تختے لگائے تھے اور خود وہاں جاکر اپنے ہاتھوں سے اس کی تکونی بھی کیا کرتے تھے۔
پاشا صاحب کو سادگی،صفائی اور سلیقہ بہت پسند تھا۔گھر میں نوکروں کے باوجود وہ اپنے ہاتھوں سے گھر کا ایک ایک سامان درست کرتے،پردے اور چلمنوں کو جھاڑتے اور گرمی کے دنوں میں اپنے ہاتھوں سے برآمدے میں پانی چھڑکتے، پھر جب پسینے سے لت پت ہوجاتے تو باتھ روم میں جاکر خوب غسل کرتے، اور سفید ململ کا کرتا اور پاجامہ زیب تن کرکے نکلتے تو چہرے کی چمک اور رعنائی دیکھنے سے تعلق رکھتی،ان کے ہمراہ ’’کوٹھی نشاط افزا‘‘(سیوان) میں رہنے کا بارہا اتفاق ہوا ہے۔ایک بار شب میں انھوں نے کہا’’چلو بستر لگاتے ہیں، پہلے ہم لوگوں نے آپا(بلقیس داؤد، سرور جمال صاحبہ کی بڑی بہن) کا بستر لگایا،پھر باجی کا(سرور جمال صاحبہ کو میں باجی کہتا ہوں)،اس کے بعد ان کا بستر لگا، حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے گھر میں کام کرنے والی دونوں خواتین کے بھی بستر لگائے اور کہنے لگے کہ ’’میرے والد نوکروں کی غلطی پر کڑی سرزنش کیا کرتے تھے جس کو دیکھ کر میرا دل بالکل بدل گیا، میں ان لوگوں کے ساتھ بھی اپنوں جیسا سلوک کرتا ہوں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر منوں(ان کے گھر کا پرانا خادم) اور غفار (کارندہ) کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر ٹہلتے تھے اور ان کے ساتھ بینچ پر بیٹھ کر ان لوگوں سے گھنٹوں گفتگو کیا کرتے تھے۔پاشا صاحب کی خاکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے شاگردوں کے علاوہ ملاقاتیوں کی بھی چھوٹی بڑی تقریبات میں شامل ہونے سے گریز نہیں کرتے تھے حالانکہ متعدد بار ان کو دیہات میں عام لوگوں کے ساتھ ٹاٹ پر بیٹھ کر کھانا کھانا پڑا اور چائے کی فرمائش کے باوجود مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جس کا ذکر افسوس کے ساتھ کرتے اور کہتے’’اب دیہات نہیں جائیں گے‘‘لیکن پھر کوئی آتا اور بلا لے جاتا، وہ انکار نہ کرپاتے۔ شاگردوں کی شادی میں شرکت فرماتے تو نثری سہروں سے محفل زعفران زار بناتے۔راقم کی شادی میں تو ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔۵؍نومبر ۱۹۸۵ کی شام میں بارات روانہ ہوئی ، وہ راستے میں لطیفے سناتے رہے اور شب میں تو ان کی لطیفہ گوئی اور بذلہ سنجی اپنے شباب پر پہنچ گئی۔پوری رات لطیفے سناتے رہے، پھر کہنے لگے’’آج میں بہت خوش ہوں،اتنی خوشی مجھے زندگی میں کبھی نہیں ملی تھی۔‘‘اس خوشی کی وجہ سے پورے براتیوں کو شب بیداری کرنی پڑی۔صبح کو ایک بزرگ جو ان سے واجبی طور پر ہی واقف تھے، کہنے لگے’’صاحب سب کیجیے لیکن بچوں کو کالج جانے سے روک دیجیے، آج میں نے ان کے استاد کا لطیفہ سن لیا ہے۔
خواتین کی جانب پاشا صاحب کا رویہ شائستہ اور مہذب ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے ’’مردکو اپنی بیوی سے نرم لہجے میں بات کرنی چاہیے اور گھریلو ماحول کو ہمیشہ خوشگوار بنائے رکھنا چاہیے۔‘‘ مجھے ان کے ساتھ کہیں جانا ہوتا تو کہتے’’آپ اپنی بیگم سے پوچھ لیجیے گا۔‘‘پھر بڑے لوگوں کا ذکر کرتے اور فرماتے’’مرد باہر جتنا بڑا افسر ہو لیکن گھر میں اسے دبک کر ہی رہنا چاہیے۔میرا تجربہ ہے کہ ماں اور بیوی کے علاوہ دنیا میں آدمی کا بہی خواہ اور ہمدرد دوسرا کوئی نہیں ہے۔‘‘
پاشاصاحب ہمیشہ شگفتہ مزاج ہی نہیں شگفتہ رو بھی تھے، ہمیشہ خوش رہتے، انھیں نروس ہوتے کبھی نہیں دیکھا، وہ اندر سے ٹوٹ رہے تھے لیکن بظاہر ہر وقت ہشاش بشاش رہتے تھے۔ان کے ہمراہ اس طویل وقت میں ایک بار میں نے انھیں غصہ میں دیکھا تھا بلکہ جلال میں۔گرمی میں دوپہر کو ہم لوگ لائبریری میں بیٹھے، مطالعہ میں منہمک تھے، مکان کے باہر صحن میں چند اوباش قسم کے لڑکے بکریاں چرا رہے تھے اور اینٹ کے ٹکڑوں سے پتے توڑ رہے تھے، کبھی کبھی وہ ٹکڑے کھڑکی پر آکر گرتے جس سے کھڑکی کا ایک شیشہ ٹوٹ گیا، بس وہ غصہ میں باہر نکلے، دوڑکر بکری کو پکڑلیا،دو تین تھپڑ بکری کو لگائے کہ لڑکوں نے ان پر پتھراؤ شروع کردیا۔ میں اور باجی، آپا وغیرہ سبھی دوڑ پڑے، وہ غصہ سے کانپ رہے تھے اور ان کے منھ سے سخت کلمات نکل رہے تھے، اتنا غصہ کہ لڑکوں پر مقدمہ تک دائر کرنے کو تیار تھے، خیر کسی طرح ہم لوگ ان کو اعتدال پر لائے، اس کے بعد ان کے چہرے پر ناراضگی کے آثار تک نظر نہ آئے۔انتقال سے کچھ دنوں قبل ان کے رویہ میں ایک عجیب وغریب تبدیلی نظرآنے لگی تھی۔انھوں نے ان تمام لوگوں سے جن سے ان کے نظریاتی اختلاف تھے تعلقات استوار کرلیے تھے،ان سے برابر ملاقاتیں کرتے تھے، کسی سے گلہ شکوہ نہ رکھا، کہتے تھے کہ زندگی کا کیا بھروسہ،بھئی یہیں حساب چکتا کردوں۔
اصنافِ نثر میں پاشا صاحب کو خاصا دسترس حاصل تھا۔نثری صنف کے وہ اہلِ زبان تھے، جب کوئی معمولی سا واقعہ لکھنؤ کی ٹکسالی زبان میں بیان فرماتے تو لطف آجاتا، وہ مجلسی انسان تھے، گفتگو کرنے سے ان کا جی کبھی نہیں بھرتا تھا۔چونکہ مطالعہ کافی وسیع تھا اس لیے ان کے پاس گفتگو کے وسیع موضوعات تھے۔ایک ہی شخصیت میں محقق، نرم دل، ناقد، منفرد و عظیم ظرافت نگار، رقیق القلب انسان کی خصوصیات یکجا ہوگئی تھیں۔ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا جن میں اکثریت اردو کے بڑے ادیبوں اور دانشوروں کی تھی۔ان حضرات سے متعلق حیرت انگیز انکشافات بھی کیا کرتے تھے۔ زبان کی شگفتگی اور لہجہ کی نرمی سننے والے کو ہمہ تن گوش کردیتی۔ ( یہ بھی پڑھیں غضنفر کا افسانہ’سرسوتی اسنان‘ کا تجزیاتی مطالعہ – پروفیسر (ڈاکٹر) عبدُ البرکات )
پاشا صاحب کو مطالعہ کے ساتھ کتابیں جمع کرنے کا بیحد شوق تھا، کتابوں کی دستیابی کے لیے وہ ہرحربہ آزماتے اور اسے جائز تصور کرتے تھے۔ کہیں جاتے اور اپنے ذوق کے مطابق کتاب دیکھتے تو پہلے اسے مول لینے کی کوشش کرتے، اس پر کوئی تیار نہ ہوتا تو اس سے مانگتے، اس پر بھی بات نہ بنتی تو اس کو ’’ٹپا‘‘ لیتے تھے۔انھوں نے متعدد کتابوں کے حصول کے قصے بڑے دلچسپ انداز میں سنائے کہ کہاں سے اور کس طرح یہ کتاب ’’ٹپائی‘‘ ہے۔پاشا صاحب نے اپنی ذاتی لائبریری میں خاصی تعداد میں نادر و نایاب اور کمیاب کتابیں اور مخطوطات جمع کرلیے، اسے پاشا اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے رجسٹرڈ کرانے کی کوشش کررہے تھے، افسوس! ان کی زندگی نے وفا نہ کی، اور وہ اپنے بہت سے کام ادھورے چھوڑ گئے۔ظرافت سے متعلق جتنی کتابیں’’پاشا اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ میں ہیں کسی دوسری لائبریری میں نہیں ہیں اس کا انکشاف پاشا صاحب کے انتقال سے کچھ ماہ قبل دکن سے تشریف لانے والی ایک ریسرچ اسکالر نے کیا جو ہندوستان کی بیشتر لائبریریوں کی خاک چھان کر پاشا اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پہنچی تھی اور یہاں انھیں ’پیروڈی‘ پر اطمینان بخش مواد دستیاب ہوگیا تھا۔
پاشا صاحب سے آخری ملاقات ۲۴؍ستمبر ۱۹۸۷ کو ہوئی، میں ۲۳؍ستمبر کو مظفرپور سے آیا،وہ فوراً مجھ کو گھر کے اندر لے گئے، دیکھا، باجی کے ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا ہے، میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ چند روز قبل پھسل کر گر پڑیں، ہاتھ میں فریکچر ہوگیا ہے، ہم تینوں(سرورجمال صاحبہ، احمد جمال پاشا مرحوم، اور راقم) بیٹھ گئے، پھر انھوں نے کہا، بتاؤ سفر کیسا رہا، میں نے تفصیلات بتائیں اور کہا کہ بھاگلپور میں ڈاکٹر آصفہ واسع صاحبہ سے گفتگو ہورہی تھی، انھوں نے کہا’’بھئی جب میں نے ریڈیو کھولا پہلے صرف اتنا سنا کہ اردو کے سب سے بڑے وینگ کار کا دیہانت ہوگیا ہے،پہلے ہم نے احمد جمال پاشا ہی کو سمجھا، پھر بعد میں فکرتونسوی کا نام سنا‘‘۔ ادھر پاشا صاحب کا چہرہ دیکھا، ایک رنگ آرہا ہے، ایک جا رہا ہے، چہرے پر عجیب اُداسی چھا گئی تھی۔وہ فکر تونسوی کے انتقال سے بیحد متاثر تھے، خیر بات ختم ہوئی۔انھوں نے کہا اب جائیے شام ہوگئی، لیکن کل ضرور آئیے گا۔میں ۲۳؍ستمبر کو حاضرِ خدمت ہوا، میرے ساتھ بینک گئے، واپس آنے کے بعد انھوں نے کہا ، ریڈیو اسٹیشن سے ایک پروگرام آیا ہے، پٹنہ میں ریکارڈنگ ہوگی لیکن لکھنؤ سے نشر ہوگا۔موضوع ’’اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔ اسرار الحق مجازؔ‘‘ موضوع بہت اچھا ہے، پھر کنٹریکٹ فارم دیکھا، ریکارڈنگ کی تاریخ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۸۷ درج تھی، ہم لوگوں کی نظریں صرف ۲۶؍تاریخ پر ہی مرکوز ہوکر رہ گئیں۔ مہینہ اوجھل ہی رہاجب کہ یہ نواں مہینہ تھا، ریکارڈنگ اگلے ماہ میں تھی جس کا انکشاف پٹنہ جانے کے بعد ہوا۔ اس وقت حکم ہوا، ’’میں بولتا ہوں، آپ لکھئے‘‘۔ وہ مضمون بولنے لگے۔ مجازؔ مرحوم پر سات صفحات کا مضمون تیار ہوگیا، یہ ان کا آخری مضمون تھا۔ میں محسوس کررہا تھا کہ آج ان کے مضمون میں تسلسل کیوں نہیں ہے، پھر کہنے لگے، اب کافی شام ہوگئی، آپ جائیے اور ۲۹؍تاریخ کو ضرور آئیے گا۔میں ۲۸؍ تک کسی نہ کسی طرح گھر آجاؤں گا۔وہ ۲۸؍ستمبر کو گھر ضرور آئے لیکن صرف اپنے نورانی چہرے کا آخری دیدار کرانے۔ان کے چہرے پر وہی بشاشت، متانت اور شگفتگی تھی جس کا دوسرا نام احمد جمال پاشا بھی تھا۔
’’اب ان کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں‘‘
Correspondence Address :-
Dr. Abdul Barkat
Mehdi Hasan Road,, Qila Chowk,
Near Nadi, P.O. M.I.T., Brahampura
Muzaffarpur-842003 (Bihar)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ | 


1 comment
Tabiyat khush ho gayi. Barakat sahab ne Pasha sahab ko khoob yaad kiya hai