فورٹ ولیم کالج میں لکھی گئی داستانوں میں ’’باغ وبہار‘‘اپنی ایک الگ انفرادیت رکھتی ہے۔ میر امن نے زبان کی گھلاوٹ اوربیان کی چاشنی کا جس نہج پر خیال رکھا ہے اس کی مثال فورٹ ولیم کالج یا کالج سے باہر لکھی گئی دیگر داستانوں میں نہیں ملتی۔ ’’باغ وبہار‘‘ کا قصہ چہار درویس اور تحسین کی’’ نوطرز مرصع ‘‘سے ماخوذ ہے ۔میر امن سے پہلے اس قصے کو میر محمد حسین عطا خاں تحسین نے اردو کے قالب میں ڈھالا۔کئی مدت تک’’ چہار درویش ‘‘کا قصہ امیر خسرو ؔسے منسوب رہا لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ خسروؔ کا اس قصے سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ساتھ ہی قصّے کے اصل مصنف کے بارے میں بھی کوئی تحقیق ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے تاہم ’’باغ وبہار‘‘کے حوالے سے یہ بات بہ آسانی کہی جاسکتی ہے کہ اس کا ماخذ تحسین کی ’’نوطرز مرصع ‘‘ہے جس کا اعتراف خود میر امن نے اپنی کتاب کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت پر سرورق پہ یوں درج کیا ہے:
’’ماخد اس کا نوطرز مرصع وہ ترجمہ کیا ہوا عطا حسین خاں کو ہے فارسی قصہ چہار درویش سے۔‘‘
’’باغ وبہار‘‘ کی اشاعت ۱۸۰۴ میں ہوئی جو اپنے شگفتہ اسلوب کی بناپر بقائے دوام کی مستحق ٹہری۔میر امن نے زبان وبیان کے تخلیقی رچائو کا کچھ ایسا نمونہ دکھایا کہ اس میںموجود دلّی کا محارہ اور بول چال کا عوامی لب و لہجہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔انہوں نے اس کے باطن میں لفظی ومعنوی سطحوں پر اسرار ورموز کی جو دنیا آباد کی اس بناپر اِسے کبھی ’’اردو نثر کا پہلا صحیفہ ‘‘کہا گیا تو کبھی اس کی مقبولیت کا تانا بانا اردو زبان کی بقا سے جوڑا گیا ۔اس طرح اس داستان کے حوالے سے جتنے بھی تحقیقی وتنقیدی محاکمے سامنے آئے ہیں سبھی میں میر امن کی نثری کمال کو سراہا گیا ہے ۔ لیکن یہاں علاقہ ’’باغ وبہار‘‘کی لسانی انفرادیت سے پرے ہٹ کر اس کے نسوانی کرداروں کے بدلتے رویئے اور اس میں موجود عورت کے حقیقی جذبات واحساسات کی نشاندہی کرنا ہے۔
داستانوں میں کردار نگاری عموماً غیر فطری ہوتی ہے۔ جنوں ،دیوئوں اورپریوں کے علاوہ مافوق الفطری عناصرکی وجہ سے داستان کے کردار معاشرے کے حقیقی کردار سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ بعض دفعہ ان کرداروں کے اندر یکسانیت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ایک کردار دوسرے کردار کا چربہ معلوم ہوتا ہے۔لیکن جنو ں اور پریوں کے علاوہ بادشاہوں ،درویشوں اور شہزادہ ،شہزادیوں کے کردار بھی ہوتے ہیں جو فوق الفطری عناصرسے گھرے رہنے کے باوجود بھی کسی نہ کسی صورت میں ہمیں چلتے پھرتے عام انسانوں کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اردو کی دیگر داستانوں کی طرح ’’باغ وبہار‘‘میں بھی اس نہج کے کردارموجو دہیں بالخصوص مرد کرداروں میں چار وں درویشوں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کے بیان میں ہر درویش ایک دوسرے کا عکس معلوم ہوتا ہے۔سلیم اختر نے لکھا ہے:
ان مردانہ کرداروںمیں وہ مثالیت پسندی بھی نہیں ملتی جو سماج کے جیتے جاگتے مرد وں کا خاصا ہے۔اس کے برعکس ان کرداروں میں ایک مجبورولاچار اور عشق کے ہاتھوں گھائل عاشق کا روپ زیادہ اُبھرتا ہے جو محبت کی آنچ میں تپ کر اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ’’باغ وبہار‘‘میں موجود چاروں درویشوں کو سلیم اختر نے میرؔ کی غزل کے روایتی عاشق سے مشابہہ کرکے انہیں ایک خاص طرح کی عاجزی اور مسکینی کا حامل کراردیا ہے۔لیکن کرداری نگاری کے اعتبار سے دیکھا جائے تو’’باغ و بہار‘‘ میں موجود مرد کرداروں کے برعکس نسوانی کردارزیادہ جاندار ہیں۔ شہزادیِ دمشق،ماہ رو ،وزیر زادی ،سراندیپ کی شہزادی اور بصرے کی شہزادی وغیرہ اس کے اہم نسوانی کردار ہیں۔ داستانوی فضا میں سانس لینے کے باوجودبھی ان کے رکھ رکھائو ،گفتگو اور حرکت وعمل میں ایک مثالی عورت کے اندر پائی جانے والی تمام کیفیات موجود ہیں جوبہت حد تک انہیں داستانوں کی پریوں اور شہزدایوںسے الگ کرتی ہے۔ ان کے اندر اُخوت و محبت ،ایثاروقربانی ،محبت وعدوات کے جو جذبات موجزن ہیں وہ جیتی جاگتی چلتی پھرتی گوست پوست کی عورت کی عکاسی کرتے ہیں۔
پہلے درویش کے قصے میں موجود شہزادی دمشق کا کردار ’’باغ وبہار‘‘میں موجود تمام نسوانی کرداروں پر اپنے منفر د فکر اور عمل کی وجہ سے انفرادیت کا حامل ہے ۔ داستان میں کہیں اس کا نام مذکور نہیں ہے ۔وہ اخلاقی طور پر شہزادی ہوتے ہوئے بھی ضبط ِنفس سے محروم ہے لیکن اس کے کردار کی خوبی اس کے مزاج کی تیزی اور عقل کی گہرائی میں پوشیدہ ہے۔ اس کے اندرپلنے والا انتقامی جذبہ اسے داستان کی ہیروئین سے نکال کر حقیقی دنیا میں لا کھڑا کرتا ہے۔ وہ عشق میں دھوکہ کھاتی ہے اور قید ہوکرشہرِ پناہ کی دیوار تلے لٹکا دی جاتی ہے جہاں اس کی ملاقات درویش سے ہوتی ہے ۔اسے اپنے مرنے کا پورا یقین ہوتا ہے لیکن عاشق یوسف سوداگر کے ذریعہ دھوکہ کھانے اور عشق کے ہاتھوں برباد ہونے کے باوجو د بھی دیگر داستان کی شہزادیوں کی طرح مرنا پسند نہیں کرتی بلکہ جس صندوق میں لٹکائی جاتی ہے،درویش کو اسے چوری چھپے دفنا دینے کا حکم صادر کرتی ہے۔وہ یوسف سوداگر کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد بپھری ہوئی شیرنی کے روپ میں سامنے آتی ہے اس لئے اپنی بادشاہت اور زخمی انا کی تسکین کے لئے دوراندیشی اور عقل وفہم کی چابکدستی سے درویش کا استعمال کرتی ہے ۔ نسوانی فطرت رکھنے کے باوجود بھی کہی بھی دبتی نہیں ،نہ ہی اس کے کردار میں نسائیت کی وہ متززل رُمک پیدا ہوتی ہے جو داستانوں کی شہزادیوں میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔اس کے بیان میں بلا کی تیزی اور تلخی موجود ہے جو اس بات کا صاف اشارہ کرتا ہے کہ وہ محض داستان کی فرضی کرداروں کی تصویر نہیں بلکہ اپنا حق اپنا بدلہ لینے کے لئے مثالی عورت کی طرح سرگرم عمل ہے۔ درویش جب اس کے منصوبے کے درمیان آنے کی کوشش کرتا ہے تو کہتی ہے:
’’خبردار،اگر تجھے ہماری خاطر منظور ہے تو ہرگز ہماری بات میں دم نہ ماریئو،جو ہم کہیں سو بلا عذر کئے جائیو،اپنا کسی بات میں دخل نہ کریئو نہیں تو پچھتاوے گا۔‘‘
شہزادی کا یہ باغیانہ لہجہ اس کی شخصیت اور کردار کے زندہ ہونے کا اشاریہ ہے جو ’’باغ وبہار‘‘کے علاوہ دوسرے داستان کے نسوانی کرداروں میں بہت مشکل سے ملے گی۔لیکن اس کے کردار میں محض انتقام کا جذبہ اور بغاوت کے شعلہ ہی نہیں ملتا بلکہ مخصوص نسائی جذبات کی حقیقی اوصاف بھی اس کے اندر موجود ہے ۔یوسف سوداگر کوباغ میں دوسری لونڈی کے ساتھ عشق فراماتے دیکھ کر اس کا ’’لہوپینا‘‘، یوسف سوداگر کے بہانے سے روکنے پر اس کا پل بھر میں پگھل جانا اوردرویش کو اپنے عشق میں مبتلا پاکر اس پر کرم فرما کر اس سے نکاح کرلینے جیسے واقعات میں اس کی نسوانی فطرت ابھر کر سامنے آتی ہے ۔ (یہ بھی پڑھیں ’باغ وبہار‘ کی ادبی اہمیت- ڈاکٹر صفدر امام قادری)
پہلے درویش کے قصے میں ہی اس کی بہن کا کردار بھی موجود ہے جو بنیادی طور پر اس داستان کا ضمنی کردار ہے ۔اس کردار کے اندر نسائیت کا جذبہ کچھ اس طرح اُبھرتا دکھائی دیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ داستان کی کردار ہونے کے بجائے ہمارے معاشرے میں سانس لے رہی عورت کا ہو بہو عکس ہو۔وہ درویش کی چھوٹی بہن ہے اس سلئے اس سے حد درجہ محبت کرتی ہے لیکن اس کے گھر میں بیٹھے رہنے اور مفت کی روٹیاں توڑنے پر ڈٹ کر کہتی ہے:
’’اے بیرن تو میرے آنکھوں کی پتلی اور ماں باپ کی نشانی ہے ،تیرے آنے سے میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوا ۔جب تجھے دیکھتی ہوں باغ باغ ہوتی ہوں۔تو نے مجھے نہال کیا لیکن مردوں کو خدا نے کمانے کے لئے بنایا ہے گھر میں بیٹھے ایسا ان کو لازم نہیں ۔جو مرد نکھٹو ہو کر جیتا ہے اسے لوگ طعنہ دیتے ہیں ……یہ نہایت بے غیرتی اور میری تمہاری ہنسائی ہے اور ماں باپ کے نام کو سبب لاج کا ہے ۔نہیں تو میں اپنے چمڑے کی جوتیاں تجھے بنا کر پہناؤں اور کلیجے میں ڈال رکھوں۔‘‘
یہ جملے اس بہن کے احساسات وجذبات ہیں جو اپنے بھائی کو اپنی نظروں سے دور کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن روایت دنیوی سے پریشان ہوکر اسے خود سے دور ہونے کا مشورہ دیتی ہے اور کمانے پر آمادہ کرتی ہے۔ داستان میں یہ منظر بہت دلکش اورتوجہ طلب ہے جہاں رخصت کرتے وقت اس کی نسوانی فطرت اپنے بھائی کو سنائے گئے سخت الفاظ پرغالب آجاتی ہے:
’’جب رخصت ہونے لگا بہن نے ایک سیر پائوں بھاری اور ایک گھوڑا جڑائوساز سے تواضع کیا اور میٹھائی پکوان ایک خاص دان میں بھر کر ہودے سے لٹکا دیا ،اور چھاگل پانی کی شکار بند میں بندھوادی ،امام ضامن کا روپیہ میرے بازوں پر باندھادہی کا ٹیکا ماتھے پر لگا کر آنسو بھر کر بولی ،سدھارو۔انھیں خدا کو سونپا ۔پیٹھ دکھائے جاتے ہو اسی طرح جلد اپنا منھ دکھائیو۔‘‘
اپنوں کی رخصتی پر ساز وسامان کا اکٹھا کرنا ،روپیہ بازوں پر باندھنا ،دہی کا ٹیکا لگانا اور رخصت کرتے وقت آنکھوں میں آنسو بھر لانا وغیرہ جیسے اعمال ہندوستان کی تہذیبی روایت میں رچی بسی عورت کے جذبات کا صاف اشاریہ ہیں۔
اسی طرح دوسرے درویش کے قصے میں موجود بصرے کی شہزادی کے کردار میں نسوانی فطرت میں موجود صبر وشکر اور اعتماد کا عنصر پوری طرح لبریز ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جیتی جاگتی چلتی پھرتی ہمارے معاشرے کی فرد ہے۔ نفسیاتی طو ر پر عورت کے اندر مرد کے مقابلے صبر وشکر کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرِ نفسیات نے یہ تسلیم کیا ہے کہ عورت کے اندر مرد کے مقابلے ظلم سہنے اور برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہو تی ہے ۔بصرے کی شہزادی میں عورت کی یہ صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔وہ خدا اور دین پر کامل یقین رکھنے کے سبب اپنے باپ سے بھی لڑ جاتی ہے جس کی پاداس میں اسے جنگل میں پھنکو ا دیا جاتا ہے لیکن مصم ارادے اور صبر وتحمل کی اتنی مضبوط ہے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اُف نہیں کرتی۔ صبر وشکر ،نیک دلی اور نرم صفت کا یہی عنصر تیسرے درویش کی شہزادی کے کردار میں بھی پوری طرح رچا بسا ہے وہ پنجرے میں قید اپنے عاشق نعمان سیّاح کے ہاتھوں شقہ اور انگوٹھی بھجواتی ہے اور مقصد پورا ہوجانے پر شہزادی ہونے کے باوجود بھی اس کے احسان کو نہیں بھولتی بلکہ جرّاح کو بلا کر یہ تاقید بھی کرتی ہے کہ وہ اسے جتنا جلدی اچھا کرے گا وہ اسے اتنا ہی بڑا انعام دے گی ۔فرِنگ کی شہزادی کی یہ نرم فطرت صرف عورت میں ہی ملے گی بالخصوص ہندوستانی عورت کی فطرت میں جو اپنا سب کچھ لٹا کر بھی اپنی جان تک دوسروں کے لئے نچھاور کرنے کا مادہ رکھتی ہے۔اس کردار کے اندر صبر وشکر ہی نہیں بلکہ ایثار ومحبت کا جذبہ بھی موجزن د کھائی دیتا ہے جو نسوانی فطرت کی معرا ج ہے۔ تیسرا درویش جب اسے شہر سے باہر بہزاد خان کی حویلی کو اپنے غلام کی حویلی کہہ کر ٹہراتا ہے وہاں بادشاہ کے حکم سے بڑھیا کٹنی شہزادی کا پتہ لگا نے کے لئے فقیر بن کر آتی ہے اور اپنے دکھ درد کا مداوا کرتی ہے ۔داستان کے اس مقام پر شہزادی اپنی نسوانی فطرت میں پوری طرح شرابور نظر آتی ہے:
’’ملکہ نے ترس کھا کر اپنے نزدیک بلا کر چارنان اور کباب اور ایک انگوٹھی چھنگلیاسے اُتار کر حوالے کی کہ اس کو بینچ بانچ کر گہنا پاتا بنادیجو،اور خاطر جمع سے گزاران کیجواور کبھو آیا کیجو تیرا گھر ہے۔‘‘
شہزادی کا ایک غریب بڑھیا پر ترس کھانا،اسے اپنے پاس بلانا ، اپنی انگوٹھی نکال کر اس کی بیٹی کی شادی کے لئے دینا اور اپنا گھر کہہ کر پھر سے آنے کی دعوت دینا ——دراصل یہ سارے اعمال نسوانی فطرت سے تعلق رکھتے ہیں ،اتنی ہمدردی اور مروّت کے جذبات خدا نے صرف عورت میں ہی ودیعت کی ہے۔ یہاں یہ بات بھی غورطلب ہے کہ یہ کوئی عام عورت نہیں بلکہ شہزادی ہے اور باجود اس کے کردار کی یہ نرمی اسے حقیقی دنیا کی عورت سے قریب کردیتی ہے۔
وزیر زادی جو آزاد بخت کے قصّے کی ہیروئین ہے اس کے اندر بھی شفقت ومحبت اور ایثار وقربانی کے جذبات موجود ہیں۔وہ خواجہ سگ پرست سے عمر میں پچاس سال کم ہونے کے باوجود بھی بادشاہ کے کہنے پر اس سے شادی کرلیتی ہے اور اسے تقدیر کا فسانہ کہہ کر تسلیم کرلیتی ہے۔عابدہ حسین نے لکھا ہے:
’’عورتوں میں وزیر زادی نے کم عمری میں قربانی اور محبت کی جو مثال پیش کردی اس کا جواب نہیں،خواجہ سگ پرست سے شادی کرنا بھی ،قربانی کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔‘‘
اس طرح ’’باغ وبہار‘‘کے نسوانی کردار داستان کی شہزادیاں ہونے کے باوجود بھی اپنے اندر عورت کے حقیقی جذبات رکھتے ہیں۔ان کے حرکت وعمل اور رکھ رکھائو میں جو فطری سچائی موجود ہے اس سے ان کا کردار داستان کے فرضی کردار ہونے کے باوجود بھی ہمیں چلتے پھرتے معاشرے کی عورت کا عکس نظر آتے ہیں۔اگرچہ میر امن کی لسانی انفرادیت سے انکار ممکن نہیں ،لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ زبان وبیان کی اہمیت سے پرے ہٹ کر ’’باغ وبہار‘‘میں موجود کرداروں کے نہاں خانوں میں ڈوب کر انسانی فطرت کے مثبت پہلوئوں کا سراغ لگایا جائے کیونکہ میر امن کی یہ لازوال تصنیف نثری انفرادیت کے علاوہ بھی بہت سی خوبیاں اپنے قالب میں سموئے ہوئے ہے۔
یہاں ایک بات اور غور طلب ہے کہ داستان میں نسوانی کرداروں کے اس حقیقی برتائو کو ایک ایسا نباض ہی پیش کرسکتا ہے جسے عورت اور اس کی نسوانی فطرت پر عبور حاصل ہو۔میر امن کی فطرت میں یہ صلاحیت بخوبی موجود تھی یہی سبب ہے کہ انہوں نے داستان کے ان فرضی کرداروں میں بھی ایسے نسوانی جذبات کو پرو کر رکھ دیا۔میرے خیال سے بعد میں لکھے جانے والے ناول اور بیشتر فکشن نگاروں کے یہاں جو نسوانی جذبات کی عکاسی ملتی ہے وہ بہت پہلے میر امن باغ وبہار میں پیش کرچکے تھے ۔اس طرح باغ وبہار کی لسانی وحدت کے علاوہ بھی میر امن کے اس صحیفہ میں بہت سی خوبیاں روپوش ہے جسے تحقیقی بصیرت سے اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
قابل تعریف تحقیقی مضمون۔۔۔