فردنامہ پروفیسر عبد المغنی/ ڈاکٹر ریحان غنی – پروفیسر ڈاکٹر محمد توقیر عالم
بہار کی سر زمین ہمیشہ سے زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز بھی واقع ہوئی ہے۔ یہاں بے شمارایسی شخصیتیں ہمیشہ منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوتی رہی ہیں جنھوں نے اپنے جگرکاہی سے علم ادب کی خدمت کی ہیں۔علمی کاوشوں اور نگارشات کے ذریعے بہار کانام قومی اور عالمی سطح پر روشن کیا ہے۔ اس سلسلتہ الذہب کی اہم کڑی پروفیسر ڈاکٹر عبد المغنی بھی ہیں۔ ان کا شمار اردو کے اہم ترین محققوں اور نقادوں میں ہوتاہے۔ انہوں نے اپنی علمی و تحقیقی کاوشوں سے اردو کو وقار اور امتیاز عطا کیا۔ وہ کثیرالجہات شخصیت کے مالک تھے۔وہ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔ ان کی دانشوری کا زمانہ قائل ہے۔انہوں نے شعر وسخن،علم و ادب، بحث وتحقیق اورتنقید کواپنی کاوشوں کا میدان بنایا تھا اور اس میں اپنی ایک پہچان وشناخت قائم کی تھی اور بہت حد تک اس میں انہوں نے کامیابی بھی حاصل کی تھی۔وہ قدرتی طور پر عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت کا کوئی ایک پہلو نہیں ہے بلکہ ان کی ذات مختلف پہلوؤں اور جہتوں پر محیط ہے۔ وہ جید ناقد،بلندپایہ ادیب، زمانہ شناس دانشور، ماہر اقبالیات، مفکر،مصلح،صحافی،عالم دین، مبصر،تحریک اردو کے سپہ سالار تھے۔وہ ہر میدان کے شناور تھے اور جس میدان میں بھی قدم رکھا اس کا حق ادا کردیا۔
پروفیسر عبد المغنی نے ٹی۔ایس ایلیٹ کے تنقیدی نظریات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔انہوں نے چھوٹی بڑی 54 سے زائد کتابیں اردو اور انگریزی زبان میں تحریر کی ہیں جن میں اقبال اور عالمی ادب،اقبال کا نظام فن،تنقید مشرق، قرآن مجید کا ادبی اعجاز،قرآن کا فلسفہ تاریخ،ابوالکلام آزاد کا اسلوب نگارش،قرۃ العین حیدر کا فن، فیض کی شاعری،غالب کا فن، تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ اور میر کا تغزل شامل ہیں۔ ( یہ بھی پڑھیں فلسفہ اور ادبی تنقید- عامر سہیل )
پروفیسر عبد المغنی نہایت منکسرالمزاج اور متواضع انسان تھے۔ ان میں عاجزی وانکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ ہر کس و ناکس سے انتہائی خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔
”پروفیسر صاحب ایک ادنیٰ آدمی سے بھی بلاجھجھک ملتے تھے۔ انہیں ہر کس وناکس نہایت احترام کی نظرسے دیکھتا تھا۔ ہر مسلک کے لوگ ان کے قدرداں تھے۔ انگریزی ادب سے تعلق رکھنے کے باوجود اردو ادب مرحوم کی رگ رگ میں پیوست تھا“
(فردنامہ۔ پروفیسر عبد المغنی۔ ڈاکٹرریحان غنی۔ ص۔24)
پروفیسر عبد ا لمغنی ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے بلکہ صالح اور مقصد آمیز ادب کاایک منفرد روشن اور تابناک نظریہ رکھتے تھے۔ وہ آزادشاعری کے سخت مخالف تھے بلکہ اس کو اردو شعر و سخن کے لئے بہتر تصور نہیں کرتے تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ ادب کو صالح معاشرے کی تعمیر اور لوگوں کے دلوں میں اخلاقی جمالیات کا عنصر قائم کرنے کے لئے استعمال کیا جانا چاہئیے نہ کہ وقتی اور عارضی طور پر ذہنی اودماغی تلذذ و تلطف کے لئے۔ان کا کہنا تھا کہ بقول اسلم جاویداں:
”ادب میرا پہلا عشق رہاہے اور میں اس کو تزئین حیات کا بہت بڑا وسیلہ سمجھتاہوں اور میرا خیال ہے کہ جس معاشرے کا ادب خراب ہوجاتا ہے اس کے دل و دماغ بھی سلامت نہیں رہتے۔ جس قوم کی شاعری، افسانہ،ڈرامہ،ناول اورتنقید مریضانہ ہوں اس قوم کو کسی بھی طور صحت مند نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ان ہی خیالات نے 1952 میں مجھے تنقید ادب کی طرف مائل کردیا۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ادب زندگی سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اسی کا ایک جز ہے اور اسی کی تشریح و تزئین کے لئے لکھا جاتا ہے۔ لہٰذا ادب کو لازما اقدار حیات کا پابند ہونا چاہئیے۔“ (پروفیسر عبد المغنی:ایک معروضی تعارف۔فردنامہ۔۷ پروفیسر عبد المغنی۔اسلم جاویداں۔ ص۔۷)
فردنامہ۔۷ پروفیسر عبد المغنی کے مصنف ڈاکڑر یحان غنی ہیں جو بے باک،نڈر اور بے خوف صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب نظر ادیب اور قلمکار بھی ہیں انہوں نے یہ کتاب لکھ کر اردو ادب پر احسان عظیم کیاانہوں نے ڈاکٹر موصوف کی اعلی علمی و ادبی کارناموں کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور ان کی ہمہ جہت پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی ہے جس میں پروفیسر عبد المغنی کی خودداری،قناعت پسندی اور قلندرانہ مزاج کی عکاسی ہے تو دوسری طرف ان کے تنقیدی تصورات،افکار و نظریات کی ترجمانی اور وضاحت بھی ہوتی ہے۔۔انہوں نے پورے اعتماد اور اعتقاد کے ساتھ پروفیسر موصوف کے ہمہ جہت پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ریحان غنی صاحب نے پروفیسر عبدالمغنی کے گراں قدر علمی و ادبی اور تنقیدی افکار و نظریات کا مطالعہ اس گہرائی و گیرائی اور گہری وابستگی سے کیاہے جس سے پروفیسر عبد المغنی کے تنقیدی افکار و نظریات کی تصویر نمایاں ہوتی ہے اور اس کتاب سے پرفیسر موصوف کا مجسم وجود صرف صاف نظرہی نہیں آتا ہے بلکہ ان کے مضبوط وجود کا سائبان بھی امتیاز ی حیثیت سے دیکھنے کو ملتا ہے۔
اس کتا ب کے ذریعے نئی نسل کو پروفیسر عبدالمغنی کی علمی و ادبی خدمات سے روشناس ہو نے میں کافی مدد ملے گی۔ اس سے وہ ان کی عظمت اور خدمت سے روشناس ہوسکیں گے۔ دراصل یہ کتا ب دریاکو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر ریحان غنی نے اس میں پروفیسر عبد المغنی کی زندگی کے تمام گوشوں کو یکجا کردیا ہے اور ان کی تمام تصنیفات و تالیفات کاجائزہ پیش کردیا ہے جس سے ڈاکٹرعبد المغنی کے عظیم کارناموں کو سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔ اس کتاب کی زبان نہایت سلیس اور سہل ہے اور تمام واقعات مدلّل اور مبرہن ہیں۔ ڈاکٹر ریحان غنی نے شخصیات کی روشناسی اور ان کے تعارف کاایک نرالا انداز اختیار کیا ہے۔ اس کتاب میں 13عناوین درج ہیں۔ (1)پروفیسر عبد المغنی ایک نظر میں (2)تصنیفات و تالیفات ایک نظر میں (3)پروفیسر عبدالمغنی ایک تعارف (4)پروفیسر عبد المغنی دو تحریکات کے آئینہ میں (5)بہار میں اردو تحریک اور پروفیسر عبد المغنی (6)اردو تنقید اور پروفیسر عبد المغنی (7)پروفیسر عبد المغنی کے اداریے،ایک جائزہ(8)پروفیسر عبدالمغنی کے تبصرے (9)مختلف شخصیات پروفیسر عبد المغنی کی تحریریں (10)پروفیسر عبد المغنی کی منتخب تحریریں (11)شبلی کے کما ل تنقید کا تدارک، (12)پروفیسر عبد المغنی کا آخری یادگار انٹرویو(13)کاروان اردو کے ٹوٹے ہوئے تارے۔ان تمام موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ بقول امتیاز احمد کریمی:
”اس فرد نامے کے مصنف ڈاکٹر ریحان غنی ہیں جو بہار کی اردو صحافت میں معتبر اور معروف ہیں۔اردو صحافت میں آپ کی خدمات چار دہائیوں پر محیط ہیں۔ڈاکٹر ریحان غنی ایک بے باک صحافی ہونے کے ساتھ ایک صاحبِ نظر ادیب بھی ہیں۔بہار کی اردو تحریک سے بھی ان کا گہرا اور طویل رشتہ رہا ہے۔ اردو تحریک کے سالار غلام سرور اور عبد المغنی سے ان کی گہری وابستگی رہی ہے۔اپنی رحلت سے چند دنوں قبل عبد المغنی نے جو آخری انٹرویو دیا تھا وہ ڈاکٹر ریحان غنی کے ذریعہ ہی لیا گیا تھا۔“(فردنامہ۔۷ عبد المغنی۔امتیاز احمد کریمی۔ص۔۵)
میں اس کتاب کی اشاعت پر اپنے دلی مسرت و انبساط کا اظہار کرتا ہوں اور ڈاکٹر ریحان غنی کو معنویت کی گہرائی کے لئے مبارکبا د پیش کرتا ہوں۔