غالب شناس کا ایک قدر دان – ابراہیم افسر – سلمان عبدالصمد
غالب کو سمجھنے کے لیے علم و عقل چاہیے اور سمجھانے کے لیے مزید عقل وانش۔ تفہیمِ غالب میں رشید حسن خان نے جس عقل مندی، باریک بینی اوردقت نظری کو بروئے کار لایا ہے اس سے نہ صرف خان صاحب کی عرق ریزی اور متنی تنقید کی مہارت سامنے آتی ہے بلکہ ان کا منفرد ناقدانہ شعار بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ غالب کو سمجھانے کے لیے اپنایا گیا ان کا انداز واسلوب بھی ہمیں ملتفت کرتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے مطالبِ غالب اور گنجینۂ معانی کے حصول کے لیے جو روش اختیار کی، اس میں کسی ایک تنقیدی مکتب فکر کی عکاسی نہیں ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ رشید حسن خان نے مختلف اوقات میں غالب پر لکھے گئے مضامین میں اپنی الگ الگ حیثیت قائم کی ہے۔کیوں کہ کسی مضمون میں وہ شارحِ متنِ غالب نظر آتے ہیں تو کسی میں متون کے ناقد، کسی مضمون میں وہ سماجی نقطۂ نظر سے غالب کا مرتبہ متعین کرتے ہیں اور سماجی انسلاکات کی بنیاد پر غالب کے سخت سے سخت کلام کو معاشرے میں بہ آسانی مدغم کردیتے ہیں۔ اسی طرح وہ کسی مضمون میں لغوی ارتباط سے غالب کی انفرادیت درج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ غالب کے مترجم بھی ہیں۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہاں غالب کی باریک نظر اور آسمانی و الہامی فکر اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے،وہیں رشید حسن خان کی نکتہ رسی اور قوتِّ مخیلہ اپنی مثال آپ ہے۔
پیش نظر کتاب”رشید حسن کی غالب شناسی“نہ صرف غالب کُشائی کے ضمن میں ایک کارنامہ ہے بلکہ ڈاکٹر ابراہیم افسر کے حُسنِ ترتیب وتہذیب کا بین ثبوت بھی ہے۔ کیوں کہ جہاں انھوں نے اپنے طویل مقدمے میں رشید حسن خان کی غالب آفرینی کا تجزیہ کیا ہے،وہیں اپنے تحقیقی شعور سے ہمیں متوجہ کیا ہے۔تنقید کی نئی کھیپ میں ابراہیم افسر کئی لحاظ سے قابل التفات ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے یکسوئی سے رشید حسن خان کے مختلف علمی کاموں کو ایک جہت عطا کی ہے اورتنظیمی طور پر ادبی چیزوں کو جمع کرنے کا ہنر ہمیں سکھایا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ استقلا ل کے ساتھ اپنے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ ڈاکٹر ابراہیم افسر نے رشیدحسن خا ن پر متواتر چند کتابوں کی اشاعت سے نہ صرف اہل اردو کی طرف سے ایک قرض کی ادائے گی کی ہے بلکہ ”حُسن ترتیب وتہذیب“ کا ایک معیار قائم کرنے کی بھی کوشش کی۔ (یہ بھی پڑھیں ادب،تہذیب اور ثقافت کا امین میرٹھ کا”میلا نوچندی“ – ڈاکٹرابراہیم افسر)
رشید حسن خان کی ہر تحریر اپنی جگہ معنویت سے لبریز ہوتی ہے۔ ظا ہر ہے کہ ایک موضوع پر ان کی بکھری ہوئی تحریروں میں کیسا لطیف رشتہ ہوسکتا ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ پیش نظر کتاب سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ رشید حسن غالب نے یقینا غالب کے حوالے سے اچھوتے کام کیے اور غالبیات کے تناظر میں ان کے بکھرے ہوئے مضامین دلچسپ بھی ہیں اور معنی آفرینی کی مثال بھی۔ تاہم پیش نظر کتاب”رشید حسن کی غالب شناسی“ نے رشید حسن کو غالب تنقید کے حوالے سے اور بھی اہم کردیا ہے۔ کیوں کہ غالب پر ان کے مضامین کو بالاستیعاب پڑھنے سے ان کی حیثیت اور بھی زیادہ مستحکم نظر آتی ہے اور کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتاہے کہ رشید حسن خان کے ذہن میں بسا ہو اغالب ان تمام مضامین میں ایک مجسم ہوگیا ہے۔ کیوں کہ رشید حسن نے کسی ایک حوالے سے غالب کو نہیں دیکھا بلکہ متعد د حوالوں سے غالب کو دیکھا اور پرکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کی شعری کائنات کا ایک ہیولی اس میں نظر آجاتا ہے۔ غالب پر رشید حسن خان کے مضامین میں کبھی ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ متنی تنقید کے دائرے میں بھی وہ تنقید ی شعور پیش کررہے ہیں جس سے بہت سے غالب شناس قاصر ہیں۔
رشید حسن خان کی تنقید میں متعدد اصولی رویے نظر آتے ہیں۔ وہ نرے ناقد ہیں اور نہ ہی لفظی اعداد وشمار سے کام لینے والے ماہر لسانیات۔ اسی طرح نہ وہ فرہنگ تیار کرنے والے ایک فرد ہیں اور نہ ہی غالب کے اشعار کا ترجمہ کرنے والے مترجم۔کیوں کہ غالب پر بہت سے لکھنے والوں نے لغت کے سہارے غالب کے اشعار کی تشریح کردی ہے۔ جب کہ رشید حسن خان نے تنظیمی طور پر متعد د اصولیات سے استفادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین میں جہاں بہت سے سوالات قائم ہوتے ہیں اور غالب کو نئے زاویے سے دیکھنے کی وکالت کی جاتی ہے،و ہیں اشعار سے معانی ومفاہیم اخذ کرنے کے نئے طریقے بھی سامنے آتے ہیں۔ اس لیے رشید حسن کا مقام، دیگر ناقدوں اور متنی معاملات سے سروکار رکھنے والوں سے منفرد ہوجاتا ہے۔کیوں کہ انھوں نے بقدر ِضرورت غالب کے اشعار کے معانی بیان کیے ہیں۔ساتھ ہی انھوں نے املائے غالب پر توجہ دی ہے۔ غالبیات پر تیارشدہ کتابوں کی تقریظیں لکھیں۔ غالبیات پر لکھی گئی کتابوں کا تبصرہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ ناقدین ومحققینِ غالب پر سرسری نظر کی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی ایک شاعر پر جب کوئی بالغ نظر ادیب مذکورہ تمام حوالوں سے گفتگو کرے تو اس کی تنقید کا رنگ بالکل مختلف ہوگا۔بالکل یہی منفرد رنگ رشید حسن خان کی تنقید میں نظر آرہا ہے۔ظاہر ہے ایک اجمالی تبصرے میں رشید حسن خان کے تمام مضامین سے نہ اقتباسات پیش کیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ان تمام مضامین کا محاکمہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے ذیل میں فقط ایک اقتباس پیش کیا جارہا ہے، تاکہ ان کی علمی بصیرت اور تنقیدی رویوں کا بس اندازہ ہوسکے:
”یہ بات ہمارے سامنے ضرور رہنا چاہیے کہ حالی کا ذہن تنقیدی مباحث سے جیسی قریب کی نسبت رکھتا تھا، تحقیقی مباحث سے ان کے مزاج کو ویسا علاقہ نہیں تھا۔ اسی وجہ سے اس کتاب کا تحقیقی حصہ خاصا کم زور ہے اور حالی کے بہت سے بیانات قابل قبول نہیں ہے۔ ایک مشکل اور بھی تھی۔ مولانا کو مرزا صاحب سے بہ قولِ شاگردی کی نسبت تھی، وہ برائے نام سہی، لیکن وہ مرزا صاحب کو اپنا تاب رکھا، یہ اس کے نشانات ہیں۔ ہاں تحقیق کی نگاہ میں غلط بیان اور باہم مختلف بیانات ہر صورت میں تصحیح طلب ہوتے ہیں۔“مذکورہ اقتباس سے نہ صرف رشید حسن خان کے اسلوب تنقید سے آگاہی ہورہی ہے بلکہ بہت سے علمی سوالات ومشورے بھی سامنے آرہے ہیں۔ رشید حسن خان نے غالب کے حوالے سے لکھی گئی جن کتابوں کا محققانہ تبصرہ کیا ہے، وہ بھی خاصے کی چیز ہے۔ کیوں کہ انھوں نے فقط کتابوں کے تعارف وکوائف سے ہی سروکار نہیں رکھا بلکہ تاریخی حوالوں اور مستند روایات کے مدنظر کلام بھی کیا ہے۔ ظاہر ہے اس طریقہ کارسے تبصر ے میں نصف النہار جیسی شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح رشید حسن خان نے بعض مضامین میں غالب کے نفسیاتی پہلوؤں کی ایسی عکاسی کی ہے جو بے مثال ہے۔ کیوں کہ انھوں نے جہاں غالب اور کلامِ غالب کی تحلیل نفسی کی ہے،وہیں غالب کے نثری اور شعری اسلوب سے نفسیاتی پہلوؤں کو جوڑا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید کا ایک اہم پہلو نفسیاتی رویوں میں بھی سامنے آتا ہے۔ انھوں نے غالب کی اسلوبیات اور لفظیات سے جو معانی اخذ کیے ہیں ان میں اسلوبیات،سماجیات اور لسانیات کا ادغام نظر آتا ہے۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جن سے رشید حسن خان کی تنقید میں رنگا رنگی پیدا ہوجاتی ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ادب،تہذیب اور ثقافت کا امین میرٹھ کا”میلا نوچندی“ – ڈاکٹرابراہیم افسر)
ڈاکٹر ابراہیم افسر نے رشید حسن خان کے مضامین کو جس ترتیب سے اس کتاب میں رکھا ہے، اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کے تمام مضامین میں ایک لطیف رشتہ برقرار ہے۔ جب تمام مضامین کے درمیان ایک رشتہ قائم ہوجاتا ہے تو پڑھنے والوں کی دل چسپی بڑھ جاتی ہے اور مضامین کے ارتباط سے نئے معانی بھی دریافت ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ لیے کہنے میں باک نہیں کہ ابراہیم افسر نے نہ صرف رشید حسن خان کے مضامین بس یو ں جمع نہیں کردیے بلکہ مضامین کے حسنِ انتخاب سے تمام مضامین کے درمیان ایک ارتباط کی کیفیت پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلسلے وار ان مضامین کا پڑھنا گویا ایک یک موضوعی کتاب کا لطف دے جاتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |