Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      خبر نامہ

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      متفرقات

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      متفرقات

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      خبر نامہ

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      متفرقات

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      متفرقات

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
نظم فہمی

کشور ناہید کی تحریروں میں تا نیثی رحجان- عبد العزیز ملک

by adbimiras اگست 11, 2021
by adbimiras اگست 11, 2021 1 comment

ا سر فلپ سڈنی ۱۵۳۴ میں اپنی نظم میں ایک مصرع تحریر کیا:

"I dip my pen into my heart and I write”

’’میں اپنا قلم اپنے دل میں ڈبوتا ہوں اور تب لکھتا ہوں‘‘

اگر غور کریں تو یہ بات سر فلپ سڈنی پر ہی نہیں ادب تخلیق کرنے والے تمام فن کاروں پر صاد آتی ہے۔اس بیان میں شاعرہو یا ادیب کسی کی تخصیص نہیں ہے ۔ اردو ادب میں پریم چند،راجندر سنگھ بیدی ، کرشن چندر اورغلام عباس سے لے کر انتظار حسین ، پروین شاکر ، زاہدہ حنا ،فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید تک سبھی شاعر و ادیب اسی اصول کے تحت ادب تخلیق کرتے چلے آئے ہیں۔اگر کشور ناہید کی تحریروں کا غائر مطالعہ کیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ’’ قلم دل میں ڈبونا اور تب لکھنا‘‘،کایہ عمل جس طورسے کشور ناہید کی لکھتوں میں آشکار ہوتاہے وہ دیگر فن کاروں کی نسبت نہ صرف الگ تھلگ ہے بلکہ اس کی مخصوص شناخت کا حامل بھی ہے۔ کشور ناہید ادب اپنے جذبات و احساسات میں ڈوب کر اس طرح تخلیق کرتی ہے کہ ایک عورت کی جذباتیت بر ملا سامنے آجاتی ہے جو اس کے تانیثی رویے کی واضح دلیل ہے اور اس طرح اس کی تحریر میں ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ قاری کشور ناہید کی تحریروں کا اسیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔اس سلسلے میں کشور ناہید کی کتاب ’’ سوختہ سامانی ٔ دِل ‘‘ اور ’’ لبِ گویا‘‘سے چند اشعار ملا حظہ ہوں ۔

میں  ایک  ہاتھ  سے  دیوار  کیسے  تھاموں  گی

لہو  میں  غرق   ہے   دستِ   دعا    نیام    تلک     (سوختہ سامانیٔ دل)

{}

ہم  نے  آنکھوں میں  بہت  سرمہ کیا  یادوں  کو

دلِ آشفتہ   نے   یہ   بات   زبانی  کہ      لی       (سوختہ سامانیٔ دل)

{}

کھلونا  ٹوٹتے  دیکھوں  تو   آنکھ   بھر آ ئے

ابھی  تک  نہیں  بھو لی  ہے  زندگی   بچپن         (لبِ گویا)

یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری کا پہلا ہی مجموعہ’’لبِ گویا‘‘ جب۱۹۶۸ئ میں منظرِ عام پر آیا تووہ عوام میں مقبولیت کی مسند پر فائز ہوا اور اسے حکومت نے آدم جی ادبی انعام سے نوازا،اور مزید براں کولمبیا یونی ورسٹی نے ’’ بہترین  شاعری ‘‘ کے عنوان سے کشورکی شاعری پر ۱۹۸۲ میں بیدار بخت کو "The Best Poetry  Translation Award”  عطا کیا ۔وہ شاعری کے تخلیقی کرب کی اس کیفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ۱۹۹۷ئ

میں شائع ہونے والی اپنی آب بیتی ’ ’ بری عورت کی کتھا‘‘ میں ایک جگہ لکھتی ہے۔

’’ ہر نظم کی تخلیق میرے لیے بیک وقت سکون کا لمحہ اور عذاب کی دہلیز ہوتی تھی۔ مجھے نظم لکھتے ہوئے اتنے امتحان اور اذیت سے گزرنا پڑتا تھا کہ ہر لفظ میرے وجود کا خراج لے کرخود کو منکشف کرتا تھا۔ نظم لکھنے کے بعد جیسے نہائی ہوئی ،ترو تازہ ہلکی پھلکی، کئی راتوں کی نیند جیسے پوری ہو گئی۔ کئی دنوں کی بھوک جیسے مٹ گئی۔ ہر کتاب کو مرتب کرنا، بچے کی پیدائش جیسا مرحلہ لگتا رہا ہے‘‘ (۱)

کشور ناہید کی تحریروں میں نسائی جذبات و احساسات کی دلکشی کے متوازی سیا سی عمل اور سیاسی نقطہ نظر بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پروان چڑھا ہے۔ اس کا با عث یقینا وہ عہد ہے جس میں کشور نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزارے ہیں۔تقسیمِ ہندوستان،نہر سویز پر حملہ، ویت نام کی جنگ، چین کا ثقافتی انقلاب اور ان سب سے بڑھ کر سقوط مشرقی پاکستان اور … بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد کوڑے ،پھانسیاں،سزائیں ، پابندیاں اور ادیبوں کی تحریروں پر سنسر شپ ۔یہ ساری صورتِ حال کشور کے لہو میں زہر بن کر تیری ،جس کے خلاف کشور نے جا بجا اپنی صدا بلند کی ۔اس گھمبیر عصری صورتِ حال کے ا ثرات اس کی تحریروں میں جا بجا تلاشے جا سکتے ہیں۔ ادب کے نوبل انعام یافتہ فرانسیسی ادیب آندرے ژید نے ۲۹ مارچ ۱۹۰۰ کو’’ادب میں متاثر ہونے سے کیا مراد ہے‘‘ کے عنوان پر لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا کہ اثرات کا قبول کرنا ایک فطری عمل ہے ،جو دو مختلف سطحوں پراپنا کام کرتا ہے، پہلی عمومی اور اجتماعی سطح اور دوسری خصوصی اور ذاتی سطح۔ اول الذکر اثرات فرد میں عمومیت پیدا کرتے ہیں جب کہ ثانی الذکر فرد میں انفرادیت پیداکر تے ہیں ۔اگرآ ندرے ژید کی اس بات کا اطلاق کشور کی تحریروں پر کریں تو کشور ناہید ان دونوں اثرات سے اپنا دامن نہ بچا سکی اوراس کی تحریریں انفرادیت اور اجتماعیت، دونوں خصوصیات کی آئینہ دار ٹھہریں۔جس کی بدولت اس کی تحریروں میں عصری صورتِ حال اور ذاتی واردات دونوں وا ضح طور پر منکشف ہوتی دکھائی پڑتی ہیں۔ثبوت کے لیے نظم ’’ راہ گیر سے مکالمہ‘‘ کا اقتباس ملا حظہ ہو۔

جب تک تم فلسطین نہیں آؤ گے

بے زمینی کی اذیت کو

محسوس نہیں کر سکو گے

جب تک تم افغانستان نہیں آؤ گے

کلاشنکوف کی گولی میں چھپی

نفرت کو پہچان نہیں سکو گے

جب تک تم افریقہ نہیں آؤ گے

اپنے ہی وطن میں غلامی کی ذات کو

گرفت میں نہیں لا سکو گے

جب تک تم امریکہ نہیں آؤ گے

گلی گلی پھیلی فرعونیت کی

دبیز تہہ کو پہچان نہیں سکو گے

جب تک تم ہندوستان نہیں آؤ گے

گنگا کو میلی کرتی عصبیت کا

چہرہ نہیں دیکھ سکو گے

۔۔۔۔۔           (۲)

اس حوالے سے ان کی نظمیں’’چاغی کے چرواہے کی گفتگو‘‘،’’لاہور ۲۰۰۰‘‘،’’ریفرنڈم۲۰۰۰‘‘،’’نوحۂ قندھار‘‘،’’ فلسطینی جوانوں کے نام‘‘ ،’’اور بمباری ہو رہی ہے‘‘اور’’ سیلاب کے بعد کی دعا‘‘ وغیرہ کو بھی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ مزید براں ایسے موضوعات کاان کی کتاب ’’وحشت اور بارود میں لپٹی شاعری‘‘بھی احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔کشور ناہید کا سیاسی شعور اپنے عہد کی سفاکیوں کو بڑی آب و تاب سے پیش کرتا ہے ، اور ایک عورت جب’’ زبان بندی‘‘ کی کیفیت میں ہو تو  کس طرح اس کی سر گوشی دل دہلا دینے والی چیخ میں بدل جا تی ہے۔’’ملامتوں کے درمیاں ‘‘ میں وہ ایک جگہ اپنے احساسات کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے۔

بولنے والے ہمارے شہرمیں کتنے رہ گئے ہیں

ان کے سر کاٹ کر واقعی سجا لینے چاہیں

کہ پھر دیکھنے کو بھی ایسے لوگ نہیں ملیں گے

خدا کی قسم۔۔۔ میری آنکھوں کی جگہ آبلے بھی لے لیں

تو بھی میں گریہ کروں گی                        (تیسرے درجے والوں کی پہلی ضرورت، مشمولہ ملامتوں کے درمیان)

بھارت کی ریاست اتر پردیش کے بلند شہر میں سید مولوی گھرانے میں پیدا ہونے والی کشور ناہید نے مشکل حالات کے باوجود اپنی ذات کو وقت کی لہروں کے سپرد نہیں کیا۔بلکہ وقت کے تیز دھارے کے سامنے بند باندھ کر اسے اپنی خواہش کے موافق چلا یا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ نسائیت اور انسانیت کے دونوں محاذوں پر چو مکھی لڑائی لڑتی ہو ئی وسیع تر تہذیبی زندگی کی شیرازہ بندی اور ثروت مندی کے تقاضوں کی امین ٹھہری ہے۔کشور ناہید کا شمار گنتی کی ان شاعرات میں ہوتا ہے جن کی تفہیم و توضیح کے لیے ہمیں اس احساس سے آگے بھی سفر کرنا پڑتا ہے کہ یہ ایک عورت کی شاعری ہے ۔جب ہم اس کی شاعری کا اس طرح مطالعہ کرتے ہیں توکشور ناہید ایک نئی عورت کا روشن پیکر بن کر سامنے آتی ہے ۔اس ذہنی اور سماجی معاشرے میں جہان مرد کی بالا دستی عورت سے اس کا وجود چھین لیتی ہے، کشور کی شخصیت حرفِ انکار کی مانند ابھر کر سامنے آئی ہے۔اسے اپنی قوت کا واضح شعور ہے۔ وہ اس ظلمت اور فنا کی وادی میں جینے اور جیتے رہنے کا حق مانگتی ہے۔کشور ناہیدکی تخلیقات اس بات کی گواہ ہیں کہ اس نے ہمیشہ ایسی عورت کی تصویر کشی کی ہے جس کے اندر نفرت اور غصے کا لاوہ کھول رہا ہے۔یہ سارا غصہ مرد سماج کی بالا دستی کے خلاف ہے۔لیکن اس کی تخلیقات کا دائرہ نسوانی سر کشی تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ استحصال پر مبنی پورے معاشرے کو تبدیل کرنے کی حامی ہے ۔ ۱۹۸۹ میں تحریر کردہ مضمون ’’ کشور ناہید -ایک چیلنج‘‘ میں ڈاکٹر رشید امجد اس بات کی تائید ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ملاحظہ ہو۔ ( یہ بھی پڑھیں اُردونظم میں نامیاتی وحدت ایک مطالعہ – عمیر یاسر شاہی )

’’عورت اس کے ہاں استحصال زدگی کا ایک علامتی پیکر ہے جس کے ذریعے وہ بیک وقت مرد کی روایتی بالا دستی اور پورے طبقاتی نظام کی جڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے، اور یہ جو کسی نے کہا ہے کہ جدید سامراج اس وقت تک آرٹ اور لٹریچر کو کچھ نہیں کہتا جب تک وہ اس کی جڑوں   پر حملہ آور نہ ہو، اور چونکہ کشور کی شاعری براہِ راست ان جڑوں پر حملہ کرتی ہے اس لیے دائیں اور بائیں بازو کے وہ تمام دانشور جو طبقاتی  نظام کے خلاف بھی ہیں اور آزادیٔ نسواں کی باتیں بھی کرتے ہیں ، اس کے خلاف ہیں‘‘(۳)

کشور ناہید کے نسوانی عصری منظر نامے میں احتجاجِ زیر لب کا ہلکا سا زہر رچا ہوا ہے، لیکن بقول ڈاکٹر شاہین مفتی ’’کشور نے اپنی شا عری کی جوازیت’’ نا گفتنی‘‘ کی لا یعنیت میں تلاش کی ہے‘‘وہ شاعری اور زندگی کو مسلسل خود کشی کہتی ہے ۔اور اسی خود کشی کے لیے وہ معاشرے کی گناہ گاری کا علم لے کر زندگی کی کربلا میں ننگے پاؤں  چلنے کے تجربے سے گزری ہے۔اسی آدرش کی خاطرکشور ناہید نے مرد کے گھٹن زدہ معاشرے میں عورت کی ’’شعورِذات‘‘ کی صدا کو بڑی جرأت اور ہمت سے بلند کیا ہے۔وہ شعورِ ذات جو عورت نے مرحلہ وار سیاسی اور فکری جدو جہد کے بعد حا صل کیا۔ جسے ماہرین ’’نسوانی تحریک ‘‘ یا "Faminism” سے موسوم کرتے ہیں ۔ تا نیثیت پسندوں کے نزدیک عورت کو ہمیشہ پدری نظام اور مردانہ تصورات و اقدار کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔اوراگر کہیں عورت کو سمجھنے کی سعی بھی کی گئی تو وہ مرد کے نقطۂ نظر سے ۔ مرد نے عورت کو نسوانی وجود کا جو شعور دان کیا وہ مرد کے ساتھ اس کے رشتے کی غمازی کرتا ہے۔ اسی بات کی طرف اشارہ ’’میری این فرگساں‘‘(Mary Ann Furgusan) نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے ۔ اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں

          "Man has been defined by his relationship to the outside world… to nature,to society, indeed to God… Wheras women has been defined in relationship to man”           (۴)

مرد نے اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے عورت کو کبھی اپنے برابر جگہ نہیں دی۔ اگرچہ قدیم تہذیبوں میں ،جیسا کہ بابلی تہذیب میں عشتار، مصری تہذیب میں آئسس، ہندی تہذیب میں لکشمی کی شکل میں اسے دیوی کا درجہ ملا ہے لیکن یہ مرد کی تشکیل کردہ دنیا سے باہر ہیں ۔ اس بارے میں ناصر عباس نیّر لکھتے ہیں۔

’’…عورت کو چڑیل، ناگن،ڈائن،جادو گرنی،ٹونہائی عائنہ وغیرہ کہا گیا اور ان ناموں میں اس نفرت کو مجسم کیا گیا، جو مرد نے عورت کے لیے اپنے دل میں محسوس کی۔ انسانی پیمانے پر عورت کا درجہ مرد سے نیچے ہے یا اوپر۔ یعنی اسے مرد کی ہمسری سے محروم رکھا گیا ہے  عورت اس محرومی پر سراپا احتجاج اس لیے بنی کہ مردانگی کو زندگی کی ایک بڑی قدر قرار دیا گیا ہے‘‘  (۵)

مرد نے اسے اپنے زیرِ سایہ رکھ کر اس کی اخلاقی تربیت اپنے احساسات و جذبات کے تابع کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی مثال ہمارے ہاں ’’ بہشتی زیور‘‘ اور ’’ مراۃ العروس‘‘ سے دی جا سکتی ہے ۔ان کتب میں عورت کو اس انداز سے تربیت دی گئی کہ وہ ہمیشہ مرد اور پدری نظام کی وفادار بن کر رہے۔ ان تحریروں میں مرد نے خود عورت کی ذات کو اجاگر کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ تا ریخ میں پہلی مرتبہ جب ۱۷۹۲ میں ’’ میری ولسٹن کرافٹ‘‘(Mary Wollstone Craft)نے”A Vindication of The Rights of the Woman” کے عنوان سے کتاب تحریر کی تو اس وقت عورت کو احساس ہوا کہ اسے بھی مردوں کی طرح چیزوں کی ماہیت جاننے کاحق حاصل ہونا چاہیے۔ اس کتاب کے کچھ عرصے بعد’’ جان اسٹورٹ مِل’’ ( Jhon Stuart Mill) کی”The Subjugation of Woman”اور ’’ مارگریٹ فلر‘‘ (Margret Fullar) کی ـ” woman In 19th Century” نے ان خیالات کو مزید بڑھاوا دیا۔لیکن بیسویں صدی میں ہونے والی برق رفتار تبدیلیوں کی وجہ سے فکری اور عملی میدانوں میں بھی پیش رفت ہو ئی۔جس کے باعث مغرب میں عورت کو۱۹۲۰ئ میں ووٹ دینے کا حق حاصل ہو گیا۔لیکن اس سے قبل عورت کی جسمانی مشقت ، ذہنی غلامی، معاشی استبداداور مذہبی مناکحات عورت کی انفرادی اور اجتماعی سطح پر منظم تحریکوں کا باعث بنے۔ سال ۱۸۳۰ میں عورتوں کو منظم کرکے ان کے اجتماعات سے خطاب کرنے کے حوالے سے ساؤتھ کیرولینا کی دو بہنیں انجلینا گرمکے اور سارہ گرمکے قابلِ ذکر ہیں، اس کے تقریباً ایک عشرے بعدعورتوں کی غلامی کے خلاف کام کرنے والی لکریٹیایاٹ اور الزبتھ کیڈیسٹن کو بھی اسی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

اسی دور میں خواتین مصنفین نے بھی پدری نظام کی غیر مساویانہ روشوں کو نئے طریقے سے اجاگر کرنا شروع کر دیا۔اس سلسلے میں ’’ ریبیکا ویسٹ‘‘(Rebecca West)اور ’’ ورجینیا وولف‘‘(Virginia Wolf)کے نام خاصے اہم ہیں ۔ سال ۱۹۲۹ میں شائع ہونے والی کتاب "A Room of One’s Own”کو جے ۔اے کڈن نے ادبی اصطلاحات کی لغت میں تانیثت کی کلاسیکی دستاویز قرار دیا ہے۔’’ڈورتھی رچرڈ سن‘‘(Dorthy Richardson)کا ناول "Pilgrimage” اور’’ سیمون دی بوا‘‘ (Simone The Beauver)کی۱۹۴۹ میں چھپنے والی  "The Second sex”  نے تانیثیت کو نئی سمت سے روشناس کروایا۔ سیمون دی بوا نے اس کتاب میں عورت کی ثقافتی شناخت ،معاشرتی کرداراور عورت کی اس حقیقت و اصلیت کی بازیافت کی کامیاب سعی کی ہے جو مرد معاشرے میں گم ہو چکی ہے۔

اردو ادب میں اگر نظر دوڑائی جائے تو اس ’’ نسوانی تحریک‘‘  یا فیمانزم کے منظر نامے پر زہرہ نگاہ ،ادا جعفری اورزاہدہ حنا سے لے کر فہمیدہ ریاض اور کشور ناہیدتک کئی اہم نام موجود ہیں ۔ جنھوں نے انسانی مظلومیت، تاریخی جبر، جنسی دہشت، قانون ، لا قانونیت، جذباتی زناکاری اور عورت کے وجود کی کہانی کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔مغرب میں پروان چڑھنے والی آزادی ٔ نسواں کی تحریک کی اگر کہیں اردو میں مثال دی جا سکتی ہے تو وہ کشور ناہید کی شاعری ہے۔کشور ناہیدکے اس احساس کے محرک کا کھوج لگاتے ہوئے باقر مہدی لکھتے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں "بے گھری ، جلاوطنی اور جدید نظم ” – پروفیسر ناصر عباس نیّر )

’’ مگر لڑکیاں ہمارے ماحول میں کم سنی ہی سے اپنے ماحول کی جبریت سے واقف ہو جاتی ہیں، اسی لیے ان کی شاعری میں اس لڑکی کی تصویر ملتی ہے جسے بار ہا ’’ نصیبوں جلی ‘‘ کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ خود اس کا نشانہ بنی ہو گی ، مگر اس  کی تیر نظروں نے معاشرے میں عورت کی ازلی و ابدی مجبوریوں کو شروع ہی سے محسوس ضرور کیا تھا یہی نہیں انھیں شروع ہی سے   رشتوں کی ناپائیداری کا بھی تجربہ تھا۔‘‘  (۶)

اگر غور کریں تو کشور ناہید جس معاشرے کی فضا میں سانس لے رہی ہے اس معاشرے میں مرد نے ہمیشہ عورت کو دو اشکال میں پیش کیا گیا ہے اور یہ شکلیں ہیں چڑیلیں، بد روح مائیں، دیویاں، مسیحا صفت پیکر،انصاف دہندہ خواتین،یعنی سیاہ اور سفید دونوں رنگوں میں عورت کوپیش کیا گیا ہے۔ہندوستان کے پسماندہ معاشرے کو ترقی پسند تحریک اور جدید رحجانات، دقیا نوسی اور روایتی سوچ سے متزلزل نہیں کر سکے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں کوئی ایملی ڈکنسن، سلویا پلیتھ یا اس درجے کی اہم شاعرہ سامنے نہیں آسکی۔ہندوستانی سماج کی عورت جانِ غزل تو بن گئی مگر اسے غزل گو نہیں بننے دیا گیا۔ کشور ناہید نے اس ساری صورتِ حال کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا ہے بلکہ اس مرد کے گھٹن زدہ معاشرے میں اپنی ذات کو منوانے کے لیے سخت ریاض بھی کیا ہے، اس کا مطالعہ اور مشاہدہ اتنا وسیع اور عمیق ہے کہ وہ نئی سے نئی بات بھی بڑی خوش اسلوبی سے بیان کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔جس کا اظہار ان کی تخلیقی کتب میں بار ہا ہوتا ہے۔

اگر دیکھیں تومنفرد اور اہم شاعر بننے کے لیے صرف مداحوں کا حلقہ تخلیق کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اپنی ذات کو نئے خطرات سے دوچار کرنا بھی از حد ضروری ہو تا ہے اور کشور ناہیدنے اپنے اظہار کی وسعت کی بدولت ایسا کر دکھایا ہے ۔اس کے لہجے میں للکار ہے، عورت کی جسمانی مشقت کے خلاف ، ذہنی غلامی کے خلاف، معاشی استبداد کے خلاف۔ یہی وجہ ہے کہ کشور ناہید آج کے اس صنعتی عہد سے سخت نالاں ہے جس میں صنعتی گماشتوں نے محبت کو صنعت میں ڈھالنے کی کوشش میں نسوانیت کو خوب استعمال کیا ہے ۔اس صنعتی اور سرمایہ دار معاشرے میں تکنیکی ،عمرانی، ذہنی اور جذباتی منقولات کو مشتہر کر کے عورتوں کو اشتہار بازی کا لازمی جزو بنا دیا گیاہے اور دیکھتے ہی دیکھتے عورت کی نسوانیت اشتہاراتی میدان میں پیداوار کا درجہ اختیا رکر گئی ہے، کشور ناہید کی جوتے بیچتی، شیونگ بلیڈ بیچتی اشتہاری عورت منحرف ہو کر جسمانی اور نسوانی استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی نظر آتی ہے۔پاکستان میں ادا جعفری نے جہاں ازدواجی نظام کو مسلسل منافقانہ عمل قرار دیا ، زہرہ نگاہ نے سماجی رشتوں کی سرد مہری کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا، وہاں کشور ناہید استقلال ،جرأت اور مثبت انداز سے اس سلسلے کو آگے بڑھا رہی ہے۔

زنا سے لے کر آدھی گواہی تک

سب دشنام میرے نام

اور یہ انعام میرے نام

کہ میں شہر میں داخل ہونے والی

پہلی عورت ہوں

کہ جس کے سر پر تاج رکھا گیا ہے

میں آزاد ہوں کہ قید

زنا سے لے کر آدھی گواہی تک

میری چارج شیٹ بہت لمبی ہے         (۷)

کشور ناہید کی معاشرتی مزاحمت کی وجہ اس کی ماحول اور اپنی ذات سے با خبری اور غیر معمولی ذہانت ہے۔وہ ایک ایسی عورت ہے جو روایت اور جدت دونوں کی پر زور حامی ہے۔ روایت ہمارا صدیوں کا تخلیقی تجربہ ہے لیکن جب انسان کی سوچ زندہ حقیقت کی مانند قومی شخصیت کا تجربہ نہ بن سکے تو پھر وہ رسوم و قیود کا مردہ جسم بن کر رہ جا تی ہے، اسی کے خلاف کشور اپنی صدائے احتجاج بلند کرتی نظر آتی ہے جس وجہ سے اسے باغی اور آزاد منش عورت سمجھا جاتا ہے۔ کشور ناہید پر خالدہ حسین تبصرہ کرتے ہو ئے اپنے مضمون ’’ ملامتوں کے درمیان ۔۔۔ کیوں ؟‘‘میں لکھتی ہے۔

’’شاید بہت سوں کو کشور کی آواز ایک باغی، آزاد منش عورت کی آواز بن کر محظوظ کرتی ہو ۔ مگر کشور ناہید کبھی اپنے تجربات کے ساتھ غیر سنجیدہ   نہیں ہوئی۔ نہ ہی اس نے کبھی چونکانے کی خاطر لکھا ۔ اس کی شاعری میں conviction  ہے اور یہ کنوکشن ہماری زندگیوں میں بہت    کم یاب ہے‘‘   (۸)

کشور ناہید نے ’’ بری عورت کی کتھا میں ‘‘ ایک جگہ اپنے آپ کو با اثر اور توانا عورت کے طور پر متعارف کرواتے ہوئے اپنے لیے’’ ہنٹر والی‘‘  کی ترکیب کا استعمال کیا ہے۔یہ ہنٹر والی کا سمو پولیٹن نظریات اور بیورو کریٹک رویوں والے مرد حضرات کے لیے ایک مستقل خطرہ اور رکاوٹ بنتی رہی ہے۔ایسی سوچ کے حامل مرد خواتین سے خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے ،یہ کَہ کر خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ عورت کا دماغ مرد کی نسبت حجم میں کم ہوتا ہے اس لیے اس کی ذہنی صلا حیت بھی مرد کے مقابلے میں کم ہوگی ۔ ایسے مرد عورت کی نسوانیت کو’’فیما نزم‘‘ او ر’’ وویمن ہڈ‘‘ کے معانی میں محدود کر کے ایک انجانی خوشی کا لطف محسوس کرتے ہیں۔ یہیں سے عورت کو دوسرے درجے پر رکھنے کی چالاکیاں شروع ہوتی ہیں۔ تا کہ اسے باور کر وایا جا سکے کہ عورت کو جذباتی اور اخلاقی طور پر مرد کے سہارے کی اشد ضرورت ہے۔اور جب وہ ان سہاروں سے آزاد ہونے کی تگ و دوکرتی ہے تو مرد اسے شعوری طور پر خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر غور کریں تو ہمیشہ مذہب سماج کے طاقت ور ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا آیاہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مذہبی طبقہ حوا اور آدم کی کہانی کی شرمندگی کا سارا بارعورت پر ڈالتا چلا آیا ہے۔ لیکن کشور ناہید نے خود کو نہ صرف اس شرمندگی سے آزاد ی دلائی ہے بلکہ مرد کے بے معنی سہاروں سے بھی خود کو آزاد کیا ہے۔بقول کشور ’’ میں بڑی ڈرپوک عورت ہوں ، صرف اپنے اعتماد کے سائے میں چل سکتی ہوں‘‘یہی وجہ ہے کہ کشور ،سلویا پلاتھ، سیمون دی بوا اور بیٹی فرائیڈن کی طرح اپنے فیصلوں کا بار خود اٹھا نے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ کشور ناہید نے اس نے معاشرے میں ہمیشہ دو محاذوں پر جنگ کی ہے، ایک بحیثیت عورت کے مرد کی بر تری سے اور دوسرا معاشرے کے استحصالی طبقے سے۔ وہ در حقیقت یہ احساس دلانا چاہتی ہے کہ معاشرہ اُس وقت استحصال سے پاک ہو گا جب عورت کو اس کا درست مقام میسر آئے گا۔ جس طرح پدرانہ نظام نے عورت کی شخصیت کچل کر ، اسے ذلیل و خوار کر کے ،معاشرے میں انتہائی پست مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور ساتھ ہی مذہب میں عورت کوگناہ کی علامت اور کم تر درجے کی مخلوق بنا کر پیش کیا گیا ہے ، کشور ناہید  نے ہمیشہ اس پر سخت احتجاج کیا ہے ۔ اس حوالے سے کشور ناہید کی نظم’’ ہم گناہ گار عورتیں ‘‘ مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔

ہم گناہ گار عورتیں ہیں

کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں جو لوگ

وہ سر فراز ٹھہریں

وہ داورِ اہلِ ساز ٹھہریں

نیابتِ امتیاز ٹھہریں

یہ ہم گناہ گار عورتیں ہیں

کہ سچ کا پرچم اٹھا کے نکلیں

تو جھوٹ سے شاہراہیں اٹی ملیں ہیں

ہر ایک دہلیز پہ سزاؤں کی داستانیں رکھی ملیں ہیں

جو بول سکتی تھیں ،وہ زبانیں کٹی ملی ہیں           (ہم گناہ گار عورتیں )

اسی طرح کے خیالا ت کو اس کی نظموں ’’سانپ کینچلی‘‘، ’’ساحل سے آگے صحرا‘‘ ، ’’ خواب پہ جاگنے کا الزام‘‘ ،ایک نظم آؤٹ آف فوکس‘‘ اور ’’خوابوں کی البم‘‘ میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔آ ج جب عورت کی آواز کو غور سے سنا جا رہا ہے تو مرد اسے مذہبی ، سیاسی ، سماجی اور معاشی ہتھ کنڈوں سے روکنے کی کوشش میں مگن ہے۔اور اسے چار دیواری کے حصار میں قید رکھ کر اس پر من مانی کرنا چاہتا ہے۔ مرد کے اس رویے پر کشور کچھ اس طرح نوحہ کناں ہے۔

یہ ہم گناہ گار عورتیں ہیں

جو اہلِ حبّہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں

نہ جان بیچیں

نہ سر جھکائیں

نہ ہاتھ جوڑیں      (ہم گناہ گار عورتیں )

کشور ناہید اپنے کندھووں پر اپنے ہم نفسوں کا بوجھ اٹھائے عہدِ حاضر کی عورتوں کا نیا عہد نامہ تخلیق کر رہی ہے جو آنے والے عہد میں یادگا ررہے گا ۔ کیوں کہ وہ نہیں چاہتی کہ عورت جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ معاشرے میں اگر بیوی بن کر اپنی ذات کا اثبات نہیں کر پاتی تو وہ محلات کی لونڈی یابازارِ حسن کی زینت بن کر زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہو ۔ اسی لیے اس نے خود کو ریشم کے کیڑے کی طرح اپنی نرگسیت کے خول میں قید نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی نظموں سے اپنی ذات کی کچھ اس انداز سے توسیع کی ،کہ وہ بقول ڈاکٹر سلیم ا خترعام عورت کی فرسٹریشن ، نا آسودگی اور پیاس کی علامت بن گئی ۔ کشور ناہید نے اپنی شاعری کو آ ج کی آزادی طلب عورت، اپنے وجود کا اثبات چاہنے والی عورت،  اپنی شخصیت کا اظہار چاہنے والی عورت اور اپنی نسوانیت سے نہ شرمانے والی عورت کا منشور بھی بنا دیا ہے۔ سیمون دی بوا نے فلسفیانہ سطح پرجس مسئلے کو اپنی کتاب ’’ Second Sex‘‘میں موضوعِ بحت بنایا ہے کشور ناہید تخلیقی سطح پر اس سے نبرد آزما ہے۔کشور ان دیواروں کی سخت دشمن ہے جن میں باہر کی طرف کوئی کھڑکی نہیں کھلتی، اور اس کا یہ رویہ اسے مشرقی عورت کی روایتی صف سے الگ تھلگ کر دیتا ہے لیکن اسے اس بات کی ذرہ بھر پرواہ نہیں،وہ سینہ سپر رہنے اور زندگی کو مجاہدانہ بسر کرنے کی خوگر ہے۔ کشو ر کا یہ مزاحمتی رویہ محض جذباتی کیفیت کا حامل نہیں بلکہ تجزیاتی عمل سے گزر کر سچائی تک پہنچنے کی جستجو سے عبارت ہے، جس میں بولنا اور دوسروں کو بولنے پر اکسانااس لیے اہم ہے کی احتجاج کرنا زندگی کی علامت بن جاتا ہے.

بولنا ہماری ضرورت ہے

چاہے زمین میں منہ دے کر ہی کیوں نہ بولنا پڑے

میری بے گہنی زمیں میں منہ دے کر

اپنی صفائی پیش کر رہی ہے

کہ زندگی کے سارے راستوں پر

قاضیٔ شہر کے فیصلے کے مطابق

خوف بچھا یا جا چکا ہے                  (تیسرے درجے والوں کہ پہلی ضرورت ،مشمولہ ملامتوں کے درمیان)

وہ جبر و تشدد کی اس فضا میں اپنی نظم ’’ اعتراف‘‘ میں کچھ اس انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی نظر آتی ہے۔

سہمی ہوئی دبکی چڑیو

یہ تم ان سہمے لرزتے ہاتھوں سے کیوں خوف زدہ ہو

تم تو پھر بھی انجانے میں جال میں پھنس کر

آزادی کی لذت سے محروم ہوئی ہو

ہم تو خود ہی اپنی زبانیں کاٹ کر

سرخ روئی کے احراموں میں لپٹے

سجدہ گزار ہیں ، محو ثنا ہیں      (اعترف۔۔ گلیاں ،دھوپ ،دروازے)

کشور نا ہید نے مرد معاشرے میں عورت کے حقوق کے لیے جس طرح جنگ کی ہے ہمارے ہاں اُسے عورت کا ضرورت سے زیادہ خود مختار اور فحش ہونا سمجھا جاتا ہے۔حالاں کہ اس کا مقصد انتخاب ،تو ل پر کھ اور عملی توجیہات کے سب مواقعوں پر مردو زن کو ایک ہی سطح پر رکھنا مقصود ہے، جو شائد مرد کو قابلِ قبول نہیں۔ کشور ناہید کا یہ مؤقف ہے کہ مرد کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ عورت کی نفسیاتی اورجسمانی موجودگی کو سرے سے کسی درجہ بندی کے قابل ہی نہ سمجھے ۔اس نسوانی مظلومیت کو کشور ناہید نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا ہے اور اپنی لکھتوں کے وسیلے سے ان لوگوں کی اخلاق کی نقاب کشائی کی جو مخصوص مفادات کے تحت مخصوص فضا اور مخصوص قانون وضع کر لیتے ہیں ۔ وہ نظام جہاں محکومی، غربت،مردانہ تشدد،طوائفیت، بچوں کی تعداد،اسقاطِ حمل ،محبت کے یک زوجی نظام کی زنانہ جبریت،عصمت و عفت کی تفتیش اور جنسی کج رویاں عورت کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔اس نظام کو ختم کر کے مساوات پر مبنی معاشرہ جہاں مرد و زن ایک ہی سطح پر موجود ہو ں ، کے قیام کی کوشش کرنا ، کشورناہید کا آدرش ہے اور اس کے لیے اس نے تمام عمر کو شش کی ہے۔ اس سلسلے میں عورتوں کی مستقبل آفرینی کے ضمن میں بین الاقوامی سطح پر منعقد کی گئی کانفرنسوں میں کشور نے بار ہا کی ۔ کشور نے سماج سدھار اور خاتون سدھار کالم لکھنے کا شوق بھی پال رکھا ہے اور وہ یہ کام تسلسل سے کیے جا رہی ہے۔اس نے عورت کے مظالم پر لکھا، اس نے لیلیٰ خالد کی زندگی پر قلم اٹھا یا، اس نے ’’عورت زبانِ خلق سے زبانِ حال تک‘‘ جیسی کتاب کے موضوعات کے تراجم جمع کر کے جدید نسوانی بوطیقا تشکیل دینے کی کوشش کی۔  تاکہ عورت کے حقوق کے حصول کے لیے مضبوط صورتِ حال پیدا کی جاسکے کیوں کہ سیمون دی بوا کی طرح کشور ناہید بھی یہ سمجھتی ہے کہ سماجی انصاف کے خواب کو پورا کرنے کے لیے عورت کی مضبوط صورتِ حال نہایت ضروری ہے۔ اور اس سلسلے میں کشور ناہید نے سخت جنگ کی ہے جس پرمعروف کالم نگار اور افسانہ نگار انتظار حسین نے کشور ناہید کو ’’ جھانسی کی رانی‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔

 

حوالہ جات

۱۔کشور ناہید،بری عورت کی کتھا،سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۳ئ، ص۹۶

۲۔کشور ناہید، سوختہ سامانیٔ دِ ل، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۲ئ ص۴۹

۳۔رشید امجد ،کشور ناہید۔ایک چیلنج، مشمولہ نئے زمانے کی برہن از مرتب اصغر ندیم سید ۔افضال احمد،سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۰ئ، ص۲۰۶

۴۔Mary Ann Fergusan, Images of women in litrature, boston,Mifflin Company,1981,p5

۵۔ ناصر عباس نیّر، جدید اور مابعد جدید تنقید،انجمنِ ترقی ٔاردو پاکستان ، کراچی،دسمبر ۲۰۰۴ئ،ص۲۷۴

۶۔باقر مہدی، نسائی بوطیقا، مشمولہ ، نئے زمانے کی برہن، محولہ بالا، ص۵۷

۷۔ کشور ناہید ،چارج شیٹ۱۹۹۰ئ، خیالی شخص سے مقابلہ، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۲ئ ص ۱۱۲

۸۔خالدہ حسین ،’’ ملامتوں کے درمیان ۔۔۔ کیوں؟‘‘ مشمولہ نئے زمانے کی برہن، محولہ بالا، ص۱۱۱

 

 عبد العزیز ملک،

لیکچرار شعبہ اردو،

جی سی یونی ورسٹی

فیصل آباد(03447575487)

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

 

Home Page

عبد العزیز ملککشور ناہید
1 comment
1
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
اب’’ ان‘‘ کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں: احمد جمال پاشا -. پروفیسر عبدُ البرکات
اگلی پوسٹ
سال نو: جشن بہاراں بھی اور محاسبہ نفس بھی – ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

یہ بھی پڑھیں

آزادی کے بعدکی نظمیہ شاعری کا اسلوب –...

نومبر 19, 2024

جدید نظم : حالی سے میراجی تک (مقدمہ)...

ستمبر 29, 2024

الطاف حسین حالؔی کی "مولود شریف "پر ایک...

اگست 27, 2024

نظم کیا ہے؟ – شمس الرحمن فاروقی

جولائی 23, 2024

ساحر کی نظمیں: سماجی اور تہذیبی تناظر –...

جولائی 9, 2024

فیض کا جمالیاتی احساس اور معنیاتی نظام –...

جون 2, 2024

طویل نظم سن ساٹھ کے بعد – پروفیسر...

جون 2, 2024

نظم ’’ابو لہب کی شادی ‘‘ایک تجزیاتی مطالعہ...

فروری 11, 2024

ساحر لدھیانوی کی منتخب نظموں میں امن کا...

جنوری 28, 2024

اخترالایمان کی نظموں میں رومانی عناصر – نہاں

اکتوبر 30, 2023

1 comment

اسد عباس جنوری 15, 2022 - 2:02 شام

انشاءاللہ کمال سر جی

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (593)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (201)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,041)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (534)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (204)
      • مثنوی کی تفہیم (8)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (402)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (214)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (474)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,130)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (33)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (896)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں