غورکیجئے تو لفظ ”زائد” اپنے آپ میں ہی زائد ہے۔دراصل جب ہم کسی چیز میںماقبل یا ما بعد لفظ ’’زائد‘‘ لگا دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اس میں کچھ فاضل چیزیں ہیں، جو غیر ضروری ہیں۔ یعنی ان میں خوبی سے کہیں زیادہ خامی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ یہاں پر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ فاضل سے ’فضول‘ کا سفر زیادہ طویل نہیں ہے۔مجھے خوب یاد ہے بچپن میں ہمارے آم کے باغ ہوا کرتے تھے۔انہیں باغوں میں ایک باغ تھا جو ہمارے گائوں کے داخلے پر پڑتا تھا۔اس باغ میں ایک پیڑہوا کرتاتھا، جسے ہم لوگ علاقائی زبان میں ’’ مِٹَھوّواآم ‘‘کہتے تھے۔اس پیڑ کا معاملہ یہ تھا کہ وقت رہتے اگر اس کا پھل نہ اتارلیا جائے تومٹھاس کی شدت سے اس میں کیڑے پڑجاتے تھے۔ پک جانے کی صورت میں جب وہ آم نیچے گِرتا تھا تووہ پھٹ جاتا تھا اور اس کے اندر سے کیڑے بلبلاتے ہوئے نکل رہے ہوتے تھے۔ اس وقت ہم بچے اتنے میٹھے اور خوبصورت آم کی اس کیفیت پر کافی رنجیدہ ہوجایا کرتے تھے۔حالاں آموں کا میٹھا ہونا عام طور سے اچھا مانا جاتا ہے، لیکن یہاں پوشیدہ نقطہ یہ ہے کہ یہی مٹھاس جب زائد ہوگئی تو اپنی ضرورت کھو بیٹھی۔
ہم جانتے ہیںکہ دوائیاں عام طور سے امراض کی روک تھام کے لیے مناسب مقدار میں تجویزکی جاتی ہیں،نیز دوائیوں کے پتوں یا شیشیوں پر بھی اصولاً لکھ دیاجاتا ہے کہ اپنے ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق استعمال کریں۔لیکن مان لیجئے یہی دوائیاں مقدارسے قدرے زیادہ لے لی جائیں یا مرض نہ ہو اور استعمال کرلی جائیں ،توکیا ہوگا…………؟ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مرض خطرناک صورت اختیار کرجائے گا۔خدشہ یہ بھی ہے کہ زائد کے عمل سے (جو دراصل ردِ عمل ہے) مریض کا دم بھی نکل جائے۔ اسی طرح دیکھنا یہ بھی ہے کہ دوائیاں مقدار سے کم بھی نہ ہونے پائیں، ورنہ مریض کی صحت میں افاقہ نہیں ہوگا۔ یہاں بھی خدشہ لاحق ہے کہ مرض دھیرے دھیرے ناسور کی صورت نہ اختیار کرجائے۔ اسی لیے بے حد ضروری ہے کہ چیزیںنہ زائد ہو نہ ناقص،بل کہ معاملہ درمیان میں رہے۔درمیانی صورت کو اسی لیے بڑے بوڑھوں کے نزدیک بہتر خیال کیا جاتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں اردو لغت اورتلفظ – امیر حمزہ )
تحریرہو،تقریرہویا دنیا کا کوئی بھی معاملہ،کم و بیش ہرجگہ یہی رویہ کار فرماں ہے۔ جب ہم لفظی کفایت شعاری کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد دو تین باتیں ہوتی ہیں، جسے ہمیں سمجھ لینا چاہیے۔ جیسے کوئی عبارت لکھتے ہیںتو دیکھ لینا چاہئے کہ اس میں زائد الفاظ تو نہیں آگئے ہیں۔ یعنی جملے میں ایک ہی لفظ باربارتونہیںآرہا ہے،جس سے مفہوم کی ادائیگی،اس کی روانی یا اس کے حسن پراثرپڑرہا ہو۔اس طرح کے مسائل عموماً بڑے بڑے یعنی مرکب جملوں میں درآتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے جملے ان غلطیوں سے عموماً محفوظ رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بزرگوار چھوٹے چھوٹے جملے لکھنے پر زور دیتے ہیں۔
یہاں ایک ایسی عبارت بطور مثال پیش کی جا رہی ہے، جسے’’ رشید حسن خاں ‘‘نے اپنی کتاب میں پیش کیا ہے۔ مثال دیکھئے:
’’میں نے کہا ضرور تھا کہ میں تمہارے ساتھ چلوں گا، لیکن میں کیا کرتا،مجھے فرصت ہی نہیں ملی‘‘۔
مذکورہ بالا جملے کو اب اس طرح لکھیں:
’’میں نے کہا ضرور تھا کہ تمہارے ساتھ چلوں گا، لیکن کیا کرتا، فرصت ہی نہیں ملی‘‘۔
مذکورہ بالا عبارتوں پر غور کیجئے توآپ ہی اندازہ ہو جائے گا کہ جملہ اول میں دو جگہ لفظ ”میں” کی تکرار ہے اور ایک جگہ لفظ ”مجھے” زائد ہے۔جبکہ دوسرا جملہ ان زائد لفظوں کے بغیر لکھا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ان لفظوں کو نکال دینے سے اصل مفہوم میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی، اور بیان کے اعتبار سے جملے میں روانی بھی آگئی۔اب آپ دوسرے جملے کی روانی کے ساتھ عبارت خوانی کیجئے اور زبان و بیان کی روانی اور ثلاثت کا لطف اٹھائیے۔
دوم دیکھنا یہ بھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ کفایت شعاری سے جملے یا عبارت میں کسی طرح کی تنگی تونہیں درآئی ہے، جس سے مفہوم ہی واضح نہ ہوپارہا ہو۔ یعنی کفایت شعاری میں بھی زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ ورنہ کفایت شعاری’’ بخیلی ‘‘کے درجے میں کب داخل ہو جائے گی کانوں کان خبر بھی نہیں ہوگی۔اس لیے کفایت شعاری اور بخیلی میں جو بنیادی فرق ہے وہ ہمارے ذہنوں میں رہنا چاہیے۔زائد، کفایت شعاری اور بخیلی کے سلسلے میں ’’مولانا الطاف حسین حالی ‘‘کا درج ذیل مصرعہ ذہن میں رہے تو کیا ہی بہتر ہو۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
عام طور سے جملوں یا عبارتوں میں زوائدکا ہی مسئلہ درپیش ہوتا ہے جب کہ اس کے برعکس معاملہ کم دیکھنے میں آتا ہے۔ رشید حسن خاں نے زیرِ مطالعہ کتاب میں لکھا ہے:
’’اچھی عبارت وہ ہے جس میں لفظی کفایت شعاری سے کام لیا گیا ہو۔زائد لفظ نہ ہوں،غیر ضروری لفظوں کی تکرار نہ ہو‘‘۔۱
رشید حسن خاں نے اپنی کتاب میں معروف شاعر اور ادیب پنڈت ہری چند اختر(190-1958) کا واقعہ ذکر کیا ہے۔ انھوں نے ایک دفعہ کسی نئے لکھنے والے سے کہا تھا:
’’یہ تو بہتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا لکھنا ہے، لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کیا نہیں لکھنا ہے‘‘۔۲
اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ
’’کیا نہیں لکھنا ہے‘‘کا جاننا نسبتاً ’’کیا لکھنا ہے‘‘ سے زیادہ ضروری ہے۔بزرگوںسے صحت مند اختلاف کرنے سے ان کی بے ادبی نہیں ہوتی ہے بل کہ اس سے ان کو اپنی نسلوں کے باشعور ہونے کی خوشی ملتی ہے۔اس لیے میرا خیال ہے کہ اگر ہم اچھی طرح سے یہ بات جان لیں کہ ’’کیا لکھنا ہے‘‘ تو بھی اچھی سے اچھی عبارت لکھی جا سکتی ہے۔اس صورت میں بھی لفظوں کے تصرفات سے بچا جاسکتا ہے اورتحریر میں ہر قسم کا حسن بھی پیدا کیا جاسکتا ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم یہ جان لیں گے کہ’’ کیا لکھنا ہے‘‘تو آپ ہی ’’کیا نہیں لکھنا ہے‘‘ کے عیب سے محفوظ ہو جائیں گے۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ مفرداورمختصرجملوں میں عبارت لکھنا چاہیے۔ اس پر زور بھی دیا جاتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ مرکب جملوں میں بات رکھنا کوئی عیب ہے۔ مفرد اور مرکب عبارت لکھنے کے دو طریقے ہیں اور دونوں اپنی جگہ مناسب ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ کسی ایک ہی طریقے پر عمل کیا جائے اور اس کی پرزوروکالت بھی کی جائے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ابتدا میں انسان لکھنا تو دور پڑھنا بھی نہیں جانتا تھا۔ ہم یہ بات خوب جانتے ہیں کہ لکھنے کا عمل پڑھنے کے بعد کا ہے۔ لکھنے کے لیے جو مواد چاہیے وہ پڑھ کر یا غوروفکر کرکے ہی حاصل کیا جاسکتاہے۔ چوں کہ اس وقت لکھنے کی مشق کم ہوتی ہے اور معلومات بھی محدود ہوتی ہے۔چنانچہ ایسی صورت میں مختصر اورمفرد جملے لکھنے پر زوردیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں ایسا کرنا قطعی برا بھی نہیں ہے۔ اس عمل کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ لکھنے کی مشق ہوجائے تاکہ جو کچھ لکھا جائے اس کودرست لکھا جاسکے۔ سلیس انداز میں ہوش مند ی اورپوری ذمہ داری کے ساتھ لکھا جائے۔ واضح کرتاچلوں کی حروف انتہائی حسّاس ہو تے ہیں۔یہ آئینے سے بھی نازک ،مانند آبگینے ہوتے ہیں ۔اس ضمن میں ہمیں بڑا خیال رکھنا چاہئے۔ہم جو کچھ بھی لکھتے ہیں خود اس کے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں۔ان احساسات کے ساتھ لکھا جائے تو غلطیوں کے امکانات کسی قدرکم ہو جائیں گے۔
مرکب یا بڑے جملے بھی سلیس انداز میں لکھے جاسکتے ہیں۔ مفہوم کی ادائیگی کی صورت میں طویل جملے کی ضرورت اگرچہ ناگزیرخیال کی جاتی ہے لیکن اصول و ضوابط کو مدِ نظر رکھتے ہوئے طویل جملے لکھے جاتے ہیں توکیا ضرورت ہے کسی کو شیطان کی آنت کہنے کی۔
’’اگر،مگر،لیکن،چوں کہ،اگرچہ کہ‘‘ جیسے لفظ اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں نیزمرکب جملوں میں ان کی ضرورت بھی پڑتی ہے،لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے بغیربھی جملہ مکمل ہوسکتاہے۔چٹکی بھر غورکریں تو یہ عقدہ کھل جائے گاکہ عام طور سے یہی مذکورہ الفاظ جملوں میں زائد کی شکل بھی اختیار کرجاتے ہیں۔ ذیل میں کچھ مثالیںمذکورہ کتاب سے پیش کی جاتی ہیں:
’’وہ سوچ رہا تھا کہ اگراس دفعہ بھی فیل ہوگیا تو بڑی رسوائی ہوگی‘‘۔
اب اسی جملے کو لفظ ”اگر” کے بغیرپڑھیں:
”وہ سوچ رہا تھا کہ اس دفعہ بھی فیل ہوگیا تو بڑی رسوائی ہوگی”۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بعض جگہوں پر ”اگر” بیان میں زور پیدا کرنے کے لیے آتا ہے، لیکن یہ وہ مقام نہیں ہے۔
اسی طرح ” مانا کہ، گویاکہ” جیسے لفظوں میں ”کہ” زائد ہے۔اس کے بغیربھی مرکب عبارتیں لکھی جاسکتی ہیں۔مثال ملاحظہ فرمائیے:
’’یہ مانا کہ آپ وہاں نہیں جائیں گے/ یہ مانا آپ وہاں نہیں جائیں گے‘‘۔
’’گویا کہ آپ یہ بات تسلیم کر رہے ہیں/ گویا آپ یہ بات تسلیم کررہے ہیں‘‘۔
مذکورہ بالاجملوں سے یہ بات عیاں ہوئی کہ یہاں لفظ”کہ” زائد ہے۔لفظ ”کہ” کو حذف کرنے سے قواعد میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی نیزحسنِ بیان میں بھی اضافہ ہوگیا۔
لفظ ”صرف” اور ”ہی” دراصل ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں۔ ان کے استعمال میں ہماری چٹکی بھراحتیاط جملوں کو زوائد سے بچا سکتی ہے۔ مثال ملاحظہ کیجئے:
”صرف میں ہی اس کام کو انجام دے سکتی ہوں”۔
غور کرنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مذکورہ بالا جملے میں ”صرف اور ہی” میں ایک لفظ زائد ہے۔ دونوں ایک ساتھ نہیں آئیں گے۔ اب ہم اسی جملے کو اس طرح لکھ کر دیکھتے ہیں:
”میں ہی اس کام کو انجام دے سکتی ہوں/ صرف میں اس کام کو انجام دے سکتی ہوں”۔
”صرف” اور ”ہی” دونوں لفظوں کے ساتھ جملے کی قرأت کیجیے اور دونوں میں کسی ایک کو حذف کرکے قرأت کیجیے، فرق آپ ہی واضح ہو جائے گا۔ رشید حسن خاں لکھتے ہیں:
”صرف اور ہی کو ایک ساتھ نہ لائیے۔ یا تو ”صرف” لکھیے یا ”ہی” لکھیے۔ اکثر صورتوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ”ہی” بہتر معلوم ہوتا ہے۔۳
اسی طرح لفظ ”فقط” اور ”ہی” میں کوئی ایک ہی لفظ لکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ کچھ لفظ ایسے بھی ہیں جن کو ملادینے سے لفظی تصرفات سے بچا جاسکتا ہے نیز جملوں میں روانی اور حسن بھی پیدا ہو جائے گا۔ ذیل میں مثال پیش کی جاتی ہے:
”ان ہی،،یہ ہی، وہ ہی،سب ہی،تم ہی،جب بھی،اب بھی،تب بھی۔
”انھی،یہی،وہی،سبھی،تمہی،جبھی،ابھی،تبھی”۔
ایک لفظ ہے ”میں”۔ کا/کی/کے،سے اور پر کی طرح اس کی بھی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔عبارت میں بیشترجگہوں پراس کا استعمال ہوتا ہے۔لیکن ہم غورکریں تومعلوم ہوگا کہ کئی جگہوں پر ہم اس کا غیرضروری استعمال کرجاتے ہیں۔اس بات کو ہم مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال دیکھیے:
”ہم ان کے ساتھ میں بازارگئے تھے۔
کیاتم ان کے ساتھ میں تھے؟
وہ سب کے بعد میں گئے تھے۔
انہی دنوں میں وہ گھر گئے تھے”۔
مذکورہ جملوں کو اب ہم لفظ ”میں” کے بغیر لکھتے ہیں:
”ہم ان کے ساتھ بازار گئے تھے۔
کیا تم ان کے ساتھ تھے؟۔
وہ سب کے بعد گئے۔
انہیں دنوں وہ گھر گئے تھے”۔
دھیان سے دیکھیں تو آپ ہی واضح ہو جائے گا کہ ان جملوں میں لفظ ”میں” زائد ہے۔ اسے حذف کر دینے سے قواعد کے اعتبار سے کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی اور جملے میں بھی روانی پیدا ہوگئی۔
اس ضمن میں رشید حسن خاں لکھتے ہیں:
”ذرا سی توجہ سے کام لیا جائے تو ذہن خود بتادے گا کہ جملے میں لفظ ”میں” کہاں زائد ہے”۔۴
ایک جملہ اکثر سننے میں آتا ہے”آگے بڑھو”۔ اس پر دھیان دیں تو یہ بات آپ ہی سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہاں لفظ ”آگے” زائد ہے۔ کیوں کہ لفظ ”بڑھنا” میں آگے کا واضح تصور پوری طرح موجود ہے۔ (یہ بھی پڑھیں سوشل میڈیا پراردوتلفظ اور لفظیات کی حالتِ زار عوامل اورتدارک- نایاب حسن )
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |