بھوک کی جبلت نے ان دونوں کو ایک کروڑ بیس لاکھ کی گنجان آبادی والے بڑے شہر میں ایک چھت کے نیچے ایک ہی کمرے کے اندر بلکہ ایک ہی بستر پر سونے کے لیے مجبور کردیا تھا۔کہتے ہیں کہ بھوک چاہے ناف کے اوپر کی ہویا ناف کے نیچے کی ۔۔۔۔۔بھوک تو بھوک ہوتی ہے، جب لگتی ہے تو آدمی باغی ہوجاتا ہے۔تہذیب وثقافت کا سوال تو بہت بعد میںآتاہے۔آگ چاہے پیٹ کی ہو یا جسم کی سب سے پہلے اسے بجھانا ضروری ہوجاتا ہے۔
جہاں انسانوں کی اتنی بڑی آبادی بستی ہو ، وہاں کون کسی کی پرواہ کرتا ہے۔ویسے بھی لوک لاج کے لیے اپنے سماج کا ہونا ضروری ہے۔
لیکن جہاں انسانی آبادی کی ہر سو بھیڑہو، جہاں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ باگ ترکِ وطن کرکے تلاشِ معاش میں بڑے شہروںمیں ہجرت کرکے آتے ہوں اور آکر یہیں بس جاتے ہوں۔جہاں کامگاروں کا ہر دم ریلا چل رہا ہوتاہو، جہاں بے روزگاروںکا ایک اژدہام سا لگارہتا ہو اور جہاں بازار واد کسی دیو ہیکل اژدہے کی طرح اپنا جبڑا پھاڑے کھڑا ہو، وہاں موجود لوگوںکے جم غفیر میں بھلا ٹھہر کر سوچنے کے لیے کس کے پاس اتنا دماغ ہوتاہے۔کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔بھیڑ کے صرف پائوں ہوتے ہیں، آنکھیں اور دماغ نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کے پاس سننے والے کان ہو تے ہیں۔
ایسے ماحول میں موٹے بھدّے پائوں والے سیاہ فام شمبھو ناتھ سنگھ اور نازک اندام پدمجاجو سیف جو کہ کیرل کے ایک کیتھولک کرسچن فیملی سے تعلق رکھتی تھی، ان کا ایک چھت کے نیچے ایک ہی کمرے میںایک ہی بستر پر سونا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں تھی۔
صارف سماج میں جہاں ہر چیز بکائو ہوتی ہے، جہاں ہر سامان کا مول بھائو ہوتا ہو، وہاں اگر ایک نوعمر کھنڈرے مرد کو کسی بھرپور عورت کے ساتھ گزر بسرکرنا پڑے تو بھلا اس میں کسی کو کیا حرج ہوسکتا ہے۔؟
کہتے ہیں، ضرورت ایجادکی ماں ہوتی ہے۔
پدمجاکو بھی دنیا بھر کے مردوں کی اوچھی نظروںسے خود کو بچانے کے لیے فوری طورپر ایک بوائے فرینڈ کی ضرورت تھی، جس کی مضبوط بانہوں اور چوڑے چکلے سینے کو وہ بوقت ِ ضرورت اپنے تحفظ کے لیے ڈھال کے طورپر استعمال کرسکے۔دوسری طرف گائوں سے آئے ہوئے اکھڑ نوجوان شمبھو کو بھی ایک ایسی گرل فرینڈ درکار تھی جسے دیکھ کر دوست یار اس کی قسمت پر رشک کرنے لگیں،البتہ یہ بات اپنی جگہ مسلم تھی کہ پدمجا عمرمیں اس سے پانچ چھ سال بڑی تھی لیکن جیسے کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ لڑکیوں کی عمر پچیس سال کے بعد اوپر کو تجاوزکرنا بند کردیتی ہے۔ پدمجا بھی ، دیکھنے میںشمبھو کے لیے حصہ بقدر جسّہ ہی معلوم ہوتی تھی ۔لہٰذا، وہ اپنی قسمت پر نازاں تھی کہ شمبھوجیسا چھ فٹہ گبرو جوان اسے اپنے نصیب سے مل گیا تھا۔اوّل اوّل شمبھو کا حال یہ تھا کہ بستر پر ننگے پائوں ایسے دھسڑ کے چڑھتا کہ بس معلوم ہوتا جیسے پل بھر میں نئی چادر کو مسل کررکھ دے گا مگر پدمجا خوش تھی کہ وحشی گھوڑے بھی انسانی محبت کے آگے اپنا سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔اس نے شمبھو کو سدھارنے کا کام روزِاول سے ہی شروع کردیاتھا،حتیٰ کہ جب کبھی وہ اپنی پیسنے سے تر بنیان اور جرابیں کرسی کے بیک ریسٹ پر بے خیالی میں رکھ دیتا تو پدمجا اس کی سرزنش شروع کردیتی تھی۔دھیرے دھیرے وہ اپنی جرابیں ہر روز دھونے لگا تھا۔ جس روز اس کی جرابیں نہیں دھلتی پدمجا کمرے میں داخل ہونے نہیں دیتی تھی۔ اگر کسی مجبوری میں بہانے بناکر وہ گھس بھی آتا تو وہ روم فریشنر لے کر چاروں طرف اسپرے کرنے لگتی تھی۔
اسے آج بھی وہ دن یا دہے۔ (یہ بھی پڑھیں واٹس ایپ – ڈاکٹر یوسف رامپوری )
جب ویلن ٹائن ڈے پر اس نے رات کے گیارہ بجے پدمجا کو زرد گلابوں کا ایک گچھا پیش کیا تھا۔اس روز پدمجاکی نائٹ شفٹ تھی۔اس وقت، راک لینڈرا سپتال کے تھرڈ فلور کا وارڈ خالی اور سنسان تھا۔سیکوریٹی گارڈ نے اسے آنے سے نہیں روکا تھا کیونکہ وہ سبھی جانتے تھے کہ شمبھو ناتھ سنگھ اس اسپتال کا اسسٹنٹ اڈمنسٹرٹیو آفیسر تھا۔شمبھونے دِلّی کے کسی پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ سے ہوسپٹل ایڈمنسٹریشن میں ڈپلوما کیا تھا اور ڈگری ملتے ہی راک لینڈ اسپتال جوائن کرلیا تھا۔ظاہرہے ، یہ اس کی پہلی نوکری تھی۔پہلی تنخواہ اوپر سے مستزاد یہ کہ کسی صنف ِنازک سے قربت بھی شاید پہلی پہلی ہی تھی۔ورنہ پدمجا کے قریب جاتے ہوئے، اس کا دل اتنے زوروںسے بھلا کیوں کر دھڑکتا۔پدمجا کی زندگی میں ایسی جسارت اس سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کی تھی۔اگر پہلے کبھی کسی نے کی ہوتی تو پدمجا نے شاید اپنے حسن اور جوانی کے زعم میں اس کی حجامت بنادی ہوتی،لیکن ڈھلتی ہوئی عمر کی ڈھلان نے اسے ایسا کرنے سے ایک دم روک لیا تھا۔۔۔۔پہلے تو اس کا جی چاہا کہ اسے خوب ڈانٹ پلائے۔لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اپنی چور نگاہوں سے کاریڈور کے دونوںاطراف دیکھا، جب اسے یقین ہوگیا کہ وہاں کوئی بھی نہیں ہے۔صرف وہ دونوں تنہا ہیں،تو اس نے اپنی خشمگیں نظریں اٹھاکر شمبھو کی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کی تھی، جیسے بازار میں کوئی چیز خرید وفروخت سے پہلے دیکھی جاتی ہے۔تبھی شمبھو کی آنکھوں میں ایک کمسن لڑکے کی ازلی معصومیت دیکھ کے اس کا کلیجہ کٹ سا گیا تھا۔اس کا جی چاہاتھا کہ اسے اپنے سینے سے لگالے اور اتنا پیاردے کہ وہ اس میںڈوب کے عورت کے قرب کو پالے۔ماں کی ممتا کو بھول جائے۔۔۔۔لیکن وہ ایسا نہیں کرسکی تھی۔شمبھو کا تاڑ جیسا ایستادہ قد دیکھ کے وہ اپنا دل مسوس کے رہ گئی تھی۔اس نے زرد گلابوںکا گچھا شمبھو کے ہاتھوں سے لے لیا تھا۔
’’اب تم جائو، تھینک یو!‘‘
شمبھوواپس جانے کے لیے مڑا تھا کہ اس وقت ، اسے کچھ یاد آگیا۔۔۔۔چلتے چلتے اس نے کہا تھا:
’’ ہیپی ویلن ٹائن ڈے، میڈم!‘‘
’’مگر اب توڈے نہیں ہے، نائٹ ہوگئی ہے؟‘‘ پدمجا نے شوخی سے شرارت بھرے انداز میں کہا تو شمبھو نے اچانک حوصلہ پاکر اپنی غلطی درست کی:
’’ ہیپی ویلن ٹائن نائٹ!‘‘ اور قدرے خجالت کے ساتھ وہاں سے جلد ازجلد روانہ ہوگیا تھا۔
ادھر پدمجا نے کہا: ’’ویل ، گڈ نائٹ‘‘
اور شمبھو کے جاتے ہی وہ ہنس ہنس کر دوہری ہوگئی تھی ۔شمبھو کے مضحکہ خیز انداز کو دیکھ کے اسے اتنی ہنسی آئی ، اتنی ہنسی آئی کہ پیٹ میں بل پڑگئے تھے۔ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے۔ خاص طورسے اس وقت، جب اس نے ہوا میں اپنا دایاں ہاتھ لہراتے ہوئے کن انکھیوں سے دیکھ کے معنی خیز انداز سے مسکرایا تھا۔(یہ بھی پڑھیں سونیا بوٹیک – ڈاکٹر پرویز شہریار )
’’یو،ناٹی بوائے۔۔۔میں تجھے چھوڑوں گی نہیں، دیکھنا۔۔۔‘‘
پدمجا نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔تب تک شمبھو خوشی سے پاگل ہوتا ہوا یہ جاوہ جاہوگیا تھا۔شمبھو جب پدمجا کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تو اس نے زیرِ لب آہستہ سے کہاتھا:’’میں تیرا خون پی جائوںگی۔‘‘
وقت پنکھ لگاکر اُڑجاتاہے۔۔۔اور ۔۔۔کہتے ہیں کہ صرف وہ واقعات یاد رہ جاتے ہیں۔۔۔‘ جو ہمارے دل کو واقعی چھوجاتے ہیں۔
آج، ۔۔۔اس واقعے کے تین سال گزرجانے کے بعد، ۔۔۔پدمجا کا نیویارک کے لیے ویزا لگ گیا تھا۔
اب وہ ایک ہائی فائی زندگی کی تلاش میں ہندوستان کو ہمیشہ کے لیے ا لوداع کہنے والی تھی۔وہاں امریکہ میں ایک خوشحال مستقبل اس کا انتظار کررہا تھا۔سوتے جاگتے ہر وقت اس کے دل ودماغ پرنیویارک کی تیز رفتارزندگی دستک دے رہی تھی۔جیسے جیسے روانگی کا وقت قریب آتا جارہا تھا۔اس کی دنیا بدلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔اس نے خوب ساری شاپنگ کی تھی۔رفتہ فتہ ، اسے پرانی چیزیں پرائی معلوم ہونے لگی تھیں۔
ادھر شمبھو بھی کچھ کھویا کھویا سارہنے لگا تھا۔
اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن اسے پدمجا کو بھول جانا پڑے گا۔اور یہ کہ وہ دن اتنا جلدی آدھمکے گا۔وہ تو جانے انجانے میں کب پدمجاسے پیار کرنے لگا، اُسے پتہ ہی نہیں چلا! اور اب یہ حالت ہوگئی تھی کہ اس کے تصور کے بغیر وہ جی بھی نہیں سکتا تھا۔
اس بات کا پدمجا کو بھی احساس ہوگیاتھا کہ شمبھو کچھ کھویا کھویا سارہنے لگاہے۔ لیکن جلد ہی اس نے ان فروعی باتوں کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا تھا۔اسے لگا کہ جب ایک ساتھ اتنے دن اکٹھے گزارے ہیں تو بچھڑ تے وقت انسان کو تھوڑا بہت دکھ کا احساس تو ہوتا ہی ہے۔اس میںنئی بات کیا ہے۔
لیکن یکایک پدمجا کو سارے بھولے بسرے واقعات ، اس وقت بڑی شدت سے یاد آنے لگے۔
شمبھو نے ڈاکٹر راجیش شرماکو کس بری طرح سے پیٹا تھا ،جب وہ ورکنگ ویمنس ہوسٹل میں رہتی تھی ۔ایک شام ڈاکٹر راجیش نے اس کے منع کرنے کے باوجود ڈرنک کے نشے میں زبردستی کسی ریوپارٹی میں لے جانے کی کوشش کی تھی۔اس آپادھاپی میں اس کی کلائی میں موچ آگئی تھی۔پدمجانے اپنی کلائی پر دیکھا۔گھڑی کی چین کے ٹوٹنے سے اس کی کلائی سے خون بہہ نکلا تھا، جس کے زخم کا ننھا سا نشان، اب بھی اس کی کلائی پر موجود تھا۔شمبھو کو جب یہ باتیں معلوم ہوئیں تو اس نے ڈاکٹر راجیش کو پب سے باہر نکال کر اتنی پٹائی کی تھی کہ ڈاکٹر راجیش کو آخر کار پدمجا سے معافی مانگنی پڑی تھی۔
یہ بات تو کسی طرح آئی گئی ہوگئی تھی۔
مگر پدمجا کو شمبھو نے کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ پدمجا سے کتنا پیار کرتا ہے۔
اس واقعے کے بعد شمبھو اورپدمجانے فیصلہ کرلیاتھا کہ اس کا ویمنس ہوسٹل میں اکیلی رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ڈاکٹر راجیش ہوسکتا ہے خود نہ آئے لیکن کسی دوسرے آدمی کے ذریعے اسے کبھی بھی چوٹ پہنچا سکتاہے۔اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد وہ دونوں قطب انسٹی ٹیوشنل ایریا سے اپنے تمام ساز وسامان اٹھاکر قریب کے ہی ایک گائوں کا ٹھ واڑیہ سرائے میں شفت ہوگئے تھے۔
کاٹھ واڑ یہ سرائے، ویسے کہنے کو تو گائوں تھا اور جہاں کہتے ہیں کہ کبھی مٹی کے گھروںاور دکانوں میں لالٹینیں جلاکرتی تھیں۔ان کے آنگن میں بھینسیں بندھا کرتی تھیں۔ مرد مال بردار ٹرک چلایاکرتے تھے اور عورتیں دیوراوں پر یہاں وہاں تمام اُپلے ٹھونکا کرتی تھیں ،لیکن آج یہاں کی زمینیں سونا اُگل رہی تھیں ۔تنگ سے تنگ جگہوں پر بھی کئی کئی منزلہ عمارتیں بن کر کھڑی ہوگئی تھیں۔آس پاس ملٹی نیشنل کمپنیوں کے آجانے سے کرائے کے فلیٹ اتنے مہنگے ہوگئے تھے کہ تنخواہ کی آدھی سے زیادہ رقم اُن کے کرایوں میں چلی جایا کرتی تھی۔
پدمجا نے شمبھو کو سمجھایاتھا:
’’ہم اپنے عزیزوں کو اپنے گائووں میں چھوڑ کے پیسے کمانے کی خاطر ہی اس شہر میں آئے ہیں، پیسے گنوانے کے لیے نہیں؟‘‘
اس لیے کرائے پر پیسے پھینکنے کے بجائے وہ دونوں ایک ہی کمرے میں گزارا کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی انھیں دن بھر اسپتال میں رہنا تھا۔صرف سونے اور رین بسیرے کے لیے الگ الگ فلیٹ لینا کوئی عقلمندی نہیں تھی۔اس پر شمبھو نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا:
’’اس میں مجھے کوئی حرج نہیں ہے مگر کیا گائوں والے ہمارے ایک ساتھ ایک ہی کمرے کے فلیٹ میںرہنے کی اجازت دے دیں گے؟ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہ گائوں والے اس بات کے لیے رضامند ہوںگے۔ان کے پاس پیسے ضرور آگئے ہیں لیکن ا پنی سوچ میں یہ آج بھی کٹّر روڑھی وادی ہیں۔‘‘
’’بے وقوف مت بنو۔انھیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہم دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟‘‘
’’میڈم ! یہ امریکہ نہیں ہے۔۔۔۔‘‘ شمبھونے جلدی سے اپنے خیال کااظہارکیا۔
’’ایسا صرف امریکہ میں ہوتاہے کہ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے لوگ اکثر فلیٹ بھی آپس میں شیئرکرلیتے ہیں۔‘‘
’’اِکزیکٹلی!‘‘ پدمجانے اس کی بات کو سراہتے ہوئے شمبھوسے دریافت کیا۔
’’تم نے لِواِن ریلیشن تو سناہی ہوگا۔؟‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ ہم دونوں کافی میچئور ہیں۔ہم وہ سب کچھ کریں گے جو ایک بیاہتا جوڑا کرتا ہے،۔۔۔سوائے بچہ پیدا کرنے کے ، جس سے انھیں ہمارے بارے میں غیر شادی شدہ ہونے کا کوئی شک نہ ہو۔پدمجانے بچہ والا فقرہ دھیمی آواز سے ادا کیا تھا۔اتنی دھیمی کہ گویا اسے خود اپنی باتوں پر اعتماد نہ ہو۔
’’اگر کوئی پوچھے گا کہ آپ نے منگل سوتر نہیں پہن رکھا ہے۔آپ نے سیندور بھی نہیں لگا رکھا ہے، تو پھر۔۔۔؟‘‘ شمبھو نے اپنا خدشہ ظاہر کردیا تھا۔کچھ اس طرح کہ گویا پدمجاکادل کا بھید جاننے کے لیے کہا ہو جیسے۔
’’کوئی نہیں ہم کہہ دیں گے۔ہماری ابھی انگیج منٹ ہورکھی ہے۔‘‘ کچھ توقف کے بعد وہ تحکمانہ انداز سے بولی۔’’ ویسے بھی کرسچن ان فالتوکی رسموں میں کبھی یقین نہیں کرتے ہیں۔‘‘ اس طرح پدمجانے اِتمام حجت کی خاطر اپنی بات حتمی طورپر وہیں ختم کردی تھی۔
پدمجا کو وہ بھی دن یاد آرہے تھے، جب شروع شروع میںانھوںنے قسطوں پر گیس اسٹوو، واشنگ مشین اور ائیر کنڈیشنز وغیرہ خریدے تھے۔ابتدا میں کچھ دنوں تک چھوٹی چھوٹی باتوںکو لے کر آپس میں تکرار ہوجایاکرتی تھی۔مثلاً نہانے کے لیے پہلے باتھ روم کون جائے اور پہلے واش روم کون جائے گا۔اس طرح کی باتوںمیں خوب لڑائیاں ہواکرتی تھیں۔پدمجا کو لگتا کہ شمبھو واش روم سے جلدی نکلتاہی نہیں ہے جب کہ شمبھوکو لگتاکہ پدمجا باتھ روم میں جاکر سوجاتی ہے۔
چھوٹے سے کمرے میں ڈبل بیڈ کے درمیان ڈھائی فٹ کا چوبی پارٹیشن لگایا گیا تھا جس پر مغل آرٹ کی نقاشی کی گئی تھی۔رات بھر شمبھو کے خراٹوں سے تنگ آکر پدمجا نے نوز اوپینر لاکر دے دی تھی۔جسے شمبھو روز رات کو سوتے وقت پابندی سے اپنی ناک کے نتھوں میں لگالیا کرتا تھا۔صبح سویرے دودھ اور بریڈ کے لیے کوئی بھی اٹھنا نہیں چاہتاتھا۔ ایک دوسرے کو بستر سے دھکیلتے کہ وہ جائے اور دروازہ کھول کے دودھ کی تھیلی لے لے۔
لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ معمول پر آگیا تھا۔ایک دوسرے کی عادت واطوار سے وہ دونوں اچھی طرح مانوس ہوگئے تھے بلکہ کبھی کبھی تو پہلے آپ پہلے آپ والی صورت حال پیدا ہوجایاکرتی تھی۔ایک دودھ بریڈ لاتا تو دوسرا اخبار اٹھا لاتا۔۔۔۔۔ایک بیڈ ٹی تیار کرتا تو دوسرا ٹوسٹ تیارکرتا۔۔۔حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کے سہارے کے اس قدر عادی ہوچکے تھے کہ ایک دوسرے کی عدم موجود گی میں خود کو لاچار محسوس کرنے لگتے تھے۔انھیںایک دوسرے کی عادت سی ہوگئی تھی۔وہ ایک دوسرے کا بے حد خیال رکھنے لگے تھے۔اگر کوئی تھوڑی دیر کے لیے بھی نظروں سے اوجھل ہوتا تو موبائل کی طرف ہاتھ خود بخود بڑھ جایاکرتے تھے۔
سوچ کی لہروں پر اُبھرتے ڈوبتے، اچانک ایک خیال اس کے ذہن میںآیا تو پدمجا تنہائی میں بھی شرما سی گئی۔
پہلے پہل پارٹیشن پر وہ دونوں دستک دے کر لائٹ آف کرنے کی التجا کیا کرتے تھے۔سونے سے پہلے گڈ نائٹ اور صبح سویرے جاگتے ہی گڈ مارننگ کہا کرتے تھے،لیکن ۔۔۔۔جب شمبھو ایک مرتبہ بہت بری طرح بیمار پڑگیا تو اس کی تیمارداری کی خاطر سب سے پہلے پارٹیشن کو ہی کھول کر ہٹانا پڑا۔شمبھو کے جسم کو گرمی کی سخت ضرورت تھی۔دراصل وائرل فیور میں بھیگ جانے کی وجہ سے اسے نمونیہ ہوگیا تھا۔پدمجاکوامریکن ایمبسی سے کال آئی ہوئی تھی اور اسے وقت پر پہنچنا بے حد ضروری تھا۔دلّی کی ٹریفک جام کا یہ عالم تھا کہ ذرا سی بارش ہوئی نہیں کہ سڑکیں جام ہوجایا کرتی تھیں۔لہٰذا ، موسلادھار بارش کے باوجود موٹر بائیک پر بیٹھ کے اسے شمبھو کے ساتھ کسی طرح مقررہ وقت پرپہنچنا تھا۔اس دن، وہ وقت پر پہنچنے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن دیر تک سڑکوں پر کھڑے پانی میں بھیگنے کی وجہ سے شمبھوکا وائرل فیور نمونیہ میں بدل چکا تھا۔شمبھوکی طبیعت جیسے جیسے غیر ہوتی جاتی تھی،پدمجا خود کو اس کی ذمہ دار مانتی تھی۔پدمجا کے اندر ایک احساسِ گناہ سر اُبھارنے لگا تھا۔اس کا دل اس بات سے اتنا ملول ہوا کہ اس نے شمبھوکی جان بچانے کی خاطر اپنے پورے تن من دھن سے تیمار داری شروع کردی تھی۔اس نے کئی رات جاگ جاگ کے اس کی سیوا کی تھی اور یسوع سے اپنی عقیدت اور اس کی مسیحائی کا واسطہ دے کر شمبھو کے لیے زندگی کی بھیک مانگی تھی۔
اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب برانڈی سے بھی شمبھوکے ٹھنڈے جسم میں حرات نہیں پیدا ہورہی تھی توپدمجا نے اس کے جسم کو ممتا سے لبریز ہوکر کچھ اس طرح سے اپنی آغوش میں بھرلیا، جیسے کوئی ماں اپنے شیر خوار بچے کو بھر لیتی ہے۔اس دم وفورِ جذبات سے وہ اس قدر بھر گئی کہ اس کے اندر حرارت پیداکرنے کے لیے اس نے اپنے گرم گرم بوسوں اور آنسوؤں سے اسے تر کردیا تھا۔
شمبھونے صحت یاب ہوتے ہی کہا تھا:
’’ پدمجا! میں نے تمھارے اندر اُس رات مریم کے روپ کو دیکھا تھا۔۔۔۔جس کے چہرے سے ہی نہیں بلکہ تمام جسم سے کرنیں سی پھوٹ رہی تھیں۔تم اس رات میرے پاس نہیں ہوتیں تو شاید۔۔۔۔‘‘کہتے کہتے اس کا گلا رُندھ سا گیا۔پھر اس نے اپنی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے ، اپنے جذبات سے بوجھل جملہ یوں مکمل کیا۔’’ تو شاید۔۔۔آج میں زندہ نہیں ہوتا!‘‘
اس واقعے نے ان کی زندگی کا رخ یکسر بدل کے رکھ دیا تھا۔
اب وہ ایک دوسرے کی سرحدوں میں آزادانہ گھوم پھر سکتے تھے۔بلاروک ٹوک کوئی بھی کسی طرف آمد ورفت کرسکتا تھا۔دراصل، اب ان کے باہمی رشتوں کے سفر میں ایک نیا موڑ آگیا تھا جو ظاہرہے کہ ان کی توقع سے ایک دم پرے تھا۔اس کی دھیمی دھیمی آنچ انھیں اندر سے گدازیت بھی بخش رہی تھی مگر ایک اَن دیکھے خوف کے ساتھ جواُن کے مستقبل کے ایجنڈے میں کہیں دوٗر دوٗر تک بھی درج نہیں تھا۔
بہرحال، اس واقعے سے ان کے دلوں میں قربت کا احساس پیدا ہوا تو پھر وہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھی کام آنے لگے۔ انسانی فطرت کا تقاضہ بھی یہی تھا کیونکہ وہ دونوں اسی انسانی خدمت کے پروفیشن سے وابستہ تھے۔پھر نہ جانے کب ایک نئی شروعات ہوگئی ، سوتے وقت شب خوابی کے لباس میں ایک دوسرے کے ہاتھ پر بو سے دینے لگے۔ جو صبح پہلے جگتا، اُس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ بیڈٹی بستر پر لاکے َسرو کرے گا۔ایسا کرنے پر اسے انعام کے طورپر ایک نرم گرم ہیگ کے ساتھ شکریہ ادا کیا جانے لگا۔اس کا پورا پورا فائدہ پدمجا کو مل رہا تھا کیونکہ شمبھو کو اس کے احسان کا بھی قرض چکانا تھا، چنانچہ اب وہ زیادہ سے زیادہ پدمجا کا خیال رکھنے لگا تھا۔
ابتدا میں جانے انجانے میں ہلکی سی انگلی بھی مس ہوجاتی تو دل کی دھڑکنیں تیز ہوجایا کرتی تھیں۔ لیکن چند ماہ کے اندر ہی ان کے درمیان محبت کے فرشتے نے اپنے نرم ملائم پنکھ پھیلانے شروع کردیے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دل کی لگی نے اپنی سحر انگیزی اس قدر بڑھادی کہ اب ان میں سے چند گھنٹوںکے لیے بھی اگر کوئی دور ہوتا تو ان کے دل ڈوبنے لگتے تھے۔
ان تین برسوں کے ابتدائی دورمیں ایک دو بار ایسا بھی ہوا کہ ان کے سارے اصول وضوابط جو کبھی انھوں نے اپنے لیے بنائے تھے، وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔کرسمس کے موقعے پر شمپین کے ُسرور نے کبھی انھیں ایک دوجے میں مدغم کردیا تو کبھی ہولی کے موقعے پر بھنگ اور رنگ نے مل کر ساری حدیں پھلانگ دیں۔ لیکن ہر بار ہوتا یہ تھا کہ پدمجا چونکہ خود ہی نرس تھی، چنانچہ کوئی نہ کوئی پری وینٹو ادویہ لے لیا کرتی تھی۔وقت گزرتا گیا اور وہ ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر آتے چلے گئے۔
باہری دنیا کے ٹیمٹیشن اور ان کے خود کے ا یمبیشن نے انھیں رفتہ رفتہ کب اس کھیل کا عادی بنادیا ۔یہ انھیں پتہ بھی نہیں چلا۔
کہتے ہیں ،محبت ا پنا پہلا وار اتنی آہستگی سے کرتی ہے کہ گھائل ہونے والے شخص کو پتہ ہی نہیں چلتاہے اور جب پتہ چلتا ہے تو اتنی دیر ہوچکی ہوتی ہے کہ و ہاں سے واپسی ناممکن اگر نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتی ہے۔
شمبھو کو جب سے معلوم ہوا تھا کہ پدمجا جو سیف کا نیویارک جانے کے لے ویزا آگیا ہے وہ بہت غمگین ہورہا تھا اور ایک اندرونی کشمکش کے عالم میں الجھا ہوا تھا۔اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ و ہ کس طرح سے ری ایکٹ کرے۔’ زندگی میں پیار ہی سب کچھ نہیں ہوتا ہے۔‘ آدمی کو چاہیے کہ و ہ اپنی قوتِ عمل اور اپنی فہم وفراست سے بہتر زندگی کے سامان پیدا کرے۔ پدمجا کی محنت رنگ لائی تھی ۔ وہ اسے چھوڑکے امریکہ جانا چاہتی تھی۔ اِدھر شمبھو بھی اس کی ترقی میں مخل ہونا نہیں چاہتا تھا۔اس نے جب بھی اپنے دل کو ٹٹولا ہر بار اس نے پایا کہ وہ پدمجا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اِدھر پدمجا کی فلائیٹ کو اب صرف تین دن باقی رہ گئے تھے۔
بسترمیں جانے سے پہلے، شب خوابی کے گلابی لباس میں ، پدمجا چپ چاپ سی بیٹھی کوئی میگزین اٹھاکر بے دِلی سے اس کی ورق گردانی کررہی تھی۔تبھی شمبھونے بھانپ لیاکہ ۔۔۔وہ اپنے جذبات کو چُھپانے کے لیے میگزین کا سہارا لے رہی تھی۔شمبھو نے دوبارہ اس کی طرف دیکھا۔بچھڑنے کے کرب کے احساس سے بوجھل فضا میں بھی وہ بہت بھلی معلوم ہورہی تھی۔اس کے چہرے کے نور سے معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے سینے میں کسی اینجل کا دل دھڑک رہاہو۔معصومیت ، حلمیت ، شفقت اور بچے کو اپنی شیریں لوریوں سے سلادینے والی ممتا کے جذبوں سے اس کا سینہ بھرا بھرا سا لگ رہا تھا۔
یکایک ، پدمجا نے شمبھو کے روہانسا چہرے کی جانب سمندر سی گہری محبت بھری نظروںسے دیکھا اور کھڑی ہوکر یسوع مسیح کی طرح اپنی دونوں بانہیں پھیلادیں۔اپنی آنکھوں کے اشارے سے اسے اپنے قریب بلایا۔پھر اس کے اُ ترے ہوئے چہرے کو اپنے سینے سے لگاکر اپنے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے ڈھارس بندھانے کی خاطر تھپتھپاتی رہی۔۔۔۔کچھ دیر تک وہ ایک دوجے کے دل کی دھڑکنوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ کس کے نام سے دھڑک رہے ہیں۔تبھی شمبھو نے نائیٹ بلب کی ملگجی روشنی میں اپنے گالوں پر دوگرم گرم آنسوئوں کے قطروں کو محسوس کیا۔۔۔۔یہ آنسو نہیں تھے بلکہ خالص سونے کے سیّال قطرے تھے جو سچّی محبت کی آنچ میں تپ کر ابھی ابھی دل کی بھٹّی سے نکلے تھے۔
’’اس رات پدمجا شمبھو کی انگلی تھام کے اُسے ایک ایسے حسیں اور جواں اقلیم کی سیر پر لے گئی ،جہاں سچی محبت کرنے والے مرد اور عورت کے جوڑے ہی جاسکتے ہیں اور وہاں جانے کے بعد پھر زندگی اور موت کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
صبح ہوئی۔
شمبھو کے دل کا تمام غبار نکل چکا تھا۔
آج، نہ جانے کیوں صبح بے حد خوبصورت معلوم ہورہی تھی۔‘‘
شمبھو نے حسب ِدستور بیڈ ٹی لے جاکر تپائی پر رکھی اور پدمجا کے ماتھے کو یکایک جذبات سے مغلوب ہوکر آہستہ سے چوم لیا۔سوئی ہوئی حالت میں آج وہ شمبھو کو بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔ایک انگڑائی کے ساتھ وہ اُٹھ بیٹھی۔شمبھو نے ایک گلاس پانی کے ساتھ اپنی ہتھیلی پر پری وینٹوپِلس رکھ کر پدمجا کی طرف بڑھادی۔
’’تبھی پدمجا نے فرط ِجذبات میں آکر شمبھوکو اپنے گلے سے لگالیا او رپوری قطعیت کے ساتھ یہ اعلان کردیا۔۔۔۔
’’اب مجھے پری وینٹوپِلس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اتنا کہتے ہی اُس نے اپنے سِر ہانے سے نیویارک کا ویزا نکالا اور اُسے فوراً ڈسٹ بِن میں ڈال دیا او راپنے ایک ایک لفظ پر زوردیتے ہوئے بولی۔
’’اب میں نیویارک نہیں جاؤں گی۔‘‘
اتنا سنتے ہی شمبھو کی بانچھیں خوشی سے کھِل اُٹھیں۔اس کے مغموم چہرے پر جیسے خوشی کی ایک لہر سی دوڑ گئی اور وہ شادمانی کے عالم میں تقریباً چیخ اٹھا۔
پدمجا نے شمبھوکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا:
’’اسٹوپِڈ! مجھے پیسہ نہیں۔۔۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کے اس نے شمبھوکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ثبت کردیے اور ایک طویل وقفے کے بعد اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا:’’پیارچاہئے، ۔۔۔پیار! ‘‘