منیرؔنیازی متحدہ ہندوستان کے قصبہ خان پور ضلع ہوشیارپورمیں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے وقت وہاں سے ہجرت کرکے پاکستان کے دل لاہور میں آبسے ۔اس لیے اُن کے کلام کاایک اہم اور بڑا موضوع ہجرت کاموضوع بھی ہے ،جس میں ہجرت ایک بڑا موضوعاتی دائرہ ہے اور اس کے اندر ہجرت سے وابستہ تمام ضمنی موضوعاتی دائرے شامل ہیں جن میں ماں دھرتی کا دکھ،دوست احباب سے بچھڑنے کا درد،اپنی پرانی یادوں کی داستانِ غم،دلی کی ادبی رونقوں کا نوحہ،تقسیمِ ہند کے وقت انسانیت کا قتلِ عام،اپنی جائیدادوں کا بھارت میں رہ جانا،اپنے آباؤاجداکی قبروں سے دوری اورہمیشہ کے لیے بچھڑنے کا ماتم اور ان سب سے بڑھ کر قیام پاکستان کے بعد خوابوں ،خواہشات،تمناؤں ،آرزوؤں اور امیدوں کا چکنا چور ہونا شامل ہیں ۔(مضمون کا پہلا حصہ پڑھیں منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث کااجمالی جائزہ (حصہ اول) – عمیریاسرشاہین )
منیرؔنیازی کے ہاں ہمیں ہجرت کا موضوع بڑا واضح نظر آتا ہے جواُن کی نظموں کے عنوانات،نظموں اور غزلوں کے اشعار میں منتشرحالت میں واضح اور بین السطوردونوں حالتوں میں نظر آتا ہے ۔ہجرت کے حوالے اور موضوعِ ہجرت سے مزین نظموں کے عنوانات میں سے "دوری”،”بے بسی”،”دور کے نگر”،”ماضی”،”جدائی”،”میں جیسا بچپن میں تھا”اور "ان لوگوں سے خوابوں میں ملنا ہی اچھا رہتا ہے”وغیرہ شامل ہیں ۔
منیرؔنیازی کے ہاں ہجرت کا موضوع خارجی موضوع نہیں بلکہ اس موضوع کا تعلق اُن کے داخل اور داخلی خیالات،احساسات، جذبات اور کیفیات سے تھا کیوں کہ وہ خودہجرت کرکے آئے تھے لہذااُن کواس عمل کا بخوبی اندازہ اورتجربہ تھا۔جب کوئی خود کسی عمل سے گزرتا ہے تو اسے خوب تجربہ ہوتا ہے اس لیے وہ اس عمل کے محاسن ومعائب پرمفصل روشنی ڈال سکتا ہے۔ منیرؔنیازی نے اس موضوع پرجذباتیت واحساسیت کے ساتھ قلم کو جنبش دی اور پھرلکھتے ہی چلے گئے۔اُن کے کلام میں جو ماضی کی یاداشتیں اور اپنے بچپن کا نوحہ ہے وہ بھی بنیادی طور پر ہجرت اور متعلقاتِ ہجرت کا دردوغم ہے ۔منیرؔ نیازی کے شعری مجموعہ "ماہِ منیر” کے دیباچے میں سہیل احمد اس دردوغم کو رقم طرازکرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
"منیرؔ کی شاعری میں انسان کو اس کا بچپن اور بچپن کے ساتھ پیوست بہشت کی یاد دلانے کاجو جادو ہے وہ اسی بات سے ظاہر ہے کہ منیرؔ کی شاعری پر لکھتے ہوئے اکثردوستوں کو اپنی چھوڑی ہوئی بستیاں یا اپنابچپن یاد آتا ہے ۔خود میں بھی اس شاعری کو اپنے بچپن اور اپنی اولیں یادوں سے الگ نہیں کرسکتا۔بلکہ میرا معاملہ توباقی لوگوں سے بھی آگے کا ہے ۔اس لیے کہ منیرؔ نہ صرف مجھے میرا بچپن یاد دلاتا ہے بلکہ بچپن اور بہشت کی سرحدپر میرے لہو میں گم شدہ بعض نادیدہ بستیوں کو بھی میرے سامنے لاتا ہے ۔”(11)
اس اقتباس کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ منیرؔ نیازی کے ہاں جوماضی پرستی اور بچپن کے معاملات ہیں اُن کا مقصدومدعا کیا ہے ؟کیوں کہ ہر انسان کوبچپن یادآتاہے یہ انسانی فطرت ہے اور یہ اُس کی جبلت میں شامل ہے مگرمنیرؔنیازی کے ہاں یہ شدتِ اظہار ہجرت کی وجہ سے ہے ۔کلامِ منیرؔ سے ہجرت کے حوالے سے اشعار دیکھئیے ۔
منیرؔنیازی اپنے داخل میں چھپے دکھ درد کو اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
؎زمانے کے لب پر زمانے کی باتیں
مری دکھ بھری داستاں میرے دل میں (12)
بھولی یاداشتوں کو بھلانے کے حوالے سے اپنی نظم "آدمی” میں کہتے ہیں۔
؎بھولی باتیں یاد نہ آئیں
کیا کیا کوشش کرتا ہوں (13)
اپنی ایک غزل میں ہجرت کارونا روتے ہوئے کہتے ہیں کہ شایدہم اس طرف نکل آئے ہیں جہاں سے مڑکر ادھر جانا ممکن ہی نہیں اوراگرچلا بھی جاؤں تووہاں کی یادیں مجھ اتنی مدت دور رہنے کی وجہ سے برانہ منا جائیں ،دواشعارملاحظہ ہوں۔
؎نہ جا کہ اس سے پرےدشتِ مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے توراستہ ہی نہ ہو
؎میں اس خیال سے جاتانہیں وطن کی طرف
کہ مُجھ کودیکھ کے اُس بُت کا جی بُرا ہی نہ ہو (14)
ان اشعارسے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے اندر ہجرت کاکتنا دکھ موجود ہے کہ انھوں نے اتنے بریک خیالات کا اظہار بھی کتنے لطیف اندازسے کیا ہے ،کہ ایک تو وہاں جاناممکن نہیں کیوں کہ سرحدیں بندہیں کوئی راستہ موجود نہیں اوردوسرااگراتنی دیر کے بعد گیا توبرانہ مان جائیں ۔اب کون بُرامانے گا اس کے لیے انھوں نے "بُت” بطور علامت استعمال کرکے شعرکووسیع معنویت سے نوازدیا ہے ۔اب اس علامتِ "بُت”سے مرادوہ بستیاں،بستیوں کے مکان ومکین ،اپنے آباؤاجدادکے مٹے آثار، قبریں، تہذیب وتمدن،بچپن اور بچپن کی یادیں اور دوست احباب کے علاوہ بہت کچھ علامتِ "بُت” میں سِماگیاہے اسے ہی شعرکہتے ہیں کہ طویل بات کوایک لفظ میں بندکردینااور شرح،تفسیر،تشریح اوروضاحت محقق ونقادپرچھوڑ دیناتاکہ وہ امکانات تلاش کرے اور جہاں تک ممکن ہوحقائق تک رسائی حاصل کرکے پوشیدہ امکانات کوعوام تک لائے۔منیرؔ نیازی کی علامت نگاری کے حوالے سے ظفرالنقی اپنے ایک مضمون بعنوان”منیرؔنیازی کی غزل کے فکری وفنی سروکار”میں لکھتے ہیں ۔ (یہ بھی پڑھیں شہریارکی نظموں میں خواب اورشکست خواب کے مسائل – ڈاکٹرمعیدالرحمن )
"منیرؔ نیازی کی شاعری اپنے معاصرین سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں علامتوں کے ذریعےگہرے اور پچیدہ معانی و مفاہیم پیدا کیے ہیں ۔”(15)
منیرؔ نیازی کے ہاں نرگسیت وانانیت کا پہلو بھی بہت نمایاں ہے ۔ منیرؔنیازی انتہائی خوب صورت جوان تھے اوراس دور کی لڑکیاں نیازی صاحب پر زہر کھاتی تھیں ،جس کامنیرؔنیازی کواندازہ تھااور وہ اس وجہ سے خود پر فخر کرتے تھے ۔دوسرا منیرؔنیازی ایک خوش حال اور کھاتے پیتے خاندان کے چشم وچراغ تھے جس وجہ سے بھی اُن کے اندر اناتھی۔تیسرا منیرؔ نے شعری تخلیقات کے لیے جن موضوعات کوچنااُن کے معاصرین وہاں تک نہ جاسکے جس پر منیرؔ نیازی کواپنی شاعری پر فخر تھااوروہ اپنے معاصرین میں سے اکثرکوتوسرے سے شاعر ہی نہیں مانتا تھا،یہ سب چیزیں تھیں جن کی وجہ سے منیرؔ نیازی کے اندر انااوراپنے اوپر فخرتھا لہذایہی فخراوراناشعری تخلیقات میں ڈھلی تونرگسیت وانانیت میں بدل گئی ۔نرگسیت وانانیت جسے شاعرانہ تعلی ٰ بھی کہا جاتا ہے کے حوالے سے منیر ؔ نیازی کےچنداشعار ملاحظہ ہوں ۔
؎ اپنے رتبے کا کچھ لحاظ منیرؔ
یار سب کو بنا لیا نہ کرو(16)
؎ منیرؔ اچھا نہیں لگتا یہ تیرا
کسی کے ہجرمیں بیمار ہونا(17)
اسی طرح ایک جگہ پورے شہرسے خودکو بہتر گردانتے ہوئے کہتے ہیں۔
؎ مجھ میں ہی کچھ کمی تھی کہ بہتر میں ان سے تھا
میں شہر میں کسی کے برابر نہیں رہا (18)
اس کے علاوہ پورے کلام میں یہ پہلو مل جاتا ہے مگر کہیں کہیں انانیت ونرگسیت کی بجائے ملامتی پہلونمایاں ہے ،لہذایہ عہدبہ عہد رویوؤں میں تغیروتبدل آتا ہے اور حالات کے ساتھ انسان بدلتا رہتاہے۔
تصورِمحبت وعشق بھی منیر ؔنیازی کاایک اہم اور پسندیدہ موضوع ہے ۔ویسے توہرشاعراورتخلیق کار کایہ پسندیدہ موضوع ہے کیوں کہ بقول میرتقی میرؔ
؎دوربیٹھا غبارمیرؔاس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا (میرتقی میرؔ)
اسی طرح تخلیق کے لیے عشق کی اہمیت خودمنیرؔنیازی کی زبانی سنیں ۔وہ اپنے ایک انٹرویومیں کہتے ہیں ۔
"محبت ،پیار اورعشق کوئی بُری چیزنہیں ہیں ۔شاعر پرجب کوئی وارداتِ قلبی ہوتی ہے تووہ اس کیفیت کوطاری کرلیتا ہے۔شاعر ایک حساس انسان ہوتاہے جس پر ہربات کااثرہوتاہے۔محبت کے بغیر شاعری توکیا زندگی بھی ادھوری ہے۔”(19)
محبت اور عشق کے بغیرشعرکاتخلیق ہوناناممکن نہ سہی مشکل ضرورہے اور عشق کے بغیرشعر میں شعریت نہیں ہوگی،یہاں محبت وعشق سے مرادایک حسین لڑکی سے محبت وعشق ہی نہیں بلکہ لفظ عشق اور متعلقاتِ عشق مرادہے ۔اب وہ عشق مجازی ہویاحقیقی یامجازی وحقیقی کی کوئیب صورت توعشق وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے اوروہی مرادہے۔محبت وعشق کے موضوع کوہرشاعر اورہرتخلیق کارنے برتاہے اورہرایک کے ہاں اس کارنگ ڈھنگ مختلف ہے،لہذایہاں منیرؔنیازی کے انفرادی رنگ واندازپربات کرتے ہیں ۔منیرؔنیازی کے تصورعشق پربات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹرسمیرااعجازصاحبہ لکھتی ہیں۔
"عشق غزل کا سدابہارموضوع ہے۔جذبہ عشق کی کسک اورخلش غزل میں چاشنی اور نکھارپیداکرتی ہے ۔منیرؔنیازی نے غزل میں عشق کے ایسے تجربات اور وارداتِ قلبی پیش کی ہے جس میں سوزہے اور لذت بھی۔نئے لب ولہجے کی کھنک ہے اور پرانا سوزِ دروں بھی۔اُن کے نزدیک عشق قوتِ حیات ہے۔ایسی قدرہے جوتوانائی اور زندگی بخش ہے۔(20)
منیرؔنیازی کاعشق روایتی مشرقی عشق ہے جودل ہی دل میں پکتارہتاہے اورپھریہ غمِ دل لفظوں کی شکل میں شاعری کاروپ دھارلیتاہے ۔اس لیے اس میں کبھی دکھ،کبھی شکوہ وشکایت،کبھی محبوب کی بے وفائی وسنگ دلی کانوحہ، کبھی خوابوں کی لامحدودداستاں،کبھی ہجرتوکبھی وصال،کبھی زمانے کی بے رخی،کبھی معاشرتی بندھن کانوحہ اورکبھی خودمیں اظہارکی ہمت نہ ہونے کاذکرشامل ہیں ۔جن کومنیرؔنیازی نے منفردلفاظی،منفردونادرتشبیعات واستعارات، تمثال،کردارنگاری اورشعری صنائع بدائع کے خمیرمیں گوندھ کر شعربنادیاہے۔
منیرؔنیازی کے عشق کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر سمیرااعجازصاحبہ اپنی تحقیقی وتنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب "ماخذات”میں شامل اپنے مضمون بعنوان” منیرؔنیازی کی پنجابی شاعری ۔۔۔۔۔تجزیاتی مطالعہ”لکھتی ہیں ۔
"کلاسیکی روایت سے قطع نظر،منیرؔنیازی کی شاعری میں عشق محض ہجر کا نام نہیں بلکہ وصل کے بعد ہجرنصیب ہوتا ہے۔” (21)
اب کلامِ منیرؔسے عشق حقیقی اور عشق مجازی کے ساتھ عشق کی مختلف کیفیات وجذبات پرکہے گئے چنداشعار ملاحظہ ہوں تاکہ اس بات کااندازہ ہوجائے کہ منیرؔکے ہاں عشق کی صورت کیاہے ۔
منیرؔنیازی کا عشق حقیقی اورخداکی وحدانیت کے حوالے سے شعر ملاحظہ ہو۔
؎ہوا چلتی ہے باغوں میں تواُس کی یاد آتی ہے
ستارے ،چاند،سورج ہیں سبھی اُس کے نشانوں میں (22)
آقائے دوجہاں حضرت محمدﷺ سے محبت وعقیدت اورآپﷺ کی بارگاہِ رسالت میں ہدیہ عقیدت کانذرانہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
؎ میں جو اک برباد ہوں آبادرکھتا ہے مجھے
دیرتک اسمِ محمدﷺ شاد رکھتا ہے مجھے(23)
اب عشق مجازی کی مثالیں ملاحظہ ہوں۔
؎ میں محبت کس طرح اس سے کروں
دل میں جوہے کس طرح اس سے کہو (24)
؎ نکلا جوچاند،آئی مہک تیزسی منیرؔ
میرے سوابھی باغ میں کوئی ضرور تھا (25)
اپنے محبوب کی خاموشی ٹوٹنےاورتھوڑاشرمیلے اورمعصومیت سے نکلنے کے حوالے سے شعر دیکھئیے۔
؎غیروں سے مل کے ہی سہی،بے باک توہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک توہوا (26)
؎منزلِ عشق کی حدوں پر ہیں
دائمی انتظار کے رستے (27)
منیرؔنیازی نے محبت وعشق کوتمام ترصورتوں اور کیفیات کے ساتھ برتاہے عموماَشعراکے ہاں ایک طرف جھکاؤ نظرآتاہے مگرمنیرؔنے متوازن رویہ اختیارکیاہے ۔اُن کے ہاں عشق حقیقی وعشق مجازی بین بین ہیں اور دونوں کو بڑے سلیقے سے اشعارمیں برتاہے۔
منیرؔنیازی کے سارے موضوعات اس ایک مضمون میں بندکرنا ناممکن ہے ۔اُن کے اہم موضوعات کوتفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور باقی کو شروع میں پیراگراف کی شکل میں بیان کردیاگیا ہے۔کیوں کہ سارے موضوعات کا تذکرہ ایک پورے مقالے کی ضرورت ہے ۔منیرؔنیازی کے ہاں خواب ، اپنے عہد کا نوحہ اور ملکِ پاکستان کی ترقی کی رفتار بھی اہم موضوعات ہیں جن کے حوالے سے ایک ایک شعر پیش ِ خدمت ہے ۔
منیرؔنیازی خواب کے حوالے سے کیا کہتے ہیں دومختلف اشعار ملاحظہ ہو۔
؎ خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
اُن میں جاکرمگر رہا نہ کرو(28)
؎یہ حقیقت ہے منیرؔ
خواب میں رہتے ہیں ہم
؎ منیرؔ تنگی میں خواب آیا
کھلی زمیں کے فراغ جیسا(29)
خواب،آرزو،تمنا،امید ،خواہش،طلب اورخیال تخلیق کے کھاد کی مانندہے اگرکوئی تخلیق کار ان چیزوں سے خالی ہے تووہ کبھی اچھا تخلیق کار نہیں بن سکتا۔بڑاتخلیق کاربننے کے لیے یہ تمام چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ ان کے بغیربڑی تخلیق مشکل ہی نہیں ناممکن ہے تو بے جا نہ ہوگا۔منیرؔنیازی کے ہاں یہ چیزیں بڑی شدت کے ساتھ موجود ہیں اور یہی اُن کوبڑا شاعراورتخلیق کار بناتی ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں جدیدنظم، خاموشی ، ہم وقتیت اور معروضہ تلازمہ – ڈاکٹر ناصر عباس نیّر )
منیرؔنیازی کی شخصیت میں مذہبی،سیاسی ،سماجی اور تاریخی شعور اورعلم وآگاہی موجود تھی۔اس لیے وہ شعوراُن کے کلام میں بھی دکھائی دیتا ہے۔وہ نڈر،بہادر اور بے باک انسان تھے حق کو حق کہنے میں انھیں جھجک محسوس نہیں ہوتی تھی لہذامعاشرے میں جس چیز کووہ برااورناانصافی پر مبنی دیکھتے اُس کوڈنکے کی چوٹ پربُراکہتے ۔اُن کے کلام میں حق وصداقت کی واضح مثالیں ملتی ہیں۔اپنی ایک غزل میں اس زمین کے نظام کوبدلنے کاارادہ رکھتے ہیں اوراس کاحل تلاش کرنے میں گم نظرآتے ہیں ۔
؎ اُداسی کو بیاں کیسے کروں میں
خموشی کو زباں کیسے کروں میں
؎ بدلنا چاہتا ہوں اس زمیں کو
یہ کارِ آسماں کیسے کروں میں (30)
منیرؔنیازی حقیقت اور سچائی کے متلاشی ہیں اور ان کی شاعری میں اس کے اشارے ملتے ہیں ۔شاعری تشبیعات، استعارات،علامات اور اشاروں کا کھیل ہے اوراشاروں اشاروں میں دنیا جہاں کے موضوعات کو سمیٹ لیا جاتا ہے لہذااُن کے کلام میں حق وسچ کی تلاش کے واضح اشارے موجود ہیں ۔
منیرؔ نیازی کے ہاں احتجاج،ظلم کے خلاف آوازِ حق،مفلسی وغربت کاذکراور ترقی پسندیت کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے ۔چندمثالیں ملاحظہ ہو۔
مفلسی وترقی پسندخیال دیکھیے۔
؎ نگر میں شام ہوگئی ہے کاہش ِ معاش میں
زمیں پہ پھر رہے ہیں لوگ رزق کی تلاش میں (31)
امیر،حکمران اور بڑے طبقے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
؎ بستیوں کی زندگی میں بے زری کا ظلم تھا
لوگ اچھے تھے وہاں کے اہلِ زر اچھے نہ تھے (32)
ملکی صورتِ حال کے تناظرمیں کہا گیا ایک شعر ملاحظہ ہو۔
؎ منیرؔاس ملک پرآسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ولیؔ کی زمین میں کہا گیا یہ شعر ملکی صورت حال کے تناظر میں بڑا احتجاجی وانقلابی شعر ہے ۔منیرؔنیازی کا عصری شعور ظلم وزیادتی کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ انقلاب کی خواہش بیدار کرتا ہے ۔
منیرؔ نیازی کے ہاں رنگوں اور موسموں کا حسین امتزاج بھی نظرآتا ہے ۔موسمِ بہار ،موسم ِ خزاں اور موسمِ برسات اُن کے پسندیدہ موسم ہیں اور ان موسموں کو منیرؔ نے بدل بدل کربرتا ہے جس سے اُن کی شاعری میں مزید نکھار نظر آتا ہے ۔
منیرؔ نیازی کے ہاں فنی پختہ کاری نظر آتی ہے ۔انھوں نے چندتراکیب یا چند لفظ نہیں برتے بلکہ ایک ایک کیفیت کے لیے الگ سے پورالفظی جال بُنا ہے اور یہی اُن کی شاعری کو منفرداور معنویت بخشتاہے۔عام شعراکے ہاں خاص قسم کی گنی چنی لفظیات ملتی ہیں مگر منیرؔ کے ہاں لفاظی کی کوئی حد نہیں ۔انھوں نے روشِ عام سے بغاوت کرتے ہوئے عام لفظوں کو بھی شاعری میں برتا ہے جس سے کلام میں خوب صورتی نظرآتی ہے۔ اُن کے اہم استعاروں میں تنہائی،آسیب،طلسم ،چڑیل،بلااور اس سے ملتے جلتے استعارے بڑے عام ہیں ۔
منیرؔ نیازی کا طرزِ بیاں \اسلوب افسانوی اسلوب ہے جس کے ذریعے منیر ؔ نے اپنے کلام میں افسانویت پیدا کردی ہے ۔اُن کااندازِ بیاں طلسم وجادوسے بھرپورہےاوریہی افسانویت اُن کے کلام میں سحرپیداکرتی ہے جوقاری کواپنی گرفت میں لیے بغیر نہیں چھوڑتا اوراُس پراُن کی وحدت ِ تاثر کی خوبی مزید سونے پرسہاگے کاکام کرتی ہے جواُن کے کلام سے نکلنے نہیں دیتی۔منیرؔ نیازی کے اسلوب کو ڈاکٹر انور سدیداپنی کتاب "اُردوادب کی مختصر تاریخ” میں یوں پکارتے ہیں ۔
” اُن کی غزل میں الفاظ ایک نیا روپ اختیار کرتے اور معنوی طور پر ایک نئی پرت الٹتے ہیں ، اُن کے وجدانی اسلوب کو طرزِ منیرؔ سے تعبیر کرنا مناسب ہے ۔”(33)
منیرؔ نیازی کے اسلوب کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر سمیرااعجاز صاحبہ اپنے مرتب کردہ "کلیاتِ نثرِ منیر نیازی” کے”پیش لفظ”میں لکھتی ہیں ۔
” اشفاق احمد نے منیر نیازی کی شاعری میں ایک فکشن نگار کی موجودگی کا سراغ لگایا تھا،جو ایک افسانے "دریں سرائے کہن” اور”ادھورے ناول کے اوراق” کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں تحریریں پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر منیر فکشن لکھتے تووہ بھی خاصے کی چیز ہوتی۔”(34)
منیرؔ نیازی کا یہی افسانوی اسلوب اُن کے فکرو خیال کو جلا بخشتا ہے اور اُن کا خیال ادب کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے وگرنہ ان کے معاصرین نے اُن کی تقلید کی مگر وہ اس نعمت سے محروم تھے جس وجہ سے وہ منیر ؔ کا مقابلہ نہ کرسکے کیوں کہ جن موضوعات پر منیرؔ نے قلم اٹھا اُن میں سرخرو ہونے کے لیے افسانوی اسلوب کا ہونا لازم تھا ۔منیر ؔنیازی کا اسلوب ہی اُن کواپنے معاصرین سے بلند کرگیا اور یہی انفرادیت اُن کو ادب میں امرکرگئی۔ منیر ؔ نیازی ایک بلند پایہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلندپایہ نثر نگار بھی تھے مگر انھوں نے اپنی ساری توجہ شاعری پرمرکوز رکھی اور نثر میں توجہ نہ دے سکے اگر وہ شاعری کے ساتھ نثر میں بھی توجہ دیتے تو آج دونوں میدانوں میں اُن کا سکہ چل رہا ہوتا مگر خیر وہ شاعر ہی رہتے ادب تک زندہ رہیں گے اور یہی اُن کی پہچان رہے گی۔ یہاں پر منیر ؔ نیازی کے کلام کا فکری و فنی حوالے سے اجمالی سا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔اُن کے کلام کو پوری طرح تفصیل سے دیکھنا اتنے کم وقت اور چندصفحات میں مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
حوالہ جات :
1۔ اشفاق احمد،(دیباچہ)تیزہوا اور تنہا پھول،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور:خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 7
2۔ احمدندیم قاسمی،(دیباچہ)چھ رنگیں دروازے،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور:خزینہ علم وادب ،2002ء،ص12
3۔ منیر نیازی،جنگل میں دھنک،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور:خزینہ علم وادب ،2002ء،ص65
4۔ منیرنیازی ، جنگل میں دھنک،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی ،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص64
5۔ منیر نیازی،سفید دن کی ہوا، مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص67
6۔ڈاکٹر فتح محمدملک،تحسین و تردید،راولپنڈی: اثبات پبلی کیشنز،1984ء،ص 197
7۔ ڈاکٹر سمیرا اعجاز،منیر نیازی ۔۔شخص اور شاعر،فیصل آباد:مثال پبلشرز،2014ء،ص 61۔160
8۔ منیر نیازی،جنگل میں دھنک،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور :خزینہ علم وادب ،2002ء، ص30
9۔ منیر نیازی،دشمنوں کے درمیان شام ،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور:خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 9
10۔ منیر نیازی، پہلی بات ہی آخری تھی،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 67
11۔ سہیل احمد،(دیباچہ)ماہِ منیر،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 10
12۔ منیر نیازی ،تیزہوااور تنہا پھول ،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی ،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء ،ص 14
13۔ منیرنیازی،دشمنوں کے درمیان شام ، مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور : خزینہ علم وادب ،2002ء،ص17
14۔ منیر نیازی ،ماہِ منیر ،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی ،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 70
15۔ ظفرالنقی،منیر نیازی کی غزل کے فکری و فنی سروکار،مشمولہ ماہنامہ اُردو دنیا،دہلی: مارچ2017ء،ص 45
16۔منیر نیازی،ساعتِ سیار،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 40
17۔ منیر نیازی ،ساعتِ سیار،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 50
18۔ منیر نیازی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا ،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی ،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 26
19۔http:\\www.urdupoint.com|adab|detail.198.122.1.18…html
20۔ ڈاکٹر سمیرا اعجاز،منیرنیازی ۔۔شخص اور شاعر ،فیصل آباد: مثال پبلشرز،2014ء ،ص 281
21۔ ڈاکٹر سمیرا اعجاز،ماخذات (تحقیقی وتنقیدی مضامین)،فیصل آباد: مثال پبلشرز،2017ء،ص157
22۔ منیرنیازی، ماہِ منیر،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب،2002ء،ص 17
23۔ منیرنیازی،چھ رنگیں دروازے،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 17
24۔منیر نیازی ، آغازِ زمستاں میں دوبارا،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 24
25۔ منیر نیازی ، جنگل میں دھنک،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی ،لاہور : خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 92
26۔ منیرنیازی، ماہِ منیر،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 60
27۔ منیر نیازی ،ساعتِ سیار ،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ۔2002ء ،ص 43
28۔ منیر نیازی،ساعتِ سیار،مشمولہ کلیاتِ منیرنیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 40
29۔ منیر نیازی ، ساعتِ سیار،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب ،2002ء ،ص 42
30۔منیر نیازی،پہلی بات ہی آخری تھی،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب،2002ء،ص 83
31۔منیرنیازی ،ماہِ منیر،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور : خزینہ علم وادب ،2002ء،ص 63
32۔منیر نیازی ،ایک دعا جو میں بھول گیاتھا،مشمولہ کلیاتِ منیر نیازی،لاہور: خزینہ علم وادب،2002ء،ص 40
33۔ ڈاکٹرانورسدید،اُردوادب کی مختصر تاریخ،لاہور:عزیز بک ڈپو،14۔2013ء،ص495
34۔ڈاکٹر سمیرا اعجاز،کلیاتِ نثرِ منیر نیازی،سرگودھا: شعبہ اُردو،یونیورسٹی آف سرگودھا،2017ء،ص16
عمیرؔیاسرشاہین
پی۔ایچ۔ڈی (اسکالر)
یونی ورسٹی آف سرگودھا
0303.7090395
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |