ہر زندہ معاشرے میں زبان و ادب کا قافلہ ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے اور ادب میں ہر لحظہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں روایت کی توسیع بھی ہوتی ہیں اور اس سے انحراف بھی، لیکن ادبی تاریخ کے دلچسپ مقامات وہی ہوتے ہیں جہاں کسی غیرمعمولی رجحان کے تحت یا کسی دیوقامت ادبی شخصیت کی وجہ سے جست لگانے کی کیفیت پیدا ہوجائے یا پھر روایت سے انحراف بغاوت کی شکل اختیار کرلے، اور انقطاع اور اجتہاد کا نیا منظرنامہ سامنے آجائے۔ اس اعتبار سے پچھلے پچیس تیس برسوں کی اردو افسانہ نگاری خاصا دلچسپ منظر پیش کرتی ہے۔ اگرچہ اس دور میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں روایت کی پاسداری کا احساس ہے، لیکن زیادہ تر نئے لکھنے والوں نے روایت سے واضح طور پر انحراف کیا۔ ایسا صرف افسانے کی دنیا میں نہیں ہوا بلکہ اردو ادب کی پوری فضا سوچنے کے نئے زاویوں اور نئے ذہنی رویوں سے متاثر ہوئی۔ آزادی سے پہلے ادب کے خارجی یعنی مقصدی پہلو پر اصرار تھا۔ مقصدیت اور افادیت کی توجیہ طرح طرح سے کی گئی، لیکن اتنی بات واضح تھی کہ قومی اور وطنی جذبات کی لَے اونچی تھی اور مقصدیت اور افادیت کے تمام سیاسی و سماجی تصورات اس کے جلو میں چلتے تھے اور ادب کی جمالیات اور زندگی کی ہمہ پہلو ترجمانی ثانوی چیز ہوکر رہ گئی تھی۔ آزادی کے بعد خارجی تقاضے کم ہوئے تو ادب میں داخلی، باطنی اور شخصی لَے بلند ہونے لگی اور اظہار و اسلوب کے نئے نئے پیرایے تلاش کیے جانے لگے۔ شاعری اور فکشن میں تبدیلیاں اسی داخلی اور باطنی لے کی لائی ہوئی ہیں۔ وجودیت نے غور و فکر کی نئی راہیں ہموار کیں اور شاعری کی طرح افسانے میں بھی پورے آدمی کو سمجھنے، زندگی کے تمام مناظر و کوائف کو نظر میں رکھنے، اس کے سیاہ سفید ہر پہلو کو پرکھنے اور خارجی اور باطنی تمام تقاضوں کو سمونے اور انسان کو ایک معنوی واحدہ، ایک محشر خیال اور ایک جہانِ آرزو کے طور پر دیکھنے اور دکھانے کی تڑپ پیدا ہوئی۔ اسلوب اور اظہار کی سطح پر بھی چونکہ خارجیت نے غیرتخلیقی نوعیت کی اشتہاریت اور خطابت کو جنم دیا تھا۔ اس کے ردعمل کے طورپر لفظ کی معنیاتی کائنات، اس کے تہ در تہ رشتوں، علامتی، تجریدی اور تمثیلی پہلوؤں اور منطقی معنی سے قطع نظر معنی کے معنی اور ان کے معنیاتی انسلاکات کے تخلیقی امکانات کی جستجو ہونے لگی۔ اگرچہ یہ تبدیلیاں افسانے میں بھی نظر آتی ہیں، لیکن افسانے میں اس انحراف کے نقوش اتنے شدید اور اتنے گہرے نہیں ہیں جتنے شاعری میں ہیں۔ اس کی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اردو میں آج بھی شعر کی طرف توجہ زیادہ ہے، افسانے کی طرف کم۔ اردو کے اچھے ذہن آج بھی جتنی تعداد میں شاعری میں ملتے ہیں افسانے میں نہیں ملتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اردو شعری اسلوب کے اعتبار سے اتنی معیار رسیدہ اور بالیدہ زبان ہے کہ شاعری کی سطح پر انحراف اور اجتہاد اتنا مشکل نہیں جتنا افسانے کی دنیا میں ہے، کیونکہ افسانے کی زبان ابھی تک شعر کے جادو سے نکلنے کے تجرباتی دور سے پوری طرح آگے نہیں بڑھی۔ تیسری بات یہ ہے کہ شاعری زمان و مکان سے نسبتاً آزاد ہوسکتی ہے جبکہ فکشن کتنا ہی تجریدی کیوں نہ ہو اس کو کہیں نہ کہیں زمین پر پیر ٹکانے ہی پڑتے ہیں اور کسی نہ کسی زمانے میں سانس لینی ہی پڑتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی نہ کسی کردار یا متکلم کی زبان کے وسیلے کے بغیر خواہ وہ خودکلامی کی زبان ہو یا خواب و بیداری کے درمیانی منطقے کا اظہار ہو یا بے تعلق یا انام متکلم کا بیان ہو، کہانی کو کہانی ہونے کے لیے سماجی و معاشرتی سہارا چاہیے ہی۔ کہانی زمان و مکان کے منطقی ربط و احساس سے لاکھ گریز کرے، ان سے کلیتاً ماورا نہیں ہوسکتی۔ شاعری کی بات دوسری ہے۔ شاعری یکسر ذہنی، ماورائی یا مابعدالطبیعیاتی بھی ہوسکتی ہے لیکن افسانے میں مکمل طور پر ایسا ممکن نہیں۔ ان مجبوریوں کو نظر میں رکھیں تو ان افسانہ نگاروں کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے جو 1950-55 کے لگ بھگ افسانہ نگاری میں روایت سے انحراف کے سفر پر نکلے تھے، اور جنھوں نے انسان کے بنیادی مسائل کو لے کر اردو افسانے میں ایک آفاقی انسانی جہت کا اضافہ کیا۔
ان میں دو طرح کے لکھنے والے تھے۔ اول وہ جن کے یہاں نئے انسان کے نئے مسائل کا احساس تو تھا، لیکن بغاوت کی لَے شدید نہ تھی۔ انھوں نے کہانی کے مزاج کو بدلا، لیکن اس کی ہیئتی منطقیت کو بدلنے کی زیادہ کوشش نہیں کی، نہ ہی شکست و ریخت کو ضروری سمجھا۔ اس عہد کے زیادہ تر افسانہ نگاروں مثلاً رام لعل، جوگندر پال، کلام حیدری، شرون کمار ورما، غیاث احمد گدّی، جیلانی بانو، اقبال مجید، اقبال متین، رتن سنگھ، ستیش بترا، قیصر تمکین، منیر احمد شیخ، واجدہ تبسم (مصنفہ شہر ممنوع)، غلام الثقلین، آمنہ ابوالحسن، امر سنگھ، عوض سعید کی کوششیں اسی ذیل میں آتی ہیں، اگرچہ ان میں سب کے یہاں ایک سا عالم نہیں۔ بعض کے یہاں تجربوں کی لَے تیز ہے، بعض کے یہاں دھیمی۔ مثال کے طور پر جوگندر پال کی بعد کی کئی کہانیاں تجریدی انداز کی ہیں۔ اسی طرح رام لعل، کلام حیدری، غیاث احمد گدّی، اقبال مجید، شرون کمار ورما اور بعض دوسروں کے یہاں علامتی تمثیلی رنگ بھی مل جاتا ہے لیکن یہ ان کے افسانوں کا غالب رجحان نہیں۔ قاضی عبدالستار کے یہاں شکست و ریخت نام کی کوئی چیز نہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں پوری دلجمعی سے اترپردیش کے جاگیردارانہ معاشرے کے زوال کی تصویرکشی کی ہے۔ وہ اپنے مکالموں میں جگہ جگہ اودھی کے رس اور لوچ سے بھی استفادہ کرتے ہیں، ان کا تخلیقی رویہ اور دردمندی پریم چند کی حقیقت نگاری کی نئی جہت ہے۔ ان لوگوں کے برعکس دوسرے گروہ میں ایسے لکھنے والے تھے جن میں بغاوت کی آگ تیز تھی۔ ان میں سے بعض ’غصہ ور نوجوانوں‘ کی ذیل میں آتے تھے، اور بعض کی ذہنی ساخت ایسی تھی کہ وہ کہانی کے روایتی ڈھانچے سے شدید طور پر ناآسودہ تھے اور اس کی ہیئت کو یکسر بدل دینا چاہتے تھے۔ ان کا شعور و احساس اس نوعیت کا تھا کہ انھوں نے کہانی کے روایتی ڈھانچے کو از کار رفتہ اور فرسودہ پایا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی داخلی آگ اور باغیانہ رویوں کا ساتھ دینے کے لیے سانچوں کے تجربے کیے اور اظہار و اسالیب کے نئے نئے وسیلوں کو اپنایا۔ ان میں انور سجاد، بلراج مینرا، سریندر پرکاش، احمد ہمیش، دیویندر اسّر، خالدہ اصغر، کمار پاشی، انور عظیم اور بلراج کومل کے نام خصوصیت سے نمایاں تھے۔ اگرچہ ان سے پہلے بھی علامتی یا استعاراتی اظہار کی اکّا دکّا مثالیں موجود تھیں، لیکن افسانے میں علامتی، تجریدی اور تمثیلی رنگ کو ایک رجحان کی شکل ساتویں دہے میں ان ہی نوجوانوں نے دی۔
قطعِ نظر اس رجحان کے آزادی کے بعد اردو فکشن کی دنیا میں دو ایسے نام بھی ابھر چکے تھے جنھوں نے اپنی انفرادیت بتدریج سب سے الگ تسلیم کرالی، اور اپنے تخلیقی جوہر سے اس حد تک امتیازی حیثیت حاصل کرلی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دو نام ہندوستان اور پاکستان میں اردو فکشن کے معیار اور اعتبار کا درجہ حاصل کرگئے اور ایسا باغیانہ عناصر کے باوصف اور ان کے پہلو بہ پہلو ہوا۔ ان میں قرۃ العین حیدر آزادی سے پہلے لکھ رہی تھیں اور انتظار حسین نے بعد میں لکھنا شروع کیا، لیکن ان دونوں کی انفرادیت اپنی اپنی جگہ اس درجہ مکمل ہے کہ ان کا نام کسی دوسرے رجحان کی ذیل میں یا کسی گروہ کے ساتھ لینا نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ اور تو اور ان دونوں کا نام ایک ساتھ لینا بھی مناسب نہیں کیونکہ دونوں کے فنی امتیازات اور تخلیقی بصیرت بالکل الگ الگ ہے، اور یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں کے فن کی پہچان تقسیم کے تہذیبی المیے سے پیدا ہونے والے مسائل کے ذریعہ ہوئی۔ دونوں کے یہاں نسلی اور لاشعوری اثرات کی کارفرمائی دیکھی جاسکتی ہے۔ لیکن دونوں کی افتاد ذہنی، تخلیقی مزاج اور اظہار و اسلوب کے پیرایے بالکل الگ الگ ہیں۔ قرۃ العین حیدر صدیوں کے رشتوں، ماضی کی بازیافت اور وقت کے تسلسل کو گرفت میں لینے میں اپنی نظیر نہیں رکھتیں۔ انتظار حسین کا فن فضا آفرینی کا فن ہے۔ وہ ماضی کی روح اور انسانی وجود کے اس حصے کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو کٹ کر ماضی میں رہ گیا ہے، اور جس کے بغیر انسانی وجود مکمل نہیں۔ وہ کہانی کی Oral روایت کی بازیافت کرتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کا کینوس بے حد وسیع ہے۔ وہ برصغیر کے مشترکہ کلچر، بھگتی تحریک، مغلوں اور سلاطین دہلی کے زمانے کی باطنیت سے بھی پہلے گپتاؤں اور بودھوں اور کوروؤں و پانڈوؤں اور آریوں کے تہذیبی و نسلی اختلاط اور شعوری و لاشعوری رشتوں کی تخلیقی بازیافت کے وسیلے سے زندگی کے المیے اور اس کے ازلی اور بنیادی سوالات کو اظہار کی زبان دیتی ہیں۔ وقت کا تصور، اس کی پراسراریت اور اس کا جبر ان کا مرکزی موضوع ہے۔ عہدِ وسطیٰ کی روح سے ہم کلامی کے لیے داستانوں کی زبان کے اجزا اور کلاسیکی ایرانی عنصر سے بھی انھوں نے کام لیا ہے اور قدیم کرداروں اور بے روح اشیا کو علامتوں کے طور پر بھی برتا ہے۔ داستانوں کا حکایتی عنصر اور اساطیر کی معنیاتی بازیافت انتظار حسین کے فن کا حصہ ہے۔ یہ ان کی تکنیک اور اسلوب میں گرم خون کی طرح جاری و ساری ہے اور ایک تمثیلی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ انتظار حسین اس کا رشتہ آج کے انسان کی آگہی آشنا بے بسی، ذہنی آوارگی اور باطنی خالی پن سے ملاتے ہیں۔ ان کے مکالماتی، فطری، سبک اور ہموار اسلوب میں کتھا یا حکایت کے کہے یا بولے جانے والے بے ساختہ آہنگ اور بہاؤ کی کیفیت ہے۔
آزادی کے بعد بیس پچیس برسوں کا زمانہ اردو افسانے میں عجیب دھماکوں اور بحثوں کا زمانہ رہا ہے۔ پریم چند کے آدرش وادی اور اخلاقی انسان کی روایت پہلے ہی رد ہوچکی تھی۔ اب کرشن چندر کا رومانی انقلابی انسان بھی پیچھے رہ گیا، منٹو رخصت ہوچکے تھے، بیدی کو پا لینا آسان نہ تھا، اس لیے کہ ’اپنے دکھ مجھے دے دو‘ اور ’ایک چادر میلی سی‘ جیسے فن پاروں کے ذریعے بیدی نے انسان کے زمانی اور لازمانی رشتوں میں جو ربط تلاش کیا تھا اور براہ راست و استعاراتی انداز بیان کا جو فطری استحلال کیا تھا اس پر وجد تو کیا جاسکتا تھا لیکن اس کے اسرار کی تہہ تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ بیدی کی جمالیات آفاقی اور ہموار نوعیت کی تھی، زندگی کے چھوٹے چھوٹے دکھ سکھ کی بظاہر سیدھی لیکن بباطن گہری ترجمانی کی جمالیات، جبکہ منٹو کی جمالیات چیلنج کی باغیانہ جمالیات تھی، زندگی کے تاریک اور گھناونے پہلوؤں کی بے باک ترجمانی کی۔ نئی نسل بھی چونکہ نام نہاد اخلاقی ضابطوں سے باغیانہ گریز کی ترجمان تھی، نیز تنہائی کی دہشت زدہ اور حسن کی نئی جمالیات کی متلاشی تھی، اس لیے منٹو ہی اس کا نقطۂ آغاز ہوسکتا تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح پریم چند کی کہانی ’کفن‘ ترقی پسندوں کا نشانِ راہ قرار پائی، اسی طرح منٹو کی ’بو‘ اور ’پھندنے‘ جدید افسانے کا سنگ میل سمجھے گئے۔ یہ دوسری بات ہے کہ پریم چند نے ’کفن‘ میں سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کو جس عمدگی سے فن کے تقاضوں سے آمیز کیا تھا، بعد میں اس سے آگے بڑھنا تو کجا، اس معیار کو برقرار بھی نہ رکھا جاسکا، اور خارجی تقاضوں اور فارمولوں کے تحت اختیار کی ہوئی رومانیت و جذباتیت نے کہانی کو نقصان پہنچایا۔ اس کے برعکس یہ بھی صحیح ہے کہ نئی نسل نے پریم چند کی آدرش وادی ذہنیت کو کتنا ہی کیوں نہ رد کیا ہو، ’کفن‘ کو کبھی نہیں ٹھکرایا۔ البتہ باغیانہ لے اور روایتی سانچوں سے انحراف کے معاملے میں نئی نسل کا رشتہ ’کفن‘ کے پریم چند کی بہ نسبت ’بو‘ یا ’پھندنے‘ کے منٹو سے زیادہ فطری تھا۔ نئی کہانی انحراف سے زیادہ اجتہاد اور انقطاع کے لمحوں کی پیداوار تھی۔ نئے افسانہ نگار فکر و احساس اور اظہار و اسلوب کے یکسر نئے مسائل سے دوچار تھے۔ ان کے دلوں میں ایک انجانا کرب، ایک عجیب خلش اور نئی آگ تھی جو ان کے پورے وجود کو جلائے دے رہی تھی۔ خوابوں کی شکست، سائنس کی تکنیکی جیت لیکن روحانی ہار، فرد کی بے بسی، وقت کی گزراں نوعیت لیکن تسلسل، وجودی ذمہ داری کی دہشت، باطن کے اسرار کے تجسس، انام رشتوں کی نوعیت کی پہچان، شخصیت کے زوال، اور آگہی کے آشوب سے بچنے کی جستجو، یہ اور ان سے ملتے جلتے عوامل نے افسانہ نگاروں سے جلاوطن، ہاؤسنگ سوسائٹی، سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات (قرۃ العین حیدر)، آخری آدمی، زرد کتا، کایا کلپ (انتظار حسین)، کمپوزیشن چار، وہ (بلراج مینرا)، رسائی، بازیافت (جوگندر پال)، ندی (عبداللہ حسین)، موم کی مریم (اسد محمد خاں)، مکھی (احمد ہمیش)، پرایا گھر (جیلانی بانو)، پرندے کی کہانی، کونپل (انور سجاد)، آنگن، قبر (رام لعل)، دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم، رونے کی آواز، بدوشک کی موت، برف پر مکالمہ (سریندر پرکاش)، سواری، ایک بوند لہو کی (خالدہ اصغر)، مردہ گھر (دیویندر اسّر)، پرندہ پکڑنے والی گاڑی (غیاث احمد گدّی)، کنواں (بلراج کومل)، صد سطری حکم نامہ (کمار پاشی)، تصویر بے مفہوم کی (راج ابے)، لمحے کی موت (غلام الثقلین)، جیسی بحث انگیز کہانیاں لکھوائیں جو ترقی پسند افسانے سے بالکل مختلف ہیں، اور جن کے بغیر پچھلے پچیس تیس برسوں کے افسانوی ادب کی پہچان ممکن نہیں۔ ان میں کئی جگہ شعور کی لپک الگ ہوگئی ہے۔ نہ زمان و مکان کا اگلا سا تصور ملتا ہے نہ کردار کا، نہ مکالمے کا اور نہ پیشکش کا، نہ وقت کا اور نہ بیان کے روایتی تسلسل کا۔ حسیت، تخلیقیت اور استعاریت و تجریدیت کے اعتبار سے ان کہانیوں میں روایت سے انحراف مکمل ہے، شعورِ حقیقت کے ادراک کا بھی اور پیرایۂ اظہار کا بھی۔ بعض کہانیاں علامتی ہیں بعض تجریدی، بعض تمثیلی، اور بعض فنطاسیہ معلوم ہوتی ہیں۔ بعض لکھنے والوں نے کہانی کے فرسودہ ڈھانچے سے نجات حاصل کرنے کے عمل کو اینٹی اسٹوری تک پہنچا دیا۔ انھوں نے ان کھردرے اور بھیانک بے نام حقائق اور تصورات کو بھی چھونے کی کوشش کی جو اس سے پہلے افسانے میں نہ تھے۔ ان افسانہ نگاروں کے سامنے غلط یا صحیح ایک تصور یہ بھی تھا کہ نئی کہانی سے کہانی پن کو ختم کردینا چاہیے یا نئے اردو افسانے کا سفر مختصر افسانے کی موت سے شروع کرنا چاہیے۔ ان واہموں سے قطع نظر جوہر بغاوت میں پائے جاتے ہیں، ان افسانہ نگاروں کی کوششوں سے اردو افسانہ ایک بالکل نئی معنوی دنیا میں داخل ہوا، ایک نیا داخلی اور روحانی منظرنامہ سامنے آیا اور پورے آدمی، اس کے دکھ درد، اس کی الجھنوں اور امنگوں، آرزوؤں، مایوسیوں اور اداسیوں کی عکاسی کی گئی۔ اگرچہ تجریدی کہانیاں کم لکھی گئیں اور علامتی، استعاراتی اور تمثیلی زیادہ، لیکن افسانوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ زبان کے تخلیقی استعمال کے اعتبار سے کہانی کی زبان شاعری کی زبان سے قریب تر ہوگئی، یعنی علامت یا تمثیل کے ذریعے لفظوں کو ان کے مروجہ یا عام معنی سے ہٹے ہوئے گہرے معنی میں استعمال کرنے یا استعارے، کنایے اور رمز و اشارے کے وسائل سے کام لینے کی روش عام ہوگئی۔ چنانچہ اظہاری سطح پر استعاریت اور علامتیت اور ظاہری ساخت (Surface Structure) کے نیچے داخلی ساخت (Deep Structure) کی معنیاتی موجودگی، نئی حسیت اور نئے افسانے کی پہچان قرار پائے۔
نئے افسانے کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ آٹھویں دہے میں نئے لکھنے والوں کی ایک پوری کھیپ سامنے آچکی ہے۔ احمد یوسف، مسعود اشعر، قمر احسن، شوکت حیات، ظفر اوگانوی، حسین الحق، رشید امجد، صغرا مہدی، رضوان احمد، علی باقر، حمید سہروردی، سلام بن رزاق، کنور سین، سائرہ ہاشمی، انور قمر، علی امام، شفق، انور خاں، فیاض رفعت، اکرام باگ، بشیر باگ، سید محمد اشرف، طارق چھتاری، شفیع جاوید، انیس رفیع، ساجد رشید، محمد منشا یاد، مرزا حامد بیگ، طاہرہ نقوی اور کئی دوسرے۔ ان میں سے بعض نام زیادہ نمایاں ہیں، بعض کم۔ بعض کے مجموعے سامنے آچکے ہیں، بعض کے نہیں۔ بعض تخلیقی توانائی سے متصف ہیں بعض عاری۔ بعض استعاراتی کہانی کے فن کو سمجھتے ہیں بعض نہیں۔ بعض کے یہاں جزوی تبدیلیاں نظر آتی ہیں، بعض کے یہاں کچھ بھی نہیں، بعض تخلیق کے خارجی اور داخلی رشتوں میں ہم آہنگی اور نئے انسان کے شخصی اور سماجی مسائل کے تئیں بیدار ذہنی کے دعوے دار ہیں، بعض نسبتاً خاموش ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر یہ تمام لکھنے والے ایک بجھے ہوئے الاؤ کے گرد بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، بغاوت کی آگ ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ ان کے یہاں روایت سے انحراف کا مسئلہ اتنی باغیانہ شدت لیے ہوئے نہیں، جیسا کہ پندرہ بیس برس پہلے تھا۔ اس لیے ان سے کسی بڑی جست کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ یوں بھی ہر نئی نسل پچھلی نسل سے انحراف کرتی ہے اور اس سے پہلے کے ادب کی بازیافت کرتی ہے۔ پس چونکہ پچھلی نسل شدید طور پر باغیانہ تھی، اس لیے ممکن ہے کہ جدید تر نسل کا انحراف کسی نہ کسی اعتدال کی تلاش میں ہوگا، اور یہ فطری بھی ہے لیکن اس وقت جو بات تشویش ناک ہے، وہ اوسط درجے کی ذہنیت (Mediocrity) کی یلغار ہے، جس کے باعث علامتی اور تمثیلی کہانی کے مقلدین کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ ان کے ہاتھوں اس کہانی کے مستقبل کو شدید خطرہ درپیش ہے۔ اب علامتی تمثیلی کہانی بھی ایک فیشن اور فارمولا بن گئی ہے اور بہت سے نئے لکھنے والوں نے اسے رواجاً اختیار کر رکھا ہے۔ اس سے اس رجحان کے بنیادگذاروں کی تخلیقیت اور نئی کہانی دونوں کو نقصان پہنچا ہے۔
نئے افسانہ نگار بعض غلط فہمیوں کا شکار ہیں، اور غلط فہمیوں کا ازالہ بے حد ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہی بات غلط ہے کہ نئے افسانے کا سفر مختصر افسانے کی موت سے شروع ہونا چاہیے۔ یہاں مختصر افسانے سے عموماً غلط معنی مراد لیے جاتے ہیں۔ ہمارے افسانہ نگار یہ بھول جاتے ہیں کہ مختصر افسانے میں ان کا انحراف کس چیز سے تھا، ترقی پسندی کی خطیبانہ رومانیت، جذباتیت اور فارمولازدہ کہانی سے، ٹائپ کی سطحیت سے، اخلاقی آدرشوں کے کھوکھلے پن سے، نظریہ بازوں کی اشتہاریت سے، اور خارجی تقاضوں کے تحت زندگی کی ادھوری، سطحی اور یک طرفہ ترجمانی سے، یا اجتماعی لاشعور کے نہاں خانوں میں پڑی بھولی بسری کتھا اور کہانی کی روایت سے بھی، جو انسان کے صدیوں کے تجربوں اور ان سے حاصل ہونے والی دانش کا نچوڑ پیش کرتی ہے، انسان کی ازلی اور ابدی الجھنوں کو آئینہ دکھاتی ہے اور اس کی فطرت کے بھیدوں کو فاش کرتی ہے۔ یہ یاد رہنا چاہیے کہ ادب میں کتنی اور کیسی ہی تبدیلیاں کیوں نہ آئیں، ادب کا گہرا رشتہ ہمارے اجتماعی لاشعور کے صدیوں پرانے تقاضوں، نسلی اثرات اور تہذیبی مزاج و افتاد طبع سے ضرور رہے گا۔ چنانچہ ایک ایسے معاشرے میں جو پنچ تنتر اور کتھاسرت ساگر کی دھرتی سے تعلق رکھتا ہو اور جس کی ذہنی تشکیل میں الف لیلیٰ، طلسم ہوش ربا اور حکایات گلستاں کا حصہ بھی رہا ہو، نیز جو زمانۂ قدیم سے قصے، کہانی، حکایت اور داستان کا رسیا رہا ہو اور جس میں کہانی کی روایت کتھا اور حکایت سے جڑی ہوئی ہو، اس میں کہانی کتنی ہی نئی کیوں نہ ہوجائے، وہ کہانی پن سے کلیتاً دامن کیسے چھڑا سکتی ہے۔ ایسا کرنے سے خدشہ ہے کہ خود کہانی کو نقصان پہنچے گا۔ چنانچہ اردو میں اس وقت یہی ہورہا ہے۔ بلاشبہ شاعری میں جب مذاق بدلے گا تو ذوق کی تربیت کا تقاضا کیا جائے گا، لیکن کہانی میں اظہار کے مسائل خواہ علامتی ہوں یا استعاراتی، کہانی کا کہانی کے طور پر پڑھا جاسکنا بنیادی بات ہے۔ مثال کے طور پر اس دور کی کسی اہم کہانی کو لیجیے جس میں زندہ رہنے کی صلاحیت ہے خواہ وہ قرۃ العین حیدر کی ’ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی‘ ہو یا انتظار حسین کی ’کایا کلپ‘، مینرا کی ’وہ‘ سریندر پرکاش کی ’بدو شک کی موت‘، انور سجاد کی ’کونپل‘، جوگندر پال کی ’رسائی‘، خالدہ اصغر کی ’سواری‘ یا بلراج کومل کی ’کنواں‘ تو ایسی تمام کہانیوں میں یہ خوبی ملے گی کہ یہ علامتی و تمثیلی کہانی کے اعلیٰ صنفی تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہیں اور ان میں اپنی صنف بیانیہ کی پہچان بھی ہے۔ ان کہانیوں کو، قطع نظر ان کے استعاراتی یا تمثیلی نظام یا تخلیقی معنویت کے، ایک عام کہانی کے طور پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن کتنی نئی کہانیاں اس معیار پر پوری اترتی ہیں۔ میرے نزدیک کہانی سے کہانی پن کا اخراج غیرافسانوی عمل ہے اور اس کی مذمت کرنی چاہیے۔ البتہ کہانی سے غیرضروری رومانیت، جذباتیت یا فارمولا اندیشی کا اخراج تخلیقی عمل کا لازمہ ہے۔ کتنے نئے افسانہ نگار یہ سوچتے ہیں کہ بحیثیت کہانی کار کے ان کی اصل ذمہ داری کیا ہے۔ علامت یا تمثیل ذرائع ہیں احساس حقیقت کے اظہار کے، یہ فن کی ایک سطح ہیں کل فن نہیں۔ اگر تجربے کی شدت یا احساس کی پیچیدگی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ اظہار علامتی و تجریدی ہو، یعنی اس کے بغیر بات کہنی ممکن ہی نہیں، جیسا چھٹے و ساتویں دہے کے بعض افسانہ نگاروں کے یہاں تھا، نیز جو ان کی طرح استعاراتی و علامتی اظہار پر قادر بھی ہوں، توفبہا، ورنہ کیا ضروری ہے کہ ہر کس و ناکس علامتی تمثیلی انداز میں کہانی لکھے۔ موضوع یا احساس کی بنا پر یا سوچنے کے رویے کے تقاضے کے طور پر یعنی اگر تخلیقی جواز ہو تو علامتی پیرایۂ بیان ناگزیر تسلیم کیا جاسکتا ہے، ورنہ اگر ہر بوالہوس حسن پرستی شعار کرنے لگے تو آبروے شیوۂ اہلِ نظر کا جاتے رہنا سامنے کی بات ہے۔ چنانچہ ہر افسانہ نگار کو بغیر کسی تجرباتی یا تخلیقی جواز کے علامتی انداز اختیار کرنا نئے افسانے کے حق میں مضر ثابت ہورہا ہے۔ یہ بھی خاطر نشاں رہنا چاہیے کہ صرف شدید طور پر تخلیقی تناؤ (Tension) میں جکڑا ہوا ذہن ہی استعاراتی و تمثیلی وسائل کو فنی اعتبار سے اطمینان بخش طریقے پر برت سکتا ہے، ورنہ کہانی الفاظ کا گورکھ دھندا ہوکر رہ جاتی ہے، اور اپنا منھ چڑانے لگتی ہے۔ مختلف الجہات استعاروں کے ذریعے یا علامتی و تمثیلی پیرایے میں محسوسات یا تجریدات کو اس طرح بیان کرنا کہ کہانی کا حق بھی ادا ہوجائے اور استعاراتی معنویت بھی ابھر آئے، ہر لکھنے والے کے بس کی بات نہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ نیا افسانہ لکھنا نہایت آسان ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افسانہ لکھنا شعر کہنے سے زیادہ مشکل ہے۔ ان دنوں اس بات سے تکلیف ہوتی ہے کہ مقلدین کی بھیڑ میں ان لوگوں کی آواز بھی کھو سی گئی ہے جنھوں نے اردو افسانے کو نئے تجربوں کی تازگی دی تھی اور اسے نئی منزلوں کی طرف بڑھایا تھا۔ موجودہ حالات میں اس بات پر ضرور غور کرلینا چاہیے کہ اگر نئی کہانی کہانی نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہے؟ بعض حضرات تو اس کا کوئی دوسرا ’اچھا سا‘ نام ڈھونڈتے پھرتے ہیں کیونکہ ایسی ناپخت تحریروں کو نہ کہانی کہا جاسکتا ہے نہ انشائیہ، اگرچہ ایسے افسانوں میں جو کوشش ملتی ہے، وہ انشاپردازی ہی کی ذیل میں آتی ہے۔ دراصل تقلید کے جوش میں یاروں نے بستیاں بہت دور بسا لی ہیں اور کہانی کے بنیادی تقاضوں ہی کو فراموش کردیا ہے یا پیرایۂ اظہار یا وسیلۂ بیان ہی کو مقصود بالذات سمجھ لیا ہے۔ اردو افسانے میں اس وقت زیادہ تعداد ایسے لکھنے والوں کی ہے، جن کے فکر و احساس میں چونکہ تازگی کی آگ نہیں، اس لیے ان کے پاس نئے تجربوں کے فنی ادراک پر قادر تازہ کار نظر بھی نہیں۔ استعاراتی یا علامتی اظہار لفظوں، علامتوں، یا مجردات کا ڈھیر لگانے کا نام نہیں، نہ ہی یہ صنعتِ اہمال میں لفظوں کے بے ہنگم استعمال کا نام ہے۔ ایسی تحریروں کو نہ افسانہ کہا جاسکتا ہے نہ انشائیہ نہ کچھ اور۔ ایسی تحریروں کو کوئی ادبی درجہ دینا بھی شاید ادبی دیانت داری کے خلاف ہوگا۔ ان حضرات سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ علامتی و تمثیلی طریقۂ اظہار اختیار کرنے کے بجائے سیدھی سادی واقعہ نگاری کی کہانی لکھیں، کیونکہ علامتی یا تمثیلی کہانی ہی تو کل کہانی نہیں۔ سیدھی سادی کہانی کی گنجائش بہرحال ہمیشہ رہے گی، کیونکہ یہ زندگی اور انسانی فطرت کے ایک بنیادی تقاضے کو پورا کرتی ہے، اور اس کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔ علامتی، استعاراتی کہانی صرف ان فنکاروں کے لیے ہے جن کے تجربات یا حسی رویے بالواسطہ (Oblique) یا استعاراتی پیرایۂ بیان کا تقاضا کرتے ہوں یا جن کے پاس کہنے کو کچھ ایسی بات ہو جو بیانیہ کے کسی دوسرے انداز میں نہ کہی جاسکتی ہو، ورنہ دوسروں کے لیے واقعاتی بیانیہ (Narrative) کی وسیع دنیا ہے جس کو نظرانداز کرنے سے کہانی کو بھی اور زبان کو بھی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
(1980)

