یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے جبکہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ 21 مارچ 1948ء میں اپنے پیرانی سالی کے باوجود براہ راست ڈھاکہ کا سفر طے کرکے وہاں جلسہ میں اعلان کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔
قائد اعظم بلا شک و شبہ ایک عظیم عبقری شخصیت کے حامل تھے لیکن وہ بالاخر انسان ہی تھے، کوئ پیغمبر نہیں۔ پورے قوم کو جوڑنے کیلۓ واحد قومی زبان ضروری نہیں۔ ہاں مختلف صوبے کے ما بین مختلف اردو انگریزی کی طرح قومی رابطہ کی زبان کی حیثیت رکھ سکتی ہے۔ مختلف لسان و نسل و مذہب ایک ہی پرچم کے تحت اپنی متنوع اقدار و تہذیب و ثقافتیں کے ساتھ ساتھ با فخر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ مشرقی پاکستان بنگال کے باشندے کی تعداد پورے پاکستان کی آدھی کے مساوی یا اس سے کچھ زیادہ تھیں اسلئے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان کے بننے کے بعد اسکے سیاہ تاریخ میں سنہ 1952ء تحریک لسان بنگلہ کی مہم چلائی گئی تھی، سانحہ سب کو معلوم ہے جبکہ مشرقی بنگال میں جامعہ ڈھاکہ کے طلبہ واحد اردو قومی سرکاری دفتری زبان ہونیکی خلاف میں احتجاج و مظاہرہ کئے، انکا مطالبہ تھا کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ زبان کو بشمول بنگالی رسم الخط سرکاری دفتری معاملات میں فروغ حاصل ہو، حکومت وقت کی طرف سے رد عمل میں ان مظاہرین پر گولیاں چلائیں گئیں تھیں جسے کئ اموات ہوئیں اور اسکے تئیں ملک بھر اشتعال انگیزی پھیل گئی۔ بالاخر 1956ء میں بنگلہ زبان کو قومی سرکاری حیثیت منظوری دینی پڑی لیکن اس لمبی مدت تک پیہم مظاہرے و حکومت کے سوء رد عمل کے بنا پر بنگالی قومی تشخص پیدا ہوگئی اور باقی تاریخ شاہد ہے سقوط ڈھاکہ تک۔ ابھی بھی بنگلہ دیش میں 1952ء کے سانحہ مقتول شہید طلبہ کے یاد میں ہر سال 21 فروری کو یوم تحریک زبان یا شوہید دیبوش (یوم شہداء) ایک اہم قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اور آج بھی بین الاقوامی سطح پر بھی ہر سال اسی روز کو عالمی سطح پر، حتی کہ پاکستان میں بھی، بین الاقوامی یوم مادری زبان سے منایا جاتا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں دلی کے بزرگ دوست:سلیم شیرازی- ڈاکٹر عمیر منظر )
بہر کیف، اردو کو قومی رابطہ زبان کا درجہ کی حیثیت دینے کے ساتھ ساتھ دوسرے متنوع زبانوں کو صوبائی دستوری مقامی زبان کا فروغ دینے میں کوئی تضاد نہیں۔ اردو و انگریزی کے ساتھ اگر صوبائ حکومت صوبائ سطح پر دستوری زبان مثلاً سندھ میں اردو انگریزی کے ساتھ ساتھ سندھی زبان، یا کراچی جیسی میٹروپولیٹن شہر کی سطح پر اردو سندھی کے ساتھ بنگلہ زبان بھی استعمال کرے، پنجاب کی حکومت اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان لائے، بلوچستان کے حکومت قومی وفاقی زبان کے ساتھ ساتھ اگر بلوچی لائے، خیبر پختونخواہ والے اپنے صوبائ علاقائ سطح پر وفاقی اردو کے ساتھ دستوری زبان پشتو و فارسی کو عمل میں لاۓ تو کیا حرج ہے؟ دوسرے ممالک کے مثالیں ہمارے سامنے نظر عیاں ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت ہندوستان کے علاوہ، ترقی مختلف ممالک جیسے کینیڈا، سوئٹزرلینڈ، جنوبی افریقہ وغیرہ میں بھی دو یا دو سے زائد تین چار زبانیں انگریزی و فرانسیسی و جرمنی زبانیں بیک وقت مساوی درجہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کینیڈا میں ہر جگہ انگریزی کے ساتھ فرانسیسی نظر آئیں گے۔ وسعت نظر و بردباری سے کام لینی چاہئیے، تنگ نظری سے نہیں۔ متنوع زبان سے اردو کمزور نہیں ہوگی بلکہ متنوع لسان و اقدار سے قومی رابطہ زبان کو تقویت و استحکامیت جلوہ نما ہوگی۔
اور یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہو کہ اگر قائد اعظم محمد علی جناحؒ اردو کو قومی زبان قراد بھی دیا وہ تو صرف بحیثیت رابطہ زبان، قومی وفاقی سطح پر ہے۔ انہوں نے کب منع فرمایا صوبائ علاقائ سطح پر صوبائی سرکاری زبان نہیں ہوسکتی؟ وفاقی و صوبائ میں کوئی تناقض نہیں۔
اسماعیل سید
لندن، بریطانیہ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |