پریم چند کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگار وں میں ہوتا ہے۔ انہیں فکشن کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے فن پاروں میں سماج کے بنیادی مسائل، دبے کچلے لوگوں اور مذہبی قدامت پسندانہ رویے کے جبر کو پیش کیا ہے۔ پریم چند نے دیہات کو اپنے افسانوں کا محور ومرکز بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے افسانوں میں غریب، عورتوں، سماج میں نچلی ذات کے لوگوں اور بیوگان پر ہورہے ظلم و استحصال کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ساتھ ہی ذات پات ، سماجی و معاشی جبر کی پر زور طریقے سے مخالفت کی ہے۔ جب کہ ذات اور برادری کی تقسیم ابتدا میں معاشی بنیادوں اور پیشہ ورانہ ہنرمندیِ وراثت کے طور پر ہوتی رہی ہے۔ مدت مدید کے بعد پیشے مخصوص برادری کا مستقل کام قرار پایا اور پھر سماجی تقسیم اعلیٰ اور ادنیٰ کی ہوگئی۔ یہیں سے ذات برادری کی تفریق ، چھوت چھات کا تصور اور اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز کی جانے لگی ۔اس تعلق سے ایم این سری نواس نے اپنی کتاب ’جدید ہندوستان میں ذات پات ‘صفحہ ۹۲؍پر لکھتے ہیں۔
’’پروشا سکتا کی حمد میں سماج کے چار طبقوں کا ذکر ملتا ہے جو آفرینش یا اصل (یعنی خالق) کی قربانی کی وجہ سے وجود میں آیا تھا۔ چار طبقوں (ذاتوں) کے جو نام دیئے گئے ہیں وہ یہ ہیں: برہمن ، راجن، ویش اور شودر، برہمن خالق کے مند سے چھتری بازو سے ویش ران سے اور شودر پیر سے پیدا ہوئے۔‘‘
پریم چند نے ستی پرتھا اور طلاق جیسی قبیح رواج جو صدیوں سے چلی آرہی تھی ان کے خلاف لکھا ہے۔ انھوں نے سماج کے ان استحصالی ذہنوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی ہے جو ہمیشہ سے عورتوں کو اپنے استحصال کا شکار بناتے رہے ہیں۔ انہوں نے زمیندارانہ نظام اور مہاجنی استحصال نظام کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔
پریم چند نے اپنے افسانوں میں سماج میں پھیلی ہوئی ان تمام ناہمواریوں کی عکاسی کی ہے جنہیں انہوں نے اپنی نظر سے دیکھا ہے۔ وہ بڑے نباض تھے یہی وجہ ہے کہ انھوںنے سماج میں درآئی ہر چھوٹی بڑی برائی کی اپنے افسانوں میں عکاسی کی ہے۔ وہ سماج کی اصلاح چاہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ترقی پسندانہ رجحان کے افسانہ نگار تھے۔
منشی پریم چندنے معاشرے کی صورتِ حال ، طبقاتی تفریق اور اس جیسے بیشتر مسائل کی جانب کس خوبی سے توجہ دی ہے وہ ایک بڑی خوبی ہے۔ ان کے ہم عصر افسانہ نگار لطیف الدین احمد لکھتے ہیں:
’’معاشرے کی ناہمواریاں اور تضاد بیان کرکے لطیف طنز بھی کرجاتے ہیں۔ منشی جی کے کردار ذہنی اعتبار سے زیادہ بلند نہیں ہوتے لیکن ان کے منہ سے وہ اس طرح زندگی اور معاشرے کے فلسفوں کے نازک پہلوئوں کی سادگی سے بیان کردیتے کہ کس طرح غیر متناسب بات معلوم نہیں ہوتی۔ میں اسے مشاہدے کے ساتھ مصنف کے احساس اور اظہار کا کمال سمجھتا ہوں۔ ‘‘ (زمانہ، کانپور، مارچ ۔ ۱۹۳۸ء)
پریم چند نے اپنے اولین افسانے مثلاً ’’زمانہ‘‘ ، ’’ہنس‘‘ اور ’’شکوہ شکایت‘‘ میں شوہر اور بیوی کے درمیان ذہنی کش مکش کی بھرپور عکاسی ہے۔ اسی طرح افسانہ ’’دوسکھیاں‘‘ ، ازدواجی زندگی میں محبت کی متلاشی بیوی کی داستان معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانہ ’’ستی‘‘ میں مذہبی قدامت پسندانہ رویے کی عکاسی کی ہے۔
اس افسانے میں انھوں نے ایسی عورت کی عکاسی کی ہے جو شوہر پرستی کے جذبے سے سرشار ہونے کے ساتھ خلوص و محبت کی دیوی ہے۔ مگر سماجی نابرابری کی وجہ سے میان بیوی کے باہمی تعلقات ایسے نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کو برتر تسلیم کرسکیں۔ ( یہ بھی پڑھیں فاروقی کی افسانہ نگاری کے خلاف- رحمٰن عباس )
اس افسانے میں ملیاکی اپنے شوہر کے تئیں وفاداری اور محبت و خلوص کی جیتی جاگتی داستان بیان کی ہے، وہیں سماج میں دیور جیسے ناپاک نیتوں کی علامت تصور کیا جاتا ہے ملیا کا دور راجہ بھی اس کی زندہ مثال ہے۔ راجہ نے اپنے بھائی کی موت کے بعد ملیا کو اپنی ہوس کا شکار بنانا چاہتا ہے مگر ملیا کی نیت ایسی نہیں ہوتی وہ اپنے شوہر کے تئیں وفادار ہے۔ لہٰذا ملیا اپنے دیور کی ناپاک نیت کے جواب میں جو مکالمہ کرتی ہے اس سے اس کی وفاداری کھل کر سامنے آجاتی ہے۔:
’’لالہ تمہارے پیر پڑتی ہوں مجھے مت چھیڑو۔ یہ ساری مصیبت تمہاری لائی ہوئی ہے۔ تمہیں میرے دشمن ہو پھر بھی تمہیں شرم نہیں معلوم ہوتی، کہتے ہو بھیا کس کام کے ہیں مجھے تو اب پہلے سے زیادہ اچھے لگتے ہیں۔‘‘
’’… بھیا نہیں رہے تو کیا ہوا بھیا کی یادی تو ہے میرے لیے، وہ اب بھی ویسے ہی جیتے جاگتے ہیں۔ پیسے کی قدر کیا جانیں… گھروالی کو مرے ابھی چھ مہینے بھی نہیں ہوئے اور سانڈ بنے پھرتے ہو تم مرگئے ہوتے تو اس طرح وہ بھی اب تک کسی کے پاس چلی گئی ہوتی… تم جیسے شہدوں کی قسمت میں دوسروں کا جھوٹا کھانا ہی بدا ہے… آج سے میرے گھر میں پاؤں مت رکھنا نہیں تو جان سے ہاتھ دھوؤگے۔‘‘
(’’ستی‘‘ مجموعہ آخری تحفہ، پریم چند، ص:۱۵۰۔۴۹۱)
اسی طرح انہوں نے اپنے افسانہ ’’برات‘‘ میں بیوی اور شوہر کی ذہنی اور سماجی کشمکش کی عکاسی کی ہے۔ اس افسانے میں دیوناتھ اور پھول وتی دونوں متضاد جبلت اور فکر کے ہوتے ہیں، اس وجہ سے ان دونوں کے درمیان نباہ مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ شوہر دوسری شادی کی تیاری کرلیتا ہے، سماج کے اس عام رویے اور فکر کو پریم چند نے خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے اور زوجین کے سماجی مسائل اور ان کے ذاتی رشتوں کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ کیوںکہ پریم چند ستی اور دوسری شادی کی رسم کو کسی طور پر پسند نہیں کرتے اور ہندو سماج میں طلاق کی آزادی بھی انہیں پسند نہیں تھی۔
اس افسانے میں پریم چند نے میاں اور بیوی کے درمیان تہذیبی ٹکڑاؤ اور کشمکش کو پیش کیا ہے۔ اور ازدواجی زندگی میں اعتدال پسندی کے اس رویے کو پیش کیا جس کے سہارے نباہ آسان ہوسکے اور جب زوجین کے درمیان بے اعتدالی ، شدت اور انتہا پسند آجاتی ہے تو زندگی میں بکھراؤ آجاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر دو زندگیاں دو الگ سماج کی داستان روح فرسا بن جاتے ہیں۔ پریم چند باہمی اتحاد و اتفاق اور اعتماد پسندی کے اس رویے کو پیش کیا جس کے سہارے نباہ آسان ہوسکے اور جب زوجین کے درمیان بے اعتدالی ، شدت اور انتہاپسند آجاتی ہے تو زندگی میں بکھراؤ آجاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر دو زندگیاں دو الگ سماج کی داستان روح فرسا بن جاتے ہیں۔ پریم چند باہمی اتحاد و اتفاق اور اعتماد باہمی پر زور دیتے ہیں۔
’’اس بدمزگی کاباعث کیا تھا، معاشرتی معاملات میں اختلاف۔ دیو کی ناتھ پرانی تہذیب کے قائل تھے۔ پھول وتی نئی روشنی کے دل کی دلدادہ، پرانی تہذیب پردہ چاہتی ہے تحمل اور صبر چاہتی ہے۔ نئی روشنی آزادی چاہتی ہیی۔ دیو کی چاہتے ہیں پھول وتی میری ماں کی خدمت کرے بغیر اجازت گھر سے قدم نہ نکالے۔‘‘
(برات مجموعہ آخری تحفہ، پریم چندص:۲۲۰)
انہوں نے اپنے افسانوں میں زندگی ، سماج اور انسانوں سے وابستہ تمام مسائل کو بڑے ہی اعتدال کے ساتھ برتا ہے۔ معاشرے میں پھیلی بے اعتدالی اور رسم و رواج کی عکاسی اپنے اصلاح پسندانہ نظریے کے تحت کی ہے۔ تاکہ معاشرے میں پھیلی برائیاں ختم ہوں۔ پریم چند سماج میں پھیلی ناانصافیوں اورپنچایتی راج میں عورتوں اور بالخصوص بیوائوں کے ساتھ ہورہے جبر کے سخت خلاف تھے، وہ عورتوں کی ذہنی الجھنوں اور کش مکش سے واقف تھے۔
یہی وجہ تھی کہ انھوں ںے اپنے افسانوں میں عورتوں پر ہورہے گھریلو تشدد ، سماج میں ناہمواریاں اور ناخوشگوار ازدواجی زندگی کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ پریم چند نے اپنے افسانے ’’شانتی‘‘ ، ’’مس پدما‘‘ اور ’’لعنت‘‘ میں معاشرے کی ایسی غریب اور مجبور عورتوں اور کم لڑکیوں کے کرب کی عکاسی کی ہے جو آج کسی نہ کسی طور پر برتی جارہی ہے۔
انہوں نے واضح کیا ہے کہ مرد اورعورت کے درمیان ذہنی ہم آہنگی اور مناسبت نہ ہونے کے سبب کس طرح ازدواجی زندگی بدمزگی کاشکار ہوجاتی ہے پھر عورت ذہنی الجھن کا شکار ہوجاتی ہے۔
پریم چند نے اس بات کی بھی عکاسی کی ہے کہ ایک عورت شوہر، گھر اور سماج سے محبت اور الفت کی طلبگار ہوتی ہے اگر شوہر کی محبت بیوی پر آشکار نہیں ہوپاتی تو اس کادھن دولت اس کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بن جاتے ہیں۔ مگر مرد اپنی ناپاک خصلت کی بدولت کئی عورتوں سے رابطہ رکھنے کی صورت میں کسی ایک کو بھی خوش نہیں رکھ پاتا۔
پریم چند نے اپنے افسانوں میں انسانی نابرابری، نسبی اور نسلی تعصب ، معاشی استحصال اور مذہبی تنگ نظری کی متعدد شکلوں کی عکاسی کی ہے۔ جو ہندوستانی معاشرے میں صدیوں سے رچی بسی تھیں اور کسی قدر آج بھی ہیں وہ غیر جانب دار ہوکر انسانیت اور معاشرے کو بلندی پر پہنچانا چاہتے تھے۔ اس کی بہترین عکاسی ہمیں افسانہ ’’لال فیتہ‘‘ اور ’’پچھتاوا‘‘ میں ملتی ہے۔ اسی طرح افسانہ ’’انسان کا مقدم فرض‘‘اور ’’مندر‘‘ میں ہمیں مذہبی بالا دستی کی عکاسی ملتی ہے۔
پریم چند نے اپنے فسانوں میں دیہی زندگی کے مسائل کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ انھوں نے مزدوروں اور غریب انسانوں کے ناگفتہ بہ حالات اور سماج کے ساہوکاروں اور امیروں کے جابرانہ رویہ اور نازیبا سلوک کے خلاف بڑی جرأت کے ساتھ آواز بلند کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کرداروں کو اپنے طبقاتی اور تہذیبی رویے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کیوںکہ وہ مزدوروں، کسانوں اور غریب انسانوں کے اندرونی کرب سے واقف تھے۔
پریم چند نے مشترکہ خاندانی نظام سے وابستہ اچھائیوں اور برائیوں کو بھی اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے۔ وہ معاشرتی زندگی میں مشترکہ گھرانوں کو باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مشترکہ گھرانوں کا دفاع کیا ہے، اور جس خوبی سے اس کا جواز پیش کیا ہے وہ دیگر افسانہ نگاروں کے یہاں ہمیں نظر نہیں آتی۔ پریم چند نے سری کنٹھ کے نقطہ نظر سے خود اپنے ہی جذبات کا کچھ اس طرح اظہار کیا ہے۔
’’مشترکہ خاندان کے وہ زبردست حامی تھے۔ آج کل بہوئوں کو اپنے کنبہ کے ساتھ مل جل کر رہنے میں جو دہشت ہوتی ہے اسے وہ ملک اور قوم کے لیے فال بدخیال کرتے تھے۔‘‘
(بڑے گھر کی بیٹی، دیہات کے افسانے، پریم چند، ص:۸۷)
پریم چند نے گھریلو زندگی کو حکیم کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس سماج کو چہار زاویہ سے دیکھ کر مشترکہ گھریلو زندگی کا دوسرا پہلو اس طرح پیش کیا ہے۔
’’اگر تم کھانے اور طرح دینے پر بھی کنبے کے ساتھ نباہ نہ ہوسکے تو آئے دن کی تکرار سے زندگی تلخ کرنے کے بجائے یہی بہتر ہے کہ اپنی کھچڑی الگ پکائی جائے۔‘‘
(بڑے گھر کی بیٹی۔ دیہات کے افسانے۔ پریم چند، ص: ۸۸)
خاندان کو مشترکہ ہندوخاندان کے خطوط پر منظم دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے افسانہ ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ اور ’’بانگ سحر‘‘ میں ان مسائل کا ذکر کیا ہے۔ اور گھریلو زندگی کے انتشار اور نابرابری کو پیش کیا ہے۔ پریم چند نے اپنے افسانوں میں سماجی موضوعات ومسائل کو بڑے ہی بے باکانہ انداز سے پیش کیا ہے۔ انھوں نے سماج میں پھیلے ذات پات کے رواج اور امیر وغریب کے فرق کو لعنت قرار دیا ہے۔ سماج میں غریبوں اور کمزور طبقہ کا ہر سطح پر استحصال کیا جاتا ہے۔
معاشی استحصال کی عمدہ مثال ان کا افسانہ ’’زاد راہ‘‘ ہے۔ اس میں پریم چند نے عوعرت کے استحصال کی عکاسی اس طرح کی ہے سیٹھ رام داس کے مرجانے کے بعد اس کی بیوہ سوشیلا سماج اوربرادری کے معاشی استحصال کا شکار ہوکر کس طرح اپنی جان گنواں بیٹھی ہے۔ آج بھی سماج بیوائوں کے مسائل اور ان پر ہورہے ظلم و ستم سے کس طرح چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے یہ ایک حقیقت ہے۔
اسی طرح افسانہ ’’بدنصیب ماں‘‘ بھی ایک بیوہ کی درد بھری داستان ہے جو اپنے ہی بچوں کے ظلم کا شکار ہے۔ یہ وہ افسانے ہیں جس میں سماج سے وابستہ لوگوں کی ذہنی عیاری، اثر و رسوخ کا استعمال اور جذبہ فراریت کا اظہار ہوتا ہے۔
پریم چند نے سماج کے ان ہوس کا روں پر بھی قلم اٹھایا ہے جو اپنی ناپاک خواہشات کی تکمیل کے لیے مجبور، غریب اور بیوائوں کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں۔ کم عمری اور بے میل کی شادی کے خلاف بھی وہ خوب لکھتے ہیں۔
سماج میں پھیلی برائیوں میں ایک بڑی برائی برادری واد اور مذہبی تفریق ہے۔ پریم چند نے اونچ نیچ اور ذات پات ، بھید بھاؤ جو کہ آج بھی پرچلت رسمیں ہیں اس پر انگشت نمائی کی۔ انھوں نے اپنے افسانہ ’’حسن و شباب‘‘ میں ایک طوائف زادی اور ایک چمار کے لڑکے کی شادی کے تعلق سے معاشرے کے سچ کو سامنے لایا ہے اور کس خوبی سے سماج کے ذہن کی عکاسی کی ہے۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔
مآخذ
(۱) پریم چند ایک نقیب: پروفیسر صغیر افراہیم
(۲) اردو افسانوں میں سماجی مسائل کی عکاسی: ڈاکٹر شکیل احمد
(۳) پریم چند: ڈاکٹر رام رتن بھٹناگر
(۴) پریم چند حکم کا سپاہی: امرت رائے ہنس پرکاش
(۵) منشی پریم چند شخصیت اور کارنامے:قمررئیس
(۶) جدیدہندوستان میں ذات پات : ایم این سری نواس
FARHAN AHMAD
ALIGARH MUSLIM UNIVERSITY
ALIGARH-202002
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |

