ایل جی بی ٹی کیو( LGBTQ) ایک ایسا موضوع جس پر اکثر لوگ بات کرنا پسند نہیں کرتے، یا اگر اس موضوع کو چھیڑ دیا جائے تو بچ کر نکل جاتے ہیں۔ LGBTQ کی فل فارم لیسبین، گے، بائی سیکسول، ٹرانس جینڈر، کویئر یا کویشچننگ ہے۔ یہ اصطلاحات عموماً کسی فرد کے جنسی رجحان اور صنفی شناخت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ لیسبین Lesbian یہ اصطلاح ایک عورت کی کسی دوسری عورت کی طرف جنسی، رومانی دلچسپی کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ گے Gay ایک مرد کا دوسرے مرد کی طرف جنسی جذباتی رجحان، اور بائی سیکسول Bisexul وہ شخص جو دونوں جنس مرد اور عورت میں جنسی دلچسپی رکھتا ہو، ٹرانس جینڈر Transgender یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جن کی صنفی شناخت اورصنفی اظہار اس سے مختلف ہوتا ہے جو عام طور پر اس جنس سے وابستہ ہوتا ہے جو انہیں پیدائش کے وقت تفویض کیا گیا تھا۔ ٹرانس جینڈر کے زمرے میں لوگ ایک یا زیادہ اصطلاحات کی وسیع اقسام کا استعمال کرتے ہوئے خود کو بیان کر سکتے ہیں— بشمول ٹرانسجینڈر، بہت سے ٹرانس جینڈر لوگوں کو ان کے ڈاکٹروں کی طرف سے ہارمونز تجویز کیے جاتے ہیں تاکہ ان کے جسم کو ان کی صنفی شناخت کے مطابق بنایا جا سکے۔ کچھ کی سرجری بھی ہوتی ہے۔ لیکن تمام ٹرانس جینڈر لوگ یہ اقدامات نہیں کر سکتے ۔ ٹرانس جینڈر کی شناخت جسمانی ظاہری شکل یا طبی طریقہ کار پر منحصر نہیں ہے۔ کوئیر Queer یہ اصطلاح کچھ لوگ استعمال کرتے ہیں جن کا جنسی رجحان خصوصی طور پر متضاد نہیں ہے۔ عام طور پر، ان لوگوں کے لیے جو لیسبین، گے اور بائی سیکسول کی اصطلاحات کو بہت محدود یا ثقافتی مفہوم سے بھر پور سمجھتے ہیں جو ان پر لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی صنفی شناخت یا صنفی اظہار کو بیان کرنے کے لیے queer، یا genderqueer کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک بار ایک توہین آمیز اصطلاح سمجھے جانے کے بعد، کچھ LGBTQ لوگوں نے خود کو بیان کرنے کے لیے queer کا دوبارہ دعوی کیا ہے۔ تاہم، یہ LGBTQ کمیونٹی میں بھی عالمی طور پر قبول شدہ اصطلاح نہیں ہے۔بعض اوقات، جب LGBT کے آخر میں Q دیکھا جاتا ہے، تو اس کا مطلب سوال کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اصطلاح کسی ایسے شخص کی وضاحت کرتی ہے جو اپنے جنسی رجحان یا صنفی شناخت پر سوال اٹھا رہا ہے۔یہ تمام اصطلاحات بڑے پیمانے پر ان تمام افراد کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں جنہیں ہم خود سے مختلف سمجھتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ہی جگہ ایک ہی معاشرے میں رہتے ہوئے ہم ان کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ کیا وہ ہمارے جیسے نہیں ہیں۔۔؟ اور اگر ہمارے جیسے ہی ہیں تو پھر کیوں ہم انہیں وہ درجہ نہیں دیتے جو ہم دوسرے لوگوں کو دے رہے ہیں..؟ جب ہمیں ہماری مرضی کے سارے کام کرنے کا حق حاصل ہے تو پھر ہم انہیں ان کی مرضی سے کیوں نہیں چلنے دیتے۔۔۔؟ انہیں ہر شعبے میں برابری کا حق کیوں نہیں دیا جاتا۔۔؟ ایسے ہی بے شمار سوال ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں جب ہم اشعر نجمی کے ناول ” اس نے کہا تھا ” کا مطالعہ کرتے ہیں۔
‘ اس نے کہا تھا ‘ اشعر نجمی کا پہلا ناول ہے ۔ جس میں انہوں نے LGBTQ معاشرے کے مفہوم کو پوری طرح واضح کر دیا ہے۔ اس سے پہلے اردو ادب میں اس موضوع کی ایک کڑی یعنی لیسبین پر عصمت چغتائی کا افسانہ "لحاف” نے لوگوں کا دھیان اپنی طرف کھینچا تھا۔ لیکن اس پر فحش نگاری کا ٹھپہ لگا کر عصمت کو کٹگھرے میں لاکر کھڑا کر دیا گیا۔ برسوں کے بعد ایک بار پھر اشعر نجمی نے اردو ادب میں اس موضوع کو زیر بحث لاکر بڑی ہمت کا کام کیا ہے۔ LGBTQ جیسے بڑے موضوع کو محض 216 صفحات میں سمو کر اشعر نجمی نے دریا کو کوزے میں بھر دیا ہے۔ اور صرف دریا کو کوزے میں بھرا ہی نہیں بلکہ دریا کے ایک ایک قطرے کو گہر پوش کر دیا ہے۔ لیکن کیا یہ سماج اس ناول کو کھلے دل سے قبول کر اشعر نجمی کو ان کے اس ناول کے لئے داد دے گا۔۔؟ صدیق عالم کے لفظوں میں جو ناول کے شروعات میں ”لفظ چند’ نام سے دو صفحے کے پیش لفظ میں درج ہے، دیکھتے ہیں۔۔۔
” اشعر نے ناول ” اس نے کہا تھا” اس دور میں لکھا جب دنیا اپنی تمام تکنیکی حیرتوں کے باوجود پرانی چولوں پر چل رہی ہے۔ آج LGBTQ کی اصطلاح اپنا مفہوم پوری طرح واضح کر چکی ہے۔ مگر سماج نے اپنا فیصلہ نہیں بدلا ہے۔ جب پدرانہ نظام اپنی نام نہاد ‘ پاکیزہ سوچوں ‘ کو لگی ٹھیس سے تلملا رہی ہو اردو میں ان رشتوں پر ناول لکھنا وہ بھی ہر طرح کی جبلی ہچکچاہٹ سے باھر نکل کر لکھنا ایک مشکل ہی نہیں بلکہ ایسا کام ہے جس میں ناکامی کی شکل دیکھنا لازمی ہے۔ پھر بھی اشعر نجمی نے جو یہ ناول لکھا ہے تو کامیابی یا ناکامی اب ان کا مسئلہ نہیں رہا۔اب یہ اس پدرانہ نظام کے جکڑ کوٹ پہنے ہوئے لوگوں کا مسئلہ بن چکا ہے جنہیں اپنے کپ بورڈ کے اندر ڈھانچوں کو چھپا کر رکھنے کی عادت ہوتی ہے۔” (اس نے کہا تھا ص 5)
” ناول کے اندر بیان ہونے والے واقعے کے مطابق ننگے فقیر کو تو موت کا فرمان ملا، دیکھیے اردو کے قارئین اشعر نجمی کے لئے کیا فرمان جاری کرتے ہیں،” ( ص 6)
اشعر نجمی کے لئے اردو کے قارئین موت کا فرمان جاری کریں یا نہ کریں لیکن اتنا تو طے ہے کہ اس ناول کے بعد اس موضوع پر لکھنے والوں کی تعداد میں ضرور اضافہ ہوگا اور اس کا سہرا اشعر نجمی کے سر جائے گا۔ کیونکہ ایک عرصے سے یہ موضوع اردو ادب میں دبیز پرتوں میں چھپا ہوا تھا۔ جسے انھوں نے باہر لانے کا کام کیا ہے۔
اشعر نجمی نے ناول ‘اس نے کہا تھا’ کے کرداروں کو وہ چاہے گے ہوں یا لسبین اس انداز میں پیش کیا ہے کہ ہمیں ان سے نفرت نہیں بلکہ ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔ اردو ناول نگاری میں یہ خاصیت بہت سے ناولوں میں پائی گئی ہے جن میں ناول نگار نے منفی کرداروں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری کو اس سے ہمدردی کا احساس ہوتا ہے۔ اس ناول میں بھی کردار گے اور لیسبین ہیں جنہیں ہمارے معاشرے میں نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس ناول کے ایسے کرداروں سے ہمیں نفرت نہیں ہوتی بلکہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آیا ہمارے آس پاس کے معاشرے میں موجود یہ کردار ہماری توجہ کے متلاشی ہیں۔ جو ہم انہیں نہیں دے رہے ہیں۔۔۔یا ہم ان کی ذہنی اور جذباتی کشمکش کوسمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ ناول کے یہ اقتباس دیکھیں۔۔
” کہاں سے شروع کروں ، سمجھ میں نہیں آ رہا۔ جب پہلی بار پتہ چلا کہ میں ‘ الگ’ ہوں وہاں سے،یا پھر وہاں سے جب اسکول میں ایک دوست سے پہلے پیار کا احساس ملا تھا وہاں سے ، یا جب پہلی بار ایک کزن نے میرا ریپ کیا یا پھر وہاں سے جب میرا بھائی بول پڑا تھا ‘ اب تو مرد بن جا، کب تک ماں کے دودھ کو شرماتا رہے گا ‘ ، دنیا کے لئے چاہے دروازے کھل رہے ہوں گے مگر میرے لئے جب ایک ایک کر کے سارے دروازے بند ہو رہے تھے تو ان اندھیری تنگ راہوں گلیاروں میں اپنے وجود کو تلاش کرتا میں۔۔۔۔ کہاں سے شروع کروں، سمجھ نہیں پا رہا۔”(ص 194)
"میں وہ رات یاد کرکے آج بھی ڈر جاتا ہوں جب انھوں نے میرا بلاتکار کیا تھا۔ ایک سات سال کے بچے کے لئے وہ چیز کتنی دردناک ہو سکتی ہے جس کے بارے میں وہ کچھ نہ جانتا ہو، یہ بات شاید آپ کبھی نہیں سمجھیں گے۔ ” (ص 111/112)
بچپن سے لے کر جوانی اور پھر بڑھاپے تک کتنے چہروں نے ان کے جسموں کو نہیں بلکہ روحوں کو تار تار کیا ہوتا ہے ۔ لیکن جب وہ اپنی مرضی سے اسی حقیقت کو تسلیم کرکے اپنی شناخت بنانا چاہتے ہیں تو انہیں دھتکار دیا جاتا ہے۔ انہیں معاشرے کے لئے ناقابلِ قبول قرار دیا جاتا ہے۔اور حد تو تب ہو جاتی ہے جب نام نہاد عزت و وقار کی خاطر ان کے اپنے گھر والے انہیں ان کی اس حقیقت کے ساتھ قبول نہیں کرتے۔ اشعر نجمی نے ناول ” اس نے کہا تھا ” میں ایسے ہی افراد کی داخلی اور جذباتی کیفیات کو جس چابک دستی سے بنا کسی مکمل و مربوط پلاٹ کے پیش کیا ہے وہ یقیناً قابل تعریف ہے۔
اس کمیونٹی کے لوگوں نے اپنی لڑائی تنہا لڑی ہے اور آج بھی لڑ رہے ہیں۔ سرکار کی طرف سے بل پاس ہونے کے بعد بھی انہیں ہمارے عام معاشرے میں ترچھی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اشعر نجمی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس کمیونٹی کے لوگوں کی حقیقت سے نہ صرف روبرو کروایا بلکہ ان کی طرف سے قاری کا ذہن بھی صاف کیا ہے۔ جملوں کی روانی اور زبان بیان پر ناول نگار کو دسترس حاصل ہے۔ تبھی تو کئی جگہ منظر نگاری کرتے ہوئے الفاظ اور خیال کو اس طرح گوندھا ہے کہ قاری خود کو ان سحر انگیز جملوں کی گہرائی و گیرائی سے آزاد نہیں کر پاتا اور ان کی معنویت تلاش کرتے کرتے اسی میں کھو جاتا ہے۔
یہ اقتباس دیکھیں۔۔۔۔
” شہر سو رہا ہے۔ رات برس رہی ہے اور چھتیں اندھیرے کی نمی سے گیلی ہو چکی ہیں۔ ایک چھوٹا سا چاند آسمان کے ایک گوشے میں ہینگر سے یوں لٹکا ہوا ہے جیسے ابھی ہوا کے ایک جھونکے سے وہ ٹپک کر زمین پر آن گرے گا۔ چاند جب بھی زمین پر گر کر ٹوٹتا ہے تو اس کے ٹوٹنے کی آواز نہیں آتی، البتہ اس کے ٹوٹنے کے ٹوٹنے کی آواز آتی ہے۔ ” (ص 110)
یہ ٹوٹنے کے ٹوٹنے کی آواز وہی سن سکتا ہے جس کو ٹوٹنے کے ٹوٹنے کا مطلب پتہ ہو۔ اس طرح کے معنی خیز اقتباسات ناول میں جگہ جگہ مل جائیں گے جو ناول نگار کی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔
اشعر نجمی نے اس ناول کے ذریعے سماجی حقیقت و معنویت کی دبیز پرتوں کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ ناول میں جہاں کہیں بھی جنسی عمل کا ذکر آیا ہے (وہ بھی گے اور لیسبین کے درمیان ) ہمیں فحش نگاری کا غلبہ نظر نہیں آتا بلکہ اس سے تخلیقی تلذذ کا احساس ہوتا ہے۔ اور اشعر نجمی کے قلم کی روانی اور تسلسل کے ساتھ تخلیق کئے گئے جملوں میں معنی خیز جہان آباد نظر آتا ہے۔ ایک ایسا جہان جس میں پدرانہ نظام پر بڑی خوش اسلوبی سے چوٹ کی گئی ہے۔
زیبا خان
گوپامؤ ، ہردوئی، اتر پردیش
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page