ہندستانی زبان و ادب کے دو اہم شاعر رابندر ناتھ ٹیگور اور علامہ اقبال نے بالترتیب بنگالی اور اردو شاعری سے قوم و ملت کی خدمت میں کارہائے نمایاں انجام دیا ہے۔ٹیگور اور اقبال کے مابین بہت سی باتیں مشترک ہیں مثلاً ان دونوں نے ایک ہی سماجی ماحول میں پرورش پائی اور اپنی شاعری کے ذریعے قوم و ملت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور بچوں کی تربیت و پرداخت کا کام انجام دیا۔
ٹیگور اور اقبال دونوں کا عہد ایک ہونے کے باوجود ان کے ماحول اور ان کے حالات زندگی میں فرق ہے۔ایک کا تعلق پورب یعنی بنگال سے تھا جہاں سات سمندر پار سے آنے والے لوگ صنعت و حرفت اور علم و حکمت سے لیس ہوکر اس علاقے میں سوا سو سال پہلے آگئے تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں برطانوی سامراج کے لیے زمین ہموار کرنے تھے۔اسی لیے یورپ کے جدید علوم کا اثر سب سے پہلے بنگال کے علاقے میں ہوا۔دوسری طرف اقبال ہندستان کے مغرب کے اس علاقہ سے تعلق رکھتے تھے جس میں پانچ دریا کا سکون بھی شامل تھا اور تلاطم بھی۔پھر وہ سرسبز شاداب پہاڑیاں تھیں جو فکر و فن کی دنیا کے لیے حرکت کا نمونہ بھی پیش کرتیں ہیں۔
ٹیگور اور اقبال دونوں ہی اپنے عہد کے بڑے شاعر ہیں۔ٹیگور کی شاعری کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ۱۹۱۳ میں ادب کے سب سے بڑے انعام ’نوبل انعام‘ سے نوازا گیا۔اقبال کو بھی ملکی اور غیر ملکی اانعامات سے نوازا گیا۔اقبال اور ٹیگور کی شاعری کا عمومی جائزہ لینے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ دونوں کی شاعری میں یکسانیت موجود ہے۔ٹیگور اور اقبال دونوں مذہبی ہیں اور انسانیت کے تقاضے کو قبول کرتے ہیں۔حالانکہ دونوں دو مختلف تہذیبی اقدار، ذاتی عقائد،ادبی رویے،انفرادی تشخص اور میلانات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ٹیگور نے گیتا کے فلسفے کی بنیاد پر ’کرم یوگی‘ کا تصور پیش کیا اور مسلل جدجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلامی تعلیمات،مذہبی اقدار اور اسلامی تصوف کے موتیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یقیں محکم،عمل پیہم اور انسان کے مقام کو سر بلند کرنے کی کوشش کی۔
رابندر ناتھ ٹیگور (1861-1941) بنگلہ زبان کے اہم شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جن کی وجہ سے انھیں عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ شانتی بھٹاچاریہ ٹیگور کے متعلق لکھتے ہیں:
’’رابندر ناتھ ٹیگور جیسے عظیم بلند، پروقار، تیزرفتار، سبک رو، تخلیق کے ہر میدان میں غیرمعمولی فطری قابلیت کا مالک اگر کسی ملک میں کبھی پیدا ہوا بھی ہو تب بھی شاذونادر ہی ایسی کوئی شخصیت دیکھنے میں آئی ہوگی۔ ان کی شاعری میں اسلوب، روش، جوہر، مواد اور احساسات کی ایسی نزاکت، لطافت، ندرت اور کشش القال ہے جس کا ہماری زبان میں اس سے قبل کبھی تصور تک نہیں کیا جاسکا۔ ‘‘
(تاریخ بنگلہ ادب، شانتی بھٹاچاریہ، مارچ 1975، صفحہ 481)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیگور کو عالمی شہرت دلانے میں ان کی شاعری نے اہم رول ادا کیا۔ ٹیگور کو نوبل انعام (1913) بھی ان کی شہرئہ آفاق شعری تصنیف ’گیتانجلی‘ پردیا گیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور کا مطالعہ بہت گہرا اور وسیع تھا۔ ان کی دلچسپی کا مرکز وہ چیزیں ہوا کرتی تھیں جن میں انسانی اقدار موجود ہوں اور جس کی مستقل حیثیت بھی ہو۔ مشہور فلسفی ٹرینس (Terence) نے ایک موقع پر کہا تھا جس کا مفہوم ہے۔’’میں ایک انسان ہوں، کوئی چیز جو انسانی ہے میرے لیے بیگانہ نہیں ہے، مجھ سے دور یا جدا نہیں ہے۔‘‘ٹرینس کے اس قول کو رابندر ناتھ ٹیگور کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ٹیگور کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے شانتی بھٹاچاریہ لکھتے ہیں:
’’ٹیگور کی شاعری اتنی ہی بنگالی ہے جتنا کہ وہ ہندوستانی ہے اور اس کی اکثریت اتنا ہی ہندوستانی ہے جتنا کہ وہ بین الاقوامی چونکہ انھوں نے اتھاہ گہرائی میں ڈوب کر کہا ہے، اس گہرائی میں جہاں ابدی زندگی کی نہریں بہتی ہوں، زندگی کی بنیادی اور انتہائی، دونوں شکلیں جہاں رواں دواں ہے۔‘‘
(شانتی بھٹاچاریہ، تاریخ بنگلہ ادب، مارچ 1978، ص 483)
انیسویں صدی کی آخری دہائی سے اپنے شعری سفر کا آغاز کرنے والے اقبال نے اپنی شاعری سے تصور عشق اور فلسفۂ خودی کا جو نظریہ پیش کیا وہ اردو کے لیے اس لیے اہم تھا کہ ان سے قبل کسی بھی شاعر نے اس کو باضابطہ اپنی شاعری کا موضوع نہیں بنایا تھا۔بقول ڈاکٹر منظر اعجاز:
’’فلسفے کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ تصوف کے غائر مطالعے سے عقلیت اور وجدان، مذہب اور سیاست سبھی اقبال کی ذہنی تعمیر وتخمیر میں نہایت ہی متوازن طور پر جمع ہوئے ہیں، ان میں نہ صرف یہ کہ دو مختلف فکری دھارے ملتے ہیں اور ارتباط قائم کرتے ہیں بلکہ دو نسلی لاشعوری رجحانات ومیلانات جو مختلف تہذیبی فضا اور مختلف قسم کی تہذیبی روایات کے حامل ہیں۔‘‘
(اقبال، عصری تناظر، ڈاکٹر منظراعجاز، صفحہ9-)
اقبال کی شاعرمیں مختلف رجحانات اور میلانات ایک دوسرے سے مربوط نظر آتا ہے۔اقبال کو اپنے ہندستانی ہونے پر ہمیشہ فخر رہا اور انھوں نے بار بار اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔دو شعر دیکھئے:
ورثہ میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائداد
جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے
مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی
برہمن زادئہ رمز آشنائے روم و تبریز است
اقبال کی شاعری میں نازک خیالی اور بلند پروازی کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں جدت طرازی بھی نظر آتی ہے۔ وہ فلسفہ اور حکمت کے ماہر تھے۔ابتدا میں اقبال نے غزل کی عام روایت کے مطابق عشق مجازی کا ہی اپنی موضوع بنایا مگر بعد میں ان کے نظریے میں ایک واضح تبدیلی آئی اور انھوں نے اپنی شاعری سے مذہبی تعلیمات اور حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دیا۔ اقبال نے اپنی بلندی ٔ فکر سے ہر کسی کو متاثر کیا ،جہاں تک حب الوطنی کا سوال ہے تو اس کی مثالیں ان کی کلیات میں جابجا آسانی سے نظر آجاتی ہیں۔
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں!
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسمان
ترانہ ہندی تو حب الوطنی کے جذبات سے لبریز ہے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
اقبال کی نظم ’’ترانہ ہندی کا ہر شعر اپنے وطن سے محبت اور لگاؤ کا غماز ہے۔ہندستنا کی تاریخ و تہذیب کو اقبال نہایت خوبصورت پیرائے میں پیش کیا ہے۔
بہرحال ٹیگور اور اقبال میں بہت سی خوبیاں ہیں جو انھیں ایک دوسرے سے قریب کرتی ہیں،یہاں اس چھوٹے سے مضمون میں ان دونوں کی شاعری کے تمام گوشے پر گفتگو کرنا مناسب نہیں ہے ،لہٰذا میں نے کوشش کی ہے کہ اس مضمون سے ٹیگور اور اقبال کے نزدیک قومیت کا تصور کیا ہے؟ قومیت کے مسئلے پر ان دونوں کے یہاں کچھ مماثلتیں پائی جاتی ہیں یا ان دونوں کے نزدیک قومیت کا مسئلہ جدا جدا ہے اس کو واضح کرسکوں۔
رابندر ناتھ ٹیگور کی شخصیت میں بہت سی رنگ برنگی خوبیاں موجود تھیں،جہاں تک قومیت کا مسئلہ ہیتو ان کا نظریہ اس حوالے سے بالکل واضح تھا وہ اکثر کہا کرتے تھے ’’اگر تم عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائو۔‘‘ دراصل ٹیگور قوم پرستی ،تزکیہ نفس اور خود پر اعتماد کو زندگی کے لیے بہت اہم قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ جب تک ہندوستان کا ہر طبقہ اپنے اندر سے بے حسی، کاہلی اور مردہ دلی کو دور نہ کرلے ،ملک کو صحیح معنوں میں آزاد نہیں کیا جاسکتا۔ Pebra Confrence کے موقعہ پر ایک قومی رہنما سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ:
’’ہم لوگ اگر ملک کی قومی تحریک کو واقعی کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہم کو نچلے طبقے کے لوگوں میں خودداری کا احساس پیدا کرنا ہوگا اور ان کو صحیح معنوں میں انسان بنانا پڑے گا۔‘‘
(ٹیگور بحیثیت قوم پرست، ابوالحیات ، رابندر ناتھ ٹیگور، فکروفن کے ہزار رنگ، ص90)
ٹیگور نے یہ باتیں 1905 کے آس پاس کہی تھیں، یہ وہی زمانہ ہے جب لارڈ کرزن نے ہندو اور مسلم کے مابین نفرت کی ایک گہری کھائی بنانے کے لیے مذہب کے نام پر بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ بنگال کی اس تقسیم نے بنگال کے ساتھ ساتھ پورے ملک کو متاثر کیا ۔ ایسے نازک اور ناسازگار حالت میں ٹیگورجیسا شخص بھلا کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ 16اگست 1905 کو ٹیگور کی رہنمائی میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا، لوگوں کا مطالبہ تھا کہ انگریزی حکومت تقسیم بنگال کے فیصلے کو جلد از جلد واپس لے۔ٹیگور نے اپنی شاعری کے ذریعہ بھی عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ ابوالحیات اپنے مضمون ’ٹیگور: بحیثیت قوم پرست‘ میں لکھتے ہیں:
’’میں بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ ٹیگورنے اپنی بے شمار نظموں کے ذریعہ اپنی قوم کے دلوں میں حب الوطنی اور ملت پروری کے بیج بوئے ہیں۔ اُن کی قوم پرستی کا معیاران نظموں سے ہی قائم کیا جاسکتا ہے۔ ان کی نظموں نے ہندوستان کے ہزاروں خوف زدہ لوگوں کے دل میں ہمت پیدا کردی تھی اور جو لوگ بے راہ روی کا شکار ہورہے تھے۔ اُن کی رہنمائی کی تھی۔‘‘
( ٹیگور: بحیثیت قوم پرست، ابوالحیات، رسالہ ’آجکل‘ مئی 1961)
ابوالحیات نے ٹیگور کی جن صفات کا ذکر کیا ہے وہ ان کی شاعری میں موجود ہے۔ ٹیگور کی نظم سے چند اشعارد یکھئے۔
چلو آگے چلو آگے چلو آگے مرے بھائی
سفر میں زندگی کے قافلوں سے پیچھے رہ جانا
جو سچ پوچھو تو جیتے جی ہے گویا موت کا آنا
فقط جی جی کے مرجانا نہیں مقصد ہے جینے کا
ہے جینا نام جام آرزو بھر بھر کے پینے کا
چلو آگے چلو آگے چلو آگے مرے بھائی
ٹیگور کا ایک مضمون بنگالی رسالہ’ پرباسی‘میں 1931میں شائع ہوا تھا، اس مضمون کا عنوان’ہندومسلم‘ تھا۔ مذکورہ مضمون میں ٹیگور نے ہندومسلم اتحاد کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے۔
’’جس ملک میں خاص کر مذہب کی بنیاد پر ہی لوگ پہچانے جاتے ہیں۔ مذہب ہی جہاں اتحاد اور ملن کا پل ہو، جہاں کوئی اور بندھن ان کو آپس میں باندھ رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتا، وہ ملک نہایت ہی بدنصیب ہے، وہ ملک مذہب کی بنیاد پر جو بھید پیدا کرتا ہے وہی اختلاف سب سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہوتا ہے۔ ‘‘
(بحوالہ: رابندر ناتھ ٹھاکر: حیات و خدمات، شانتی رنجن بھٹاچاریہ، ص134)
ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت اور اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے مگر معاصر عہد میں چند ایسے افراد ہیں جو مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے کا کام کررہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے باخبر اور ہشیار رہیں۔ہندو دمسلم اس ملک میں دلہن کی دو آنکھ کی طرح ہے اگر اس میں سے کوئی آنکھ بھی خراب ہو تو دلہن کی خوبصورتی زائل ہوجاتی ہے۔ ٹیگور نے ایک موقعہ پر لکھا تھا:
’’ایسا ملک جہاں لوگوں کو متحد کرنے کی اصل بنیاد مذہب ہو، وہ ملک بے شک بدقسمت ملک ہے۔وہ ملک جس کو مذہب کے ذریعے الگ الگ تقسیم کردیا گیا ہو، وہ دوگنا بد قسمت ہے…مختلف مذاہب کے اصل بانیوں نے ایک ایسے عقیدہ کی تبلیغ کی تھی جہاں نوع انسانی سے تقاضا کیا گیا تھا کہ وہ حرص، حسد اور گھمنڈ کو ترک کردے۔بعد میں ایک مذہبی عقیدے کے منظم انداز میں قیام نے عظیم بانیوں کی تعلیمات کو مسخ کردیا۔تعلیمات کو تنگ اور کٹھ ملا بنادیا اور ایسی مسخ تعلیمات نے انسانی تہذیبوں کے ساتھ تباہی و بربادی کا کھیل کھیلا۔‘‘
(مغربی بنگال ٹیگور نمبر۔ ص ۱۲۸)
ٹیگور نے جس بد قسمت ملک کا ذکر کیا ہے بد قسمتی سے وہ ہمارا اپنا ہی ملک ہے۔۱۹۴۷ میں آزادی کے ساتھ ہی اس ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا تھا اور آج کوئی ۶۷ برس گزر جانے کے بعد بھی یہ دونوں ملک آپس میں لڑ رہے ہیں۔
اقبال کو بھی ٹیگور کی عظمت کا احساس تھا۔ 1932 میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے جارہے اقبال نے اپنا موازنہ ٹیگور سے کرتے ہوئے اپنے دوست سید امجد علی سے کہا تھا:
’’ٹیگور اور میرے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ وہ آرام اور سکون کی تبلیغ کرتے ہیں اور عملی طور پر کام کرتے ہیں لیکن میں عمل کی بات کرتا ہوں لیکن خود تساہل برتتا ہوں۔‘‘
(اقبال شاعر اور سیاست داں، ڈاکٹر رفیق زکریا، صفحہ 43)
اقبال اور ٹیگور کے تقابلی مطالعے کا ایک اہم پہلویہ بھی ہے کہ دونوں محب وطن تھے اور دونوں کو اپنے ملک سے بے انتہا محبت بھی تھی، دونوں کے نزدیک تعمیروطن ایک اہم مسئلہ تھا لہٰذا وہ آپسی نفرت بھلاکر اتحاد باہمی، محبت اور قوم پرستی کی بنیادوں پر ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اقبال اور ٹیگور دونوں کے یہاں وطن اور اس کے ہر ذرے سے محبت، خلوص اور ایثار کا جذبہ نظر آتا ہے۔ دونوں مناظر فطرت اور مظاہر قدرت کے دلدادہ اور شیدائی تھے۔ دونوں کے کلام میں ایسے بہت سے اشعار مل جاتے ہیں جن میں مناظر فطرت کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے، ان اشعار سے ہی ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دونوں کو اپنے وطن سے کس قدر محبت تھی۔ ٹیگور کی نظم ’وسن دھرا‘ کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
میری پرتھوی ہو تم
جگوں جگوں کی، تم نے اپنی گود میں
تجھے لے کر بیکراں آکاش میں
نہ تھکنے والے پیروں سے طواف کیا ہے
نظام شمشی کی ان گنت راتوں اور دنوں
اور قرنوں قرنوں تک، تم نے مجھے اپنی مٹی میں جذب کرلیا ہے
میرے بیچ اُگی ہے تمہاری گھاس، بوجھ کے بوجھ پھول
کھلے میں قطار در قطار، درختوں نے
پتوں، پھولوں، پھلوں اور خوشبوئوں کو برسایا
اسی آج پدما ندی کے کنارے ایک عجیب کیفیت میں اکیلا بیٹھا ہوا
پراشتیاق آنکھیں پھیلا کر
اپنے سارے جسم میں سارے دل میں تمہارا وجود محسوس کرتا ہوں
(ایک سو ایک نظمیں، ترجمہ: فراق گورکھپوری)
ٹیگور کی مذکورہ نظم سے ان کی حب الوطنی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ نظم کے تقریباً تمام اشعار حب الوطنی کے جذبۂ سمندر میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ اس طرح کی نظمیں ٹیگور کے یہاں بہت ہیں، مثلاً خواب آبشار، پراتھنا، بھارت تیرتھ، بولا کا، مجھے تم سے محبت ہے اور اے میرے ملک کی مٹی تجھے میرا سلام وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ٹیگور کی طرح اقبال نے بھی اپنے وطن کی خاک اور ذرے ذرے سے محبت کا اظہار کیا ہے اور اپنی شاعری پر نازاں رہے ہیں۔نظم’نیا شوالہ‘ سے ایک شعر دیکھئے:
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
علامہ اقبال کو اپنے وطن ہندستان سے اس قدر محبت تھی کہ اس سرزمین کا ذرہ بھی انھیں دیوتاؤں کی طرح محترم اور عزیز تھا۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے سوئے ہوئے قوم اور عوام کو جگانے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔ علامہ اقبال کی شاعری کا تعلق ہے تو کلیات اقبال میں ایسی بہت سی نظمیں ہیں جس میں منظرکشی اور پیکر تراشی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ان کی نظم ’ہمالہ ‘سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اے ہمالہ داستان اس وقت کی کوئی سنا
سکن آبجائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرہ
داغ جس پہ غازہ رنگ تکلف کا نہ تھا
ہاں دکھادے اے تصور پھر وہ صبح وشام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گرد ایام تو
اقبال کی مذکورہ نظم انسان کے مردہ حسیات کو زندہ کرنے اور ان کے اندر وطن اور قوم کی محبت کو پیدا کرنے میں برقی رو کاکام کرتی ہیں۔یہ نظم وطن سے اقبال کا اولین اور شاید مؤثر ترین مظاہرہ پیش کرتا ہے۔ہمالہ محض ایک پہاڑ نہیںوہ ہمارے ملک کی تہذیب کا خوبصورت حصہ ہے اوریہ ہمارے ملک کے تحفظ اور سا لمیت کی علامت بھی ہے۔اقبال کی ایک نظم ’نیاشوالہ‘ ہے جس کاہر شعر ملک سے محبت کا پتہ دیتا ہے۔ چندا شعار بطور خاص ملاحظہ ہو:
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے واسیوں کی مکتی پریت میں ہے
اقبال کے یہاں ایسی بہت سی نظمیں ہیں جن سے محبت، اخوت اور حب الوطنی کے جذبات ا بھرتے ہیں۔ ان نظموں میں تصویر درد، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، ترانہ ہندی اور بڑی حد تک شعاع امید، قابل ذکر ہیں۔ ان نظموں میں جذبۂ حب الوطنی اپنی انتہائی بلندیوں پر ہے۔ان نظموں میں ہندوستان کی عظمت اور اس کی شاندار تاریخ کو جس والہانہ دلچسپی اور شگفتگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
ہندوستان جیسے اکثرالمذاہب ملک میں مذہبی رواداری اور آپسی محبت کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ آئے دن فسادات ہوتے رہیں گے۔ ہندوستان کی تاریخ کے مطالعہ کے بعد ہمیں اندازہ ہوتاہے کہ آزادی کے بعد کس قدر ہندومسلم فساد ہوئے۔ ہر دور میں کم وبیش تمام ہی شاعر و ادیب نے قومی اتحاد، ہندومسلم تعلقات کو بہتر بنانے اور مذہبی کٹرپن کے خلاف آواز بلند کیا ہے۔ ٹیگوراور اقبال نے بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا۔ ٹیگورنے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا:
’’ہم ایک عظیم اور شریف ملک کی تعمیر کرنے کا انتظار کررہے ہیں کون ہیں ہم؟ کیا بنگالی، کیا مرہٹی یا پنجابی ہیں؟ کیا ہم ہندو ہیں یا مسلمان ہیں؟ جب ہم اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنے کے قابل ہو جائیں گے کہ ہم ہندوستانی ہیں، تب ہی جاکر ہم اس سرزمین کے سچے آقا بن پائیں گے۔‘‘
(بحوالہ:ڈاکٹر گوتم چٹرجی، مغربی بنگال ٹیگور نمبر، 15جولائی 2010)
علامہ اقبال کا نظریہ قومیت بہت واضح تھا، ان کی نظر میں انسان کوئی بھی ہو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو کوئی بھی زبان بولتا ہو وہ سب اﷲ کے بندے ہیں اور اﷲ کی نظر میں کوئی شخص بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا۔ انسان اپنے اعمال سے اﷲ کی نظر میں اچھا اور خراب ہوسکتا ہے۔اقبال نے مذہبی شدت پسندی کی جگہ حب الوطنی کو فوقیت دی ،وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ:
مذہب نہیں سکھاتا، آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے، ہندوستان ہمارا
ایک اوربند دیکھئے:
اس دور میں مئے اور بے جام اور جم اور
ساقی نے بنائی روش لطف وستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے تر شوائے صنم اور
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقبال کا نظر یہ خالص اسلامی تھا،ایک حدیث ہے ’حب الوطنی جز الایمان‘ یعنی وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔قرآن کے علاوہ دوسری مذہبی کتابوں میں بھی آپسی اتحاد پر زور دیا گیا ہے۔اقبال نے بھی اپنی شاعری کے ذریعے محبت، اخوت اور اتحاد پرزور دیا ہے۔اقبال کا خیال تھا کہ خوش حال زندگی اور آزادی کے لیے ضروری ہے کہ ہندو مسلم متحد ہوکر رہیں۔مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے والوں کو اقبال پر اقبال نے سخت تنقید کی ہے۔نیا شوالہ سے چند اشعار ملاحظہ ہو:
سچ کہہ دوں اے برہمن!گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آکے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا،چھوڑے ترے فسانے
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
اقبال کا خیال تھا کہ مولوی اور پنڈت نے مذہب کے نام پر جو منافرت پھیلانے کا کام کیا ہے، اسی سبب بہت سے لوگ مندر مسجد سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے،یعنی لوگ مذہب سے دور ہوتے جارہے ہیں۔مذہبی رہنماؤں کی تنگ نظری اور باہمی دشمنی سے ایک بیزاری کا عالم ہے۔اقبال نفرت پھیلانے والے مولوی اور پنڈت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سنو! میرے لیے وطن کی مٹی اور یہاں کا ذرہ ذرہ دیوتا کی طرح ہے،میرے لیے وطن اہم ہے اور تمام اہل وطن برابر۔اقبال اپنے ملک اور ملک کے لوگوں سے بلا تفریق مذہب و ملت بے انتہا محبت کا جذبہ رکھتے تھے۔نظم ’’ نیا شوالہ ‘‘ میں اقبال کا انسانی اقدار کے تئیں جذبہ محبت اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔اقبال نے ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد ،یگانگت اور یک جہتی کے فروغ دینے کی کوشش کی ہے، یہی ان کا بنیادی تصور تھا جو ان کی شاعری کے ہر دور میں نظر آتا ہے۔
اقبال کی ایک نظم ’’ترانہ ہندی‘‘ بھی ہے۔اس نظم کا ہر مصرعہ بلکہ ہر لفظ شاعر کی وطن پرستی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔چند متفرق اشعار ملاحظہ کریں:
سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندستان ہمارا
نظم ’ترانہ ہندی‘ کے متعلق خلیفہ عبد الحکیم لکھتے ہیں:
’’یہ[ترانہ ہندی] ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا،بعض ہندو مدارس میں بھی مدرسہ شروع ہونے سے قبل طالب علم اس کو کورس میں گاتے تھے… ہندستان میں وطنیت کے جذبے جو جس شاعر نے سب سے پہلے گرمایا،وہ اقبال با کمال تھا۔ہندستان اگر ایک وطن اور ایک قوم بن سکتا تو اقبال کے وطنیت کا کلام اس کے لیے الہامی صحیفہ ہوتا۔‘‘
(فکر اقبال ، خلیفہ عبد الحکیم۔ ص ۳۷)
حب الوطنی کے جذبے سے سرشار اقبال کی نظم ’ ہندستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ بھی ہے۔جس میں اقبال نے ان مایہ ناز اشخاص کا ذکر کیا ہے جن پر تمام ہندستانیوں کو فخر ہے،وہ کہتے ہیں کہ یہ ہندستان کی سر زمین ہے جہاں چشتی اور نانک جیسے مذہبی پیش رؤ پیدا ہوئے۔دو بند ملاحظہ ہو:
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
یونانیوں کو جس نے حیران کردیا تھا
سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا
مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
میرا وطن وہی ہے،میرا وطن وہی ہے۔
اقبال کی شخصیت کو چند افراد نے متنازعہ بنادیا۔ چند افراد نے زور اعتقادی کی بنیاد پر اقبال کے نام کے ساتھ رحمتہ اﷲ علیہ لگانے لگے تو چند لوگ ایسے بھی تھے جو اقبال کو معتوب اور مردود قرار دیتے ہیں۔ اقبال کو شاعر اسلام کہنے والوں کا بھی ایک طبقہ موجود ہے جب کہ چند ایسے بھی لوگ ہیں جو اقبال کو غدار وطن بتاتے ہیں، اس ضمن میں حکم چند نہرو کا اقتباس بڑی اہمیت کا حامل ہے:
’’ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اسی دور میں رام اور نانک پر بھی نظمیں لکھیں اور انھیں دل کھول کر خراج عقیدت پیش کیا… اگر علامہ اقبال اسلامی شاعر بن گئے تھے تو غیراسلامی ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا کیا معنی رکھتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے کسی سطح پر ہندوستانی یا ہندوئوں کے فلسفیانہ افکار وخیالات، کمالات اور دوسری اعلیٰ ذہنی اور تمدنی قدروں سے انکار وانحراف نہیں کیا۔‘‘
(بحوالہ: اقبال عصری تناظر، صفحہ 243)
مجموعی طور پر ٹیگور اور اقبال دونوں نے اپنی شاعری کے ذریعے حب الوطنی کو فروغ دینے کی کوشش کی ،دونوں انسانیت کے اعلی اقدار کے تحفظ پر زور دیتے ہیں۔اقبال اور ٹیگور نے اپنی شاعری سے سوئے ہوئے قوم کو بیدار کرنے کا جو انوکھا راستہ اختیار کیا تھا اس کی ضرورت آج بھی قائم ہے۔اسے تاریخ کا المیہ ہے کہ ایک ہی عہد کے ان دو بڑے شاعروں کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔حالانکہ دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت و احترام کا جذبہ بھرا ہوا تھا۔آخر میں اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے:
ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت