زمانہ خواہ کوئی بھی ہو، ہر ایک میں کچھ ایسی شخصیات ضرور جنم لیتی ہیں جو اپنے کارناموں کی بدولت ہمیشہ ہمیش کے لیے امرہو جاتی ہیں۔زمانہء ماضی میںاس طرح کی کئی ایک مثالیں مل جائیںگی جو کل بھی زندہ تھیں آج بھی ہیںاور کل بھی رہیںگی۔ مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ شخصیات تھیں جنھوں نے اپنی تخلیقات سے نہ صرف اپنے عہد کو متاثر کیا بلکہ آنے والے ادوار پر بھی اپنے گہرے نقوش ثبت کئے ۔اردو کے ادبی افق پر بھی اس نوع کی شخصیات بڑی تعداد میں دیکھی جا سکتی ہیں اور ان میں امیر خسرو، ولی، میر، غالب اور اقبال وغیرہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اگر عالمی ادب پر نظرڈالی جائے تومشرق کی شعری روایت سے تعلق رکھنے والے شعرا و ادباء میں جو بڑے نام ابھر کر سامنے آئیںگے ان میںایک نام رابندر ناتھ ٹیگور کابھی ہوگا۔ ٹیگور کا شمار بیسویں صدی کے نابغہ میں ہوتا ہے اور ا نھوں نے بھی اپنی تخلیقات اور علمی و ادبی کارناموں کی بدولت اپنے عہد کے ساتھ ساتھ آنے والے ادوار کو بھی متاثر کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت اور فکرو فن کے حوا لے سے اب تک ان پر جتنا اور جو کچھ بھی لکھا جا چکاہے اتنا شاید ہی کسی اور ہندوستانی ادیب و فنکار پر لکھا گیا ہو۔
رابندر ناتھ ٹیگور۷/مئی ۱۸۶۱ ء کوکلکتے میں پید ا ہوئے اور علم و ادب کا ایک بیش بہاسر مایہ چھوڑ کر ۷/اگست ۱۹۴۱ءکووفات پاگئے۔ہر بڑے فنکار کی طر ح ان کی تخلیقات کا بھی دائرہ بہت وسیع ہے۔شاعری ، گیت، کہانیاں، مصوری اورموسیقی کے علاوہ تعلیم و فلسفہ اور سیاسیات میں بھی ا ن سے بہت سی یادگاریں وابستہ ہیں۔رابندر ناتھ ٹیگور کی بنیادی شناخت اگرچہ ایک بنگلہ ادیب و شاعر کی ہے اورا ن کے زیادہ ترعلمی و ادبی کارنامے اسی زبان میں ہیں مگراس کے ساتھ ہی انھیںانگریزی زبان پر بھی مہارت حاصل تھی۔ان کی انگریزی دانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی بیشتر تخلیقات کا ترجمہ خود بنگلہ زبان سے انگریزی میں کیا اور ا پنے پیغام کو پوری دنیا میں عام کیا۔ ۱۹۱۰ء میں ان کی شہرہ آفاق تصنیف ’گیتانجلی‘شائع ہوئی ۔اس کی اشاعت سے قبل ٹیگور کی پہچان اگرچہ ایک خاص علاقے اور زبان تک محدود تھی مگر جب ۱۹۱۲ء میں اس کا ترجمہ The Song Offeringکے نام سے ہوا اور ۱۹۱۳ء میں انھیںگراں قدر انعام نوبل سے نوازا گیا تو راتوںرات ان کی شہرت و مقبولیت بلندیوں پر پہنچ گئی اوردیکھتے ہی دیکھتے گیتانجلی کے علاوہ ان کی دیگر تخلیقات کے بھی ترجمے دنیا کی متعدد زبانوںمیں ہو گئے ۔آج تو صو رتِ حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں کم ہی ایسی زندہ زبانیںہوں گی جن میںٹیگورکی تخلیقات ترجمے کی شکل میں موجود نہ ہوں یا پھرخود ان پر کتابیں اور مقالات و مضا مین دستیاب نہ ہوں۔
دنیا کی دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی ٹیگور کی تخلیقات کے متعدد ترجمے ہوئے۔ نیاز فتحپوری کے عرض نغمہ سے لے کر اب تک ان کی بیشتر نظموں، گیتوں ، ناولوں، افسانوں ، ڈراموں اور مقالات و مضامین کے ترجمے منظر عام پر آچکے ہیں۔ان کے مترجمین میں نیاز فتح پوری( عرضِ نغمہ)، حامد حسن قادری(باغبان)، فراق گو رکھپوری(ایک سو ایک نظمیں)، عبد العزیز خالد(گلِ نغمہ)،ایم۔ ضیا ء الدین( کلامِ ٹیگور) کے ساتھ ساتھ عہدِ حاضر میں سہیل احمد فاروقی(کیتانجلی)، ایم علی(گورا)فہیم انور (میری یادیں) وغیرہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں اور یہی وہ ترجمے ہیں جن کی وساطت سے عام طور پر ٹیگو ر کی تحریروںکا رشتہ اردو ادب سے استوار کیا جاتا ہے اورآج اردو میں ٹیگور کے فکروفن کے حوالے سے جتنی بھی تحریریں دیکھنے کو ملتی ہیںان میں سے بیشتر انھیں تراجم سے مستفاد ہوتی ہیں۔ اردو زبان میں ٹیگور پر لکھنے والوں میں کم ہی ایسے ادباء و مترجمین ہوں گے جنھوںنے براہِ راست بنگلہ زبان میں ٹیگور کی تخلیقات کا مطالعہ ہو۔لیکن باوجود اس کے ان تراجم کی اہمیت وافادیت مسلم ہے۔انھیں کی دین ہے کہ آج ہم ٹیگور سے روشناس ہو سکے۔
ٍ بہر حال جب ہم ان ترجموں کی مدد سے ٹیگور کی تخلیقات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں ہمیںایک خاص قسم کا رنگ وآہنگ اور جذباتیت کا احساس ہوتا ہے۔بقول فراق گورکھپوری کہ ’ان کی ہر نظم میں ہندوستان کی سرزمین اور ہندوستان کے قالب کو ہم سانس لیتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ان کی نظموں میں ہندوستان کی مٹی بول اٹھتی ہے۔ان کی نظموں میں ہندوستان کے کھیتوں کی لہلہاہٹ ہے۔ یہاں کے دریاؤں کا ساز روانی ہے۔ یہاں کے شبنمستان کی کھنک ہے۔ یہاں کے موسموں کے جلوے ہیں۔ یہاں کے دن اور رات کی آئینہ داری ہے‘(۱)۔ شاید ٹیگور کی یہی وہ تخلیقیت اورکمال فن ہے جس کی وجہ سے ان کے کلام میں ایک ایسی کشش ،اپنائیت اور انفرادیت پید ا ہوگئی ہے جس کی مثال دوسرے شعرا کے یہاں شاید ہی نظر آتی ہو اور ان کی شاعری طبع زاد نہ ہو کر کے بھی طبع زاد معلوم ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جتنی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہوئے ان تمام نے اس سے اثرات قبول کیے ۔ مخدوم محی الدین ٹیگور کے کلام کی اثر انگیزی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’رابندر ناتھ ٹیگور کی تحریرات نے دنیا کی اکثر زبانوں پر اثرات ڈالا ہے۔ ہر جگہ ان کے پرستار اور قدر دان موجود ہیں۔ لوگ ان کے کلام کو بڑے شوق سے پڑھتے اور سر آنکھوں پر رکھتے ہیں، پھر اردو جو بنگالی کی ہم سایہ زبان ہے کیسے اس اثر سے بچ سکتی تھی، چنانچہ اردو پر بھی ٹیگور کا اثر ہوا۔نیاز فتح پوری اردو کے اپہلے انشا پر داز ہیں جنھوں نے ایک بسیط مقدمہ کے ساتھ گیتانجلی کا اردو ترجمہ کر کے ٹیگور کو اردو سے متعارف کرایا۔ کیتانجلی کا ترجمہ ہونا ہی تھا کہ ان کا دسرا کلام بھی سرعت کے ساتھ اردو میں منتقل ہوتا گیا۔ نظموں ، افسانوں اور ڈراموں کے ترجمے اردو رسالوں میں شائع ہو تے گئے ، اب بھی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کوئی رسالہ ان کے ذکر سے خالی نہیں رہتا۔اس بے پناہ ترجمہ کا نتیجہ تھا کہ اردو میں ایسے نوجوان انشا پر دازوں او رشاعروں کا گروہ پیدا ہوا جس نے ٹیگور کے رنگ میں لکھنا شروع کیا۔‘‘(۲)
ٹیگور سے اثرات قبول کرنے والے اردو کے ادباء وشعرا میں جوش ملیح آبادی، پریم چند، پنڈت بدری ناتھ، سدرشن، اعظم کریوی، دیوندر ستیارتھی، مجنوں گورکھپوری، سجاد ظہیر، اور نیاز فتح پوری وغیرہ کے نام خاص طو رپر قابلِ ذکر ہیں۔انھوںنے باقاعدہ طور پر ٹیگور کی تخلیقات کو پڑھا ، سمجھا اور اپنے اپنے طور پر انھیں اپنے تخلیقی فن پاروں میں برتا بھی اور تا ہنوز یہ سلسلہ قائم و دائم ہے۔ عصر حاضر میں انور قمر نے’ کابلی والا‘ کے کردار کی تو سیع کرتے ہوئے ’کابلی والے کی واپسی‘ کے عنوان سے افسانہ لکھا جو بہت ہی مقبول ہوا۔اس کے علاوہ اور بھی دیگر ایسے شعرا و ادباء ہیں جو ٹیگور کے سرچشمہء فکر و فن سے استفادہ کر تے ہوئے اپنے گلشن شعر وادب کو سیراب کر رہے ہیں۔
(اسے بھی پڑھیں جدید افسانہ اور سریندر پرکاش-رخسار پروین )
اس طرح اردو ادب پر ٹیگور کے کئی اعتبار سے اثرات مرتب ہوئے اور اس کی وجہ شایدا ن کی تخلیقیت اور اثر انگیزی ہی تھی ۔ مگر اردو زبان و ادب پر ٹیگور کے اس حد تک اثرات مرتب ہونے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ضروری طور پر کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا اثر پذیری کا یہ عمل صرف اردو زبان وادب کے ساتھ ہی خاص تھا؟کیا صرف اردو کے ادباء وشعرا ہی نے ٹیگور سے اثرات قبول کئے تھے؟ یا پھر اثر پذیری کی مثالیں ہمیں خود ٹیگور کے یہاں بھی اسی طرح دیکھنے کو ملتی ہیںجس طر ح کہ ہمارے شعرا و فکشن نگاروں کے یہاں موجود ہیں؟ کیوںکہ عام طور پر جب دو قومیں یادو لوگ آپس میں ملتے ہیں تو دانستہ و نادانستہ طور پر دونوں ہی ایک دوسرے سے اثرات قبول کرتے ہیں اور ادب میں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارا ادبی سر مایہ اس نوع کی اثریت وو تاثیر یت کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ چنانچہ جب ہم ان سوالوں کا جواب تلاش کرتے ہیں تو بادی النظر میں ان کا جواب نفی میں ہی ملتا ہے۔کیونکہ ٹیگور اردو زبان و ادب سے نا واقف تھے۔ مگرجب ہم مزید غور وفکر سے کام لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اثر پذیری کا عمل خود ٹیگور کے یہاں بھی موجود تھا اور انھوں نے بھی عالمی ادب کے ساتھ ساتھ خود اردو زبان و ادب سے اثرات قبول کیے تھے۔چونکہ ٹیگور جس زبان میں ادب تخلیق کررہے تھے اس کی ادبی بے بضاعتی کا احساس انھیں اسی وقت ہو گیا تھا جب کہ ابھی انھوںنے اپنی ادبی زندگی کا سفربہت زیادہ طے بھی نہیں کیا تھا۔ بقول شمیم طارق کہ :
’’ ٹیگور کی عمر جب ۳۰ سال تھی اسی وقت ان کو احساس ہو گیاتھا کہ بنگلہ زبان میں جو ادب تخلیق ہو رہاہے، قارئین اس سے متاثر نہیں ہوتے کیونکہ وہ نہ توآدرش اوراعلیٰ خیالات و موضوعات کو قبول کرنے کی صلاحیت بھی دوسری ہندوستانی زبانوں سے زیادہ ہے اس لیے ٹیگور کا اردو تخلیقات اور اردو ادب میں پیدا ہونے والے نئے رجحانات کی طرف متوجہ ہونا یا کم از کم ان سے باخبر ہونا باعثِ حیرت نہیں ہے‘‘۔(۳)
شمیم طارق کے اس اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگرچہ ٹیگور اردو زبان و اد ب سے براہ راست واقف نہیں تھے مگر باوجود اس کے انھو ںنے اس سے اثرات قبول کیے تھے ۔ کیونکہ موضوعات و خیالات کی سطح پر بنگلہ زبان و ادب کی جو صورتِ حال تھی اس سے وہ واقف تھے او ردیگر ہندوستانی زبانوں اور بالخصوص اردو زبان و ادب سے اثرات قبول کیے بغیر اس طرح کے افکارو خیالات کو پیش کرنا ناممکن سا تھا جیسا کہ انھوں نے بنگلہ زبان میں پیش کیے ہیں۔
اس کے علاوہ جب ہم ٹیگو رکے عہد کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دور بڑے پیمانے پر تغیرات و تبدلات کا دور تھا اوراس میں سیاسی و سماجی معاملات و مسائل کے ساتھ ساتھ علم و ادب میں بھی عالمی سطح پر تبدیلیاںاور تجربات ہو رہے تھے اور دیگر ادباء و شعرا کی طرح ٹیگور کا بھی ان سے محفوظ رہ پانا نا ممکن تھا۔چنانچہ عہدِ ٹیگور میں ہورہی تبدیلیوں اور اس کے اثرت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے شمیم طارق اپنے ایک مضمون’’ٹیگور کی فکرو آگہی ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’ٹیگور جب ۱۸۶۱ء میں پیدا ہوئے اس وقت سر سید (۱۸۱۷۔۱۸۹۸ء)سائنسی فکر کی آبیاری کرنے کے ساتھ روشن خیالی کو نئی تعبیر عطا کر رہے تھے۔ غالب (۱۷۹۷۔۱۸۶۹ء)کلکتہ میں فرنگی تہذیب اور فرنگی ایجادات کو خراجِ تحسین پیش کرکے دلی واپس آچکے تھے اور طبیعت کی تمام افسر دگی کے باوجود اردو نثر کو شگفتگی عطا کر رہے تھے۔ حالی(۱۸۳۷۔۱۹۱۴ء)۲۴برس کے تھے اور مسدس (۱۸۷۹ء) ، حیات ِ سعدی(۱۸۸۶ء)مقدمہ شعر وشاعری (۱۹۸۳ء)یاد گار غالب(۱۸۹۳ء)، حیات جاوید(۱۹۰۱ء)جیسی اہم علمی تنقیدی، تحقیقی اور سوانحی کتابوں کی تمہید تیار ہو رہی تھی۔ مراۃ العروس (۱۸۶۹ء) ، بنات النعش( ۱۸۷۳ء) توبۃ النصوح( ۱۸۷۷ء) اور ابن الوقت(۱۸۸۸ء)جیسے اصلاحی ناول لکھنے بلکہ اردو میں ناول نگاری کی بنیاد ڈالنے والے ڈپٹی نذیر احمد( ۱۸۳۶ء۔۱۹۱۲ء)اور ادبی تذکرے کی روایت مستحکم کرنے کے ساتھ ادبی تنقید کی مضبوط بنیاد استوار کرنے والے ’’ آبِ حیات‘‘ کے مصنف محمد حسین آزاد( ۱۸۳۰۔۱۹۱۰ء)عمر کے ۲۵اور ۳۱ سال مکمل کر چکے تھے۔ منشی پریم چند نے ٹیگور کو متاثر کرنے کے بجائے ان سے متاثر ہونے اور کہانی لکھنے کی تحریک پانے کا اعتراف کیا ہے مگر جب وہ پیدا ہوئے (۱۸۸۰ء) تب تک ڈپٹی نذیر احمد کے تین ناول شائع ہو چکے تھے۔لسان العصر اکبر الہ آبادی (۱۸۶۴۔ ۱۹۲۱ء ) بھی سن شعور کو پہنچ رہے تھے۔ مسلمانوں کے اقبال گزشتہ کے حوالے سے اردو شاعری کو آفاقی اور اجتماعی شعور بخشنے والے اقبال ( ۱۸۷۳۔۱۹۳۸ء) کو پیدا ہونے میں ابھی ۱۲یا ۱۶ سال باقی تھے مگر اپی علمی تحریروں اور قومی نظموں کے ذریعہ اقبال کی شاعری اولین نمونہ پیش کرنے اور ’’ شعر العجم‘‘ لکھ کر فارسی اور اردو شعریات کے رشتے کو مستحکم کرنے والے علامہ شبلی (۱۸۵۷۔۱۹۱۴ء) پیدا ہو چکے تھے یعنی جب ٹیگور پیدا ہوئے اس وقت اردو نظم و نثر نئے موضوعات کے ساتھ نئے پیرایہء بیان اور نئے تخلیقی تجربوں سے بھی گزر رہے تھی اور اس تبدیلی کے اثرات ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ادب پر بھی مرتب ہو رہے تھے اس لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ اردو ادب میں پیدا ہونے والے نئے رجحانات ، مسائل و مباحث اور تخلیقی سطح پر کیے جانے والے تجربوں سے ٹیگور واقف نہ رہے ہوں۔‘‘(۴)
ٹیگور اردو زبان و ادب میں ہو رہی تبدیلیوں اور رجحانات و میلانات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اردو کے شعرا وادباء کی تحریریں بھی ان کے مطالعے میں تھیں۔ چونکہ اس وقت تک ترجمے کی روایت کافی عام ہو چکی تھی اورمغربی ادبیات کے ساتھ ساتھ خود ہندوستان میں ہورہی تخلیقات کے ترجمے بھی بڑی تعداد میں سامنے آرہے تھے ۔اس لیے ان ترجموں کی توسط سے اردوشعرا و ادبا ء کی تخلیقات بھی ٹیگور کے مطالعے میں آچکی تھیں۔نیز وہ فارسی کی شعری روایت سے بھی نہ صرف بخوبی واقف تھے بلکہ حافظ، رومی،ا ور شیرازی کے افکار کی گونج ان کے کانوں میں بچپن سے ہی سنائی دے رہی تھی۔ اس کا اعتراف ہمیں خود ٹیگور کے یہاں ملتا ہے جو انھوں نے جوش ملیح آبادی سے ایک ملاقات کے دوران کیا تھا۔ جوش ملیح آبادی اپنی اس ملاقات کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’غلغلہ سنا کہ ٹیگو رآئے ہوئے ہیں۔ ان سے ملنے گیا۔ انھوںنے مجھ کو سرسے لے کر پاؤں تک دیکھنے کے بعدانگریزی میں پوچھا:’’کیا یہ بات سچ ہے کہ میں ایک نوجوا ن شاعر کے چہرے کو دیکھ رہاہوں۔‘‘میں نے سر جھا کر انگریزی میں جواب دیا :’’شاید‘‘۔ انھوں نے میرانام پوچھا ۔ جب میں نے اپنا تخلص بتایا۔انھوں نے میرا ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کیا اور کہایہ عجیب اتفاق ہے کہ کل ہی سروجنی نائیڈو نے آپ کی ایک نظم’’طلوعِ سحر ‘‘ کا ترجمہ سنایاتھااور آج آپ سے ملاقات ہو گئی۔آپ کی نظم لاجواب ہے اور اس کے سننے کے بعد میں آپ کو فرزند سحر گاہ کہہ سکتا ہوں۔اس کے بعد انھوں نے بتایا کہ میرے باپ فارسی کے بڑے اسکالر تھے اور دیوانِ حافظ ان کے سرہانے رکھا رہتا تھا۔جب میں رخصت ہونے لگا تو انھوںنے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ آپ شانتی نکیتن آکرکچھ روز کے لیے میرے ساتھ رہیں اور حافظ کی اسپرٹ سے مجھ کو بخوبی آگاہ کریں؟میں نے بڑی خوشی کے ساتھ ان کی دعوت قبول کر لی اور جگنو خدمت گار کو لے کر وہاں پہنچ گیا اور مطالعے کے لیے بہت سی کتابیں بھی ساتھ لے لیں۔‘‘(۵)
مذکورہ بالا اقتباس میں اگرچہ جوش کی خود ستائی نمایاں ہے مگر اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیگور بچپن سے ہی فارسی کی شعری روایت سے آشنا تھے۔نیز تراجم کی مدد سے وہ اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ اردو میں اس وقت کس قسم کا ادب تخلیق ہو رہا تھا۔ میر ی اس رائے کی تائید ممنون حسن خاں کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جس میں انھوںنے بیان کیا ہے کہ ایک بار جب ۱۹۳۴ء میں وہ سرسید کے پوتے راس مسعود ، شیا ما پرساد مکھرجی کی دعوت پر کلکتہ تشریف لے گئے تواس سفر میں راس مسعود کے شخصی معاون ہونے کے ناطے وہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ایک شام جب ’’ قدیم عالمی شاعری اور فلسفہ ‘‘ کے عنوان سے ٹیگور کا لکچر ہو نا طے پایا تو اس کو سننے کے لیے وہ بھی راس مسعود اورشیا ما پرساد مکھرجی کے ساتھ وہاں پہنچ کیے۔لکچر کے اختتام پر جب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا توراس مسعو سے اجازت لے کر انھوں نے یعنی ممنون حسن خاں نے بھی ٹیگور سے ایک سواپوچھا کہ ’’ اقبال کی عالمی شاعری اورفلسفہ‘‘ کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں ٹیگور نے جو باتیں کہیں وہ ممنون حسن کے الفاظ میں کچھ اس طرح تھیں:
’’حالانکہ میںاردو فارسی نہیں جانتا، لیکن میں نے اقبال کی شاعری اعلیٰ ترین انسانیت کی تعلیم دیتی ہے۔اقبال اپنی شاعری کے ذریعہ انسان کو دنیا میں بلند ترین مقام پر لے جانا چاہتے تھے۔میرا مقصد بھی انسانیت کی خدمت ہے۔اپنشدو ں سے لے کر موجودہ زمانے تک روحانی معلموں نے آدمی کو اخلاقی بلندی کی تعلیم دی ہے۔علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری اور فلسفے کے ذریعے یہی کام انجام دیا ہے۔‘‘(۶)
اس واقعہ کی تصدیق ٹیگور کے اس تعزیت نامے سے بھی ہوتی ہے جو انھو ں نے اقبال کے انتقال پر بے انتہا درد و غم کا اظہار کرتے ہوئے بھیجا تھا اور جس میں انھوں نے اقبال کی وفات کو ہندوستانی ادب کے لیے ایک بڑا خسار ہ قرار دیا تھا۔’’ڈاکٹر اقبال اپنی وفات سے ہمارے ادب میں ایسی جگہ خالی کر گئے جس کا گھاؤ مدتِ مدید میں بھی مندمل نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان کا رتبہ آج دنیا کی نظر میں اتنا کم ہے کہ ہم کسی حالت میں ایسے شاعر کی کمی برداشت نہیں کرسکتے جس کے کلام نے عالمگیرمقبولیت حاصل کر لی تھی۔‘ـ‘(۷)
یہ اور اس طرح کے اور بھی بہت سے ایسے شواہد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیگور بھی اردو زبان و ادب سے واقف تھے اور انھوں نے اس سے اثرات بھی قبول کیے تھے۔ مذکورہ بالا دلائل کے علاوہ ان کے یہاں بہت سی ایسی نظمیں بھی مل جاتی ہیں جن میں جوش، اقبال اور دیگر شعراے اردو کے رنگ میںمناظر فطرت کی عکاسی، حب ِ وطن، خدا و محبت، انسان دوستی اور انسانی نفسیات و کیفیات وغیرہ کا بیان ملتاہے ۔ اسی طرح ٹیگور کا بنگلہ اور انگریزی زبانوں میں اردو زبان وادب میں مستعمل لفظیات کا متبادل استعمال کرنا او ر ارد و شعرا کی نظموں کی طرح اپنی نظموں کے عنوان متعین کرنا وغیرہ ایسی باتیں ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیگور نے یہ ساری خصوصیات اپنی شاعری میں اردو شعر و ادب سے متاثر ہو کر ہی پیدا کی ہوں گی۔نیز ’نوکا ڈوبی‘ اور ’چوکھیر بھالی ‘ وغیرہ ٹیگو ر کی ایسی کہانیاں ہیں جن میں گھریلو زندگی بالخصوص ازدواجی زندگی کے مسائل و معاملات اور ان سے پیدا ہونے والی کشمکشوں کو بنیاد بنا کر ان میں اصلاح کی کوشش کی گئی ہے ۔ حالانکہ ہندوستان کی سطح پر اس طرح کی کہانیاںاور ناول نگاری کی ابتد ااردو ہی سے ہوئی تھی۔ اس تعلق سے نذیر احمد اورراشدالخیری وغیرہ کے ناولوں کوبطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے ۔
غرض یہ کہ جس طرح ٹیگور کی تحریروںکا اثر اردو ادب پڑا ،مختلف شعرا و ادباء نے ان سے اثرات قبول کیے اوران کے نقشِ قدم پر چل کر اردو میں بھی مختلف نظمیں اور کہانیاں لکھیں ٹھیک اسی طرح خود ٹیگور بھی بالواسطہ ہی سہی مگر اردو زبان وادب اور اس کی شعری روایت سے بخوبی واقف تھے اور انھوںنے بھی اپنے عہد کے دیگر فنکاروں کی طرح نہ صرف فکری و فنی سطح پر دیگر زبانوں اور بالخصوص اردو زبان و ادب سے اثرات قبول کیے تھے بلکہ ان کو اپنے تجربات کا حصہ بھی بنایاتھا ۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو بنگلہ زبان کی بے بضاعتی کے باوجود شاید ٹیگور اس طرح کے عظیم اور غیر معمولی تخلیقی کارنامے پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے جس طرح کہ انھوں نے پیش کیے اور جن کی بدولت انھیں دنیا کامعزز ترین انعام نوبیل سے نوازا گیا۔
٭ ٭ ٭
حواشی:
(۱) رابندرناتھ ٹیگور کی شاعری پر طائرانہ نظر، فراق گو رکھپوری، بحوالہ ٹیگور کی بازیافت، شہزاد انجم( مرتب)ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ص:۵۱
(۲) اردو ادب پر ٹیگور کے اثرات، مخدوم محی الدین، بحوالہ رابندر ناتھ ٹیگور: فکر وفن،شہزاد انجم(مرتب)مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی،ص:۵۴۵
(۳) ٹیگو ر کی فکر و آگہی، شمیم طارق، مشمولہ ٹیگور کی بازیافت، شہزاد انجم( مرتب)ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ص:۹۵
(۴) ایضا، ص:۹۴
(۵) یادوں کی بارات،جوش ملیح آبادی، ص:۱۹۷۔۲۰۲
(۶) مجلس ممنون، ممنون حسن خاں، ص:۱۵۸
(۷) فروغ ِ اقبال، افتخار احمد صدیقی،ص:۱۳۴
AbdurRazzaqueZiyadi
204-E, Mahanadi Hostel, JNU
New Delhi-110067
Mobile No. 9911589715
E-mail: arziyadi@gmail.com
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |