اردو کی تحریکی شاعری : جنگ آزادی سے حصول آزادی تک/ڈاکٹر مظفر مہدی
مبصر : ڈاکٹر نوشاد منظر
اردو زبان و ادب کی ترقی میں تحریکوں اور رجحانوں کا بے حد اہم رول رہا ہے۔ان تحریکوں اور رجحانوں نے شعر و نثر کے تمام اصناف کو متاثر کیا ، یہی وجہ ہے کہ جدید(پہلی ناکام جنگ آزادی کے بعد سے) شاعر و ادیب کسی نہ کسی تحریک یا رجحان سے متاثر نظر آتے ہیں۔تمام تحریکوں اور رجحانوں کے متعلق کئی کتابیں بھی دستیاب ہیں، جن میں اس تحریک یا رجحان کے غرض و غایت کے ساتھ مقاصد کو بھی پیش کیا گیا ہے، مگر ایسی کتاب ہمیں نظر نہیں آتی جس میں تمام تحریکوں یا رجحانوں کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہو اور ان کے درمیان موازنہ کیا گیا ہو۔اس کمی کو ڈاکٹر مظفر مہدی کی کتاب ’’اردو کی تحریکی شاعری : جنگ آزادی سے حصول آزادی تک‘‘ بڑی حد تک پورا کرتی ہے۔
ڈاکٹر مظفر مہدی کی کتاب’’اردو کی تحریکی شاعری : جنگ آزادی سے حصول آزادی تک‘‘ میں ۱۸۵۷ سے لے کر ۱۹۴۷ کے درمیان کی تحریکوں اور رجحانوں اور اس سے متاثرہونے والی شاعری کو پیش کیا گیا ہے۔ڈاکٹر مظفر مہدی کی شناخت ایک افسانچہ نگار اور ناقد کے طور ہے، ان کی مذکورہ کتاب کئی حوالوں سے اہم ہے۔اس کتاب کا پیش لفظ پروفیسر احمد سجاد اور مقدمہ حقانی القاسمی نے لکھا ہے۔مصنف نے اس کتاب کو بارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے، ساتھ ہی کچھ ضمنی ابواب بھی قائم کئے ہیں۔
زیر نظر کتاب کا پہلا باب’’تعارف۔ موضوع کی اہمیت اور طریقۂ مطالعہ‘‘ ہے۔اس باب میں مصنف نے تحریک اور اس کے مفہوم پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے، ان کا خیال ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی چند بنیادی نکات پر منحصر کرتی ہے، اس ضمن میں انھوں نے مخصوص نصب العین، اجتماعیت، سعی و عمل کا سلسلہ وغیرہ جیسے ضمنی عنوانات قائم کرتے ہوئے تفصیلی بحث کی ہے۔ظاہر ہے کسی بھی تحریک کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم خیال لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے، ورنہ کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔
کتاب کا دوسرا باب’’ سماجی ومذہبی بیداری اور ۱۸۵۷ کا تاریخی پس منظر‘‘ ہے۔ہندوستان کی تاریخ میں ۱۸۵۷ کو کئی حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے، پہلی ناکام جنگ آزادی جسے بعض لوگ بغاوت کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں، اس واقعے کے رونما ہونے کے پس پردہ کئی عوامل تھے، ڈاکٹر مظفر مہدی نے اس تاریخی پس منظرکا ذکر کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستان مختلف رجواڑوں، جاگیرداروں، نوابوں اور تعلق میں تقسیم تھا، جس کا فائدہ مٹھی بھر انگریزوں نے اٹھایا، حالانکہ جب انگریزوں کے مظالم بڑھے تو یہ تما م طاقتیں متحد ہوئیں، اور ۱۸۵۷ کا واقعہ رونما ہوا۔ یہ اتحاد ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آئی مگر بقول مصنف یہ چراغ سحر ثابت ہوئی، اور مٹھی بھر انگریزوں نے اس ملک پر پوری طرح اپنی حکومت قائم کرلی۔
زیر مطالعہ کتاب کا تیسرا باب’’ سماجی و مذہبی، اصلاحی تحریکات کا آغاز و ارتقاء‘‘ ہے۔ ڈاکٹر مظفر مہدی نے اس باب میں ان تمام سماجی و مذہبی تحریکوں پر گفتگو کی ہے، جن کا سماج پر گہرا اثر مرتب ہوا۔برہمو سماج، آریہ سماج،ولی اللہی تحریک، تحریک مجاہدین،تحریک دیوبند،علی گڑھ تحریک،تحریک ندوۃ العلماء، امارت شرعیہ،جمیعۃ العلماء اور تحریک تصوف کے ساتھ کل ۱۶ تحریکات کا ذکر کیا ہے۔مصنف کا خیال ہے کہ جب انگریزجدیدے تعلیم اور صنعتی انقلاب کے ساتھ نئی چیزوں کے ایجاد میں سرگرداں تھے، ہمارا معاشرہ چھوت چھات، ذات پات، بچپن کی شادی ، ستی پرتھا، بیواوں کے ساتھ نفرت وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا تھا۔مگر جیسے جیسے جدید علوم عام ہوئے ہمارے یہاں بھی بیداری آئی اور ہندو مسلم دونوں طبقے کے باشعور اور سچے قائدین نے اس جانب توجہ دی اور اس طرح مختلف تحریکات وجود میں آئیں۔ مذکورہ بالا تمام تحریکات اس ضمن میں اہم ہیں۔ ان تحریکات نے نہ صرف سماجی برائیوں کو دور کیا بلکہ مذہب کے نام پر جو غلط باتیں راہ پا گئی تھیں ان کی نشاندہی بھی کی اور ساتھ ہی عوام کے دلوں میں وطن سے محبت کے جذبے کو ابھارا۔ڈاکٹر مظفرمہدی نے تفصیل سے ان تحریکوں کے آغاز و ارتقا کے ساتھ ساتھ ان کے مقاصد اور سماج پر پڑنے والے ان کے اثرات کو بھی نشان زد کیا ہے۔ ان تمام تحریکوں کا مجموعی طور پر ایک مقصدجنسی اور سماجی عدم مساوات کو دور کرنا اور سماج کو قدیم و جدید تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔کتاب کے اس باب کو پڑھتے ہوئے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اسلاف نے ایک بہتر سماج بنانے کے لیے کیا کیا قربانیاں دی ہیں۔
کتاب کا چوتھا باب’’ جدوجہد آزادی اور مختلف وسیاسی تحریکات کا آغاز‘‘ ہے جو دراصل تیسرے باب کی توسیع ہے۔ اس باب میں مصنف نے خالص سیاسی تحریکوں کے ساتھ ترقی پسند تحریک کو شامل کیا ہے۔مصنف نے انڈین نیشنل کانگریس،مسلم لیگ،تحریک خلافت،تحریک ترک موالات،خاکسار تحریک، تحریک پاکستان اور ترقی پسند تحریک کا ذکر کیا ہے۔تاریخ کامعمولی علم رکھنے والا شخص بھی ان تمام تحریکوں اور ان کی خدمات سے واقف ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان تحریکوں نے ہی آزادی کے لیے راہ ہموار کیں ۔ ان میں ایسی بھی تحریکیں شامل ہیں جنہیں تقسیم کے لیے سیدھے طور پر ذمہ دار کہا جاسکتا ہے، جن میں مسلم لیگ اورتحریک پاکستان اہم ہیں۔ حالانکہ مصنف کا خیال ہے کہ مسلم لیگ کا قیام کانگریس کی فرقہ وارانہ ذہنیت کے ردعمل کے طور پر عمل میں آیا، اصل میں یہ انگریزوں کی پالیسی Divide and ruleکی دین تھی۔انگریزوں نے ہمیشہ مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی،اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ، یہی نہیں جس نفرت کی بیج کو انگریزوں نے آج سے برسوں پہلے بویا تھا، اس کی آبیاری کہیں نہ کہیں مسلم لیگ نے کی جو کہ دھیرے دھیرے ایک تناور درخت بن گیا۔ڈاکٹر مظفر مہدی نے مذکورہ تمام تحریکوں اور ان کے مقاصد کے ساتھ ان کے بانیوں کو بھی ذکر کیا ہے۔
زیر مطالعہ کتاب کا پانچواں باب’’اردو شاعری میں اصلاحی تحریکات کے اثرات ‘‘ ہے،اس باب کو مصنف نے دو ذیلی باب ’’ مسلمانوں کی اصلاحی تحریکیں اور اردو شاعری ‘‘ اور ’’ ہندوؤں کی اصلاحی تحریکیں اور اردو شاعری ‘‘میں تقسیم کیا ہے۔ کتاب کے عنوان کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کتاب یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ڈاکٹرمظفر مہدی نے اس باب کے پہلے حصے میں تحریک مجاہدین ، تحریک دیوبند،علی گڑھ تحریک ، تحریک خلافت اور اردو شاعری اور دوسرے باب میںچکبست سے لے کر فراق گورکھ پوری تک سات غیر مسلم شعرا اور ان کے کلام پر گفتگو کی ہے۔
کتاب کے چھٹے باب میں ڈاکٹر مظفر مہدی نے تحریک آزادی کے زیر اثر وجود میں آئی اردو شاعری اور اس کی خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔کتاب کا ساتواں حصہ ’’ اردو کی تحریکی شاعری کا تفصیلی مطالعہ ‘‘ہے۔ یہ باب اس کتاب کاسب سے اہم حصہ ہے۔ اس باب کو مصنف نے تین ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دو حصے میں انہوں نے محمد حسین سے لے کر ساحر لدھیانوی تک کل ۲۸ شعرا اور ان کے کلام کا مطالعہ پیش کیا ہے۔جب کہ تیسرے حصے میں انہوں نے تعمیری ادب کی تحریک اور اس سے وابستہ پانچ اہم ماہر القادری،نعیم صدیقی،مائل خیر آبادی،ابو المجاہد زاہد اور حفیظ میرٹھی جیسے شعرا کا ذکر کیا ہے، مصنف نے اس بات کی وضاحت بھی کردی ہے کہ ان شعرا کے علاوہ دوسرے شعرا بھی اس تحریک سے وابستہ رہے ، مگر انہوں نے بطور مثال ان شعرا کا ذکر کیا ہے۔
کتاب کا آٹھواں حصہ’’تحریکی شاعری کا تنقیدی مطالعہ‘‘ ہے، جس میں مصنف نے اردو میں تحریکی شاعری پر مختصرا گفتگو کی ہے۔وہ اردو میں تحریکی شاعری کے باب میں لکھتے ہیں کہ ہر دور میں تحریکی شاعری کا اثر دیکھنے کو ملا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کی شکل بدلتی رہی ہے۔
مجموعی طور پر یہ ایک اہم کتاب ہے جس میں مظفر مہدی نے نہایت تفصیل سے تمام تحریکوں اور شاعری پر مرتب ہونے والے اثرات کا ذکر کیا ہے ۔امید کی جاتی ہے کہ ادبی حلقے میں اس کتاب کی پذیرائی ہوگی۔