استاد یگانہؔ چنگیزی کے طبع زاد خیال ’ہاں وسعتِ زنجیر تک آزاد بھی ہوں میں ‘ کو ندا فاضلی بھائی نے کیا خوب نظم کیا ہے، فرماتے ہیں؎
زنجیر کی لمبائی تک آزاد ہے قیدی
جنگل میں پھرے یا کوئی گھر بار بسالے
گزشتہ ایک سالہ اس عجیب و غریب صورتِ انسانی،جسے ہم ’لاک ڈاؤن‘ سے معنون کر رہے ہیں، استاد یگانہؔ نے کتنی سچی تصویر پیش کردی ہے۔لاک ڈاؤن میں ہر شخص ’وسعتِ زنجیر یا زنجیر کی لمبائی ‘ تک آزاد دکھائی دیتا ہے۔صبح سات سے گیارہ بجے تک اشیائے خوردنی و ادویات کی دوکانوں تک آزادی ، پھر آگے چل کر حدودِ تعلقہ تک سفر کی آزادی،تاہم درونِ ضلع آمد ورفت پر پابندی،کچھ حد تک بیرونِ ضلع رسل ورسائل کی آزادی،سرکاری بسوں میں سفر کی آزادی،تاہم خانگی موٹر گاڑیوں پر پابندی، مے فروشی اور مے نوشی کی آزادی،تاہم بعدِ مے نوشی مستانہ وار سڑکوں پر گھومنے کی پابندی،مے فرشوں کی دوکانوں پر قطار در قطار ایستادہ اصحابِ شہر کا جمِ غفیر،اور پھر وہیں کسی دوکان پر ’سودوں کی تکرار‘ والا منظر۔بقول مولانا ریاض خیر آبادی،
پی کے آیا ہے کوئی بھیس بدل کر شاید
مے فروشوں کا یہ زاہد سے تقاضہ کیسا
زندوں پر ہزار ہا پابندیاں تاہم انسانی لاشوں کو بعینہ آزادی،تندرستوں کی جسمانی اور ذہنی حد بندی، تاہم مریضوں کو بے چوں و چرا نقل و حرکت کی آزادی،ان تمام پابندیوں پر پابندِ وفا رہنے والوں پر آزاد منشوں کو قہقہہ لگانے کی آزادی،تاہم اپنے کسی عزیز کو دیدار کے ساتھ رخصت کرکے رو لینے پر پابندی،افواہوں پر حزن و یاس دو چند کرنے اور خبروں پر دورانِ خون بڑھا لینے کی مکمل آزادی تاہم اخبار کی چھپائی اور فروخت پر پابندی۔ان متنفر حالات سے گھبراکر ’نمازِ سرّی‘کی مانند دل ہی دل میں ’مالکِ حقیقی‘کو یاد کرلینے کی آزادی تاہم عبادت گھروں میں جاکر اپنا دکھڑا رونے پر پابندی،آئے دن کسی اپنے کے رخصتی کی خبر سن کر ہیجانی کیفیت میں گھِر جانے کی آزادی،تاہم اسی کیفیت کے’سوشل میڈیا‘کے اظہار پر پابندی،بے یار و مدد گار اپنے ہی گھروں میں قید رہنے کی آزادی تاہم وطن کو لوٹ جانے پر پابندی،چچا غالبؔ نے آدمی کو تو صرف ’محشر ِخیال‘کہا تھا لیکن یہاں تو صورتِ حال ’ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ وبال‘سی ہوگئی ہے۔ہر شخص ایک انجانے اور غیر یقینی خوف کے سایے میں زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔اور یہ از خود نافذ کردہ قید اس خوف کو دو آتشہ کرنے کا کام رہی ہے۔اسی قید و رہائی کی نیرنگی سے ملک پریشان ہے اوراسی زنجیر کی لمبائی تک آزادی سے ہم سب گزشتہ ایک برس سے دوچارہیں۔اور وہ یومیہ تنخواہ پانے والے مزدور پیشہ لوگ،جو انہی پابندیوں میں جینے سے قاصر اور مرنے سے لاچار ہیں، ان بے چاروں کی بڑی عجیب کیفیت ہے،بقول شعری بھوپالی،
پیچھے بندھے ہیں ہاتھ مگر شرط ہے سفر
کس سے کہیں کہ پاؤں کے کانٹے نکال دے
(یہ بھی پڑھیں جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے دور میں اردو زبان و ادب کی تدریس – ساجد حمید )
اس تمام عالمِ نفسا نفسی میں یہ بھی ایک دلچسپ پہلو دیکھنے کو ملا کہ جوشخص حکومت کے ذریعے عائد کردہ حفظانِ صحت کی پابندیوں پر عمل پیرا ہے،متواتر ماسک لگاتا ہے،چھ فٹ کا فاصلہ کا برقرار رکھتا ہے،ایسے کسی شخص پر وہ لوگ مسکرارہے ہیں جو ان تمام قید و بند سے خود کو آزاد رکھے ہوئے ہیں۔بجائے خود پابندی لازم کرنے والا شخص بھی ان الہڑ لوگوں پر خندہ زن ہے جو مست مولیٰ بے وجہ شہر میں گردش کررہے،کل ملا کر یہ کہ بقول کسے،
دیوانے پر سب ہنستے ہیں
دیوانہ سب پر ہنستا ہے
گزشتہ برس مارچ کے وسط سے ملک بھر میں (بلکہ کل عالم میں)’کرونا‘نامی اس جان لیوا مرض نے انسانوں کو بالقصد اپنے ہی گھروں میں قید کردیا ہے۔ٹیلی ویژن پر سیکڑوں انسانوں کی لاشیںدیکھنے کی میری آنکھیں کیوں کر متحمل ہوسکتی ہیں!ایک ماہ موت کی اسی نیرنگی میں گزر گیا۔اور اب جب دوسرا مہینہ شروع ہوا تو ملک بھر میں مقام گزیں مزدور طبقہ اپنے گھر جا رہا ہے۔یا علام الغیوب!شاہ راہوں سے،قصبوں سے،ریل کی پٹریوں سے، کھیت کھلیانوں سے،ایک اژدہامِ انسانی ہے جو بھوکا پیاسا اپنے ساز و سامان اور شیر خوار بچوں کو سر پر اٹھائے بے سمت وطن پہنچنے کے جنون میں نکل پڑا ہے۔ یا المقیت! غذا کی بجائے راستے بھر میں سنتریوں کی ڈانٹ پھٹکار کھاتے، پانی کی بجائے صبر کے گھونٹ پیتے پیتے انسانوں قوتوں سے متجاوز ہوکرلامتناہی سلسلۂ بے کساں ہزاروں میل کی مسافت طئے کرنے کی جستجو میں سرِ راہ دکھائی دیتا ہے۔ یاالبصیر!ہزار آنکھوں سے دیکھنے والا میرا ربِ کریم،ان کروڑوں آنکھوں کی بے بسی کو دیکھ کر بھی کیوں نہیں پسیجتا ہے؟ (یہ بھی پڑھیں جامعات میں اردو : صورتِ حال اور مستقبل کے امکانات – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
یومیہ تنخواہ پر کام کرنے والے لاکھوں مزدور دو ماہ سے سرکاری اور فیاض لوگوں کے رحم و کرم پر زندگی گزارتے،اپنے کس ناکردہ گناہ کی سزا پا رہے ہیں،خدا جانے۔سوچتا ہوں کہ اس رزّاقِ دو جہاں کے خزانے کو کیا ہوا؟جو لاکھوں ’اشرف المخلوقات‘ کو رزق دینے سے قاصر نظر آرہا ہے!یہ کیسا شیوئہ خداوندی ہے جو بھوکا سُلا بھی رہا ہے اور بھوکا جگا بھی رہا ہے! اس ’ستارالعیوب‘ کو کیا ہوا کہ اس کے لاچار بندے جرمِ نا کردہ کی پاداش میں یوں سرِ بازار رسوا کیے جا رہے ہیں!اس ’قاضی الحاجات‘ کو کیا ہوا جو ضرورت مندوں کو تڑپتا دیکھ رہا ہے!
غالبؔ نے شاید ایسے ہی کسی موقعہ کے لیے یہ شعر کہہ رکھا ہو،
؎ زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
اے دوجہاں کے پالن ہار!! یا الحفیظ۔
اپنی خدائی دکھا میرے مولیٰ کہ تیرے بندوں کی ہزار روتی بسورتی آنکھوں کو شکیب آئے۔
انہی حالاتِ کس مپرسی کا ایک بے حد غیر انسانی پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ اس عجیب و غریب کورونا نامی مرض نے رشتوں کی حدت و معنویت کو ہی بدل کر رکھ دیا۔’باپ‘جیسی عظیم ہستی کو اگر کورونا ہوکر اسی سے موت واقع ہوجائے تو اس کا ’لختِ جگر‘اس کے لاشے کو چھونے سے بھی ڈرے، زندگی بھر ماں کا دم بھرنے والی بیٹی کورونا سے مرجانے والی اپنی ماں کے جسدِ خاکی سے ٹھیک ویسے ہی ڈرے جیسے کوئی سگ گزیدہ پانی سے۔کتنی ہی معصوم لاشیں سرکاری و غیر سرکاری دواخانوں سے،براہِ راست قبرستان و شمشان بھومی پہنچائی گئیں۔اپنوں کی کنارہ کشی کے طفیل ،بلا تفریقِ مذہب و ملت،غیروں کے کاندھے دینے اور تدفین کرنے کی سیکڑوں خبریں دنیا بھر میں گردش کرتی رہیں۔انسانیت کا ایسا بہیمانہ قتل ایک صدی میں کسی نے نہ دیکھا ہوگا۔میں یہ سطریں لکھ ہی رہا تھا کہ دفعتاً قرانِ کریم کی ایک آیاتِ مبارکہ ذہن میں کوند پڑی۔
قران ِ کریم کے سورہ المومنون کی مکی آیات نمبر 101 میں خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے،
فَإِذَا نُفِخَ فِى ٱلصُّورِ فَلَآ أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَآءَلُونَ
(پھر جب صور پھونکا جائے گا تو ان کے درمیان اس دن نہ رشتے رہیں گے اور نہ وہ ایک دوسرے کا حال پوچھ سکیں گے)
حافظ عماد الدین ابن کثیر کی تالیف مشہورِ زمانہ ’’تفسیر ابن ِکثیر‘‘میں مولف نے لکھا ہے کہ ،
’’جب جی اٹھنے کا صور پھونکا جائے گا اور لوگ اپنی قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے، اس دن نہ تو کوئی رشتے ناتے باقی رہیں گے۔ نہ کوئی کسی سے پوچھے گا، نہ باپ کو اولاد پرشفقت ہو گی، نہ اولاد باپ کا غم کھائے گی۔ عجب آپا دھاپی ہو گی۔ جیسے فرمان ہے کہ،وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا يُبَصَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ( 70-المعارج: 10، 11 ) کوئی دوست کسی دوست سے ایک دوسرے کو دیکھنے کے باوجود کچھ نہ پوچھے گا۔ صاف دیکھے گا کہ قریبی شخص ہے مصیبت میں ہے، گناہوں کے بوجھ سے دب رہا ہے لیکن اس کی طرف التفات تک نہ کرے گا، نہ کچھ پوچھے گا آنکھ پھیرلے گا، جیسے قرآن میں ہے کہ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ( 80-عبس: 34- 37 ) اس دن آدمی اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے، اپنی بیوی سے، اور اپنے بچوں سے بھاگتا پھرے گا۔‘‘(تفسیر ابنِ کثیر،ترجمہ فتح محمد جالندھری صفحہ نمبر 843)
یا خدائے دوجہان،اے ربِ کائنات،اے حشر کے منصف،یہ روزِ حشر سے قبل ہی حشر کے محاکات،تو کیا گویا اس کے بعد بھی کوئی اس جیسا روح فرسا حشر اور دیکھنا ہے؟لہٰذا اب بقول والدِ محترم مرحوم خلیل فرحتؔ کارنجوی،
اے داورِ محشر! ہمیں فردوس عطا ہو!
دنیا میں جہنم کی سزا کاٹ چکے ہیں
یہ ریزہ ریزہ ٹوٹتی انسانیت تجھ سے رحم کی طلب گار ہے اے مالکِ ایں و آں۔اس ناگہانی بلا سے ہمیں ’زنجیر کی لمبائی تک‘کے بجائے ’مکمل آزادی‘ عطا فرما مولائے مرگ و زیست!
اخیر میں ندا فاضلی بھائی کے ہی مصرع پر اپنی بات ختم کرتا ہوںکہ،’جینے والوں کو مرنے کی آسانی دے مولیٰ‘۔ ٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |