پروفیسر ظفر احمد صدیقی (6فروری1953۔29دسمبر2020)سے میری پہلی ملاقات2011میں جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی میں پی ایچ ڈی کے انٹرویو کے دوران ہوئی۔پی ایچ ڈی میں میرا موضوع ”احمد فراز کی شاعری کا تنقیدی جائزہ“تھا۔اس انٹرویو میں مجھ سے شاعری کے حوالے جو سوالات معلوم کیے گئے وہ تو اب یاد نہیں البتہ اتنا ضروریاد ہے کہ میرا موضوع اس وجہ سے مسترد کر دیا گیا کہ ”احمد فراز“کی شاعری میں جو احتجاج موجود ہے اس کا پس منظر پاکستانی سیاست ہے۔اس لیے ہم آپ کا موضوع کینسل کر رہے ہیں۔میں حیرت زدہ تھا کہ مولوی صفت آدمی بڑی شائستگی سے جو باتیں کہہ رہا ہے وہ آخر کون ہے،باہر آنے پر معلوم ہوا کہ موصوف ظفر احمد صدیقی ہیں،علی گڑھ کے شعبۂ اُردو میں بہ حیثیت استاد ہیں اورتحقیق،تدوین،املا ان کے خاص میدان ہیں۔
میں نے کسی طرح ظفر صاحب کا نمبر حاصل کیا اور ان سے موبائل پر گفتگو کرنے لگا۔انھوں نے زبان و املا کے رموز و علائم پر اپنے تجربات کی روشنی میں مجھے بہت کچھ بتایا۔ٹیلی فون پر ملاقاتوں کا سلسلہ یوں ہی دراز ہوتا رہا۔24مارچ 2019بروز اتوارکو انجمن ترقی اُردو(ہند)نئی دہلی نے قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان،نئی دہلی کے اشتراک سے ”اُردو کی تاریخ نویسی کی تشکیلِ نو“عنوان سے یک روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیاگیا۔ اس سمینارر میں ڈاکٹر شمس بدایونی اور پروفیسر ظفر احمد صدیقی بھی مدعو تھے۔ ان دونوں حضرات سے ملنے کا اشتیاق کی وجہ سے انجمن کے پروگرام میں میری شرکت تو لازمی تھی۔ڈاکٹرشمس بدایونی پروگرام کے آخری حصے میں تشریف لائے۔سمینار کے پہلے حصے میں پروفیسر خواجہ اکرام الدین اور ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے صدارت کے فرائض انجام دیتے ہوئے اُردو تاریخ کی تشکیلِ نو پر پُر مغز تقریرپیش کی۔لنچ سے فارغ ہونے کے بعد وہ مجھ سے گویا ہوئے کہ بھئی یہاں کہیں آس پاس کوئی مسجد ہے؟مجھے ظہر کی نماز ادا کرنی ہے۔ میں نے کہا کہ سر آئی ٹی او کے پاس ایک مسجد ہے۔آئیے،میں آپ کو اپنے ساتھ مسجد لیے چلتا ہوں۔میں نے اپنی اسکوٹی پر ظفر صاحب کو بٹھا یا اور مسجد لے گیا۔مسجد کی مسافت پانچ منٹ کی رہی ہوگی۔اس دوران انھوں نے میرے ادبی مشاغل کے بارے میں معلوم کیا۔میں نے انھیں بتایا کہ میری پی ایچ ڈی کاموضوع ”رشید حسن خاں کی ادبی جہات“ہے اورابھیVIVAہونا باقی ہے۔اس کے علاوہ دیگر مشاغل کے بارے میں معلوم کیا۔میں نے بتایا کہ سر میں ہماری زبان اور دیگر ادبی رسائل کے لیے تبصرے اور مضمون لکھتا ہوں۔اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور کہا اسی طرح اپنے ادبی ذوق کو پروان چڑھاتے رہو۔انھوں نے میری ملازمت کے بارے میں معلوم کیا تو میں بتایا کہ میں دہلی حکومت کے اسکول میں اُردو استاد ہوں۔انھوں نے میرے روشن مستقبل کے لیے دعائیں دیں۔مسجد میں ہم دونوں نے ظہر کی نماز ادا کی۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے جلدی سے انجمن چلنے کو کہا کہ کہیں پروگرام شروع نہ ہو جائے۔راستے میں میں نے انھیں بتایا کہ سر میری مرتب کردہ ایک کتاب”رشید حسن خاں تحریروں کے آئینے میں جلد اول“منظرِ عام پر آ گئی ہے اور میں اس کی ایک کاپی آپ کو اورایک ڈاکٹر شمس بدایونی کو دینا چاہتا ہوں۔انھوں نے کہا کہ شمس صاحب کی کاپی مجھے دے دیجیے گا وہ آج کل علی گڑھ میں مقیم ہیں،میں ان کی کاپی انھیں وہیں دے دوں گا۔میں نے انجمن جانے کے بعد کتا ب کی ایک کاپی انھیں دی۔ اس دوران میرے ساتھی ریاض احمد اور امتیاز سرمد بھی ساتھ تھے۔ ہم لوگوں نے باری باری سے ان کے ساتھ تصاویریں لین۔تحقیق،تنقید اور تدوین سے متعلق جو ہمارے ذہنوں میں سوال گردش کر رہے تھے ہم نے ان سے معلوم کیے۔انھوں نے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے کئی کتابوں کے نام بتائے اور ہم سے ان کا مطالعہ کر نے کو کہا۔تقریباً 3بجے کے بعد میں نے ظفر صاحب سے کہاکہ مجھے ابھی میرٹھ نکلنا ہے اب اجازت چاہتا ہوں۔انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں رات کو آپ سے فون پر رابطہ قائم کروں گاتاکہ کتاب سے متعلق تفصیلی گفتگو ہو سکے۔ ( یہ بھی پڑھیں اسرار گاندھی کا افسانہ ’’اخبار میں لپٹی روٹیاں‘‘کا تجزیاتی مطالعہ – ڈاکٹرابراہیم افسر )
رات کے وقت ظفر صاحب نے مجھے فون پر بتایا کہ شمس صاحب آپ کے جانے کے بعد پروگرام میں آ گئے تھے اورانھوں نے اپنا مقالہ بھی پڑھا۔میں نے آپ کی کاپی انھیں انجمن میں ہی سپرد کر دی تھی۔انھوں نے کتاب کے مقدمے کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں اور کہا کہ بیٹا مقدمہ طویل نہ لکھو اختصار سے کام لو۔ابھی آپ تحقیق کے میدان میں نووارد ہو،اس کے باوجود آپ کا خام لائق تحسین ہے۔پھر انھوں نے خاں صاحب سے اپنی یادوں اور ملاقاتوں کے بارے میں بتایا۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جب میں بنارس ہندو یونی ورسٹی میں تھا تو ان سے میری خط و کتابت ہوتی تھی۔کتاب نما کے گوشہ رشید حسن خاں کے لیے میں نے مضمون بھی لکھا تھا۔باتوں باتوں میں انھوں نے یادِ ماضی کا نا تمام دفتر کھول کر رکھ دیے۔انھوں نے میری کتاب کی پروف کی غلطیوں کی جانب توجہ مبذول کرائی اور لفظ خلاصہ کا خلاصہ جس انداز میں کیا اسے میں نے اپنے ذہن میں نقش کر لیا۔البتہ مجھے اس بات کا افسوس رہا کہ میں ڈاکٹر شمس بدایونی سے ملاقات کیوں نہ کر سکا۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ اکثر میری باتیں شمس صاحب سے ہوتی ہیں لیکن آج تک ان سے بالمصافحہ ملاقات کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔
اس ملاقات کے تقریباً7ماہ بعد میں نے اپنی دوسری کتاب”رشید حسن خاں تحریروں کے آئینے میں جلد دوم“ موصوف کی خدمت میں،علی گڑھ کے پتے پر ارسال کی۔اس میں پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے دو مضمون”رشید حسن خاں ایک معتبر نام“اور ”فسانہئ عجائب مرتبہ رشید حسن خاں“شامل تھے۔انھوں نے کتاب کی رسید کے لیے فون کیا اور مجھے بہت سی دعاؤں سے نوازا۔انھوں نے بتایا کہ”رشید حسن خاں ایک معتبر نام“والا مضمون ڈاکٹر اطہر فاروقی اور شاہد علی خاں کے کہنے پرانھوں نے کتاب نما کے خاص نمبر”رشید حسن خاں حیات اور ادبی خدمات“کے لیے لکھا تھالیکن”فسانہئ عجائب“والا مضمون آپ نے کھوج نکالا اس کے لیے آپ کا شکریہ۔انھوں نے فون پر مجھ سے تقریباً 15-20منٹ باتیں کیں اور رشید حسن خاں کے ادبی کارناموں پر تبادلۂ خیال کیا۔
فروری2020میں جب میں نے ان کی خدمت میں اپنی تیسری کتاب ”نیر مسعود بنام رشید حسن خاں“پیش کی تو وہ بہت خوش ہوئے۔انھوں نے کہا کہ تم نے وہ مضامین یکجا کیے جن کی وجہ سے نیر مسعود اور خاں صاحب کے مابین ایک زمانے میں تلخی پیدا ہونے کا گمان تھا۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ میں رشید حسن خاں کی آخری کتاب”گنجینۂ معنی کا طلسم“کا مطالعہ کر رہا ہوں۔میں نے ان سے کہا کہ سر اس کتاب پر آپ کا تبصرہ ہفت روزہ ہماری زبان،نئی دہلی،22تا 28جولائی 2020 میں شائع ہو چکا ہے۔انھوں نے کہا وہ تبصرہ صرف پہلی جلد پر تھا۔اب میں چاہتا ہوں کہ باقی جلدوں پر بھی کچھ لکھوں۔میں نے اسی درمیان موصوف سے کہا کہ میں رشید حسن خاں کی غالب شناسی پر کام کر رہا ہوں۔اگر آپ کی اجازت ہو تو میں آپ کے تبصرے کو اپنی کتاب میں شامل کر نا چاہتا ہوں۔وہ بولے کہ رشید حسن خاں کی غالب شناسی کتاب میں آپ میرے تبصرے کو جس طرح چاہیں شامل کیجیے۔(ان کی وفات کے بعد انجمن ترقی اُردو ہند کی تعزیتی نشست میں ڈاکٹر اطہر فاروقی اور تالیف حیدر نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جب خاں صاحب کی کتاب گنجینہئ معنی کا طلسم،جلد اوّل منظرِ عام پر آئی تو اس پر تبصرہ کرانے کے لیے جس شخص پر پہلی نظر گئی وہ ظفر صاحب تھے۔ظفر صاحب نے اس کتاب پر تبصرہ کرنے کے لیے کم از کم تین مہینے کا وقت مانگا تھا۔)میں خوش تھا کہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے اپنے تبصرے کو کتاب میں شامل کرنے کی اجازت دے دی۔
7تا 10اگست2020کو میرٹھ یونی ورسٹی نے انٹر نیشنل ریسرچ اسکالر ویبنار کا انعقاد کیا۔7اگست کو پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو پہلے سیشن کی صدارت کرنا تھی۔اسی سیشن میں خاکسار نے اپنا مضمون”اکیسویں صدی میں اُردو تحقیق(2001تا2020)پڑھا۔ویبنار کے پہلے حصے میں پڑھے گئے مقالات پر موصوف نے اپنی راے کا اظہار کیا۔شام کو میں نے انھیں فون کیا اور ان کی پر مغز تقریر کے لیے مبارک باد پیش کی۔انھوں نے میرے مقالے کے بارے میں راے دی کہ اس مقالے میں اور تنوع پیدا کیجیے تاکہ جب اس مقالے کو کوئی پڑھے تو اسے حوالے کے طور پر استعمال کر سکے۔انھوں نے ایک بار پھر استادانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی دعاؤں سے نوازا۔
DR. IBRAHEEM AFSAR
WARD NO-1,MEHPA CHAURAHA
SIWAL KHAS DISTT MEERUT(U.P)
PIN 250501 MOB 9897012528
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |