چھوٹےبیٹے کے حصے میں دکان آیا،منجھلے بیٹے کے حصے میں مکان،گھر کا سامان اور پروویڈنٹ فنڈ کا جمع روپیہ آیا۔بڑے بیٹےکے حصے میں والدآۓ اور ان کا جاری پنشن آیا۔قانونی طور پر تقسیم ہونا ابھی باقی تھا۔وصیت کے کاغذات تیار تھے صرف والد کا انگوٹھا لگنا رہ گیا تھا۔اچانک وہ کورونا جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو کر اسپتال میں ہی انتقال کر گئے۔گھر میں ماتم پسر گیا۔اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منجھلا بیٹا وصیت کےکاغذات لے کر اسپتال پہنچ گیا۔
"کیا نام بتایامرنے والے کا”؟ کووڈ وارڈ کے باہر بیٹھے کلرک نے پوچھا۔
"جی، ندیم خان۔۔۔۔۔۔میرے والد تھے۔”
کلرک ہاتھ میں قلم پکڑےرجسٹر میں اوپر سے ندیم۔۔۔ندیم بولتے ہوۓدرمیانی صفحہ پر آکر رک گیا۔
"ہوں۔۔۔بستر نمبر 6 ندیم خان”
"جی، یہی ہیں۔۔۔۔”
آپکا نام؟” کلرک نے قلم کان پر رکھتے ہوۓپوچھا۔
"رشید خان”
"لیکن اسپتال میں داخل کرانے تو حیدر خان آۓ تھے،داخلے کے رجسٹر پر دستخط انھوں نے ہی کیاتھا؟”
"حیدر خان میرے بڑے بھائی ہیں۔والد کی دیکھ بھال وہی کرتے تھے”
"دیکھو بھیا۔ ! ایسے نہیں ہوتاہے۔۔۔۔باپ کا راج ہے کیا؟مریض کو بھرتی کرانے آۓ حیدر خان اور لے جائیں رشید خاں۔یہ موت کامعاملہ ہے۔کل کوئ قانونی پینچ پیداتو میری نوکری گئ سمجھو۔جائیے حیدر خان کو لےکر آئیے۔ان کے ہی دستخط ڈسچارج کارڈ پر ہوں گے۔”
"وہ تو۔ تجہیز و تکفین کی تیاری میں مصروف ہے۔آپ یقین کیجیے ندیم خان میرے والد ہیںاور میں ان کا منجھلا بیٹا ہوں۔آپ میت کو مجھے سونپ سکتے ہیں۔”
"اب تم مجھے قانون نہ سکھاؤ،جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔نہیں تو وہ سامنےکھڑی گاڑی دیکھ رہے ہو،جس میں لاشیں لوڈ ہو رہی ہیں،اسی میں تمھارے باپ کو ڈال کر بھیج دوں کااجتماعی تدفین کے لیے۔”
موقعے کی نزاکت کو دیکھتے ہوۓ منجھلے بیٹے نےکلرک کے ہاتھ میں سو روپیے کا نوٹ تھما دیا۔
"چلو میرے ساتھ۔۔۔۔گاڑی لاۓ ہو؟” کلرک نے پوچھا۔
"جی !”
ایک بڑے ہال میں پلاسٹک بیگ میں لاشیں ریپ کر کے رکھی ہوئ تھیں۔پہچان کے لیے ہر ایک لاش پر ٹیگ لگا ہوا تھاجس پر بستر نمبر اور مریض کا نام لکھا ہوا تھا۔کلرک لاشوں کو پھلانگتا ہواایک لاش کے پاس رک گیا۔بیٹے نے نزدیک جا کر دیکھا تو بیڈ نمبر9 اور نام کرشن بہاری لکھاتھا۔
"یہ تو کوئ کرشن بہاری ہیں۔۔۔۔بیڈ نمبر 9 والے” منجھلے بیٹے نےکلرک سے کہا۔
"ٹھیک سے دیکھیے”
"جی ! ٹیگ پر بیڈنمبر 9 ہی لکھا ہے۔”
” لیکن مجھے تو یہاں سے 6 دکھائی دے رہا ہے۔”
"آپ اجازت دیں تو ایک بار چہرے سے پیکنگ ہٹاکر کنفرم کر لیتے ہیں۔۔۔؟”
منجھلے بیٹے نے 6 اور9 کے چکر میں دوسرے کے والد کو لے جانے کے امکانات کو دور کرنے کا مشورہ دیا۔
"کیا کرو گے کنفرم کر کے،۔۔۔۔چلو دو منٹ کے لیےمان لیتے ہیں کہ یہ لاش تمہارے باپ کی نہیں ہےتو سماج کو بتانے کے لیے تمھیں ایک لاش ہی چاہیے نا؟ کون سی دنیا میں جی رہے ہو یار،یہاں تو موقع پرست لوگ روز اپنے باپ بدل رہے ہیں۔پھر یہ راز تو میرے اور تمہارے درمیان ہی رہے گا۔” کلرک نے ایک آنکھ مارتے ہوۓ کہا۔
مگر منجھلا بیٹامطمئن ہونا چاہتا تھا۔اس نے اس وبائ دور میں موقع تلاش رہے کلرک کی جیب میں پانچ سو کا نوٹ رکھ دیا۔بیٹے نے پیکنگ کو اتنا کھول دیاکہ باپ کا انگوٹھا وصیت نامہ پرآسانی سے لگ جائے۔وہ لاش کا چہرہ دیکھتے ہی بولا۔۔۔۔۔
"نہیں۔ ۔۔نہیں یہ میرے والد نہیں ہیں”
"ہمارے ریکارڈ کے مطابق یہی تمھارے باپ ہیں۔”
"میں سچ کہہ رہا ہوں۔یہ میرے والد نہیں ہیں۔ان کو جب اسپتال میں داخل کیاتھا تو گلے میں سونے کی چین تھی۔”
"تم یہ کہنا چاہ رہے ہوکہ تمھارے باپ کے گلے سے سونےکی چین میں نے نکال لی؟”
"آپ سمجھ کیوں نہیں رہے،یہ میرے والد نہیں ہیں۔”
” ابے چپ۔۔۔ میرے الد۔۔۔۔۔میرے والد رٹ لگائے ہوئے ہو۔مرنے کے بعد انسان نہ ماں باپ،نہ شوہر بیوی ،بیٹا بیٹی، بھائی بہن کچھ بھی نہیں رہتا۔وہ صرف باڈی ہو جاتاہے،سمجھے۔تمھارے گھر پر بھی سب باڈی کا انتظار کر رہے ہوں گے۔’ندیم خان’کا نہیں۔ کر برباد نہ کرو۔سمجھ آۓ تو لے جاؤ ورنہ وہ گاڑی ابھی گئ نہیں ہے۔” کلرک نے جھلا کر کہا۔
"آپ ناراض نہ ہوں۔ایک بار اچھی طرح سے دیکھ لیجیے۔ شاید 6 نمبر کی باڈی یہیں کہیں پڑی ہو؟؟”
” بھائی میرے، ہم ریکارڈ بالکل صحیح رکھتے ہیں۔یہ دیکھو،پچھلی رات بیڈ نمبر6 اور 9 کی موت ہوئی۔9 نمبرباڈی کو اس کے گھر والے صبح ہی لے گۓ اور 6 نمبر لاش یہاں پڑی ہے۔پسند آۓ تو لے جاؤ۔”
"ایک بار میری تسلی کے لیے 9 نمبر والوں سے بات کر لیجیے۔ممکن ہے یہ 6 اور9 کے لفڑے میں غلطی سے باڈی بدل گئی ہو؟”
پانچ سو کا نوٹ،جو کلرک کی اوپر والی جیب سے باہر نکل رہا تھا،منجھلے بیٹے نے اسے جیب کے اندر کر دیا۔
کلرک نے فون لگایا۔۔۔۔۔9نمبر باڈی کے گھر والے اسپتال سے پچاس کلو میٹر دور جا چکے تھے۔گاڑی روک کر باڈی پر لگے ٹیگ کی جانچ کی نام،”ندیم خان،بیڈ نمبر 6 "لکھا تھا۔ وہ لوٹ کر واپس آۓ۔ باڈی واپس کی اور 9 نمبر باڈی کو لے کر چلے گۓ ۔
منجھلے بیٹے نے دوبارہ کنفرم ہونے کے لیے باڈی سے ریپر ہٹایا۔ باڈی ندیم خان کی ہی تھی۔والد کے گلے میں سونے کی چین بھی سلامت تھی۔بیٹے نے گلے سے چین نکال کر چپکے سے پینٹ کی جیب میں ڈال لی۔دوسری جیب سے اسٹیمپ پیڈ نکال کر والد کا انگوٹھا نیلا کیا اور وصیت نامہ پر لگا دیا۔
کلرک کو اس وبائ دور میں بہت مواقع دکھائی دے رہے تھے۔منجھلے بیٹے نے ایک اور پانچ سو کا نوٹ کلرک کو تھماتے ہوۓ کہا۔۔۔۔” یہ تمہارے لیے نہیں ، اس سے بچوں کے لیے مٹھائی خرید لینا۔”
کلرک بے گرمی سے ہنستے ت بوولا۔۔۔” معاف کرنا بھائی درجنوں لوگ روز مرہ رہے ہیں۔میں بھی انسان ہوں،حساب کتاب میں غلطی ہو جاتی ہے۔خوش ہوں کہ دونوں گھرانوں کو اپنے اپنے صحیح باپ مل گۓ۔ ورنہ اوپر والا
جھے کبھی معاف نہیں کرتا۔”۔۔۔۔۔!!
(غیر مطبوعہ۔)
پرویز اشرفی، نئی دہلی