سفید براق کی طرح ۸۰ سالہ بیڈ ایٹینڈینٹ نے گل دان سے مرجھائے پھولوں کو ہٹا کر تازہ گلاب رکھتے ہوئے جب اپنا نام بتایا تو پونم اُس کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہ گئی اور تازہ گلاب کی خوشبو سے پورے وارڈ کے ساتھ اُس کا من بھی بھینی بھینی خوشبو سے مہک اُٹھا۔!!
پونم نے ویشنو مندر کے درشن کے لیے پتی ،بیٹے اور بہن کے ساتھ چار دن قبل گھر کے صدر دروازے پر ناریل توڑ کر اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اسٹیشن سے باہر نکلنے کے بعد ایک ڈرائیور نے اُس کے اہل خانہ کو کار میں بیٹھایا اور وشنو مندر کے درشن کروانے کا وعدہ کرکے کار اسٹارٹ کردی۔ کار کچھ دور جانکلی۔دس منٹ کی مسافت کے بعد بائیک پر سوار دو نوجوان منہ میں سیاہ کپڑا لپیٹے کار کا پیچھا کر نے لگے۔ مندر پہنچنے سے پہلے درندوں نے راکٹ لانچر سے کار پر حملہ کیا۔پلک جھپکتے اُس کے پتی، بیٹے اور بہن کے پرخچے اُڑ گئے اور پونم شدید طور پر زخمی ہوگئی ۔ ڈاکٹروں نے دایاں پیر کاٹ دیا ۔چہرہ بارود سے ایسا جھلس گیا کہ ڈاکٹروں نے اُس کو آئینہ دیکھنے سے منع کردیا۔!یوں ہی مہینوں بیڈ پر پڑی رہی۔بغل والے بیڈ پر ایک سن رسیدہ عورت زیرعلاج تھی۔جب سوئے سوئے جی اُب جاتا تو پونم کہتی ۔
’’آنٹی کوئی کہانی سنائو کہ وقت کٹے اور جی بہلے۔ !!‘‘
ایک دن موسم بڑا خوشگوار تھا۔باہر برف باری ہورہی تھی۔کچھ دیر تک برف باری کے حسین نظارے کا لطف اُٹھانے کے بعد آنٹی نے کہا ۔پونم جب میں چھوٹی تھی اُس وقت اودھ میں ہر سال محرّم کی دسویں تاریخ کواہل ہنود کی عورتیں اودھ کی روایتی لباس پہنے عقیدت سے تھال میں کامنی چاول اور تانبے کے کلس میں گنگا جل لیے چھتوں پر منتظرر ہتیں۔جیسے ہی نگاہ تعزیے کی سفید چادر سے ٹکراتی عقیدت سے سر اور نگاہیں خم ہوجاتیں۔! تمام عورتیں دونوں ہاتھوں میں تانبے کا کلس اُٹھائے چھت سے نیچے اُترکر سڑک کی دونوں جانب قطار میں کھڑی ہوجاتیں ۔تعزیہ قریب آتا اور کلائیوں کے کنگن کھنکھنا اُٹھتے۔! تانبے کاتھا ل خالی ہوجاتا ۔!تھوڑی دیر میں عورتوں کے کلس سے تعزیے کے نیچے عقیدت کاگنگا بہنے لگتا ۔ !!جب درد میں ڈوبی مرثیے کی آواز ؎ ’’بی بی بانو رن میں خاک اُڑاتی ہے۔‘‘اِن عورتوں کی سماعت سے ٹکراتی تو اُن کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔!!
عاشورہ کے دن شہزادے نے لعل کنور کو اسی قطار میں بھیگتے کاجل کے ساتھ دیکھا تھا۔ یہ وہی لعل کنور ہے جس کے رنگ و نور سے ڈوبی ہوئی عنفوانِ شباب کے دنوں کو حویلی کی ایک ایک اینٹ نے دیکھا تھا۔چوڑ ی دار شلوار گھٹنے سے نیچے تک سفید کامدار لاہوری جمپر اور جارجٹ کا استنبولی گلابی دوپٹہ جس پر ٹنکے سلمہٰ ستارے اودھ کی ڈوبتی شام کے سرمئی اُجالوں میں چاندنی رات کو پشیماں کرتے ۔!!پتلے پتلے تراشیدہ زمرد جیسے دانت ،انگلیوں میں ہیرے جڑے انگستان،کانوں میں جھولتی بالیاں اور پیشانی پر چمکتا جھومر،سیاہ بالوں میں بکھرے افشاں کے چمکتے دانے اور چاندی کے کمر گوٹ میں ٹنگا گھونگھرو والے چابی کا گچھا۔صراحی دار گردن،ستوان ناک ،کمانی دار پلکوں کے پیچھے سے جھانکتی نیلم جیسی چمکدار آنکھوں میں لگا لاہوری گلابی سرمہ اور بدن سے اُٹھتی ایرانی خوشبو…..!! دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا۔!! (یہ بھی پڑھیں درد کے موسم – انجم قدوائی)
حویلی کا زرّہ زرّہ اِس منظرکا گواہ تھا کہ جب لعل کنور جڑی دارناگرا جوتی اُتارنے کے لیے آنکھوں سے کنیز کی طرف اشارہ کرتی توکنیز اِس طرح دوڑ پڑتی جیسے صحرا میں طوفان آیا ہو اور فرش کے زرد پتے پلک جھپکتے حرکت میں آگئے۔ !!لیکن وقت کے تیور نے جب اپنا دھارا بدلا تو جن شاہراہوں پر کبھی امن کے فاختے اُڑے ، وہاں سروں کے چراغ جل اُٹھے ۔جہاں کامنی چاول کے دانے گرے وہاں بارود کے انگارے گرنے لگے ۔جہاں کنگنوں کی کھنکھناہٹ گونجی وہاں تلواروں اور نیزوں کی کھنک سنائی دینے لگی۔ اِس طوفان کی زد میں نظارے ہی نہیں بلکہ نظریں بھی بدل گیئں۔!صرف یہی نہیں نوبت یہاں تک آگئی کہ جن ہاتھوں نے اشرفیوں کی خیرات بانٹے وہ دو کوڑیوں کے محتاج ہوگئے۔!!
بدلے موسم میں ہربنس رائے نے شہزادے کی پیش کش کو صرف اِس بنیاد پر ٹھکرایاکہ کنور خاندان حویلی کا کوئی در دوسرے دھرم مانے وا لے کے لیے نہیں کھلتا ہے۔!!اِس کے بعد ایسا ہوا کہ لعل کنور کی ذاتی زندگی کے سنہرے خواب نیچے گر کر ریزہ ریزہ ہوگئے۔ لیکن شب فراق میں انتظار کی جھلستی آنکھوں نے دم نہیں توڑا۔ آنکھوں کی جھیل میں کبوتر نے نہانا بند نہیں کیا۔ بلکہ دل کی دنیا شہزادے کی یادوں سے آباد رہی اورلعل کنورکے دل پر ملال کا یہ داغ برسوں پھیلتا رہا۔!!
ایک دن لعل کنور نے سوچا کہ یہ سب تو مقدر کی لکیروں کے تماشے ہیں ۔ اِس لیے رقیب جاں سے گلہ کیساکہ وہ تو دشمن ٹھہرا۔ !پھر اُس نے قناعت کا جام پی کر قبلے کا رُخ دوسر ی طرف کرلیا۔!! لیکن اِن جاں گسل لمحوں میں لعل کنور کو احساس رہاکہ جب ہوا کا رُخ بد لتا ہے تو کھڑکی کے پردے کی اُڑان کی سمت بھی بدل جاتی ہے۔!!
اُدھر شہزادے کے پاس گلاس پرلعل کنور کے مہکتے گلابی ہونٹوں کاچاند بطور امانت تا عمر لاہوری الماری میں اِس تیقن کے ساتھ محفوظ رہا کہ دو دلوں کی راہداریاں کھلی رہے اِس کے لیے رشتے کی کوئی قید نہیں ہوتی۔! دل کے رشتے ہجر کی راتوں میں بھی قائم رکھے جاسکتے ہیں۔!! پھر ایسا ہوا کہ شہزادے نے جب جب جھیل میں کھلتے کنول کو دیکھا ، اُسے لعل کنور کی تبّسم کی یاد آئی ۔ یاد کے اِس موسم میں دل کی کتاب کے ورق ورق رات رات بھر اُلٹتے رہے اور جام پر جام خالی ہوتے رہے۔!!اگلی صبح بیٹے کی خمار آلود نگاہوں کو دیکھ کر آفاق حیدر نے بیٹے کویاد دلایا ۔
’’بیٹے۔!! بارشِ سنگ میں شاخوں پر ثمر تلاش کرنے والے دیوانے جنوں کے پروانے ہوتے ہیں۔!! پرکھوں کی تاریخ کے اوراق میں اُن کے سانسوں کی خوشبو،جاہ وجلال ،وقار اورعظمت بطور امانت محفوظ رہتے ہیں۔ اُس کی حفاظت جنوں آمیزی اور دیوانگی سے نہیں ہوش مندی سے کی جاتی ہے۔!!‘‘
اِس کے باوجو دشہزادے کی آنکھیں اختر شماری کا سبق نہیں بھولیں۔! اِس سبق کو دہراتے وقت اُس کو ہمیشہ اِس کاقلق رہا کہ جس ستارے پر اُس کی نگاہ ٹکی تھی وہی ستارہ ٹوٹ گیا۔! !
آفاق حیدرکا وجود بیٹے کی دیوانگی کے صدمے کے ساتھ اِس غم میں بھی مانند موم پگھلتا رہاکہ کل تک ہماری حویلی کے درپر غیروں کے قافلے آتے رہے ۔آج ہماری پستی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے اہل خانہ مسجد کی ٹوٹی سیڑھیوں پر ٹوپی اُلٹ کر کاسئہ گدائی پرمجبور ہیں۔!! آزمائش کی اِس گھڑی میںاُن کی بیوی نرگس بیگم اکثریہ کہہ کرحوصلہ بڑھاتی ۔
’’آفاق میاں۔!!حکومت ،طاقت، جوانی اور خوبصورتی نہ کسی کی رہی ہے اور نہ رہے گی۔!! اندر کی آنچ کو کم کروکہ یہ چہرے کی رنگت چھین لیتی ہے اور چہرے کی رنگت دل کا آئینہ ہوتی ہے ۔اِس لیے اِس کٹھن دور میں اپنے پرکھوں کے جاو وجلال ، وقار و عظمت کو دائو پر مت لگائو جس کو انہوں نے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھا۔!! ‘‘
اِس نصیحت کو سن کر آفاق حیدرکے چہرے پر تمکنت کی لکیریں اُبھر آتیں۔لیکن مصنوعی چیزیں زیادہ پائے دار نہیں ہوتیں۔!!لہذا ایک دن گھر کے سائبان میں لوبان ،کافور کی خوشبواور سورہ یٰسین کی آوازسنی گئی ۔! ٹوٹی چار پائی پر باپ کی آخری ہچکی میں شہزادے نے اُن کی زندگی بھر کا خلاصہ سنا اور بند ہوگیا زندگی کا ایک کرب انگیز باب۔!!
اُدھر ہربنس رائے کی چتا کو سرد ہونے کے دو ماہ بعد روپ کنور نے لعل کنور کا گلابی آنچل شادی کے منڈپ میں اَگنی کو گواہ مان کر ایک خوب رو نوجوان کے ہاتھوں میں یہ کہہ کر دے دیاکہ اپنے پرکھوں کی قیمتی امانت تم کو سونپ رہی ہوں۔ اِس کی حفاظت کرنا۔!!
پھر لعل کنور کی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔اِس سفر کے دوران صبح کی ٹھنڈی ہوا جب یادوں کی سرگم چھیڑتی ۔ اُس وقت اُس کی آنکھوں میں لہو اُترآتا ۔لہو کی یہ سرخی دن بھر قائم رہتی لیکن جیسے ہی شام ڈھلتی ،بستر انگارے اُگلنے لگتا اور لعل کنورساری رات اِن انگاروں پر کروٹ بدلتی رہتی ۔!! رات کاٹے نہیں کٹتی ۔!کٹے بھی توکیسے ۔!! شہزادے نے تو دل کی دیوار پر اپنی تصویر کو یادوں کی کیل پر آویزاں کرگیا تھا۔!!
جب بہاروں کے بارہ قافلے گزر گئے توبھگوان نے لعل کنور کی گود میں ایک چاند سابیٹادیا ۔جب بیٹے کی عمر دس برس کی ہوئی تو لعل کنور نے ویشنو مندر میں درشن دینے کا فیصلہ کیا۔راستے میں قسمت نے ایک بار پھراُسے دھوکا دیا۔نوجوان دہشت گردوں نے کار پر میزائل چلائی۔جوان بہن کا پیٹ پھٹ گیا۔بیٹے کا سر اُڑ کر اُس کی گود میں آگرا۔اور پتی دیو کا سر ناریل کی طرح پھوٹ گیا۔ !!
پتی ،بیٹے اور بہن کی ناآگہانی موت کے بعد لعل کنور اندر سے بالکل ٹوٹ گئی۔ اہلِ دیار نے بہن بیٹے اور پتی کو چنار کی زرد پتیوں اور ٹوٹی ٹہنیوںکو یکجا کر کے نذرِآتش اور لعل کنور کو ہسپتال میں بھرتی کردیا۔دس ماہ کے بعد جب ہسپتال سے چھٹی ہوئی تو ۱۶ برس کی نو عمر بیڈ اٹینڈینٹ نے لعل کنور کو اُس مقام پر لے گئی جہاں پتی،بیٹے اوربہن کو گاؤں والوں نے اَگنی کے حوالے کیا تھا۔لعل کنور نے دیکھا ۔
اوپر نیلا آکاش……!!نیچے پتھریلی دھرتی ……!! جس کے دامن میں کھلے سرخ گلاب …..!!اور گلاب کی نرم و نازک پنکھڑیوں پربکھرے شبنمی قطرے ……!!
منظر دیکھ کر اُس کادل بیٹھ گیا۔دل سے آواز آئی ۔
بارود پر کھلاگلاب……!!
اور آب دیدہ ہوگئی ۔
پونم نے دبے لفظوں میں پوچھا۔
آنٹی اِس حادثے کے بعد بھی لعل کنور کے دل میں شہزادے کے لیے کوئی جگہ رہی۔ ؟
آنٹی خاموش ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد اُس کے لب ہلے۔
’’ہاں یہ تو فطری بات ہے نفرت کے دھویں اُٹھے اور شعلے بھی بھڑکے ۔!!‘‘
آنٹی نے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اِس سنکٹ کی گھڑی میں اُس کی مدد کے لیے جو سب سے پہلے آیا۔وہ لعل کنور کو بیہوشی کے عالم میں ہسپتال لے گیا۔علاج کے تمام بندوبست کیئے اور اُس کی سولہ برس کی جوان خوبصورت بیٹی ہر صبح وشام اُس کی تیماداری کرتی رہی۔ وہ لڑکی اپنے گھر سے کھانا پکا کر لاتی ۔ اُسے کھلاتی ۔ اُس کے کپڑے دھوتی ۔بالوں میں کنگھا کرتی ۔جب تک وہ بستر پر فراش رہی ۔وہ اُس کی حاجت کی صفائی کرتی ۔ہر صبح کو اپنے باغیچے سے پھولوں کا گلدستہ بنا کر لاتی ۔گلدستے کو اُس کے بیڈ کے پاس سجاتی ۔ لعل کنوردن بھر خاموش اِن پھولوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہتی ۔!!یہ سلسلہ مہینوںچلتا رہا اور زخم مندمل ہوتے رہے ۔زخم جب مندمل ہوگئے تو ڈاکٹر وں نے لعل کنور کو چھٹی دے دی ۔جس دن وہ روبہ صحت ہوکر ہسپتا ل سے ڈسچارج ہوئی اُس دن وہ لڑکی بہت روئی تھی ۔ لعل کنور نے بیساکھی کا سہارا لے کراپنا پرس کھولا۔دس ہزار کی گڈّی نکالی اور اُس کو دیتے ہوئے کہا۔
’’تم نے میرے ساتھ جو حسن ِسلوک کیا۔اِس کا بدلہ تو میں تم کو کبھی نہیں دے سکتی پھر بھی تم اِس کو اپنے پاس رکھ لو۔!!‘‘
اتنا کہہ کر آنٹی چپ ہوگئی۔!
پونم نے کہا۔
’’اِس کے بعد کیا ہوا۔؟‘‘
پھر آنٹی نے کہا۔
’’پونم ۔! اُس لڑ کی کا تن جتنا خوبصورت ،من اُس سے زیادہ خوبصورت تھا۔!اُس نے اپنی کمانی دار پلکوں کو نیچے کر کے روپیہ لینے سے یہ کہتے ہوئے انکا ر کردیاکہ ایک انسان ہونے کے ناطے مصیبت کی گھڑی میں میں نے آپ کی مدد کی اِس کا معاوضہ کیسا۔؟ ‘‘
لعل کنور ہکا بکا رہ گئی ۔!!
پھر اُس لڑکی نے لعل کنورکو ایک خوبصورت شال اورچنار کے سرخ پتیوں میں لپیٹ کر چمبیلی پھول کا تحفہ دیااور ڈبڈبائی آنکھوں سے کہا ۔
’’ آپ جہاں بھی رہیں خوش رہیں یہی میری تمنا ہے۔ !! ‘‘
لعل کنور اِس معصوم بچی کے حسنِ سلوک سے پشیماں ہوئی کہ ایسی لڑکی کا آج تک نام بھی نہیں پوچھا۔!! اُس نے دبے لہجے میں پوچھا۔
’’تمہارا اصل نام کیا ہے بیوٹی ۔؟‘‘
اُس نے اپنے گلابی گلابی ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا کر آہستہ سے کہا ۔
’’فاطمہ…..!!‘‘
لعل کنور کی سماعت میں بازگشت ہوئی۔فاطمہ….!فاطمہ….!!فاط۔م…..!!!
اورلعل کنور اُس کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہ گئی۔!!!
پھر لڑکی نے الوداع کہا اوربہت دیر تک پتھریلی پگڈنڈی پر کھڑی اُداس نگاہوں سے لعل کنور کی واپسی کے غبار کوحسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی۔!!
اتنا کہہ کر آنٹی خاموش ہو گئی اور پونم میز پر رکھے سرخ گلاب کو غور سے دیکھنے لگی۔!!
رات آئی اور ڈھل گئی ۔نئی صبح کی کرنیں پربت کے پیچھے سے جھانکنا شروع کیں۔آہستہ آہستہ اُجالے پھیلنے لگے۔نیلے آسمان پر سفید پروں والے پرندوں نے پرواز کرنا شروع کردیا۔ وارڈ میں سرگرمیاں رفتہ رفتہ تیز ہونے لگیں۔تب تک اُس کی بوڑھی بیڈاٹینڈینٹ بھی آگئی اوراُس کے بستر سے گندی چادر کو سمیٹنے لگی۔پونم نے آہستہ سے پوچھا۔
’’آپ کا نام کیا ہے۔؟‘‘
سفید بُراق کی طرح ۸۰ سالہ ضعیفہ نے تازہ سرخ گلاب کو گل دان میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’فاطمہ۔!!!‘‘
نام سن کر آنٹی کی کہی گئی کہانی کا جملہ ایک بار پھرپونم کی سماعت میں گونجا۔!!
’’ ایک انسان ہونے کے ناطے مصیبت کی گھڑی میں میں نے آپ کی مدد کی اِس کا معاوضہ کیسا۔؟‘‘
اور دل کے اندر جتنے بھی نفرت کے غبار تھے سب کے سب کافور کی طرح اُڑگئے ۔ !!
٭٭٭
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |