Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      خبر نامہ

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      متفرقات

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      متفرقات

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      خبر نامہ

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      قطر میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی الومنائی ایسوسی ایشن…

      اکتوبر 27, 2025

      متفرقات

      بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام سالانہ مجلہ…

      اکتوبر 26, 2025

      متفرقات

      ڈاکٹر محمد ریحان: ترجمہ کا ستارہ – سیّد…

      اکتوبر 13, 2025

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
ناول شناسی

غلام باغ(روایت سے انحراف کی انوکھی جہت)-سفینہ بیگم

by adbimiras اگست 21, 2020
by adbimiras اگست 21, 2020 0 comment

اردو ادب میں ناول نگاری کا رجحان مغربی ادب کے حوالے سے آیا اور یہ سلسلہ انیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے شروع ہو کراپنے تمام رموزونکات کے ساتھ تا حال مسلسل ارتقا پزیر ہے اور اب تک اردومیں سیکڑوںناول تخلیق کئے جاچکے ہیں جن میں اپنے عہد کے مٹتے ہوئے نقوش کی پرچھائیاں ،سماجی،سیاسی،معاشرتی،معاشی اور جنسی مسائل ،قدیم اقدار کے انہدام کا نوحہ ،عورت مرد کے تعلقات،فلسفیانہ مباحث،نفسیاتی پیچیدگیاں ،تقسیم ہند سے پیدا شدہ حالات،اپنی جڑوں سے کٹ جانے کا غم ،رشتوں کی پامالی،ہجرت کا المیہ،اپنے وجود کی گہرائیوں میں پنہاں انخلا کا احساس،دلت کے مسائل وغیرہ موضوعات کو پیش کیا جاتا رہا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ تمام مصنفین مختلف موضوعات کو اپنے مخصوص پیرائے بیان میں پیش کرتے ہیں جس میںThemeپر مصنف کی معقول گرفت اورموضوع کی صحیح Treatmentناول کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ناول میں اظہاروبیان کے کئی اہم وسائل سے استفادہ کیا جاتا رہا ہے اور ساخت کی تشکیل میں بھی مختلف طرزکو بروئے کارلایا گیا ہے ساتھ ہی ایسے ناول بھی تخلیق کیے گئے جس کے بیانیہ میں منطقی ربط و تسلسل واضح نہ ہونے باعث اس کی تفہیم قاری کے لیے مشکل ثابت ہوئی ۔اس قسم کے کئی ناول منظر عام پر آئے جس کو جدیدیت کے زمرے میں رکھ کر Abstract Artسے تعبیر کیا گیا۔

بہر حال درج بالا نکات تو برسبیل تذکرہ تھے۔اصل مسئلہ ارددو ناول میں بیانیہ کے روائتی طریقہ کار سے انحراف کی صورت کوزیرِ بحث لانا ہے۔اردو ناول نگاری کے منظرنامے کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پلاٹ،کردار اور بیانیہ وغیرہ میں ناول کے ہر دور میں تبدیلی ہوتی رہی ہے خواہ وہ اصلاحی دور ہو ترقی پسندیا پھر جدیدیت ۔ہر دور تبدیلی کا متقاضی ہے۔۱۹۸۰ کے بعد کے دور کو ناقدین مابعد جدیددورسے تعبیر کرتے ہیںاس میں ناول نگاری کی روایت میں ہونے والے اب تک کے تمام تجربات کو بروئے کار لایا گیا جس میں اظہاروبیان کے کسی بھی طرز سے استفادہ کرتے ہوئے ناول کی ساخت کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ اسے نئے نداز سے متعارف بھی کرایا گیا ۔اس قبیل کا ایک اہم ناول مرزااطہر بیگ کا غلام باغ ہے جو مختلف طرزِ بیان اور تکنیک کے باہمی امتزاج کی انوکھی مثال ہے اور اس ناول میں بیانیہ کی سطح پر کئی اہم تجربات کیے گئے ہیں عبداللہ حسین اس ناول کے متعلق لکھتے ہیں۔؛

’’غلام باغ اپنے مقام میں اردو ناول کی روایت سے قطعی ہٹ کے واقع ہے۔بلکہ انگریزی ناول میں بھی یہ تکنیک ناپید ہے۔اس کے ڈانڈے یورپی ناول ،خاص طور پر فرانسیسی پوسٹ مارڈن ناول سے ملتے ہیں ناول ایک انگریزی کا لفظ ہے جس کا مطلب’’ نیا‘‘ نہیں بلکہ اس کے اصل معنی’’ انوکھا‘‘ہیں۔اس لحاظ سے غلام باغ صحیح معنوں میں ایک ناول ہے۔‘‘۱؎

درج بالا اقتباس میں عبداللہ حسین نے غلام باغ کو پوسٹ مارڈن ناول کے زمرے میں رکھا ہے۔گوپی چند نارنگ کے مطابق پوسٹ مارڈن کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے۔؛

’’مابعد جدیدیت یک نوعی یا وحدانی نہیں۔یہ متنوع اور تکثیری ہے۔یعنی یہ واحد المرکز نہیں بلکہ کثیر المراکز اور رنگا رنگ ہے ۔‘‘۲؎

اس تعریف کے پیش نظر غلام باغ کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس میں لفظ و معنی اور بیانیہ کی سطح پر تنوعات موجود ہیں مزید یہ کہ مابعد جدیدیت نے چھوٹے بیانیہ کو اہم قرار دیااور اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ معنی کا کوئی ایک مرکز نہیں ہوتا بلکہ قرأت کا طریقہ اس کا مرکز تبدیل کرتا رہتا ہے۔مابعد جدیدمتن کی زبان Unreliable(کبھی کچھ تو کبھی کچھ)ہوتی ہے جس میں ناول کے بنیادی وصف علت و معلول اور سبب و نتیجہ کی منطق سے انکار کی صورت ملتی ہے۔مابعد جدید متن کی زبان کسی بھی اصول و ضوابط کی مرہون منت نہیں ہوتی اور بسہ اوقات متن کی ساخت Amorphousکی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد جدید متن میں Signifiers(دال )کو اہمیت حاصل ہے جن کا باہمی ارتباط ہی متن کی ساخت میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔جدیدیت نے جن عوامل کو ’’غیر‘‘کا درجہ دیا تھا،مابعد جدیدت نے ان تمام عوامل کو ایک دائرہ میں جمع کردیااور متن کو ایک وسیع تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی لہذا زبان کے حوالے سے تقریباََیہ تمام صفات غلام باغ میں دیکھی جا سکتی ہیں جو تعبیر کے ممکنہ عوامل کو بروئے کار لاتی ہے۔

مرزا اطہربیگ پاکستان کے مشہورومعروف فکشن نگار ہیں ۔ان کے تین ناول ـ’’غلام باغ‘‘،’’صفرسےایک تک‘‘اور’’ حسن کی صورت حال‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں ۔مرزا اطہر بیگ کااسلوب نگارش بالکل مختلف نوعیت کا ہے۔وہ ناول کے بیان میں سادہ اور پیچیدہ دونوں طریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔اکثر مقامات پران کے ناول کے بیان میں Absurdity مہملیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔اگرناول کا موضوع یا تھیم ایک عجیب قسم کا دیوانہ پن ہے جس سے کردار جوجھتے نظر آتے ہیں تو قاری کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس پاگل پن کے پیچھے کون سے محرکات پوشیدہ ہیں ۔کیا وہ قرص کیف جو یاور عطائی نے کھائی تھی یا پھر ارزل نسلوں کی سرشت ہی کچھ ایسی تھی۔اس کے علاوہ نرس مختار کے پاگل پن کا سبب کیا تھا جو پاگلوں کے اسپتال میں کام کرتی تھی یا ہاف مین کے دماغ میں زہرہ کے تئیں عجیب و غریب خیالات کا انعکاس۔یہ سوالات قاری کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے  ہیں اور آخر کار مایوسی ہاتھ آتی ہے۔اس کے علاوہ جنسی کجروی یا پھر انسان کے باطن میں موجود ذات کی شکست و ریخت کا احساس یا پھر خود آگہی کی منزل کو پالینا یا اساطیری حد بندیاں اور نفسیاتی الجھاؤ کی کیفیت کو بھی ناول کا موضوع قرار دیا جا سکتا ہے۔ناول کے واقعات کو تیس۳۰ابواب کے تحت تقسیم کیا گیا ہے جو اس طرح ہیں۔کیفے غلام باغ،ارزل نسلوں کی اساطیر ،گھونسلے میں، زہرہ،جل پتھری،ننگا افلاطون،مدد علی پھر چپ سادھ لیتا ہے،ڈرائنگ روم نمبر(۱)،ڈرائنگ روم نمبر(۲)،اورجی(orgy)،زہرہ کے خواب ،آؤ عشق پر بات کریں ،عشق پر ایک ناقابل یقین مکالمہ،کبیر مہدی کا اصل کام،نیلے رجسٹر کے مندرجات ـنثری مشقیں،نیلےرجسٹر کے مندرجات (۲)روزنامچہ،نیلے رجسٹر کے مندرجات (۳)(روزنامچہ سرخ روشنائی سے لکھا ہوا)،نیلے رجسٹر کے مندرجات (۴)روزنامچہ بذریعہ سادہ مکالمہ نویسی و خود کار مشترکہ ہذیانی مکالمہ نویسی وغیرہ،نیلے رجسٹر کے مندرجات (۵)روزنامچہ بذریعہ انٹرویو نویسی وجبری مختصر نویسی،دوبارہ لکھو، باب پیدائش، گہراؤ،وقت مقام کو برباد کرتا ہے یا مقام وقت کو؟،سرخیاں اور متن ، ہوا ،ان ہونی کہانی کی کہانی، انعام گڑھ ،بھوری مائی اور اس کا غلام ،نشان زدہ لوگ اورغلام باغ۔

غلام باغ کومابعد جدید ناول کے زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے ساتھ ہی اس کو کرداری ناول بھی قرار دیا جا سکتا ہے جس میں واقعات حاشیہ پر چلے جاتے ہیں اور کردار مرکز میںقائم رہتے ہیں ۔ناول میں چار مرکزی کردار ہیں۔کبیر مہدی،ناصر، فریڈریک ہاف  میں اور زہرہ۔ناول کی ابتدا کیفے غلام باغ میں بیٹھے کبیر اور ناصر کے درمیا ن ہو نے والی فلسفیانہ گفتگواور وقت کے متعلق نظریہ سے ہوتی ہے۔کبیر جو عصری ڈائجسٹ میں کالم نویس ہے اور ناصر اسپتال کے سائکیٹری وارڈ میں جونیئر ڈاکٹر کے عہدے پرفائز ہے۔ان کا تیسرا دوست جرمن آرکیالوجسٹ ہاف مین ہے جو غلام باغ پر تحقیق کر رہا ہے اور اکثر وقت ناصر اور کبیرکے ساتھ کیفے غلام باغ میں گذارتا ہے۔ایک دن ان کی گفتگو کے دوران اچانک عاشق علی بیرا نمودار ہوتا ہے اور ڈاکٹر ناصر سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس کے بھائی مدد علی کی مدد کرے کیونکہ اس کے مطابق وہ اپنی قوت گویائی کھو چکا ہے۔ناصر، کبیر اور ہاف مین باورچی خانہ کی طرف جاتے ہیں ۔ناصر مدد علی کا منھ کھولنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہو پاتاہے۔آخر کار اس کو اسپتال لے جایا جاتا ہے اور تفتیش کرنے پر مدد علی کے منھ سے برطانوی پونڈ برآمد ہو تا ہے جو اسے غلام باغ کی کھدائی میں ملا تھا ۔مدد علی نواب ثریا جاہ نادر جنگ کے لئے غلام باغ سے اسی طرح کے سکوں کی یا اس صندوق کی تلاش میں کھدائی کرتا تھا جو اس نے اپنے بچپن کے ایک خواب میں دیکھا تھا۔اس کام کے لئے نواب اس کو اچھی رقم دیتا تھا لیکن صندوق غلام باغ کے جنم کھنڈر سے بہت تلاش کے بعد بھی برآمد نہیں ہوتا ہے ۔اسی دوران زہرہ اپنے باپ یاور عطائی کو اس کے ذہنی اختلال کے باعث اسپتال لے کر پہنچتی ہے۔علاج کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کوئی غلط دوا کھائی ہے۔ناصر کو اپنے ایک دوست کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ اسی قسم کے مرض میں مبتلادو مریض دیگر اسپتال میں بھی لائے گئے تھے۔ناصر کے لئے یہ بات تشویش ناک ہوتی ہے اور وہ اگلے دن زہرہ کے باپ سے ملنے اس کے گھر پہنچ جاتا ہے لیکن وہاں ناصر کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے بعد اطہر بیگ نے واقعات کو مزید تفصیل سے بیان کرنے کے لئے کتاب کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔جس کا نام’’ ارذل نسلوں کی اساطیر‘‘ ہے۔ اس کتاب میں مانگر جاتی(پچھڑی نسل)پگلوں اور کاچھروں (اعلی طبقہ)کے تعلقات اور ان کے حالات سے باخبر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یاور عطائی کے باپ خادم حسین کا تعلق مانگر جاتی سے تھا اور ایک ڈاکیہ ہونے کے سبب اس کے ہاتھ’’ گنجینئہ نشاط‘‘ کا وہ نسخہ لگ جاتا ہے جس میں بادشاہوں کی درازی عمر اور جنسی کمزوری کو بحال کرنے کے راز موجود تھے۔اسی کے باعث یاور حسین،یاور عطائی بن کر بڑے شہر میں اعلی طبقے کے درمیان اپنی شناخت قائم کر تا ہے۔اورناول کے مرکزی کردار ناصر،ہاف مین اور کبیر Aphrodisiacsکے راز سے واقف ہو جاتے ہیں ۔دوسری طرف کبیر مہدی اپنے آبائی وطن سنمیال سے ناصر کو خط لکھتا ہے جس میں ناصر کے خط کا جواب اس کی داستان محبت کے متعلق چند معروضی سوالات کے علاوہ جل پتھری اور ننگے افلاطون (چٹاسائیں)کا واقعہ بھی قلم بند کرتا ہے۔یہ خط وہ ارسال نہیں کر پاتا ہے بلکہ واپسی پر اپنے ساتھ لا کرغلام باغ میں ناصر کے حوالے کردیتا ہے اور خود ہاف مین کے ساتھ باتوں میں مشغول ہو جاتا ہے۔ہاف مین مدد علی کو رقم کا لالچ دے کر جنم کھنڈر میںاتر کر صندوق کو تلاش کرنے کے لئے کہتا ہے لیکن جنم کھنڈر میں پہنچنے کے بعد مدد علی ایک زوردار چیخ مارتا ہے اور اپنی گویائی سے محروم ہو جاتا ہے۔ہاف مین اور کبیر اس کو اسی ساکت و جامد حالت میں لے کر ناصر کے اسپتال پہنچتے ہیں جہاں وہ اپنی جمود کی کیفیت سی باہر تو آجاتا ہے لیکن اس کی گویائی صلب ہو چکی ہوتی ہے اسی دوران ایک پاگل پیرانائڈ عورت جو وہاں زیر علاج تھی نرس مختار کو بتاتی ہے کہ وہ Bionic Woman (پیرانائڈ)ہے،اور ہر کسی کے معاملات کو بآسانی سن سکتی ہے۔وہ نرس مختار کو زہرہ اور ناصر کے درمیان ہونے والی Aphrodisiacsکے متعلق گفتگو سے آگاہ کرتی ہے جس کو نرس سمجھ نہیں پاتی ہے۔

ایک روزیاور عطائی کے ڈرائنگ روم میں امبر جان ،کبیر مہدی،ہاف مین،عصری ڈائجسٹ کا مدیر،نواب صاحب اور دیگر افراد کے درمیان بے سرو پا باتوں پر طویل مباحث اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کا آغاز کبیر مہدی کرتا ہے اور یہ نشست اس وقت برخاست ہوتی ہے جب امبر جان اپنی غلیظ حرکت سے زہرہ کو اس جگہ زیر کرنا چاہتاہے جہاں وہ ڈرائنگ روم کے مناظر کو چھپ کر دیکھتے دیکھتے تھکن سے نڈھال نیند کے آغوش میں جا چکی تھی اور امبر جان اس طرف نکل آتا ہے ۔اسی رات یاور عطائی مر جاتا ہے یہاں سے منظرنامہ یکسر تبدیل ہوجاتا ہے اور زہرہ اپنے بھائیوں کے گھر چلی جاتی ہے جہاں اس کی ماں رہتی تھی۔اس کے بعدچاروں مرکزی کرداروں کے درمیان عشق پر ایک طویل مکالمہ بحث کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے۔ناصر زہرہ سے عشق کرتا ہے جب کہ زہرہ کبیر کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے، کبیر بھی ا س سے فطری جنسی کشش محسوس کرتا ہے اور ان کی یہ کشش ،یاور عطائی کے خفیہ کمرے میں دونوں کو تعلقات قائم کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔زہرہ سے تعلقات اور گنجینئہ نشاط کو حاصل کرنے اور اس کے بعد رونما ہونے والے تمام واقعات کو کبیر نیلے رجسٹر میں اندراج کرتا ہے جسے وہ لا لکھائی کا شاہکار قرار دیتا ہے۔موسلادھار بارش کے دوران نواب ثریا جنگ ،ہاف مین اور مدد علی کو اپنے ہمراہ لے کر جنم کھنڈر میں جاتا ہے جہاں کسی ناقابل یقین واقعہ کے باعث ہاف مین اور نواب صاحب کی موت ہوجاتی ہے جبکہ مدد علی زندہ بچ جاتا ہے لیکن اس پر جن کا کچھ ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ وقتاََ فوقتاََ ناصر،زہرہ،کبیر اور ہاف مین کی آواز میں بولنے لگتا ہے۔ دوسری طرف امبر جان جو اس رات کے بعد زہرہ کا خواہش مند بن کر اس کو ہر قیمت پرحاصل کرنا چاہتا ہے،کبیراور زہرہ کے درمیان قربت کے سبب،کبیر کے اسکالرز اولڈ بک شاپ کے کمرے میں آگ لگوا دیتا ہے۔جس سے کبیر بری طرح زخمی ہو جاتا ہے،علاج کے بعد اپنے سیدھے ہاتھ سے محروم ہو نے کی وجہ سے اس کی لکھائی کا کام زہرہ سنبھال لیتی ہے اسی دوران ناصر پر نرس مختار کے ذریعہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پیرانائڈعورت سے جنسی جبر کرتے ہوئے پایا گیا ہے، لہذا اسے جیل میں مقید کردیا جاتا ہے،زہرہ کبیر کے ساتھ اپنی اصل شناخت کی تلاش میں انعام گڑھ جاتی ہے وہاں کبیر اور زہرہ کومارنے کی، امبر جان کی سازش ناکام ہو جاتی ہے۔نرس مختار کو پاگل قرار دے دیا جاتا ہے اور عاشق علی بیرا اپنا گھر چھوڑ کراس کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ناصر کی جیل سے رہائی کے بعد وہ تینوں مدد علی کو سنمیال لے کر جاتے ہیں تاکہ ننگے افلاطون کی موت کے بعد اس کی جگہ مدد علی کو  بٹھا دیا جائے کیونکہ مدد علی کو ناقابل علاج قرار دے دیا جاتا ہے۔امبر جان جل پتھری کے قریب کبیر کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور زہرہ کے دھکا دینے کی وجہ سے امبر جان کا کام بھی تمام ہو جاتا ہے۔ناول کے اختتام پر ناصر ، زہرہ کو کبیر کا نیلا رجسٹر دے دیتا ہے۔زہرہ جب اس کو کھولتی ہے تو اس کی نظر پہلے جملہ پر پڑتی ہے’’فکشن کے خالق کو خدا بننے کا اختیار کس نے دیا ہے‘‘۔رضی عابدی ناول کے متعلق لکھتے ہیں۔؛

Mirza Athar Baig has succeeded in creating an eerie mythical atmosphere which is at the same time so real and takes us into a psychedelic world of the absurd.The author has succeeded in graphically portraying his vision.3

غلام باغ نہ تو مکملAmorphousکے زمرے میں آئیگا اور نہ براہ راست بیانیہ کے بلکہ اس کو ان کی درمیانی کڑی کہنا زیادہ مناسب ہوگاجس میں مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے رویوں کی کارفرمائی کرداروں کے اعمال و افعال میں ظاہر ہونے کے ساتھ بیانیہ پیرائے کو ڈرامائی انداز سے ہم آہنگ کرنے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔  ناول کے تمام واقعات میں آگے جانے اور واپس پلٹنے کا عمل پے در پے موجود ہے اور ایک پر اسرار فضا ہمہ وقت چھائی رہتی ہے۔۸۷۸ صفحات پر مشتمل یہ ناول تقریباََ ڈھائی سال کے زمانی عرصہ کو محیط ہے۔ناول کے پلاٹ میں باہمی منطقی ربط و تسلسل کا فقدان ہے جو مابعد جدید رویہ میں بیانیہ کی ایک صفت ہے ناول کاآغاز کبیر اور ناصر کے درمیان ہونے والی گفتگو سے ہوتا ہے جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے تو بجائے قصہ کی معنویت اجاگر ہونے کے، بیان کا رخ مختلف و متضاد بیانات میں تبدیل ہو جاتا ہے جس میںواحد متکلم راوی کبیر مہدی ناول کے بنیادی قصہ کی وساطت سے کہانی کے تشکیلی عناصر ،زبان کے لوازمات کے متعلق مباحث’’باب۔نیلے رجسٹر کے مندرجات/نثری مشقیں‘‘کے تحت قلمبند کررہا ہوتا ہے اور یہ بیانات اپنے آپ میں ایک عجیب و غریب نوعیت کے حامل نظر آتے ہیں۔اقتباسات ملاحظہ ہوں۔؛

’’فکشن کے خالق کو خدا بننے کا اختیارکس نے دیا۔اس کی ہر افسانوی حرکت میں خدا بننے کا دعوی چھپا ہوا ہے اسے ایسا عالمِ کُل اور قادرِ مطلق بننے کا حق کس نے دیا ہے؟وہ کسی بھی متنفس کے شعور حتی کہ لاشعورکی گہرائیوں میں اتر کر اس کے بتون ِذات کے جملہ اسرار کی خبر لاتا ہے۔۔

میری تخلیق کی ہوئی دنیا میں آؤ۔یہاں تمہیں تین کردار ….نمبر1۔نمبر2۔نمبر 3بننے کا اختیار ہے مگر یہاں کردار نمبر 4۔ نمبر5۔نمبر6تمہیں مٹانے پر تلے ہیں۔۔۔

فکشن نمبر1۔     دنیا کیسی ہے؟

فکشن نمبر2۔     دنیا ایسی ہونی چاہیے؟

فکشن نمبر3۔     دنیا بکواس ہے؟

فکشن نمبر4۔     دنیا بکواس نہیں ہے بلکہ الف….بے….جیم ہے۔اگر الف…بے…جیم کو تسلیم کرلو گے تو مزے میں رہوگے ۔۔۔۴؎

ناول میں اس قسم کے اکثر و بیشتر بیانات سامنے آتے ہیں جو قصہ کی ہیئت تبدیل کردیتے ہیں۔یہاں اس تکنیک کی نشاندہی کرنا بھی ضروی ہے جسے اصطلاح میں Metafictionکہتے ہیں۔ محولہ بالاقسم کی تحریر دراصل Metafictionکے ذیل میں آتی ہے اس تکنیک میں ناول کاراوی یا کردار اس کہانی کا حصہ ہوتے ہوئے، وہ اسی قصہ یا پھردوسرے واقعات کو اپنے طور پر بیان کرنے لگتا ہے جس میں کہانی بیان کرنے کے لیے وہ اپنے اصول وضع کرلیتا ہے اور وہ فکشن کا کردار ہوتے ہوئے فکشن کو ہی موضوع بناتا ہے اسی اعتبار سے کبیر مہدی ’’نیلے رجسٹر کے مندرجات‘‘ کے ذیل میں کہانی بیان کرنے کے لیے اپنے اصول و ضوابط کے تحت خود اپنے اور ناول میں موجود کرداروں کے متعلق بیان کرتا نظر آتا ہے اور اس بات کو بھی قلمبند کرتا ہے کہ فکشن کو کیسا ہونا چاہیے ،اس میں پلاٹ اور کردار کی نوعیت کیا ہونی چاہئے۔ناول کا یہ کردار اپنی کہانی کا خالق بھی ہے اور نقاد بھی جو اپنی بیان کردہ باتوں پر نقاد کی حیثیت سے commentبھی کرتا جاتا ہے۔اقتباس اس طرح ہے۔؛

’’فکشن میں واقعہ کی زمانی و مکانی مظہریت (جبریت/مظہری جبریت/جبری مظہریت) ،فکشن میں واقعاتی جبریت کا محور مصنف کی ذات کی جبریت ہے جو کہ دراصل لسانی جبریت ہے لسان کے ساتھ ہر شخص کی طرح ،مصنف کا بھی ایک منفرد تعلق ہوتا ہے جو کہ فکشن کی تخلیق میں نہ صرف واقعاتی مظہریت بلکہ کرداروں کی ظاہری و باطنی ساخت کو بھی متعین کرتا ہے۔یہ تعلق صرف کسی مخصوص زبان (جوکہ کسی مصنف کا ذریعہ اظہار بنتی ہے)میں مصنف کی لسانی ترجیحات و ترغیبات تک محدود نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے(؟!)(ڈ+انڈے)(کوئی اور لفظ ہم معنی استعمال کرو۔ کوئی دو لفظ ہم معنی کیسے ہو سکتے ہیں؟!)۔۔۔‘‘۵؎

’’ایک تجربہ اور بھی کیا جا سکتا ہے۔فرض کریں کہ میں ’کبیر مہدی ‘بطور کبیر مہدی ہی اِس لمحہ موجود سے ایک بیانیے کا آغاز کرتا ہوں ۔جس میں میری اردگرد کی دنیا واقعیت اور کرداریت کے حوالے سے جوں کی توں موجود ہے ۔فرض کریں کہ میرا خیالی قاری میری اردگرد کی دنیا میں بیتنے والے واقعات سے آگاہ ہے ۔وہ کرداروں کی اپنی اپنی دنیا سے بھی متعارف ہوچکا ہے اور خاص طور پر مندرجہ ذیل اطلاعات بھی اُس تک پہنچ چکی ہیں۔‘‘۶؎

مابعد جدید رویہ میں اس طریقہ کار کو Self-reflexivityخود انعکاسیت کہا جاتا ہے جس میں راوی/کردار اپنے فنکارانہ عوامل پر بذات خود روشنی ڈالتا ہے۔ناول میں چٹا سائیں کے قصہ کی شمولیت نے مرکزی واقعہ پر کوئی تاثر قائم نہیں کیایہ محض ایک اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ یاور عطائی کی اچانک موت اور اس کے بعد ناول کے بیانات میں اس کی توجیہہ بیان نہ کرنا پلاٹ کی فضا کو پراسرار بنادیتاہے۔ناول میں جزئیات کا بیان خصوصاََ کرداروں کی زبانی یا ان کے نظریہ کی توثیق کے لئے،بعض اوقات اکتاہٹ کا احساس پیدا کردیتا ہے تاہم زبان پر مصنف کی گرفت اور دسترس کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔واقعات کی تشکیل میں مصنف نے فلم کی تکنیک کو بھی ملحوظ رکھا ہے،جس میں مختلف کردار ایک ہی وقت میں الگ الگ مقام پر اپنے کام انجام دے رہے ہوتے ہیں اور کیمرہ ان تمام کرداروں کی کارکردگیوں کوایک ساتھ قید کر رہا ہوتا ہے۔اسےMontageکی تکنیک سے تعبیر کریں گے۔اس اعتبار سے الگ الگ واقعہ کے چھوٹے چھوٹے shotsکوJuxtapositionکے عمل سے گزار کر ایک تاثر دینا مقصود ہوتا ہے۔غلام باغ سے مثال ملاحظہ ہو۔؛

’’زہرہ کی گاڑی چند لمحے آگے آئی اور نامعلوم بے چینی سے اس کا دل بیٹھ گیا ۔اس نے رات کے اندھیرے کو جو گاڑی کی ہیڈلائٹس میں سیاہ ہو کر نمایاں ہوتا تھا،بہت محسوس کیااور سوچا،ابھی اس رات کی کالی کوکھ سے کیا جنم لیگا۔کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔۔کبیر کے ساتھ کیا ہورہا ہے کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔کیا میں ابھی اس کے پاس چلی جائوں ۔۔۔۔میرے ساتھ کیا ہورہاہے پھر اس نے یاد کیا جو اس نے کبیر کے بارے میں کہاتھا۔کچھ دیر پہلے جب یوں لگتا تھاکہ ان سب کے درمیان سب کچھ ختم ہونے کا بھی خاتمہ ہونے والا ہے اور وہ دونوں۔۔۔۔۔۔

’’اور مختصر نویس نے یہ بھی لکھا

آگ لگانے والے نے پھر گالیوں بھرے دل سے سوچا کہ یہ ۔۔۔تو بتی بجھاتا ہی نہیں ۔۔۔سوتا ہی نہیں ۔سوئے گا نہیں تو اسے آسانی سے زندہ جلانا بڑا مشکل ہوگا۔۔بڑا مشکل کام دیا یہ سیٹھ امبر جان نے۔

اور امبرجان نے بھی یہی اندازہ لگایا تھا کہ کرائے کے قاتلوں کے لئے شاید عطائی کی بیٹی کے یار کو زندہ جلانا مشکل ہی ہوگا مگر سب بڑوں کا یہی فیصلہ تھا اس کے یار کے ساتھ جوکچھ یار نے سرخ تیل والے کے کمرے سے چرایا ہے،وہ بھی ساتھ ہی جل کر راکھ ہو جائے اور کوئی ثبوت باقی نہ رہے۔۔۔۔

کبیر زہرہ کا کہا ’’ہم سب ایک دوسرے کے لئے دوبارہ پیدا ہوئے ہیں ۔‘‘لکھ کر پھر رک گیا اور اس نے سوچا کہ مختصر نویسی کے احمقانہ کھیل کو وہیں ،ختم کرنے کے لئے اس سے بہتر جملہ اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔مگر نیلے رجسٹر کے ختم ہونے میں ۔ابھی بھی آٹھ دس لائنیں باقی ہیں ۔‘‘۷؎

درج بالا اقتباسات میں زہرہ،کبیر ،امبرجان اور آگ لگانے والوں کے خیالات کو بیک وقت قلم بند کیا گیا ہے جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ کبیر کو جان سے مارنے کی سازش جہاں ایک طرف امبرجان کوسرشار کرتی ہے ،وہیں دوسری طرف زہرہ ایک نامعلوم کیفیت کے سبب بے چین ہو جاتی ہے۔یہاں راوی بحیثیت ناظر موجود بھی ہے اور غائب بھی ۔موجود اور غائب راوی کے قالب میں بتدریج منقلب ہونے کے کا یہ عمل اردو ناول کو ایک نئے تجربہ سے ہمکنار کرتا ہے۔ ناول میں کرداروں کی پیش کش دلچسپ ہے ۔ہر ایک کردار اپنی ذہنی سطح کے حوالے سے پہچاناجاتا ہے۔ناول میں پیرانائڈ عورت کا کردار Unrealiablityکی فضا پیدا کردیتا ہے ۔مابعد جدید صورت حال میں Paranoiaکو ثقافتی مطالعات سے جوڑ کردیکھاجانے لگا ہے اور اس لحاظ سے انسانی وجود نے اکتشافی صورت اختیار کرلی ہے فکشن کے discourse(ادبی مخاطبہ) میں اس طریقہ کار سے غیریقینی کی فضا قایم ہوتی ہے اس اعتبار سے پیرانائڈ عورت کے کردار کی تشکیل جس کو یہ وہم لاحق ہوتا ہے کہ اس کے شوہر نے قتل کے ارادے سے اس کے پیچھے غیر مرئی جاسوس لگا رکھے ہیں معنی کی متضاد جہتوں کو ظاہر کرتا ہوا نظر آتا ہے جو کبھی حقیقی معلوم ہوتی ہے تو کبھی مہمل۔ paranoiaکی فضا ناقابل تصدیق ہوتی ہے مبنی بر قیاس بیانات متن سے باہراپنا کوئی وجود نہیں رکھتے ۔نفسیات کی اصطلاح میںاسے ایک قسم کے ذہنی عارضہ سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ناول کا بیشتر حصہ زہرہ،کبیر،ناصر اور ہاف مین کے درمیان ہونے والی مکالماتی بحث،ان کی سوچ،تخیلات و تصورات پر مبنی ہے اور یہ تمام عناصر صورت حال پر غالب نظر آتے ہیں ۔واحد غائب راوی کے نقطئہ نظر سے قصہ کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کرداروں کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے جس سے ڈرامائی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔کبیر کے ذہن کی بے ترتیب دنیا جسے اس کی زبانی ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔مثال ملاحظہ ہو۔؛

’’دراصل یار ڈاکٹر میرے اندر،میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں لیکن ایک بار پھر بتانے میں کوئی حرج نہیں، میرے اندر ایک دم کھلبلاہٹ ہوتی ہے۔خیالوں،واہموں،پرچھائیوں ، تصویروں، رنگوں، آوازوں، خوشبوئوں،ذائقوں حتی کہ دردیلے اور لذلیلے۔۔۔۔۔۔میرے نزدیک لذیذ کی بجائے لذلیل ہونا چاہیے۔اس میں ذلیل ہونا بھی شامل ہوجاتا ہے اور یہ زیادہ بامعنی ہوجاتا ہے ۔۔۔۔اور لمسوں کی یورش شروع ہوجاتی ہے اور پھر کہیں سے لفظوں کی فوجِ ظفر موج ٹڈی دل کی طرح ان سب پر یلغار کر دیتی ہے،عجب گھمسان کا رن پڑتا ہے۔عجیب پکڑ دھکڑ،الامان والحفیظ ایسی افراتفری اور تلاطم برپا ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ ۔نتیجہ یہ کہ میں پھربک بک کرنے لگتا ہوں ۔اگر کوئی تمہارے جیسا صابر سامع سامنے ہوتو غنیمت ہے۔نہیں تو کاغذ پر گھسیٹ ڈالتا ہوں۔‘‘۸؎

کبیر کا یہ بیان عام بیان سے قطعی مختلف غیر معمولی اور انوکھا ہے جس میں حسِّ باطنی اپنے عروج پرنظر آتی ہے۔ اپنی اسی بات کے پیش نظر کبیر ڈرائینگ روم نمبر۲،نیلے رجسٹر کے مندرجات،سرخیاں اور متن کے ابوب میں الفاظ اور جملوں کا عجیب و غریب کھیل کھیلتا ہے ۔کبیر کا کردار ایک متحرک کردار ہے ناول کے تمام کردار شروع سے آخر تک اپنی ایک سوچ کے مطابق افعال و اعمال کوانجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یاور عطائی ،نواب ثریا جنگ،امبر جان ،مد د علی، ایڈیٹر،عاشق علی،پیرانائیڈ عورت،نرس مختاروغیرہ بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں۔ناول کے آخر میں مدد علی مکمل طور پر دیوانگی کا شکار ہو جاتا ہے ، اس کی یہ حالت ان واقعات کا نتیجہ ہوتی ہے جب وہ جنم کھنڈر کے اندر صندوق کی تلاش میں گیا تھااور اس نے وہاں ایک بڑے سانپ کو دیکھا تھا۔ دوسری مرتبہ نواب ثریا جنگ مدد علی کووہاں لے کر جاتا ہے اور اس کی باقی ماندہ دماغی سالم سطح بھی تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔مدد علی کی اس دیوانگی کو نفسیات کی اصطلاح میں Dissociative Identity Disorderکہیں گے جس میں خوف و ہراس کے شدید ذہنی جھٹکوں کے باعث انسان کے اندرکچھ دیر کے لیے ایک سے زائد افراد کی خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیںجو عجیب و غریب شکل اختیار کر لیتی ہے اور وہ اپنی اصل شناخت سے محروم ہوجاتا ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو؛

’’اور پھر وہ بات بظاہر ادھوری چھوڑ کر مدد علی کے قریب چلا گیااور اس کے پاس اکڑوں بیٹھ کراس کی آنکھوں کو تشخیصی نظروں سے دیکھنے لگا ۔اس کی نبض کو جانچنے کے بعد اس نے اسے مخاطب کیا ۔’ ’مددعلی‘‘  اور پھر جیسے کسی ٹیپ ریکارڈر کا بٹن دب جاتا ہے۔یک دم مدد علی کے منھ سے دو مختلف قہقہوں کی آوازیں برآمد ہونے لگیں ۔۔اور وہ کبیر اور ہاف مین کے قہقہوں کی آوازیں تھیں۔پھر ہاف مین کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔ ’’میرے خدا۔۔۔یہ۔۔۔۔یہ کیا۔۔۔۔کیا نکلا ڈاکٹر ۔۔۔۔‘‘

اور پھر قہقہوں کے بعد کبیر کی آواز آئی۔۔۔’’میں تمہیں مبارک باد دیتا ہوں ڈاکٹر تم دنیا کے واحد ڈاکٹر ہو جس کے علاج کے نتیجے میں سونے کا سکہ برآمد ہوا‘‘۔

اور پھر قہقہے اور پھر خاموشی چھا گئی۔‘‘۹؎

درج بالا اقتباس میں مدد علی Dissociative Identity Disorderکا شکار ہوکر کبیر اور ہاف مین کی آوازوں میں انہیں کی باتوں کو دوہرانے لگتا ہے۔ناول کے کرداروں میں ایک عجب بات یہ ہے کہ کوئی بھی کردار مختلف حادثات سے نبردآزما ہونے کے باوجود اداس اور دل گرفتہ نہیں ہوتا ،خواہ وہ یاور عطائی کی موت ہو،ہاف مین کی یا پھر کبیر کی اور ایک دوسرے سے دلی وابستگی محض اس کی ذات کی موجودگی تک ہی محدود رہتی ہے۔زبان و بیان پر مصنف کی ناقابل یقین گرفت لائق تحسین ہے۔زہرہ کے خیالات کی گونج جو اس کے ذہن کو منتشر کر دیتے ہیں اس طرح ترتیب دیے گئے ہیں کہ اس پرشعور کی رو کا گمان ہوتا ہے۔مثال۔؛

’’مددعلی کہاں ہے‘‘ناصر پوچھتا ہے۔کبیر کوئی جواب نہیں دیتا۔زہرہ کوئی جواب نہیں دیتی۔کبیر خاموش ہے،زہرہ خاموش ہے ،ناصر خاموش ہے۔ناصر کیا سوچتا ہے،کبیر کیا سوچتا ہے،زہرہ کیا سوچتی ہے،مدد علی کہاں ہے،عاشق علی بیرہ کہاں ہے۔سراج دین جاسوس کہاں ہے۔نواب ثریا نادر جنگ کہاں ہے۔۔۔۔۔کبیر جو زہرہ کے ساتھ عطائی کے کمرے میں جاتا ہے۔شیشے کے مرتبان کہاں ہیں۔ناصر جو زہرہ کی دیوانگی میں دیوانگی سے ذرا پہلے لوٹ آتا ہے کہاں ہے۔ناصر جو گھات لگاتا ہے۔ناصر جو چتکبرے خوبصورت کیڑوں کی دنیا کا آسمان دیکھتا ہے۔کبیر جو خط لکھتا ہے۔کبیر جو بک بک کرتا ہے۔کبیر جوزہرہ کے ساتھ رات گذارتا ہے۔۔۔۔۔۔۔انعام گڑھ کہاں ہے۔مانگر جاتی کہاں ہے۔کیوں ہے کہاں ہے کون کیوں ہے۔عشق پر مکالمہ جھوٹا کیوں ہے۔کبیر کا کام ادھورا کیوں ہے۔ننگا افلاطون کیوں ہے۔نیلے رجسٹر میں لکھا سرخ کیوں ہے۔سرخ میں لکھا کالا کیوں ہے کالا سفید کیوں ہے کیسا ہے یہ وقت کیسا ہے یہ لمحہ کیسا ہے۔یہ مقام کیسا ہے،کیا ہے کیا ہے،یہ سب کیا ہے۔یہ کیا ہے۔کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟؟ ؟؟؟؟؟۔۔‘‘۱۰؎

ناول میں راوی کے حوالے سے بیانیہ کی سطح کو کردار کی نظر سے بھی دکھایا گیا ہے۔جہاں موجود چیزوں کو اس کے کل میں بیان نہ کرکے اس کے اجزا میں بیان کیا گیا ہے اور اس کا مقصد یہ نہیں کہ کردار کیا دیکھ رہا ہے بلکہ یہ ہے کہ راوی کردار کی نظر سے قارئین کو کون سے مناظر دکھانا چاہتاہے اس منظر سے ایک تاثر قایم ہوتا ہے جس میں ان افراد کے سماجی اور سیاسی رتبے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔جب یاور عطائی کے ڈرائینگ روم میں ملک کے ان بااختیار اور صاحب حیثیت لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جن کو وہ Aphrodisiacsفراہم کرتا تھاتو زہرہ وہ نظارہ چھپ کر دیکھتی ہے جس کو مصنف نے نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے اور یہ طریقہ بیانیہ کے حوالے سے ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالتا ہے۔مثال اس طرح ہے۔؛

’’مگر جو کچھ وہ دیکھتی سکتی ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔پتلون ،کوٹ ،نک ٹائی،شیروانی،شلوارقمیض،واسکٹ،کوٹوں کی جیبوں میں سے جھانکتے سرخ رومال،آکسفورڈ شوز،مکیشن ،جیکٹ، جناح کیپ،ترکی ٹوپی ،سکارف ، بٹن، کلائی کی گھڑیاں ، سونے کی اسٹڈ، ہیرے کی انگوٹھی، یاقوت، زمرد، نیلم ،بغلوں کاDeodorant، آفٹر شیو ،سپرے،پرفیوم، کڑوی اور بھاری فرانسیسی خوشبو ،دیسی عطریات، بالوں کے تیل ،لوشن ،کریم، سگریٹ،سگار،پائپ،سگریٹ لائیٹر،بوتلیں ، جگ،گلاس،پلیٹیں مشروبات،برف،نمکو،کباب،تکے، بیرے، ٹرے،کافی،چائے ،لیموں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تین مرد ،بیٹھے ہوئے،کھڑے ہوئے،جھکے ہوئے ،تنے ہوئے، سیاستدان،تاجر،،صنعتکار،بیوروکریٹس،اخبار نویس ،عالم،پروفیسر،جج،ریٹائرڈ فوجی،ادیب ،شاعر،زمیندار،جاگیردار،سمگلر،وکیل۔۔۔۔

زہرہ دیکھتی ہے کہ معقول چہروں ،عاقل آنکھوں ،سنجیدہ ماتھوں،مدبر بھوں،دانش ور ناکوں،فنکار ہاتھوں،حساس کانوں،متفکر ہونٹوں اور پر عزم جبڑوں کا گوکہ الگ الگ تنہا جسموں سے تعلق اٹل ہے مگر انسانی اعضا کے یہ سب جز ایک کل میں مربوط ہوکر ایک ایسا عفریتی وجود تشکیل دے رہے ہیں جو صرف چھپ کر ممنوعہ نظارہ دیکھنے والے کونظر آسکتا ہے۔‘‘۱۱؎

درج بالا اقتبا سات میں بیانیہ کے جس طرز سے استفادہ کیا گیا ہے اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ صورت حال کا بیان پوشیدہ بھی ہے اور عیاں بھی۔روئداد کا بیان تو دیگر ناولوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن جزئیات کو جس باریک بینی اور قطعیت سے یہاں بیان کیا گیا ہے وہ اردو ناول میں واحد مثال ہے اس اقتباس میں موجود حسی، معاشرتی ،سیاسی اور فکری حوالے صورت حال کے دوسرے رخ پر روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں ساتھ ہی بیانیہ کی لسانی ساخت کی معنیاتی سطح کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔بیانیہ اپنی متعددشکلوں میں راوی کے نقطہ نظر کا پابند ہوتا ہے۔خواہ وہ ہمہ داں راوی ہو یا واحد متکلم یا پھر کردار بحیثیت بیان کنندہ ہو۔اسی لحاظ سے ناول میں موجوددیگر بیانیہ تکنیک بھی(ڈائری، روزنامچہ، خط،کتاب) بیان کنندہ کی صفات و ترجیحات کی پابند ہوتی ہیں اور وہ اسے اپنے نقطہ نظرکے مطابق بیان کرتا ہے۔لہذا غلام باغ میں’’ گلبرٹ والٹن‘‘کی تصنیف کردہ کتاب’’ ارذل نسلوں کی اساطیر‘‘کبیر کے خطوط روزنامچہ اورڈائری کے بیان سے اسی اعتبار سے مختلف ہے اس کتاب کے حوالے نے موجودصورت حال کو حقیقی بنادیا ہے جو محض بیان کا ایک طریقہ کار ہے ۔ناول میں کئی اہم تکنیک کو ملحوظ رکھ کر ساخت کو تشکیل دیاہے جس میں صنف ڈراما کی ایک اہم تکنیکe  Asidبھی ہے اس کے استعمال سے متن میں ڈرامائی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس وقت جب کبیراپنے پروفیسر دوست کے ساتھ ایک خاتون اسسٹینٹ پروفیسر کے گھریا پھربیوروکریٹ کے دفتر میں ان سے پی ایچ ڈی کے اس مقالے کے سلسلے میں انٹرویو لینے کی غرض سے جاتا ہے جس کو وہ دونوں کبیر سے تحقیق کرواکر اپنے نام سے شائع کروانا چاہتے ہیں تاکہ اپنے میدان میں ترقی حاصل کر سکیں۔راوی نے یہاں Asideلفظ کومتواتر تحریر کرکے بیانیہ کو ایک انوکھی جہت سے متعارف کرایا ہے اور ان تمام مناظر اور گفتگو کو کبیر’’نیلے رجسٹر کے مندرجات۔۵ روزنامچہ بذریعہ انٹرویونویسی و جبری مختصر نویسی‘‘ عنوان کے تحت ڈرامائی ومکالماتی انداز میں رقم کرتا ہے۔اقتباس اس طرح ہے۔؛

’’پروفیسر۔آ۔۔۔۔آبالکل اور باقی ہم نکال لیں گے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سوچتا ہوں کہ۔۔۔۔۔مگر جو میں سوچتا ہوں وہ تو ڈرامے کا حصہ نہیں بن سکتا مگر بن ہی سکتا ہے۔وہ جوAsideکی ایک تکنیک ہوتی ہے۔ایکٹر کا سوچا کہا تماشائیوں کو سنائی دیتا ہے مگر دوسرے ایکٹروں کو نہیں(لا لکھائی جو لکھاری کو پڑھائی دیتی ہے مگر قاری کو نہیں)(نہیں مماثلت موزوں نہیں)لیکن Asideکارآمد ہے۔‘‘۱۲؎

’’میں۔(Aside )احمق ہے یہ پروفیسر ۔۔۔۔میں تو ایسے ہی جان چھڑانے کے لئے بات کر رہا ہوں ۔یہ سمجھتا ہی نہیں۔‘‘۱۳؎

بیوروکریٹ کے دفتر میں۔؛

’’جیسے اِس وقت یا اس وقت کے کسی کونے میں مکالمہ Asideہو سکتا ہے اسی طرح کسی جگہ کسی مقام کا منظر بھیAside ہوسکتا ہے۔میں بیوروکریٹ کے Asideمنظر سے واپس آتا ہوں ۔وہ ٹیلی فون پر کسی سے بات کررہا ہے۔‘‘۱۴؎

میں کندھے اچکاتا ہوں اور کسی کی طرف بھی نہیں دیکھتا ۔جس سے میرا یہ کہنا مقصود ہے(Aside) ’’پتہ نہیں اصل آدمی سے تمہاری کیا مراد ہے مگر یہ میں ہوں ،یہاں جوبھی ہوں۔‘‘۱۵؎

اس باب کے تحت تشکیل کردہ بیانیہ میں بیک وقت قاری کو بظاہر ایک بباطن دو قسم کی آوازوں سے سابقہ پڑتا ہے جو تخیلاتی طور پر راوی یا کردارکے طرز بیان کے باعث زمان و مکاں کی تبدیلی پر منحصر ہوتی ہیں زمان و مکاں کی اس تبدیلی کا اندازہ متن کے تشکیلی عناصر میں بیان کی نوعیت سے لگایا جا سکتا ہے۔یہ آوازیں کبیر کی ہی ہیں لیکن واقعات کو تحریری شکل میں لانے کا بیان اور اچانک واقعات میں بحیثیت کردار شامل ہوجانے کی وجہ سے آوازو ںکا محور بدلتا رہتا ہے۔ کبیر کے ذریعہ تخلیق کردہ بیانات Metafiction اور Self-reflexivityکی عمدہ مثالیں (صفحہ ۵۱۱) پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ بیان میں Reportingاورخود کلامی کے طرز سے بھی استفادہ کیاگیا ہے۔انگریزی الفاظ کااستعمال جملوں اور بیان کی مناسبت سے کیا ہے۔ناول میں زمان و مکاں کی بہت اہمیت ہوتی ہے یہ دونوں اجزا ناول کی ساخت میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ۔زمان کے اعتبار سے اس ناول کا کینوس ڈھائی سال کے عرصہ کو محیط ہے اور جائے وقوع انعام گڑھ،سنمیال اور شہر کا علاقہ ہے جس میں مصنف نے وقت کو مختلف انداز سے برتا ہے کیونکہ فکشن میں وقت منشاے مصنف کاپابند ہوتا ہے اور وہ جب چاہے چند لمحوں کے واقعات کو صدیوں پر پھیلا سکتا ہے اور ایک صدی کے قصے کو چند دنوں میں سمیٹ سکتا ہے۔اسی اعتبار سے وقت کا ٹھراؤ مصنف کی گرفت کا پابند ہوتا ہے ناول میں کئی مقامات پر واقعہ کو روک کرکردارکی نظر سے روئداد کو پیش کیا گیا ہے ناول میں کردار کے ذریعہ تخلیق کردہ بیانیہ میںmyth, surreal, paradox, Megalomania, flash backوغیرہ اصطلاحات کولفظی طور پر شامل کیا گیا ہے اور اس کی کسی صفت کواپنے تشکیل شدہ بیان کے تعین قدر میں تبصراتی طور پراستعمال بھی کیا ہے بحیثیت مجموعی مرزا اطہر بیگ کا ناول غلام باغ موضوع اور تکنیک دونوں اعتبار سے روایتی طریقہ کار سے مختلف اور انوکھا ہے اس کے تجزیہ سے یہ واضح ہو تا ہے کہ ناول میں ساخت کی سطح پر روایت سے انحراف کا عنصر موجود ہے ساتھ ہی لفظوں کی ایسی فضا تشکیل دی گئی ہے جو معنی کے لحاظ سے حقیقی اور مہمل دونوںپیرائے اختیار کیے ہوئے ہے غرض اس ناول کا مطالعہ دیگر جہات کے حوالے سے بھی کیا جاسکتا ہے اور اس کواردو ادب میں مابعد جدید رویہ کی بہترین مثال قرار دیا جاسکتا ہے ۔

حواشی؛

۱۔      بیک کور،غلام باغ،مرزا اطہر بیگ،سانجھ پبلیکیشنز،لاہور پاکستان۲۰۱۵

۲۔     اردومابعد جدیدیت پر مکالمہ، گوپی چند نارنگ،اردو اکادمی دہلی،۱۹۹۸-۲۰۱۱، ص۴۷

۳۔     بیک کور،غلام باغ،مرزا اطہر بیگ،سانجھ بپلیکیشنز،لاہور پاکستان۲۰۱۵

۴۔     غلام باغ،مرزا اطہر بیگ،سانجھ پبلیکیشنز،لاہور پاکستان،۲۰۱۵،ص۳۹۰

۵۔     ایضاََ، ص ۳۹۸

۶۔     ایضاََ ، ص۳۹۸

۷۔     ایضاََ، ص۵۴۴

۸۔     ایضاََ، ص،۱۳،۱۴

۹۔     ایضاََ، ص۸۴۲

۱۰۔    ایضاََ، ص۶۵۸، ۶۵۹

۱۱۔     ایضاََ، ص۲۳۹، ۲۴۰

۱۲۔    ایضاََ، ص ۵۰۴

۱۳۔    ایضاََ، ص۵۰۵

۱۴۔    ایضاََ، ص، ۵۰۹

۱۵۔    ایضاََ، ص۵۱۰

 

                                                سفینہ بیگم

                                        اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو

                                        مہاتما گاندھی کاشی ودیاپیٹھ وارانسی

اطہر بیگسفینہغلام باغ
0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
اردوڈرامے میں دیومالائی فضا-ڈاکٹر زاہد ندیم احسن
اگلی پوسٹ
نظیراکبرآبادی کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کی عکاسی- امتیاز احمد علیمی

یہ بھی پڑھیں

ناول ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ ایک مبسوط جائزہ...

نومبر 17, 2024

ناول ”مراۃ العُروس “ایک مطالعہ – عمیرؔ یاسرشاہین

جولائی 25, 2024

ڈاکٹر عثمان غنی رعٓد کے ناول "چراغ ساز”...

جون 2, 2024

گرگِ شب : پیش منظر کی کہی سے...

اپریل 7, 2024

حنا جمشید کے ناول ’’ہری یوپیا‘‘  کا تاریخی...

مارچ 12, 2024

طاہرہ اقبال کے ناول ” ہڑپا “ کا...

جنوری 28, 2024

انواسی :انیسویں صدی کے آخری نصف کی کہانی...

جنوری 21, 2024

مرزا اطہر بیگ کے ناولوں کا تعارفی مطالعہ...

دسمبر 10, 2023

اردو ناول: فنی ابعاد و جزئیات – امتیاز...

دسمبر 4, 2023

نئی صدی کے ناولوں میں فکری جہتیں –...

اکتوبر 16, 2023

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (593)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (201)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,041)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (534)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (204)
      • مثنوی کی تفہیم (8)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (402)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (214)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (474)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,130)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (33)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (896)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں