اقبال کی شاعری کے اہم موضوعات میں سے ایک ’ خودی‘ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ وہ ایک فلسفہ کی شکل اختیارکرگیاجسے اقبال کا ’ فلسفۂ خودی‘ کہاگیا ۔اسی تناظرمیں اقبال کی شاعری کے مطالعہ کے بعدیہ نتیجہ بھی اخذ کیاجاسکتا ہے کہ انھوں نے خودی کے بیان میں اپنی ساری طاقت جھونک دی ہے اوراس بابت اپنے فن کاخوبصورتی کے ساتھ استعمال کیاہے۔خودی سے کیا مراد ہے؟خودی کا دائرہ اثرکیا ہے ؟ کس طرح ’خودی‘کے ذریعے کامیابی اورترقی کی اعلیٰ منزلوں کوطے کیاجاسکتا ہے؟اقبال نے ایسے تمام سوالوں کااپنے نظریات وافکار کی روشنی میں مفصل ومدلل جواب دیا ہے اورموضوع کے ہر اہم پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے۔’خودی‘ کی حقیقت اور اس کی تاثیر کو بیان کرتے ہوئے اقبالؔ کہتے ہیں:
یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے
خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے؟ رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے؟ بیداریٔ کائنات
دراصل اقبال کی نگاہ میں انسان خودی میں ڈوب کر ہی اپنی زندگی کا حقیقی سراغ پاسکتا ہے کہ وہ کیا ہے، اسے کس مقام سے نوازا گیا ہے اور اسے اپنے مرتبہ کوسامنے رکھتے ہوئے اس روئے زمین پر کیاکرنا چاہئے۔ان کا خیال ہے کہ اگر انسان اپنی خود کو پہچان لے ، اپنے مقام کے تقاضوں کو بروئے کارلائے تووہ بلندیوں پر پہنچ سکتاہے حتی کہ دنیا کوبھی اپنی مٹھی میں کرسکتا ہے ۔شعردیکھئے:
خودی کے زور سے دنیا پہ چھاجا
مقامِ رنگ و بو کا راز پاجا
برنگِ بحرِ ساحل آشنا رہ
کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا
اتنا ہی نہیں بلکہ اقبالؔ کا خیال ہے کہ انسان ’خودی‘ کی وِساطت سے خدا کی ترجمانی کا بھی فریضہ انجام دے سکتاہے جو اس کے عروج کی ایک اور منزل ہے ۔ اسی لئے اقبال ؔ خوبصورت پیرائے میںبنی نوع انساں کو ’خودی ‘ کا ہمراز بن جانے کا درس دیتے ہیں۔کہتے ہیں:
تو رازِ کُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا ، خدا کا ترجماں ہوجا
اس سے بھی ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے اقبالؔ خودی کی بلندی ، اس کی گہرائی ، اس کی عظمت ،اس کی شوکت اور اس کی وسعت کی پیمائش کے بیان کی کوشش میں یوں گویا ہوئے :
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اِک بوند پانی میں بند
اَزل اس کے پیچھے اَبد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
اقبال کا کمال یہ ہے کہ ایک طرف وہ ’خود ی‘ کی عظمت وشوکت کو شاعری کے حجاب میں محجوب کرتے ہیںاور دوسری طرف اس کی حقیقت وماہیت سے پردہ بھی اٹھاتے جاتے ہیں تاکہ انسان خودی کی جمالیات کا مشاہدہ کرکے بہ صد ہزارشوق اس کا قُرب حاصل کرنے کا آرزومند ہوجائے اور اس میں اپنی ہستی کو فنا کردے ۔کہتے ہیں:
کھلے جاتے ہیں اَسرارِ نَہانی
گیا دورِ حدیثِ لَن ترانی
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی وہی آخر زمانی
اقبال کے خیال میں’خودی‘ کا صحیح علم انسانی زندگی کو انقلاب سے ہم آہنگ کرسکتاہے ۔کیوں کہ اس کے بعدانسان کو اپنی حقیقت کا ادراک اورخدا کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور اگر خودی عشق کے بحربیکراں سے ہمکنار ہوجائے توپھر اس کی تاثیر کیا ٹھکانہ۔بقول اقبال ؎
خودی ہو علم سے مُحکم ، تو غیرتِ جبریل
اگر ہوعشق سے محکم، تو صورِ اِسرافیل
اقبال ؔ نے ’خودی‘ کے وجود،اہمیت اور اس کی تاثیر کے اثبات میں فارسی و اُردومیں ہزاروں اَشعار کہے ہیں جو اس بات کے غمّاز ہیں کہ اقبال کے نزدیک ’خودی ‘وہ شے ہے جو انسانی زندگی کے لئے صرف عارضی افادیت کی حامل نہیں بلکہ اس کی ابدی سرخروئی کی ضمانت ہے اور جس کے بغیر اصل کامیابی کا تصور نہیں ابھرتا۔کیوں کہ انسان اپنی معرفت کے بعد ہی یہ اندازہ لگاسکتا ہے کہ اِس چند روزہ زندگی کے آگے بھی بہت کچھ اس کے لئے موجود ہے۔درج ذیل اشعار میں اقبال نے اُسی طرف اشارہ کیا ہے:
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی ، آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھوگیا اِک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فُغاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
اگر اقبالؔ اپنے کلام میں دوسرے موضوعات کو شامل نہ کرتے اور اپنی شاعری کو ’فلسفۂ خودی ‘ تک محدود رہنے دیتے تو بھی بامقصدشاعری کرنے والے شعرا کی فہرست میں ان کا نام جلی حروف میں مرقوم ہوتا۔اقبالؔ نے فارسی میں ’اسرارخودی‘ اور ’رموز بے خودی‘ ،نیز اردومیں سینکڑوں اشعار کے توسط سے پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا ہے کہ ’خودی ‘ کے بغیر نہ انسان اپنے آپ کو پہچان سکتا ہے ، نہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرسکتا ہے اور نہ کائنات کے اسرار کی دریافت میں کامیاب ہوسکتا ہے۔مثلاً :
خودی میں گم ہے خدائی، تلاش کر غافل
یہی ہے تیرے لئے اب صلاحِ کارکی راہ
خودی جس نے اقبال کے ذہن وقلب پر سکہ جماکر ان کی فکر کو اپنا اسیر بنالیا اور ان کی شاعری وفن پر چھاگئی، وہ کہاں سے آئی، کس نے اقبال کو خودی کی طرف متوجہ کیا؟ اس کا جواب ایک ہی ہے اور وہ ہے ’’قرآن‘‘۔اقبال نے خود اس کا اعتراف ’اسرار خودی ‘ میں اس طرح کیا ہے:
گر دِلم آئینۂ بے جوہر ست
در بحر فم، غیرِقرآں مضمر است
روزِ محشر خوار و رُسوا کُن مَرا
بے نصیب از بوسۂ پا کن مَرا
جب اقبال سے یہ معلوم کیا گیا کہ آپ کے فلسفۂ خودی کی قرآنی بنیاد کیا ہے تو انہوں نے فرمایاکہ ۱۹۱۱ میں،جب میں نے قرآن کی اس آیت میں تدبر کیا: یا ایہا الذین آمنوا علَیکم اَنۡفُسَکُم لَا یَضُرُّکم( الی آخرہ) ۔۔۔۔تو یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہوگئی کہ ہر مسلمان پر اپنی خودی کا استحکام فرض ہے، پس میں نے اس آیت شریفہ کو اپنے فلسفۂ خودی کا سنگ بنیاد بنایا‘‘۔( اسرارخودی، مولف : سلیم چشتی ، ص: ۱۳۱۔۱۳۲)
اقبال کے’ فلسفہ خودی‘ کے گہرے مطالعے سے خودپتہ چلتاہے کہ ان کے نزدیک خودی کے کیا معنی ہیںاور اس سے ان کی کیا مراد ہے ۔اقبال کے نزدیک خودی سے مراد تکبر، غرور،خودپسندی نہیں، بلکہ ’عرفان نفس‘ یعنی اپنے آپ کو پہچاننا ہے۔ انسان خود کس مقام پر فائز ہے۔خالق نے کیسی کیسی صلاحیتیں اس کوودیعت کی ہیں، خلیفہ ونائب اور اشرف المخلوقات بناکرکس طرح اسے دیگر تمام مخلوقات کے مقابلے میں ممتاز کردیاہے۔اگر انسان یہ جان لے کہ وہ زمین میں اپنے رب کی خلافت وترجمانی کے لئے پیدا کیاگیا ہے تو شیطانی قوتیں اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی، وہ کسی ایسے عمل کا مرتکب نہ ہوگا جو مقامِ انسانیت اور نیابتِ الہی کے منصب کے منافی ہو۔
سچائی یہ ہے کہ جب بھی انسان اَقدار کا مخالف ،بداعمالیوں کا مرتکب اور نفسانی خواہشات کا پیروکار ہوا تو اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ اس کا اصل مقام اس کے سامنے نہ تھا۔ایسے ہی جب بھی انسان نے اپنے معبودِ حقیقی کے خلاف علمِ بغاوت بلندکیا اور اس کے احکامات کی کھلے یا چھپے نا فرمانی کی تو وہ بھی اس لئے کہ وہ اپنی حقیقت سے ناآشناتھا۔اسی لئے اقبال نے پوری طاقت کے ساتھ خودی کے ذریعے بنی نوع انساں کو اپنی معرفت کا سبق پڑھایاہے تاکہ وہ شیطانی طاقتوں کو مات دے اور ہر امتحان میں ثابت قدم رہ کر مردِمومن بن جائے۔اس پورے درس کا سرچشمہ قرآن کی متعددآیات ہیں جن میں سے ایک ’’ وَاِذ قال ربُّک لِلملٰئکۃ اِنی جاعِلٌ فی الارضِ خَلیفۃ’’(جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ یقینامیں زمین میں نائب بنانے والا ہوں‘‘)ہے۔
مقام ِفکر ہے کہ انسان کا کتنا عظیم مرتبہ متعین کیا گیا ہے کہ بے شمار مخلوقات میں اس کے علاوہ کسی اور مخلوق کو اتنا بلند رتبہ نہیں دیا گیا۔یہاں تک کہ ان فرشتوںکو بھی نہیں جو ہمہ وقت اطاعتِ الہی میں غرق رہتے ہیں اور مرضیٔ مولیٰ کے خلاف کچھ بھی نہیں کرتے لیکن کیا انسان خلافت کے فرائض انجام دے رہا ہے؟کیا اس کا عمل، اس کا کردار ایسا ہے جو ساری کائنات کے مالک وبادشاہ کی نیابت کے منصب کی ترجمانی کرتاہو؟انسان اپنے مقام سے بیزارکیوں ہے؟دراصل معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے مقام سے واقف ہی نہیں۔اسی لئے اقبالؔ ’خودی‘ کے ذریعے اِنسان کو خوداُسی سے متعارف کراتے ہیں کہ انسان خودی کی جتنی منزلیں طے کرتا چلا جائے گا، اسی قدر اس کے مرتبے بلند ہوتے جائیں گے۔کہتے ہیں:
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید ترے بحرِ تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر، اثر، آہِ رسا دیکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عالم ، یہ بت خانۂ چشم و گوش
جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش
تری آگ اُس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے توجہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسم زمان و مکاں توڑ کر
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخیٔ فکر و کردار کا
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
’خودی‘ سے اللہ راضی ہوتا ہے اور اس کے مقام کو بلند کردیتا ہے ، پھر وہ جو چاہتا ہے ،عطاکرتا ہے،اسی کو اقبال ؔلطیف اندازمیں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ،بتا تیری رضا کیا ہے
معرفت ِالہی کے بعدایک طرف انسان عشق حقیقی میں ڈوب جاتا ہے اور دوسری طرف اس پر خشیت ِالہی طاری ہوجاتی ہے۔جب یہ کیفیت ابھر کر سامنے آتی ہے تووہ اپنے رب کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہتا کہ کہیں ا س کا رب ناراض نہ ہوجائے ۔مذکورہ بالاشعر اِسی حقیقت کی تشریح ہے اور اس کو قرآن میں یوں بیان کیا گیاہے : ’’رَضِی اللّٰہُ عَنۡہُم ورضُواعَنہ ذَالِکَ لِمَن خَشِیَہ رَبَّہ‘‘اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور یہ نعمت اس شخص کو حاصل ہوسکتی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے۔(سورہ نمبر۹۸، آیت نمبر: ۸)
اقبال کی شاعری کا مطالعہ اس وقت تک مکمل نظرنہیں آتا جب تک کہ ان کی اُس شاعری کونہ پڑھالیاجائے جس میں فلسفہ خودی کو پیش کیا گیا ہے۔کیونکہ فلسفۂ خودی اقبال کی شاعری کو امتیاز بھی بخشتا ہے اور بلندی بھی عطاکرتاہے ۔ اردو توکیاکسی دوسری زبان کابھی کوئی دوسرا ایسا شاعرنظرنہیں آتا جس نے خودی کے حوالے سے اتنی عمدہ شاعری کی ہو۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |