مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
جسمِ انسانی میں آنکھ کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، اس کے اندر قوتِ بصارت کے ساتھ قوتِ احساس اور رقتِ قلبی و ہمدردری ہوتی ہے، وہ جو کچھ دیکھتی اور محسوس کرتی ہے، اس کے مفید پہلؤوں کو اپنی خوش کن و حسین چمک سے ظاہر کردیتی ہے، تو اس کے مضر و اذیت ناک پہلؤوں کو اپنے گرم گرم آنسؤوں سے بیان کر دیتی ہے۔
یہی کچھ حال مصلح شاعر کا ہوتا ہے، وہ اپنے سماج و قوم کا جائزہ لیکر اس کے کمزور پہلؤوں کی نشاندہی کر کے ایک ہمدرد معالج و غم گسار طبیب کی طرح اس کا علاج بھی بتلاتا ہے، اس کے حال کی خرابیوں سے آگاہ کر کے ار پر ہمدردری کے آنسو بہاکر اس کو اس کے تابناک ماضی کا حوالہ دیکر روشن مستقبل کی تعمیر کرتا ہے۔
ولانا الطاف حسین حالیؔ رحمۃ اللہ علیہ جن کو فطرت نے دلِ درد مند، فکرِارجمند اور زبانِ ہوش مند عطا کی تھی، ایسے ہی شاعروں میں سے تھے، بلکہ ان کو اردو شاعری میں اس اعتبار سے اولیت حاصل ہے۔
بلکہ شجاعت علی سندیلوی ‘‘وہ ہندوستان کے شیخ سعدی تھے’’ (حالی بحیثیت شاعر ص :۱۱)
ظاہری اسباب کی دنیا میں بچپن ہی میں سایۂ پدری سے محرومی اور شفقتِ مادری سے بے نصیبی نے ان کے دل کو مزید درد مند بنادیا تھا، شعور کی منزل میں قدم رکتھے ہی سلطتِ مغلیہ کا چراغ بچھتے اور فاتح فرنگیوں کے سورج کو نکلتے دیکھا، مسلمانوں کی علمی و اخلاقی پسماندگی اور فاتح قوم کی ترقی کو بچشم خود دیکھا، تو ان کے اندر کا فطری شاعر نمودرا ہوگیا، اور قوم و ملت کی اصلاح کا بیڑ اٹھایا، ان کی قوم و ملت کے تئیں درد مندی، ہمدردی و غمگساری کا اندازہ خود ان کے درجِ ذیل اقتباس سے لگائیے۔
’’قوم کی حالت تباہ ہے، عزیز ذلیل ہوگئے، شریف خاک میں مل گئے، علم کا خاتمہ ہوچکا، دین کا صرف نام باقی ہے، افلاس کی گھر گھر پکار ہے، پیٹ کی چاروں طرف دھائی ہے، اخلاق بالکل بگڑ گئے اور بگڑتے جا رہے ہیں، تعصب کی گھنگھور گھٹا قوم پر چھائی ہوئی ہے، جہالت و تقلید سب کی گردو پر سوار ہے، امراء جو قوم کو بہت کچھ فائدہ پہونچا سکتے ہیں، غافل اور بے پرواہ ہیں، علماء جن کو قوم کی اصلاح میں بڑا دخل ہے زمانہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے واقف ہیں۔ (بحوالہ: دیباچہ مسدس حالی)
ان ہوش ربا حالات میں حالی نے اپنا اصلاحی پروگرام شروع کیا اور اس کے لئے شاعری کا سہارا لیا، وہ خود فطری شاعر تھے، لیکن پہلے اپنے مقدمۂ شعر و شاعری میں اس وقت کی مروجہ شاعری بھی اصلاح طلب امور کی نشاندہی کی اور تقریباً تمام ہی اصنافِ سخن کو مالا مال کیا، غزل، قصائد، مثنوی، ترکیب بند، قطعہ بند، مسدس مرثیہ اورنظم و غیرہ ۔
لیکن جو چیز ان کو دیگر شاعروں سے ممتاز کردیتی ہے وہ ان کی سادہ لیکن پر اثر شاعری ہے، جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا کہ پہلے انہوں نے مروجہ شاعری میں اصلاح طلب امور کی صرف نشاندہی کی۔
اپنی نظمیہ شاعری میں انہوں نے اگر ایک طرف مسلمانوں کو ان کا مقام و منصب یاد دلاکر ان کو زوال سے عروج کی(۲) طرف، پستی سے بلندی کی طرف، تاریکی سے روشنی کی طرف، حالِ بد سے روشن مستقبل کی طرف لانے کی سعی کی ہے، جس کا نمونہ مسدس حالی میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ (یہ بھی پڑھیں حالی کی نثر: غیر افسانوی ادب کا مثالی اسلوب – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
تو دوسری طرف عام باشندگانِ ہند کو بشمول مسلمانوں کے محبت کی لڑی میں پرونے اور غلط رسم و رواج کی جکڑ بندیوں(۳) سے نکالنے کی سعی کی ہے، خصوصاً صنفِ نازک کے استحصال کی مذمت کی ہے جس کو ’’مناجاتِ بیوہ‘‘ میں ملاحضہ کیا جاسکتا ہے، ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی لکھتے ہیں: ’’مناجاتِ بیوہ نظم کی سلاست و روانی، زبان و بیان، سوز و گداز، دردو اثر نہ صرف اردو شاعری میں یکتا و بے مثال ہے، بلکہ ہندوستان کی دوسری زبانیں بھی (سوزِ بیوگی) کو اس قدر دردناک اور پراثر انداز میں بیان کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ (بحوالہ: حالی بحیثیت شاعر ص: ۱۲۴)
وطن محبت کی ترغیب دیتے ہوئے کہتے ہیں
تم اگر چاہتے ہو مسلک کی خبر
نہ کبھی ہم وطن کو سمجھ غیر
سب کو میٹھی نگار سے دیکھو
سمجھو آنکھ کی پتلیاں سب کو
حالی کی اصلاحی شاعری صرف زبان کا چٹحارہ نہیں تھی، بلکہ اس اصلاح کیلئے مشعلِ راہ انہوں نے تعلیم کو قرار دیا تھا،(۴) اسی لئے انہوں نے سر سید کی تعلیمی تحریک کا ساتھ ہی نہیں دیاتھا، بلکہ ان کے دست و بازو بن گئے۔
جہاں تک دیکھئے تعلیم کی فرمانروائی ہے
جو سچ پوچھو تو نیچے علم ہے اوپر خدائی ہے
حالی صنفِ نازک کو نسلِ نو کی تعمیر میں خشتِ اولاور سنگِ بنیاد خیال کرتے تھے۔(۵)
نیکی کی تم تصویر ہو، عفت کی تم تدبیر ہو
ہو دین کی تم پاسباں، ایماں سلامت تم سے ہے
فطرت تمہاری ہے جیسا، طینیت میں سے ہے مہر و وفا
گھٹی میں ہے صبر و رضا، انساں عبارت تم سے ہے
حالی نے اگرچہ قوم وملت کے حالِ بد کا مرثیہ کہا ہے اور اس پر خون کے آنسو بہائے ہیں، لیکن وہ مایوس نہیں ہیں، بلکہ(۶) قوم سے میرا مید ہیں اور اس کو اس کا تابنا ک ماضی یاد دلاکر اس کو حوصلہ دیتے ہیں، نشاطِ امید کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
س اے نا امیدی نہ یوں دل بجھاتو
جھلک ایک امید اپنی آفر دکھا تو
ذرا نا امیدوں کو ڈھارس بندھا تو
فسردہ دلوں کے دل آخر بڑھاتو
تیرے دم سے مردوں میں جانیں پڑیں ہیں
جلی کھیتیاں تونے سر سبز کی ہیں (حالی)
حالی کی شاعری کی خصوصیات میں ایک اہم خصوصیت، عام فہم، اور سادہ اندازِ بیان ہے جو دلوں میں اثر کرتا چلا جاتا(۷) ہے، پڑھئے اور گنگناتے جائیے ہمارے اس مدعا کی تصدیق ہوتی چلی جائے گی۔
محمد تسنیم ندوی
استاد ادب معہد ابو بکر صدیق
دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ | 

