رحمن عباس : شموئل صاحب یہ جو ایک طویل سفر اردو فکشن میں آپ کا رہا ہے، اس میں آپ نے کیا کھویا کیا پایا ہے؟
شموئل احمد: فکشن کے طویل سفر میں میں نے صرف کھویا ہے۔اصل میں تخلیق کاری میں ہی آدمی کی نجات ہے۔میں نے بھی اپنی نجات ک لئے ادب کی راہ پکڑی۔اس راہ پر چلتے ہوئے میرا دکھ میرے ساتھ رہا۔میں نے جس مسئلے پر قلم اٹھایا، اپنے جس کرب کا اظہار کیا وہ سب اپنی جگہ قائم ہیں۔ کچھ نہیں بدلا۔مجھے کیا ملا؟ کچھ نہیں۔اس بات کی بھی تسکین نہیں ہے کہ میں نے اپنے عہد کی آواز سنی۔ایک تخلیق کار ہونے کے ناطے میں اپنے عہد کی آواز کو ان سنی نہیں کر سکتا۔ادب کاری کا عمل مسلسل کھونے کا عمل ہے۔تخلیق کاری کے عمل میں میں نے جو کھویا وہ اگر میرے قاری کو حا صل ہو گیا تو میرا کھونا کامیاب ہے۔
رحمن عباس : آپ کے افسانوں اور ناولوں پر جو ردعمل رہا ہے کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟
شموئل احمد: مجھے منفی اور مثبت دونوں ہی رد عمل ملے اور میں خوش ہوا۔منفی رد عمل نے مجھ میں مزید لکھنے کی تحریک پیداکی۔میرا ناول گرداب شائع ہوا تو ایک عورت نے مجھے فون کیا کہ کیوں نہ آپ کو زندہ دفن کر دیا جائے؟ یہ ایک شان دار ردعمل تھا۔اس ردعمل سے ایک بات ظاہر ہوئی کہ ناول میں کردار نگاری کامیاب ہے اور وہ مرکزی کردار قاری کے دل میں نفرت جگانے میں کامیاب ہے۔تب ہی وہ عورت اس کردار کو مجھ سے identify کرتی ہے اور میرے توسط سے اس کردار کو دفن کر دینا چاہتی ہے۔کچھ ردعمل ایسے بھی ملے کہ معاشرے کے مایئنڈ سٹ کا پتہ چلتا ہے۔مثلاً ابھی بھی اردو معاشرے میں سیکس ٹیبو ہے اور ابھی بھی لوگ سمجھ نہیں پائے کہ ادب کی اخلاقیات اور ہے اور مذہب کی اخلاقیات اور۔
رحمن عباس : کیا اردو تنقید آپ کی کہانیوں اور ناولوں کے ساتھ انصاف کرنے میں کامیاب ہوئی ہے؟
شموئل احمد: مجھ پر کم لکھا گیا۔وجہ یہ ہے کہ میں کسی لابی میں نہیں ہوں اور ناقد اپنے محلّے والوں پر ہی لکھتا ہے۔ میں نے کسی کو پکڑ کر اپنے اوپر کچھ لکھوایا بھی نہیں۔پھر بھی میری تحریر نے کچھ لوگوں کو مجھ پر لکھنے کے لئے اکسایا۔ ان لوگوں نے میرے ساتھ انصاف کیا اور میرے اسلوب کو پرکھنے کی کوشش کی۔
رحمن عباس : اردو تنقید کی موجودہ صورت حال پر آپ کیا کہیں گے؟
شموئل احمد: اردو تنقید اس مرغی کی طرح ہے جس کی گردن کے پاس پَر نوچے ہوئے ہیں۔اردو کے زیادہ تر ناقد متعصّب ہوتے ہیں اور پہلے سے ہی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ فلاں تصنیف پر کیا لکھنا ہے۔نقاد اردو کو مذہب سے جوڑتا ہے۔ مذہب کی اخلاقیات اس کی تنقید کا پیمانہ ہوتی ہے۔آج تک کسی ناقد نے کسی ناول کا مکمل تجزیہ پیش نہیں کیا۔زیادہ سے زیادہ وہ تین چار صفحات کا مقالہ لکھتا ہے جس میں سطحی باتیں ہوتی ہیں۔وہ کبھی بین ا لسطور کی باتیں نہیں کرتا۔ وہ ناول نگار کے ویژن کو دیکھ نہیں پاتا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ناول جب لکھ کر تیار ہوتا ہے تو اس ناول کا بھی اپنا ایک ویژن ہوتا ہے۔وہ ناول پر لکھے گا تو اس کا خلاصہ بیان کرے گا جس طرح میٹرک کا طالب علم توبتہ النصوح کا خلاصہ لکھتا ہے۔اصل میں اس کا ذہن ایک خاص فکری نظام میں مرتب ہوتا ہے اس لئے کچھ نیا نہیں سوچ پاتا۔وہ اسی لکیر پر چلے گا جو اساتذہ نے کھینچی ہے۔
رحمن عباس :کیا اردو ناول کو آپ ترقی کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں؟
شموئل احمد: اردو ناول کوانٹیٹی کے اعتبار سے ترقی کر رہے ہیں کوالیٹی کے اعبار سے نہیں
رحمن عباس : جو آپ کے ساتھ ناول لکھ رہے تھے، ان کے ناولوں پرآج آپ کی کیا رائے ہے؟
شموئل احمد: نیا کچھ نہیں لکھا گیا۔ان ناولوں سے میں اسلوبیاتی سطح پر مطمئن نہیں ہوں۔ آپ کنٹینٹ کی سطح پر کچھ نیا پیدا کر بھی نہیں سکتے۔سب کچھ لکھا جا چکا۔ صرف پیش کش نئی ہوتی ہے۔ اردو فکشن میں پیش کش بھی نئی نہیں ہے۔ قصّہ گوئی کا وہی پرانا انداز۔ اسی طرح مکالمہ کے سہارے کہانی آگے بڑھاتے ہیں،دو صفحہ بیانیہ لکھنے میں اچھے اچھوں کا پانی اتر جاتا ہے۔بیچ بیچ میں مکالمہ گھسیڑ دیں گے۔کردار نگاری بھی ناقص ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کردار ایسا ہے، دکھاتے نہیں ہیں۔ اصل فن دکھانے میں ہے۔
رحمن عباس : کیا افسانے کی اہمیت ہمارے یہاں کم ہو رہی ہے جس طرح شاعری کی ہوئی ہے؟
شموئل احمد: ہمارے یہاں نہ افسانے کی اہمیت کم ہوئی ہے نہ شاعری کی۔شاعری تو اردو کی روح ہے۔افسانے کی مقبولیت بڑھی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان گنت افسانہ فورم مل جائیں گے جن پر افسانہ نگاروں کا مشروم گروتھ ہوا ہے۔وہاٹس اَپ پر بھی افسانوں کے مرکز جلوہ فگن ہیں جہاں بونے بھی اچھل کود مچاتے ہیں۔
رحمن عباس : نئے ناول نگاروں کے کون سے ناول ہیں جن میں آپ کو تخلیقیت اور انفرادیت دکھائی دیتی ہے؟
شموئل احمد: یہ سر پھٹوّل والا سوال ہے۔ جس کا نام نہیں لوں گا وہ سر پھوڑے گا۔۔۔
رحمن عباس : نئے ناول نگاروں کو آپ کیا مشورہ دیں گے؟
شموئل احمد: کتابوں سے زیادہ آدمی کو پڑھیں۔