Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
ناول شناسی

ناول "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” کا تعارفی جائزہ – محمد ریحان

by adbimiras اکتوبر 27, 2020
by adbimiras اکتوبر 27, 2020 1 comment

نوبل انعام یافتہ اور ” تنہائی کے سو سال” کا مصنف گابریل گارشیا مارکیز لیٹن امریکہ کا ایک با اثر ناول نگار تصور کیا جاتا ہے۔ پروفیسر خالد جاوید نے اس کے حوالے سے ریختہ کو دیے گئے اپنے اپک انٹرویو میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اکثر وبیشتر بڑے لکھنے والوں کا تعلق چھوٹے گاؤں اور قصبوں سے ہوتاہے۔ اس بیان سے اتفاق نہیں کرنے کا ہمارے پاس کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ پریم چند کا تعلق ورانسی کے ایک چھوٹے سے گاؤں لمہی سے تھا اور مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی ناقد کسی اردو ناول نگار کو پریم چند پر ترجیح دیگا۔ آج بھی جو لوگ فکشن لکھ رہے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق چھوٹے قصبوں سے ہے۔ اب یہ بات الگ ہے کہ ملازمت کے سلسلے میں وہ میٹرو پولیٹن شہروں میں منتقل ہو گئے ہیں۔
"میرے نالوں کی گمشدہ آواز” کے مصنف محمد علیم کا تعلق بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں چندن باڑھ سے ہے۔ آج کل وہ دہلی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ ہندی میں ٢٠٠٣ سے ٢٠٠٩ تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ ان کے درس و تدریس کا سلسلہ بہت طویل نہیں رہا۔ فلموں اور ٹی وی سیریلز کے لیے شروع سے اسکرپٹ لکھتے رہے ہیں۔ جامعہ سے نکلنے کے بعد آپ نے مختلف ٹی وی چینلز کے لیے تقریباً پچاس سے زیادہ سیریلز کے اسکرپٹس لکھے۔ ادھر آ کر وہ انگریزی صحافت سے بھی منسلک ہوگئے ہیں۔ اردو میں ان کے دو ناول، "جو اماں ملی تو کہاں ملی” اور "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔ اردو والوں کے لیے افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو میں ناول لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ انگریزی میں لکھتے ہیں۔ انگریزی میں ان کے تین ناول Rabia: Through All Joys and Sorrows, Sacred Solitude اور Three Strange Prophecies منظر عام پر چکے ہیں۔ ان کا تخلیقی سفر جاری ہے۔ ان کے ڈرامے اور کہانیاں وقتاً فوقتاً نظر نواز ہوتی رہتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے والمیکی رامائن پر مبنی ایک اسٹیج ڈراما "امام ہند: رام” اردو اور ہندی میں لکھا ہے جو ہندوستان کے سو بڑے شہروں میں پلے کیا جائے گا۔

میں نے شروع میں گاربیل گارشیا مارکیز، پروفیسر خالد جاوید یا پریم چند کی بات اس لیے کی ہے کہ مجھے جس ناول اور ناول نگار کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے ان کا تعلق گاؤں سے ہے۔ محمد علیم کا ناول "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” کا پلاٹ گاؤں کے ہی پس منظر میں تیار کیا گیا ہے۔ بلکہ مجھے یہ کہنے دیا جائے کہ اس ناول میں ان کے گاؤں کی ہی کہانی ہے۔

"میرے نالوں کی گمشدہ آواز” تقریباً اٹھارہ سال قبل ٢٠٠٢ میں اردو اور ہندی میں شائع ہوا تھا۔ ٢٠٠٧ میں اس ناول کو پینگوئن نے بھی چھاپا تھا۔ اس ناول پر ایک فیچر فلم تیار ہونے والی تھی لیکن کسی وجہ سے وہ کام اب تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ ڈی ڈی اردو نے مذکورہ ناول پر مبنی ١٣ اپی سوڈ کا ٹی وی سیریل بنانے کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی تھی لیکن وہ منصوبہ بھی سرکاری عملہ کی سرد مہری کا شکار ہو گیا۔ (یہ بھی پڑھیں حاشیائی ادب میں ’فائر ایریا‘ کا مقام- ڈاکٹر سلمان فیصل)

تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو ناول "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” کا کوئی ایک موضوع نہیں ہے۔ ناول میں کہانی ایک ساتھ تین ٹریکس پر چل رہی ہے۔ ناول کے آغاز میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا موضوع مذہبی بنیاد پر سیاسی ورچسو حاصل کرنا ہے۔ سمیع احمد، رمیش سنگھ اور رام نارائن سنگھ تین مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما ہیں۔ ان کے حمایتی نیک محمد، ڈاکٹر نجم الدین اور دیگر چھوٹے بڑے کردار انتخاب میں ان کی فتح و کامرانی کے لیے جو کاوش کرتے ہیں اس سے تو یہی تأثر ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ناول جب آگے بڑھتا ہے تو دھیرے دھیرے ناول کا یہ سیاسی رنگ ماند پڑ جاتا ہے۔ ناول کی فضا پر معاشرتی زندگی غالب ہو جاتی ہے۔ یہاں رخسانہ اور جمیل کی شادی کا ذکر ہے۔ سسرال میں اس کے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان ہے۔ ساس اور نند کی مکاریاں ہیں۔ ناول کی یہ معاشرتی زندگی رخسانہ کے طلاق اور اس کے بھائی سکھڑیا کے قتل کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر نجم الدین ناول پر حاوی ہو جاتا ہے۔ گڑھیا گاؤں میں اس کی اچھی خاصی دھاگ ہوتی ہے، لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ لیکن بعد میں اس کے خلاف سازش ہوتی ہے، اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ آخر میں کچھ بدمعاش لڑکے ماجد علی کے اشارے پر اس کو گولی مار دیتے ہیں۔ ناول کا اختتام ڈاکٹر نجم الدین کے قتل پر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ناول نگار نے ڈاکٹر نجم الدین کے کردار کو بنیاد بنا کر ناول تخلیق کیا ہے۔ کیونکہ ناول میں ڈاکٹر نجم الدین کی موجودگی شروع سے آخر تک ہے۔
ناول کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ اس کے بڑے کینوس پر مختلف رنگ نظر آتے ۔ اس میں ناول نگار کے پاس بہت کچھ کہنے کی بڑی گنجائش ہوتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک ناول در اصل کئی افسانوں کی ایک کہانی ہے۔ راب برٹن (Rob Burton) نے لکھا ہے:
“A novel is basically a series of short stories wedged together, sometimes with shaky bridges.”
ناول "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تین افسانوں کو بہت ہنر مندی کے ساتھ ایک دوسرے میں گتھ دیا گیا ہے۔ پہلے حصہ کے بغیر دوسرا حصہ ادھورا ہے اور دوسرے حصے کے بنا تیسرا حصہ نا مکمل ہے۔ ناول نگار نے تینوں کڑیوں کو واقعاتی انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک سرا دوسرے سے اور دوسرا سرا تیسرے سے کہاں پر ملتا ہے اس کی تمیز کرنا مشکل ہے۔ لیکن ناول پڑھ لینے کے بعد یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ناول کو تین حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔
مذکورہ ناول کافی ضخیم تقریباً 551 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ناول بہت حد تک تھکا دینے والا ہے۔ حالانکہ اس کی زبان بہت سادہ، سلیس اور آسان ہے۔ زبان کی سطح پر اس میں کوئی تخلیقیت نہیں ہے۔ "موت کی کتاب” کی طرح اس میں کوئی نفسیاتی پیچیدگی، گہرا فلسفیانہ شعور اور معنوی الجھاؤ نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ یہ ایک واقعاتی طرز کا ناول ہے۔ جس میں راوی مکالمے کی مدد سے کہانی سناتا ہے۔ آپ اس کو کہیں سے بھی جوائن کر سکتے ہیں، آپ کے دماغ میں الجھن پیدا نہیں ہوگی جیسا کہ”موت کی کتاب” کو پڑھتے ہوئے ہوتا ہے کہ اگر قاری کی نظر سے ایک سطر بھی چھوٹ جائے تو پورا ناول اس کی گرفت سے نکل جائے گا۔
یہ ناول گجرات سانحہ سے قبل ٢٠٠٢ میں شائع ہوکر منظر عام پر آیا تھا۔ اس وقت ہندوستان کا یہ رنگ نہیں تھا جو ابھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ ناول نگار صرف حال میں نہیں جیتا بلکہ وہ بیک وقت تین وقتوں یعنی ماضی، حال اور مستقبل میں ایک ساتھ جیتا ہے۔ وہ حال میں رہ کر "یاد ماضی عذاب ہے یا رب” کا راگ نہیں الاپتا۔ وہ ماضی میں بھی تاک جھانک کرتا ہے اور مستقبل پر بھی نظر رکھتا ہے۔ حال کے واقعات و حادثات ناول نگار کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ناول نگار ان واقعات کا تجزیہ تینوں زمانے یعنی ماضی، حال اور مستقبل میں بیٹھ کر کرتا ہے۔ محمد علیم نے اپنی تخیلاتی نظر سے آج کے صورت حال کو بیس سال پہلے دیکھ لیا تھا۔ آج یعنی ٢٠٢٠ کا ہندوستان کیسا ہوگا اس کا نقشہ بہت پہلے ناول نگار کے ذہن میں تیار ہو گیا تھا۔ ناول کے ابتدائی حصے کا ایک ایک مکالمہ اس بات کی دلیل ہے۔ آج ہندو مسلم کسی تہوار کے موقع سے اکثر آمنے سامنے ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ ان کے درمیان دنگے ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کا ایک واقعہ ناول میں بھی پیش آیا ہے۔ محرم کے موقع سے نیک محمد کی رہنمائی میں نکلنے والے تعزیہ کو گنیش پور کے ہندو روک دیتے ہیں۔ انتقاماً گڑھیا کے مسلم بھی درگا پوجا کے اوسر پر مورتی وسرجن کے لیے راستہ نہیں دیتے۔ ہندو مسلم آمنے سامنے ہو جاتے ہیں۔ علاقائی تھانے کی پولس وہاں موجود ہے لیکن وہ گنیش پور کے ہندو کی ہمدرد معلوم ہوتی ہے۔ وہاں ایک اعلیٰ پولس آفیسر آتا ہے اور سخت وارننگ دیکر جاتا ہے کہ کسی بھی قیمت پر انہیں آگے جانے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے۔ جب اس کی گاڑی آگے بڑھتی ہے تو انسپیکٹر اس اعلیٰ پولیس آفیسر کو گالی دیتے ہوئے بولتا ہے:
” کتا سالا !….. مرانے کے لیے یہاں آتا ہے۔۔جائے نہ للوا کا ۔۔۔چاٹنے۔۔”
(صفحہ ٧٠)
پھر ایک داروغہ کہتا ہے:
” سر انتظار کجیے ۔۔۔جس دن بھاجپا کی سرکار دلی میں بن گئی اس دن یہ للوا کیا، للوا کے کتوں کو بھی بھاگتے بھاگتے فرصت نہیں ملے گی۔”
یہاں پر کئی چیزیں قابل غور ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ بتاتا چلوں کہ ٢٠١٨ میں جب بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرساد یادو کو چارہ گھوٹالہ مقدمہ میں ١٤ سال کے لیے جیل بھیجا گیا اس وقت مرکز میں بی جے پی کی سرکار تھی۔ لالو یادو پر شکنجہ اسی بھاجپا سرکار میں کسا گیا۔ ١٥ دسمبر کی شام میں جامعہ کی لائبریری میں دہلی پولس داخل ہوئی۔ اس کالی شام میں کیا ہوا اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ناول کو پڑھتے ہوئے مجھے ایسا لگا کہ جامعہ میں بربرتا پھیلانے والی یہ وہی پولس تھی جو گنیش پور میں ایک اعلیٰ پولیس آفیسر کو گالی دے رہی ہے۔۔۔ آپ غور کریں کہ پولس کا ایک روپ محمد علیم نےاپنے ناول میں ٢٠٠٢ میں دکھایا اور اس کا ایک رنگ ہم نے ١٥ دسمبر ٢٠٢٠ کو اور اس کے بعد بھی دیکھا۔۔ دونوں میں کیا فرق ہے۔۔؟ مجھے تو کوئی فرق نظر نہیں آتا۔۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ ناول کے ابتدائی حصے میں سیاسی رنگ غالب ہے۔الیکشن کی تیاریاں چل ہوتی ہیں۔ نیک محمد کانگریسی ہے اور وہ کانگریس کے امیدوار سمیع احمد کے لیے بڑی انتھک محنت کرتا ہے۔ سمیع احمد کے علاوہ دو اور امیدوار رمیش سنگھ اور رام نارائن سنگھ ہیں جن میں سے ایک کا تعلق بی جے پی سے ہے اور دوسرے کا جنتا دل سے۔ مسلمانوں کے ووٹ کے منتشر ہونے کا خدشہ تھا۔ اس لیے نیک محمد مسلمانوں سے یہ التجا کرتا کہ وہ سمیع احمد کو ہی کامیاب بنائیں۔ نیک محمد کے دل میں ایک ڈر اور خوف ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اگر بھاجپا نیتا یہاں سے کامیاب ہوگیا تو مسلمانوں کے لیے بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے جب اس کے دوست حکیم صاحب یہ کہتے ہیں:
"ہرائیے سالے کو۔۔۔۔لیکن اس بار تو چانس ایسا لگتا ہے کہ گاڑی پلٹا مار دیگا”
(ص ٧٨)
اس پر نیک محمد کا جو رد عمل ہے تقریباً وہی رد عمل آج کے ہر مسلمان اور سیکولر لوگوں کا ہوتا ہے جب جب کسی بھاجپا نیتا کے کسی الیکشن میں کامیاب ہونے کی بات ہوتی ہے۔۔ نیک محمد کہتا ہے:
"ایسا مت کہیے حکیم صاحب۔۔سالا جیت گیا تو جانتے ہیں کیا ہوگا۔۔۔جینا حرام کر دیگا ہم لوگوں کا۔ ابھی جو ہم سینہ پھولا کے گھومتے ہیں، سالا چوہا بنا کے گھر میں ڈھکا دیگا۔۔کا سمجھے۔۔” (ص ٧٨)
آگے پھر حکیم صاحب کہتے ہیں:
” دیکھا سالے کا۔۔کہتا ہے میوا سب کو پاکستان بھیج دو۔۔وندے ماترم کہنا ہوگا نہیں تو بھارت چھوڑنا ہوگا۔۔گئو ہتیا پاپ ہے۔۔” (٧٨)
یہ مکالمے کتنے زندہ ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ناول آج کل میں ہی منظر پر آیا ہو۔۔۔نیک محمد کے دل میں جو ڈر ہے وہی خوف آج کے ہر مسلمان کا ہے۔ مجھے یہ مکالمہ پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں نے نیک محمد کی بات پر کان نہیں دھرا اس لیے مرکز میں بھاجپا کی سرکار بن گئی۔ یہاں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ گاؤں دیہات کے غریب اور کم پڑھے لکھے لوگوں کا سیاسی شعور بہت بالیدہ ہوتا ہے۔۔ کھیت کھلیان اور پان کی گمتی میں بیٹھ کر گاؤں کے بزرگ ملکی سیاست پر اچھی گفتگو کرتے ہیں۔

نیک محمد بہت دیر تک ناول میں Exist نہیں کرتا ہے۔ لیکن جب تک رہتا ہے وہ بہت فعال کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ شروع شروع میں ایسا لگتا ہے کہ وہی اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن جب رمیش سنگھ اس کو ایک قتل کے جھوٹے الزام میں جیل بھیجوا دیتا ہے تو پھر وہ دوبارہ ابھر کر سامنے نہیں آ پاتا۔ نیک محمد کے جیل جانے کے بعد اس کی بیوی آمنہ بیگم، بیٹا سکھڑیا اور بیٹی رخسانہ سبھی بڑی آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔ رخسانہ کی اس کی سسرال میں ساس شریفہ بیگم اور نند شبانہ سے نہیں بنتی ہے۔ اس کا شوہر جمیل ممبئی رہتا ہے۔ رخسانہ کا اس کے سسرال ایک طرح سے استحصال ہوتا ہے۔ ناول میں گاؤں کی معاشرتی،سماجی اور اخلاقی زندگی کا جو بیانیہ ہے وہ بہت حد تک پریم چند کی یاد دلاتا ہے۔۔ البتہ ناول نگار نے غیر ضروری تفصیل سے زیادہ کام لیا ہے۔ اس لیے تھوڑی دیر میں کوفت ہونے لگتی ہے۔ ناول کے چیپٹر 55 میں جمیل کے دو خطوط ڈاکیہ لا کر اس کے گھر دیتا ہے۔ ایک خط اس کے والد کے نام کا ہوتا ہے اور دوسرا اس کی بیوی رخسانہ کے نام کا۔ جمیل کے خطوط کو اس کی بہن شبانہ پڑھے یا نہ پڑھے اس کو اتنا طول دے دیا گیا ہے کہ وہ حصہ بہت بورنگ ہو گیا ہے۔ اگر ناول نگار غیر ضروری تفصیل سے گریز کرتا تو کیا ہی بہتر ہوتا۔

ناول 113 چیپٹر پر مشتمل ہے۔۔ تقریباً ہر چیپٹر میں ایک نیا کردار سامنے آتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ ناول کرداروں کی آماجگاہ ہے۔ کچھ کردار ایسے ہیں جو ایک پل کے لیے آئے، اپنا نام درج کروایا اور پھر نکل گئے۔ وہ ناول میں کیوں آئے معلوم نہیں۔ وصی اور حکیم منظور ایسے ہی کچھ کردار ہیں۔
اس ناول کے مرکزی کردار کا تعین کرنا ذرا مشکل ہے۔۔ ایسا اس لیے کہ اس ناول کا ہیرو کون ہے یہ بہت واضح نہیں ہے۔ جو فلم کا ہیرو ہوتا ہے عام طور پر وہی اس کا مرکزی کردار بھی ہوتا ہے۔ ناول کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ لیکن یہاں کس کو ہیرو مانا جائے۔ نیک محمد تو نہیں ہو سکتا کیونکہ جیل جانے کے بعد وہ ناول کے منظر نامے سے تقریباً غائب ہو جاتا ہے۔ تو کیا ڈاکٹر نجم الدین اس ناول کا مرکزی کردار ہے ۔وہی ایک ایسا کردار ہے جو ناول میں اول تا آخر موجود ہے۔ لیکن ڈاکٹر نجم الدین اتنا متاثر نہیں کرتا جتنا نیک محمد کرتا ہے۔ وہ ناول میں نسبتاً کم وقت کے لیے آتا ہے اور بہت Actively participate کرتا ہے۔۔
گلبرٹ چیسٹرٹن نے لکھا ہے:
"A good novel tells us the truth about its hero; but a bad novel tells us the truth about its author”
میں اس ناول کو خراب نہیں کہہ رہا لیکن اس ناول کے ہیرو کی تلاش ضروری ہے۔ میں نے اس ناول کے آخری کچھ چیپٹرس دو تین مرتبہ پڑھے۔ خاص طور پر اس کا سیکنڈ لاسٹ چیپٹر جس میں ڈاکٹر نجم الدین کو گولی ماری جاتی ہے۔ در اصل اس کی موت کے بعد یہ اندازہ ہوتا کہ وہ اکیلا شخص تھا جو پورے ناول کے بوجھ کو اکیلے اپنے کندھے پر لیکر چل رہا تھا۔ وہ جیسے ہی مرتا ہے کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر نجم الدین ناول کا وہ کردار ہے جو چیخ کر نہیں کہتا کہ وہی مرکزی کردار ہے۔ وہ ناول میں شروع سے آخر تک موجود رہتا ہے اور موقع موقع سے قاری کے سامنے آتا رہتا ہے۔ آخر میں وہ چپ ہو جاتا ہے اور قاری کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ ناول کا سارا تانا بانا اسی کے لیے بنا گیا تھا۔
اس ناول کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کا سیاسی منظر نامہ آج کے سیاسی منظرنامے سے بہت قریب ہے جب کہ ناول آج سے تقریباً اٹھارہ سال قبل لکھا گیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسا لگتا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائیے گا اس ناول کی اہمیت اور معنویت بھی بڑھتی جائے گی کیونکہ ناول نگار نے ہندوستانی سیاست کے نریٹیو کو اپنے ناول میں اتنی ہنرمندی کے ساتھ اپنایا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہماری حقیقی زندگی سے اور قریب تر ہوتا چلا جائے گا۔

 

 

نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔
ادبی میراثمیرے نالوں کی گمشدہ آوازناول
1 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
باقیات اختر الایمان: ایک جائزہ – ڈاکٹر نوشاد منظر
اگلی پوسٹ
مہکتے لمحے……..!! – ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی

یہ بھی پڑھیں

ناول ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ ایک مبسوط جائزہ...

نومبر 17, 2024

ناول ”مراۃ العُروس “ایک مطالعہ – عمیرؔ یاسرشاہین

جولائی 25, 2024

ڈاکٹر عثمان غنی رعٓد کے ناول "چراغ ساز”...

جون 2, 2024

گرگِ شب : پیش منظر کی کہی سے...

اپریل 7, 2024

حنا جمشید کے ناول ’’ہری یوپیا‘‘  کا تاریخی...

مارچ 12, 2024

طاہرہ اقبال کے ناول ” ہڑپا “ کا...

جنوری 28, 2024

انواسی :انیسویں صدی کے آخری نصف کی کہانی...

جنوری 21, 2024

مرزا اطہر بیگ کے ناولوں کا تعارفی مطالعہ...

دسمبر 10, 2023

اردو ناول: فنی ابعاد و جزئیات – امتیاز...

دسمبر 4, 2023

نئی صدی کے ناولوں میں فکری جہتیں –...

اکتوبر 16, 2023

1 comment

Mohammad Aleem اکتوبر 27, 2020 - 12:24 شام

I appreciate the objective views of the article writer. There are numerous issues, but the political situation of the country is no doubt a prominent one. I have even raised the issue of the triple talaq which was politicised by BJP brazenly last year. I hope the readers will go deep down the sea to find jewels.

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,038)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (532)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (204)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (474)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,127)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں