ناول در حقیقت زندگی کے قصے کو فنی رسومیات کے ساتھ بیان کانام ہے۔یہ سکہ بند رسومیات بھی ہو سکتی ہیں اور ان سے منحرف جدید رسومیات بھی۔ محسن خاں کا ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ قدیم و جدید فنی رسومیات سے آراستہ ایک ایسا فن پارہ ہے،جس میں انہوں نے ظاہراً ایک بچے کی کہانی بیان کی ہے۔ناول کا ارتکاز بھی اسی کردار کے ارد گرد ہے،دوسرے کرداراس کے وجود کو روشن کرنے میں معاون کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ناول کے وقوعوں اور ان کے اثرات کا سرچشمہ مجبور محض ہونے کا اعتقاد اور سیاسی ہے،اول الذکر پورے ناول کو محیط ہے جبکہ ثانی الذکر پر ناول نگار نے شعوری طور پر گفتگو نہیں کی ہے کیونکہ اس سے ناول طولانی کا شکار ہوجاتا۔مذہبی تعصب،سیاسی گرفتاری اور جانبداری کے بد عواقب بیان کرنے میں ناول پوری طرح سے کامیاب ہے کہ کس طرح ایک پورا خاندان اس طرح کی گرفتاریوں سے تباہ ہوجاتا ہے،بچوں کی زندگیاں کیسے عذاب بن جاتی ہیں،جس بچپن میں ان کو کھلونے اور پیار ملنا چاہئے اس میں وہ در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور دوسروں کی غلامی میں خود محفوظ و مامون تصور کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ ہر وقت ان کے سر پر بے سروسامانی کی تلوار بھی لٹکتی رہتی ہے، جس سے وہ ڈرے اور سہمے رہتے ہیں،اس طرح ان کا اپنا وجود خود ان کے لئے بوجھ بن جاتا ہے۔ناول کو عصریت کا نقیب کہا گیا ہے لیکن اس کے لئے شرط ہے کہ وہ صحافتی بیانیہ اوربیانات سے پاک ہو۔محسن خاں نے خالص ادبی اور فنی لوازمات کے ساتھ عصری مسائل کو پیش کیا ہے۔انہوں نے مرکزی کردار جبران کی زندگی کو جس انداز میں متن میں تبدیل کیا ہے وہ ان کی فنی مہارت کی دلیل ہے۔اسی طرح ناول کا ارتکاز انسانی اعمال اور اعتقادات پر ہے،ناول میں دونوں عقائد کو فکشنلائز کیا گیا ہے۔جس کے الگ الگ نمائندہ کردار ہیں۔حالات کا رخ موڑنے میں انسانی اعمال وافعال پر یقین رکھنے والوں کا نمائندہ کردار جمیل احمد اور اس کا پورا گھرا نا ہے جبکہ مجبور محض بن کر صرف خدا پر یقین رکھنے والوں کا نمائندہ کردار ولید ہے اور مرکزی کردار ان دونوں کے مابین معلق نظر آتاہے لیکن چونکہ وہ منطقی ذہن کا حامل ہے اس لئے کا جھکاؤ اول ا لذکر کی طرف تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن حالات کی مجبوری اس کو معلق ہی رکھتی ہے۔ناول میں کوا کے کسی کے سر پر بیٹھنے کو منحوس سمجھنے اور خود یہ سوچ کر لیٹ جانے کا دلچسپ بیان ہے کہ اب موت یقینی ہے جو آج کے سائنسی دور میں بھی سماج میں رائج روایات اور بد اعتقادات کو بیان کرتا ہے۔اسی طرح سے گدڑی والے بابا جیسے مجنوں افراد سے متعلق کہانیاں بھی گردش میں رہتی ہیں جو سماج کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں۔مجبور محض ہونے کے اعتقاد اور عدم اعتقاد کی ایک فلسفیانہ بحث ہے،ناول نگار نے کسی ایک طرف جھکاؤ نہ رکھ کر محض کردار کے افعال و اعمال کو متن کی صورت میں متشکل کیا ہے، باقی کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا ہے۔
کہانی اگر مختصرا بیان کی جائے تو یوں ہوگی کہ جبران نے ایک عسرت زدہ مذہبی گھرانے میں آنکھیں کھولیں،جس کے باپ تبلیغی تھے، جو اپنے بچے کو حافظ قران بنانا چاہتے تھے،بچہ ابھی مکتب میں ہی تھا کہ والد دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلیا جاتا ہے اور والدہ کی موت بیماری میں ہوجاتی ہے،وہ چچا کے گھر رہنے چلا جاتا ہے۔چچا کی موت کے بعد وہاں سے نکال دیا جاتا ہے،جس کے بعد اس کا ٹھکانا مدرسہ میں حافظ جی کا کمرہ ہوتا ہے جہاں وہ ان کی بکری چراتا ہے اور زندگی گذارتا ہے،حافظ جی کے جانے کے کے فیصلے سے اس کو اپنی دنیا اجڑتی نظر آتی ہے،بیمار ہوتا ہے اور غنودگی کے عالم میں خودکو ماں کے پاس جاتا ہوا محسوس کرتا ہے۔بس کہانی ختم ہوجاتی ہے۔اس دوران متعدد وقوعے رونما ہوتے ہیں جن سے ناول کا تانا بانا بنا گیا ہے۔
خواب سے شروع ہونے وا لے ناول کو خواب اورسوالات آگے بڑھاتے ہیں: مثلا ً
جمعہ کا دن سردیوں میں کیوں رکھا؟
معلوم نہیں آدمی خراٹے کیوں لیتا ہے؟
بکری پیٹ بھرکے گھاس چرنے کے باوجود ہوں ہوں ہوں کیوں کرتی رہتی ہے؟
اللہ میاں نے مرغی بنائی تھی تو بلی کیوں بنائی؟
میری اماں کو،چچا جان کو اور قطمیر کو اپنے پاس کیوں بلالایا؟
میرے ابا کو جیل کیوں بھجوا دیا؟
آپ میری بہن نصرت کو ڈراؤنے خواب کیوں دکھاتے ہیں؟
اس نوع کے سوالات سے جہاں مرکزی کردار کی معصومیت جھلکتی ہے وہیں فکر رساذہن کا حامل ہونے کا پتہ بھی ملتا ہے۔ابتدا میں ہی جب راوی کی کالی مرغی کو بلی اٹھا لے جاتی ہے اور وہ اسی کے بارے میں مستقل سوچتا رہتا ہے تو رات میں خواب دیکھتا ہے۔ایسا خواب جس میں اس کے سامنے اللہ میاں جلوہ افروز ہوتے ہیں،خوب لمبے چوڑے،چاند سا چہرہ، کپڑے برف کے سے سفید،آکر پٹری پر بیٹھ جاتے ہیں اور گفتگو شروع کردیتے ہیں۔بات کالی مرغی تک پہنچتی ہے تو وہ معصوم بچے کا دل رکھنے کے لئے اپنے بڑی بڑی جیبوں سے بہت سارے کالے پر نکال کر ہوا میں اچھال دیتے ہیں جن سے کالی مرغی وجود میں آ جاتی ہے اور وہ دانے چگتے ہوئے کھٹا کھٹ انڈے دینے لگتی ہے۔معصومانہ خواب کا یہ بیان بچوں کی نفسیات بیان کرتا ہے۔یہ خواب در اصل بچے کی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ اور آگے امید کی کرن کے ساتھ ناول کے پلاٹ کا پیش خیمہ بھی ہے۔
ناول کا آغاز ایک خواب سے ہوتا ہے۔وہ خواب جو بچپن کا سب سے حسین تحفہ ہے۔لیکن اسی خواب کو جب کوئی توڑ دیتا ہے تو بچے کو اس وقت سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے کہ کم سے کم خواب تو مکمل ہوگیا ہوتا،خواب میں شروع ہونے والی محرومی کی کوئی انتہا نہیں، ناول کا اختتام محرومی پر ہی ہو تا ہے جو در اصل زندگی کا اعلامیہ ہے،ناول کی اس کیفیت کی بنا پر اس کو حزنیہ ناولوں کے زمرے میں رکھا جانا چاہئے۔خواب کا خاتمہ گھر کے مزاج کو طے کردیتا ہے کہ مسلم تہذیب و ثقافت والا گھرانا ہے جہاں بچوں کو صبح کی نماز کے لئے بیدار کیا جاتا ہے۔اسی کے ساتھ راوی گھریلو حالات بھی بیان کردیتا ہے جو اس بات کا اشاریہ ہے کہ راوی کی زندگی غربت و عسرت میں گذر رہی ہے۔’’روشنی کی تو خیر کوئی بات نہیں تھی مگر جب نہاتے وقت درار سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی تو دانت کٹکٹانے اور بدن زیادہ لرزنے لگتے تھے‘‘۔اس بیان سے گھر کی مذہبی و معاشی حالت پر روشنی پڑتی ہے۔چونکہ ناول میں ’’اللہ میاں کے کارخانے‘‘کو پیش کیا گیا ہے اس لئے سوالات بھی اسی سے متعلق ہوں گے،جس کا آغاز ناول کی ابتدا سے ہی ہوجاتا ہے۔ایک بچہ جس کو سردیوں میں صبح اٹھنا پڑتا ہے اور جمعہ کو نہانا بھی پڑتا ہے وہ اسباب و عوامل پر غور تو کرے گا ہی اور جب کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آئے گی تو وہ سوال بھی کرے گا،اسی لئے جاڑے کے دنوں میں جمعہ اور اس دن نہانے پر پر وہ سوال اٹھاتا ہے کہ ’’آخر اللہ میاں جب جانتے ہیں کہ بچوں کو نہانے میں سردی لگتی ہے تو انہوں نے جمعہ کا دن سردیوں میں کیوں رکھا؟وہ اسے گرمیوں میں بھی رکھ سکتے تھے۔اگر یہ نہیں کرنا تھا تو جمعہ کے دن گرمی ہی کردیا کریں‘‘۔بچے کی یہ معصومانہ خواہش منطقی بھی ہے کیونکہ وہ اللہ میان کو قادر مطلق نہ صرف تصور کرتا ہے بلکہ وہ مانتا بھی ہے،اس کی معصومیت اور خور و خوض کی صلاحیت دونوں سے قاری کا یہیں سے واسطہ پڑنا شروع ہوجاتاہے جس سے اس کردار کے بارے میں ایک رائے بننا شروع ہوتی ہے اور اس سے قاری کی امیدیں بندھنے لگتی ہیں کہ یہ کوئی جامد کردار نہیں بلکہ ایک نامیاتی کردار ہے۔
اردو ناول کی تکنیک اب ان دائروں سے باہر آچکی ہے جو صدیوں قبل وضع کئے تھے۔جدید ناول نگاروں نے ان کو یاتو در خور اعتنا نہیں سمجھا یا پھر انہوں نے ردو قبول کے درمیان کی راہ خود نکال لی ہے۔تخلیقی ذہن کبھی بھی ایک لکیر پر نہیں چلتا ،وہ کچھ نیا سوچتا رہتا ہے ،نئے ذہن اور نئی ذہنیت کے ساتھ لکھنے والوں نے ایسے تجربے کئے ہیں جن میں سب سے پہلا نام مرزا ہادی رسوا (امراؤ جان ادا)کا ہے اور ماضی قریب میں پیغام آفاقی(مکان) اور عصر حاضر میں رحمان عبا س ہیں ۔محسن خاں بھی اسی کارواں کے شریک وسہیم ہیں۔انہوں نے بھی تکنیک اور زبان و بیان کی سطح پر یہی تجربہ کیا ہے۔کہتے ہیں حقیقی ناول وہی ہے جو اپنے زمانے کے مسائل کا عکاس ہو،ان مسائل کی عکاسی کے لئے ناول نگار نے وضاحتی بیانیہ کا انتخاب کیا ہے جس کو روایتی اسلوب سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے اسٹرائٹ فارورڈ اور فلیش بیک دونوں طرح کی تکنیک کا ستعمال کیا ہے ۔ابتدا تو اسٹرائٹ فارورڈ سے ہوتی ہے مگر فورا کہانی فلیش بیک میں چلی جاتی ہے ،جس سے قاری کے ہاتھ سے کہانی کا سرا چھوٹ جاتا ہے۔اہم بات یہ ہے وہ کسی ایک تکنیک کے ساتھ بہت دیر تک نہیں رہتے بلکہ اس کو وہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پہلی قرات میں کہانی گرفت میں نہیں آتی ہے حالانکہ دیکھنے میں نہایت سادہ کہانی ہے مگر ناول نگار کی تکنیک قاری کو ذہنی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔
ناول نگار نے فلیش بیک میں کہانی کو درمیان سے اٹھایا ہے اور پھر درمیان میں ہی چھوڑدیا ہے محض ایک حصے کا بہت چھوٹا جز ء اس جگہ بیان کیا ہے اور پھر وہ فورا اسٹرائٹ فارورڈ میں آگیا ہے۔مرکزی کردار جبران باپ کی گرفتاری اور والدہ کی موت کے بعداپنی بہن نصرت کے ساتھ اپنے چچا کے گھر رہنے لگتا ہے چچا جمیل کی موت کے بعد فحش تصویر دیکھنے کے جرم میں چچی اس کو گھر سے باہر نکال دیتی ہیں جس کے بعد اس کو مدرسے کے حافی جی (حافظ جی)مدرسے میں ہی رہنے کا ٹھکانہ دیتے ہیں،جہاں اس کا کام ان کی بکری چَرانا اور اس کی دیکھ بھال ہے،چونکہ بکری کی اپنی فطرت ہوتی ہے کہ وہ کبھی سیر نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ ممیانہ بند کرتی ہے سو وہ بھی اپنی فطرت کا مظاہرہ کرتی ہے ۔ناول نگار بڑی مہارت سے اس حصے کا انتخاب کرتا ہے جو جہاں ایک طرف کہانی میں تحیر خیزی پیدا کردیتا ہے وہیں دوسری جانب بچے کی حالت اور اس پر پڑنے والی افتاد کی طرف بھی اشارہ بھی کردیتا ہے۔ اسٹرائٹ فارورڈ اور فلیش بیک تکنیک کے اپنے اپنے فائدے ہیں ۔اول الذکر جہاں کہانی کے اجزاء کو مربوط اور منضبط کرتی ہے وہیں فلیش بیک کی تکنیک کہانی میں تحیر خیزی پیدا کرتی ہے ۔کوئی بھی کہانی/ناول ان دونوں تکنیکوں سے شروع کی جا سکتی ہے جبکہ کچھ ناولوں میں ان دونوں تکنیکوں کا استعمال ایک ساتھ کیا گیاہے ۔
’’اللہ میاں کا کارخانہ ‘‘میں برتی گئی تکنیک کے نوع کے تجربوں سے پلاٹ میں تنوع بھی پیدا ہو تا ہے ،اور اس کی توسیع میں مزید امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔فنی سطح پر ایک سوال قائم ہوتا ہے کہ فن کی رسومیات کی توضیع پہلے ہوتی ہے یا پھر تخلیق میں برتاؤ کے بعد وہ ضبط تحریر میں آتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ فنی رسومیات کی توضیع تخلیق میں برتاؤ کے بعد ہی ہوتی ہے،محسن خاں کا یہ ناول اس کی بہترین مثال ہے ۔
اس ناول میں دونوں تکنیکوں کو تسلسل کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے جس کی سب بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ناول یا افسانہ اپنے قدیم چوکھٹے سے نکل چکے ہیں۔اس سے کہانی میں یکسانیت کے بجائے دلچسپی اورتحیر کے عنصر میں اضافہ ہوا ہے۔خاتمے پر احساس ہوتا ہے کہ ناول نگار کی تکنیک کی وجہ سے اول و آخر دونوں کی قرات ایک ساتھ ہوئی ہے ۔تسلسل کے ساتھ تکنیک کی تبدیلی کایہ تجربہ بالکل نیا ہے ۔ ناول نگار نے فلیش بیک کی تکنیک کو بار بار حیلہ اور کہانی کہنے کا وسیلہ بنایاہے ،انہوں نے تھوڑی تھوڑی دیر میں اسٹرائٹ فارورڈ کے ساتھ فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال کرکے اس کی حیرت زائی میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔مثلا کالی مرغی کے بلی کے اٹھاے جانے،اللہ میاں کے خواب میں آنے اور مسجد میں بدمعاشی اور سزا کے بعد ہونا یہ چاہئے تھا کہ کہانی اسٹرائٹ فارورڈ میں ہی چلتی اور مدرسے میں حافظ جی کے پڑھانے ،پیر دبوانے اور خراٹے لینے کو راوی بیان کرتا مگر اس نے ایسا نہ کرکے ایک بار پھرفلیش بیک کی تکنیک کا سہارا لیا اور کہانی کودرمیان سے اٹھا لیا ۔پہلی بار اس نے حافظ جی کے خراٹوں اور بکری کے ہو ہو کرنے کی شکایت کی تھی اب کی بار وہ ان دونوں سے اطمینان کا اظہار بایں طور کرتا ہے کہ حافظ جی کے سیدھے لیٹنے کی وجہ سے خراٹے نہیں آرہے اور جی بھر گھاس چرنے کی وجہ سے بکری بھی خاموش تھی۔اس کے بعد پھر راوی اسٹرائٹ فارڈ میں کہانی کا بیان شروع کردیتا ہے۔اس طرح یہ فن پارہ تکنیک کے تضادات سے آگے بڑھتا ہے۔
بادی النظر میں اس ناول کا پلاٹ سادہ اور سیدھا ہے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے ،بیان کی متنوع تکنیک (اسٹرائٹ فارورڈ اور فلیش بیک)کی وجہ سے اس میں تھوڑی سی پیچیدگی بھی ہے لیکن ایسی پیچیدگی نہیں جس سے کہانی کے ان پیچیدگیوں میں گم ہونے کا خطرہ ہو۔کیونکہ جب کسی ناول میں کئی پلاٹ ہوتے ہیں تو مرکزی خیال منقسم ہو کر اس میں منتشر ہوجاتا ہے جس سے مرکزیت ناپید ہوجاتی ہے۔لیکن محسن خاں نے جس طرح کے پلاٹ پر اپنے ناول کی بنیاد رکھی ہے کہ وہ نہ تو پیچیدہ ہے اور نہ ہی سادہ بلکہ وہ بین بین ہے جس سے مرکزیت مفقودنہیں ہوئی ۔یہ حربہ ناول کی نیرنگی اور قاری کی دلچسپی کا سبب بھی ہے۔یہ اور بات ہے کہ ایک دو واقعے (حافظ جی کے ذریعہ ایک عابد شب گذار اور چور کا واقعہ)بادی النظر میں پلاٹ کے باہر کے ہیں مگر وہ اتنے مختصر ہیں کہ اسی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔
پلاٹ کے حوالے سے ہی اگر ناول کی ابتدا کا جائزہ لیا جائے تو محسن خاں نے ابتدا میں ہی کرداروں کے عمل سے ان کی فطرت پر زور دیا ہے ،ناول نگار کو خود کہیں یہ نہیں بتانا پڑا ہے کہ وہ کس طرح کا گھرانا ہے یا وہاں کا ماحول کیا ہے، انہوں خواب کے ذریعہ جس طرح آغاز کیا اور اس کے بعد مرکزی اور ذیلی کرداروں کے عمل کے ذریعہ ناول کا خط و خال واضح کردیا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ یہ سارا عمل بیانیہ کے ذریعہ ہوا ہے ،اس میں انہوں نے کسی بھی طرح کے غیر بیانوی بیانات کا کوئی سہارا نہیں لیا ہے یہاں تک کہ انہوں نے مرکز کردار جو راوی /بیان کنندہ واحد متکلم ہے کے ذریعہ بھی غیر بیانوی بیانات نہیں دلائے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کو پیکرتراشی کی ضرورت نہیں پڑی ہے بلکہ کرداروں کے اعمال و افعال خود ہی برش کے ذریعہ قاری کے ذہن پر ان کی تصویریں بنا دیتے ہیں۔اس طرح سے انہوں نے ابتدا سے ہی بہت گٹھا ہوا پلاٹ تیار کیاجو محسن خاں کی فنکاری کی دلیل ہے۔ناول یا کرداروں کا اختتام بھی پلاٹ ہی سے تعلق رکھتا ہے بلکہ اس کا اہم حصہ ہے ۔محسن خاں کے ناول کا خاتمہ بھی دوسرے عام ناولوں کی طرح نہیں ہے بلکہ اس میں جدت اور ندرت ہے ۔حافظ جی اپنے گھر جانے کے لئے تیاری کر رہے تھے اور جبران غنودگی کے عالم میں تھا ،اس دوران وہ اس کو نصیحتیں کر تے جاتے تھے ۔راوی کے مطابق :
وہ سامان بیگ میں رکھتے جا رہے تھے اور نصیحتیں کرتے جا رہے تھے ،ان کی آواز مجھے خواب میں سنائی دینے والی آواز کی طرح بے وزن سی لگ رہی تھی۔
جب میں نے حافی جی کی کسی بات کا جواب نہیں دیا تو وہ خاموش ہو گئے اور میرے پاس آکر میری پیشانی پہ ہاتھ رکھ کے کہا ،تمہیں تو تیز بخار ہوگیا ہے۔اور آج دوا خانے بھی بند ہوں گے۔
وہ کپڑا بھگو بھگو کر کچھ دیر تک میری پیشانی پہ رکھتے رہے اور دعائیں پڑھ کر میرے چہرے پہ پھونک ڈالتے رہے۔
اس کے بعد زیادہ دور سے ان کی آواز سنائی دی۔وہ کہہ رہے تھے۔جبران!اگر طبیعت سنبھل گئی ہو تو اٹھ کر تھوڑی سے بریانی کھالو ،میں مغرب کی نماز کے لئے جا رہا ہوں۔
حافی جی نے کفن جیسے کپڑے پہن لئے ،چھری اٹھائی جو سورج کی طرح چمک رہی تھی۔باہر بکری سر جھکائے حافی جی کا انتظار کر رہی تھی،حافی جی اچک کر بکری کی پیٹھ پر بیٹھ گئے اور انہوں نے چھری چابک کی طرح لہرائی تو بکری چل پڑی۔پہلے تو وہ دھیمے دھیمے چلی پھر تیز تیز دوڑ کر اڑنے لگی اور اڑن کھٹولے کی طرح خوب اونچائی پر چلی گئی۔بہت اونچائی پر پہنچ کر اس کی گردن دھڑ سے الگ ہو کر پتنگ کی طرح ڈولتی لہراتی آسمانوں میں جا کر چھپ گئی ۔اس کے بعد بکری کا دھڑ بھی حافی جی کو لے کر آسمانوں میں چھپ گیا اور ان کے پیچھے آندھی کے جیسا غبار فضا میں پھیلنے لگا۔
حافی جی کے آسمانوں میں چلے جانے کے بعد اماں میرے پاس آئیں اور اپنا برف جیسا ٹھنڈا ہاتھ میری پیشانی پر رکھ کر کہنے لگیں،جبران تم کو بہت تیز بخار ہے ۔ہاں اکیلے ہو ،اٹھو میرے ساتھ چلو ،وہاں چچا جان اور قطمیر بھی تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔
رات بہت ہو چکی ہے ،چراغ کی روشنی کم ہو رہی ہے ۔شاید تیل ختم ہو رہا ہے۔
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 199
اس طرح ناول اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ابتدا خواب سے ہوتی ہے اور انتہا بھی خواب پر ہوتی ہے۔ناول کا خاتمہ ’’نان اوپن انڈیڈ ‘‘ یعنی مبہم ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ابھی بہت کچھ باقی ہے مگر ناول ختم ہوجاتا ہے ۔در اصل اس کے بعد اس ناول کا نمو قاری کے ذہن میں شروع ہوتا ہے اور اس کا ذہن متعدد سوالات سے دو چار ہوتا ہے۔کیا وہ جبران کا صرف خواب تھایا وہم یا پھر واقعی اس کی ماں اس کو اپنے ساتھ لے گئی؟حافظ جی اس طرح جب گھر چلے گئے تو ان کا کیا ہوا؟کیا ان کی شادی ہوگئی یا نہیں ہوئی؟کہانی کے آخری تینوں جملے نہایت معنی خیز ہیں۔کیا خواب کے بعد جبران کی آنکھ کھلی اور حقیقت میں کمرے میں جلنے والے چراغ کا تیل ختم ہو رہا تھااور اس کی روشنی کم ہو رہی تھی؟یا پھر وہ جانکنی کے عالم میں تھا اور زندگی کی امید ختم ہو رہی تھی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا واسطہ قاری سے پڑتا ہے ۔یوں تو اس کو فکشن کی اصطلاح میں سائنٹفک خاتمے سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت یہ ایک امکانی خاتمہ ہے جو کہانی کو ختم کرنے کے بعد بھی اس کی توسیع کے امکانات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔اس سلسلے میں ممتاز شیریں کی بات بہت اہم ہے ،وہ لکھتی ہیں:
پرانی کہانیوں اور ناولوں کے اختتام پڑھ کر ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ کہانی ختم ہوگئی،لیکن اب یہ احساس آچلا ہے کہ زندگی پیچیدہ ہے ،کوئی کہانی مکمل نہیں ہو سکتی ،زندگی ایک نہ ختم ہونے والا تسلسل ہے ،کہانی کا اختتام حد آخر نہیں ہے۔داستان ہر مقام سے شروع اور ہر مقام پر ختم کی جا سکتی ہے اور ایسا ہر افسانہ پیچیدہ زندگی کا محض ایک ٹکڑا ہے۔اسی لئے آج کے افسانوں اور ناولوں کا اختتام ایک نئے آغاز کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسا کہ آنندی کا اختتام ۔اس کی بہت اچھی مثال جان سٹین بک کا ناول Grapes of Warth ہے۔
ممتاز شیریں۔معیار۔نیا ادارہ 1963صفحہ 25(مضمون:تکنیک کا تنوع -ناول اور افسانہ میں)
یہ ناول جبران کی زندگی کا رزمیہ ہے ،اس کا بچپن جس انداز میں شروع ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ حرماں نصیبی کے ساتھ وہ اختتام تک پہنچتا ہے۔ناول کا مبہم خاتمہ اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کبھی رکتی نہیں ہے، وہ اپنی تمام بے سروسامانیوں کے ساتھ رواں دواں رہتی ہے۔یہ زندگی کسی ایک کے ساتھ مقید نہیں ہے بلکہ ایک کی جگہ دوسرا اور دوسرے کی جگہ تیسرا لے لیتا ہے، بس انسانی شکلیں بدل جاتی ہیں ،مسائل اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔اگر ناول کے خاتمہ کے ساتھ ناول کے دیگر ذیلی کرداروں کا جائزہ لیا جائے تو صاف طور پر نظر آتا ہے کہ محسن خاں نے اس میں کرافٹنگ کا سہارا لیا ہے اور شعوری طور پر انہوں نے اسی طرح کے خاتمے کا عمل دوسرے سبھی ذیلی کرداروں کے ساتھ روا رکھا ہے۔جس سے ہر کردار میں توسیع کے امکانات کی ایک دنیا آباد ہو گئی ہے۔عبد اللہ حسین کے ناول ’’اداس نسلیں ‘‘ کے صرف مرکزی کردار نعیم کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ بھیڑ میں غائب ہوکر قاری کے ذہن پر اپنے وجود کے ساتھ مرتسم ہوگیا جبکہ یہاں سبھی کردار ایسے ہیں جو اپنی غیبوبت کی بنا پر قاری کے ذہن میں کلبلاتے رہتے ہیں۔
والدہ کے کردار کا خاتمہ بظاہر فطری موت سے ہوتا ہے لیکن اس کردار کی موت جہاں بیانیہ کو طولانی سے بچا دیتی ہے وہیں کہانی کو آگے بڑھانے میں بھی مدد کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ اصلا پاکستانی ہیں ،شوہر پاکستانی خفیہ تنظیم کا ایجنٹ ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے ایسے میں اس کے حوالے سے بھی متعدد سوالات ہوسکتے تھے۔مگر اس حوالے سے ناول میں کوئی گفتگو نہیں ہوتی ،یہاں تک کہ جب ولید گرفتار کرلیا جاتا ہے اور سادہ کپڑوں میں آئے پولیس اہلکار اس کی والدہ سے پوچھ گچھ کرتے ہیں تو وہ بھی اس حوالے سے گفتگو نہیں کرتے ہیں۔اگر کوئی اور ناول نگار ہوتا تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ وہ کہانی کو والدہ کے پاکستانی ہونے کے حوالے سے مزید طویل کردیتا اور غیر ضروری طور پر کہانی کہیں سے کہیں نکل جاتی ۔محسن خاں نے اسی بیماری میں والدہ کے کردار کا خاتمہ کرکے اس سے اس کو بچالیا ۔
جمیل کے کردار کا خاتمہ بھی کچھ اسی انداز میں ہوتا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محسن خاں ولید کی کی غیر ضروری رہائی (ناول کے لئے)اور اس کی تفصیلات سے بچنے کے لئے اس کردار کو کنارے لگاتے ہیں اور اگر اس کردار کا خاتمہ نہ ہوتا تو جبران حافظ جی کے پاس مدرسہ بھی نہیں پہنچتا اور بکری چرانے کی ذمہ داری بھی اس کو نہ ملتی۔بیٹھے بٹھائے جمیل کی موت سے قاری کو ایک دھچکا سا لگتا ہے کیونکہ اس کردار سے جبران ،نصرت اور ولید کی زندگیاں وابستہ تھیں مگر اس کا خاتمہ ہی کہانی میں ٹوئسٹ/دلچسپی کا ذریعہ بنتی ہے۔
ولید کی عدم رہائی بھی ایک علامت کے طور پر استعمال ہوئی ہے اور اس کے کردار کا خاتمہ بھی اپنے جلو میں امکانات کی وسیع اور حقیقی دنیا رکھتا ہے کیونکہ جس جرم میں اس کو جیل کی کال کوٹھری میں بھیجا گیا تھا وہ درحقیقت لامتناہی سلسلہ ہے ،اس کی عدم رہائی اس قبیل کے لوگوں کی مستقل جیل کا اعلامیہ ہے۔
نصرت موت سے تو دوچار نہیں ہوتی ہے لیکن اس کے کردار کا خاتمہ بھی واضح نہیں ہے ۔وہ اپنی چچی کے ساتھ رہتی ہے۔آخری بار وہ اپنے بھائی سے ملنے مدرسے آتی ہے اس کے بعد جبران خود ملنے تو جاتا ہے مگر ملاقات نہیں ہو پاتی، اس کے بعد یہ کردار بھی پردہ خفا میں چلا جاتا ہے۔ماں ،باپ اور بھائی سے دوری کے بعد اس پر کیا گذری ،چونکہ آخری بار جب وہ بھائی سے ملتی ہے تو راوی کے مطابق وہ بڑی ہوچکی تھی، ایسے میں اس کی شادی کا کیا ہوا ،یہ سب کہانی کے دائرے سے باہر ہے ،اس کی وضاحت بیانیہ میں کہیں نہیں ہے ،اس کو صرف تصور کیا جا سکتا ہے۔جس میں مثبت اور منفی دونوں امکانات ہیں کیونکہ چچا جہاں شفقت سے پیش آتے تھے وہیں چچی اپنی فطرت کے مطابق نظر آ رہی تھیں مگر چچی نے جبران کو گھر سے نکالنے کے باوجود اس کو اپنے پاس رکھا ایسے میں کسی بھی امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ قاری پر ہے کہ وہ بیانیہ کی روشنی میں خود فیصلہ کرے۔یہی حال چچی ،دادی ،رخسار اور یوسف کا ہے ۔یعنی ناول میں کوئی بھی ایسا کردار نہیں ہے جو اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہو ،منطقی انجام ناول کی شعریات کا چوکھٹا ہے اور یہ چوکھٹا بہت پہلے منہدم ہو چکا ہے، اس ناول کا ہر کردار اس چوکھٹے کے باہر انجام تک پہنچ کر قاری کے ذہن کا حصہ بن جاتا ہے اور متن کے خاتمے پر اس کی جگالی کرنے لگتاہے۔جو فن پارے کی کامیابی کی دلیل ہے ۔
کہانی کا بیان راوی واحد متکلم کی زبانی ہوا ہے۔یعنی بیان کنندہ ’’میں ‘‘ ہے ۔یہ First Person ہے ۔بعض دفعہ کہانی صیغہ واحد غائب کسی فرضی شخص کے ذریعہ بیان کی جاتی ہے ،یہ ایسا راوی ہوتا ہے جو ہمہ داں ہوتا ہے، جسے بذات خود تمام واقعات سے واقفیت ہوتی ہے ،یہاں اس کو بتانے والا کوئی نہیں ہوتا ہے،ان دونوں راویوں کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں۔بعض دفعہ راوی واحد متکلم اور واحدغائب دونوں ایک ہی بیانیہ میں شامل ہوتے ہیں۔راوی واحد متکلم خود بیانیہ میں داخل ہو کر اس کا حصہ بن جاتا ہے لیکن مذکورہ صورتوں میں ناول نگار کو بیانیہ کا حصہ نہیں تصور کیا جاتا ہے۔البتہ راوی واحد متکلم میں مصنف اور راوی دونوں کے ایک ہی ہونے کا پہلے شبہ ہونے لگتا تھا جیسا کہ امراؤ جان ادا کے راوی واحد متکلم کی وجہ سے ہوا۔مگر اب ایسا نہیں ہے واحد متکلم راوی تخلیق کار سے الگ ناول کا ایک کردار ہے جس کی حیثیت مسلم ہو چکی ہے۔جب راوی واحد متکلم اختیار کیا جاتا ہے تو ناول کے بیانیہ اور غیر بیانیہ اجزاء میں تفریق مشکل ہوجاتی ہے ،اسی طرح زبان و بیان یہاں تک کہ مکالموں میں بھی بہت زیادہ محنت کی یا اس کو بیانیہ کی زبان سے الگ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ دونوں کی ایک ہی زبان ہوتی ہے البتہ اگر راوی دوسرے کرداروں کی زبانی کوئی واقعہ بیان کرے یا اپنی زبانی اس کا مکالمہ ادا کرے تو زبان و بیان میں فرق آنا لازمی ہے،ایک محتاط ناول نگار ان باتوں کا بہر کیف خیال رکھتا ہے ۔راوی واحد متکلم کے جذباتیت کا شکار ہونے کا بھی امکان رہتا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ محسن خاں کا راوی واحد متکلم کہیں بھی جذباتیت کا شکار نہیں ہوا ہے بلکہ حالات کے مطابق اس کی زبان بھی ہے اور کہانی کا بیان بھی ہے۔محسن خاں کا واحد متکلم راوی بیانیاتی سلسلوں کو تو مہمیز کرتا ہے لیکن وہ واقعاتی تفاعل کا سبب نہیں بنتا ہے،اس میں اس کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ واقعات فطری انداز میں رونما ہوتے رہتے ہیں جن کا بیان راوی کرتا جاتا ہے۔جس کا سب سے بہترین نمونہ راوی کے والد ولید کی گرفتاری کا بیان ہے۔راوی واحد متکلم ہونے کے باوجود وہ ایک بار بھی کوئی ایسا جملہ نہیں ادا کرتا ہے جس سے جذباتیت یا اس کا کوئی لگاؤمترشح ہوتا ہو۔بیان دیکھئے:
کیا خبر ہے بھا ئی صاحب ؟اماں نے گھبرا کے پوچھا
احمد کے پا پا نے کہا،میں ابھی ٹی وی پر خبر دیکھ کر آرہا ہوں۔ولید کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
اماں اپنی بیماری اور گھر کے حالات سے پہلے ہی پریشان تھیں،ابا کی گرفتاری کی خبر سن کر ان پر سکتہ طاری ہو گیا ،وہ دروازے پر پیشانی ٹکائے کچھ دیر تک خاموش کھڑی رہیں،پھر انہوں نے دھیمی آواز میں پوچھا پولیس نے کیوں گرفتار کرلیا؟
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 106
دوسرا بیان دیکھئے:
چچا جان احمد کے گھر گئے اور اس کے پاپا سے بات کرنے کے بعد واپس آکر انہوں نے اماں سے کہا،ولید کو پاکستان کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کے شک میں گرفتار کیا گیا ہے اور وہ گجرات پولیس کی کسٹڈی میں ہیں۔
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 107
گرفتار ہونے والا شخص راوی کا باپ ہے ،جس سے اس کا جذباتی لگاؤ ہے،اس کے باوجود اس کی کیفیات کا بیان نہیں ہے۔کہیں بھی ناول نگار اپنے باپ کی پارسائی اور نیک یا بد ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دیتا ہے اور نہ ہی واقعاتی تفاعل کا سبب بنتا ہے بلکہ غیر ضروری بیانات سے وہ شعوری طور پر گریز کرتا ہوا نظر آتا ہے ،جس سے ناول جذباتیت سے دور ہوتا چلا گیا جو غیر جانبدار بیانیہ کے لئے ضروری تھا۔محسن خاں کا پورا ناول راوی واحد متکلم کی زبانی ہے مگر کہیں بھی اس نے اپنے نقطہ نظر کا اظہار نہیں کیا ہے بس اس کا نقطہ نظر سوالات کی ضمن میں سامنے آتا ہے مگر ان کا جواب پائے بغیر وہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔محسن خاں کا راوی اپنی ذہنی کیفیات،نارسائی ،خواب و خیالات اور گھریلو واقعات کے عناصر سے کہانی کو ترتیب دیتے ہوئے اس طرح کہانی بیان کرتا ہے کہ قاری خود کو اس کے ساتھ محسوس کرتا ہے اور اپنی آنکھوں سے ہوتے واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے۔چونکہ راوی واحد متکلم ہے اس لئے ناول کا بیانیہ اور غیر بیانیہ حصہ الگ نہیں ہیں، ایسے میں فلسفہ طرازیاں بھی نہیں کی گئیں ہیں بلکہ راوی اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق بیان کرتا ہے مگر بیان اتنا زود اثر ہے کہ واقعات کا ارتسام قاری کے ذہن کے کینوس پر عینی شاہد کی طرح ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
راوی خواہ کوئی بھی ہو اس کی عمر اور جنس ،معاشرتی اقدار وغیرہ کے لحاظ سے ہی زبان و بیان اور واقعات کا تانا بانا بنا جاتا ہے۔اس باب میں محسن خاں نہات کامیاب ہیں۔اس سلسلے میں اس سلسلے میں ممتاز شیریں نے بڑے پتے کی بات کہی ہے وہ لکھتی ہیں:
افسانے کے بیان میں صیغہ اور تذکیر و تانیث (عورت کی زبانی ،مرد کی زبانی)کا فرق بظاہر بہت معمولی دکھائی دیتا ہے لیکن اس سے تاثر میں بہت زیادہ فرق پیدا ہوجاتا ہے ،ایسے افسانوں کے لئے جن میں مصنف اپنے آپ کو کرداروں اور ماحول سے الگ رکھ کر غیر جانبدارانہ طور پر نقشہ کھینچتا ہے صیغہ غائب اور ان ڈائریکٹ نریشن موزوں ہے۔یا اگر مصنف خود ایک طبقے سے تعلق رکھتا ہو اور ایک دوسرے طبقے کی زندگی کا نقشہ کھینچ رہا ہوتو صیغہ غائب استعمال کرنا پڑتا ہے ،صیغہ متکلم میں بیان کرنے سے جذباتی اثر زیادہ ہوتا ہے۔
ممتاز شیریں۔معیار۔نیا ادارہ 1963صفحہ 19(مضمون:تکنیک کا تنوع -ناول اور افسانہ میں)
محسن خاں نے اس کا خیال بدرجہ اتم رکھا ہے ۔ایک بیان دیکھئے:
جمعہ کا وہ دن مجھے ہمیشہ یاد رہے گا اس دن شرارت کسی اور نے کی تھی اور سزا مجھے ملی تھی،میں رکوع میں تھا ،اسی وقت کسی نے میرے چوتڑوں میں انگلی کردی ،جب پہلی بار انگلی ہوئی تو میں نے اس لئے مڑ کر نہیں دیکھا کہ نماز پڑھتے وقت ادھر ادھر دیکھنے یا کھجانے سے نیت ٹوٹ جاتی ہے اور اللہ میاں ناراض ہوتے ہیںلیکن جب دوسری بار زیادہ زور سے انگلی کی گئی تو میں نے بغیر ارادے کے مڑ کر دیکھا ،میرے پیچھے عابد چچا نیت باندھے کھڑے تھے ،مجھے خوب زور کا غصہ آگیا۔نیت باندھے باندھے جا کر عابد چچا کے پیچھے کھڑا ہوگیااور جیسے ہی عابد چچا رکوع میں گئے میں نے اتنی ہی زور سے ان کے چوتڑوں میں انگلی کردی جتنی زور سے میرے کی گئی تھی۔میں نے سوچا تھا کہ عابد چچا کے پلٹ کر پیچھے دیکھنے سے پہلے میں جلدی سے دوسری صف میں چلا جاؤں گا مگر عابد چچا نے خرگوش کی طرح پھرتی سے اچھل کر پیچھے دیکھا اور ایک زور کا کنٹاپ میری کنپٹی پر مار دیا۔جو نمازی سلام پھر چکے تھے ،ہماری طرف دیکھنے لگے ،ابا بھی سلام پھیر چکے تھے جلدی سے میرے پاس آکر انہوں نے عابد چچا سے پو چھا : کیا بات ہے ؟ تم نے اسے کیوں مارا؟
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 18
اب آگے دیکھئے:
نصرت دروازے کے پاس کھڑی دیکھ رہی تھی ،میں نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھ کر سوچا کہ نصرت بھی مجھے گندا ارو برا لڑکا سمجھ رہی ہو گی۔میں لیٹ گیا تو وہ آکر میرے پاس بیٹھ گئی ۔کچھ دیر خاموشی سے مجھے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا بھائی چپکے سے میں ایک پلیٹ دال چاول لے آؤں تم تخت کی آڑ میں بیٹھ کر کھا لینا ۔
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 19
ان دونوں وقوعوں میں راوی واحد متکلم ہے۔لیکن اس میں کردار دو ہیں۔دونوں کی زبان و بیان عین وقوعوں کے مطابق ہے ۔پہلے وقوعے میں راوی کے ساتھ جو ہوتا ہے اس کو بے کم و کاست اسی طرح کی لفظیات میں بیان کیا ہے جبکہ دوسرے میں بہن نے بھائی کے خدشہ کو اپنے عمل سے دور کرتے ہوئے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ چپکے سے کھانا لانے کی بات کہی اور لا کر سامنے رکھ دیا۔راوی کی زبا ن اور اس کا بیان ہی در اصل ناول کی زبان وبیان ہے۔اس ناول کی ایک اہم خصوصیت اس کی زبان و بیان ہے۔کہانی اور زبان اس طرح مدغم ہوگئے ہیں اور دونوں اتنا زود اثر ہیں کہ قاری یہ فیصلہ نہیں کرسکتا ہے کہ وہ کس کی سحر میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ بیانیہ کا بہاؤ کسی بھی مقام پر مجروح نہیں ہوا ہے۔زبان و بیان کی بنا پر ناول تحریری ہونے کے باوجود زبانی /سماعی محسوس ہوتا ہے۔راوی کہانی اس طرح بیان کرتا ہے گویا کچھ لوگ بیٹھے سن رہے ہیں ،وہ قاری کے لئے نہیں بلکہ سامع کے لئے ہے ،اسی لئے زبان کا ایسا استعمال ہے جس میں بہاؤ خوب ہے ۔زبانی بیانیہ کی وجہ سے ہی ایسی لفظیات کا بھی استعمال بھی ملتا ہے جو تحریر ی کے لئے مناسب نہیں مگر چونکہ تحریری کے ساتھ زبانی بیانیہ کا التزام ہے جو در حقیقت اس ناول میں ایک خوبصورت امتزاج کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے بے دریغ غیر تحریری لفظیات کا استعمال کیا گیا ہے۔جس کے نقوش ناول میں جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔خاص طور پر راوی/مرکزی کردار جبران اور اس کے دوست احمداور اس کے متعلقات سے متعلق کی گفتگو اس حوالے سے نہایت دلچسپ ہے۔
ناول کے فن اور تکنیک میں خواہ کتنی بھی تبدیلیاں آچکی ہو ں لیکن کردار کے وجودسے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے ہاں اس کی صورتیں تبدیل ہو سکتی ہیں۔کردار کے بیان کی اب تک جو صورت حال رہی ہے وہ تشریحی بیانیہ کی تھی ،جس میں راوی کرداروں کا تعارف کراتا تھا اور ارتقائی صورت میں ان کو پروان چڑھاتا تھا جس کو کردار نگاری سے تعبیر کیا جاتا تھاجو اصلا کردار سازی تھی مگر محسن خاں نے ایسا نہیں کیا ہے ۔انہوں نے کرداروں کو ان کے افعال ،حرکات اور مکالمات کی صورت میں پیش کیا ہے تاکہ قاری خود فیصلہ کرے۔یوں بھی اس نوع کا تشریحی بیانیہ متن اور قاری کے مابین حارج ہوتا ہے جو در اصل بیانیہ کا حصہ نہیں ہوتا ہے اس کو شبیہ سازی میں میں مصنف کی دخل اندازی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اس کا ایک نقصان اور ہوتا ہے کہ متن کا تخلیق کار کردار نگاری میں تشریحی بیانیہ کی صورت میں ساری جد و جہد اپنے ماقبل بیان کی تصدیق میں صرف کردیتا ہے جس کو کردار نگاری سے تعبیر کیا گیا ہے۔محسن خاں نے اپنے ناول کے کسی بھی کردار کے ساتھ اس نوع کا تشریحی بیانیہ کا انداز اختیار نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے ہر کردار کو ان کے افعال واعمال اور حرکات کی صورت میں پیش کیا ہے۔یہاں تک کہ چرند و پرند بھی اسی صورت میں قاری کے سامنے آئے ہیں،اس لئے ان پر کسی طرح کی کردار سازی کا الزام نہیں عائد کیا جا سکتا ہے۔مرکزی کردار سے جو افعال سرزد ہوتے ہیں جن کومتن میں شیطنت سے تعبیر کیا گیا ہے ،ان میں ناول نگار کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ وہ ان خارجی عوامل کے زیر اثر سرزد ہوتے ہیں جو ناول کا مالہ اور ماعلیہ ہیں جس کو ناول نگار نے خوبصورتی کے ساتھ فکشنلائز کردیا ہے۔اس کے تشکیلی عناصر کا اگر جائزہ لیا جائے تو غربت ، حرماں نصیبی اور والد کی مذہبی شدت کے سوا کچھ نہیں ہیں،بے جاحدود وقیود سے بچوں کی فطرت کا رخ نہیں موڑا جا سکتا ہے،جن بچوں کے ساتھ اس کا اٹھنا بیٹھنا اور پڑھنا لکھنا تھا ان کا ماحول ان حدود و قیود کا متحمل نہیں تھا تبھی تو گدھے کی دم میں پیپا باندھ کر اس کو دوڑاکر بچے لطف اندوز ہوتے ہیں،ایسی شیطانیوں کی بنا پر گھر میں اس کی پٹائی ہوتی رہتی تھی جس کے بارے میں وہ خود بیان دیتا ہے کہ مار کھانے کے بعد میں روتا نہیں تھا کیونکہ یہ روز کا معمول بن چکا تھا۔
کہانی کے واحد متکلم راوی و کو بہت سی باتیں واضح انداز میں یاد نہیں ہیں کئی مقامات پر وہ ذہن پر زور دے کر بیان کرتاہے ۔نیر مسعود کے راوی کے اوصاف محسن خاں کے راوی میں بھی پائے جاتے ہیں ۔جس میں بیان اور گریز دونوں شکلیں موجود ہیں ،یہ بیان کی عجیب تکنیک ہے ۔مثلا ً:
ہمارا غسل خانہ بھی کچھ اچھا نہیں تھا ،دروازے کی جگہ ٹاٹ کا پردہ ڈال دیا گیا تھااور اس کی کچی دیوار ایک طرف سے درک گئی تھی جس سے روشنی اور ہوا اندر آتی تھی ،روشنی کی تو خیر کوئی بات نہیں۔
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 9
انہوں نے اور بہت سی باتیں کہیں جو مجھے یاد نہیں رہیں،اور بہت سی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں۔
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 59
اس نوع کی متعدد مثالیں اس ناول میں موجود ہیں۔در اصل اس طرح ’’گریز آمیز بیانیہ ‘‘عہد کے رائج بیانیہ کی نہ صرف تردید ہے بلکہ راوی قاری کو اس کے ذریعہ ا س دنیا میں جھانکنے کی دعوت بھی دے رہا ہوتا ہے جو اس کی آنکھوں سے اوجھل ہے ،اور یہ بیان بھی مقصود ہوتا ہے کہ حقیقت یک رخی اور سپاٹ نہیں ہوتی ہے بلکہ ظاہری حقیقت کے پس پشت بھی کچھ بلکہ بہت کچھ ہے جو در اصل حقیقت ہے مگر ہماری نظروں سے اوجھل ہے ،جس کو وجود میں جھانکنے سے تعبیر کیاجا سکتاہے۔راوی کے بیان ’’روشنی کی تو خیر کوئی بات نہیں‘‘پر اگر غور کیا جائے تو اس کے پیچھے کچھ سفاک حقیقتیں ہیں ,جن سے راوی چشم پوشی کرنا چاہتا ہے مگر حقیقت اس کے منھ سے نکل جاتی ہے جس کا اظہار ناول میں بہت آگے چل کر اس وقت ہوتا ہے جب احمد اپنے کسی دوست سے بغیر تار کے فون یعنی موبائل سے گفتگو کر رہا ہوتا ہے مگر راوی کو یقین نہیں ہوتا کہ ایسا بھی ممکن ہے ،اس وقت وہ اپنا موبائل راوی کو دے دیتا ہے اور ہیلو ہیلو کرنے کے بعد جب واپس کرتا ہے تو احمد سے دوسری طرف سے سوال ہوتا ہے کہ یہ کون تھا تو وہ جواب دیتا ہے کہ ’’ارے وہی جس کے غسل خانے میں جھانک کر اس کی نہاتی ہوئی بہن کو ہم لوگ دیکھا کرتے تھے‘‘۔ناول کا یہ بیانیہ محسن خاں کی فنکاری اور فنی حیلہ سے واقفیت کی بین دلیل ہے۔نیر مسعود کے راوی کی طرح محسن خان کا راوی بھی وہم کا شکار نظر آتا ہے۔مکھی کی بھنبھناہٹ کا بار بار احساس انسان کی نفسانی کشمکش کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی زد میں محسن خاں کا مرکزی کردار ہے وہ کم از کم دو بار اپنے اس مرض کے ساتھ سامنے آتا ہے جس سے اس کی نفسیاتی کیفیت سامنے آجاتی ہے۔جس درد و کرب میں مرکزی کردار/جبران کی زندگی گذری ہے اس نے اس کے حواس پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔جبران کے والد اس کو حافظ قران بنانا چاہتے ہیں ،چچا اس کو فلسفی جبران کی طرح دیکھنے کے خواہاں ہیں اور اس سے اعمال ابلیسوں والے سرزد ہوتے ہیں،جس کے بارے میں اسے قدم قدم پر عار بھی دلایا جاتا ہے ،اور حالات کی ستم ظریفی اس کا بچپن اور اس کی دنیا سب چھین لیتی ہے جس کے اثرات اس کے ذہن و دماغ پر پڑتے ہیں اور وہ اس نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے۔یہ بیان دیکھئے:
قطمیر کے مرنے والے دن جب میں سونے کے لئے لیٹا تو میرے کانوں میں مکھیاں بھنبھنانے لگیں ،میں سمجھ گیا کہ یہ وہی مکھیاں ہیں جو قطمیر کے منھ پر بھنک رہی تھیں۔میں جلدی سے اٹھ بیٹھا اور دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال کے دیرتک ہلاتا رہا تو مکھیاں خاموش ہو گئیں اور جب دوبارہ سونے کے لئے لیٹا تو پھر بھنبھنا نے لگیں۔بہت دیر تک یہی ہوتا رہا ،جب میں کانوں میں انگلیاں ڈال کر ہلاتا تو وہ خاموش ہوجاتیں اور جب لیٹتا تو بھنبھنا نے لگتیں ،اس رات بڑی مشکل سے نیند آ سکی۔
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 144
دوسری جگہ :
کچھ دیر بعد حافی جی حجرے میں آگئے ،وہ بھی بھوکے تھے،انہوں نے آتے ہی کہا ،بھائی جبران جلدی سے کھانا لگاؤ،بہت زور کی بھوک لگ رہی ہے۔
میں نے تخت پر پلاسٹک بچھا کے کھانا لگایا اور ہم لوگ کھانا کھانے لگے ،کھانا کھانے کے وقت میرے کان میں مکھی بھنبھنا نے لگی ،میں کان میں انگلی ڈال کے اسے خاموش کرنے کی کوشش کی تو حافی جی نے دیکھ لیا اور کہا ،یہ کیا حرکت کر رہے ہو ،کھانا کھاتے وقت کان میں انگلی ڈالی جاتی ہے؟
میں نے جلدی سے کان سے انگلی نکال لی اور ان سے کہا کہ میرے کانوں میں مکھیاں گھس گئی ہیں اور تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد بھنبھناتی رہتی ہیں تو حافی جی نے حیرت سے میری طرف دیکھ کر پوچھا،مکھیاں کانوں میں گھس گئیں ،کب گھسیں؟ ( یہ بھی پڑھیں ‘اللہ میاں کا کارخانہ ’’ یا تہذیب کے برزخ میں متحرک روحیں- خوشتر زرّیں )
میں نے کہا جب چچا جان کا کتا مرا تھا تو اس کے منھ پر بہت سی مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ،ان ہی میں سے کچھ مکھیاں میرے کانوں میں گھس گئی ہیں۔
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 158
ان دونوں مقامات پر راوی نے خود اپنا وہم بیان کیا ہے بس اس پر حقیقت کا التباس ہے،اس کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہی مکھیاں ہیں جو قطمیر کے جھاگ اور آنسو آلود منھ پر بھنبھنا رہی تھیں۔در اصل چچا کی موت اس کے لئے ایک گہرا صدمہ تھی کیونکہ اس کی زندگی اور مستقبل ان ہی سے وابستہ تھا ،والد کی رہائی اور اس کے بعد کے سبھی خواب ان ہی سے متعلق تھے ،ایسے میں ان کی موت اس کے لئے سب سے بڑا دھچکا تھا،جس کا اظہار قطمیر کی موت کے بعد اس کے چہرے پر بھنبھنا رہی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے احساس کی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔سچائی یہی ہے کہ حالات نے اس کو وہمی بنا دیا تھا ،اگر ایسا نہ ہوتا تو بیداری کی حالت میں وہ قبرستان میں خدا سے گفتگو کا مدعی کیون کر ہوتا،والدہ اور چچا سے گفتگو کو خود کلامی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے ۔یہی حال اللہ میاں سے گفتگو کا ہے۔اگر یہ خود کلامی ہے تو یہ خود فراموشی سے قبل ممکن نہیں ہے ،اگر راوی خود فراموش ہوچکا ہے اور وہ خود کلامی کرنے لگا ہے تو یقینا وہ وہم کا شکار ہوگا۔یہ انسانی فطرت اور نفسیات ہے کہ خود کلامی کے پس پشت بہت سے اسباب و عوامل ہوتے ہیں اور یہاں ناول نگار نے بیانیاتی انداز میں اس پر تفصیل سے ماقبل میں روشنی ڈالی ہے۔مجموعی طور پر راوی واحد متکلم خود فراموشی کا شکار ہوچکا تھا۔ فن پر دسترس رکھنے والے /ذہین و فطین فن کار اپنے رواۃ کے ساتھ شعوری طور پر ایسا کیا کرتے ہیں،ایک تو اس سے اس کے بیان میں دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے،بھولی بسری ،یادیں اور بہکی بہکی باتیں سننے اور سنانے کا لطف کچھ الگ ہی ہے۔محسن خاں کا راوی بکھری ہوئی معلومات ،یادوں،ذاتی تجربوں، مشاہدوں، گناہوں، ناکردہ گناہوں اور انسانی رشتوں کو ایسے بیان کرتا ہے جو فکشنلائز ہوتا ہے،اس طرح کے راویوں سے ایسے اعمال و افعال بھی سرزد ہونے لگتے ہیں جو قاری کو اس سے جوڑنے میں معاون ہوتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں قاری کو اس سے ہمدردی بھی ہوجاتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اس سے واقعاتی تفاعل میں کچھ فرق پڑتا ہو بلکہ وہ تو جوں کا توں رہتا ہے مگر راوی اور سامع کا تعلق مضبوط ہوجاتا ہے۔یہ ایک فنی حیلہ ہے جسے سب سے زیادہ نیر مسعود نے برتا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ناول کے کردار جمیل ،ولید ،نصرت ،حافظ جی سب کتابوں کے دلدادہ ہیں۔یہ اور بات ہے کہ سب کی ترجیحی کتابیں الگ الگ ہیں لیکن ان سب کا تعلق کتابوں سے ہے۔اس نوع کے کرداروں کی تخلیق کا رواج اردو فکشن سے ختم ہوچکا تھا لیکن محسن خاں نے ایسے کردار تخلیق کئے ہیں جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہیں جن میں علم کے خزینے ہوتے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ فن کار ایسی دنیا کا خواہاں ہے جس میں علم کی بادشاہی ہو،مجبور محض جیسے عقائد اور رسوم کی جگہ منطقی فکر کے حامل افراد پیدا ہوں اور اس طرح کے افراد جبران کی ذہنیت کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔جو قدم قدم پر سوال کریںاور ہرمعلول کی علت سے واقفیت کی ان میں جستجو ہو۔
ناول کے ہر جزء کے آغاز سے قبل ایک سرنامہ ہے ۔جو اس کی باطنی فضا کی طرف اشارے کرتا ہے جس کو Forshadowing یعنی پیش بندی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔یہ قاری کے ذہن کو مہمیز کرتا ہے اور اس کو اگلے متن سے مرتبط کرتا ہے۔ناول نگار نے اس کو بھی فنی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے،جسے قاری کو متن میں شرکت کے لئے دخول متن سے قبل تیار کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اگر اس کو متن کا حصہ تسلیم کیا جائے تو کہانی کے لحاظ سے اس کو مستحسن تصور نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کے سرنامے سے کہانی کھلنے لگتی ہے،ذہین قاری اس طرح کے حربے پسند نہیں کرتا ہے البتہ عام قاری کے لئے اس میں بہت کچھ ہوتا ہے ۔ لیکن اگر اس کو متن کا حصہ نہ تسلیم کرکے محض سرنامہ کے طور پر دیکھا جائے تو یہی فنکارکی فنی دسترس کا ثبوت بن جاتا ہے کہ وہ پوری کہانی کو سرنامے کے توسط سے بیان کردیتا ہے۔
ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ ‘‘ حقیقت اور علامت کا بہترین نمونہ بھی ہے،اہم بات یہ ہے کہ جو حقیقت ہے وہی علامت ہے اور جو علامت ہے وہی حقیقت بھی ہے۔جبران اور قطمیر اس کی واضح مثال ہیں ،اگر دونوں حقیقت میں علم و دانش اور وفاشعاری کی علامت ہیں تو یہاں جبران اپنے سوالات کی روشنی میں اور قطمیر وفاداری/سوگواری (جمیل کے انتقال کے بعد دو دن تک لائبریری کے سامنے بغیر کھائے پئے اور تین دن تک اپنی جھوپڑی میں بیٹھا رہا اور پھر مر گیا)میں جان دینے کی صورت میں حقیقت اور علامت کا آمیزہ بن جاتے ہیں۔جبران کے سوالات پر اگرغور کریں تو ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ جبران غیر معمولی طور پر ذہین و فطین تھا مگر چونکہ والد غالی مذہبی آدمی تھے، اس پر والدہ کی تربیت اور پھر غربت نے اس کو کچھ کرنے نہیں دیا ،رہی سہی کسر والدکی گرفتاری اور والدہ کی موت نے پوری کردی۔ اگر یہی جبران پڑھ لکھ کر حقیقی جبران کے بالمقابل کھڑا بھی ہوجاتا تو حافظ جی کی حقیقت پسندانہ گفتگو کچھ اور بتا رہی ہے،جس میں انہوں نے موجودہ ہندستان کی حالت بیان کردی ہے ۔دیکھئے:
تمہارے ابا تم کو حافظ قران بنانا چاہتے تھے،ٹیچر بننے کے لئے تو اسکول میں پڑھنا ضروری ہے اور اب تو اسکول میں داخلے کی تمہاری عمر بھی نکل گئی اور مستقبل میں ایسے امکانات بھی نہیں۔معلوم نہیں تمہارے ابا کی رہائی کب ہو سکے گی اور ویسے بھی اب یہاں کے حالات مسلمانوں کے حق میں روز بہ روز خراب ہوتے جا رہے ہیں۔تعلیم بھی حاصل کرلو گے تو سرکاری نوکری تو ملنے سے رہی ۔اردو اور عربی کی تعلیم حاصل کرکے مدرسوں کی ہی نوکریاں مل سکیں گی اور مدرسوں کی نوکریوں میں اتنی آمدنی نہیں کہ اس سے خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر ہو سکے۔یہی سب باتیں کرتے کرتے ان کے حلق سے خراٹوں کی آ وازیں نکلنے لگیں۔
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 173
ولید کی گرفتاری کے ساتھ ہی رام سیوک کا مکالمہ ملک میں مذہبی تعصب کو بیان کرتا ہے ،جب انسان جانوروں کو بھی مذہب کے آئینے سے دیکھنے لگیں تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔محسن خاں نے بڑی فنکاری کے ساتھ عصری کیفیات و حالات کو جبران اور رام سیوک کے مکالموں کے ذریعہ بیان کر دیا ہے۔
رام سیوک نے میری بکری کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا،کیا تمہاری بکری مسلمان ہے ؟
میں نے کہا بکری بھی کہیں مسلمان ہوتی ہے؟
رام سیوک نے کہا،اگر بکری مسلمان نہیں ہے تو اس کی اتنی بڑی داڑھی کیوں ہے؟
میں نے اس سے کہا اگر تمہاری گائے کو تلک لگادیا جائے تو کیا وہ ہندو ہو جائے گی؟
رام سیوک نے کہا ،گائے تو ہندو ہوتی ہی ہے۔اسی لئے تو ہم لوگ اسے گئو ماتا کہتے ہیں۔
میں نے کہا ،تم لوگ بیوقوف ہو ،جانور بھی کہیں ہندو اور مسلمان ہوتے ہیں۔وہ تو بس جانور ہوتے ہیں۔
رام سیوک نے کہا تم مسلمان لوگ کٹوے ہوتے ہو،اسی لئے گائے کو جانور کہتے ہو۔
محسن خاں۔اللہ میاں کا کارخانہ۔ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی2020صفحہ 156
اس مکالمے سے رام سیوک جو اکثریت کا نمائندہ کردارہے اس کی ذہنیت ،اور اس ماحول کا اندازہ ہوتا ہے جس میں اس کی پرورش و پرداخت ہوئی ہے۔قاری کو ذرا بھی دیر نہیں لگتی ہے اور وہ اس سماجی بیانئے تک پہنچ جاتا ہے ۔جس میں گائے ہندو اور بکری مسلمان ہوتی ہے جبکہ مسلمان کٹوا ہوتا ہے۔
ناول میں زندگی اور موت کا بیانیہ بہت قوی ہے،زندگی کی ناپائیداری اور بے ثباتی کو فنی وسائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے،والدہ اور چچا کی موت کا المناک بیان اور اس کرب سے گذرنے والے بچے کی ذہنی کیفیات اور اس کی نفسیات کو ناول نگار پیش کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے ۔اسی طرح سے وہ موت و زیست کے دردو کرب اور حقیقی زندگی کے مابین توازن کی طرف بھی اشارے کردیتا ہے۔جس وقت جبران کی والدہ کا جنازہ قبر میں اتارا جارہا تھا ،اس کو کٹی پتنگ اڑتی ہوئی نظر آئی ،جس کی ڈور دانش نے پکڑ لی اور وہ اس کی ہوگئی اس وقت جبران کیا سوچ رہاتھا:
اس دن اگر میری اماں کی جگہ دانش کی اماں مری ہوتیں تو پتنگ مجھے مل گئی ہوتی۔
محسن خان۔اللہ میاں کا کارخانہ۔صفحہ 125
یہاں کٹی ہوئی پتنگ کی خواہش انسانی زندگی کی علامت کے طور پر استعمال ہوئی ہے ۔انسان اگر موت کے غم کی کیفیت میں ہی رہے تو اس کی زندگی دشوار ہوجائے ایسے میں خدا نے اس کے سینے میں خواہشات کا جو دریا موجزن کیا ہے وہ اس کو زندگی کی راہ دکھاتا اور اس میں توازن کا سبب بھی بنتا ہے ۔بس عمر اور جنس کے لحاظ سے خواہشات اور ترجیحات الگ الگ ہوسکتی ہیں۔ناول نگار نے بیانیہ صورت میں بہت لطیف پیرائے میں اس جانب بھی اشارہ کردیا ہے۔
اسی طرح مرغی،بکری،ٹوپی،مسجد ،قصائی،مدرسہ،سپارہ ،رمضان،بقر عید ،قبرستان،کتبہ،او رپتنگ وغیرہ ایسی علامات ہیں جن کے ذریعہ اس معاشرے کا علم ہوتا ہے جس کے حوالے سے متن تخلیق کیا گیا ہے ۔یہ وہ مظاہر ہیں جن کی جلو میں ایک پورا معاشرہ آباد ہے۔کہانی میں مرکزی کردار اور جانوروں کے مابین گفتگو شیخ فرید الدین محمد عطار کی مثنوی ’’منطق الطیر، اسی پر مبنی مستنصر حسین تارڑ کی منطق الطیر جدید اور بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ کی یاد دلادیتی ہے۔چوزے ،مرغی اور بکری کی موت انسانی موت کی ارزانی کی لطیف علامتیں ہیں،اس دور میں کوئی بھوک سے مرجاتا ہے تو کوئی کسی کی بے توجہی کا شکار ہو کر دم توڑ دیتا ہے،کوئی پھانسی پر اس لئے لٹک جاتا ہے یا لٹکا دیا ہے کہ سامنے والے کو جہاں قوت و اقتدار کا نشہ ہوتا ہے وہیں اس طرح کی اموات سے اس کے لطف و انبساط میں اضافہ ہوتا ہے۔ناول کے چرند و پرند اور انسانی اموات کا تقابل حیرت میں اضافہ کرتا ہے۔زندہ ادب کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ یک رخا نہیں ہوتا بلکہ ماورائے متن اس کی کئی جہات ہوتی ہیں جن سے اس کی معنیات کی دنیا روشن ہوتی ہے۔جہاں ہر ذہنی وفکری سطح کے قاری کے لئے معانی ہوتے ہیں جو اپنی ذہنی تموج کے اعتبار سے وہاں تک رسائل حاصل کرتے ہیں۔ناول کی علامتوں میں جہاں ایک طرف معنی ومفاہیم کی ایک دنیا آباد ہے ۔ وہیں ان کا استعمال ایک فنی حیلہ /وسیلہ بھی ہے ،اور متن کو مظاہر قدرت سے خوبصورت بنانے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔تنقید کے جدید نظریہ ’’ماحولیاتی تنقید ‘‘ میں بکری،مرغی،کوا جیسی علامات اور ان کے تلازمات جنگل،درخت ،چارہ،پرندے ،سرسبزی و شادابی،بارش اور بادل وغیرہ کی کافی اہمیت ہے۔اس نوع کی تنقید اردو زبان ابھی رائج نہیں ہے۔لیکن اس تناظر میں بھی اگر اس ناول کا مطالعہ کیا جائے تو متن میں اس حوالے سے بہت کچھ موجود ہے۔ناول کے ذیلی کردار بھی اپنی فطرت کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں ،ان کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ نہیں کی گئی ہے۔ایسے کرداروں میں دادی،خالہ،عابد چچا ،عادل،اور کلو چچا کے ساتھ ہی دوسرے کردار ہیں جن سے ناول نگار نے پوری ایک دنیا تمام ترسچائیوں کے ساتھ آباد کردی ہے۔ فنی محاکمے میںناول قدیم وجدید رسومیات کا حامل ایک خوبصورت فن پارہ قرار پاتا ہے ، جن سے ناول کی سکہ بند تکنیک کے بجائے جدید تکنیک میں توسیع کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |