ادب کی دنیا میں جب کہیں بھی اردو ادب کا نام لیا جاۓ اور ذکرِ سر سید نہ ہو تو وہ کلام بہر صورت ادھورا ہوگا۔ مہدی حسن نے جب اردو ادب کے معماران کی خدمات پر نظر دوڑاٸی تو انہیں پانچ ہستیاں ایسی نظر آٸیں جن کا اُڑھنا بچھونا، کھانا پینا، سونا جاگنا اور اُٹھنا بیٹھنا سب کچھ ادب ہی ادب تھا تب انہوں نے سوچا کہ جس طرح انسانی جسم کے پانچ ”حواسِ خمسہ“ ہیں جن سے وہ دیکھتا ہے،سنتا ہے،بولتا ہے، سونگھتا ہے اور چھوتا ہے بالکل اس طرح اردو ادب کے بھی پانچ ”عناصرِ خمسہ“ سید، حالی، شبلی، آزاد اور نذیر ہیں جن کی بدولت اردو ادب نے دیکھنا، سُننا، بولنا، سُونگھنا اور چھونا سیکھا ہے۔
حواسِ خمسہ کے حوالے سے ماہرینِ تعلیم کا خیال ہے کہ تعّلم کا عمل سب سے زیادہ یعنی 75 % دیکھنے کی حس سے نمو پاتا ہے لہٰذا بالکل اِسی مثال کے مصداق ”عناصرِ خمسہ“ میں بھی سر سید کی مثال ”حواسِ خمسہ“ میں دیکھنے کی حس کی سی ہے۔ سر سید نے اردو ادب کے میدان میں ایسے کار ہاۓ نمایاں انجام دیے ہیں کہ آج بھی اردو ادب کو ان پر بجا طور پر فخر ہے. یہی وجہ ہے کہ ان کے عصری حریف اکبر آلہ آبادی کو بھی ان کی عظمت کے اعتراف میں اپنا مشہورِ زمانہ قطعہ کہنا پڑا:
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق،جو ہے کہنے والے مرنے والے میں
کہا جو چاہے کوٸی،میں تو کہتا ہوں اکبر
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں!
مذکورہ بالا قطعہ تو اکبر نے سید ہی کے لیے کہا تھا لیکن میری نظروں سے جب بھی یہ گزرتا ہے یا کانوں کے پردوں کو مرتعش کرتا ہے تو میرے پردہ تخیل پہ غیر دانستہ طور پر راج محمد آفریدی کی تصویر جھلکنے لگتی ہے۔ خوب رُو قندھاری انار سا گول چہرہ، سیاہ مگر لیاقت و حیا سےچمکتی آنکھیں، گھنی بھنویں، کُشادہ پیشانی، سخت مگر ہمیشہ چھوٹے بال ،موتیوں کی سی دمکتی بتیسی، داٸیں رخسار پہ کسی شاعر کے محبوب کی طرح کھدا ہوا چاہ جو ہستے ہوۓ اِن کے کلین شیو چہرے پہ سمندر کے شفاف پانیوں میں کسی بھنور کی طرح کِھلتا ہے، ٹھوڑی کے نیچے صحت مندی کے باعث شہد کے چھتے کی مانند ہلکی سی لٹکتی ہوٸی پوست جسے دیکھ کر مجھے تو بے اختیار پیار آتا ہے،اُن کا میانہ قد اور مضبوط و گھٹا ہوا جسم اِن کے بلند اور پختہ ارادوں کا پرتو ہے۔ جب کسی کام کا ٹھان لیتے ہیں تو وہی جم کر کرتے ہیں بلکہ کرنے کا حق ادا کرتے ہیں۔
راج محمد آفریدی 3 فروری 1987 کو ملک شیر محمد خان کے گھر پشاور اور کوہاٹ کے درمیان قباٸلی علاقے درہ آدم خیل میں پیدا ہوۓ، درہ آدم خیل وہ علاقہ ہے جہاں طلوعِ آفتاب سے غروب ہونے اور غروب ہونے سے طلوع ہونے تک پٹاخے پھٹتے ہیں، سرِ بازار بندوقوں کے منہ سے شُعلے اُگلتے ہیں، چہار سُو پہاڑوں سے ٹکراتی دھماکوں کی بازگشت سناٸی دیتی ہے لیکن ایک ایسے علاقے میں راج محمد آفریدی جیسے تعلیم یافتہ، امن پسند، سوشل ورکر اور علم و محبت کا پرچار کرنے والے انسان کا پیدا ہونا یقیناً کسی معجزے سے کم نہیں، گو کہ موصوف کے ولدِ بزرگوار بنیادی طور پر اسلحہ ساز تھے لیکن راج محمد آفریدی صاحب کا اسلحہ کی بجاۓ کتاب کا چُننا اُن کی غیر معمولی فہم و ادراک اور بے پناہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اِن کا کتاب چُننا حسبِ سابق روایتی نہ تھا بلکہ ایک ایسا سنگِ میل تھا کہ اب وہاں موصوف کا طرزِ انتخاب ہزاروں نونہالوں کی زندگیاں بدل رہا ہے،سیکڑوں گھروں میں علم کی شمعیں روشن کررہا ہے۔
راج محمد آفریدی نے ابتداٸی تعلیم اپنے آباٸی گاٶں ہی سے حاصل کی اور چھٹی پاس کرنے کے بعد پشاور شہر کا رُخ کیا، وہاں انہوں نے سال 2003 میں فرنٹیٸر چلڈرن اکیڈمی FCA سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، 2005 میں ایف ایس سی پری انجنٸیرنگ کیا تب تک موصوف کا ارادہ انجنیٸر بننا تھا لیکن تخت بھاٸی مردان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ادب دوست اور شفیق استاد بختیار گل مرحوم کی وجہ سے ان کا ذوقِ ادب ایسا زرخیز ہوا کہ وہ اس کھیتی میں قلم کا ہل چلاۓ بغیر نہ رہ سکے۔تب اُن کا رُخ ساٸنس سے آرٹس کی طرف مُڑا اور یوں سال 2009 میں جامعہ پشاور سے اردو ادب میں ماسٹر کی سند حاصل کی۔ (یہ بھی پڑھیں سازِ بوالعجبی کا تارِ حیات – (شوکت حیات کا خاکہ) – پروفیسر غضنفر )
راج محمد آفریدی ایم اے کرنے کے بعد نجی طور پر درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوۓ اور قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے لگے لیکن ادب سے دلچسپی اور لگاٶ چونکہ بچپن سے اِن کے سرشت میں اِس طرح رچ بس گٸی تھی کہ وہ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اردو کے آفاقی ادب کا مطالعہ بھی کرتے رہے اور قلم کی سیرابی پر بھی بھرپور توناٸی صرف کرتے رہے ۔ یہی وجہ تھی کہ اِن کا پہلا طبع زاد افسانہ 2012 میں صوابی سے ”ہاتھ“ کے عنوان سے شاٸع ہوا۔
قریباً پانچ سال فراٸضِ معلمی انجام دینے کے بعد ایک دفعہ پھر ان کی رگِ متعلمی پھڑک اُٹھی اور انہوں نے جامعہ قرطبہ پشاور میں ایم فل اردو میں داخلہ لیا اور حسبِ معمول اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوۓ سال 2018 میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی اور اگلے سال اِسی ہی جامعہ سے پی ایچ ڈی بھی شروع کردی۔
راج محمد آفریدی ایک ادب دوست، کتب بین، مصلح قوم اور اطفالِ عصرِ نو کی آبیاری کرنے والے انسان ہیں۔ درہ آدم خیل لاٸبریری کا قیام اُن کا درہ آدم خیل کی عوام پر ایک ایسا احسان ہے جس کا شاید ہی کوٸی نعم البدل ہو۔ راج صاحب نے دورانِ ایم فل اُس کھٹن دور میں لاٸبریری کے قیام کے لیے اپنی جیب خرچ میں سے روپیہ پیسہ نکال کر جوڑا جب ایک متوسط درجے کا بندہ یہ فیصلہ کرنے میں گھنٹوں صرف کرتا ہو کہ دوستوں کے ساتھ کینٹین جایا جاۓ یا کسی بہانے پہلو لے کر روپوش ہوجاۓ، لیکن پختہ ارادوں کے آگے ایسی رکاوٹیں ہمیشہ ہیچ رہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ راج صاحب نے پھر ثابت کردیا کہ منزلِ مراد پانے کے لیے وساٸل سے ذیادہ پختہ ارادے کی ضرورت ہوتی ہے اور یوں سال 2018 ء میں ایک کرایے کی دکان میں جنم لینے والی نومولود نحیف سی لاٸبریری ایسی پلی پھولی کہ آج وہ درہ آدم خیل کی وسیع وعریض کتاب گاہ ہے جس میں طاٸرانِ ادب کی تشنگی مطالعہ بجھانے کے لیے لگ بھگ پانچ ہزار کتب کا ذخیرہ موجود ہے اور مزید کتب کی فراہمی کے لیے بھی بانی لاٸبریری جناب راج محمد آفریدی صاحب سر توڑ کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔انہوں نے اسلحہ کے ڈھیر پر کتابوں کو سجاکر درہ آدم خیل کے بچوں،بوڑھوں، عورتوں کو کتب بینی کی جانب راغب کیا۔
راج محمد آفریدی صاحب بہ یک وقت ایک نوجوان محقق، نقاد، افسانہ نگار، مضمون نگار، کالم نگار، ڈرامہ نویس اور مترجَم ہیں۔ میرا موصوف کے ساتھ اتنے سارے پیشے منسوب کرنے کا عمل شاید کوٸی مبالغے پر محمول کرے لیکن مابدولت مضمون کی طولت کے ڈر سے کفایت شعاری سے کام لے رہا ہے وگرنہ حق تو یہ ہے کہ شاید ادا نہ ہوسکے۔موصوف کی تحقیق، تنقید، افسانہ، مضمون اور کالم تو میں پڑھتا ہی رہتا تھا لیکن ایک دفعہ جب اکادمی ادبیات کے شمارے میں ان کا پشتو سے اردو ترجمہ پڑھا توفوراً رابطہ کرکے پہلے تو مبارک باد دی اور پھر خوشی اور جھلسی ملی کیفیت سے دوچار ہوۓ پوچھا کہ ”بھٸی تم شبلی کی طرح ادبی جن ہو یا انسان؟ ہر جگہ ٹانگ اڑاتے رہتے ہو“ تو انہوں نے ڈمپلی رخسار پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوۓ کہا کہ یار خٹک ہر جگہ ٹراٸی مارتے ہیں کہیں نا کہیں تو ایڈجسٹ ہوجاٸیں گے تو میں نے بے ساختہ کہا کہ بھٸی تم ہر جگہ ایڈجسٹ ہو غم ہمارا ہے۔
ادبی نقطہ نظر سے موصوف کی زندگی خوب مصروف ہے، ہر وقت کسی نا کسی ادبی کام میں ضرور مصروف رہتے ہیں، تخلیقی اعتبار سے ڈرامہ ان کی مرغوب صنف ہے جبکہ افسانہ بھی خوب جم کر لکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں ان کے ”کرونا وبا“ کے موضوع پر کٸی افسانے بین الاقوامی اخباروں اور رسالوں کی زینت بن چکے ہیں۔ ادب اطفال پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور مستقبل قریب میں نونہالوں کا ادبی ذوق ابھارنے کے لیے ادبِ اطفال پر مشتمل ایک تخلیقی کاوش منظر عام پر لانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ مزید برآں ادبی مجلسوں میں اتنی باقاعدگی سے شرکت کرتے کہ حلقہ اربابِ ذوق کی مجلسوں میں تو بلاناغہ، ناغہ والے دن بھی چلے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ مجھے کال کرکے بتایا کہ آج حلقہ اربابِ ذوق ضرور آنا، میں حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ جب مقررہ وقت پر حاضر ہوا تو حضرت دفتر اردو ساٸنس بورڈ (جہاں حلقہ کی محفل جمتی ہے) کے سامنے کھڑے ہیں اور دروازے کو تالے لگے ہوۓ ہیں۔ سیکٹری حلقہ جناب شکیل احمد نایاب سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ آج تو ناغہ ہے۔ اور اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ اُس وقت پیش آیا کہ ایرانی قونصلیٹ فرہنگِ ایران پشاور میں غالباً ایرانی ثقافت پر کوٸی فلم چلنی تھی تو حضرت نے مجھے بھی دستی میسج ٹوک دیے کہ وہاں پہنچ آنا لیکن میں تو تیس مار کر آرام فرما رہا تھا جبکہ حضرت قونصلیٹ ہال تشریف لے جا چکے تھے۔میں نے جب نیند سے بیدار ہوکر رابطہ کیا تو فرمانے لگےکہ ہال میں میں اکیلا ہی شیر تھا۔
دراصل اِن کی ادبی فعالیت، ذوق اور کاوشیں دیکھ کر مجھے ان پر حسد کی حد تک رشک آتا ہے کیونکہ دراز قامت کے آگے بونے قد کا حسد کی بھٹی میں جلنا ایک فطری امر ہے لیکن یہ اچھا ہے کہ اس بھٹی سے باہر نکلنے کا گُر بھی میں نے موصوف ہی سے سیکھا ہے وہ یہ کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے کام پر دل سے خوش ہوتے ہیں، دل کھول کر داد دیتے ہیں اور سب سے بڑھ کر کسی کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی میں ان کو سُرخ رُو دیکھتا ہوں تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں مکتبہ جامعہ شاہد علی خاں لمٹیڈ – پروفیسر خالد محمود )
ادبی زندگی سے ہٹ کر ان کی شخصی، ازدواجی اور گھریلو زندگی بھی ایک روشن اور دلچسپ باب ہے۔ صفاٸی ستھراٸی کے دلداہ ہیں عام طور پر شلوار قمیض ہی زیب تن کرتے ہیں لیکن خصوصی تقریبات یا سمینار وغیرہ میں پینٹ شرٹ پہنے میں دیگر پختونوں کی طرح عار محسوس نہیں کرتے۔ کھانے پینے میں چکن پلاٶ اور مچھلی کے خوب شیداٸی ہیں، ہوٹل پیمینٹ کے سلسلے میں امریکن سسٹم کے قاٸل ہیں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ان کے خرچے میں کچھ کھایا پیا ہو۔ حسبِ دستور دیگر لوگوں کی طرح اپنے بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں ظاہری بات ہے کہ بچوں کی ماں سے بھی کرتے ہوں گے لیکن میری طرح چار شادیوں کے شدید پرچاری ہیں۔فیس بک پہ چار شادیوں کی فضیلت سے متعلق کسی بھی پوسٹ کو شریک کرنے کا موقع ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ ایسے معاملات میں گھر سے باہر حضرت کی آواز یو این او میں اس سیاسی شخصیت کی طرح گرجتی ہے جس کی آواز گھر اندر رِندھ جاتی ہے ۔
راج محمد آفریدی کا منشورِ حیات، تصورِ انسان اور مفہومِ خدمت ہی کچھ عجیب ہے۔ اپنے سے لاپرواہ ہوکر دوسروں کے لیے بھاگنا دوڑنا اور پسینے میں شرابور رہنا ان کی عادتِ ثانیہ بن چکی ہے اس ضمن میں ایک یادگار واقعہ کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی ہوا یوں کہ بذریعہ کمیشن ماہرینِ مضمون اردو منتخب ہونے کے بعد جب ہماری تقرری کی باری آٸی تو سب امیدواران نے متفقہ طور پر راج صاحب کو اپنے گروپ کا لیڈر بنا دیا کہ وہ سیکٹریٹ کے تمام امور نمٹاٸیں گے اور پل پل کی خبر گروپ میں شریک کریں گے سو عوامی خدمت گار نے بھی لبیک کہا اور صبح سے شام تک سیکٹریٹ کے چکر لگانے لگے، اپنی پوسٹنگ سے بے پرواہ کبھی ایک کی پوسٹنگ کے لیے منت ترلے کرتے اور کبھی دوسرے کی پوسٹنگ کے لیے لیکن جب پوسٹگ آرڈر نکلا تو پتہ چلا کہ موصوف کی اپنی پوسٹگ ایسی جگہ ہوٸی ہے جہاں پہلے سے ماہرِ مضمون موجود ہے۔ تب سب امیدواران اپنے اپنے چارج سنبھالنے میں مگن ہو گٸے جبکہ راج صاحب چپ چاپ یک تنہا اپنی پوسٹگ کے لیے مارے مارے بھاگتے رہے مگر ان پر آفریں ہو کہ منہ سے گف تک نکالا ہو یا ماتھے پر کوٸی شکن نمودار ہوٸی ہو۔
موصوف کے ساتھ اپنی شناساٸی اس وقت سے ہے جب ماہرِ مضمون اردو کے لیے مقابلے کا امتحان پاس کرنے بعد سال 2019 کے جولاٸی کے مہینے میں پشاور پبلک سکول پشاور میں ہماری ایک میٹنگ منعقد ہوٸی تھی، وہاں ان کا اعتماد، زبان کی روانی، بات کرنے کا سلیقہ اور جذبہ خدمت دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا تھا کہ راج مستقبل میں راج کرے گا اور میرا وہی اندازہ بارے موصوف آج حرف بہ حرف بالکل سچ ثابت ہو رہا ہے۔
ماضی قریب میں موصوف کی کتاب ”مشاہیر ادب کی گم گشتہ جہتیں“ نے منظر عام پر آتے ہی تہلکہ مچا دیا ہے، اس منفرد کتاب میں موصوف نے اردو ادب کی مشاہیر کی ایسی جہتوں کو آشکار کیا ہے جو برسوں محقیقینِ ادب کی نظروں سے پوشیدہ رہیں، علاوہ ازیں موصوف کی تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی نگارشات مختلف قومی اور بین الاقوامی اخباروں اور رسالوں میں شاٸع ہو رہی ہیں،آج کل موصوف نے اپنی ادبی مصروفیات میں اضافہ کرتے ہوئے روزنامہ چارسدہ نیوز میں ادبی صفحے کا اجرا بھی کیا ہوا ہے جس میں وہ نئے لکھاریوں کو موقع دے رہے ہیں۔ اپنی یہ دعا ہے کہ اِس یارِ غار کا قلم داٸم چلتا رہے۔
قسمت اللہ خٹک
ماہرِ مضمون اردو
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |