آج آسمانوں میں ایک ہیبت سی طاری تھی!
ٹا ٹا کمپنی کے صدر گیٹ پر آج صبح ہی سے لوگوں کا ایک جمگٹھا سا لگا ہوا تھا۔اُس گیٹ پر برسوں سے ایک فقیر بیٹھا کرتا تھا اور آج اچانک اس کی موت ہوگئی تھی۔ جمشیدپور جیسے چھوٹے سے شہر میں اس کے چاہنے والوں کی کمی نہ تھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ چونا شاہ کو ان کے ا ٓ ستانے میں ہی دفنایا جائے۔ اگرچہ ،ٹاٹا کمپنی کے مالکان توہم پست تو بالکل بھی نہیں تھے کیونکہ خود کمپنی کے بنیاد گزار جمشیدجی نوشیرواں جی ٹاٹا اپنے وقت کے ایک روشن خیال اور محب ِوطن پارسی تھے۔ کمپنی مذہبی معاملات میں شروع سے ہی روادار تھی ۔ مندر ، مسجد، گرجا گھر اور گرودوارے کے لیے خطۂ اراضی وقف کر تی آئی تھی۔آج بھی کمپنی کے مالکان سبھی مذاہب کا احترام کرتے تھے۔لیکن اس معاملے میں معاشی زاویہ حائل ہوگیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ سب مخمصے میں پڑ گئے تھے کہ ایشیا کی ایسی عظیم الشان کمپنی کے صدر گیٹ پر کسی فقیرکے مقبرے کا بننا کمپنی کی شان کے خلاف ہوگا ——
دوسری طرف فقیر کے چاہنے والے اس بات پر مصرتھے کہ انھیں ان کی جگہ سے جدا نہ کیا جائے۔
معاملہ بڑاگمبھر تھا——
کمپنی کے مالکان سنجیدہ تھے اور جمگٹھے میں موجود مزدوروں میں کھلبلی مچی ہوئی تھی ۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کمپنی کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔
ہر کوئی متجسس تھا کہ اب کیا ہوگا ——؟
ہر شخص کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ اب کیا ہوگا—— ؟؟
اِدھر بھیڑ تھی کہ اُمڑتی چلی آرہی تھی…..
فقیر کی شہرت جہاں جہاںتھی، وہاں وہاں سے لوگوں کا ریلا چلا آرہا تھا، ایک ایسا ریلا جو تھمنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ (یہ بھی پڑھیں دس سروں والا بجوکا – پرویز شہریار )
چونا شاہ!
ایک اللہ والے فقیر تھے۔
وہ اسمِ با مسمیٰ تھے۔
ہر وقت چونا کھاتے رہتے تھے۔
لوگوں کی عقل حیران تھی کہ —— اتنا چونا کھانے کے باوجود کوئی شخص کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔تہمد اور کُرتے میں دُنیا جہاں کی سیر کرتے رہتے تھے اور کمر پر تہمد کی گرہ میں بندھا سفید سفید قدرے مرطوب سا چونا اپنی چٹکیوں میں دبا کے منھ کے اندر رکھ لیتے تھے۔ یہ سب منظر دیکھ کے ، دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی تھیں—— ’’کوئی بھلا اتنے شوق سے چونا کیسے کھا سکتا ہے؟‘‘
’’پان میں ذرا سا چونا زیادہ ہو جائے تو کلّے کٹنے لگتے ہیں۔‘‘
لیکن——- یہاں تو ماجرا ہی کچھ اور تھا۔
چونا شاہ نے ایک دفعہ ایسے ہی کسی شکی آدمی کے ساتھ اُنگلی تھامے کھڑے ہوئے ایک چھوٹے بچے کے منھ میں چونا ڈال دیا۔آس پاس کھڑے ہوئے لوگ یہ منظر دیکھ کے سکتے میں پڑ گئے۔
’’ہائے! یہ کیا غضب ہوگیا۔‘‘
لیکن ، وہ چھوٹا بچہ چونے کو اِس طرح مزے سے کھانے لگا گویا وہ چونا نہیں کوئی گل قند کھا رہا ہو۔ لوگ باگ اس کرشمہ کو دیکھ کر ایک دم سے چکرا گئے اور چونا شاہ اپنے آپ میں مگن دُنیا و مافیہا سے بے نیاز، سبک روی سے آگے بڑھ گئے——-
چونا شاہ جب علی الصباح رفعِ حاجت کے لیے جنگل کی سیر کو نکلتے تو ٹیکسیوں کی لائن لگ جاتی——- ہر ٹیکسی ڈرائیور چاہتا کہ چونا شاہ اُس کی ٹیکسی میں بیٹھ جائیں۔ ہر ٹیکسی ڈرائیور دروازہ کھول کر انھیں اپنی ٹیکسی میں بیٹھانے کی کوشش کرتا اور جس کی ٹیکسی میں وہ بزرگ فقیر بیٹھ جاتے، اُس دِن اس کی قسمت چمک اٹھتی تھی ——سارا دن اس کے وارے نیارے ہوتے رہتے——- ڈرائیوروں کا ماننا تھا کہ چونا شاہ بابا جس کی ٹیکسی میں بیٹھ جاتے ہیں، اُس پر دن بھر سواریوں کا تانتا لگا رہتا ہے اور خوب بر کت ہوتی ہے۔ اِن میں سے بیشتر سکھ ڈرائیور تھے جو کالی پیلی ایمبیسڈر یا فیئٹ کار چلا یا کرتے تھے۔آٹو رکشہ کا اُس زمانے میں چلن اتنا عام نہیں ہوا تھا۔ لوگ باگ بیٹھتے ہوئے ڈرتے تھے۔ تین پہیوں کا آٹو رکشہ کبھی کبھی اُلٹ بھی جایا کرتا تھا۔ (یہ بھی پڑھیں ترقی پسند اردو افسانے – ڈاکٹر پرویز شہریار )
یہ جو ٹیکسی ڈرائیور چونا شاہ کی اتنی آؤ بھگت کرتے تھے ، اس کے پیچھے ایک خاص وجہ تھی۔ وہ وجہ یہ تھی کہ ایک دفعہ چو نا شاہ ننگے پاؤں چلتے چلتے ، اچانک کسی بس میں جابیٹھے۔ جیسے ہی کنڈکٹر نے دیکھا۔ کوئی فقیر ہے جو میلے کچیلے کپڑوں میں بس کی سیٹ پر آبیٹھا ہے۔ اُس نے بڑے ہی تحقیر آمیز لہجے میں کہا:
’’اوے بابا، اُتر جا! یہ بس نہیں جائے گی۔‘‘
’’اچھا!‘‘ چونا شاہ نے سر اُٹھاکے اسے گہری نظروں سے دیکھا اور اُن کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا——–
’’ٹھیک ہے تو پھر… یہ بس نہیں جائے گی۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ فی الفور بس سے اُتر کے آگے بڑھ گئے۔بات آئی گئی ہوگئی——-
کچھ دیر بعد جتنی سواریاں تھیں، ساری بیٹھ گئیں اور جب بس کے چلنے کا وقت ہوا تو بس اسٹارٹ ہی نہیں ہورہی تھی۔کنڈکٹر اور خلاصی اُتر کر انجن میں ہینڈل پر ہینڈل مار رہے تھے اور بس تھی کہ اسٹارٹ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ حتیٰ کہ ان سبھوں کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔مگر بس اپنی جگہ سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھی۔ سواریوں میں شور و غل مچنا شروع ہوگیا۔سبھی کو دیر ہو رہی تھی۔ تبھی کنڈکٹر کو کسی نے یاد دلایا کہ —–
’’اُس فقیر کو تم نے بس سے اُتار کر اچھا نہیں کیا۔‘ ‘
’’ممکن ہے اسی وجہ سے بس نہیں چل رہی ہے۔‘‘
اتنا سنتے ہی کنڈکٹر کے اوسان خطا ہوگئے——- اب تو اس کے مارے خوف کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔خلاصی کو فوراً فقیر کے پیچھے دوڑایا۔ پھر سبھی گئے اور بڑی منّت سماجت کر کے ہاتھ پاؤں جوڑنے کے بعد کسی طرح بس میں لاکر بیٹھایا۔ پھر کیا تھا۔ ان کے بیٹھتے ہی بس آن کی آن میںاپنی پوری رفتار سے چل پڑی——-
یہ بات جمشیدپور جیسے چھوٹے سے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح آناًفاناً میں تمام پھیل گئی۔
اس واقعے کے بعد سے ٹیکسی ڈرائیوروں میں ہوڑ سی لگی رہتی تھی کہ کب چونا شاہ بابا اس کی ٹیکسی میں بیٹھ جائیں اور اُس کا دن چاندی ہوجائے!
چونا شاہ کی جس جگہ بیٹھک تھی، اس کے آس پاس بکرے، مینڈھے اور دُنبے بیٹھے ہردم جگالی کرتے رہتے تھے۔ان کے اِرد گرد کی متصل دیواروں پر ہر وقت کبوتروں کا ڈیرہ لگا رہتا تھا۔چونا شاہ کی ہرنیں بھی تھیں جو اُن کے گردوپیش قلیلیں کرتی پھرا کرتی تھیں۔ پل بھر میں لپک کے ان کے نزدیک چلی آتیں اور پھر دوسرے ہی پل قلانچیں بھرتی ہوئی اُن سے دوٗر بھاگ جاتیں۔چونا شاہ انھیں اپنے پہلوؤں میں بڑے پیار سے بٹھاتے اور ان کی پیٹھ پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرا کرتے تھے۔
چونا شاہ کا حلیہ کچھ ایسا تھا کہ سفید صافہ کے نیچے اور کنپٹیوں سے ان کی تارِ مقیش کی سی زلفیں لٹکتی رہتی تھیں۔ ان کی بھوری بھوری آنکھوں میں ہردم ایک ملکوتی اورلامکانی سی ویرانی رہتی تھی ،جیسے وہ اس دور کے….. اس دنیا کے انسان نہ ہوں بلکہ کسے شام و یمن کے گپھاؤں میں بسیرا کرنے والا کوئی آدی کال کا انسان ہو، جس نے ابھی جنگلی جانوروں کے ریوڑ سے خود کو الگ نہیں کیا تھا۔ان کے لا شعور میں کہیں نہ کہیں ایک پُراسرارجنگل موجود تھا—— انھوں نے شاید ابھی تک دشت و جبل سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کیا تھا—— چونا شاہ اپنی ہرنوں سے ان کی زبان میں باتیں کیا کرتے تھے اور ہرنیں بھی ان کی باتیں سمجھتی تھیں۔
چونا شاہ کے ہاتھ میں اکثر ایک منحنی سی چھڑی ہوا کرتی تھی۔ جب وہ چھڑی ٹیک کر چلتے تو—— جس طرح بادشاہ کی پلٹن اس کے پیش پیش چلتی ہے، اسی طرح چونا شاہ کے بکرے اور مینڈھے بھی آگے آگے چلتے تھے۔ بکروں اور مینڈھوں کی تیز مہک سے راہ گیر سمجھ جاتے تھے کہ چونا شاہ کی آمد ہورہی ہے….. ثمر فروش اور سبزی فروش اپنی دکانوں کے قریب کھڑے ہوکر حسرت بھری نظروں سے دیکھتے کہ اے کاش! ان کے پھلوں اور سبزیوں پر چونا شاہ کے پالتو جانور منھ مار دیں تو ان کا سارا مال ایک ہی دن میں بِک جائے گا۔
ایک دفعہ کسی دکاندار نے چونا شاہ کے بکرے کو ڈندڈا دے مارا—– پھر کیا تھا۔ اسی رات اس کی دکان میں آگ لگ گئی— اس واقعے کے بعد لوگ باگ ان کے جانوروں کے ساتھ بہت اچھے سے پیش آنے لگے تھے اور ان کے بکرے تھے کہ پورے شہر میں چُھٹّے سانڈ کی طرح منھ مارتے پھرتے تھے۔ (یہ بھی پڑھیں لِو اِن ریلیشن سے پرے – ڈاکٹر پرویز شہریار)
محلّہ بھالو باشہ کے ہجڑے ان کے بکروں کو برفی اور پیڑے کھلایا کرتے تھے۔وہ ہجڑے بہت دولت مند تھے۔ شان سے اونچی کوٹھیوں میں رہتے تھے۔ شادی بیاہ میں غریب لڑکیوں کی روپے پیسوں سے بڑی مدد کیا کرتے تھے۔ان کا ماننا تھا کہ چونا شاہ کے بکروں کی سیوا کرنے کی وجہ سے ان کی کمائی میں برکت ہوتی ہے۔ وہ بکرون اور مینڈھوں کے گلے میں بڑے چاؤ سے اپنے پاؤں کے گھنگھرو پہنا کر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کے جانوروں کو کوئی ذرا سا بھی نقصان پہنچا دیتا——
کہتے ہیں ، ایک بار کسی کے دل میں چونا شاہ کے مچرب بکروں کو دیکھ کے لالچ آگیا اور اس کی نیت خراب ہوگئی۔ اس بد نصیب شخص نے رات کے اندھیرے میں سب سے تگڑے جانور کو پکڑکے چوری چُھپے ذبح کر ڈالا۔ اس کے بعد بکرے کا تازہ تازہ پھڑکتا ہوا گوشت پتیلے میں ڈال کرپکنے کے لیے چولہے پر چڑھا دیا۔ جب کھانے کے لیے دسترخوان بچھا کر بیٹھا اور جوں ہی ڈھکن کھولا تو اس کے منھ سے مارے خوف کے چیخ نکل گئی۔
پتیلے میں خون ہی خون تھا——-
وہ اندھیرے ہی میں روتا، پیٹتا اور گڑگڑاتا ہوا چونا شاہ کے پاس پہنچا اور ان کے قدموں میں جاکر گر گیا۔ اپنی غلطیوں کی معافی مانگی اور اپنے گناہ سے تائب ہوا ، تب جاکر اس کی جان بچی۔
یہ سب ایسے قصے تھے جو اُس چھوٹے سے شہر ِ آہن میں ہر خاص و عام کے ذہن نشیں ہو چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ چونا شاہ کے پالتو جانور جدھر سینگ سماتا، منھ اُٹھا کر گلی محلّے میں نکل جاتے، لوگ انھیں بڑے پیار سے دانہ پانی کھلاتے اور ایسا کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ لہٰذا، دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی برسوں میں چونا شاہ کے جانوروں کی تعداد بے شمار ہوچکی تھی۔ بیک وقت کئی کئی محلّوں میں اُن کے بکرے اور مینڈھے یہاں وہاں منھ مارتے، مستی سے چارہ کھاتے اور گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔
لیکن——-
آج وہ سب کے سب غمگین تھے۔
اُنھیں بھی شاید اپنے محبوب مالک کے بے حس و حرکت جسد کو دیکھ کر اندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہ اس دُنیا میں نہیں رہے ۔ یہی وجہ تھی کہ ……
آج چونا شاہ کے کبوتر متصل دیواروں کی منڈیروں پر بیٹھے غٹر غوں غٹر غوں کرنا بھول چکے تھے۔ اُن کے بکروں اور مینڈھوں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ وہ اپنی چوکڑی بھول چکے تھے… چونا شاہ کی ہرنیں بھی آج اُداس پڑی تھیں۔
لیکن ان سب کے بر خلاف——–
ایشیا کی سب سے عظیم الشان کمپنی کے مالکان اِس بات پر مصر تھے کہ فقیر کی لاش کو صدر گیٹ سے اُٹھا کر کسی دوسری جگہ پر رکھوا دیا جائے——
وہ کمپنی جس کے ہائیڈرولک پاور سے چلنے والے کرین ڈرائیوروں کو بھاری سے بھاری لوہے کے گٹھروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے لے جانے میں ید طولیٰ حاصل تھا۔لوگ بوگ دم سادھے کھڑے تھے کہ وہ اس فقیر کی نعش کو صدر گیٹ سے اُٹھا کر کسی دوسری من چاہی جگہ پر کیسے لے جا پاتے ہیں؟
ہزاروں متجسس آنکھیں اس کرین کے ڈرائیور پر جمی ہوئی تھیں، جِسے کمپنی کے مالکان نے چونا شاہ کی نعش کو کسی اور مقام پر منتقل کرنے کے کام پر مامور کر رکھا تھا۔
رفتہ رفتہ وہ وقت قریب آتا جارہا تھا…..
کمپنی کے صدر گیٹ کے چاروں طرف بھیڑ اس طرح سے مجتمع تھی گویاکشتی کے اکھاڑے میںکسی دو نامی گرامی پہلوانوں کے بیچ ہار اور جیت کا فیصلہ ہونے والا تھا اور دنگل شروع ہونے میں چند ہی سیکنڈ باقی رہ گئے تھے۔
ایک طرف دیو ہیکل کرین تیارکھڑا تھا اور دوسری طرف زمین پرایک اللہ والے فقیر کی بطاہر بے بضاعت سی میّت پڑی ہوئی تھی اور ان کے چاروں طرف، اس عجوبے کو وقوع پذیر ہوتے ہوئے دیکھنے کے لیے، اس انہونی ساعت کا چشم دید گواہ بننے کے لیے انسانوں کا اُمڑتا ہواہجوم بے صبری سے انتظار کر رہا تھا۔
سبھی لوگ حیران تھے کہ اس جسد ِ خاکی کے اندر ایسی کون سی طاقت سمائی ہوئی ہے کہ کمپنی کے دس دس لٹھیت بھی مل کر اسے اُٹھا نہیں پائے تھے اور بالآخرانھیں ایسے دیو ہیکل کرین کا سہارا لینا پڑ رہا تھا۔ لوگوں کے ذہن میں شک—— ایک سوال——– گشت کر رہا تھا ——- کیا روح سے ماوریٰ جسم میں اتنی طاقت ہوسکتی ہے؟
یہ کیسی حقیقت تھی؟
جس کے وہ سب گواہ بننے جارہے تھے۔
رفتہ رفتہ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور پھر اچانک وہ لمحہ بھی آگیا۔
جب لوگوں نے پورے ہوش وحواس کے ساتھ اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا——–
جمشیدپور کی تاریخ میں پہلی بار ایک انتہائی ناقابلِ یقین واقعہ رونما ہوا تھا——-
چونا شاہ کو اُٹھانے والے کرین کے موٹے موٹے آہنی وائروں کے پر خچے اُڑ گئے…… لیکن اس حقیر فقیر کا جسدِ خاکی ایک انچ بھی اِدھر سے اُدھر نہیں ہوا تھا۔ تبھی کرین کے ڈرائیور نے نیچے اُتر کر کمپنی کے مالکان کے آگے اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بڑی عاجزی سے کہا،
’’مالکو! مجھ سے یہ پاپ نہیں ہوگا——— مجھے معاف کر دو۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ ایک طرف کو ہٹ کر بھیڑ میں ضم ہوگیا۔
اس رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعے سے یکلخت شور و شرابا ختم ہوگیا اور ماحول میں بالکل سنّاٹا سا چھا گیا——— ایک مکمل ہوٗ کا عالم تھا———-
مجال نہیں کہ کوئی چوں بھی بول جائے——– پرندے اپنے پر سمیٹے بیٹھے تھے———
آج ایک آدمِ کاکی کا وجود، اُس مقام پر پیوستِ خاک ہوا چاہتا تھا، جہاں اُس کا خمیر تھا۔
اُس بوریہ نشیں کے جاہ و جلال کو دیکھ کے….. آج آسمانوں میں ہیبت سی طاری تھی!
کمپنی کے مالکان کو آج پہلی بار ایسازبردست دھچکا لگا تھا۔
ان کی پسپائی کو دیکھ کے مزدوروں کے ہجوم میں ایک نئی لہر سی دوڑ گئی ۔اِس کمپنی کے راج میں اب تک جو نہ ہوا تھا وہ آج ایک معمولی فقیر نے کر دیکھایا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے کمپنی کے صدر گیٹ کے سامنے چوناشاہ کے مقبرے کی تشکیل عمل میں آگئی——– جمشیدپور کی تاریخ میں ایسا جم غفیر اس سے پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ یہ ایسا موقع تھا جب غریبوں اور ناداروں کی سرمایہ داروں پر ایک طرح سے فتح ہوئی تھی۔
لیکن—— ان سب سے الگ ، دیکھنے والوں نے دیکھا:
’’چونا شاہ کی ہرنیں اُداس اور گم صم بیٹھی تھیں—— ظاہر ہے کہ وہ اندر سے بہت سوگوار تھیں اورزبانِ حال سے ماتم کناں بھی ،گویا کہہ رہی ہوں کہ
’’اب کون ہمیں پیار سے چمکار کے پہلو میں بٹھائے گا …..
اب کون ہماری پیٹھ پر شفقت سے اپنے ہاتھ پھیرے گا….. ؟‘‘
اس واقعے کو گزے ہوئے آج نصف صدی کا عرصہ بیت چکا ہے —- تاہم وہ اسی طرح سے آج بھی اس مزار کے ارد گرد ہمہ وقت آٹھوں پہر موجود رہتی ہیں، مزار کو چھوڑ کے کہیں نہیں جاتیں —— یہ سچ ہے کہ چونا شاہ کی ہرنیں آج بھی اُداس ہیں۔
چونا شاہ کی ہرنیں اُداس ہیں!
٭٭
Dr. Perwaiz Shaharyar
Editor, NCERT
Flat No. 4/48, NCERT Campus
Sri AurobindoMarg
New Delhi-110016
Mobile No. 9910782964

