مہرباں ہوکے وہ ملا ہے آج
دل مگر اور بھی دُکھا ہے آج
تھم گئی ہے جو کائنات کی نبض
کون دنیا سے اٹھ گیا ہے آج
گھٹ رہا ہوں میں اپنے اندر کیا
مجھ سے سایا مرا بڑا ہے آج
کچھ تو پہلے ہی دل تھا آزردہ
اور یہ درد بھی نیا ہے آج
اپنے دشمن کو کر دیا ہے معاف
میرا قد اور بڑھ گیا ہے آج
میری انگلی پکڑ کے چلتا تھا
وہ بنا پھر رہا خدا ہے آج
سارا الزام تو ہوا پہ لگا
اور دیا ہے کہ خود بجھا ہے آج
روشنی اور تیز پھوٹے گی
کُہࣿر کچھ اور بھی گھنا ہے آج
کھِل اٹھی ہے کلی مرے دل کی
بعد مدت کے وہ کھُلا ہے آج
اشک تھمتے نہیں گلوں کے ندیم
جانے کیا کہہ گئی صبا ہے آج