تیزگام ایمبولینس کی رفتارکچھ اور تیز ہوگئی تھی،اس کے تمام سائرن اس طرح بج اٹھے تھے جیسے وہ سرحد پر لڑنے والے سولجرس کو کمک لے جارہی ہواورذراسی تاخیر سے ،بازی ہی پلٹ جائے گی ۔آس پاس کے گھروں میں دُبکے لوگوں کے کلیجے، منہ کو آرہے تھے۔ان کے ذہنوں میں تیز دھماکے سے ہورہے تھے۔’’نہ جانے اب یہ کس بدقسمت کو لے جارہی ہے،ایک ہے کہ کئی؟!‘‘ان کے ذہنوں میں بس یہی خیالات آتے اورشدت کرب سے ان کی آنکھیں مچ جاتیں۔چہروں پر تناؤ آجاتا اوررگیں تن جاتیں۔
آوٹر رِنگ روڈکے پُل نمبر 3-پرآتے آتے تو وہ سخت ترین جام میں پھنس گئی۔لاکھ اس کے سائرنس چیخ رہے تھے اور امرجنسی لائٹیںجل بجھ رہی تھیں،کبھی لمبی سی’ ہوں‘پورے ماحول کا جگر چیرجاتی اور کبھی اس میں موجود عملے کی گالیاںباہر کے لوگوںپر پڑتیں،لاکھ اس میں موجود مریضوں کی دُہائیاں جگر میں خراش کرتیں، مگر ٹریفک تھا کہ چیونٹی کی مانند رینگ رہا تھا ۔پھر نہ جانے کیسے ؛ ایمبولنس کے سامنے ایک گلی سی بن گئی جس میں وہ منہ زور رُکے ہوئے پانی کی مانند برق رفتاری سے دوڑتی چلی گئی ۔ ( یہ بھی پڑھیں ہمیں بچاؤ! -محمد علم اللہ)
’’سرامرجنسی!‘‘ ——ڈاکٹربھارگو کے اسسٹنٹ نے اسے اطلاع دی۔
’’اففف۔۔۔ ایک اورامرجنسی، یونوان دِس وارڈ ہیزنٹ اسپیس ،سو!‘‘
’’سو۔۔۔!؟‘‘
’’ارے یار پھنکوادو کہیں باہر!‘‘ڈاکٹر بھارگوکا غصہ آسمان پر تھا۔
’’بٹ سر۔۔۔۔۔!‘‘
’’ناٹ ایٹ آل ،مسٹر ماتھر!۔۔۔۔بھوس۔۔۔۔۔‘‘گالی اس کے منہ میں ہی رہ گئی تھی۔ماتھر وارڈ کا دروازہ تیزی سے پیٹتا ہوا باہرنکل گیا۔
’’ڈاکٹر صاحب پلیز،میری حالت بہت بگڑرہی ہے ۔۔۔!‘‘بیڈ نمبر 26-کا پیشنٹ چلایا۔
’’سالے مرکیوں نہیں جاتے تم لوگ!میری جان کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟میں نے ہی تمھیں بیمار کیا ہے کیا؟‘‘ ڈاکٹر بھارگو جیسے پھٹ ہی پڑا۔’’لگتا ہے اب مجھے ہی اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا گھونٹنا پڑے گا یا تم میں سے کسی کا۔ سالا پندرہ دن سے لگاتار کام کررہا ہوں دیکھتے نہیں،بس اُن کو تو آرام چاہیے،میں گیا بھاڑمیں ۔۔۔‘‘وہ بڑبڑاتا رہا، وارڈ کے سارے مریض اس کے غضب ناک تیور دیکھ کر معصوم پرندوں کی مانند سہم گئے تھے۔کبھی کبھی وہ فضا میں مکے بھی لہرا رہاتھا۔
’’ مس نرگس !کم ٹو مائی کیبن!‘‘وارڈ نرس سے کہتا ہوا وہ وارڈ سے ملحقہ اپنے کیبن میں چلا گیا۔
’’یس سر!‘‘
’’یس سر کی بچی!تم سے کتنی بار کہا ہے کہ ان مریضوں کو زہر کا انجکشن دیتی رہو !’سلو پوائزن،یونو!‘انھیں نیند کے ڈوز دیتی رہو،کیا ہوجاتا ہے تمھیں؛اِف یو ڈونٹ کیئر ورک اینڈ مائی آرڈرس،آئی وِل ٹرانسفریو؛ انڈر اسٹینڈ!‘‘ ڈاکٹر بھارگو کا غصہ بڑھتا ہی جارہا تھا اور نرگس اس کے سامنے اس کبوتری کی مانند سہمی کھڑی تھی جس کے پرنوچ دیے گئے ہوں!نہ جانے کتنے ہی نمکین آنسو چہرے پر لگے میچنگ N-95ماسک کو ترکرگئے۔
’’گوناؤ!یہ ٹسوے بہانا چھوڑواور اپنا کام ڈھنگ سے کرو،اب مجھے کسی مریض کی آواز نہیں آنی چاہیے۔۔۔۔!‘‘ ڈاکٹر کچھ اور بھی کہتا رہا؛باقی باتیں نرس نے نہیں سنیں،وہ کسی مشین کی مانندکیبن سے نکل آئی۔ (یہ بھی پڑھیں سکھ کے موسم کا قاصد- صائمہ ذوالنور )
شہر کے سب سے بڑے اسپتال،جسے عرف عام میں ’میڈیکل‘کہا جاتا تھا ،کے وارڈ نمبر 5-سے لے کر 35 تک، ایسے مریضوں سے پُر تھے جو ایک ایسی بیماری سے متاثر تھے جسے پھیلتے ہی ’مہاماری‘یا ’عالمی وبا‘کا نام دے دیا گیا تھا۔اس کی علامات میں ’سانس سینے میں پھنسنا‘۔’سرتیزی سے بھڑکنا‘۔’زکام یا کھانسی کا بگڑجانا‘۔’نازک اعضا کا مفلوج ہوجانا‘۔’انگلیوں اور نسوں میں کھنچاؤ ساآجانا‘تھا۔اگر کسی میں یہ علامات یا ان میں سے کوئی ایک پائی جاتی تو اس کا ٹیسٹنگ لیب میں ٹسٹ ہوتاپھر اس کی رپورٹ’پازیٹیو‘یا’نگیٹیو‘کی صورت میں آتی۔اول الذکر رپورٹ کی صورت میں اسے داخل اسپتال کیا جاتا یا ہوم آئسولیشن کا مشورہ دیا جاتا۔یا پھر وینٹی لیٹرس پر باندھ کر اس کے منہ پر مصنوعی تنفس کے آلے چڑھادیے جاتے ، کارگر ویکسین نہ ہونے کے سبب اسے گلوکوزیا کچھ اسپیشل ٹیلبٹس ہی دیے جاتے ،جن سے وہ ریکور کرنے لگتا ، یادواؤں کی سختی اس کی جان لے جاتی۔
ڈاکٹرہریش بھارگو،ڈاکٹر اجے ماتھرسریواستو،نرس نرگس رابرٹ اورچند ایک وارڈبوائز وارڈ نمبر26-میں تعینات تھے۔آج انھیں مسلسل کام کرتے ہوئے پندرہ دن ہوگئے تھے،اس عرصے میں نہ تو وہ گھر گئے تھے اور نہ ہی کسی اہل خانہ سے ان کی بات ہوئی تھی۔مزید ایمرجنسی وارڈ میں مریضوں کی آہ وبکا،تھوک،بول وبراز اور دیگر کریہہ حرکتوں نے ان کی ناک میں ہی دم کردیا تھا۔تاہم کم درجے کا عملہ، کارِ مسیحائی سمجھ کر اپنے فرائض انجام دے رہا تھا لیکن ڈاکٹر بھارگو کا پارہ اکثر ہائی ہو جاتا تھا۔جس کے باعث پورے وارڈ اورآس پاس کے وارڈس کی فضا مکدر ہو جاتی تھی۔
’’سرایک اور مریض آیاہے،اس کا ٹسٹ پازیٹیو آیا ہے،بہت امیر ہے اور اپنے لیے اسپیشل بیڈ مانگ رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر اجے ماتھر نے کئی سانسوں میں یہ بات کہی تو خلاف توقع ڈاکٹر بھارگو ہنس پڑا۔پھر تو اس پر ہنسی کا دورا سا پڑگیا اور اس کی ہنسی بہ تدریج زہر خند قہقہوں میں تبدیل ہوگئی ۔
’’ہاہاہاہا۔۔۔۔کہتا ہے امیر ہے،اسپیشل بیڈ چاہیے اس کو۔۔۔۔ہاہاہاہا۔‘‘ڈاکٹر اپنے جسم پر اپنے ہی گھونسے برساتا ہوا قہقہے لگا رہا تھا۔کبھی بال نوچنے لگتا تو کبھی پیپر ویٹ ہاتھ میں لے گھمانے لگتا۔کبھی مٹھیاں بھینچ کر چوبی میز پرمارتا۔
’’اس سالے سے کہہ دو؛یہ اس کی سسرال نہیں ہے ،یہ اسپتال ہے اسپتال!ہاہاہاہا۔‘‘اچانک اس کے قہقہے رُک گئے،جیسے تیزجھکڑبڑے بڑے درختوں کو اکھاڑکر تھم گیا ہو۔اس کی آنکھیں اورچہرہ قہر ناک ہوگیا۔ ڈاکٹر ماتھر کی حالت کاٹو تو بدن میں خون نہیں جیسی تھی،اس کے اوسان خطا تھے ،بس آنکھیں تھیں کہ پھٹی ہوئی تھیں ۔
’’الوداع ساتھیو!‘‘آس پاس کے بہت سے لوگوں نے تھوڑی دیربعد ڈاکٹر بھارگو کے یہ الفاظ سنے اورپھرچیخوں میں شامل ایک آواز ’دھمم‘ سے آئی ڈاکٹر بھارگو نے خودکشی کرلی تھی،وہ اسپتال کی آٹھویں منزل سے کود پڑا تھا۔موقعے پر ہی اس کی موت واقع ہوگئی تھی ۔ یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ کوئی کچھ نہ کرسکا۔ ڈاکٹروں کی خودکشی کایہ آٹھواں واقعہ تھا۔ ایمبولینس وین پھر شورمچاتی جاگ اٹھی،اب کی بار اُس میں ڈاکٹر بھارگو کا مردہ جسم، اسپتال کے احاطے میں ہی واقع مارچری ہاؤس جارہا تھا۔
آج کے اخبارات اور محکمہ صحت و فیملی ویلفیئرکے اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میں اس مہاماری سے متاثرین کی تعداد 75,60,250ہوچکی تھی اور1,14,800افراداس کا لقمہ بن چکے تھے۔خودکشی،ڈپریشن،ایکسڈینٹ اور دیگر حادثات وامراض کے باعث مرنے والوں کی تعداد اس سے جدا تھی۔حکومتوں کی لاکھ تدابیر اور حکمت عملیوں کے باوجودگوڈایکٹ دنیابھر میں نافذ ہوچکا تھا اور انسانی ہاتھوںکے اکتسابا ت اس کی مدت بڑھاتے ہی جارہے تھے۔ اسپتال(سوِل سے لے کر قومی تک اورپرائیوٹ سے لے سرکاری تک)گوڈ ایکٹ کی زد میں آنے والوں کے علاج میں مصروف تھے۔باوجود اس کے،اس ’مہاماری‘ کا منہ زور گھوڑا کسی صورت رام ہوکے نہیں دیتا تھا،اسے جیسے ہی روکنے کے لیے مہار کھینچی جاتی؛وہ مزید برگشتہ ہوکر بھاگنے لگتا۔جس کے باعث انسانوں کی تشویش میں اضافہ ہوگیا تھا اورکارمسیحائی میں مصروف ڈاکٹرز، سرجیکل گاؤں، سرٹی فائڈ ماسک اور دیگر آلا ت تحفظ امراض کے باوجود اب حوصلے چھوڑرہے تھے۔ان کے چہروں سے تشویش آمیز فکرمندیاں عیاں تھیں اور آنکھو ں میں خوف کے ڈورے اترآتے تھے۔مریضوں کی چیخ وپکار،درد وتکلیف انھیں مزید ڈپریشن اور اضطراب میں مبتلا کردیتے،نتیجتاً وہ اس سے نجات کی خاطر اونچی منزلوں سے چھلانگ لگادیتے یا دوسرے دن اپنے کمروں میں گلے میں پھنداڈالے ملتے۔یا کسی کی لاش کسی سنسان سڑک کے کنارے جنگل میں ایسی حالت میں ملتی کہ آدم خورجانور اس سے چمٹے ہوئے ہوتے۔
’’ڈاکٹر ماتھر ! ——!‘‘
’’یس،مس نرگس!کیا بات ہے؟!‘‘ وہ اب کیبن ہولڈر بن گیاتھا،ڈاکٹر بھارگوکی میوزیکل چیئر، اب اس کے تصرف میں تھی۔
’’سر وہ بیڈ نمبر15-کا مریض پوچھ رہا ہے کیاہمارا علاج ہوجائے گا،کہیں ڈاکٹر ماتھر بھی توخودکشی۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’کیا بکتا ہے سالا!‘‘پہلی بار نرگس نے اس کے یہ تیور دیکھے تھے۔وہ دس سال سے سیکشن ڈاکٹر،جوائنٹ اور پھر اب اسسٹنٹ بن کر اسی وارڈ میں موجود تھا،کبھی نرگس نے اس کا ایسا سخت لہجہ نہ دیکھاتھا اور نہ ایسے خوں خوار تیور ہی۔
’’اس سے کہہ دو بکواس بند کرے ورنہ منہ توڑدوں گا اس کا اور اسے ہی اٹھا کے پھینک دو ںگا!‘‘
’’اور وہ عورت کیا بک رہی تھی کل؟!‘‘
’’جج۔۔۔جج۔۔۔جی۔۔!‘‘
’’بولنا !کیا ہوگیا تمھیں،بھین۔۔۔۔کُت۔۔۔‘‘اس نے گالیاں بکیں!
’’سرمجھے تو یاد نہیں ہے کچھ کب کہہ رہی۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’چلو !نکلو یہاں سے،گو ووو!‘‘ڈاکٹر ماتھر غصے سے پھٹ ہی پڑا۔’’ان سب حرام خوروں کو تو میں دیکھوں گا؛یہ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں،ان کی اوقات بتانی ہی پڑے گی۔۔۔۔‘‘وہ بڑبڑاتا ہی رہا اور کیبن کی دیوارو در، ان معدوم ہوتے الفاظ کی سوزش سے جلتے رہے۔
نرگس نے آج پہلی بار اپنے جونیئر سے اس کیفیت کا سامنا کیا؛جس کی اسے توقع نہ تھی۔مگر یہ اسی کا قصور تھا۔ کیوں کہ اب’ گوڈ ایکٹ ‘ہر جگہ ہر شخص پرلاگو ہوچکا تھا۔خود اس پر بھی۔ اس بے عزتی کے باعث اس کا دل اور من بہت اداس ہوا،یہ اداسی اپنی انتہا کی جانب بڑھتی ہی گئی۔دوسرے دن وہ خود وارڈمیں نہیں آئی؛اس کی خبر آئی۔
’’اوہ نو گوڈ !‘‘ڈاکٹر ماتھر نے یہ خبر سن کر اتنی زور سے گلاس ٹیبل پر گھونسادے مارا کہ شیشہ چھناکے سے ٹوٹ گیا اور ایک نوک دار کرِچی سے گٹے کے پاس کی رگ کٹ گئی،خون کی ایک گرم تیز پچکاری اس کے منہ پر پڑی پھروہ اس کے کپڑے سان گئی اس کے بعدتو پورافرش آلودہ ہونے لگا۔پورے وارڈ میں افراتفری مچ گئی ،وارڈ بوائز تشویش میں اِدھر سے اُدھرپھر نے لگے، جیسے کائنات کا بوجھ ان کے ہی کاندھوں پررکھ دیا گیا ہو۔
ایمبولینس وین کے سائرن پھر بج اٹھے،اب کی بار اس میں ڈاکٹر ماتھر تھا،ڈاکٹر اجے ماتھر سری واستو!صورت حال اس قدر ناگفتہ بھی تھی کہ اسےFirstAidدینے کا بھی کسی کو خیال نہ آیا۔’میڈیکل‘ کے احاطے ہی میں واقع اے ٹی ایل لے جاتے وقت اس کا اچھا خاصہ خون بہہ چکا تھا،جس کے باعث وہ ’لاج ‘کے صدر دروازے پر ہی دم توڑگیا۔’ گوڈ ایکٹ ‘ لا گو ہوچکا تھا۔
’ گوڈ ایکٹ ‘اسپتالوں ،محکمہ ہائے صحت میں ہی لاگو نہیں ہوا تھا بلکہ بزنس ٹاورز، ورلڈ ٹریڈ سینٹرس،فائنانشل انسٹی ٹیوٹس،پولٹیکل ہاؤسز، ہیومن سوسائٹیز،ایجوکیشنل کیمپس،ہر جگہ تھا ۔جس تجربہ گاہ میں فلسفے اورخیالات گڑھے جاتے، اس پر بھی تالے جڑے تھے اورجہاں نظریات کی ٹکسال نصب تھی، وہاں بھی ’لاک ڈاؤن‘ تھا۔ جو بھی اس کی خلاف ورزی کرتا،اس کا خمیازہ سخت اور عبرت ناک طریقے سے بھگتتا۔لہٰذا’ میڈیکل ورلڈ‘سے باہر کی دنیا میں بھی شرح اموات ،ٹینشن، ڈپریشن،ذات انسانی کی گمشدگی،بے چہرگی ،بے چینی،کرب، بے قراری سماجی تفریق کا گراف ہائی ہوتا جارہا تھا ۔دنیا نے لاک ڈاؤن بھی کرکے دیکھا،گھروں میں قید ہوکر بھی ،اسی طرح سوشل ڈیسٹنسنگ اورکچھ دیگر حربے بھی استعمال کیے،وکسین بھی تیار کرکے دیکھی، مگر ’ گوڈ ایکٹ ‘کے آگے اس کے سارے منصوبے، سارے گُر،سارے طریقے ناکام ہوتے چلے گئے ۔
عالمی سازش کامیاب ہوتی جارہی تھی ؛دنیا کا امن و سکون غارت کرنے والی بڑی طاقتیں اپنے مقاصد میں بامراد ہورہی تھیں۔ صدیوں اوردہائیوں سے متعین شدہ معیشت و تجارت برباد ہوتی جارہی تھیں،ساری دنیا میں افراتفری کا ماحول تھا۔کیوں کہ’ گوڈ ایکٹ ‘ نافذ ہوچکا تھا۔جس کی خلاف ورزی اور حدودکی پامالی کی سزا’ شدید‘ تھی ۔
وارڈ نمبر 26-کو سیل کردیاجائے!‘‘ایک دن ’میڈیکل ‘کے،ڈائریکٹرانج مہتا کے نام، وزارت صحت وفیملی ویلفیئر کے سیکریٹری کا نوٹس آیا۔’’کیوں کہ اس سے تین موتیں جڑی ہیں ؛ہمارے شاستروں کے انو سار،ایسے گھروں، ایسے کمروں اورایسے استھانوں کو بند(Seal) کردینا چاہیے،تاکہ وہاں کوئی نہ جاسکے،ورنہ اس پر براثر پڑے گا اور وہاں کی آتمائیں اسے بھی نگل جائیں گی۔۔۔۔۔!‘‘
’’اووہ شٹ!کیا مصیبت ہے؛میڈیکل میں پہلے ہی وارڈس کی کمی ہے اوراب یہ بکواس،ڈئیر سر اٹس21thسنچری اٹس ناٹ بھوت کال۔۔۔۔!‘‘ڈائریکٹر کی پیشانی پر پسینے کی موٹی موٹی بوندیںابھر آئیں،وہ اسی کیفیت میں ہاتھ ہلا ہلا کر خودکلامی کرتارہا۔اس کی باتیں بس گونگی بہری دیواریں ہی سن رہی تھیں۔
’’اوکے باس!‘‘کوئی چارہ نہ پاکر ڈائریکٹر بالآخرنے حکم کی تعمیل میں ہی نجات دیکھی اور ٹائپسٹ کو اپنے آفس میں بلانے کے لیے چپراسی کو گھنٹی بجاکر بلایا۔
’’یس سر!‘‘
’’ہونہہ!کیا بات ہے؟‘‘
’’سرآپ نے بلایا تھا!‘‘
’’میں نے؟نہیں تو!!‘‘
چپراسی کے چہرے پر بل پڑگئے مگر وہ حکم کا غلام کچھ نہ کہہ سکا ،چپ چاپ جانے لگاتوڈائریکٹر کی آواز نے اس کے قدم روک دیے۔
’’اچھا کس لیے بلایا تھا؟‘‘
’’سر یہ تو آپ ہی کو پتا ہوگا!‘‘
’’اچھا سالے دوکوڑی کا ہوکر زبان لڑاتاہے؛چل بھاگ یہاں سے!‘‘وزارت کے سکریٹری کا نوٹس، اب تک اس کے ہاتھ میں تھا۔
’’ارے ۔۔۔۔ارے رُکو!یاد آیا؛تم جاکر مس روشنی کو بھیج دو ،کچھ ٹائپ کروانا ہے۔‘‘
چپراسی کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔مگر ہائے ہائے مجبوری ولاچاری،یا نوکری!وہ گیا اور مس روشنی کو ڈائریکٹر آفس میں بھیج دیا جہاں ایک خونخوار انسان بیٹھا تھا۔
نوٹس ٹائپ ہوگیا تو اسے ایک اورچپراسی کے ذریعے متعلقہ وارڈ کے صدر دروازے پر آویزاں کردیاگیا اوراس کے اٹیچڈ لوک پرسیل دار کپڑا دھاگے سے باندھ دیا گیا۔اب اس وارڈ میں آوارہ ہوائیں ہی سائیں سائیں کرتی پھرتی تھیں یا کچھ موہوم آوازیں؛جیسے کچھ لوگ بے قراری و بے کیفی کے عالم میں چیخ پڑے ہوں،جیسے کچھ مصیبت زدہ دُہائیاں دے رہے ہوں۔ کبھی وہ آوازیں نسوانی ہوجاتیں اور کبھی بچوں کی سی،کبھی ایسی کہ جیسے تین چار بھالو ایک ساتھ چیخ پڑے ہوں،یا بندروں اور بلیوں میں معرکہ آرائی ہورہی ہو۔ یہ آوازیں وارڈ کی دیواریں اور اس میں پڑا فرنیچر ہی سنتا تھا،آدم یا آدم زاد تو وہاں پھٹکتابھی نہیں تھا۔کیوں کہ ’ گوڈ ایکٹ ‘نافذ ہوچکا تھا۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |