شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے مری بات’
"اور اسکی نشانیوں میں سے یہ ہیکہ اس نے تمہارے لیے تمہارے ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم انکے پاس سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (سورۃ الروم :۲۱)
ایک خاندان معاشرے کی اکائی ہوتا ہے ہے اور پورے معاشرے کی بہتری کا دارومدار خاندان کے خوشگوار ہونے پر ہوتا ہے ۔ خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت اور نشانی انسانی زوجیت کا رشتہ بھی ہے۔ مرد عورت دو مختلف صنف ہی نہیں بلکہ ان کے درمیان مزاجوں سوچوں اور نفسیات کا بھی بڑا فرق ہے ۔ اس حقیقت کو جو لوگ تسلیم کر لیتے ہیں ان کی زندگی سکون سے بھر جاتی ہے۔ اور خوشگوار انسانی زندگی سے نا صرف گھر والوں کو ہی سکون و قرار حاصل ہوتا ہے بلکہ پورا خاندان اور پورا معاشرہ سکون حاصل کرتا ہے۔
اب جاننا یہ ہیکہ زندگی کو کامیاب خوشگوار اور مستحکم کس طرح بنایا جائے اس کے لیے بالکل ابتدائی مرحلے سے خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے جب رشتے کا خیال آتا ہے تو لڑکے کے انتخاب کے بارے میں حدیث ہے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جب تمہارے یہاں کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن اور خوش ہو تو اس سے شادی کر دو اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں زبردست فتنہ پھیل جائے گا”
یعنی شوہر کے انتخاب میں اصل چیز دین اور اخلاق ہے لیکن موجودہ دور میں ہم دیکھتے ہیں لڑکی والوں کا رجحان مال و جائیداد، حسن وجمال خاندان اور برادری، وغیرہ کی طرف زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ زمین میں فتنہ و فساد اور شر پھیل گیا ہے۔ دینداری کو ترجیح نہ دینے کی وجہ سے بعض اوقات لڑکی والے عمر بھر پچھتاتے ہیں اور بعض مرتبہ لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔
حضرت سعید بن مُسَیب رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہمارے لیے نمونہ ہے جن کی بیٹی کے لیے خلیفہ عبد الملک نے اپنے شہزادے ولید کا پیغام بھیجا تو انھوں نے صاف انکار کر دیا اور ایک طالب علم جو بہت غریب تھا جس کی پہلی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا اس ابُو وِداعہ سے اپنی باصلاحیت خوبصورت، سلیقہ شعار اور پڑھی لکھی بیٹی کاجس سادگی سے نکاح کیا اور رخصتی کی وہ تاریخ میں ایک مثال ہے۔
لڑکی یعنی بیوی کے انتخاب سے متعلق چند احادیث ملتی ہیں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "نکاح کے لئے عورت کی چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ ۱-مال و دولت ۲- خاندان ۳-حسن و جمال ۴-دین داری
پس تم دیندار عورت حاصل کرو تمہارا بھلا ہوگا ”
ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ نہ تو حسن و جمال ہمیشہ باقی رہتا ہے نہ مال و دولت اور خاندانی شرافت کے بارے میں اس دور میں کوئی گارنٹی نہیں البتہ جو چیز زندگی کے آخری سانس تک کام آنے والی اور باقی رہنے والی ہے وہ عورت کے اخلاق و دینداری ہے ۔
مثال کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہو کے انتخاب سے بڑھ کر کوئی اور نمونہ کیا ہو سکتا ہے بھلا ، آپ کے بیٹے عاصم رضی اللہ عنہ کے لیے انہوں نے دودھ بیچنے والی عورت کی بیٹی کا انتخاب کیا جس کے ایک جملے سے انہوں نے تقویٰ اور دینداری کی جھلک پالی تھی۔ واقعہ پڑھنے اور سننے میں بڑا اچھا لگتا ہے لیکن غور کیا جائے تو عملاً اس کو کرکے دکھانا بہت بڑی بات ہے ۔
تقویٰ اور احسان یہ دو صفات رشتوں کی مضبوط بنیادیں ہیں جس نے ان دونوں بنیادوں پر اپنی زندگی کی عمارت کو استوار کیا وہ تاحیات اطمینان اور خوشی کے ساتھ اس عمارت کو بلندی تک اٹھاتا رہتا ہے۔ اسے خوش رہنے اور خوشیاں بانٹنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔
یہاں تقوی سے مراد زندگی میں ہر کام اللہ کی ناراضگی سے بچتے ہوئے کرنا اور اسکی مرضی کےمطابق بہتر طریقے سے زندگی گزارنا ہے۔ اور احسان یعنی کسی کو اس کے حق سے بڑھ کر دینا ہے اور یہی چیز رشتوں کو پائیدار اور مستحکم بناتی ہے ۔ (یہ بھی پڑھیں غزلیاتِ نازؔ قادری ذات سے کائنات کا سفر – پروفیسر قمر جہاں )
آج ہم میں سے ہر ایک صرف اور صرف اپنا حق جانتا ہے اور اسی کا مطالبہ کرتا ہے دوسروں کو انکے حق سے بڑھ کر دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ایک خوبصورت بات میں واضح کرتی چلوں کہ اللہ تعالی نے اکثر رشتوں اور حقوق کی ادائیگی کے لیے اِحساناً کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اتَّقُوا کا لفظ بھی ہے یعنی ڈرو اللہ سے
اگر آج ہم ان ہدایت پر عمل کریں تو ایک بہترین زندگی ، ایک خوشگوار خاندان اور ایک مثالی و مستحکم معاشرہ وجود میں آسکتا ہے بس اللہ پاک سے ڈرتے ہوئے کام کریں اور سامنے والے کو اس کے حق سے بڑھ کر دیں، عفوودرگزر کا معاملہ اپنالیں اپنا دل اور اپنا ظرف بڑا رکھیں۔ خوش اخلاقی ، نرمی، محبت، خلوص یہ تمام چیزیں رشتوں اور خاندان کو مضبوط بناتی ہیں ۔
مختصراً یہ کہ زندگی کو خوشگوار بناۓ رکھنے کے لیے ضروری ہیکہ اہل خانہ اپنے اپنے فرائض کا حقیقی شعور اور احساس رکھیں، اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے پورے خلوص اور دلسوزی سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔
آخری اور اہم بات یہ کہ قران و حدیث سے جو دعائیں ملتی ہیں(انبیاء کی دعائیں,اولاد کے لئے، والدین اور تمام اہل ایمان کے لئے)ان دعاؤں کا اہتمام کریں اور اپنے گھر والوں کو اللہ تعالی سے جوڑے رکھیں ۔ اور یہ یاد رہے کہ کسی بھی میدان میں کامیابی اللہ سے تعلق جوڑے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ اللہ پاک ہم تمام کو مثالی معاشرہ تشکیل دینے میں اپنا بھرپورکردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
ہاشمی ادیبہ مسکان
صدر یونٹ جی آئی او، اودگیر
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
ماشاءاللّٰہ …. ایسے ہی لکھتے رہیں۔? اللّٰہ پاک آپکو کامیابی عطا کرے۔ آمین