اُردو کی ادبی تاریخ میں نظیر اکبر آبادی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جسے جاننے اور سمجھنے کا دعوا ہر شخص کو ہوتا ہے لیکن اس کے مکمّل شاعرانہ طِلسم تک پہنچنے کی کوشش بہت تھوڑے لوگوں کے حِصّے میں آئی۔ یہ سلسلہ نظیر کی حیات ہی سے شروع ہوجاتا ہے اور کم و بیش آج تک جار ی ہے۔ انھیں لوگ چاہتے ہیں، ان کی قدر و قیمت پہچانتے ہیں لیکن چار پانچ خاص شاعرانہ صفات اور دس بیس منظومات کے دائرے سے نکلنے کا شوق نہ کسی عقیدت مند کو ہے اور نہ کسی تنقید نگار کی ترجیحات میں یہ بات شامل ہے۔ نظیر کی وفات کو بھی اب ۲۰۰؍برس ہونے کو آئے لیکن چند عقیدت مندوں کی تحریریں اور بعض نقّادوں کے مختصر مضامین کے ماسوا تفصیلی تنقیدی مطالعات کا نظیر کے سلسلے سے فقدان یہ بتاتا ہے کہ اس شاعر سے ہم نے محبّت اور عقیدت تو روا رکھی لیکن اس کے شعری سرماے پر علمی طور سے بھرپور توجّہ دینے میں ہم نے کوتاہ نظری کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے نظیر شناسی کے نئے ابواب روشن نہیں ہو رہے ہیں اور گذشتہ ایک سو برس کی تنقید میں کچھ خاص باتیں بار بار دہرانے پر ہی قدر شناسی کا مدار قائم ہو کر رہ گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نظیر اکبر آبادی کی شاعری اور شخصیت اب بھی ایک پہیلی کی طرح ہی ہے جس پر غور و فکر کرکے نئے نئے زاویہ ہاے نظر سے دیکھنے، سمجھنے اور اُسے علمی طور پر پرکھنے کی ضرورت باقی ہے۔
نظیر اکبر آبادی یوں تو اشرافیہ طبقے ہی سے تعلّق رکھتے تھے لیکن ان کا پیشہ اس عہد کے مسلّمات کے اعتبار سے غیر اشرافیہ تھا۔ جاگیردارانہ عہد اور بادشاہت کے زیرِ اثر جو سماج قائم ہوا، اس میں ایک معلّم کی بڑی حیثیت ممکن نہیں تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ نظیر اکبرا ٓبادی نے اپنا ادبی طَور کچھ اس طرح قائم کیا کہ شرفا کی نگاہ میں وہ بھانٹ، مبتذل اور سوقیانہ پن کی فردِ جرم سے محفوظ نہ رہ سکے۔ تذکرہ نویسوں کی ایک طویل فہرست ہے جب اٹھارویں انیسویں صدی میں یا تو نظیر قابلِ ذکر نہیں مانے گئے یا انھیں ایک فضول قسم کے ادبی کردار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ تعصّب اور ناانصافی کا یہ سلسلہ ’آبِ حیات‘ اور ’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کے عہد تک جاپہنچتا ہے۔
نظیر نے اپنی شاعری کا نفسِ مضموں اور اسلوبِ بیان دونوں کچھ اس طرح سے گڑھے جس سے اردو کے مسلّمہ ادبی رویّے سے اس کا تطابق قائم ہونا مشکل تھا۔ نظیر اپنے راستے پر چلتے رہے اور ان کا عہد اور بعد کی کم از کم ایک صدی اُن سے بے پروا ہوکر اپنے رنگ پر قائم رہی۔ یہ بے پروائی رفتہ رفتہ بے خبری تک پہنچ گئی لیکن کوئی بڑی شاعری آسانی سے دفن نہیں کی جاسکتی۔ وہ خود رَوپودے کی طرح اپنے پڑھنے والوں سے داد و تحسین حاصل کرنے کے لیے مواقع تلاش کر ہی لیتی ہے۔ نظیر نے بھی سو ڈیڑھ سو برس کی بے اعتنائی کے بعد اپنا ایک حلقۂ اثر پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اس میں بہ تدریج استواری آئی۔ (یہ بھی پڑھیں اُردونظم میں نامیاتی وحدت ایک مطالعہ – عمیر یاسر شاہی )
نظیر شناسی کے بعض بنیادی مفاہیم کی شناخت کرنے کے دوران ایک ایسی بھی صورت سامنے آئی کہ نظیر ہندستانی کلچر کے نمایندہ ہوئے اور اس سے بڑھ کر یہ بتانے کی کوشش ہوئی کہ نظیر جمہوری اقدار کے مبلّغ ہیں ۔ یہ باتیں بیش قیمت تو تھیں اور ان کی بدولت نظیر اکبر آبادی کی شاعرانہ حیثیت مستحکم ہوتی تھی مگر نظیر اکبر آبادی کے سلسلے کی ادبی تنقید کے یہ ایسے مستقل موضوعات بنے جن کے باہر کی دنیا کی سیر ہماری تنقید کم وبیش نہیں کے برابر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ نظیر اکبر آبادی کے تعلّق سے یہ ایک الگ طرح کا ستم تھا ۔ نظیر اکبر آبادی کا مجموعی سرمایہ کم نہیں ہے اور حشو و زوائد یا مکرّرات کو نکال کر ایک سخت انتخاب کریں تو بھی نظیر اکبر آبادی کا منتخب کلام اپنے معیار، ادبی نوعیت اور موضوعاتی و اسلوبیاتی نیرنگیوں میں کسی بھی بڑے شاعر سے ہیچ نہیں ہو سکتا ۔ایسی صورتِ حال میں ان کے ادبی سرماے کو ایک بندھے ٹکے چوکھٹے میں رکھ کر دیکھنا اور اس سے نظیر اکبر آبادی کی زندگی اور شاعرانہ مرتبے کے تعیّن میں کوتاہی کرنا واقعتا بے انصافی کی بات ہے
نظیر اکبر آبادی اگر جمہوری قدروں کے نمایندہ ہیں تو کیا اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ جمہوریت کے باب میں نظیر کے تصوّرات کا پتا لگایا جائے؟ہمیں معلوم ہے کہ نظیر اکبر آبادی جمہوریت کے موجودہ سیاسی اور یوروپی تصّورات سے یکسر ناآشنا تھے ۔ آج جس اعتبار سے ہم جمہوریت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ،ان خصائص سے نظیر کے شعری سرماے کی مناسبت اور مطابقت بٹھانے کے مرحلے میں یہ نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں کہ موجودہ جمہوری تقاضے اور سماجی اقدار نظیر کے یہاں پہلے سے موجود ہیں ۔ہمارے لیے سب سے موزوں تو یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ نظیر کے شعری کردار کی بنیادی صفات جسے ہم عہدِ حاضر کی اصطلاح میں جمہوریت کہتے ہیں ،اس کے حقیقی عناصر کیا ہیں ؟وہ جاگیردارانہ معاشرے میں رہتے ہوئے اس سماج کی تہذیبی ،علمی اور عمومی اقدار سے کہاں کہاں گریز کرتے ہیں اور کس حد تک وہ اختلاف کا رویّہ اپناتے ہیں ،اسے جانچے پرکھے بغیر نظیر اکبر آبادی کے شعری مزاج کو سمجھنا ممکن نہیں۔ (یہ بھی پڑھیں جدید اردو نظم میں ماحولیاتی عناصر – سمیہ محمدی )
نظیر روایت شکن تو ہیں ہی ، اس میں کوئی حجّت کی ضرورت نہیں۔ اس موضوع پر تفصیل سے غور کرنے سے پہلے کیا یہ لازم نہیں کہ وہ اپنی ادبی اور سماجی روایت سے کون سی اقدار اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھتے ہیں ،اسے بھی بہ غور دیکھ سمجھ لیا جائے ۔یوں بھی نظیر معلّم پیشہ تھے ۔کوئی معلّم ذہن سے لاکھ انقلابی ہو لیکن اس کے فرائض کچھ اس انداز کے ہوتے ہیں جس سے اس میں ایک بنیادی صفت لازمی طور پر موجود ہوتی ہے کہ وہ روایت پرست کے انداز کا روایت آشنا ہوجاتا ہے ۔وہ کسی بھی شَے کو پہلے سے بندھے ٹکے چوکھٹے میں پہچاننے کی کوشش کرے گا اورپھر اگر اس کے ذہن کا سانچا تجرباتی ہے تو وہ روایت کے بند دروازوں کے قفل توڑے گا ۔نظیر اکبر آبادی کی ساری انقلاب آفرینیاں اپنی جگہ لیکن وہ سماج اور ادب کے مسلّمہ آداب سے ابتداً بے پروا نہیں ہوتے ۔زمانے کی رسم کے مطابق انھوں نے فارسی میں بھی شعر کہے۔ہر روایتی صنف میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھا۔ نظموں کی جتنی ہیئتیں ہو سکتی ہیں، انھیں آزمایا لیکن غزل کی صنف سے بھی بے اعتنائی برتنے کی کوئی ضد انھوں نے بعد کے بعض نظم گو شعرا کی طرح قائم نہیں کی۔
نظیر اکبر آبادی کے موضوعات کی روایتی جہت پر غور کریں تو کئی ایسی باتیں سامنے آتی ہیںجنھیں اُن کی روایت پرستی کے ثبوت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ حمد، نعت، منقبت اور مناجات کے شعبے میں ان کادخل ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ تصّوف ان کے لیے زندگی اور کاینات کو سمجھنے کا ایک کارآمد ذریعہ ہے ۔بے ثباتیِ دنیا کے مضمون کی گردان تو نظیر کے یہاں اس طرح سے ہے جیسے ان کی ہر شعری تخلیق کا یہ کوئی مرکزہ ہو۔اقدار کی شکست و ریخت کا پُر سوز بیان بھی کم و بیش ان کے عہد کی روایت میں شامل ہے ۔ نظیر اکبر آبادی نے ایک بہترین روایت آشنا کی حیثیت سے اپنی کار کردگی پیش کی اور فنّی اور موضوعاتی دونوں سطح پر اپنی روایت کی بنیادی چیزوں کو سمیٹنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ انھوں نے اپنی شاعری کی عمارت قائم کرتے ہوئے خود کو بہترین روایت آشنا ثابت کیا اور اپنے ادب کی بنیادیں مستحکم بنانے کے لیے روایت کا ہوش مندانہ استعمال کیا۔
یہ صحیح ہے کہ نظیر اکبر آبادی روایت آشنا اور روایت آگاہ فنکار ہیں ۔ لیکن اردو کی ادبی تاریخ میں وہ ادبی اور سماجی مسلّمات پر ضرب لگانے والے بُت شکن کے طور پر زیادہ بااثر دکھائی دیتے ہیں ۔وہ مذہبی اور سماجی بنیادوں پر نئے سرے سے غور و فکر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان کے کلّیات میں مذہبی مواقع سے لکھی گئیں نظموں کی بہتات صرف تہواروں کے سلسلے سے نہیں بلکہ حمد، نعت کے ساتھ ساتھ عرس،میلے وغیرہ ہر موقعے کی تخلیقات موجود ہیں ۔ وہ گرو نانک اور بلدیو جی کے میلے سے بھی بے خبر نہیں ہیں ۔مذہبی اقدار اور درس کو بھی شعر کا حصّہ بناتے ہیں لیکن ان مواقع سے وہ ہر بار کوئی غیر مذہبی یا غیر سکّہ بند صورتِ حال معلوم کر لیتے ہیں ۔ایسی نظموں میں ان چیزوں کی پیش کش انھیں مطالب کی روایتی تفہیم سے تو الگ کرتی ہی ہیں، ساتھ ہی ہمیں یہاںیہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ نظیر اکبر آبادی کا مزاج واضح طور پر اپنے عہد اور بعد کے دوسرے شعرا سے بالکل مختلف ہے ۔ (یہ بھی پڑھیں کوثر مظہری کی نظمیہ شاعری میں رات کا تصور – ڈاکٹر نوشاد منظر )
نظیر کو اُن کی روایت آ شنائی کی نہ ان کے عہد میں داد ملی اور نہ آج تک کوئی نقّاد اس سلسلے میں انھیں نمایندہ تسلیم کرتا ہے ۔جہاں جہاں انھوں نے اپنی شاعری میں روایتی گُر آزمائے، وہاں بھی مضمون یا اسلوب میں کچھ ایسی غیر روایتی شان پیدا کر دی جس سے صورت یکسر بدل جاتی ہے ۔اب اسے روایت سے انحراف کہیں یا روایت کی توسیع لیکن کم سے کم روایت پرستی تو نہیں ہی کہہ سکتے ۔ نظیر کی روایت شناسی اور روایت سے انحراف کو سمجھنے کے لیے اُن کے لسانی نظام پر ذرا بعد میں غور کریں گے لیکن ان کے مخصوص موضوعات اور ان کے دائرے میں اُن کے اشعار کی جانچ پرکھ سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح روایت کو سلجھی ہوئی بغاوت میں خوش اسلوبی سے بدل دیتے ہیں ۔
بے ثباتیِ دنیا ہر زبان کی شاعری اور فکر و فلسفہ کا موضوع رہی ہے ۔نظیر اکبر آبادی نے خاص طو ر سے اسے اپنی درجنوں نظموں میں طرح طرح سے مرکزِ گفتگو بنایا۔ وہ صبر کی تلقین ،جبرِ مشیت اور دنیا کی لاحاصلی کو بار بار موضوع بناتے ہیں ۔اس سلسلے سے ان کے یہاں ضرب ا لمثل اشعار اور مصرعے بھرے پڑے ہیں۔ چند ملاحظہ ہوں :
دنیا میں اپنا جی کوئی بہلا کے مر گیا
دل تنگیوں سے اور کوئی اُکتا کے مر گیا
عاقل تھا وہ، تو آپ کو سمجھا کے مر گیا
بے عقل چھاتی پیٹ کے گھبرا کے مر گیا
دُکھ پا کے مر گیا ،کوئی سکھ پاکے مر گیا
جیتا رہا نہ کوئی ہر اک آ کے مر گیا
جب آئی اجل، پھر نہ چلی میری نہ تیری
آخر کو جو دیکھا تو ہوئے خاک کی ڈھیری
(عالمِ گُزر اں)
جس دم قضا پکاری اب اُٹھ چلو میاں جی
پھر شیخ جی نہ سیّد، مرزا رہے نہ خاں جی
(فنا نامہ)
تن سوکھا کبڑی پیٹھ ہوئی ،گھوڑے پر زین دھرو بابا
اب موت نقارہ باج چکا، چلنے کی فکر کرو بابا
(فقیروں کی صدا)
نہ عیش نہ دکھ درد نہ آرام رہے گا
آخر وہی اللہ کا اک نام رہے گا
(رہے نام اللہ کا)
سب جیتے جی کے جھگڑے ہیں ،سچ پوچھو تو کیا خاک ہوئے
جب موت سے آکر کام پڑا سب قصّے قضیے پاک ہوئے
(فنا۔۱)
نہ یہ چہلیں نہ یہ دھومیں،نہ یہ چرچے بہم ہوں گے
میاں اک دن وہ آوے گا، نہ تم ہوگے نہ ہم ہوںگے
(تنبیہہ الغافلین)
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں ،انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اُس ہاتھ ملے، یاں سودا دست بہ دستی ہے
(دنیا کی نیکی بدی)
غل، شور، ببولا، آگ، ہوا اور کیچڑ، پانی، مٹّی ہے
ہم دیکھ چکے اس دنیا کو ؛یہ دھوکے کی سی ٹٹّی ہے
(دنیا دھوکے کی ٹٹّی ہے)
کلجگ نہیں، کرجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے
کیاخوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے
(کلجگ؍ دنیا دارالمکافات ہے)
جو خاک سے بنا ہے ،وہ آخر کو خاک ہے (فنا۔۲)
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا ، جب لاد چلے گا بنجارہ (بنجارہ نامہ )
ان مثالوں سے نظیر کا وہ چہرہ اُبھرتا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شخص کاینات کی رنگینیوں سے دور کسی گوشۂ عافیت کا طلب گار ہے۔دنیا کی فنا پذیری اور انسان کی بے بسی پر ماتم کناں ہے ۔ یہ مضامین حقیقی بھی ہیں اور مذہب اور فلسفے کی کوکھ کے زائیدہ ہیں۔’کُلّ نفسٍ ذائقتہ الموت‘ اور’ اِنَّا لِلّلہ ِ و اِناَّ الیہِ راجِعون‘ کے حقائق کو طرح طرح کی مثالوں سے نظیر نے آئینہ کیا ہے لیکن نظیر کے شعری مزاج کی دوسری جہت متوازی طور پر اُبھر کر سامنے آ جاتی ہے ۔روایت کے نئے زاویوں کے طلب گار نظیر اس فنا پذیری کی دوسری کیفیت کا بیان کچھ اس طرح سے کرتے ہیں :
کھول ٹک چشمِ تماشا یار باشے پھر کہاں
یہ شکار و صید ،یہ شکرے و باشے پھر کہاں
مال و دولت سونا رو پا تولا ماشے پھر کہاں
دم غنیمت ہے بھلا، یہ بود و باشے پھر کہاں
دیکھ لے دنیاکو غافل، یہ تماشے پھر کہاں
دیکھ ٹک غافل چمن میں گلفشانی پھر کہاں
یہ بہارِ عیش، یہ شورِ جوانی پھر کہاں
ساقی و مطرب شرابِ ارغوانی پھر کہاں
عیش کر خوباں میں اے دل، شادمانی پھر کہاں
شادمانی گر ہوئی تو زندگانی پھر کہاں
آج تجھ کو حق نے دی ہے حسن و خوبی کی بہار
چاہنے والوں سے کر لے کچھ سلوک و مہر و پیار
کوندنا بجلی کا اور جوبَن کا مت گِن اعتبار
کاٹھ کی ہانڈی نہیں چڑھتی ہے پیارے بار بار
مان لے کہنا مرا، اے جان! ہنس لے، بول لے
حسن یہ دو دن کا ہے مہمان، ہنس لے بول لے
اردو شاعری کی تاریخ میں نظیر اکبر آبادی کا یہ مخصوص رنگ ہے۔ فنا پذیری کے موضوع سے ہی زندگی کے دو متضاد رنگ یہاں اُبھر آئے ہیں۔ایک طرف دنیا کو چھوڑنا اور دوسری طرف ایسی لذّت کوشی۔ کہاں دنیا دھوکے کی ٹٹّی ہے اور کہاں دنیا کا ایک لمحہ بھی غنیمت ہے، اسے بھر پور طریقے سے جی لینا چاہیے۔ نظیر تو یہ بھی کہتے ہیں :
واعظ و ناصح بکیں تو اُن کے کہنے کو نہ مان
دم غنیمت ہے میاں یہ نوجوانی پھر کہاں
زندگی سے بھاگنا اور زندگی کو حاصل کرنا نظیر کو ہر آن چاہیے ۔ پانے کی خواہش میں بھی وہی زور ہے اور کھونے کی حسرت کی شدّت بھی وہی ہے ۔ نظیر اکبر آبادی کے شعری مزاج کا یہ وہ طلسم ہے جو پھیل کر اپنی اثر انگیزی سے نظیر اکبر آبادی کی اُس شخصیت کو اُبھارتا ہے جس نے ایک عالم کو اُن کا گر ویدہ بنا رکھا ہے ۔یہاں ’سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے‘ کی کیفیت ہے کیونکہ یہ جادو ایک ہی زندگی کے سلسلے سے ہے ۔ایک ہی لمحے میں دونوں صورتیں اور دونوں کیفیتیں ابھرتی ہیں ۔یہاںبہ قولِ غالب ’ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے ‘کا انداز ہے۔غور کرنے سے اندازہ ہو تا ہے کہ نظیر حیات اور موت، خوشی اور غم، پانا اور کھونا جیسی متضاد صورتوں کو سلسلۂ زندگی سمجھتے ہیں، اس لیے بیان میں عمومی ارتقا کا انداز قائم رہتا ہے۔کوئی دوسرا شاعر ہو تو ان کیفیات کے لیے اندھیرے اور اجالے کا بُعد ابھار کر رکھ دے لیکن نظیر زندگی کی متوازی اور لازمی کیفیتوں کی طرح دونوں لذّتوں سے بہرہ ور ہونا چاہتے ہیں ۔نظیر اکبر آبادی اس لیے بھی ہمیں محترم ہیں کیوںکہ دو مخالف رویّوں کو زندگی کے ایک سلسلے میں پرو کر رکھنے میں ان کی مہارت سامنے آتی ہے ۔
نظیر اکبر آبادی نے اپنا جو شعری کردار وضع کیا ، اس میں زندگی کو یا قدرت کو تضادات میں پہچاننے کی ایک عجیب و غریب کوشش دکھائی دیتی ہے۔اسی صفت سے نظیر نے انسانی زندگی کے وہ سب مظاہر بھی اپنی شاعری میں سمیٹنے میں کامیابی حاصل کی جنھیں عام طور سے دوسرے شعرا ایک ساتھ پیش نہیں کر سکتے ۔زندگی کو اس کی صد فی صد سچّائیوں کے ساتھ پہچاننا اور حسبِ ضرورت اس کا اظہار کرنا عام دل گردے کی بات نہیں۔ نظیر نے زندگی کی پیش کش میں کیسی حقیقت نگاری کا مظاہرہ کیاہے،اسے اِن اشعار میںملاحظہ کیجیے :
د ل خوشامد سے ہر اک شخص کا کیا راضی ہے
آدمی ،جنّ و پری، بھوت بَلا راضی ہے
بھائی فرزند بھی خوش ،باپ چچا راضی ہے
شاہ مسرور، غنی شاد، گدا راضی ہے
جو خوشامد کرے، خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے (خوشامد(
سینکڑوں رنگ رنگ کی چھڑیاں
پھول گیندوں کے ہار کی لڑیاں
کہیں چھوٹیں انار، پھُل جھڑیاں
کہیں کھُلتی ہیں دِل کی گل جھڑیاں
کہیں اُلفت سے انکھڑیاں لڑیاں
کہیں باہیں گلے میں ہیں پڑیاں
عیش و عشرت کی لُٹ رہی دَھڑیاں
دال موٹھیں، منگوچھی اور بڑیاں
رنگ ہے، رُوپ ہے، جھمیلا ہے
زور بلدیو جی کا میلا ہے (بلدیو جی کا میلا)
پڑھتے ہیں اب قرآن جو مُردوں کا لے کے نام
پھولوں میں بیٹھ، کرتے ہیں پنج آیتیں تمام
دوزخ میں یا بہشت میں، مُردے کا ہو مقام
کُچھ ہو، پر اُن کو حلوے و مانڈے سے اپنے کام
خوش ہوگئے، جب اُن کو مِلا پیٹ کے لیے (پیٹ کی فلاسفی)
اِن مثالوں سے اس بات کے ثبوت فراہم ہوتے ہیں کہ نظیرؔ مذہبی امور میں بھی صرف عقیدت مندانہ انداز میں تمام چیزوں کو نہیں دیکھتے۔ حقائق کے بیان میں نظیرؔ کا مطمحِ نظر مذہب یا تہذیبی مواقع کے سلسلے سے کوئی تنقید و تبصرے سے مملو نہیں ہے۔ نظیرؔ کو عوامی زندگی میں جو امور نظر آرہے ہیں، ان کی تصویر کشی کرنی ہے۔ اس لیے وہ بہت سادگی سے مظاہِرِ انسانی کی جلوہ سامانیاں بکھیرنے کے دوران اپنی تیسری آنکھ کا استعمال کرتے ہوئے کوئی ایسی انوکھی بات ضرور کہہ گزرتے ہیں جس سے اُن کے ذہن کی وسعت اور معروضیت کا پتا چل جاتا ہے۔
نظیر کو سب نے عوامی شاعر کہا۔ کیا نظیرؔ کے شاعرانہ بیان کو عوام کے لیے مخصوص کردینے سے نظیرؔ کی شاعری کا مطالعہ زیادہ بھرپور طریقے سے کیا جاسکتا ہے؟ محمد تقی میر کو بھی اُن کے عہد میں کسی گوشے سے اسی ادبی محاورے میں سمیٹنے کی کوشش ہوئی ہوگی لیکن میرؔ نے بہ طورِ اعتراض یہ شعر کہا تھا:
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
اِس شعر کو عام طور پر میرؔ کے عوام الناس کے لیے شعر کہنے کے معنوںمیں رکھ کر سمجھنے کی ایک روایت رہی ہے لیکن اس سلسلے سے قاضی عبدالودود کی بحث کو نظر میں رکھیں تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ میرؔ اپنے عہد سے شاکی ہیں کیوںکہ وہ خواص سے گفتگو کرنا چاہتے تھے لیکن بُرا ہو زمانے کا جس کے سبب وہ عام لوگوں کے بیچ شعر و سخن میں مبتلا ہوئے۔ نظیرؔ اکبر آبادی کا ذہن خواص سے ذرا مختلف تھا اور مدرّس پیشگی نے ان کے لیے یہ موقع بھی نہیں رکھا کہ وہ صرف خواص کو موضوعِ گفتگو بنائیں یا صرف خواص کو مخاطب کرکے اپنی زندگی گزار لیں۔ میرؔ کے سلسلے سے’ آبِ حیات‘ کا وہ قصّہ ہمیں معلوم ہے کہ جب لکھنؤ میں نواب صاحب نے ان کی طبیعت کی سَیری کے لیے کوٹھی کی کھڑکیوں سے لگے باغ کا انتظام کر دیا تھا۔ایک مدّت کے بعد جب نواب صاحب کے ایک دوست نے دریافت کیا کہ باغ کی طرف توجہ کی یا نہیں تو میرؔ نے اپنے پھٹے پُرانے مسوّدات کی طرف اشارہ کرکے بہ قولِ محمد حسین آزاد کہا: ’’میں تو اِس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اُس باغ کی خبر بھی نہیں‘‘۔ محمد حسین آزاد نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’انھوںنے (یعنی میر نے)دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا۔‘‘
نظیرؔ اکبر آبادی کا یہ مزاج نہیں تھا۔ دونوں ہم عصر تھے اور کم وبیش ۷۰ برس دونوںنے ایک عہد میں گزارے لیکن میرؔ نے دنیا کے باغ کی طرف نگاہ نہ کی۔ اس کے برعکس نظیرؔ اکبرآبادی باغِ عالم کے ایک ایک ذرّے کو اپنے تجربے میں سمیٹتے ہوئے کچھ اس طرح سے زندگی بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں جیسے شاعری کچھ الگ شَے نہیں بلکہ دنیا کی بھیڑ اور تماشے میں گزران کا ایک خاص ڈھب ہے۔ اپنے وقت اور اس کے مظاہر کے عام و خاص جلوئوں کی تفصیل اور ان پر چلتے پھرتے تبصرے بھی ہوجائیں، یہی نظیرؔ اکبر آبادی کی شاعرانہ شخصیت کا مخصوص دائرۂ کار ہے۔ ہماری زبان کی یہ عجیب و غریب طاقت ہے کہ ایک ہی عہد کے دو شعرا جن کی عظمت کا ایک عالَم قائل ہے، وہ مزاج سے کتنے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ میرؔ نے اپنے عہد کی اور اس کے انسانوں کی زندگی سے کوئی بے اعتنائی نہیں برتی تھی لیکن زندگی کو سمجھنے کا ان کا نقطۂ نظر آزمودہ اصطلاح میں کہیں تو داخلی تھا لیکن نظیرؔ عرفِ عام میں خارجی مظاہر کے بڑے سیّاح ہیں۔ دونوں نے طویل عمر پائی اور بھرپور ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا۔ ادب کی تاریخ کے طالبِ علم کی حیثیت سے دونوں کی شاعری ایک ساتھ پڑھیے تو اٹھار ویں صدی کی ایک ایک سانس اور دھڑکن لفظ و بیان میں سمٹ آتی ہے لیکن زندگی کے دو متضاد رنگ اور نظریے یہاں سامنے آتے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں اردو میں شہر آشوب: فن اور روایت – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
نظیرؔ کی فکر کی بنیادی کلید اُن کے تصوّرِ انسان میںپنہاں ہے جس کی صراحت نظم ’آدمی نامہ‘ میں خاص طور پر اوران کی دیگر نظموں میں بالعموم موجود ہے۔ مجتبیٰ حسین نے اپنے خاکوں کے مجموعے ’آدمی نامہ‘ کا تعارف کراتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ اس کتاب کا نام تو دو سو برس پرانی نظم سے مستعار ہے لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اتنا وقت گزرنے کے باوجودانسان کا مقام و مرتبہ نہ بڑھا اور نہ بدلا۔نظم ’آدمی نامہ‘ میں جمیعتِ انسانی کا کون سا کردارہے جسے نظیر نے پہچاننے کی کوشش نہ کی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظیر کے پاس ایک نجی پیمانہ ٔ نقد ہے جس سے وہ ہر آدمی کے ان بنیادی اوصاف تک پہنچ سکتے ہیں جن سے اسے پہچانا جاسکے۔ اس اعتبار سے ’آدمی نامہ‘ کو جمہوریت کا ایک مکمّل آئین کہنا چاہیے۔ مفلسی، کوڑی نامہ، پیسا نامہ، تلاشِ زر، پیسا، روپیہ، روٹیاں، چپاتی نامہ، پیٹ کی فلاسفی، آٹا دال جیسی نظمیں انسانوں کو معیشت کے حوالے سے سمجھنے کی چشم کُشا کوششیں ہیں۔ دنیا کے سلسلے سے بھی نظیر اکبر آبادی کے یہاں بہت ساری نظمیں موجود ہیں—- دنیا، جواہر خانۂ دنیا، دنیا کے عیش و عشرت، دنیا کی نیکی بدی، دنیا دھوکے کی ٹٹّی ہے، دنیا کے مکرودغا، دنیا دار المکافات ہے، دنیا بھی کیا تماشا ہے جیسی نظمیں بھی یہ واضح کرتی ہیں کہ نظیر کی شاعری انسان اور انسانیت کا واضح اعلان نامہ ہیں۔
نظیر کی عاشقانہ نظموں پر گفتگو کرتے ہوئے کلیم الدین احمد نے یہ واضح کیا ہے کہ نظیر عشق و عاشقی اور تماش بینی کی جملہ کیفیتوں سے واقف ہیں۔ انھوںنے یہ بھی لکھا ہے کہ عاشقانہ کیفیات کے بیان سے بوے صداقت آتی ہے۔ انھوں نے اپنے مطالعے میں نظیرؔ کی عشقیہ شاعری کی کلیدی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے سے نظیر کے تین مصرعے ملاحظہ ہوں جو الگ الگ نظموں سے ماخوذ ہیں:
٭ ٹُک دیکھ لیا، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے
٭ یار بغل سے اٹھا گیا، جی ہی کی جی میں رہ گئی
٭ جب عین مزے کا وقت ہوا، جب کھل گئی آنکھ میری پٹ سے
عشق و عاشقی کی کیفیات کے بیان میں لذّت انگیزی کے ساتھ محرومی اور حسرت سنجی کی کیفیات بھی حقیقت میں محرومیِ جمہور کا ثبوت ہیں۔ نظیرؔ کو معلوم ہے کہ زندگی کے مزے اور لطف و عنایات سب کو کہاں سے مل پائیںگے؟ اس لیے انھوں نے اپنی عاشقانہ شاعری کا مدار محرومیوں پر رکھا۔ حالاںکہ اسی کے ساتھ جگہ جگہ بوالہوسی کی تازہ اور شگفتہ کیفیات کا بیان خاصی مقدار میں موجود ہے جس سے تہذیب اور شرافت کو پسینہ آجائے۔ جاگیردارانہ ماحول میں نظیر کو یہ معلوم تھا کہ عام آدمی کی زندگی میں اتنی فراغت کہاں سے ملنے والی ہے کہ وہ اپنی دلی کیفیات کا بیان کرسکے۔ اسی لیے انھوںنے عاشقی کا ذائقہ تو ضرور پیشِ نظر رکھا لیکن بار بار محرومی اور عدم سیرابی جیسے موضوعات پر ارتکاز قائم رکھنے سے گریز نہ کیا۔اس سے حقیقی عوامی صورتِ حال کی عکّاسی ہوگئی۔
نظیرؔ موسم اور تہواروں کا ذکر ایک عجب دیوانگی کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ موسم اور تہوار کسی ایک مذہب یا قومیت سے متعلّق نہیں ہیں۔ پیر، فقیر اور سنتوں کے آستانوں کے سلسلے سے بھی نظیر کے یہاں خاصی تعداد میں نظمیں موجود ہیں۔ بھیڑ، تماشا اور جشن کا ماحول ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاںہولی کی بہار بھی ہے اور برسات کی بھی بہار یںہیں۔ جاڑے میں بھی بہار کی کیفیت ہے۔ یہ مواقع اکثر و بیش تر قدرت کی طرف سے عطا کردہ ہیں۔یہاں نظیر اکبر آبادی خواص سے الگ عوام کے نمایندہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ قابلِ غور بات ہے کہ نظیر ہر موقعے سے جشن و طرب میں ڈوبے ہوئے کیوں معلوم ہوتے ہیں؟ عشق و عاشقی سے لے کر موسم اور مذہبی مواقع تک ہر بار وہ ذاتی اور نجی امر کے مقابلے عمومی صورت پر زیادہ مستعد اور کاربند دکھائی دیتے ہیں۔ کیا اسے نظیر کے مزاج کی جمہوری شان نہیں کہا جائے۔ ہر موقعے سے ان کا طَور عوامی رہتا ہے جب کہ عشق و محبّت اور مذہب و عقائد کے باب میں پوری دنیا نِج پن کو اہمیت دیتی ہے۔ نظیر نے جاگیردارانہ عہد کی رسومیات سے مقابلہ کرتے ہوئے یہاں بھی ایک عوامی راگ چھیڑنے کی کوشش کی۔
نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں جو عوامی والہانہ پن اور جشن و طرب کا ماحول ملتا ہے، اس کی بنیاد میں ان کی دو صفات بہت اہم ہیں جن سے ان کا شعری مزاج و اسلوب وضع ہوا ہے۔ انھوںنے اپنی پوری شاعرانہ شخصیت کو ظریفانہ لباس میں آراستہ کر رکھا تھا۔ یہ رشتہ ان کی شاعری اور شخصیت سے اسی انداز کا تھا جسے جسم اور خون کا کہا جاسکتا ہے۔ ان کی منطقی صلاحیت بھی بے پایاں ہے لیکن وہاں بھی ایک ظریفانہ لَے قائم رہتی ہے۔ ان کی دوسری نظموں کو چھوڑیے، صرف ’آدمی نامہ‘ کے مطالعے سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ ذہن سے کس انداز کے حیوانِ ظریف ہیں کیوںکہ مسجد میں نماز اور قرآن پڑھنے والوں کے ساتھ ساتھ انھیں وہ لوگ بھی آدمی ہی نظر آتے ہیں جو اِن نمازیوں کی جوتیاں چراتے ہیں لیکن ان کی منطقی قوت کی ظریفانہ لَے اس کے آگے اس طرح عود کرآتی ہے اور وہ کہہ اٹھتے ہیں:’’جو اُن کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی‘‘
نظیر کی ہر چھوٹی بڑی نظم، چاہے اس کا موضوع کچھ بھی ہو، اس میں ایک ہنستی کھیلتی زندگی نظر آتی ہے۔ ظرافت کا یہ سنجیدہ اور زندگی سے بھرپور انداز نظیر کے عوامی انداز کو مزید گہرا کرتا ہے۔
فنّی اعتبار سے نظیر کی شاعری پر غور کریں تو ہمارے لیے حیرت و استعجاب کا ایک سماں قائم ہوجاتا ہے۔ ان کے پاس الفاظ کا جتنا بڑا سرمایہ ہے، کوئی دوسرا اردو شاعر ان کا ہم پلّہ نہیں ہوسکتا۔ ان میں سکّہ بند اور غیر سکّہ بند دونوں طرح کے الفاظ ہیں۔ مختلف پیشہ وران اور مواقع کے سلسلے سے جو اصطلاحات کا ذخیرہ موجود ہے، نظیر نے ان کا سب سے بہتراستعمال کرکے نظم کے دائرے کو وسیع کیا۔ نظیر کے ’خمسۂ ہفت زبان‘ کو پڑھ کر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ زبان پر انھیں کس انداز کی قدرت ہوگی روانی اور برجستگی کو قدما نے شاعری کی بنیادی صفات میں شامل کیا ہے۔ اس اعتبار سے نظیر کی شاعری ایک بہتا ہوا دریا ہے۔ مختلف قماش کے لفظ ان کے سامنے صف باندھے کھڑے رہتے ہیں اور وہ جیسا جی میں آئے، اَن مِل بے جوڑ لفظوں کو بھی مصرعوں میں کچھ اس طرح پیوست کردیتے ہیں کہ مفاہیم کی ایک نئی دنیا آباد ہوجاتی ہے۔
نظیر اکبرآبادی نے مسدس، مخمس کی ہئیتوں کو سب سے زیادہ آزمایا۔ ان ہئیتوں میں بیت یا ٹیپ کے مصرعے پر شاعری کا سارا مدار قائم رہتا ہے۔ عام طور سے مسدس اور مخمس کے بارے میں اہلِ قلم اس عیب کا اظہار کرتے ہیں کہ یہاں ایک مصرعے کی بات کو دہرانا شعرا کا مخصوص انداز بن جاتا ہے۔ نظیرؔ نے اپنی بے مثال قوّتِ مشاہدہ اور سرمایۂ الفاظ کی مدد سے مسدس اور مخمس کے ابتدائی چاروں مصرعوں میں مضمون کے الگ الگ امور کو پھیلانے میں کامیابی پائی ہے۔ پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ نظیرؔ ہزاروں آنکھوں سے کاینات کو دیکھتے ہیں اور جو قابلِ ذکرنظر آتا ہے، اس کی تفصیل پیش کرتے چلتے ہیں۔ مخمس میں تو اکثر و بیش تر ٹیپ کے مصرعے میں وہ نظم کے مرکزی خیال کو punch line کے طور پر پیش کرکے پڑھنے والے میںموضوعاتی ارتکاز پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مسدس میں اکثر و بیش تر بیت کے آخری مصرعے یا کبھی کبھی مکمّل بیت کے دہرائے جانے سے یہ کیفیت ازخودپیدا ہوتی ہے کہ نظم کا موضوع پھر سے ہمارے ہاتھ میں چلا آتا ہے۔ تکنیک کی سطح پر آج سے دو ڈھائی سو سال پہلے نظیرؔ اتنے چاق و چوبند تھے، اسے قبول کرتے ہوئے انسان کو حیرت میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ نظیر نے اپنی شاعری کو موضوعاتی اعتبار سے تو بارونق بنایا ہی تھا لیکن انھوں نے زبان و بیان اور ہئیت کے تجربات سے بھی اسے مثالی بنانے کی کوشش کی۔ (یہ بھی پڑھیں باصرسلطان کاظمی کی غزلیں [حصّہ اوّل] – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
نظیر لفظوں کے جادو گر ہیں، اپنے عہد کی سچائیوں کے نغمہ خواں ہیں۔ ہر موقعے کو راس اور رنگ یا جشن میں تبدیل کردیتے ہیں ۔ انھیں جمہوری قدروں پر یقین ہے اور مذہبی طور پر اشتراک اور تہذیبی لین دین میں بھی ان کا یقین ہے لیکن ان سب صفات میں اگر ان کی شخصیت کے پرُسوز آہنگ کی مستحکم شمولیت نہیں ہوتی تو ہمیں یقین ہے کہ نظیر کا وہ شعری کردار قائم نہیں ہوتا جو واقعتا تضادات کے پَروں سے اُڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اٹھارویں صدی کی مٹتی ہوئی دنیا کی آہیں دیوانِ میر کے صفحات پر دائمی رنگ میں ہمیں ملتی ہیں۔سودا اور نظیر اکبرآبادی کے شہر آشوب بھی اسی عہد کی نوحہ خوانی ہیں۔ نظیر نے آگرے کا آشوب نامہ الگ سے لکھا لیکن ان کی تمام نظموں میں بھانت بھانت کے آدمیوں کی زندگی کی پیش کش میں جو اقدار کی شکست و ریخت اور غم کا گاڑھا رنگ دکھائی دیتا ہے، وہ اگر نہیں ہوتا تو نظیر کی شاعری تذکرہ نویسوں کے ظلم و جبر میں دم توڑ چکی ہوتی اور ان کے بعد کے لوگوں نے ان کی شاعری سے کوئی عاشقانہ برتاو نہ کیا ہوتا ۔ نظیر نے اپنے عہد کے درد و سوز کے سہارے ہی جمہوریت کے رنگوں کو قلب و نظر میں سمویا اور اسی کے سہارے حیات و کاینات کے سارے رنگ اور تماشے پہچاننے کی کوشش کی۔ نظیر چاہے جشن و طرب میں ڈوبے ہوئے ہوں یا کسی حقیقت کی ترجمانی کررہے ہوں لیکن وہ ہر رنگ میں کہیں غمگین اور افسردہ دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لیے وہ خود کو جب پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں خاص رنگ کے بجاے ایک عام اور عوامی رنگ اُبھرتا ہے۔ یہاں جو محرومی ہے، اسی نے نظیر کو عوامی زندگی کا سب سے بڑا نغمہ خواں بنایا۔ ختمِ کلام کے طور پر نظیر کا تعارف انھی کے چار شعروں میں ملاحظہ ہوجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نظیر خود کو اشرافیہ کے بجاے عوامی رنگ میں پہچاننے کے قائل ہیں :
کہتے ہیں جس کو نظیر سنیے ٹک اس کا بیان
تھا وہ معلّمِ غریب، بزدل و ترسندہ جاں
سُست روِش، پستہ قد، سانولا، ہندی نژاد
تن بھی کچھ ایسا ہی تھا قد کے موافق عیاں
پیری میں جیسی کہ تھی اس کو دل افسردگی
ویسی ہی تھی اُن دنوں، جن دنوں میں تھا جواں
جتنے غرض کام ہیں اور، پڑھانے کے سوا
چاہیے کچھ اُس سے ہوں، اتنی لیاقت کہاں
٭٭٭
Dr Safdar Imam Quadri,
Head, Department of Urdu, College of Commerce, Arts & Science, Patna
Mob: 09430466321, Email: safdarimmquadri@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ | 

