نوبل انعام یافتہ اور ” تنہائی کے سو سال” کا مصنف گابریل گارشیا مارکیز لیٹن امریکہ کا ایک با اثر ناول نگار تصور کیا جاتا ہے۔ پروفیسر خالد جاوید نے اس کے حوالے سے ریختہ کو دیے گئے اپنے اپک انٹرویو میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اکثر وبیشتر بڑے لکھنے والوں کا تعلق چھوٹے گاؤں اور قصبوں سے ہوتاہے۔ اس بیان سے اتفاق نہیں کرنے کا ہمارے پاس کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ پریم چند کا تعلق ورانسی کے ایک چھوٹے سے گاؤں لمہی سے تھا اور مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی ناقد کسی اردو ناول نگار کو پریم چند پر ترجیح دیگا۔ آج بھی جو لوگ فکشن لکھ رہے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق چھوٹے قصبوں سے ہے۔ اب یہ بات الگ ہے کہ ملازمت کے سلسلے میں وہ میٹرو پولیٹن شہروں میں منتقل ہو گئے ہیں۔
"میرے نالوں کی گمشدہ آواز” کے مصنف محمد علیم کا تعلق بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں چندن باڑھ سے ہے۔ آج کل وہ دہلی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ ہندی میں ٢٠٠٣ سے ٢٠٠٩ تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ ان کے درس و تدریس کا سلسلہ بہت طویل نہیں رہا۔ فلموں اور ٹی وی سیریلز کے لیے شروع سے اسکرپٹ لکھتے رہے ہیں۔ جامعہ سے نکلنے کے بعد آپ نے مختلف ٹی وی چینلز کے لیے تقریباً پچاس سے زیادہ سیریلز کے اسکرپٹس لکھے۔ ادھر آ کر وہ انگریزی صحافت سے بھی منسلک ہوگئے ہیں۔ اردو میں ان کے دو ناول، "جو اماں ملی تو کہاں ملی” اور "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔ اردو والوں کے لیے افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو میں ناول لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ انگریزی میں لکھتے ہیں۔ انگریزی میں ان کے تین ناول Rabia: Through All Joys and Sorrows, Sacred Solitude اور Three Strange Prophecies منظر عام پر چکے ہیں۔ ان کا تخلیقی سفر جاری ہے۔ ان کے ڈرامے اور کہانیاں وقتاً فوقتاً نظر نواز ہوتی رہتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے والمیکی رامائن پر مبنی ایک اسٹیج ڈراما "امام ہند: رام” اردو اور ہندی میں لکھا ہے جو ہندوستان کے سو بڑے شہروں میں پلے کیا جائے گا۔
میں نے شروع میں گاربیل گارشیا مارکیز، پروفیسر خالد جاوید یا پریم چند کی بات اس لیے کی ہے کہ مجھے جس ناول اور ناول نگار کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے ان کا تعلق گاؤں سے ہے۔ محمد علیم کا ناول "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” کا پلاٹ گاؤں کے ہی پس منظر میں تیار کیا گیا ہے۔ بلکہ مجھے یہ کہنے دیا جائے کہ اس ناول میں ان کے گاؤں کی ہی کہانی ہے۔
"میرے نالوں کی گمشدہ آواز” تقریباً اٹھارہ سال قبل ٢٠٠٢ میں اردو اور ہندی میں شائع ہوا تھا۔ ٢٠٠٧ میں اس ناول کو پینگوئن نے بھی چھاپا تھا۔ اس ناول پر ایک فیچر فلم تیار ہونے والی تھی لیکن کسی وجہ سے وہ کام اب تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ ڈی ڈی اردو نے مذکورہ ناول پر مبنی ١٣ اپی سوڈ کا ٹی وی سیریل بنانے کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی تھی لیکن وہ منصوبہ بھی سرکاری عملہ کی سرد مہری کا شکار ہو گیا۔ (یہ بھی پڑھیں حاشیائی ادب میں ’فائر ایریا‘ کا مقام- ڈاکٹر سلمان فیصل)
تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو ناول "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” کا کوئی ایک موضوع نہیں ہے۔ ناول میں کہانی ایک ساتھ تین ٹریکس پر چل رہی ہے۔ ناول کے آغاز میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا موضوع مذہبی بنیاد پر سیاسی ورچسو حاصل کرنا ہے۔ سمیع احمد، رمیش سنگھ اور رام نارائن سنگھ تین مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما ہیں۔ ان کے حمایتی نیک محمد، ڈاکٹر نجم الدین اور دیگر چھوٹے بڑے کردار انتخاب میں ان کی فتح و کامرانی کے لیے جو کاوش کرتے ہیں اس سے تو یہی تأثر ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ناول جب آگے بڑھتا ہے تو دھیرے دھیرے ناول کا یہ سیاسی رنگ ماند پڑ جاتا ہے۔ ناول کی فضا پر معاشرتی زندگی غالب ہو جاتی ہے۔ یہاں رخسانہ اور جمیل کی شادی کا ذکر ہے۔ سسرال میں اس کے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان ہے۔ ساس اور نند کی مکاریاں ہیں۔ ناول کی یہ معاشرتی زندگی رخسانہ کے طلاق اور اس کے بھائی سکھڑیا کے قتل کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر نجم الدین ناول پر حاوی ہو جاتا ہے۔ گڑھیا گاؤں میں اس کی اچھی خاصی دھاگ ہوتی ہے، لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ لیکن بعد میں اس کے خلاف سازش ہوتی ہے، اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ آخر میں کچھ بدمعاش لڑکے ماجد علی کے اشارے پر اس کو گولی مار دیتے ہیں۔ ناول کا اختتام ڈاکٹر نجم الدین کے قتل پر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ناول نگار نے ڈاکٹر نجم الدین کے کردار کو بنیاد بنا کر ناول تخلیق کیا ہے۔ کیونکہ ناول میں ڈاکٹر نجم الدین کی موجودگی شروع سے آخر تک ہے۔
ناول کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے۔ اس کے بڑے کینوس پر مختلف رنگ نظر آتے ۔ اس میں ناول نگار کے پاس بہت کچھ کہنے کی بڑی گنجائش ہوتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک ناول در اصل کئی افسانوں کی ایک کہانی ہے۔ راب برٹن (Rob Burton) نے لکھا ہے:
“A novel is basically a series of short stories wedged together, sometimes with shaky bridges.”
ناول "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تین افسانوں کو بہت ہنر مندی کے ساتھ ایک دوسرے میں گتھ دیا گیا ہے۔ پہلے حصہ کے بغیر دوسرا حصہ ادھورا ہے اور دوسرے حصے کے بنا تیسرا حصہ نا مکمل ہے۔ ناول نگار نے تینوں کڑیوں کو واقعاتی انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک سرا دوسرے سے اور دوسرا سرا تیسرے سے کہاں پر ملتا ہے اس کی تمیز کرنا مشکل ہے۔ لیکن ناول پڑھ لینے کے بعد یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ناول کو تین حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔
مذکورہ ناول کافی ضخیم تقریباً 551 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ناول بہت حد تک تھکا دینے والا ہے۔ حالانکہ اس کی زبان بہت سادہ، سلیس اور آسان ہے۔ زبان کی سطح پر اس میں کوئی تخلیقیت نہیں ہے۔ "موت کی کتاب” کی طرح اس میں کوئی نفسیاتی پیچیدگی، گہرا فلسفیانہ شعور اور معنوی الجھاؤ نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ یہ ایک واقعاتی طرز کا ناول ہے۔ جس میں راوی مکالمے کی مدد سے کہانی سناتا ہے۔ آپ اس کو کہیں سے بھی جوائن کر سکتے ہیں، آپ کے دماغ میں الجھن پیدا نہیں ہوگی جیسا کہ”موت کی کتاب” کو پڑھتے ہوئے ہوتا ہے کہ اگر قاری کی نظر سے ایک سطر بھی چھوٹ جائے تو پورا ناول اس کی گرفت سے نکل جائے گا۔
یہ ناول گجرات سانحہ سے قبل ٢٠٠٢ میں شائع ہوکر منظر عام پر آیا تھا۔ اس وقت ہندوستان کا یہ رنگ نہیں تھا جو ابھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ ناول نگار صرف حال میں نہیں جیتا بلکہ وہ بیک وقت تین وقتوں یعنی ماضی، حال اور مستقبل میں ایک ساتھ جیتا ہے۔ وہ حال میں رہ کر "یاد ماضی عذاب ہے یا رب” کا راگ نہیں الاپتا۔ وہ ماضی میں بھی تاک جھانک کرتا ہے اور مستقبل پر بھی نظر رکھتا ہے۔ حال کے واقعات و حادثات ناول نگار کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ناول نگار ان واقعات کا تجزیہ تینوں زمانے یعنی ماضی، حال اور مستقبل میں بیٹھ کر کرتا ہے۔ محمد علیم نے اپنی تخیلاتی نظر سے آج کے صورت حال کو بیس سال پہلے دیکھ لیا تھا۔ آج یعنی ٢٠٢٠ کا ہندوستان کیسا ہوگا اس کا نقشہ بہت پہلے ناول نگار کے ذہن میں تیار ہو گیا تھا۔ ناول کے ابتدائی حصے کا ایک ایک مکالمہ اس بات کی دلیل ہے۔ آج ہندو مسلم کسی تہوار کے موقع سے اکثر آمنے سامنے ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ ان کے درمیان دنگے ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کا ایک واقعہ ناول میں بھی پیش آیا ہے۔ محرم کے موقع سے نیک محمد کی رہنمائی میں نکلنے والے تعزیہ کو گنیش پور کے ہندو روک دیتے ہیں۔ انتقاماً گڑھیا کے مسلم بھی درگا پوجا کے اوسر پر مورتی وسرجن کے لیے راستہ نہیں دیتے۔ ہندو مسلم آمنے سامنے ہو جاتے ہیں۔ علاقائی تھانے کی پولس وہاں موجود ہے لیکن وہ گنیش پور کے ہندو کی ہمدرد معلوم ہوتی ہے۔ وہاں ایک اعلیٰ پولس آفیسر آتا ہے اور سخت وارننگ دیکر جاتا ہے کہ کسی بھی قیمت پر انہیں آگے جانے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے۔ جب اس کی گاڑی آگے بڑھتی ہے تو انسپیکٹر اس اعلیٰ پولیس آفیسر کو گالی دیتے ہوئے بولتا ہے:
” کتا سالا !….. مرانے کے لیے یہاں آتا ہے۔۔جائے نہ للوا کا ۔۔۔چاٹنے۔۔”
(صفحہ ٧٠)
پھر ایک داروغہ کہتا ہے:
” سر انتظار کجیے ۔۔۔جس دن بھاجپا کی سرکار دلی میں بن گئی اس دن یہ للوا کیا، للوا کے کتوں کو بھی بھاگتے بھاگتے فرصت نہیں ملے گی۔”
یہاں پر کئی چیزیں قابل غور ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ بتاتا چلوں کہ ٢٠١٨ میں جب بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرساد یادو کو چارہ گھوٹالہ مقدمہ میں ١٤ سال کے لیے جیل بھیجا گیا اس وقت مرکز میں بی جے پی کی سرکار تھی۔ لالو یادو پر شکنجہ اسی بھاجپا سرکار میں کسا گیا۔ ١٥ دسمبر کی شام میں جامعہ کی لائبریری میں دہلی پولس داخل ہوئی۔ اس کالی شام میں کیا ہوا اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ناول کو پڑھتے ہوئے مجھے ایسا لگا کہ جامعہ میں بربرتا پھیلانے والی یہ وہی پولس تھی جو گنیش پور میں ایک اعلیٰ پولیس آفیسر کو گالی دے رہی ہے۔۔۔ آپ غور کریں کہ پولس کا ایک روپ محمد علیم نےاپنے ناول میں ٢٠٠٢ میں دکھایا اور اس کا ایک رنگ ہم نے ١٥ دسمبر ٢٠٢٠ کو اور اس کے بعد بھی دیکھا۔۔ دونوں میں کیا فرق ہے۔۔؟ مجھے تو کوئی فرق نظر نہیں آتا۔۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ ناول کے ابتدائی حصے میں سیاسی رنگ غالب ہے۔الیکشن کی تیاریاں چل ہوتی ہیں۔ نیک محمد کانگریسی ہے اور وہ کانگریس کے امیدوار سمیع احمد کے لیے بڑی انتھک محنت کرتا ہے۔ سمیع احمد کے علاوہ دو اور امیدوار رمیش سنگھ اور رام نارائن سنگھ ہیں جن میں سے ایک کا تعلق بی جے پی سے ہے اور دوسرے کا جنتا دل سے۔ مسلمانوں کے ووٹ کے منتشر ہونے کا خدشہ تھا۔ اس لیے نیک محمد مسلمانوں سے یہ التجا کرتا کہ وہ سمیع احمد کو ہی کامیاب بنائیں۔ نیک محمد کے دل میں ایک ڈر اور خوف ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اگر بھاجپا نیتا یہاں سے کامیاب ہوگیا تو مسلمانوں کے لیے بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے جب اس کے دوست حکیم صاحب یہ کہتے ہیں:
"ہرائیے سالے کو۔۔۔۔لیکن اس بار تو چانس ایسا لگتا ہے کہ گاڑی پلٹا مار دیگا”
(ص ٧٨)
اس پر نیک محمد کا جو رد عمل ہے تقریباً وہی رد عمل آج کے ہر مسلمان اور سیکولر لوگوں کا ہوتا ہے جب جب کسی بھاجپا نیتا کے کسی الیکشن میں کامیاب ہونے کی بات ہوتی ہے۔۔ نیک محمد کہتا ہے:
"ایسا مت کہیے حکیم صاحب۔۔سالا جیت گیا تو جانتے ہیں کیا ہوگا۔۔۔جینا حرام کر دیگا ہم لوگوں کا۔ ابھی جو ہم سینہ پھولا کے گھومتے ہیں، سالا چوہا بنا کے گھر میں ڈھکا دیگا۔۔کا سمجھے۔۔” (ص ٧٨)
آگے پھر حکیم صاحب کہتے ہیں:
” دیکھا سالے کا۔۔کہتا ہے میوا سب کو پاکستان بھیج دو۔۔وندے ماترم کہنا ہوگا نہیں تو بھارت چھوڑنا ہوگا۔۔گئو ہتیا پاپ ہے۔۔” (٧٨)
یہ مکالمے کتنے زندہ ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے ناول آج کل میں ہی منظر پر آیا ہو۔۔۔نیک محمد کے دل میں جو ڈر ہے وہی خوف آج کے ہر مسلمان کا ہے۔ مجھے یہ مکالمہ پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں نے نیک محمد کی بات پر کان نہیں دھرا اس لیے مرکز میں بھاجپا کی سرکار بن گئی۔ یہاں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ گاؤں دیہات کے غریب اور کم پڑھے لکھے لوگوں کا سیاسی شعور بہت بالیدہ ہوتا ہے۔۔ کھیت کھلیان اور پان کی گمتی میں بیٹھ کر گاؤں کے بزرگ ملکی سیاست پر اچھی گفتگو کرتے ہیں۔
نیک محمد بہت دیر تک ناول میں Exist نہیں کرتا ہے۔ لیکن جب تک رہتا ہے وہ بہت فعال کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ شروع شروع میں ایسا لگتا ہے کہ وہی اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ لیکن جب رمیش سنگھ اس کو ایک قتل کے جھوٹے الزام میں جیل بھیجوا دیتا ہے تو پھر وہ دوبارہ ابھر کر سامنے نہیں آ پاتا۔ نیک محمد کے جیل جانے کے بعد اس کی بیوی آمنہ بیگم، بیٹا سکھڑیا اور بیٹی رخسانہ سبھی بڑی آزمائشوں سے گزرتے ہیں۔ رخسانہ کی اس کی سسرال میں ساس شریفہ بیگم اور نند شبانہ سے نہیں بنتی ہے۔ اس کا شوہر جمیل ممبئی رہتا ہے۔ رخسانہ کا اس کے سسرال ایک طرح سے استحصال ہوتا ہے۔ ناول میں گاؤں کی معاشرتی،سماجی اور اخلاقی زندگی کا جو بیانیہ ہے وہ بہت حد تک پریم چند کی یاد دلاتا ہے۔۔ البتہ ناول نگار نے غیر ضروری تفصیل سے زیادہ کام لیا ہے۔ اس لیے تھوڑی دیر میں کوفت ہونے لگتی ہے۔ ناول کے چیپٹر 55 میں جمیل کے دو خطوط ڈاکیہ لا کر اس کے گھر دیتا ہے۔ ایک خط اس کے والد کے نام کا ہوتا ہے اور دوسرا اس کی بیوی رخسانہ کے نام کا۔ جمیل کے خطوط کو اس کی بہن شبانہ پڑھے یا نہ پڑھے اس کو اتنا طول دے دیا گیا ہے کہ وہ حصہ بہت بورنگ ہو گیا ہے۔ اگر ناول نگار غیر ضروری تفصیل سے گریز کرتا تو کیا ہی بہتر ہوتا۔
ناول 113 چیپٹر پر مشتمل ہے۔۔ تقریباً ہر چیپٹر میں ایک نیا کردار سامنے آتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ ناول کرداروں کی آماجگاہ ہے۔ کچھ کردار ایسے ہیں جو ایک پل کے لیے آئے، اپنا نام درج کروایا اور پھر نکل گئے۔ وہ ناول میں کیوں آئے معلوم نہیں۔ وصی اور حکیم منظور ایسے ہی کچھ کردار ہیں۔
اس ناول کے مرکزی کردار کا تعین کرنا ذرا مشکل ہے۔۔ ایسا اس لیے کہ اس ناول کا ہیرو کون ہے یہ بہت واضح نہیں ہے۔ جو فلم کا ہیرو ہوتا ہے عام طور پر وہی اس کا مرکزی کردار بھی ہوتا ہے۔ ناول کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ لیکن یہاں کس کو ہیرو مانا جائے۔ نیک محمد تو نہیں ہو سکتا کیونکہ جیل جانے کے بعد وہ ناول کے منظر نامے سے تقریباً غائب ہو جاتا ہے۔ تو کیا ڈاکٹر نجم الدین اس ناول کا مرکزی کردار ہے ۔وہی ایک ایسا کردار ہے جو ناول میں اول تا آخر موجود ہے۔ لیکن ڈاکٹر نجم الدین اتنا متاثر نہیں کرتا جتنا نیک محمد کرتا ہے۔ وہ ناول میں نسبتاً کم وقت کے لیے آتا ہے اور بہت Actively participate کرتا ہے۔۔
گلبرٹ چیسٹرٹن نے لکھا ہے:
"A good novel tells us the truth about its hero; but a bad novel tells us the truth about its author”
میں اس ناول کو خراب نہیں کہہ رہا لیکن اس ناول کے ہیرو کی تلاش ضروری ہے۔ میں نے اس ناول کے آخری کچھ چیپٹرس دو تین مرتبہ پڑھے۔ خاص طور پر اس کا سیکنڈ لاسٹ چیپٹر جس میں ڈاکٹر نجم الدین کو گولی ماری جاتی ہے۔ در اصل اس کی موت کے بعد یہ اندازہ ہوتا کہ وہ اکیلا شخص تھا جو پورے ناول کے بوجھ کو اکیلے اپنے کندھے پر لیکر چل رہا تھا۔ وہ جیسے ہی مرتا ہے کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر نجم الدین ناول کا وہ کردار ہے جو چیخ کر نہیں کہتا کہ وہی مرکزی کردار ہے۔ وہ ناول میں شروع سے آخر تک موجود رہتا ہے اور موقع موقع سے قاری کے سامنے آتا رہتا ہے۔ آخر میں وہ چپ ہو جاتا ہے اور قاری کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ ناول کا سارا تانا بانا اسی کے لیے بنا گیا تھا۔
اس ناول کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کا سیاسی منظر نامہ آج کے سیاسی منظرنامے سے بہت قریب ہے جب کہ ناول آج سے تقریباً اٹھارہ سال قبل لکھا گیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسا لگتا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائیے گا اس ناول کی اہمیت اور معنویت بھی بڑھتی جائے گی کیونکہ ناول نگار نے ہندوستانی سیاست کے نریٹیو کو اپنے ناول میں اتنی ہنرمندی کے ساتھ اپنایا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ہماری حقیقی زندگی سے اور قریب تر ہوتا چلا جائے گا۔
نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
I appreciate the objective views of the article writer. There are numerous issues, but the political situation of the country is no doubt a prominent one. I have even raised the issue of the triple talaq which was politicised by BJP brazenly last year. I hope the readers will go deep down the sea to find jewels.