Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
غزل شناسی

نسخۂ حمیدیہ میں غالب کے مقطعے ردیف الف تک -سید ثاقب فریدی

by adbimiras نومبر 4, 2020
by adbimiras نومبر 4, 2020 2 comments

نسخۂ حمیدیہ میں مرزا غالب کی غزلوں کی تعداد ۲۷۵ ہے اورمتداول دیوان میں غزلوں کی تعداد ۲۳۰ ہے ۔میرا مطالعہ نسخۂ حمیدیہ کی ردیف الف کی غزلوں پر مشتمل ہے ۔نسخۂ حمیدیہ میں مرتب نے اولاً ان غزلوں کوجگہ دی ہے جو متداول اور غیر متداول دونوں دیوان میں موجود ہیں اس کے بعد وہ غزلیں ہیں جو صرف غیر متداول دیوان میں شامل ہیں اور آخر میں ان غزلوں کو رکھاگیا ہے جو صرف متداول دیوان کا حصہ ہیں اور اس کا کوئی شعر غیر متداول دیوان میں نہیں ہے۔ نسخۂ حمیدیہ کے مرتب کے مطابق آخر کی یہ غزلیں ۱۲۳۷ کے بعد بڑھائی گئی ہیں۔

ردیف الف کو وہ غزلیں جو غیر متدوال دیوان اورمتدوال نسخے دونوں جگہ موجود ہیں ان کی تعداد ۳۱ ہے۔ وہ غزلیں جو صرف غیر متداول دیوان میں ہیں ان کی تعداد ۲۲ ہے اور وہ غزلیں جو صرف متدوال دیوان میں شامل ہیں ان کی تعداد ۱۵ ہے ۔ اس طرح نسخۂ حمیدیہ میں ردیف الف تک تمام غزلوں کی تعداد ۶۸ ہوجاتی ہے ۔  وہ غزلیں جو صرف غیر متداول دیوان میں موجود ہیں اور وہ غزلیں جو صرف متداول دیوان میں درج ہیں ان میں صرف ایک ایک ہی مقطع شامل ہے۔ جبکہ ردیف الف کی وہ غزلیں جو متداول اور غیر متداول دونوں دیوانوں میں موجود ہیں ان میں سے بیشتر غزلوں میں دو، دو مقطع درج ہیں اور بعض غزلوں میں تو مقطعوں کی تعداد تین تک پہنچ گئی ہے ۔ وہ غزل جہاں ایک سے زائد مقطع شامل ہیں بعض جگہ متحد المضمون ہے ۔ چند الفاظ یا تراکیب کی تبدیلی کے ساتھ مقطع علاحدہ لکھاگیا ہے ۔بعض مقطعوں کا پہلا یا دوسرا مصرع مختلف ہے ۔اس  طور سے ایک ہی غزل میں دو مقطعے ہوجاتے ہیں۔ ردیف الف کی و وہ ۳۱ غزلیں جو کہ متداول اور غیر متداول دونوں دیوان میں موجود ہیں ان میں ۹ غزلیں ایسی ہیں جن میں دو یادو سے زائد مقطعے شامل ہیں اور وہ مختلف المضمون بھی ہیں اور غالب نے اپنی ذاتی پسند کی بنیاد پر ان میں سے کسی ایک مقطع کو اپنے متداول کلام میں شامل کیا ہے۔ ان ۳۱ غزلوں میں سے گیارہ غزلیں ایسی ہیں جن میں مقطع غیر متداول دیوان میں تو موجود ہے لیکن غالب نے انہیں متداول دیوان میں شامل نہیں کیا ۔ قلمی نسخے کی بعض غزلوں میں تو دو، دو مقطع موجود ہیں لیکن متداول دیوان میں وہ غزل مقطعے سے خالی ہے ۔

غالب نے متداول کلام سے بہت سارے مقطعے خارج کردیے تھے اور اتنا وقت گزرنے کے بعد آج ہمارے ذہن میں محض متداول کلام کے مقطعوں کا نقش اجاگر ہوتا ہے۔ لیکن غیر متداول کلام میں بھی کئی مقطعے ایسے نکل آئیں گے جن پرقاری کی نگاہ ٹھہر جائیگی ۔غیر متداول کلام کے بعض مقطعے یقینا دشوار اور پیچیدہ ہیں اور غالب کی مشکل پسندی کا دخل یہاں زیادہ ہے۔ ممکن ہے تقابل اور موازنے کے بعد متداول کلام کا مقطع زیادہ بامعنی معلوم ہو لیکن ان تمام باتوں کے باوجود غیر متداول کلام کے مقطعوں کو نظرا نداز نہیں کیا جاسکتا۔ نسخۂ حمیدیہ کے مرتب مفتی انوار الحق نے اپنی تمہید میں یہ بات لکھی ہے

’’ دنیا کی تاریخی ادبیات میں ایسی مثالیں بہت شاذ ہیں کہ ہم کو کسی استاد کامل کے کمال کے ابتدائی مراتب اور ارتقائی مدارج کا صحیح حال معلوم ہو سکے۔ یہ محض حسن اتفاق ہے کہ اس قلمی نسخے کے مل جانے سے ہم کو غالب جیسے مسلم الثبوت اور قادر الکلام استاد کی شاعری کے درجہ بدرجہ نمونے نظرآتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں اس کے اشعار کا کیا انداز تھا اور پھر اس میں رفتہ رفتہ کیا تغیر ہوا۔ چونکہ ہم اس نسخے کی صحیح تاریخ کتابت بھی جانتے ہیں اس لیے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ ۲۵ برس کی عمر میں بھی اس کی شاعری کس قدر ترقی کرچکی تھی‘‘     ۱؎

مرزا غالب کے ابتدائی کلام کے تعلق سے ناقدین کا خیال ہے کہ وہ معنیٰ کے ابہام ، تراکیب کی پیچیدگی اور بیان کی ژولیدگی کے اعتبار سے سخت دشوار ہے۔ گیان چند جین جنہوں نے غالب کے غیر متداول کلام کی شرح لکھی ہے ان کے مطابق غالب کا ابتدائی کلام اجنبی فارسی محاوروں سے پر ہے ۔وہ’’ تفسیر غالب‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں

’’ بعض اوقات یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ کہ شعر میں مبتداء کون سا ہے خبر کون سی ہے ، مشبہ کون سا ہے اور مشبہ بہ کونسا‘‘

گیان چند جین آگے لکھتے ہیں

’’غالب کا یہ کلام اردو شاعری کے ذخیرے میں سب سے زیادہ دقیق اور مغلق ہے ،اس کے معنی تلاش کرنا ناکوں چنے چبانا ہے۔ اور وہ بھی لوہے کے ‘‘  ۲؎

غالب کے غیر متداول دیوان کے مقطعے بلاشبہ مشکل ہیں۔ بعض اوقات تو پڑھنے میں بھی مشقت ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود غالب کے نشان زد کلام کے بہت سارے مقطعے ان کے متداول کلام کے مقطعوں کی طرح آسا ن اور قابل تفہیم ہیں ۔ چہ جائے کہ فنی اعتبار سے معنی کی تہہ داری ان مقطعوں کی بھی خصوصیت ہے۔ شمس الرحمان فاروقی نے گیان چند جین کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ وہ انتخاب اردو کلیات غالب کے دیباچے میںصفحہ نمبر ۸پرلکھتے ہیں

ـــ’’گیان چندکہتے ہیں کہ شروع کے کلام کا وہ حصہ جسے غالب نے مسترد کردیاتھا۔بڑی حد تک معمولی اور بےلطف ہے ۔ کیونکہ اس میں غیر ضروری پیچیدگی زیادہ  ہے ۔ معنی کا لطف کم۔ اس رائے سے پورا اتفاق ممکن نہیں ۔لیکن یہ ضرور ہے کہ مسترد کلام کا بڑا حصہ اس قدر ادق ،اس کے مضامین اس قدر باریک اور ان کے مضامین کی بنیاد اتنے دور ازکار روابط خیال پر ہے کہ اس کو سمجھنے کے لئے کثیر غور وفکر درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اشعار میں بظاہر ربط کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ربط کی اس کمی کو غالب نے مستیِ تحریرکا نام دیا ہے۔

مے کش مضموں کو حسن ربط خط کیا چاہیے

لغزِشِ رفتار خامہ مستی تحریر ہے

لیکن اس مستی ِتحریر کے باعث شعر کا حشن اگر مجروح نہیں تو مخفی ضرور ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے مترد اشعار میں سے صرف وہ شعر انتخاب میں رکھے ہیں جن کا حسن بالکل ظاہر ہے اور جن کو سمجھنے کے لئے زیادہ تامل درکار نہیں‘‘       ۳؎

شمس الرحمن فاروقی کی اس تحریر کے مطابق غالب کے مسترد کلام کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ایک حصہ وہ ہو گا جوسخت اورپیچیدہ ہے اور اس کے معنی گنجلک اور مغلق ہیں ۔اور دوسرا حصہ وہ ہوگا جس کے معنی پہلی یا دوسری یا تیسری قرأت کے دوران ہی بلا تامل دریافت کئے جاسکتے ہیں اور اس کے فنی حسن کی تفہیم بھی ممکن ہے ۔غالب کے قلم زد اشعار کی طرح تقریباََ یہی صورت غالب کے مقطعوں کی بھی ہے یہی وجہ ہے کہ غٖالب نے اپنے متداول دیوان کے لئے ان مقطعوں کا انتخاب کیا جو غیر متداول دیوان کے مقطعوں کے مقابلے زیادہ آسان تھے۔ ورنہ تو انتخاب شدہ مقطعوں میں بھی مشکل پسندی موجود ہے ۔اب میں براہ راست غالب کی پہلی غزل کے مقطعے پیش کرتا ہو ں ۔

وحشت خواب عدم شور تماشہ ہے اسد

جو مژہ جوھر نہیں آئینہ تعبیر کا

غالب کا یہ مقطع غیر متدال کلام میں شامل ہے ۔ نسخہء حمیدیہ میں لفظ مثرہ کی جگہ مزہ لکھا ہوہیء جو کہ کتابت کی غلطی ہے ۔مجھے گیان چند جین کی شرح تفسیر غالب دیکھنے کے بعد صحیح لفظ کا ادراک ہوا۔اس شعرسے دو معنی نکلتے ہیں اول یہ کہ خواب عدم کی وحشت شور تماشہ ہے یعنی دنیا میں دیکھے گئے ہنگاموں کی وجہ سے ہے۔ دوسرے مصرع میں مژہ آنکھ کی علامت ہے اور جو ہربمعنی صفت ہے۔ صفت میں خوبی کے ساتھ کجی کا احتمال بھی ہوتا ہے ۔اور اس شعر میں کجی ہی مراد ہے۔ آنکھ آئینہ تعبیر کا جوہر نہیں ہے یعنی آئینہ تعبیر میں جو کچھ نمودار ہوا ہے اس میں بذات خود تعبیر کی کجی شامل ہے نہ کہ آنکھ کی۔  اس شعر کے دوسرے معنی وہ ہیں جو گیان چندجین نے لکھے ہیں۔

’’آئینہ تعبیر کا جوہر ہونا یعنی تعبیر بتانے کی صلاحیت رکھنا ۔شعر کی نثریوں ہے۔ جو مژہ آئینہ تعبیر کا جوہر نہیں (اس مژہ کا )شور تماشہ وحشت خواب عدم ہے ۔ شعر کے معنی یہ ہوئے کہ جس شخص کی آنکھ ژرف بیں نہیں اس کا یہ دعوی کہ وہ مناظر دیکھ رہا ہے ۔ جھوٹ ہے ۔اس کے یہ مناظر عدم میں دیکھا ہوا خواب پریشاں ہیں‘‘   ۴؎

ظاہر ہے شعر کی تشریح سخت ہے ۔بار بار شعر کی قرأت کے بعد بھی معنی گرفت میں نہیں آتے ۔ ممکن ہے میں نے شعر کے جو معنی دریافت کئے ہیں ان سے آپ کو اتفاق نہ ہو۔ لیکن گیان چند جین نے شعر کے جو معنی بتائے ہیں ذہن اس معنی کو بھی آسانی کے ساتھ قبول نہیں کرتا ۔ممکن ہے قاری کوئی اور معنی دریافت کرلے ۔ظاہر ہے غالب کے اس طرح کے اشعار کی اساس نازک خیالی پر ہے اور یہی غالب کی مشکل پسندی ہے۔ اب اگر الفاظ کے مابیں رشتوں کی بات کی جائے ۔تو وحشت کا رشتہ خواب کے ساتھ ،خواب کا رشتہ عدم کے ساتھ، شور کا رشتہ تماشے کے ساتھ، مژہ کا رشتہ جوہر کے ساتھ، جوہر کا رشتہ آئینہ کے ساتھ اور خواب کا رشتہ تعبیر کے ساتھ۔ گویا ایسا لگتا ہے جیسے تمام الفاظ کسی ایک ڈور سے آپس میں بندھے ہوئے ہیں ۔اب اس غیر متداول دیوان کے مقطعے کے مقابلہ اس مقطعے کو دیکھتے ہیں جو متداول دیوان میں موجود ہے۔ (یہ بھی پڑھیں "دیوان غالب: نسخہ عرشی”  کا تجزیاتی مطالعہ – صائمہ پروین )

بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا

موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

غیر متداول دیوان میں یہ شعر کچھ مختلف ہے ۔وہاں شعر کا دوسرا مصرع تو ذراتبدیلی کے بعد تقریباََ یکساں ہے ۔لیکن پہلے مصرے میں اختلاف ہے ۔غیر متداول کلام میں یہ شعر اس طرح ہے ۔

آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ

موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا

آتشیں پا ہونے کا مطلب بے قررار ہوناہے۔ اور گداز وحشت کی صورت میں بھی بے قراری لازمی ہے۔ متداول دیوان کے مقطع میں اسیری کا لفظ ہے جبکہ یہاں زنداں کا لفظ ۔اسیری کا مطلب بندھا ہوا ہونا اور آتشیں پا کا مطلب کسی ایک جگہ اطمینان کے ساتھ نہ ٹھہرنا۔ گویا اسیری اور آتشیں پا ہونا متضاد کیفیات ہیں۔اس مقطعے کے معنیٰ یہ ہوئے کہ اسیری میں بھی بے قراری اس قدر ہے کہ میری زنجیر حالت بے قراری میں ادھر سے ادھر دوڑنے کی وجہ سے جلے ہوئے بال کی طرح کمزور ہوگئی ہے۔ گیان چند جین نے حلقۂ زنجیر کو موئے سوختہ سے مشابہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حلقۂ زنجیر کی شکل جلے ہوئے بال کی طرح مدور ہوگئی ہے۔ اب اسیری کس وجہ سے ہے اس تعلق سے شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون’’ خیال بند غالب ‘‘میں تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے وہ لکھتے ہیں

’’ اسیر ہونا اس لیے ہے کہ عشق کا نتیجہ دیوانگی ہے یا خود عشق ایک طرح کی دیوانگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیوانے کو زنجیر کرتے ہیں ۔ پرانے زمانے میں بلکہ ابھی چند دہائی پہلے دیوانگی کا ایک علاج یہ بھی تھا کہ مریض کو پابند سلا سل کرتے یا قید کردیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری بات یہ کہ دیوانگی کے مریض میں جارحیت کا رجحان ہو یا نہ ہو، لیکن اس کے مزاج میں وحشت بہر حال ہوتی ہے اور عشق کا بھی ایک تفاعل یہ ہے کہ عاشق کا جی کہیں نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ عاشق کو آتش زیرپا یعنی بے قرار رکھتا ہے ‘‘  ۵؎

مرزا غالب نے اپنے متداول دیوان کے لئے’’ بسبکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا‘‘ والے مقطع کا انتخاب کیا ہے اور ’’وحشت خواب عدم شور تماشہ ہے اسد‘‘ والے مقطع کو مسترد کردیا ہے۔ اس انتخاب کے رویے میں غالب نے مشکل پسندی کے مقابلہ سہل پسندی کو ترجیح دی ہے۔ چہ جائے کہ متدوال دیوان کا مقطع بھی اتنا آسان نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس مقطع کے معنی کئی قرأت کے بعد دریافت ہوسکتے ہیں ۔ جبکہ وہ مقطع جو کہ غیر متداول کلام میں ہے اس کی اساس دورازکار خیال پر مبنی ہے۔ اب رہی بات اس شعر کی جو غیر متداول کلام میں موجود ہے اور جس کا مضمون متدوال دیوان کی اس غزل کے مقطعے سے مشابہ ہے اسے ترک کرنے کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ غالب کو وحشت خواب عدم والا مقطع اپنے متداول دیوان کے لیے پسند نہ آیا ہوگا لہٰذا انہوں نے’’ آتشیں پا ہوں گدازوحشت زنداں نہ پوچھ ‘‘والا مصرع ہٹاکر اس کی جگہ ’’بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا ‘‘جیسا مصرع لگا دیا تاکہ اظہار کی سطح پرذرا آسان مقطع آجائے۔ چونکہ’’ آتشیں پا ہوں گداز و حشت زنداں نہ پوچھ ‘‘والے مصرع میں زنداں کا لفظ ہے اور مقطع والے شعر میں اسیری کا لفظ اور غالب نے روئے زمین کے لیے عموماً زنداں کی علامت استعمال کی ہے۔ لہٰذا لفظ زنداں والے مصرعے کی روشنی میں بھی لفظ اسیری کی تعبیر کی جاسکتی ہے اور لفظ اسیری کو عشق کے تناظر میں دیکھنے ساتھ ساتھ دنیا کی صعوبتوں ، مشقتوں، پریشانیوںاور قید وبند کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں غالب شناس : کمال احمد صدیقی- ڈاکٹر شفیع ایوب )

خورشبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسد

سر تا قدم گزارش ذوق سجود تھا

یہ نسخہ حمیدیہ میں ترتیب کے اعتبار سے تیسری غزل کا مقطع ہے جو کہ غیر متداول دیوان میں درج ہے۔اس مقطعے میں معشوق کو خورشید اور خود کو شبنم سے تشبیہ دی گئی ہے۔ آفتاب کی تمازت شبنم کو جذب کرلیتی ہے لیکن اگر خورشید کی روشنی شبنم پر نہ پڑے تو شبنم فنا کی تعلیم سے آراستہ نہ ہو سکے ۔ شبنم کا وجود محض اسلئے ہے کہ وہ آفتاب سے نظر ملا کر اس کی ذات میں کہیں گم ہوجائے اسی مضمون کو غالب نے ایک دوسری جگہ یوں باندھا ہے.

پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

گویا جس طرح شبنم اپنے معشوق آفتاب سے مل کر اس کی ذات میں گم ہو جاتی ہے اسی طرح میرا عشق بھی نظر عنایت پا کر معشوق کی ذات میں ضم ہوکر فنا ہونے کے لیے تیار ہے اور مقطعے کے شعر میں سرتا قدم ذوق سجود کی گزارش میں محو ہے۔ یہاں مضمون عشق حقیقی کا ہے خورشید اور شبنم کی رعایت سے اپنے اور معشوق حقیقی کے مابین رشتہ استوار کرلینا بہت خو ب ہے۔ اس ضمن میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ معشوق نے عنایت ہی نہیں کی ورنہ میں تو ذوق سجود سے سرشار تھا یعنی جب عنایت کی نظر نہیں ہوگی تو سجدے کا ذوق بھی نہیں ہوگا ۔گویا اس میں غالب کی انانیت اور خود پرستی کا بھی بڑا دخل ہے۔ اب دیکھئے’’ خور شبنم آشنا نہ ہواورنہ میں اسد‘‘ والے مقطعے میں خور اور شبنم کی رعایت اورخورشید اور سجدے کی رعایت بھی خوب ہے۔ اورپھر گذارش ِ ذوق سجود کی ترکیب بھی نہایت دلکش ہے۔ بہرحال یہ مقطع اپنی تمام تر فنی خوبیوں ،معنوی تہہ داریوں کے باوجود متداول دیوان کا حصہ نہیں ہے۔ اس مقطع کے مقابلے اس غزل کا وہ مقطع دیکھئے جو متداول دیوان میں شامل ہے ۔

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد

سر گشتہء خمار رسوم و قیود تھا

اس شعر میں بھی سر گشتۂ خمار رسوم و قیود کی ترکیب نہایت خوبصورت ہے ۔ یہ شعر دو مضامین پر مشتمل ہے۔ اول مضمون تو بالکل سامنے کا یہ ہے کہ کو ہکن نے جب شیریں کی موت کی خبر سنی تو تیشے کو سر پر زور سے مارا اور مر گیا ۔یعنی موت کے لئے اسے تیشے کا سہارا لینا پڑا۔ محبت میں موت کے لئے ہتھیار کا استعمال کرنا ایک طرح سے رسم دنیا اختیار کرنے کے مترادف ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کو ہکن شیریں کے موت کی خبر سنتا اور فرط محبت میں دم توڑ دیتا اس طور سے یہ مضمون عشقیہ قرار پاتا۔لیکن اگر اس مضمون کو اور وسعت دی جائے تو یہ دنیاوی رسومات اور اس کے بندو سلاسل کا مضمون بن جائیگا۔ ۔ وہ اس طرح کہ اس شعر کو دلیل قرار دیا جائے اور اس میں ایک دعوے کو مضمر مان لیا جائے ۔دعوی یہ ٹھہرے گا کہ انسان دنیاوی رسومات کا پابند ہے اور چاہ کر بھی اس قید سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ کو ہکن نے اپنے تمام تر عشق کے باوجود موت کے لئے ایک معمولی اور کمتر دنیوی رسم کا سہارا لیا۔اس غزل کے دونوں مقطعے نہایت عمدہ ہیں۔ غالب نے’’ تیشے بغیر مر نہ سکا کو ہکن اسد ‘‘والے مقطع کو متداول دیوان میں شامل کیا ہے لیکن’’ خور شبنم آشنا نہ ہوا ور نہ میں اسد ‘‘والا مقطع بھی فنی اور مضمون کی بلندی کے اعتبار سے کچھ کم نہیں اور اس مقطع میں غالب کی اپنی ذاتی شخصیت کا اظہار نظر آتا ہے۔ میں نے او پر یہ بات کہی ہے کہ غالب کی غزل میں بسا اوقات دو، دو مقطعے ہوتے ہیں لیکن متداول کلام میں دونوں میں سے کوئی مقطع شامل نظر نہیں آتا ۔اب دیکھئے کہ’’ عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا‘‘ والی غزل میںجو کہ مروجہ دیوان میں شامل ہے کوئی بھی مقطع موجود نہیں ہے ۔جبکہ غیر متداول کلام میں یہ غزل دو مقطعوں کے ساتھ موجود ہے۔ اس غزل کا پہلا مقطع تو یہ ہے ۔

کیوں نہ وحشت غالب باج خواہ تسکیں ہو

کشتہ تغافل کو خصم خوں بہا پایا

باج خواہ کا مطلب خراج وصول کرنے والا۔ تسکین سے خراج و صول کرنا یعنی صفت تسکین سے سر شار ہو جانا۔ وحشت بمعنی اضطرابی کیفیت۔ یہاں پہلے مصرع میں باج خواہ تسکیں اگر چہ دلکش ہے لیکن مشکل اور پیچیدہ ترکیب ہے جس سے محض سکون و اطمینان کے معنی بر آمد ہوتے ہیں۔ اس ترکیب میں باج خواہ کا لفظ بے معنی اور غیر ضروری ہے۔ لیکن غالب اس میں بھی ایک طرح کا لطف پیدا کر دیتے ہیں۔پہلے مصرعے کے معنی یہ ہیں کہ وحشت غالب کو کیوں کر تسکین حاصل نہ ہو جبکہ کشتہ تغافل کو یعنی خود اپنے آپ کو خوں بہا کا مخالف پایا۔ کیونکہ معشوق کی غفلت کی وجہ سے مرنا بجائے خود ایک دیرینہ خواہش کی تکمیل ہے۔ محبوب کے تغافل سے وحشت تو ہوتی ہی ہے ۔لیکن اسی تغافل کی وجہ سے جب عاشق کی جان نکل گئی تو ساتھ ساتھ عاشق کی وحشت کو بھی تسکین مل گئی۔اس شعر میں وحشت کے مقابلے خوں بہا کا لفظ بھی خوب ہے اس مقطع کے علاوہ اس غزل میں جو دوسرا مقطع ہے وہ یہ ہے۔

نے اسد جفا سائل نے ستم جنوں مائل

تجھ کو جس قدر ڈھونڈا الفت آزماں پایا

اس مقطع کا مضمون بھی تھوڑی تبدیلی کے ساتھ معشوق کی بے التفاتی ہے ۔نے اسد جفا سائل یعنی عاشق کو معشوق کی جفا سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ نے ستم جنوں مائل یعنی معشوق کا ستم بھی اب مائل بہ کرم نہیں اور معشوق تغافل برتنے پر آمادہ ہے۔ اصل جفا تو یہی ہے ۔لیکن عاشق کو اس جفا سے بھی کوئی شکوہ نہیں ہے۔ اس جفا سے گلہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عاشق کی نظر میں معشوق کا تغافل محض وقتی طور پر ایک آزمائش ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معشوق ہمیشہ تغافل سے کام لیتا ہے اور عاشق کے عشق سے اسے بہت کم ہی سرو کار ہوتا ہے ۔ عاشق کا معشوق کو وقتی طور پر الفت آزما خیال کرنا محض ایک مثبت خیال،اپنی ذاتی تسلی اور دلبستگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس غزل کے دونوں مقطعے مضمون کے سطح پر بہت عمدہ ہیں ۔ان کی کچھ اور بھی تعبیر ہو سکتی ہے ۔لیکن ان میں کوئی ایسا  ابہام نہیں ہے ۔ غالب کی ایک مشہور غزل کا مقطع ہے۔

دل میں پھر گر یہ نے اک شور اٹھایا غالب

آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا

غالب کے اس مقطع کے مقابلے میں اس غزل کا وہ مقطع جو غیر متداول کلام میں ہے وہ اس طرح ہے

میں بھی معذور جنوں ہوں اسد اے خانہ خراب

پیشوا لینے مجھے گھر سے بیایاں نکلا

یعنی اے اسد خانہ خراب میں اپنے جنوں سے معذور ہوں۔ بیاباں خود مجھے لینے آیا ۔گویا اس نے میری پیشوائی کی اور میں اس کے ساتھ بیاباں کی طرف چل پڑا۔ اس شعر میں بیاباں کی پیشوائی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آواز اسے سنائی دی اور بیاباں کی طرف اس کے قدم بڑھ گئے۔ خواہ مخواہ ندا کا سننا بھی ایک طرح کا جنوں ہے اور پھر انسان حالت ہوش میں ہر غیر مانوس آواز کا پیچھا نہیں کرتا۔اب اس غزل کا دوسرا مقطع دیکھئے۔

دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایہ غالب

آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا

گریہ کہ شور کرنے کا مطلب آہ و بکا کرنا اور گریہ کا ما حاصل بالآخر ویرانی ہے

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کا شانے کی

درو دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

گریہ کی وجہ سے درو دیوار کی حالت بیاباں کی ویرانی کی طرح ہوجاتی ہے۔اس مقطعے کے معنی یہ ہیں کہ تا دیر گریہ وزاری کرنے کے بعد جب آنکھوں کی جھڑی تھم گئی تو ذرا دیر بعد پھر کوئی غم یاد آیا۔ وہ بات ایسی تھی کہ گریہ طوفان کی شکل میں باہر نکلا۔ اس بات اور غم کو قطرے سے تعبیر کیا گیا ہے اور آنسوؤ ں کو طوفان کہا گیا ۔ قطرے اور طوفان کی رعایت میں شعر کا حسن پوشیدہ ہے۔اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ میرؔ کے یہاں رونے کے ساتھ ساتھ ضبط عشق کے مضامین بھی بہت ہیں ۔جب کہ غالب کے یہاں ضبط عشق کے مضامین نہیں ملتے۔ ہاں آہ وگریہ کے مضامین بہت ہیں۔غالب کے درج ذیل مقطع میں بھی گریہ کا مضمون ہے۔

میں نے روکا رات غالب کو وگر نہ دیکھتے

اس کے سیل گر یہ میں گردوں کف سیلاب تھا

اس مقطعے میں گردوں کاسیل گریہ کی وجہ سے کف سیلاب ہونا ہی در اصل ایک طرح کا احتجاج ہے اور

نالہ سرمایہ یک عالم و عالم کف خاک

آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے

جیسے شعر میں نالہ کو سر مایہ یک عالم تصور کرنا۔ آسمان پر تمام ستاروں کو بیضہ قمری سے تعبیر کرنا اور اس طرح مستقبل میں بھی نالوں کے امکانات روشن کرلینا در اصل یہ تمام صورتیں ایک احتجاج کی ہیں جس کا غالب نے بکثرت اظہار کیا ہے۔اس مقطعے کے علاوہ اس غزل میں دو اور مقطعے شامل ہیں اور دونوں غیر متداول دیوان کا حصہ ہیں۔

۱         واں ہجوم نغمہ ہائے ساز عشرت تھا اسد

ناخن غم یاں سر تار نفس مضراب تھا

۲        بیدلی ہائے اسد افسردگی آہنگ تر

یاد ایام کہ ذوق صحبت احباب تھا

غیر متداول کلام کے پہلے مقطعے میں ہجوم نغمہ ہائے ساز عشرت کی ترکیب بہت خوبصورت ہے۔ اس مصرع کے معنی یہ ہوئے کہ معشوق کے گھر خوشی کے شادیانے بج رہے تھے۔ دوسرے مصرع میں ناخن غم کا تارنفس کو مضراب کی طرح چھیڑنا ماتم کناں ہونے کے معنی میں ہے۔ یعنی معشوق کے یہاں توخوشی کا ماحول تھا جبکہ میرا گھر ماتم خانہ بناہوا تھا۔ اب یہ دیکھئے کہ پہلے مصرع میں ہجوم نغمہ اور ساز عشرت کی مناسبت سے دوسرے مصرع میں ناخن غم، تار نفس اور مضراب جیسے الفاظ لائے گئے ہیں۔ مضراب کہتے ہی ہیں ستار بجانے والے آلے کو اور بسا اوقات مشق کے دوران ناخن سے بھی ستاربجائے جاتے ہیں اور ناخن بھی غم کا ہے۔ اس سے نفس کے تار چھیڑے جا رہے ہیں۔ انسان بعض اوقات نفس سے بھی نغمہ سرائی کرتا ہے ۔ایک بات جو اس ضمن میں سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوقات آہ و بکا اور گریہ کی آواز بھی غنائیت سے بہت مشابہ ہو جاتی ہے۔ چونکہ معشوق کے یہاں نغمہ اور ساز کی محفل آراستہ ہے لہٰذا اس رعایت سے بھی دوسرے مصرع میں ناخن غم، تار نفس اور مضراب کا لفظ نہایت بامعنی ہے۔اس غزل کا دوسرا مقطع جو غیر متداول کلام میں شامل ہے وہ یہ ہے۔

بیدلی ہائے اسد افسردگی آہنگ تر

یاد ایام کہ ذوق صحبت احباب تھا

اس مقطع میں افسردگی اور بیدلی کی کیفیات کا اظہار ہے۔ یہاں تک کہ ان کیفیات کی وجہ سے آہنگ میں بھی افسردگی سرایت کر گئی ہے۔ بیدلی اور افسردگی کی کیفیت نے احباب کی محفل کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔بس اب اُن دِنوں کی یاد باقی ہے جب احباب کی صحبت کا ذوق تھا۔ اس شعر کا اصل مسئلہ تو بیدلی اور افسردگی کا اظہار ہے۔اس غزل کے تینوں مقطعوں کو دیکھنے کے بعد ایک بات یکساں نظر آتی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ غالب کے ان تینوں مقطعوں میں بیدلی، افسردگی ، آہ وبکا اور گریہ وزاری کی فضا ہے اور پھر محض ان مقطعوں کی تخصیص کیا ہے۔ یہ پوری غزل جو کہ متداول دیوان میں شامل ہے اسی غمگین ماحول کی ترجمان ہے۔ بہر حال وہ مقطع جو کہ غالب نے اپنے متداول کلام میں شامل کیا ہے وہ یہ ہے۔

میں نے روکا رات غالب کو وگرنہ دیکھتے

اس کے سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھا

متداول کلام میں شامل اس مقطعے کے مقابلے میں جو مقطع مضمون کی بلندی، تہہ داری اور معنی آفرینی کی سطح پر زیادہ  خوبصورت ہے اور جو غیر متداول دیوان کی زینت ہے وہ مقطع یہ ہے۔

واں ہجوم نغمہ ہائے ساز عشرت تھا اسد

ناخن غم یاں سر تار نفس مضراب تھا

مرزاغالب کو بیدل عظیم آبادی کی شاعری سے والہانہ الفت تھی۔ انہوں نے اپنے کئی مقطعوں میں اپنی الفت کا اظہار کیا ہے۔ ردیف الف میں اس نوعیت کے تین مقطعے شامل ہیں اور کمال ہے کہ خود غالب نے ان میں سے کوئی بھی مقطع متداول دیوان میں شامل نہیں کیاہے ۔ان میں پہلا مقطع تو یہ ہے۔

اسد ہر جاسخن نے طرح باغ تازہ ڈالی ہے

مجھے رنگ بہار ایجادی بیدل پسند آیا

اس مقطعے کے مقابلے متداول دیوان میں جو مقطع شامل ہے وہ یہ ہے۔

جراحت تحفہ۔ الماس ارمغاں۔خون جگر ہدیہ

مبارک بعد اسد غمخوار جان درد مند آیا

بیدل کی تعریف اور اس کے فن کے اعتراف میں ردیف الف کا دوسرا مقطع یہ ہے۔

مطرب دل نے مرے تار نفس سے غالب

ساز پر رشتہ پئے نغمۂ بیدل باندھا

اس مقطعے کے مقابلے میں جو مقطع متداول دیوان میں موجود ہے وہ یہ ہے۔

نہ بندھے تشنگی ذوق کے مضمون غالب

گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

اس کے بعدتیسرا اور ردیف الف کا وہ آخری مقطع جو کہ بیدل کی تعریف میں ہے وہ یہ ہے۔

مجھے راہ سخن میں خوف گمراہی نہیں غالب

عصائے خضر صحرائے سخن ہے خامہ بیدل کا

یہ مقطع جس غزل میں شامل ہے اس میں سات اشعار ہیں اور ان میں سے صرف دو ہی اشعار متداول دیوان میں موجود ہیں اور مقطع بھی صرف ایک ہی ہے جو کہ متداول کلام میں شامل نہیں ہے۔

اسد ہر جا سخن نے طرح باغ تازہ ڈالی ہے

مجھے رنگ بہار ایجادی بیدل پسند آیا

اس شعر میں گیان چند جین کے مطابق سخن سے مراد بیدل عظیم آبادی ہیں ۔طرح کا مطلب بنیاد ہے۔ شعر کے معنی بالکل سامنے کے ہیں کہ بیدل نے بہت ساری جگہ تازہ مضامین کی بنیاد ڈالی ہے ۔نئی نئی بہاریں ایجاد کی ہیں۔ اے اسد مجھے ان نئی بہاروں کی ایجاد کا رنگ پسند آیا۔ اس شعر میں باغ تازہ، رنگ اور بہار کے ساتھ ایک اور لفظ کی رعایت قائم کی گئی ہے وہ لفظ ہے ’’ڈالی‘‘ بمعنی’’ ڈالنا‘‘ مصدر اور باغ میں’’ پھولوں کی ڈالی‘‘ اس طرح ڈالی لفظ کی رعایت نہایت باریک ،با معنی اور خوب ہو گئی ہے۔ بیدل کی شان میں دوسرا مقطع یہ ہے۔

مطرب دل نے مرے تار نفس سے غالب

ساز پر رشتہ پئے نغمۂ بیدل باندھا

رشتہ بمعنی تار۔ پے بمعنی تانت۔ شعر کے معنی یہ ہوئے کے میرے دل کے مطرب نے میرے نفس کے تار سے ساز پر ڈور بیدل کے تار نغمہ سے باندھی۔ اب دیکھیئے کہ مطرب کی  رعایت سے تار کا لفظ ،دل کی رعایت سے نفس کا لفظ، پھر دوسرے مصرعے میں مطرب کی رعایت سے ساز کا لفظ، ساز کی رعایت سے رشتہ اورپئے کا لفظ ،مطرب کی رعایت سے نغمہ کا لفظ اور مطرب یہاں کوئی دوسرا شخص نہیں بلکہ خود غالب ہیں۔ دوسرے مصرع میں پئے نغمۂ بیدل کی ترکیب بھی ندرت سے خالی نہیں ہے۔ اب ردیف الف کا وہ تیسرا مقطع دیکھئے جو بیدل پر غالب نے باندھا ہے۔

مجھے راہ سخن میں خوف گمراہی نہیں غالب

عصاے خضر صحرائے سخن ہے خامہ بیدل کا

اس شعر میں عصائے خضر صحرائے سخن کی ترکیب نہایت خوبصورت ہے۔ اس شعر میں راستہ خضر اور گمراہی کی رعایت تو بہت سامنے کی ہے۔ حضرت خضر کا کام ہی یہی ہے کہ راستے سے گم ہونے والے افراد کو راہ دکھانا ۔گویا ان کے ہوتے کوئی شخص گمراہ نہیں ہو سکتا ۔اب یہی صفت ان کے عصا کی بھی ہے اور اب شعر میں خامئہ بیدل عصاے خضر سے مشابہ ہے۔ گویا صحرائے سخن میں جس کے ہاتھ خامۂ بیدل ہوگا اس کا سخن بھی بیدل کی طرح کامیاب اورمعیاری ہوگا۔(یہ بھی پڑھیں غالبؔ کی قصیدہ گوئی: ایک تنقیدی مطالعہ – ڈاکٹر یوسف رامپوری )

نسخۂ حمیدیہ میں غالب کی ایک ہی غزل کے اندر کئی مقطع موجود ہیں ۔ اب تک میںنے جتنے مقطعے پیش کیے ہیں ان میں کئی غزلیں ایسی ہیں جن کے مقطعے مضامین کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ غالب نے اپنی غزلوں میں ایسی تبدیلیاں بہت کی ہیں ۔انہوں نے اپنی کسی غزل کے لیے مقطع باندھا پھر بعد میں اظہار کی سطح پر کچھ تبدیلی کردی۔ یا دو مصرعوں میں سے کوئی ایک مصرع تبدیل کردیا اور بعض اوقات تو مقطعے کے مضامین میں بھی تبدیلی واقع ہوگئی ۔مثلاً غالب کی ایک غزل کا مقطع غیر متداول دیوان میں یوں ہے۔

اسد کا قصہ طولانی ہے لیکن مختصر یہ ہے

کہ حسرت کش رہا عرضِ ستمہائے جدائی کا

اس شعر کے معنی یہ ہوئے کہ اسد کے غم کا قصہ تو بہت طویل ہے ۔لیکن مختصر یہ ہے کہ ہجر و فراق کا درد بیان کرنے کی حسرت باقی رہ گئی۔ غالب نے اسی مقطع کو تھوڑی تبدیلی کے بعد متداول کلام میں یوں شامل کیاہے۔

نہ دے نامے کو اتنا طول غالب مختصرلکھ دے

کہ حسرت سنج ہوں عرض ستم ہائے جدائی کا

یہ دونوں مقطعے مضامین کی سطح پر متحد ہیں۔ لیکن اظہار کی سطح مختلف ہے ۔اس کی وجہ سے دوسرے مقطع میں معنی بھی بہت حد تک مختلف ہوجاتے ہیں ۔پہلے والے مقطع میں کہیں نامہ تحریر کرنے کا ذکر نہیں ہے ۔بس قصہ کی طوالت کاہمیں علم ہوتا ہے کہ ان کا قصہ طویل ہے ۔یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ غالب اپنا حال دل کسی کو سنا بھی رہے ہیں۔ جب کہ دوسرے مقطع میں صرف نامے کا لفظ اس بات کی وضاحت کردیتا ہے کہ غالب اپنا حال دل بہت کچھ لکھ چکے تھے لیکن ہجر کی کیفیت اتنی شدیدہے کہ اسے جس قدر لکھا جائے کم ہے۔ اور پھر دوسرے مصرع میں حسرت کش کے بجائے حسرت سنج کی صفت زیادہ خوبصورت ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ پہلے مقطع میں حسرت کش رہا کا فعل زمانہ ماضی تک محدود تھا۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں ایک زمانے تک ہجر کا ستم عرض کرنے کو حسرت کش رہا اور رفتہ رفتہ یہ حسرت کم ہوگئی یا پھر ختم ہوگئی ۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ لفظ رہا کا زمانہ ٔ حال میںبھی اثر داخل ہے تو بھی اس میں غم کی وہ شدت نا پید محسوس ہوگی جو دوسرے مقطعے میں حسرت سنج ہوں کے فقرے سے محسوس ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ غالب نے رہا کے بجائے بعد میں ہوں کا لفظ استعمال کیا۔ اس طرح دونوں مقطعوں کے مضامین اگر چہ ایک ہیں۔ لیکن معنیٰ اور اظہار کی سطح بہت مختلف ہوگئی ہے۔ اب ان دو مقطعوں کے علاوہ غیر متداول کلام میں ایک اور مقطع موجود ہے جو کہ ان مقطعوں کے مضمون سے بالکل الگ ہے۔

اسد یہ عجزو بے سامانی فرعون توام ہے

جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے خدائی کا

توام کے معنیٰ جڑواں بچے ۔ فرعون توام کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بچہ جو فرعون کے ساتھ پید ہوا ہو۔بہت سارے زاہدوں کو عجزو بے سامانی کا غرا بھی ہوا کرتا ہے اوراپنے زہدو تقوی کی بنیاد پر مقرب الی اللہ ہونے کی خوش فہمی بھی ہوا کرتی ہے۔ اس بنیاد پر وہ دوسروں کے مقابلہ خود کو برتر اور اعلیٰ تصور کرتے ہیں اور ان کا یہ تصور تکبر کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے ۔گویا ان کی اس نوعیت کی بے سامانی فرعون توام یعنی فرعون کے تکبر اوراپنی ذات کو اعلیٰ و ارفع سمجھنے کے مشابہ ہے۔ تو ظاہر ہے کہ زاہد جسے بندگی تصور کررہاہے وہ بندگی نہیں بلکہ بندگی کا التباس اورخدائی ہے۔ (یہ بھی پڑھیں غالب کا ’مرثیۂ عارف‘: ایک تنقیدی تجزیہ – ڈاکٹر صفدر امام قادری )

غالب کا وہ مقطع جس میں انہوں نے شعر میں کوئی ایک مصرع مسترد کر کے کوئی دوسرا مصرع باندھا ہے وہاں اصل دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ وہ مصرع جسے مسترد کیا گیا ہے اس کا فنی سروکار اور حسن کیا ہے۔ اور بعدمیں اس کی جگہ پر جو مصرع رکھا گیا ہے وہ معنیٰ آفرینی کے لحاظ سے کتنا روشن ہے؟۔ مثلاً غالب کے غیر متداول کلام میں ایک مقطع اس طرح ہے ۔

فلک کو دیکھ کر کرتا ہے تجھ کو یاد اسد

اگر چہ گمشدہ ہے کاروبار دنیا کا

اس مقطعے کے مقابلہ میں متداول کلام کے اندر جو مقطع شامل ہے اس کادوسرا مصرع تو اس کو اور تجھ کو کے فرق کے ساتھ تقریباً وہی ہے ۔لیکن دونوں مقطعوں میں مصرع ثانی مختلف ہے۔ متداول دیوان میں یہ مقطع اس طرح ہے۔

فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اس کو یاد اسد

جفا میں اس کی ہے انداز کار فرما کا

دونوں مقطعوں کا مضمون یکساں ہے۔ یعنی اسد جب بھی فلک کو دیکھتا ہے تو معشوق کی یاد آجاتی ہے۔ اس کی وجہ فلک اور معشوق کے ظلم کا مشابہ ہونا۔ لیکن مضمون کے اتحاد کے باوجود مصرعوں کے تبدیل ہونے کی وجہ سے شعر کے طریقۂ اظہار ، معنوی سطح اور اسلوب میں غیر معمولی فرق واقع ہوگیاہے۔

فلک کو دیکھ کر کرتا ہے تجھ کو یاد اسد

اگرچہ گمشدہ ہے کاروبار دنیاکا

غالب کا یہ مقطع غیر متداول دیوان میں موجود ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ اسد اگر چہ دنیا کے کاروبار میں مشغول ہے۔ اور پھر دنیا کا کاروبار ہے ہی مشغول کردینے والا۔ لیکن اس کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ اس نے اے معشوق تجھے بھلا دیا ہے۔ جب بھی وہ فلک کو دیکھتا ہے اور اس کے ستم کو یاد کرتا ہے تو اسے تیری یاد آجاتی ہے۔ اس میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ انسان دن رات فلک کو ارادی اور غیرارادی طور پر دیکھتا رہتا ہے ۔اسطرح  سے اسد معشوق اور اس کے ڈھائے ہوئے ظلم کے تصور سے غافل نہیں ہوتا۔اس مقطعے کے مقابلے میں جو مقطع متداول دیوان میں ہے اس کی معنوی جہت اور زیادہ وقیع ہوگئی ہے وہ اس طرح ہے۔

فلک کو دیکھ کر کرتا ہوں اس کو یاد اسد

جفا میں اس کی ہے انداز کار فرما کا

اس مقطعے میں اول تویہ کہ تجھ کو کے بجائے اس کو کی ضمیر استعمال کی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جفا کا لفظ صراحتاً استعمال کیا گیا تاکہ فلک کے ظلم و جور سے معشوق کی جفا پوری طرح مشابہ نظر آئے ۔تیسری بات یہ ہے کہ فلک کی مناسبت سے دوسرے مصرعے میں کارفرما کا لفظ رکھا گیا ہے ۔ کار فرما  ایک معنیٰ میں تو حکم کرنے والا۔کار فرما کا رشتہ حاکم دنیا اور کاروبار دنیا سے بھی قائم ہوجاتا ہے۔ کارفرما کا ایک مطلب کام بنانے والا بھی ہے ۔ اس طور سے اس کا رشتہ تقدیر ساز سے قائم ہوجاتا ہے۔ اس مقطع کے تعلق سے یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس میں خود کلامی کا لہجہ ہے جو اسے دوسرے مقطع سے الگ کردیتاہے۔ لیکن اسے اجتماعی طور پرتخاطب پرمحمول کیا جائے گا۔اس نوعیت کی ایک مثال ردیف الف میں بھی موجود ہے جو غالب کی نہایت مشہور غزل کا مقطع ہے۔

ہے اسد بیگانۂ افسردگی اے بیکسی

دل ز انداز تپاک اہل دنیا جل گیا

یہ مقطع غیر متداول کلام کا حصہ ہے ۔اس کے مقابلے میں وہ مقطع جو کہ متداول کلام میں ہے وہ یہ ہے۔

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دل

دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا

پہلے والے مقطع میں بیگانہ ٔ افسردگی کی ترکیب اور دوسرے والے مقطع میں افسردگی کی آرزو والی اضافت ہے یعنی دل اگر افسردگی کی وجہ سے جل جاتا تو پھر ایسی کوئی بات نہ تھی۔ معاملہ یہ ہے کہ دل اہل دنیا کے تصنع اور بناوٹ پن کی وجہ سے جلا ہے۔ پہلے والے مقطعے میں بیکسی سے تخاطب شعر میں زائد اضافہ تھا۔ جس کی وجہ سے غالب نے بعد میں پہلا مصرع تبدیل کردیا۔ اور اس کی جگہ دل جس سے کہ دوسرے مصرعے کہ ابتدا ہورہی تھی اسے پہلے مصرعے کے آخر میں رکھا اور انداز کی جگہ طرز کا لفظ استعمال کیا۔ شعر بلاشبہ برجستہ اور رواں ہے۔ اسی نوعیت کی ایک اور مثال غالب کے مقطعے میں یوں ہے ۔

بیداد عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسد

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

اب اس شعر کے مقابلے جو مقطع غیر متداول کلام میں شامل ہے وہ کچھ یوں ہے۔

انداز نالہ یاد ہیں سب مجھ کو پر اسد

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

انداز نالہ یاد ہیں سب مجھ کو یعنی نالہ کرنے کے انداز سے میں ابھی بھی واقف ہوں لیکن وہ دل جس پر مجھے ناز تھا وہ اب نہیں ہے۔ اس سے پہلے والے مقطع میں بھی یہ بات کہی گئی تھی کہ دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا اور اب اس مقطع میں بھی تقریباً وہی بات ہے۔یہاں بھی غالب نے صرف ایک مصرع تبدیل کیا ہے۔نہ صرف ردیف الف میں بلکہ ردیف ی تک غالب کی غزل میں ایسی بہت مثالیں مل جائیں گی جہاں ایک مصرعے کی تبدیلی کے ذریعہ محض طریقۂ اظہار میں تبدیلی آئی ہے اور یہ تبدیلی معنیٰ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔

ردیف الف میں غالب کی ایسی کئی غزلیں ہیں جومتداول اور غیر متداول دونوں دیوان میں موجود ہیں۔ غالب نے وہاں صرف ایک ہی مقطعے پر اکتفا کیا ہے اور اس مقطع کو متداول کلام میں بھی شامل کیا ہے۔

اسد ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سرو پا ہیں

کہ ہے سر پنجۂ مژگان آہو پشت خار اپنا

اس شعر کے تعلق سے فاروقی صاحب کی تشریح نہایت دلچسپ ہے۔ ان کے خیال میں یہ شعر لفاظی پر مبنی ہے۔ جس میں چند درچند رعایتوں نے نئی شان پیدا کردی ہے۔ شعر کے معنیٰ یہ ہیں کہ اسد ہم وہ جنوں جولاں گدا ہیں جس کی بے سروسامانی کا عالم یہ ہے کہ ہم بے سروپاہیں۔ یہاں بے سروپا ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہم دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں ۔دوسرے مصرعے میں مژگان آہو کا سر پنجہ پشت خار ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ میں تیز بھاگنے میں آہو سے بھی آگے ہوگیا ہوں اور آہوں کی مژگان کا سرپنجہ گویا میرے لئے پشت خار کے مثل ہوگیا ہے۔فاروقی صاحب کا خیال ہے کہ اس شعر میں غالب کا محبوب فن یعنی قول محال بھی اپنی پوری کیفیت کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔وہ لکھتے ہیں ۔

’’اس میں ایک قول محال یوں ہے کہ ایک طرف تو جنوں جولانی میں یہ تیزی ہے کہ آہو سے بھی آگے نکل گئے ہیں اور دوسری طرف بے سرو سامانی کا یہ عالم ہے کہ سروپا بھی نہیں رکھتے ۔ ظاہر کہ سروپانہیں ہیں تو دوڑیں گے کس طرح ؟ دوسری طرف قول محال یہ ہے کہ جب سروپا نہیں تو وجود بھی نہیں اور جب وجود نہیں تو وہ آہو بھی خیالی ہے جس کی مژگان سے پیٹھ کھجانے کا کام لیتے ہیں ۔ پھر سر پنجہ میں مزید لطف ہے کہ اپنا سرپنجہ نہیں تو مژگان آہو کا سرپنجہ تو موجود ہے اسی سرپنجہ کی مناسبت سے پشت خار بھی قابل لحاظ ہے ‘‘   ۶؎

غالب کے کچھ مقطعے تفہیم کے اعتبار سے نہایت آسان ہیں۔ ان کا حسن بالکل سامنے کا ہے اور ان کے مقابلے میں کوئی دوسرا مقطع اس کی غزل میں موجود نہیں ہے۔

دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار اسد

غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا

 

حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب

جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

 

فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد

دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہوجائیگا

 

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد

سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

 

کوہکن نقاش یک تمثال شیریں تھا اسد

سنگ سے سرمار کر ہووے نہ پیدا آشنا

غالب کے بعض مقطعے تو سہل الفہم ہوتے ہیں جن کے معنیٰ باآسانی گرفت میں آجاتے ہیں۔ اس ضمن میں خاص کر متداول کلام کے مقطعوں کو بطور مثال رکھا جاسکتا ہے ۔مذکورہ بالا مقطعے تقریباً اسی نوعیت کے ہیں۔ غالب کے متداول دیوان میں بعض غزلیں مقطعوں سے خالی بھی ہیں۔ خاص کر ردیف الف میں مجھے دس غزلیں ایسی مل گئیں جن میں مقطع شامل نہیں ہے۔ بعض غزلوں میں تو ایک غزل میں کئی اشعار موجود ہیں لیکن مقطع موجود نہیں ہے لیکن غیرمتداول کلام میں مقطع شامل ہے۔ ان تمام مقطعوں کو میں ایک ساتھ پیش کررہا ہوں تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ یہ تمام مقطعے جنہیں غالب نے مسترد کردیا تھا معنیٰ آفرینی تہہ داری اور پیچیدگی کی سطح پر ان کی کیا شکل بنتی ہے۔

بینوائی تر صدائے نغمۂ شہرت اسد

بوریا یک نیستان عالم بلند پروازہ تھا

 

اسد وحشت پرست گوشۂ تنہائیِ دل ہے

برنگ موج مئے خمیازہ ساغر ہے رم میرا

 

صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسد

جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا

 

بصورت تکلف بمعنی تأسف

اسد میں تبسم ہوں پژمردگاں کا

 

ہررنگ میں جلا اسد فتنہ انتظار

پراونۂ تجلی شمع ظہور تھا

 

اسد ساغر کش تسلیم ہوں گردش سے گردوں کی

کہ ننگ فہم مستاں ہے گلہ بدروزگاری کا

 

جوش بہار کلفت نظارہ ہے اسد

ہے ابر پنبہ روزن دیوار باغ کا

 

اس چمن میں ریشہ داری جس نے کھینچا ہے اسد

تر زبان لطف عام ساقی کوثر ہوا

 

بوئے یوسف مجھے گلزار سی آتی تھی اسد

دے نے برباد کیا پیراہن ستاں میرا

 

کل اسد کو ہم نے دیکھا گوشۂ غم خانہ میں

دست برسر ۔ سربہ زانوی دل مایوس تھا

مذکورہ بالا تمام اشعار غالب کے مسترد کلام کا حصہ ہیں ۔ان میں سے کوئی بھی مقطع متداول کلام میں شامل نہیں ہے۔ متداول دیوان میں شامل ان کی غزل مقطعوں سے خالی ہے۔ ان میں سے بیشتر مقطعے معنیٰ کی تفہیم کے اعتبار سے بہت سخت نہیں ہیں۔ ان میں معنوی تہہ داری تو ہے لیکن معنوی پیچیدگی، ابہام اور مشکل پسندی ایسی نہیں ہے کہ ان کے معنی گرفت میں نہ آسکیں۔ ان میں بعض شعر تو اس قدر آسان ہیں کہ محض ایک یادو قرأت میں معنی تک رسائی ممکن ہے ۔بعض اشعار ایسے بھی ہیں جن کے لیے ممکن ہے چار پانچ قرأت کی ضرورت در پیش ہو ۔ لیکن کوئی ایک شعر ایسا نہیں جسے سمجھنے میں دشواری پیش آئے ۔ غالب نے اگرچہ بہت سارے اشعار کے ساتھ مقطعوں کو بھی مسترد کیا تھا اور متداول دیوان کی بہت ساری غزلیں مقطعوں کے بغیر ہی موجود ہیں۔ ان مقطعوں کو مسترد کرنا اگرچہ غالب کا ذاتی رویہ تھا لیکن آج اتنے دنوں بعد ہم جب ان مقطعوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں سے کئی مقطعے ہماری تسکین ذوق کا سامان آراستہ کرتے ہیں۔ بہت سارے مسترد مقطعوں کی قرأت کے دوران ہماری نظران پر ٹھہر جاتی ہے۔ ہم ٹھہر کر ان مقطعوں کے الفاظ کے مابین انسلاکات تلاش کرتے ہیں۔ ان کے معنی دریافت کرتے ہیں۔ ان کی تہہ داریوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

ردیف الف میں غالب کی وہ غزلیں جن کا کوئی بھی شعر متداول دیوان میں شامل نہیں ہے ان کی تعداد ۲۲ تک پہنچتی ہے انہیں بھی دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اول تو وہ جن کے معنی بالکل سامنے کے ہیں اور ان کی تفہیم آسانی کے ساتھ کی جاسکتی ہے اگرچہ معنوی تہہ داری ان کی اہم خصوصیت ہے ۔اس زمرے میں اس نوع کے اشعار رکھے جاسکتے ہیں۔

اسد خاک در مئے خانہ اب سر پر اڑاتا ہوں

گئے وہ دن کہ پانی جام مے کاتابہ زانو تھا

 

اسد کو بت پرستی سے غرض درد آشنائی ہے

نہاں ہیں نالہ ٔ ناقوس میں در پردہ یارب ہا

 

شوق سامان فضولی ہے وگرنہ غالب

ہم میں سرمایہ ایجاد تمنا کب تھا

 

جوش بے کیفیتی ہے اضطراب آرا اسد

ورنہ بسمل کا تڑپنا لغزش مستانہ تھا

 

دیوانگی اسد کی حسرت کش طرب ہے

در سر ہوائے گلشن۔ در دل غبار صحرا

 

عیادت سے اسد میں بیشتر بیمار رہتا ہوں

سبب ہے ناخن دخل ِ عزیزاں سینہ خستن کا

 

اسد ارباب فطرت قدردان لفظ و معنیٰ ہیں

سخن کا بندہ ہوں لیکن نہیں مشتاق تحسیں کا

 

عیب کا دریافت کرنا ہے ہنرمندی اسد

نقص پر اپنی ہوا جو مطلع کامل ہوا

 

نہ پوچھ حال شب وروز ہجر کا غالب

خیال زلفِ رخ دوست صبح و شام رہا

 

اسد مایوس مت ہوگرچہ رونے میں اثر کم ہے

کہ غالب ہے کہ بعد از زاری بسیار ہو پیدا

میں نے ان ۲۲ غزلوں سے جس کا کوئی شعر بھی متداول دیوان میں شامل نہیں ہے ۱۰ غزل کے مقطع اوپر پیش کیے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے کوئی مقطع مشکل معلوم ہو۔ لیکن اس زمرے میں بیشتر مقطعے وہ ہیں جن کے معنی بالکل سامنے کے ہیں اور ان میں دماغ سوزی کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔اب میں ان ۱۲ غزلوں کے مقطعے پیش کرتا ہوں جو اس پہلے زمرے کے مقابلے کچھ سخت اور مشکل ہیں۔

 

اسد کو پیچتاب طبع برق آہنگ مسکن سے

حصار شعلۂ جوالہ میں عزلت گزیں پایا

 

اسد ہر اشک ہے یک حلقہ ہر زنجیر افزودن

بہ بند گریہ ہے نقش برآب امید رستن ہا

 

اسد تار نفس ہے ناگزیر عقدہ پیرائی

بنوک ناخن شمشیر کیجیے حل مشکل ہا

 

اسد سودائے سر سبزی سے ہے تسلیم رنگیں تر

کہ کشت خشک اس کاابرے پروا خرام اسکا

 

شکوۂ یاراں غبار دل میں پنہاں کردیا

غالب ایسے گنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا

 

اسد تاثیر صافی ہائے حیرت جلوہ پرور ہو

گرآب چشمۂ آئینہ ہووے عکس زنگی کا

 

شام فراق یار میں جوش  خیر ہ سری سے ہم نے اسد

ماہ کو در تسبیح کواکب جائے نشین امام کیا

 

اے خوشاذوق تمنائے شہادت کہ اسد

بے تکلف بہ سمود خم شمشیر آیا

 

اسد اے ہر زہ درا نالہ بہ غوغاتا چند

حوصلہ تنگ نہ کربے سبب آزاروں کا

 

فریاد سے پیدا ہے اسد گرمی وحشت

تبخالۂ لب ہے جرس آبلۂ پا

 

حیرت انداز رہبر ہے عناگیراے اسد

نقش پائے خضر یاں سد سکندر ہوگیا

 

اسد جس شوق سے ذر ہے تپش فرسا ہوں روزن میں

جراحت ہائے دل سے جو ہر شمشیر ہے پیدا

غالب کے مسترد اشعار کے تعلق سے ہمیشہ یہ بات کہی گئی ہے کہ وہ تمام اشعار مشکل پسندی کے ادق نمونے ہیں اور عموماً اس رائے کے پیش نظر ان مسترد اشعار پر کم کم التفات کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس بے دریغ رائے کی ضمن میں غالب کے وہ مقطعے بھی شامل ہوجاتے ہیں جنہیں غالب نے مسترد کردیا تھا۔ غالب کی وہ ۲۲ غزلیں جن کا کوئی شعر متداول دیوان کا حصہ نہیں ہے ان کے مقطعوں کو مشکل اور آسان دو زمروں میں ایک ساتھ دیکھنے کے بعد اس بات کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اجتماعی طور پران کی کیا شکل بنتی ہے میں نے ان دو زمروں میں جو ترتیب قائم کی ہے آپ اس سے اختلاف کرسکتے ہیں اور آسان اشعار والے زمرے کے بعض اشعار مشکل اشعار والے زمرے میں اور مشکل اشعار والے زمرے کے چند اشعار آسان اشعار والے زمرے میں شامل کرسکتے ہیں۔تفسیر غالب میں گیان چند جین نے غالب کے غیر متداول کلام کی تشریح بیشتر مواقع پر تشفی بخش کی ہے ۔اسلئے میں یہاں غیر متداول کلام کے مشکل مقطعوں کی تشریح سے صرف نظر کرتا ہوں۔مشکل اشعار والے زمرے میں بھی کوئی شعر ایسا معلوم نہیں ہوتا جس کے معنی پر گرفت مشکل نظر آئے اور بارہا قرأت کے بعد بھی معنی ذہن سے پھسل جائیں۔ ان میں سے بعض اشعار تو ایسے ہیں جن کی چند قرأت سے ہی اس کے معنی واضح ہوجاتے ہیں ۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ غالب کے کلام کا وہ حصہ جسے غالب نے مسترد کردیا تھا بلا شبہ سخت ہے۔ اب ان غزلوں کے مقطعوں کو بھی دیکھ لیجیے جن کی غزلیں صرف متداول کلام میں موجود ہیں اور ان کا کوئی شعر غیر متداول کلام میں نہیںہے۔

یہ لاش بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

 

نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالب

کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

 

تاراج کاوش غم ہجراں ہوا اسد

سینہ کہ تھا دفینہ گہرہائے راز کا

اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند

واسطے جس شہ کے غالب گنبد بے در کھلا

 

ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسد

ہم نے یہ مانا کہ دہلی میں رہیں کھائیں گے کیا؟

 

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

 

بلائے جاں ہے غالب اس کی ہربات

عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا

 

تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے

دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشہ نہ ہوا

 

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں

آج غالب غزل سرا نہ ہوا

 

درماندگی میں غالب کچھ بن پڑے تو جانوں

جب رشتہ بے گرہ تھا ناخن گرہ کشا تھا

 

ہوئی مدت کہ غالب مرگیا پر یاد آتاہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

 

ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

 

ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے

بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

 

بخشے ہے جلوۂ گل ذوق تماشہ غالب

چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا

مذکورہ بالا مقطعوں کی غزل صرف متداول کلام میں شامل ہے اور ان میں صرف ایک ہی مقطع موجود ہے۔ ان مقطعوں میں سے بیشتر وہ مقطعے ہیں جوعموماً لوگوں کی ذہن میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض مقطعے تو بہت مشہور ہیں۔ ان مقطعوں کی شہرت اور مقبولیت سے قطع نظر اگر ان کا موازنہ غیر متداول کلام کے ان مقطعوں سے کیا جائے جن کی غزل کا کوئی بھی شعر متداول کلام کا حصہ نہیں ہے توممکن ہے یہ متداول کلام والے مقطعے آپ کو زیادہ متاثر کریں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشکل پسندی اور پیچیدہ بیانی جو کہ غالب کا خا ص وصف ہے ان مقطعوں میں نہیں ۔ان کا اسلوب زبان اور اظہار کا طریقہ غالب کے ابتدائی زمانے کے کلام سے بہت مختلف ہے۔ یہ بعد کے مقطعے ہمیں اس وجہ سے بھی متاثر کرتے ہیں کہ ہم نے بیشترغالب کی قرأت میں متداول کلام ہی کو ترجیح دی ہے۔ لہٰذا اس کی غزلوں اور مقطعوں سے ہمیں ایک طرح کی مانوسیت کا احساس ہوتا ہے۔ جبکہ وہ غزلیں اور ان کے مقطعے جو متداول کلام میں نہیں ان کی قرأتوں کے بعد بھی ہمیں اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔ ان میں پیچید ہ بیانی بھی ہے اور نازک خیالی بھی لیکن وہ مقطعے بھی عموما تفہیم کی گرفت سے باہر نہیں نکلتے۔ اور پھر یہ دیکھئے کہ متداول کلام کے مقطعوں میں زبان کی چاشنی اور روانی کے علاوہ تعلي کے مضامین بھی ہیں۔ اورغالب کے متداول کلام کے وہ مقطعے جن میں تعلي کے مضامین ہیں ان میں معنی آفرینی بھی ہے ۔

نسخۂ حمیدیہ میں چونکہ غالب کے متداول اور غیرمتداول دونوں دیوان کے مقطعے شامل ہیں لہٰذا ان مقطعوں میں اصل دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ان میں غالب کا تخلیقی رویہ کیا ہے؟۔اس رویہ کو نفسیاتی نقطہء نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ غالب نے تعلی کے علاوہ بھی مقطعوں میں مختلف نوع کے مضامین باندھے ہیں ان مضامین میں معنی آفرینی کی سطح کیا ہے ؟۔ کیا تخلص سے معنیٰ آفرینی کاعمل متا ثر ہوا ہے یا ا س سے شعر کی معنوی جہت میں اضافہ ہوا ہے؟ ۔غالب کے کئی مقطعوں کا مضمون اس غزل کے کسی شعر سے بھی مشابہ ہے ۔ ان حوالوں سے بھی غالب کے مقطعوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے کچھ اورسوالات قائم کئے جاسکتے  ہیںاور ان سوالات کا بنیادی تعلق نسخۂ حمیدیہ سے ہے۔

 

مضمون نگار شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔
ثاقب فریدیمرزا غالبنسخۂ حمیدیہ
2 comments
1
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
حقيقت حسن- علامہ اقبال
اگلی پوسٹ

یہ بھی پڑھیں

صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ –...

مئی 5, 2025

 ایک اسلوب ساز شاعر اور نثر نگار شمیم...

جنوری 20, 2025

حسرت کی سیاسی شاعری – پروفیسر شمیم حنفی

جنوری 15, 2025

غالب اور تشکیک – باقر مہدی

جنوری 15, 2025

غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات...

دسمبر 17, 2024

غالب اور جدید فکر – پروفیسر شمیم حنفی

دسمبر 9, 2024

اردو شاعری میں تصوف کی روایت – آل...

دسمبر 5, 2024

غالب کی شاعری کی معنویت – آل احمد...

دسمبر 5, 2024

بلند ؔ اقبال کی شاعری میں حسیاتی پہلو:...

نومبر 24, 2024

ناصر مصباحی: روایت اور جدت کا معتبر شاعر...

اکتوبر 4, 2024

2 comments

ڈاکٹر محمد مقیم دسمبر 5, 2020 - 9:31 صبح

سب سے پہلے تو مبارکباد پیش کرتا ہوں ایک دلچسپ موضوع پر نظر ڈالنے کے لیے۔ عمدہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ بعض اشعار پر اگر یہ سوچ کر غور نہ کیا جائے کہ شعر غالب کا ہے تو نتائج کچھ اور نکلیں گے، جو یقیناً دلچسپی سے خالی نہ ہوتے۔ غیر متداول دیوان میں جو ’’موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا‘‘ مندرج ہے تو یہ محض وحشت یہ رمیدگی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ’’گداز وحشت زنداں‘‘ کی شدت اور اس کی انتہا کو بیان کرنے کے لیے ہے اسی لیے ’’نہ پوچھ‘‘ لائے ہیں۔ اس شعر کو متداول دیوان میں شامل نہ کرنے کی وجہ شعر کا مشکل ہونا باور کرنا کچھ مناسب نہیں معلوم ہورہا۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ رعایتیں اور مناسبتیں تو قائم ہورہی ہیں لیکن بات بنی نہیں۔ یہ شعر عشقیہ مضمون کا زائیدہ ہے اگرچہ براہ راست نہیں ہے لیکن عشق ہی کے طفیل یہ مضمون پیدا ہوا ہے۔ اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ غیر متداول دیوان کے شعر میں وحشت عشق کی زائیدہ نہیں ہے بلکہ زنداں کی رہین ہے۔ اس وجہ سے شعر کمزور ہوگیا تھا۔ مجھے لگتا ہے اسی لیے غالب نے شعر میں حک و اصلاح کرکے متداول دیوان میں دوبارہ پیش کیا ہے جو ہر لحاظ سے غیرمتداول دیوان والے شعر سے بہتر ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ آتشیں پا ہونے کا کوئی سبب نہیں بتایا گیا ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ عشق کی وجہ سے ہے لیکن سوال یہ ہے کہ شعر میں عشق ہے کہاں؟ وہاں تو وحشت میں جو گداز ہے وہ زنداں کی وجہ سے ہے۔ البتہ جب یہ کہا گیا کہ ’’بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا‘‘ تو بات زیادہ بہتر ہوگئی۔ یعنی کہ اسیری ہوئی ہی اسی لیے ہے کہ تڑپ اور بے چینی نے دیوانگی اور جنون کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اور یہ بات بالکل درست کہی آپ نے کہ گیان چند جین نے جو مژہ جوہر نہیں کی جو تعبیر کی ہے اس میں بڑی الجھنیں ہیں اور بات بنی نہیں۔ یہ بات بھی محل نظر ہے کہ مژہ ، آنکھ کی علامت ہے۔
موضوع دیکھ کر رہا نہیں گیا۔ سوچا کچھ اظہار خیال کروں۔

Reply
گوہر رؤف اگست 4, 2022 - 10:57 صبح

ماشاء اللّٰہ! بہترین پلیٹ فارم پر بہترین تحریر۔

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (473)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,127)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں