مغربی بنگال فنکاروں کی ریاست ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں گیت جنم لیتا ہے موسیقی پلتی ہے یہاں کی فضاؤں میں ترنم مچلتی ہے اس کے آغوش میں راگنیاں اٹھکھیلیاں کرتی ہیں۔ مترنم لہریں ایک دل سے اٹھ کر سیکڑوں دلوں کو مدہوش کر دیتی ہیں ۔ یہاں کی تہذیب و تمدن اتحاد، تہوار ،بولیاں ،مجلسیں، کھیتوں کی منڈیروں پہ گا تا کسان،کلکتہ کی فلک بوس عمارتوں سے ٹکراتے نعرے،مسٹی دوئ،رسو گلا، ساری دنیا میں منفرد پہچان رکھتے ہیں اس ریاست کو انقلاب کی ماں کہنا بے جا نہ ہوگا اس سرزمین نے بے شمار ایسے جیالے پیدا کئے جو تاریخ کے صفحوں پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گئے اور آنے والی صدیوں کے لئے ایک ایسی راہ چھوڑ گئے جہاں اپنا تن من نچھاور کر مٹی کی عظمت کے گن گائے جاتے ہیں انقلابوں کا مرکز مغربی بنگال جہاں کی مٹی میں نفرت اور تشدد کے پودے کبھی آگے ہی نہیں یہ زمین ایسے بیجوں کو اپنے اندر ہی خاک کر دیتی ہے اور اس خاک سے محبت کے پھول اگاتی ہے۔دل جب مایوسی کی کال کوٹھری میں جانے کو ہوتا ہے تب رابندر ناتھ ٹیگور کی نظمیں دلوں میں نیا جوش نیا ولولہ پیدا کرتی ہیں۔جب بازوں شکستہ ہو جاتے ہیں تو قاضی نزرل اسلام کی صدائیں شکستہ بازوؤں کو آہنی قوت عطا کرتی ہیں، ذات حق کی قربت کا جذبہ جب بیدار ہوتا ہے تب للن فقیر کے باؤل گیت ذات حق کی وحدانیت کے راگ الاپتے ہیں۔تصور حق کی لو بڑھاتی وویکا نند کی امرت بانی دلوں کو منور کر دیتی ہیں۔المختصر یہ ریاست زندگی کے مثبت پہلوؤں کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ ہمت اور حوصلے کی ریاست ہے۔اس بات کا گواہ آپ سب لوگ ہیں کہ ہماری اس ریاست میں جب ٹیوب ویل نصب کیا جاناہو،فصل کے کٹائی کرنی ہو، دشمنوں کے خلاف صف آرا ہونا ہو تو لوگ کچھ مترنم مصرعے گنگناتے ہیں کوئی گیت گاتے ہیں۔یہ گیت کیا ہے؟ اور کسی کام کو کرتے وقت یہاں کے لوگ گیت کیوں گاتے ہیں؟ اس کا جواب بہت آسان ہے کہ موسیقی یہاں کے لوگوں کے رگوں میں لہو بن کر دوڑتی ہے اس ریاست میں گیت سنگیت ایک جنون ہے، ایک نشہ ہے، ایک صحیفہ ہے، توانائی کا مرکز ہے اور لوگ جب ان گیتوں کو گاتے ہیں تو ان پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہےاور وہ سخت مشکل کام کو نہایت آسانی سے انجام دے دیتے ہیں ان گیتوں کو گنگناتے وقت مزدور کا پسینہ مشک و عنبر کی خوشبو دیتا ہے،جسم سے بہتا خون کھیتوں کی لہلہاتی فصلیں معلوم ہوتی ہے اور نحیف جسم ان گیتوں کی سحر کاری سے چٹان بن جاتا ہے۔دنیا کی تماش گاہ میں ہمت کا پہلا قدم یہی ریاست اٹھاتا ہےاور نغمہ شاد مانی چھیڑ دیتا ہے. (یہ بھی پڑھیں کلائیڈو سکوپ” کےعکس میں جاوید نہال حشمی – نسیم اشک )
مختلف فنون کا مرکز بنگال نظموں اور گیتوں کی سرزمین ہے۔دیوانوں ،سرفروشوں،قلندروں اور شاعروں کی سرزمین ہے۔دنیاۓ شاعری میں اپنی نظموں کا سحر بکھیرنے والی یہ ریاست نے شاعری کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنی ثقافت کا ایک اٹوٹ حصہ بنایا۔شاعری کو اس نے اپنے ماتھے کا زیور بنایا اسی ماتھے کے زیور کا ایک نگینہ ارمان شام نگری ہیں۔
ارمان شام نگری  ایک استاد شاعر تھے بلکہ یوں کہوں کہ ایک آفتاب  تھے جن کی شعاعوں کو حاصل کر کے کئی ماہتاب آسمان ادب پر جلوہ فگن ہوۓ۔ ارمان شام نگری کا اصل نام  محمد محی الدین اور قلمی نام ارمان شام نگری ہے مغربی بنگال کے ضلع ٢٤ پرگنہ کے شام نگر میں ١٩٢٥ءمیں انکی پیدائش ہوئی۔ ارمان شام نگری نے ایک ایسے سماج میں اپنی آنکھیں کھولی جہاں علم و فن سے بے گانگی تھی اور شائد یہی وجہ رہی کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیم کی خواہش کے باوجود حاصل نہ کرسکے اور گارولیا مل ہای اسکول سے درجہ ہفتم تک پڑھائی کرنے کے بعد دنیاوی تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا۔ان کا آبائی وطن بلیا(یو۔پی) ہے۔ظاہر ہے جس سماج میں ارمان شام نگری نے اپنا پہلا قدم رکھا ہے روایت پسند نہ ہو کر تو ہم پرست تھا۔لہزا بچپن کی کھیل کود کے بعدجب جوانی کی پہلی سیڑھی پر قدم ہی  رکھا ،سن بلوغت کو سلام ہی کیا تھا کہ شادی کی بڑی ڈنہ داری نے وعلیکم السلام کہہ دیا۔شادی کے بعد ازدواجی زندگی کی راہیں   بہت  پرپیچ اور پر خار تھیں مگر موصوف بڑی تن دہی سے   تمام فرائض بخوبی انجام دیتے رہے طبیعت میں موزونیت تھی اور دل شاعر تو پھر دونوں نے  مصافحہ کر ہی لیا ۔عمر کے آخری حصے میں قادرا لکلام شاعر کی حیثیت سے تسلیم کۓ جانے لگے  اور مضافات کے بہت سے شاگردوں  کو شاعری کے گر سکھاۓ اور شعر گوئی کا فن سکھایا۔ ارمان شام نگری کی شاعری کا معیار کیا تھا اس پر آگے بات ہوگی اس سے قبل آپ کے گوش گزار کرتا چلوں کہ ارمان شام نگری کے شعری مجموعے "نوائے ارماں ” ١٩٥٤ء پر ڈھاکہ سے طوطئ بنگالہ علامہ رضا علی وحشت نے اپنے تاثرات ارسال کۓ تھے۔یہ بات  کسی شاعر کے فن کی بلندی کی سند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمر بھر اپنی روشنی سے دوسرے چراغوں کو روشن کرنے والا شاعر گمنامی میں غربت کی کھائی میں پڑا سسکتا رہا، غموں کی راتیں اتنی سیاہ تھیں کہ اجالے  کا تصور بھی ممکن نہ تھا کچھ حالات کی ستم ظریفی اور کچھ بے توجہی کی شکار ان کی شاعری اپنی باری کے انتظار میں بہت دیر کھڑی رہی۔انکی شاعری پر جو کام ہونا چاہئے تھا وہ نہ ہوا۔
کلاسیکی شاعری جب اپنے عروج پر تھی تب ارمان شام نگری نے ترقی پسند شاعری کو چنا کیوں چنا؟  اس لئے چنا کیوں کہ انکی طبیعت کو کلاسیکی شاعری سے زیادہ ترقی پسند شاعری نے متاثر کیا ترقی پسند شاعر مجاز لکھنوی کو پیش نگاہ رکھتے تھے شاعری ان کے نزدیک صرف محبوب کا سراپا بیان کرنے کا نام  نہیں ہے اسکے علاوہ زمانے میں اور بھی ہزاروں طرح کے غم ہیں اور انسان کا ان غموں سے نبردآزمائی ضروری ہے۔مفلسی کی کوکھ سے جنما شاعر پھول کی وادی میں کہاں سیر کرتا ہے اسکے خوابوں میں کوئی لال پری کا ذکر   کہاں ملتا ہے اس کے دل میں دھڑکنیں پیدا تو ہوتی ہیں مگر اس خیال سے  نہیں کہ محبوب کی آمد آمد ہے بلکہ اس خوفناک خیال سے کہ آج کا دن کیسے گزرے گا؟کنبے کی  کفالت کیسے ہو پائے گی۔زندگی میں بے شمار ایسے واقعات  ہوتے ہیں جو ہماری پہلی نظر کے طالب ہوتے ہیں لیکن شاعر زندگی کے ہر مرحلے میں شاعر ہی ہوتا ہے بڑا سخت جان ہوتا ہے۔ شاعر  وہ جو بیڑیوں  کو پہنتے وقت بیڑیاں چوم لیتا ہے۔ارمان شام نگری نے بھی ستم کی بیڑیاں چوم لی اور  چوم کر اپنے قلم والے ہاتھ میں پہن لی مگر بیڑیاں پہنے ہوئے بھی وہ شاعر ہی رہے زندگی کے حقائق کو  صفحہ قرطاس پر بکھیرتے رہے۔قلم روتا تو  روتے ہنستا تو ہنستے۔  ان کی دل جوئی کی خاطر جو چیزیں دستیاب تھیں وہ نظمیں تھیں، غزلیں تھیں اور ان کے سراپے کے ساتھ ان کا قلم۔ (یہ بھی پڑھیں منفرد تیور کا شاعر – احمد کمال حشمی – نسیم اشک )
” ارمان شام نگری نے ١٩٤٠ء میں اسلم دانا پوری اور مبارک حسین ناشاد چھپروی کی رہنمائی میں اپنا ادبی سفر شروع کیا مگر ان کی باقاعدہ شاعری کا آغاز ١٩٤٥ء میں ہوا ۔ابتدا میں جرم محمد آبادی اور شاکر کلکتوی سے مشورہ سخن کیا۔ چند تخلیقات پر پرویز شاہدی سے بھی اصلاح لی بعد میں پرویز شاہدی کے مشورے پر تین سال تک قیصر شمیم سے بھی استفادہ کیا۔
(بحوالہ آیات سخن ١٩٩٥ء۔۔مرتبین احمد کمال حشمی، افضال عاقل)
آزادی کے بعد انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں نہایت اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں دلوں میں جب آزادی کا خیال نئی امنگیں بھرتا تھا تو وہی دوسری طرف حیات نئ شروعات کرنے والی تھی۔زندگی ہر پل نئے تجربات سے آشنا ہوا کرتی ہے لہزا ہر شعبے میں نئے تجربات ہونے شروع ہوۓ اور اس سے شاعری بھی نہ بچ سکی اور بچنا بھی نہیں چاہۓ تھا کیونکہ اگر شاعری زندگی کی تلخ حقیقتوں کی نمائندگی نہیں کرتی تو شاعری کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔مغربی بنگال ترقی کی جانب قدم پہلے بڑھاتا ہے ترقی پسند تحریک نے شاعری میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا اگرچہ اس میں افسانوں نے زور پکڑا مگر ساتھ ہی ساتھ نظم نگاری نے بھی اپنا لہجہ بدلا نیا تیور اپنایا اور ذیادہ تر شعراء نے نظم نگاری کی طرف اپنی خاص توجہ دی۔ کلکتہ ،انقلابوں کا شہر نے اس کا کافی اثر قبول کیا شاعری کے مختلف اصناف میں یقیناً غزل ایک خوبصورت صنف ہےاور اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نظم نگاری کسی دوسرے صنف سے پیچھے رہی ہو۔آزادی کے قبل اور آزادی کے بعد نظم نگاری کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔اسرار الحق مجاز لکھنوی کی شاعری سے متاثر ارمان شام نگری نے بھی نظم نگاری کو سینے سے لگایا ہر چند کہ انہوں نے غزل گوئی بھی کی مگر ان کی شناخت نظم نگار کی حیثیت سے مستحکم ہے۔موصوف نے اپنی نظموں میں زندگی کے ہر رنگ و روپ کو بڑی سلیقگی سے پیش کیا ہے۔
کلکتہ کے مضافات میں جن شاعروں نے ادب کی بھرپور اور بے لوث خدمت کی ان میں ارمان شام نگری کا نام نمایاں اور اہم ہے۔ تنگدستی ،مفلوک الحالی نے اس شاعر کے آگے گھٹنے ٹیک دۓ۔ بڑا سخت جان شاعر تھے۔ موصوف نے نظموں میں اپنی دلی کیفیات کا برملا اظہار کیا ہے۔ فطرت بھی کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے ایک ہی موسم مختلف لوگوں کے لئے مختلف جذبات لے کر آتا ہے کبھی رات کی تاریکی میں چکاچوند روشنی کا احساس ہوتا ہے تو کبھی دن کی روشنی میں تیرگی کا احساس دراصل معاملہ دل کا ہوتا ہے موسم تو بہانہ ہے دل میں جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں ویسا ہی موسم کا اثرہوتا ہے "مناظر فطرت” ایسی ہی ایک چھوٹی سی نظم ہے جس میں شاعر نے دل کی بڑی بات کہہ ڈالی ہے۔
کبھی/ کبھی/ صبح/ تیرگی/ لاتی/ ہے/ تو/ شام/ روشنی (نظم مناظر)
شاعری سماج کا آئینہ ہوتی ہے لہذا شاعر حتیٰ المقدور کوشش کرتا ہے کہ حقیقت کو بیان کریں مگر دوسری طرف اسے  اس بات کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے کہ اس کے رفیق اس کے حق بیانی سے  بد ظن نہ ہو جائیں اس سے تعلقات ختم نہ  کرلےشاعر کو اپنا  دشمن نا بنالے ساتھ ہی ساتھ موصوف نے ان کے ڈرنے کی وجہ بھی بتائ ہے۔ اس فکر کی ترجمانی موصوف نے بڑی خوبصورتی سے اپنی نظم "معمہ”میں کیا ہے۔
میں ہمیشہ سچ بولتا ہوں /اسلۓ/ میرے ہم درد/مجھ سے ڈرتے ہیں/ کہ /میں سچ نہ بول دوں۔(معمہ)
گونگوں اور بہروں کی دنیا میں جہاں بے حسی وراثت میں ملتی ہوں جہاں انسان کا ضمیر کا ہو نہ یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا وہاں  ایک ذی ہوش لاکھ چینخے چلاۓ  کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج کے آدمی  کا المیہ یہ ہے کہ کوئی کسی کی نہیں سنتا اسے انتظار ہوتا ہے  کہ آسمان سے آواز آئےگی لہجہ حق گو،دور اندیش،خیر اندیش بولتے چینختے چپ ہو جاتا ہےبلکل بت کے جیسا  نظم "چینخ کے پتھر” میں شاعر نے اس خیال کو یوں پیش کیا ہے۔
دیکھتے دیکھتے/ بولنا /شروع کیا/ بولتے بولتے/ چینخنے لگا /مگر /کسی نے نہیں سنی/ تو /چپ ہوگیا /ایسا چپ کہ /پتھر! /پھر/ لوگوں نےاسے/ مجسمہ/ بنا دیا۔
دور حاضر کی عکاسی کرتی بہت خوبصورت نظم” پہچانو” ہے جہاں ایک آدمی خود اپنا چہرہ نہیں ڈھونڈ پاتا ہے شہر کے رنگارنگ بھیڑ میں انسان کا کھو جانا تو ممکن لگتا ہے پر چہرے کا کھو جانا اس بات کی جانب اشارہ کر تا ہے کہ ترقی کے نام پر ہم اپنی تہذیب کو روندتے جا رہے ہیں، ضمیر فروشی ہنر بن چکا ہے ہےدلی آدمی کو کامیاب بنانے کے لئے بہت ضروری ہوگئی ہے ہم آج ایسے مقام پر آگئے ہیں جہاں سے واپس جانے کا راستہ نہیں سوجھتا ہے۔ ترقی حاصل کرنے کے لۓ، دولت شہرت اور جھوٹی نام آوری کی خاطر تمام حدود کو پار کر چکے ہیں جہاں ہمیں ترقی تو ملی ہے اور ہمیں ترقی یافتہ ہونے کا احساس بھی ہے مگر جب ہم کبھی ضمیر کے زنگ آلود آئینے میں اپنی صورت تلاش کرتے ہیں تو ہمیں اپنا چہرہ نہیں ملتا مانو اپنے شناسا جسم پر کوئی انجان چہرہ لیے پھر رہے ہو شاعر نے اس گہرے نقطے کی جانب اشارہ کیا ہے کہ یہ کیسی ترقی ہے کہ جس کو حاصل کرنے کے لۓ چہروں کو بیچنا پڑتا ہو ضمیر کا سودا کرنا پڑتا ہے۔
مختارکل کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے شاعر نے نام نہاد ترقی کے کھوکھلے پن کو نظم "سیلاب” میں بیان کیا ہے جہاں آج کا انسان چاندکی تسخیر کرنے کا کارنامہ انجام دیتا ہے اور پانی سے ہار مان لیتا ہے اس نظم میں صاف صاف اس بات کا اشارہ ہے کہ رب تمام ہی تمام اختیارات کا مالک ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے کائنات کی ہر شۓ اس کی تابع ہے وہ پل میں غرور کا سر نیچا کر سکتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں مقدمۂ تنقیدچہ ومضمون چہ – مبین صدیقی )
زندگی عمل کا نام ہے ساکت ہونا موت کی علامت ہے۔ شاعر زندگی اسی کو مانتا ہے جو متحرک ہے۔ خدا بے شک راز ق ہے تو یہی سوچ کر عمل کرنا چھوڑ دیا جائے کہ وہ راز ق ہے رزق دے گا۔ نہیں !نہیں! انسان کو مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہےاور خدا کے رازق ہونے کے مکمل یقین کے ساتھ اس بات پر یقین رکھنا چاہۓ کہ اس کو رزق خدا ہی مہیا کراۓ گا مگر اسے حاصل کرنا انسان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔نظم”پرواز کا آسرا” میں شاعر نے اس خیال کو پیش کیا ہے اور عمل کی تلقین بھی کی ہے۔
خدا کی یہ حسین دنیا کب اتنی بد صورت ہوگئی اس کا احساس ٹھیک اسی طرح نہیں ہوا جس طرح زمین کی حرکت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے صدیوں سے چلی آ رہی ظلم و زیادتی کے قصے ابھی باقی ہیں دنیا آج بھی حسین لگتی ہے مگر صرف ان آنکھوں میں جن میں دولت کی چمک ہوتی ہے دنیا کی ساری نعمتیں مانو چند مخصوص ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہو اور ایک وسیع حلقہ روز زندہ رہنے کی جدوجہد میں جی رہا ہے ہے بلکہ دن کاٹ رہا ہے ۔غربت ،مفلسی،لاچاری،حق تلفی،بے ایمانی بد نیتی آج کے دور کی کتاب کے اسباق ہیں۔ایک غریب جب صبح اپنے گھر سے چاند جیسے بچوں کو چھوڑ کر نکلتا ہے تو وہ ان بچوں کے لئے وہ چراغ والا جن بن کر نکلتا ہے جو ہر ضرورت پوری کرنے کی طاقت رکھتا ہو مگر یہ جن جب باہر جاتا ہے تو سوائے مایوسی کے کچھ ساتھ نہیں لاتا اور بچوں سے نظر ملاۓ بغیر چپکے سے رات کی تاریکی میں کھو جاتا ہے۔ اسی روز مرہ زندگی کی ایک تصویر انہوں نے نظم "گھٹن” میں بہت خوبی سے پیش کی ہے۔
شاعر  اپنے سماج اور سماجی حالات کا نباض ہوتا ہے۔ایک کھرا شاعر  کبھی زمانے کی تبدیلیوں سے نابلد ہو ہی نہیں سکتا ورنہ اس کی شاعری روایتی شاعری بن کر دم توڑ دے گی تاریخ کے ماخذ کے طور پر کتبے،سکے،باقیات کے  ساتھ ساتھ شعراء اور ادباء کی تحریروں کو بھی ماخذ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں چاہے وہ غالب کے خطوط ہوں، میر کے قصیدے، سودا کے ہجو ہو، مومن کی غزل ،میرامن کی  داستان یا ابوالکلام آزاد کے مضامین اپنے وقت کے یہ سب ترجمان ہیں ان تحریروں میں ایک عہد اپنے پورے   آب و تاب کے ساتھ جلوہ فگن ہوتا ہے۔ارمان شام نگری کی نظموں میں بھی ہمیں ایک جیتا جاگتا سماج ملتا ہے اور سماج کے وہ مناظر جو ان کی آنکھوں کے سامنے تھیں ویسے ہی مناظر ہمارے سامنے بھی اکڑے کھڑے ہیں۔ارمان شام نگری کی شاعری تصنع سے پرے ہیں ۔انہوں نے اپنی نظموں کو بیانیہ اسلوب  اس لئے دیا کہ درد اور غم کی جو کھردری تصویر ان کے دل و دماغ میں تھی اسے ہو بہو دکھانا چاہتے تھے اگر فریم کرتے تو شاید اس کرب  کا احساس  اتنا نہیں ہوتا جتنا کہ آج ان کی نظموں کو پڑھنے سے ہوتا ہے جب بات آسان طریقے سے کرنی ہو تو بات کرنی آسان نہیں ہوتی۔انکی نظمیں”ارادوں کی شکست” "زندگی کا حاصل” مسٔلہ اور مسائل” ” تہزیب جدید” ” مناظر فطرت” ” معمہ ” ” ناستک” ” سایوں کی ٹکر” ” نتیجے” ” کچے دھاگے”  بہت دلچسپ نظمیں ہیں جس میں شاعر نے اپنی قادرالکلامی سے چھوٹے چھوٹے مصروں میں بڑی بڑی بات کہہ ڈالی ہے۔
ارمان شام نگری کی نظموں میں ترقی پسند تحریک کی لو سے جدیدیت کی روشنی پھیلتی  دکھائی دیتی ہے۔  انکی نظمیں "مچھلیاں ” ” ریل کی آخری منزل” ” پیش قدمی” ” آتما کی چینخ” ” سایوں کی ٹکر” سورج” ” خزاں” ” ڈھانچہ” وغیرہ نظموں میں موصوف کا تیور نظر آتا ہے۔
زندگی کیا ہے مختلف لوگوں کے لئے مختلف مفہوم رکھنے والی زندگی جب ایک حقیقت نگار کے پاس آتی ہے تو اس کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ ایک فنکار کے لئے اس کا فن ہی اس کی زندگی ہوتی ہے وہ اپنے فن میں سانسیں بھرنے کی سعی کرتا ہے اس سے ہم کلام ہوتا ہے اپنے دکھ اس کو سنا تا ہے اپنی خوشی کا اظہار بھی اس سے ہی کرتا ہے گویا کائنات سمٹ کر اس کے فن میں چلی آتی ہے ایسا ہی ایک فنکار موصوف ہیں جن کی کائنات انکی شاعری ہے اس کائنات میں وہ کھوئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کی نظمیں ان کی زندگی کے مختلف shades دکھاتی ہیں جہاں ایک قلم کار سربلند دکھائی دیتا ہے.
موصوف ایک زندہ دل شاعر ہیں حالات جیسے بھی ہو ان حالات میں مسکرانے کا فن جانتے ہیں ان کی نظموں میں مصیبتوں سے فرار نہیں ملتا بلکہ مقابلہ آرائی ملتی ہے ان کے فکر کی عکاسی کرتی نظمیں ہمت اور بلند حوصلے کی باتیں کرتی ہیں وہ کسی موڑ پر شکست زدہ دکھائی نہیں دیتے بلکہ اقبال کی طرح مسلسل جدوجہد کا پیغام دیتے نظر آتے ہیں ان کی ایک نظم” ارادوں کی شکست” دیکھیں.
کبھی کبھی/مسافر/ درخت کی/ چھاؤں میں لیٹ کر/ اپنی /منزل بھول /جاتا ہے۔
چھوٹی سی اس نظم میں انہوں نے کتنی خوبصورتی سے کوشش پیہم کا درس دیا ہے منزل کی طرف گامزن تو ہزاروں ہوتے ہیں مگر چند لوگ ہی منزل تک پہنچ پاتے ہیں کیونکہ وہ آرام طلبی نہیں ہوتے اور نہ تھکنے والے ہوتے ہیں جن کے خواب  کبھی انہیں  چین سے سونے نہیں دیتے جب تک کہ وہ منزل حاصل نہ کرلے ۔
زندگی کی بے ثباتی کو بیان کرتی انکی نظم”زندگی کا حاصل” ملاحظہ فرمائیں۔
کچھ پتنگے /چراغ کی لو سے/ جل کر /مر جاتے ہیں/ اور کچھ/ چھپکلیوں کے /منہ میں/ چلے جاتے ہیں.( نظم زندگی کا حاصل)
نام نہاد ترقی کے ساتھ انسانی اخلاق کا تنزل بھی ہوا ہے جس ترقی پر ہم اتراتے پھرتے ہیں دراصل وہ ہماری تہذیب کو روند کر حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے آباواجداد جن رسموں کی پابندی کر کے سرخ رو رہے ہیں ہم نے انہیں ٹھوکر مار کر خود کو زمانے کی ٹھوکر میں ڈال دیا ہے۔ بہت بہتر ہوتا کہ ہم لباس والے غیرمہذب کہلاتےبہ نسبت بے لباس والے مہذب ہونے سے۔ موصوف نے اس خیال کو بہت خوبصورت طریقے سے نظم "تہذیب جدید” میں پیش کیا ہے.
ایک شب/ اک شہر میں/ تیرتھ بھون کے /خوش نما اسٹیج پر/ دوشیزگی روشنی/ کرتی تھی/ فن کمال فکر سے /کل تماشائی کو /مسحور نظر/ اور /پھر/ اک حادثہ شہوت تیرہ شبی/ سہمی سہمی/ روشنی/ منتشر / پیرہن کی /دھجیاں!
شاعر ہو یا ادیب اپنے ذاتی کرب کو اپنے فن پاروں میں پیش کرتا ہے اور کمال خوبی سے اسے جگ بیتی بنا دیتا ہے روز مرہ کی زندگی میں درپیش آنے والے مسائل لاچاری, تنگدستی, سیاسی اتھل پتھل, اخلاقی گراوٹ, رشتوں کے بدلتے مزج ،فکر کے بدلتے ہوئے زاوۓ، سماجی کشمکش، شخصی کشمکش، حیات کی جنگ، انا کی لڑائی، مظلومیت کی کہانی یہ تمام مسائل ایک شاعر و ادیب اپنے فن پاروں میں پیش کرتا ہے۔یہ وہ مسائل ہیں جن سے ہر آدمی آشنا ہوتا ہےتو یہ کیسے ممکن ہے کہ نباض وقت اس سے نا آشنا رہے۔ کیسے ایک شاعر ان تمام باتوں کو ایک جھٹکے سے اپنے فکر سے نکال دے ؟ یہ ممکن نہیں۔ وہ گمراہی کے اندھیروں میں کھونا نہیں چاہتا یہی اس کی یہی کمزوری ہوتی ہے اس کا قلم جب دل کے خوش ہونے پر پھول کھلاتا ہے تو اپنے دور کے حالات کی ترجمانی کرتے وقت وہ چاہے یا نہ چاہے اس کے قلم سے شعلے ہی نکلتے ہیں آنکھوں سے آنسو ہی رواں ہوتے ہیں۔ موصوف بھی اپنے عہد کے حالات سے نبرد آزما رہے ہیں تاہم انہوں نے شکست ذدہ سپاہی کی طرح حالات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ ان حالات کے لئے خود کو کو موم سے پتھر بنا ڈالا اور زندگی کے ہر محاذ پر حالات سے پنجہ لڑاتے رہے۔ ان کی نظم "عکس زندگی” میں انہوں نے ایک عام آدمی کی زندگی کی حقیقی تصویر کو پیش کیا ہے ۔
ضرور ت کی/قلم/ بڑی لمبی /ہوتی ہے /مگر /مجبوری کے /چاقو/ اسے/ تراش تراش کر/ کوتاہ قد/بنا/ دیتے ہیں.
ارمان شام نگری کی نظموں میں تشبیہات ،علامات اور استعارات بھی وافر مقدار میں ملتے ہیں جو ان کی نظموں کی خصوصیت ہے کچھ ایسی نظمیں ہیں جن کو پڑھتے وقت دماغی ورزش کرنی پڑتی ہے اور تب  نظم کے نفس موضوع تک  رسائی ہوتی ہے۔ شروع میں بات سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے چاہے زندگی کا کوئی فلسفہ ہو یا حیات و کائنات کی گہری باتیں دونوں کو بیان کرتے وقت کا انکا  لہجہ بھاری ملتا ہے مثال کے طور پر ان کے چند نظمیں پیش خدمت ہیں۔
اپنے /حاصل کو پانی کے لۓ/ آسمان پر /چھلانگ تو نہیں لگا سکا/ لیکن/ سطح  آب پر بڑی تیزی سے /جھکا/ کہ / وہ اور اس کا/ سایہ /آپس میں ٹکرا ۓ/  چاند درمیان میں آ چکا تھا /اور /تینوں پا ش پاش/ ہو چکے تھے!(  سایوں کی ٹکر)\
اکثر /انسان بھی/ حادثے کی سچائی سے/ اتنا /خا ئف/ ہو جاتا ہے /کہ/ جھوٹ کے پردے میں/ منہ کو چھپا کر/ خود کو محفوظ /سمجھ بیٹھتا ہے۔
(شتر مرغ)
داغ/ سے/ نکتہ/ اور/ نکتہ/ سے/ لکیر /دائرے/ کی/ شکل/ کھینچتے/ کھینچتے/ بن/ چکی /فلسفہ/ مسئلہ/مشغلہ/ مرحلہ.
(فلسفے کی لکیر)
مغربی بنگال اردو اکادمی نے 2012ء میں ان کا شعری مجموعہ "شیشے کا گلستاں”شائع کیا اور ان کے شعری سرمائے کو اکٹھا کیا اس کے لئے مغربی بنگال اردو اکیڈمی مبارکباد کے مستحق ہے۔ اکاڈمی  نے ان کا شعری مجموعہ منظر عام پر لا کر یہ ثابت کردی ہے کہ وہ کسی فنکار کو گمنامی کے اندھیرے میں کھونے نہیں دے گی۔ مغربی بنگال اردو اکیڈمی کا یہ قدم  قابل ستائش ہے۔
اس کے قبل "جوگی شاعر پریت” , صداۓ العطش”(مرتبین-زار غازی پوری،ارمان شام نگری),”آیات سخن (مرتبین- احمد کمال حشمی، افضال عاقل ) میں قاری ان کے کلام سے آشنا ہوچکےہیں اور تقریباً شمالی ٢٤ پرگنہ کا ہر شاعر و ادیب ارمان شام نگری کی شاعری اور شخصیت سے واقفیت رکھتا ہے مگر” شیشے کا گلستان "کی اشاعت نے انہیں مذید قاریوں سے روشناس کرایا۔
اکثروبیشتر دیکھا گیا ہے کہ شہرت کی چمک جب آنکھوں میں آتی ہے تو دیکھنے کا نظریہ بدل جاتا ہے اور سواۓ خود کے دوسرا دکھائی نہیں دیتا مگر جب یہ چمک   ارمان شام نگری کی آنکھوں میں آئی  تو انہوں نے اس کا استعمال دوسروں کو چمکانے کے لئے کر دیا۔ انہوں نے فن کی آبیاری کی۔اکر  ان کی شاعری کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آۓ گی کہ شاعری ارمان شام نگری کے لۓ مشغلہ نہیں بلکہ جنون تھا  اور انہوں نے اس جنون  کو پروان چڑھانے میں اپنا خون، اپنے خواب، اپنی خوشیاں، اپنے ارمان، راتوں کی نیندیں، دل کا قرار سب کچھ نچھاور کر دیا۔ مگر شاعری کو زندہ رکھا۔ارمان شام نگری نے شاعری میں جونقوش چھوڑے ہیں وہ انمٹ ہیں اور  آنے والی نسل کے شعراء کے لئے  سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔میں اپنے قلم کو ان کے ہی ایک شعر پر تھوڑا وقفہ دے رہا ہوں۔
گندم، جنت ،جرم اور انساں  سب ہستی کے چکر ہیں
یگ  یگ ٹھو کر کھاتے جاؤ زیست ہیں لمبی دنیا گول۔
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
e-mail : nasimashk78@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ | 


2 comments
واہ بہت خوب۔۔۔۔بہت عمدہ الفاظ کا استعمال۔۔۔۔دل خوش ہو گیا پڑھ کے۔۔اللہ آپکے قلم میں مزید توانائی عطا کرے۔
واہ بہت عمدہ تخلیق۔۔۔۔بہت خُوب۔۔۔۔۔بہت خوبصورت الفاظ کا ہے استعمال۔۔۔۔اللہ آپکے قلم میں مزید توانائی عطا فرمائے۔