پریم چنداردو اور ہندی کے ان ادیبوں میں سرفہرست ہیں جن کے پڑھنے والوں کا دائرۂ اثر روز بروز بڑھتاگیا۔ ان زبانوں کے مشترکہ ادبی منچ پر ۱۹۳۶ میں پریم چندکی جو اہمیت تھی،آج وقت کے تناسب میں اس میں کافی اضافہ ہواہے۔ ادب اورسماج دونوں جگہ گذشتہ ۶۵-۶۰ برسوں میں تبدیلیوں کی رفتاراتنی تیزرہی کہ اکثروبیشتر پچھلی بنیادیں ختم ہوگئیں یاشکست کی آخری منزلوں میں ہیں۔ اقداروعقائدسب یکسر بدل کرہمیں نئے عہد میں پہنچاگئے ۔ لیکن ان طوفانوں کے بیچ پریم چند اپنی ادبی اور عوامی مقبولیت کو بچاپانے میں پورے طورپر کامیاب رہے۔ اردو کے بڑے لکھنے والوں میں میرؔ، غالبؔ اوراقبالؔ جیسے شعراکے ساتھ پریم چند ایسے خوش نصیب نثرنگارہیںجنھیںاردو کے علاوہ درجنوں زبانوں کے قارئین توجہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔پریم چند کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی وفات کے پچاس برس مکمل ہوتے ہی ۱۹۸۶ سے جب کاپی رائٹ کی پابندی ہٹی، اس وقت سے اردو اورہندی کے سیکڑوں پبلشروں نے جس بڑی تعداد میں ان کی کتابوں کی اشاعت کا کاروبار شروع کیا، اس کا سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس حقیقت کے اعتراف میں بعض افرادکی جبینوں پر شکنیں نہ آجائیں لیکن یہ سچائی ہے کہ پریم چند اردو اور ہندی کے واحد ایسے ادیب ہیں جنھیں زبردست عوامی مقبولیت حاصل ہے اورجن کی کتابوں کو نو خواندگان سے لے کرعلم وادب کے آفتاب و ماہتاب سب یکساں مستعدی کے ساتھ پڑھتے اور محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انھیں پڑھنے والوں کی تعداد سیکڑروں اورہزاروں میں نہیں، لاکھوں میں ہے۔
عوامی مقبولیت اورادبی معیارمیں کبھی کبھی تفاوت اورتضاد کی صورت رہتی ہے۔ پریم چند اس معاملے میں غالباً استشنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ حروف شناسی کے بعد طالب علم کو مکمل متن کی شکل میںجن اسباق کو پیش کیا جاتا ہے، وہاں پریم چند کی کہانیوں کے حصّے یا مکمل افسانے موجود ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ پرائمری یالوور پرائمری سے شروع ہوکرایم -اے، پی ایچ۔ڈی۔ اورسول سروسنرکے نصابات تک قائم ہے۔ بچوں کی دل چسپ کہانیاں لکھنے والے پریم چند، عام بول چال کی زبان کا استعمال کرنے والے پریم چند، دیہاتی زندگی کے مظاہر بکھیر دینے والے پریم چند، ہندستان کی قومی تحریک کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے پریم چند، گاندھی واد کے زبردست حمایتی پریم چند، بدلتی ہوئی دنیاکوبہ غور دیکھنے والے پریم چند، کمزور طبقے،کسانوں اور مزدوروں کی طرف داری میں لکھنے والے پریم چند، ہندستانی معاشرت کی پیچیدہ گُتّھیوں کو سلجھانے والے پریم چند، سماج اور افراد کی زندگی کے حقیقی اورنفسیاتی مسائل کو گہرائی سے سمجھنے والے پریم چند، ابھرتے ہوئے عالمی اور ہندستانی سماج کو اپنے خوابوں میں سمیٹ لینے والے پریم چند اوربالکل نوجوان لکھنے والوں کے ساتھ میدانِ عمل میں اتر کر شعر و ادب کے پرانے معیاروں کوبدلنے کا اعلان کرنے والے پریم چند، اردو کے پریم چنداورہندی کے پریم چندــــ—-کمازکمہمارے طالب علم کواتنی شکلوں اور صورتوں میں پریم چند کو پہچاننا ہوتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں باصرسلطان کاظمی کی غزلیں [حصّہ اوّل] – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
اکثرہم ایسے سوالوں پرغوروفکرکے لیے الگ سے مواقع نہیں نکال پاتے جنھیں ہم بہت جانتے ہوتے ہیں۔ آخرہمیں بالکل سامنے کے مسئلوں پراپنا قیمتی وقت کیوں صرف کرناچاہیے؟ اسی لیے وہ لوگ جنھیں گذشتہ دور کے دوردراز کے واقعات ہزار شہادتوں کے ساتھ معلوم ہوتے ہیں، انھیں اپنے قریب کے واقعات کاپتہ نہیں ہوتاہے۔ ایسااس لیے ہوتارہاہے کہ اپنے قریب اورپاس کے افراداورمعاملات کے تئیںہمارا اعتمادآسمان کی بلندیاں چھوتاہے۔ ٹھیک یہی حال اشنحاص کاہوتا ہے۔ ہمارے اساتذہ اور طلبا دونوں کو پتاہے کہ غالبؔ،اقبالؔ، میرؔاور پریم چندؔ وغیرہ ان کی رگِ جان سے قریب ہیں۔ یہ قربت اکثر ہمیں ان شخصیات کے فکروفن میں باربار غوطے لگانے کے لیے تحریک نہیں دیتی کیوںکہ ہمارے اعتماد کی لَے بہر طوربڑھی ہوتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہمارے اکثرطلبا اوراساتذہ عظیم فن کاروں کے تئیں بھی سرسری اندازِ مطالعہ روا رکھتے ہیں۔ جتناوقت وہ ایک اوسط درجے کے اہل قلم کے لیے مخصوص کرتے ہیں، اسی میعاد اور تیاری میں پریم چند کو بھی نمٹادیناچاہتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے اکثر بڑے اہلِ قلم بہ طریقِ احسن ہماے طلبا کے ذہن پرنقش نہیں ہوپاتے یااس طورپران کا اثرثبت نہیں ہوتا جیسے ایک عظیم لکھنے والے یا عہد ساز اہلِ قلم کا ہوناچاہیے۔ نتیجے کے طورپران کی زندگی میں ایک ایسی بنیادی کمی درآتی ہے جس کی بھرپائی تعلیمی زندگی مکمل کرنے کے بعد شاید ہی ہوپائے۔ پریم چند ہمارے لیے اس کی ایک بہترین مثال ہیں۔
اس لیے پریم چند موضوع کے طالب علم یامدرس کے سامنے یہ چیلنج بھی ہوتاہے کہ اسے ایک ایسے عنوان پر گفتگو کرنا ہے جسے عام طورپرلوگ اچھاخاصا جانتے ہیں۔ اگراس عمومی سطح علم سے آگے بڑھ کراُس نے معلومات کی ایک نئی دنیا نہیں آباد کی توکیوں کوئی اس کی بات سُنے یابرداشت کرے؟ یہاں اگرآپ سرسری گزرنے کی خو‘اپنائیں گے توسامنے والوں میں سے اکثر کی عدم اطمینانی کیا باعثِ تعظیم قرار دی جائے گی؟ ہرگزنہیں۔
ہمارے طریقہ ٔ تدریس کاایک آزمایا ہوا نسخہ یہ ہے کہ کسی موضوع یاشخصیت کے مطالعے کی ابتدا اس کے پس منظر سے کرتے ہیں۔ اس پس منظرمیں ادبی ،سماجی اورسیاسی اجزا لازماً شامل ہوتے ہیں۔ پریم چندکاپس منظر کیا ہوگا؟ اسے کئی طرح سے سمجھا جاسکتاہے۔ اکثر ماہرین سماجی اور سیاسی پس منظر کے تعلق سے بہ تفصیل گفتگو کرتے ہیں۔ جاگیردارانہ سماج، انگریزی سامراجیت، ہندستان کی قومی تحریک، کسانوں کے آندولن، مشترکہ معاشرت، چھواچھوت، تعلیم کی کمی اورعورتوں کا الگ تھلگ ہونا جیسے اہم سوالات ہیں جنھیں پریم چند کے طالب علم کو سب سے پہلے ذہن نشیں کرلینا چاہیے۔ انیسویں صدی کے دوران ملک نے اپنی کیسی شکل و صورت تیارکی اور خواب وبیداری کے کتنے مراحل سرکیے، یہ تمام حقائق انھی مراحل میں روشن ہوجائیں تو مطالعے میں سہولت ہوگی۔ اس امر سے غفلت نہیں برتنی چاہیے کہ انیسویں صدی کے عذابوں کی تفصیل میں صرف انگریزوں کو موردِ الزام ٹھہرا کرآگے نکل جائیں بلکہ یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہوگاکہ خود ہندستانی سماج میں بھی ٹوٹ پھوٹ اورعدم مساوات کے لیے داخلی داؤ پیچ موجود تھے۔ پریم چندچوں کہ دونوں مورچوں پراپنے افسانوں میں غور و فکر کر رہے تھے، اس لیے ہندستانی معاشرت کی تفصیل بتانے میں سامراجیت کے عتابات تک خود کو محدود رکھناانصاف کی بات نہیں۔ آخر ’’کفن‘‘ جیسی کہانی پریم چند نے سامراجیت کے خلاف لکھی یااپنے ہم وطنوں کی بُری عادتوں کے خلاف، یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔
پس منظرکے تعلق سے دوباتیں اوراہم ہیں۔ پریم چند کے خاندانی ماحول، ابتدائی تعلیم وتربیت، ان کے نجی مطالعے کادائرۂ کار، قصے کہانیوں سے ان کے ذاتی تعلق اورسابقین کی تحریروںکے بارے میں ان کے نظریوں کی وضاحت اگراستادکی زبانی طلبا کو مل جائے تو انھیں پریم چند کے مزاج کا ابتدائی خاکہ تیارکرنے میں سہولت ہوجائے گی۔ یہاں یہ کوشش ضرورہونی چاہیے کہ تدریس کے اس حصے میں پریم چند کی ابتدائی زندگی کے معمولات پرزیادہ زورہو۔ مناسب تویہ ہے کہ بیسویں صدی سے قبل کے بیس برس سے ہم اپنا مواد اخذکریں۔ زیادہ سے زیادہ ۱۹۰۷ یعنی ’’دنیاکاسب سے انمول رتن‘‘ افسانے کی اشاعت سے قبل تک کے واقعات تک خود کو محدود کریں۔ (یہ بھی پڑھیں سلطان اختر: غزل کے قصر میں شاید ہو آخری آواز [حصّہ اوّل] – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
پس منظرکی گفتگو کا آخری حصہ ادب سے متعلق ہوناچاہیے۔ آخرکس ماحول اورسبب سے پریم چند نے اردو افسانے کی ایک علاحدہ زبان وضع کی اوراس کے لیے ایک نئے موضوع کی دریافت کاکام بھی مکمل کیا۔ اکثرہمارے محققین اوراسی پیروی میں اساتذہ اس موضوع پرزیادہ گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوگیاکہ پریم چند سے اردوکی ایک نئی ادبی روایت نکل پڑی جوبہ دستور مستحکم ہوتی چلی گئی اورآج اردو فکشن کایہی بنیادی اسلوب اب تک قائم ہے۔ تقریباً ایک سوبرس کی افسانوی زبان اور انداز پرپریم چند کی محبت دارانہ ملکیت کیوں اتنی آسانی سے قائم ہوگئی؟ اس کی جڑیں تلاش کرنابہت ضروری ہے ورنہ پریم چند کی ادبی شخصیت کامرحلہ وار تدریجی ارتقاہم ٹھیک طریقے سے سمجھ ہی نہیں سکتے۔
ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ پریم چند کواردو قصّہ نویسی کی کون سی روایت ملی اوراس سے ان کے اخذ و استفادہ اوررد وقبول کا عمل کس نوعیت کارہا۔ انھوں نے اردو نثرکی اس روایت کو آزمانے کی کوشش آخرکیوں نہیں کی جس میں سجاد حیدر یلدرم اوردوسرے لکھنے والے دادوصول کررہے تھے؟ رجب علی بیگ سرور اور محمد حسین آزاد کے اسالیب بیان نے انھیں اپنی طرف کیوں نہیں کھینچا؟ آخر وہ میرامنؔ، غالبؔ اورسرسید کی بنائی ہوئی سادہ گوئی کی نثری روایت کی طرف روزِ اوّل سے کیوں متوجہ ہوگئے۔ کیا انیسویں صدی کی اس نثری روایت کوپریم چند نے ہوٗبہ ہوٗ اپنالیا یا اس میں کچھ باتیں جوڑیں گھٹائیں بھی؟ اگران سوالات کے جواب نہ حاصل ہوں تو پریم چند کے اس ادبی اجتہاد کو بھلا کوئی کیسے سمجھ پائے گا جس کی وجہ سے انھیں امتیازحاصل ہوا۔ پریم چند کو اوّلاً اردو کے رومانوی افسانہ نگاروں کی سحر طراز نثر نے لبُھایا ہوگا۔ سجاد حیدریلدرم کی ہمہ دانی کارعب بھی کم نہیں تھا۔ اس نثر کی روایت علمی سکّہ بٹھانے کے لیے موزوں ترین سہارا تھی۔ نوطرزِ مرصع اورفسانۂ عجائب کے لکھنے والوں کا جادو ابھی بھی لکھنؤ کے علمی مزاج کے طفیل برقرار تھا۔ ایک نئے لکھنے والے کی حیثیت سے پریم چند کے لیے یہ آسان ہوتا کہ ایسے اسلوب کا استعمال کریں جس میں علمی جاہ وجلال اپنے آپ گھن گرج کرتے نظر آئیں، لیکن اردو قصّہ نویسی کے باب میں شاید پریم چند کی ترجیحات دوسری تھیں۔ اس لیے انھوں نے رومانوی اورمقفّٰی مسجّع عبارتوں کے جادو گھرسے خودکودور رکھا۔ (یہ بھی پڑھیں دھیمے سُروں کی شاعری (شہریار کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ۔ حصّہ اوّل ) – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
لیکن کیا فورٹ ولیم کالج سے جس نثری روایت کا آغاز ہواتھا، پریم چند نے اسی پرقناعت کرلی اوراُن کی زبان کو اسی لیے میرامنؔ، غالبؔ، سرسید کے بعد اگلا قدم تصّور کرلیاجائے؟شایدیہ جلدبازی ہوگی۔ میرامن نے زبان کا ایک نیاڈھانچہ تیارکیاتھا۔ انھوں نے اپنی زبان کے بارے میں دوباتیں لکھیں۔ ایک کہ انھوں نے ’’اسی محاورے سے لکھنا شروع کیاجیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔ ‘‘ دوسری بات باغ و بہار کی زبان اوراس کے بولنے والوں کی شناخت سے وابستہ تھی۔ انھوں نے کہا: ’’ٹھیٹھ ہندستانی گفتگومیں جواردو کے لوگ، ہندومسلمان، عورت مرد، لڑکے بالے خاص وعام آپس میں بولتے چالتے ہیں‘‘۔ بلاشبہہ یہ ایک نیا لسانی فلسفہ تھاجس کی بنیاد پر میرامن نے اردو کی ایک علاحدہ نثری روایت ایجادکی۔ اس پرغالبؔ نے اپنے مکتوبات کے ذریعے نئے ذہن کی فکر اور سرسید نے وسیع النظری کے اضافے کیے۔ میرامن اورغالب سے قافیہ پیمائی ختم نہیں ہورہی تھی ،سرسید نے اسے میدان سے باہرکردیا ۔
لیکن نثر کی اس روایت میں پریم چند کو اور بھی بہت کچھ کرنا تھا۔ سابقین نے عوامی لہجے کی دریافت اوران کے مزاج کے اعتبارسے نثرنگاری کی روایت تو بنالی تھی لیکن کیا اس لسانی ڈھانچے میں کوئی عوامی روح ڈالی جاسکی تھی۔ میرامن کے یہاں بجا طور پر ٹھیٹھ ہندستانی گفتگو ہے لیکن قصّے کے کردار بادشاہ اورشہزادے شہزادیاں۔ خطوطِ غالب میں ایک آزادذہن کی اُڑان ہے لیکن فکرمندی صرف اپنے جیسے لوگوں کے لیے۔ کہتے ہیں : ’’یہاں اغنیا کے ازدواج بھیک مانگتے پھریں، اسے دیکھنے کے لیے جگر چاہیے‘‘۔سرسید مغربی تعلیم کی وکالت اورسماج کی جدید کاری کے روح ورواں لیکن کمزور طبقے، پیشے ور برادریاں اور عورتوں کو اس نئے تعلیمی محاذ سے اس لیے دوٗر رکھا جائے کیوں کہ ان میں اعلا عہدوں تک پہنچنے کا سنسکار نہیں۔ یعنی میرامن سے لے کرسرسید احمد خاں تک ایک اشرافیت اوراعلا طبقے کے لیے فکرمندی کا رویہ تھا ۔ مشہور ادبی اصطلاح کا استعمال کریں تو کہنا پڑے گا کہ میرامن ، غالب اورسرسید کی نثرنگاری کا اسلوب عوامی تھالیکن مواد عوامی نہیں تھا۔ یعنی ظاہری طورپریہ نثر عام لوگوں کی طرح برتاو کرتی ہے لیکن داخلی اعتبارسے اس کا سروکار عوام سے بالکل نہیں۔ اس نثرکے متعلقات خاصے اشرافیت زدہ تھے۔ (یہ بھی پڑھیں وبائی اَموات کے بعد کی دُنیا: نیند کیوں رات بھر نہیں آتی – ڈاکٹر صفدر امام قادری )
تاریخ کے اسی موڑپرپریم چند نے انیسویں صدی کی مختلف نسلوں کے ذریعے آزمائی ہوئی نثرکو ہندستان کے دیہی سماج کاترجمان بناکرپیش کیا۔ افسانوں اورناولوں میں اب شاہانِ وقت، امرا، رؤساورلاٹ صاحبوں کے بجاے ایسے لوگ اُبھرنے لگتے ہیں جنھیں نہ دولت نے کبھی سر آنکھوں پر بٹھایا اور نہ ہی کبھی علم وفضل کی دستار اُن کے حصّے میں آئی۔ بھوک ان کا ایسا مسئلہ ہے جس کے پار کوئی دنیا نظرہی نہیں آتی ۔ یہ جماعت مرصع اورمقفّٰی کیاجانے،ٹوٹے پھوٹے اورجانے انجانے لفظوں سے اپنی کچھ بات کہہ لیتی ہے، یہی بہت ہے۔
اردو فکشن میں بیسویں صدی کے روزِ اوّل سے پریم چند ایسے ہی طبقے کی نمائند گی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ابتدائی ناولوں اورافسانوں کواگرہم عشقیہ سمجھ کرچھوڑدیں تویہ ہماری بڑی بھول ہوگی۔ ’’دنیاکاسب سے انمول رتن‘‘ ہے توایک عشقیہ افسانہ لیکن آخرحکومتِ برطانیہ کوکیوں’’سوزِ وطن‘‘کوضبط کرلیناپڑا۔ اس کی کہانیاں ہندستانی سماج کے مزاج کو بدلنے کی طاقت رکھتی تھیں۔ پریم چند ایک ایسے طبقے کی زبان میں اسی کی کہانیاں، خواب اور تمنّائیں رقم کر رہے تھے جس پر آج تک کسی نے چار سطریں بھی نہیں لکھیں۔ پریم چند پر غور و فکر کے دوران اگر ہم اُن کے اس اجتہاد پر تفصیل سے روشنی نہیں ڈالتے تو میرا یقین ہے کہ پڑھنے والوں کے دماغ پر ایک غیر معمولی ذہن کے عظیم فن کار کا وہ طلسم نہیں قائم ہو پائے گا جس سے پریم چند کے ناولوں اور افسانوں کے مطالعے میں ان کی گہری دلچسپی پیدا ہو سکتی تھی۔
پریم چند کے سماجی اور ادبی پس منظر کے تمام پہلوؤں کو روشن کر دینے کے بعد پریم چند کی حیات اور ان کے ادبی کارناموں پر مرحلہ وار گفتگو کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ پریم چند کے سوانح نگاروں بالخصوص امرِت رائے، مدن گو پال اور شیورانی دیوی کی تحریروں کی مدد سے حیاتِ پریم چند کی تفصیلات پیش کی جا سکتی ہیں۔ تعلیمی زندگی کے بعد عملی زندگی میں پریم چند کن نشیب و فراز کے مراحل سے گزرے اور ان کی شخصیت میں کون سے ایسے جوہر تھے جن کی چمک اور روشنی آفتابِ نصف النہار بنی، اس کے راز جاننے کے لیے ہمیں ذہنی و رزش میں مبتلا ہونا چاہیے۔ امرت رائے کی مختصر سی تصویری کتاب ’’پریم چند‘‘ میں ان کی زندگی سے متعلق کئی ایسے واقعات درج ہیں جن پر اگر ہم غور کریں تو نہ صرف یہ کہ پریم چند کی زندگی اور شخصیت آئینہ ہو جائے گی بلکہ ہماری زندگی میں ایک تحریک بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر اُن کے ذہن و دل میں ایک لپک پیدا کرنے میں ہم کامیاب ہو گئے تو پھر ان کا ذہن اس موضوع کے مطالعے کے دوران اس کچی مٹّی کی طرح ہو جائے گا جسے کمہار اپنے چاک پر رکھ کر جس شکل میں چاہتا ہے، ڈھالتا جا تا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں زیادہ پریشانی نہیں کہ پریم چند کی زندگی میں ایسے سینکٹروں واقعات موجود ہیں جن کا ذکر دلوں کو جیتنے کے لیے کافی ہے۔
پریم چند کی تصنیفی حیثیت پر بات چیت شروع کرنے سے پہلے تعارفی نوعیت کے بعض مسئلے ابتدا میں ہی حل کر دینے چاہیے۔ چاہے آپ افسانہ پڑھ رہے ہوں یا ناول ، ہر دو صورت میں ان کی دونوں حیثیات پر واضح اشارے آغاز میں ہی سامنے آجائیں تو اچھا ہو گا۔ اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہوگا کہ پریم چند کے تمام ناولوں کی سنہ وار فہرست تیار کردی جائے۔ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں ان کے پندرہ ناولوں کی اشاعت ہو ئی۔ ایک مختصر سے چارٹ سے یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ کون سا ناول پہلے اردو میں لکھا گیا یا ہندی میں۔ پریم چند کے ناولوں کے اردو اور ہندی ناموں میں اچھا خاصا فرق ہے۔ اگر ایک چارٹ بنا کر اردو اور ہندی دونوں ناموں کا موازنہ کر دیا جائے تو زندگی کے کسی مرحلے میں یہ پریشانی نہیں ہو گی کہ ’’چو گانِ ہستی‘‘ اور ’’رنگ بھومی‘‘ یا ’’بیوہ‘‘ اور ’’پرتگیہ‘‘ الگ الگ ناول نہیں ہیں۔ اس بات کی ضرورت اس وجہ سے پیدا ہوئی کیوں کہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے ناقدین پریم چند کے ناولوں کی فہرست پیش کرتے ہوئے کئی بار غلطی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اس موضوع سے شائع شدہ کتابیں ہماری آنکھیں کھولنے اور درسِ عبرت حاصل کرنے کے لیے کافی ہیں۔
افسانہ نگار پریم چند کا تعارف پیش کرتے ہوئے ’’سوزِ وطن‘‘ سے ’’واردات‘‘ افسانوی مجموعے تک کی فہرست نظر میں رہنی چاہیے۔ اردو کے یہ کل چودہ (۴ ۱) مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ پریم چند کی بے حد مشہور پچیس تیس کہانیوں کا سنہ اشاعت کے ساتھ گوشوارہ بھی طالب علم کے رو برو ہونا چاہیے۔ پریم چند کی ان مشہور کہانیوں پر ضرور توجہ ہو جن کے اردو اور ہندی ناموں میں کافی فرق ہے۔ مشہور کہانی ’’پنچایت‘‘ ہندی میں ’’پنچ پر میشور‘‘ بن گئی ہے اور ’’جیل‘‘ کہانی ’’آہوتی‘‘۔ یہیں یہ بھی بتا دیا جانا چاہیے کہ اردو کے ساتھ ساتھ پریم چند نے ہندی میں کب سے لکھنا شروع کیا اور اردو اور ہندی تحریروں کی تعداد کیا ہے۔ نواب رائے سے وہ پریم چند کب بنے، اس کی چھان بین کے بغیر آخر آگے کیوں بڑھنا چاہیے۔ (یہ بھی پڑھیں جامعات میں اردو : صورتِ حال اور مستقبل کے امکانات – ڈاکٹر صفدر امام قادری
مباحث کے بعد اب پریم چند کی تصنیفی زندگی پر گفتگو کرنے کا مناسب موقع ہاتھ آجاتا ہے۔ اگر پریم چند کے ناول کا مطالعہ مقصود ہو تو اس سلسلے سے پریم چند کے تمام ناولوں پر الگ الگ گفتگو کرنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ ہمیں ’’گئودان‘‘، ’’میدانِ عمل‘‘ یا ’’نرملا‘‘ جیسے کسی ایک ناول کا مطالعہ کرنا ہے لیکن بقیہ ناولوں کے بارے میں ترتیب سے موضوع اور تکنیک کی تبدیلیوں پر اگر روشنی نہیں ڈالی گئی ہے تو کیسے ناول نگار پریم چند کے ارتقائی سفر کی کڑیوں کو جوڑا جا سکتا ہے۔ ’’چوگانِ ہستی‘‘ ، ’’پردئہ مجاز‘‘، ’’میدانِ عمل‘‘ اور گئودان‘‘ کے درمیان بعض مرحلوں میں موازنہ کر کے یہ بتانے کی ضرورت ہوگی کہ پریم چند کس طرح خود کو لحظہ بہ لحظہ بدل رہے تھے۔ اس کے بعد ہی اصل کتاب کے متن کی تفہیم کی طرف ہمیں آنا چاہیے۔
پریم چند کی افسانہ نگاری کو عام طور پر مختلف ادوارمیں رکھ کر دیکھنے کا رواج رہا ہے۔ قمر رئیس کے اتباع میں اکثر ناقدین اور اساتذہ پریم چند کی افسانوی زندگی کے تین دور تسلیم کرتے ہیں۔ پہلے دور میں ان کی روایتی ابتدائی کہانیاں ہیں جن میں مادرِ وطن سے محبت اور ہندستان کے غریبوں ، کسانوں کے مسائل ابھرتے ہیں۔ دورِ دوم میں پریم چند قومی تحریک کے سرگرم کارکن اور مہاتما گاندھی کی قیادت میں لڑنے والے ایک سپاہی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ دورِ آخر کے افسانوں میں حقیقت نگاری کی ایک سفّاک اور بغیر آدرش کے سچائی بیان کرنے کی لَے ابھرتی ہے جب وہ ’’کفن‘‘ اور ’’نئی بیوی‘‘ جیسے افسانے لکھتے ہیں۔ پہلے اور دوسرے ادوار پر عام طور سے تفصیل میں جا کر گفتگو کرنے کا رواج ہے کیوں کہ پریم چند کی شخصیت کا یہی مشہور ترین زاویہ ہے۔
جیسے جیسے پریم چند کے عہد سے ہماری دوری بڑھتی جا رہی ہے، ان کے دورِ آخر کے افسانوں پر غور و فکر کے نظریے میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ شمیم حنفی نے اپنے ایک مضمون میں اسے پریم چند کا ’’تیسرا موڑ‘‘ کہا ہے۔ ۱۹۳۲ میں ’’انگارے‘‘ کی اشاعت سے موضوعات کے بعض بند دروازے وا ہوئے۔ خاص طور پر عورت اور مرد کے رشتوں کے ذیل میں منطقی اور نفسیاتی ترجیحات پر بات چیت شروع ہوئی۔ ’’آخری تحفہ‘‘ مجموعے کی اشاعت سے ’’واردات‘‘ تک پریم چند کے جو افسانوی مجموعے آئے، ان میں نہ صرف یہ کہ سماج کی اُن سچائیوں پر کھلے بندوں غور کرنے کی ایک خوٗ دکھائی دیتی ہے جن پر ماضی میں وہ پردہ ڈال دیتے یا آدرش کی ایک جھلملی چڑھا دیتے تھے۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ پریم چند ’’انگارے‘‘ کے مصنفین کے گہرے اثر میں آچکے ہیں۔ کئی بار انسان کم عمر کے لوگوں سے بھی سیکھتا ہے۔ اگر یہ بات نہیں ہوتی تو بالکل علاحدہ ایجنڈے کو موضوع بنا کر جس ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑ رہی تھی، پریم چند مٹھی بھر نوجوانوں کے بلاوے پر اپنی بنی بنائی اور مستحکم ادبی عمارت کو خطرے میں ڈالتے ہوئے صدارت کے لیے اتنی آسانی سے لکھنؤ کیوں پہنچ جاتے؟ ایسا لگتا ہے کہ ادبی لین دین کا بھی ایک سلسلہ دونوں نسلوں کے درمیان بالواسطہ طور پر قائم ہو چکا تھا۔ ادب کی تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ہمیں پریم چند کے دورِ آخر کی کہانیوں پر غور کرتے ہوئے ان مسائل پر بہ تفصیل بحث کرنی چاہیے۔
پریم چند نے عام طور پر سادہ کہانیاں لکھی ہیں۔ عجلت میں انھیں اکہری کہانیوں کے طور پر طالب علم اور استاد دونوں دیکھ سکتے ہیں۔ غزل میں سہل ممتنع کی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ پڑھنے والے نے غائر توجہ نہ کی تو شعر قدردانی سے محروم ہو سکتا ہے۔ پریم چند کے ہاں ایسی کہانیوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ میں دو مثالیں پیش کروں گا۔’’ دوبیل‘‘ اور ’’عیدگاہ‘‘ کہانیاں چوتھی اور پانچویں جماعتوں سے داخلِ نصاب ہوتی ہیں۔ کیا ان کہانیوں کو بڑی جماعتوں میں بھی کھیل تماشے، تفریح اور میلے ٹھیلے کی کہانی سمجھ کر پڑھ لیا جائے۔ شاید یہ پریم چند کے ساتھ بے انصافی ہوگی۔ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں کہانیاں ۱۹۳۰ء کے بعد کی ہیں۔ ’عیدگاہ‘ تو ۱۹۳۳ء میں عا لمِ تحریر میں آئی۔ پختہ عمری میں پریم چند کو بچوں کی کہانیاں لکھنے کی کیوں سوجھی؟ پریم چند نے اپنی زندگی میں ہی بچوں کی کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع کیا تھا، آخر اُس میں انھیں کیوں شامل نہیں کیا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود بھی انہیں ’’بڑوں‘‘ کی کہانیاں تصور کرتے تھے۔ دوبیل میں ہندستان کی قومی تحریک کے گرم اور نرم رویوں کو ہیرا اور موتی کی شکل میں پرکھا جائے تو اس کہانی کی سیاسی معنویت روشن ہو جائے گی۔ اسی طرح عیدگاہ میں حامد کا سب سے بڑا کارنامہ چمٹا خرید نا نہیں بلکہ یہاںایک غریب، بے یارو مددگار بچے کی شکل میں پریم چند آئندہ کے ذمہ دار شہری کی شناخت کرتے ہیں۔ دورانِ مطالعہ اگر پریم چند کی سادہ کہانیوں کی تفہیم کی ان نزاکتوں سے ہم باخبر نہیں ہوں تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پریم چند کے ساتھ کیسی زیادتی ہو جائے گی؟
جس طرح ہم پریم چند کے ادبی اور فنّی ارتقا کے مختلف پہلوئوں پر غور کرتے ہیں، اسی طرح پریم چند کے فکری ارتقا پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پریم چند صحافت پیشہ رہے اور اردو کے ساتھ ساتھ ہندی میں بھی خاصی تعداد میں انھوں نے بے باکی کے ساتھ اپنے خیالات ظاہر کیے۔ ان کے مضامین مطبویہ شکل میں جِلد در جِلد دستیاب ہیں۔ اسی طرح پریم چند کے اردو اور ہندی مکاتیب کی تعداد بھی کم نہیں۔ ان خطوط میں پریم چند کے ادبی نظریے وضاحت کے ساتھ موجود ہیں۔ پریم چند کے عالِم کے ذہن میں اگر مضامین اور خطوط کے بطن سے پیدا ہوئی ایک علاحدہ شخصیت موجود ہو تو مطالعے کا ایک نیا افق سامنے آسکتا ہے۔
پریم چند ہمارے مقبول ترین ادیبوں میں سے ایک ہیں۔ اس لیے ان کی تخلیقات پر روز نئی نئی تو جیہیں آتی رہتی ہیں۔ اردو سے کافی زیادہ مقدار میں ایسا ضروری مواد ہندی میں موجود ہے جس میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہے۔ سال دو سال میں انگریزی اور دوسری زبانوں میں بھی اس موضوع پر بعض کتابیں سامنے آجاتی ہیں۔ وقت کی دوری نے عقیدت کے بجاے ٹھوس بنیادوں پر پریم چند کی شناخت کی ترغیب بھی بڑھائی ہے۔ اس لیے پریم چند کے طالب علم کو خود کوتازہ دم اور Up to date رکھنا ہو گا ورنہ وہ طلبہ کو ۱۹۳۶ء کا پریم چند پڑھاتا ملے گا جب کہ اس کے شاگردوں کے سامنے نئی صدی کے پریم چند کھڑے ہوں گے۔ بڑے ادیبوں اور شاعروں پر تدریس اور غور و فکر واقعتاً پُل صراط سے گزرنا ہے۔ ہر اعتبار سے اگر چاق و چوبند نہیں رہا گیا تو طلبہ اور اساتذہ دونوں راندئہ درگاہ قرار پائیں گے۔ پریم چند یا میرؔ و غالبؔ ، سب کی تدریس مشقت ، احتیاط اور ہمہ جہتی کے حربوں سے لیس ہو کر ہی کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے ورنہ ہمارے اندازِ فکر کو بے وقت کی راگنی سے تعبیر کیا جائے گا۔
٭٭٭
DR. SAFDAR IMAM QUADRI
Head, Department of Urdu, College of Commerce, Arts & Science, Patna-20, Bihar
202, Abu Plaza, NIT More, Ashok Rajpath, Patna-800006
Mob.: 094304-66321, Email: safdarimamquadri@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |

