اردو شاعری میں قومی اتحادواتفاق اور انسانی دوستی کا تصور ابتدا سے رہاہے ۔مگر اسے مزید تقویت انگریزوں کے مظالم اور عیساٰئیت کے بڑھتے خوف سے ملتی ہے بقول منظراعظمی پہلی بار قومی یکجہتی کا تصور لاہور کے مصنوعی نظموں نے پیش کیاــــــــــــ۔(۱)سرسید احمدخان نے اسے اور مستحکم کیا اور کہا ہندوستان ایک دلہن کے مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندواور مسلمان ہیں اگر اس میں نفاق رکھیں گے تو پیاری دلہن بھینگی ہوجائے گی۔ترقی پسندوں نے قومی شعور کوسب سے زیادہ مستحکم و مظبوطی عطاکی بقول گوپی چند نارنگ ترقی پسند شاعری نے اسے نیا احساس اور نیا ادراک دیا اور عوام دوستی کے وسیع تر بنیادوں پر قائم کیا۔قومی جدوجہدمیں عوام کا ساتھ دینے کی آرزوکئی گنابڑھ گئی اور انفرادی اور قومی آزادی کی خواہش شدید ترہوتی گئی۔(۲)مگرجدیدیت کی تحریک سے لے کر۱۹۸۴ء اور۱۹۹۲ء کے فسادات سے لے کر آج تک کے حالات پر غور کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ کس طرح فسطائی طاقتیں پوری شدت اور منصوبہ بند طریقے سے مہذب ،مشترکہ وراشت اورتہذیب پر حملہ کر رہی ہیں۔آج اس مہذب دورمیں بھی زیادہ تر لوگ غلامی کے شکار ہیں۔موب لنچنگ کے واقیات ،فسادات،دو قانون،غیرمسلمانوں کے لئے الگ اور مسلمانوں کے لئے الگ،ایسی صورت حال میں جب ہم اردو شاعری کے منظرنامے پر نظر دوڑاتے ہیں تو اس پر آثوب دور میں راحت اندوری واحد شاعر ہیں جو اپنے طمطرا ق پر اثر اور بے باک لب ولہجے میں قومی اتحاد و اتفاق ،رواداری اور انسان دوستی کے پیغام کو عام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
راحت صاب اندور میں ۱ جنوری ۱۹۵۰ء میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد محترم رفعت اللہ نے تعلیم و تربیت بہت اچھے ڈھنگ سے کی،وہ اپنے والد کی چوتھی اولاد تھے۔ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور میں ہوئی۔۱۹۷۳ء میں بی۔اے کی تعلیم اسلامیہ کریمیہ کالج اندورسے پوری کی،۱۹۷۵ء میں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے ادو میں ایم۔اے کیا،۱۹۸۵ء میں مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے اردو مشاعرے کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،وہ دیوی اہلیہ یونیورسٹی اندور میں پروفیسر کے وعہدے پر بھی فائز تھے۔راحت صاحب کی شادی سیما سے ہوئی۔ان کے بطن سے تین لڑکے ہوئے۔بھوپال کی شاعرہ انجم سے بھی ان کا نام جڑا،راحت صاحب نے ۱۸ سال کی عمر سے ہی شاعری کرنا شروع کر دیا تھا۔دھیرے دھیرے ان کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ ان کا نام اردو شاعری کی افق پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکنے لگا۔ان کے ادبی کار ناموں میں شعری مجموعوں میںدھوپ دھوپ،میرے بعد،پانچواں درویش اور ناراض وغیرہ ناقابل قدر خدمات ہیں۔انہوں نے فلموں کے لئے بہت سے کامیاب نغمے بھی لکھے۔جن میں جانم،سر،ٹکر،رام،غنڈہ راج،پریم شکتی،توکھلاڑی میں اناڑی،ہمالیہ پتر، درار،یارانہ،جنٹل مین،آواز،،تمنا،ناجائز،عشق،ناراض،بے کابو،خوددار،فریب،پریم آنگن،ہیرو ہندوستانی،خوف،اگرتم نہ آئے،دیوانہ تیرے پیار کا اورمشن کشمیرجیسی فلمیں قابل ذکر ہیں۔ ْ۱۰ اگست کو راحت اندوری کا کووڈ۔۱۹کی جانچ کی گئی اور رپورٹ مثبت آئی نیز وہ بندش قلب کے مرض میں مبتلا ہوئے۔مدھیہ پردیش کے آربندو ہسپتال میں داخل کیا گیاجہاں۱۱ اگست ۲۰۲۰ء کی شام کو ان کی وفات ہوگئی۔خیرموت سے کس کو رستگاری ہے۔مگرجانے والوں کی یادیں اور ان کی باتیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔راحت صاحب ایسے شاعر تھے جن کی شہرت اور مقبولیت بلاتفریق مذہب وملت کے ہر خاص وعام میں تھی۔وہ جتنااردوکے تھے اتناہی کوی سمیلنوں میں مشہور ومقبول تھے۔وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔اچھا اخلاق، محبت، اخوت،ہمدردی،رواداری اور بھائی چارگی ان میںکو ٹ کوٹ کر بھری ہوی تھی یوں کہیے وہ فرشتہ صفات کے مالک تھے ۔بقول ساغر خیامی راحت کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں اگر ان کو انسان کہوں تو پھرفرشتے کیسے ہوتے ہیں اگرفرشتہ کہوں تو انسان کیسے ہوتے ہیں۔وہ انسان اور فرشتہ کی بیچ کی کڑی ہیں۔اپنے سے بڑوں کا ادب کرنا ان کا شیوہ ہے۔چھوٹوں کی ہمت افزائی کر نا ان کے خمیر میں ہے۔(۳) (یہ بھی پڑھیں راحت اندوری -اردو مشاعروں کا کامیاب شاعر – راحت علی صدیقی )
راحت صاب ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں، ان کاقومی شعور اور انسان دوستی بہت بلند ہے ۔ وہ جہاں بھی قومیت یا کسی فرد یا اجتماعی طور پر انسانیت کے ساتھ ظلم وستم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں ان کا دل تڑپ اٹھتا ہے۔ایسی صورت میں ان کا ذاتی غم اجتماعی غم میں تبدیل ہو کر انھیں بیچین کر دیتا ہے۔اور پھر وہ اپنی بلند فکر کو غزل کے پیکر میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔یہ اشعار کہیں طنز کی صورت میں تو کہیں احتجاج کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ناموافق مرے اندر کی فضاکیسی ہے
ٹوٹ جانے کی،بکھرجانے کی صدا کیسی ہے
سب کے دکھ اس کے چہرے پہ لکھے پائے گئے
آدمی کیا تھا ہمارے شہرکا اخبار تھا
آپ کی نظروں میں سورج کی ہے جتنی عظمت
ہم چراغوں کا بھی اتنا ہی ادب کرتے ہیں
دراصل راحت صاحب اپنے کلا م کے ذریعہ سماج میں پیدا ہونے والی ان تمام برائیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے الگ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔عصر حاضر کے منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو اس کا اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح ہمارے سماج میںرشتوں کا خون ہو رہا ہے آج ایک بھائی دوسرے بھائی کاخون کا پیاسا ہے۔کھلے عام لوگوں کی پگڑی اچھالی جارہی ہے۔ہر انسان اندر سے بکھرا ہے۔موجودہ دور میں انسان اخلاقی سطح پرزوال پزیری کی طرف بڑھتا جارہا ہے ۔انسان کی حیثیت جانوروں سے بھی بدتر ہوتی جارہی ہے۔راحت اندوری ایک حساس شاعر ہیں ۔وہ اپنی روایتی قدروں سے عوام کو جوڑنا چاہتے ہیں۔اسلئے وہ گھر کے آنگن میں دیوار بنانے کے قائل نہیں ہیں یہی وجہ ہے وہ اپنے حصے کی زمین اپنے بھائی کو دے دینا چاہتے ہیں،ہر کسی سے انھیں ہمدردی ہے،کسی کی کوئی پگڑی اچھالے یہ انھیں گوارہ نہیں،وہ سب سے محبت کے طلب گار ہیں ۔کہتے ہیں
میری خواہش کی آنگن میں دیوار نہ ہو
میرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے
ہوائیں بازکہاں آتی ہیں شرارت سے
سروں پہ ہاتھ نہ رکھیں تو پگڑیاں اڑجائیں
اس بستی کے لوگوں سے جب باتیں کی تو یہ جانیں
دنیا بھر کے جوڑنے والے اندر اندرٹوٹے تھے
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔اسلئے ضروری ہے اپنے بنیادی حقوق اور حکمرانی کی تحفظ کے لئے ہم ہر وقت تیار رہیں۔اسی میں ہی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا راز مضمر ہے ۔آج جب اقتدار تاناشاہی اقتدار کا فروغ ہورہا ہے، بنیادی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے،لوگوں کی آوازوں کا دم گھونٹا جا رہا ہے۔ایسے نا موافق حالات کی چیخیں راحت اندوری کو سنائی دیتی ہیں ۔اور جب یہ چیخیں ان کے غزلوں کے سانچے میں ڈھلتی ہیں تو یہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کی چیخ بن جاتی ہے اورخواب غفلت کی نیندسونے والے لوگوں کی ضمیر کی آواز بن جاتی ہے اور کہتے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں شاعری کا کوہِ آتش فشاں : راحت اندوری- ڈاکٹر خالد مبشر )
ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی
کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں
کچھ کام اسے جیسے آتا ہی نہیں
مگر جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے
ہم اپنی جان کی دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو ہندوستان کہتے ہیں
ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ۔اس ملک میں سبھی قوموں کو ایک ساتھ رہنے کا اختیار حاصل ہے مگرآج حکومت کے زیر اثرملک کو ہندوراشٹربنانے کی پر زور وکالت ہو رہی ہے۔ ہندوتوا کے ایجنڈے کو کافی تقویت مل رہی ہے۔ہندوشدت پسندی ،گئوہتھیااور گھر واپسی کے نام پر خاص طور سے مسلمانوں،عیسائیوں اور نچلی ذات کے لوگوں کو تنگ کیا جارہا ہے۔ ایسے ناموافق حالات میں جب حکومت کے خلاف زبان کھولنے سے ہر شخص خوف کھاتا ہے۔ملک اقتصادی بحران سے گزررہاہے۔بے روزگاری کے مسائل تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اسکے باوجودلوگ چپ ہیں۔ایسی صو رحال میں راحت اندوری حکومت سے آنکھوں سے آنکھیں ملا کر اپنے پر اثر اور بے باک لہجے سے حکومت پرایسی چوٹ کر تے ہیںجس سے وہ تلملانے تک کا بھی موقع نہیں پاتے ۔ بقول محسن بھوپالی راحت اندوری اپنے گردوپیش سے پوری طرح باخبر ہیں۔وہ سیاست کے بازی گروں کی دکھتی رگوں پر اپنے اشعار کے نشتر اس تواتر سے لگاتے ہیں کہ انہیں تلملانے کی بھی مہلت نہیں ملتی۔(۴)مزکورہ اقتباس سے متعلق شعر ملاحظہ ہو:
اگر خلاف ہے ہونے دو جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تحوڑی ہے
سبھی کا کون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
سلگتے چیختے موسم کی واپسی ہو گی
نئی رتوں میںنئے غم کی واپسی ہوگی
ہندوستانی حکمرانوں کو آگاہ کرتے ہوئے راحت صاحب کہتے ہیں کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اسلئے ہندوستان کی سیاست کسی کے باپ کی ذاتی ملکیت نہیں ہے ہندوستان کے جمہوری نظام میں الیکشن ہوتے رہتے ہیں اور عوام اپنی اکثریت سے حکومتوں کا انتخاب کرتی ہیں۔اس طرح حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔اگر آج آپ کی حکومت ہے تو کل کسی اور کی ہو گی اور وہ اپنی طرز حکمرانی میں آپ سے مختلف ہو گی ۔اسلئے وہ وقت کے بنے بیٹھے حکمرانوں سے کہتے ہیں سنبھل جاؤ ورنہ انجام اچھا نہیں ہو گا۔رات صاحب مشاعرے میں ڈائز پر کھڑے ہو کر ہزاروں کے مجمعے میں کھلی فضا میں ہاتھ کو لہراتے ہوئے حکومت سے کہتے ہیں ہے :
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
راحت صاحب کا یہ شعر اتنا مقبول ہواکہ یہ شعر ہر خاص وعام کی زبان پر ہے۔ہندوستان میں دور حاضر کی سب سے بڑی تحریک این آرسی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے لئے ان کا شعرسبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں۔ کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے ۔مظاہرین کی آوار ز بن گیا تھا۔ان کے اکثر شعر موقع برمحل ہند کے ایوانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔سی اے ۔اے اور این آرسی کے مظاہرین نے یہ شعر باقاعدہ تختی پر لکھ کر مظاہرہ کیا۔ خود این آرسی کے مسئلہ پر راحت اندوری اپنی رائے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملک کسی فرد،کسی خاص پارٹی ،کسی ایک مذہب کی ملکیت نہیں ہے۔اپنی شاعری کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں۔کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے۔اس شعر کے مقبول ہونے پر راحت صاب نے خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جب آج لوگ اپنے مطالبات اٹھا رنے کے لئے اس شعر کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس شعرکے حوالے سے یہ بھی کہاکہ اس شعر کا تعلق ہر اس ہندوستانی سے ہے۔جو اپنے ملک پر قربان ہونے جذبہ رکھتا ہے۔اگر راحت صاحب کی شخصیت اور ان کے کلام ککا مطالعہ کریں تو آپ اس بات سے بخوبی واقف ہو جائیں گے کہ انھوں نے وطن پرستی ایثار و قربانی کے جذبے کو نہ صرف اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے بلکہ اسے اپنی عملی زندگی میں پیش کر دیا ہے۔ہندوستان اور ہندوستانیوں سے ان کا گہرا والہانہ محبت لوگوں کے دلوں میں گہرے نقوش چھوڑتا ہے یہ نقوش ایسے ہیں جو لوگوں کو وطن پرستی ،محبت اخوت اور بھائی چارہ کی طرف آمادہ کرتی ہے۔ان کے درج ذیل شعر ان خوبیوں کا مصداق ہے۔
جنازے پر میرے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جا رہا ہے
میں جب مر جاؤں تو میری الگ پہچان لکھ دینا
لہوسے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا
دوگز سہی مگر میری یہ ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا
محبتوں کا سبق دے رہے ہیں دنیا کو
جو عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتے
اس طرح ہم کہ سکتے ہیں راحت اندوری نے اپنی عام فہم زبان سے سیاسی ،سماجی اور ثقافتی سروکاروں کو سرفہرست رکھ کر اسے اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے۔اپنی عام فہم زبان سے اپنے عہد کے ناشازگار دور میں ساجی اشتراک و ارتباط کو مضبوط و مستحکم کرنے میں اپنا اہم فریضہ انجام دیا ہے۔عہد حاضر کے ان کے مشاعرے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ وہ بدلتے ہوئے حالات میں بھی وہ اپنے قومی اتحاد واتفاق ،محبت اخوت اور بھائی چارہ سے انحراف کرنے کے بجاے وہ تہذیب کی ارتقاء اور سیکولر کی روح کو زندہ رکھنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔وہ تمام بنیادی مسائل جوسماج وثقافت سے تعلق رکھتے ہیں راحت اندوری نے اسے اپنے کلام میں پیش کرنے اور لوگوں کو اس کی جڑوں سے آشنا کرانے میں پیش پیش رہے۔جس کے نتیجے میں راحت صاحب کے اشعار موقع بر محل لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن کربے شاختہ زبان سے اداہونے لگتے ہیں۔اردوشاعری میں راحت صاحب کے اس غیرمعمولی کارناموں کواردو دنیا بھلا نہیں پائے گی۔
حواشی
(۱)منظراعظمی اردوادب کے ارتقامیںادبی تحریکوں اور رجحانوں کاحصہ اترپردیش اردو اکادمی لکھنئو۱۹۹۶ء ص۲۹۴
(۲)گوپی چندنارنگ ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی۲۰۰۳ء ص۴۰۷
(۳)ساغرخیامی مرتبین طارق شاہین عزیزفرمان لمحے لمحے مکتبہ جامعہ لمیٹیڈدہلی۲۰۰۲ءٓ ص۲۹۳
(۴)محسن بھوپالی مرتبین طارق شاہین عزیز فرمان لمحے لمحے مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ دہلی ۲۰۰۲ء ص۳۸۲
ڈاکٹر تجمل حسین
صدر،شعبہ اردو ۔ گاندھی فیض عام کالج شاہجہاں پور ۔ یوپی
موبائل نمبر:8318913378
مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ | 

