ڈاکٹر ذاکر فیضی کی کہانیوں کی کتاب ’’نیا حمام ‘‘ کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ یہ ایسا حمام جس میں سبھی ننگے ہیں، مگر اپنے ننگے ہونے کا احساس کسی کو نہیں ہے۔ اب ’’نیا حمام ‘‘ کہانی کو ہی دیکھ لیجیے بظاہر یہ ایک اندھی ، گونگی اور بہری بچّی کی المناک کہانی ہے ۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ بچّی اپنے وجودی تضاد اور ملال کی وجہ سے پورے سماج کا شناخت نامہ بن گئی ہے۔یہ بچّی جو اندھی ، گونگی اور بہری ہے،ظاہر ہے کہ نہ اپنے والدین کے لیے راحت اور مسرت کا باعث ہے نہ ملک و سماج کے لیے مفید ہے، مگر تضاد دیکھیے کہ یہی اپاہج اور معذور بچّی جس کی اپنوں کی نظر میں کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔میڈیا کے لیے لاکھوں کروڑوں کا مال ہے ۔ جس کی زندگی کے کوئی معنی، مطلب نہیں ہے۔ اس کی موت بلکہ اس کا قتل انمول ہے۔
آپ چاہیں تو اپنی سہولت کے لیے بچّی کی جگہ ہندوستان کے عوام کو ، ماں کی جگہ حاکم یا حکمران کو اور میڈیا کی جگہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کو بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی کہ ہم جس صارف سماج کا حصّہ ہیں وہاں ہر چیز بکتی ہے بلکہ بہت مہنگے داموں میں بکتی ہے۔کہانی ’’ نیا حمام ‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ دیکھو،جب تم بچّی کو ختم کر رہے ہوگے تو کوئی مشہور نیوز چینل اپنے چھپے کیمرے میں
قید کر کے ٹی وی پر دکھائے گا ۔۔۔۔ کوئی کمپنی اس پروگرام کو اسپانسر کرے گی۔ تب
کمپنی کا بزنس بڑھے گا ، چینل کی ٹی آر پی بڑھے گی اور تمہارا بینک بیلنس بڑھے گا۔‘‘
اس سیدھی سادی اور مختصر سی کہانی کے پسِ منظر اور بین السطور پر نظر کریں تو یہ چھوٹی سی کہانی بہت بڑی کہانی نظر آ ئے گی، اتنی بڑی کہ آج کی زندگی کی ساری سچائیاں اس میں جذب نظر آئیں گی۔ یہ کہانی ہمیں اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر ہماری حیرتوں کو نہیں جگا پاتی ہیں ۔مگر اس میں کہانی کار کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ قصور ہے اس سماج اور معاشرے کا جس میں ہم رہتے ہیں ۔ کیوں کہ اس سماج میں اس طرح کی کہانیوں سے ہر آن ہمارا سابقہ پڑتا ہے۔
ساری دنیا میں پھیلے یتیم خانے ہوں کہ اولڈ ایج ہوم ، خیراتی تعلیمی ادارے ہوں کہ انسانی حقوق ۔اور بچّوں کے حقوق کے تحفّظ کے نعرے لگانے والے ادارے ، یا پھر طرح طرح کی این جی او، ہر جگہ یہی کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ایسے ہی ڈراموں اور اسی طرح کی قربانیوں سے شہرت اور دولت کمائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر فیضی کی بیشتر کہانیاں مشاہدات اور حادثات کو واقعات میں بدلنے کی شعوری کوشش کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔ اسی لیے ابھی واردات کی منزل دور نظر آتی ہے۔ ’’ ٹوٹے گمل‘ کا پودا ‘‘بھی سرسری نظر میں ایک سیدھی سادی المیہ کہانی نظر آتی ہے۔ایسی المیہ کہانی جو ہماری بارہا کی دیکھی اور سنی ہے۔مگر اس کہانی کی ندرت اور خوب صورتی سادگی میں پیوست پیچیدگی میں مضمر ہے۔
اس کہانی کے دو خاص کردار ہیں حنا اور پانی کا نل ، جو ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں ۔ اس کہانی کا مرکز پانی کا نل ہے یا حنا اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ ویسے نل کو اس کہانی کی دھری کے طور پر دیکھنا غلط نہ ہوگا کیوں کہ اسی دھری پر پوری کہانی گھومتی ہے۔ پانی کا نل اس کہانی میں کئی طرح کی نفسیاتی گرہوں کی اشاریہ بن جاتا ہے۔ جس سے اس سادہ سی کہانی میں گہرائی اور جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے۔
کبھی ایسا لگتا ہے کہ پانی کا یہ نل اس بڑے اور خوشحال خاندان کے مٹتے آثار کا اشاریہ ہے ۔ جس کا فرض تھا کہ وہ اپنے لوگوں کی سیری اور سیرابی کو یقینی بناتا۔ مگر وہ اپنی ہی سیری کے لیے رنڈی کے کوٹھے تک محدود ہو کر رہ گیا ۔ اور جب اس نل کا پانی خشک ہو گیا تو کوٹھے والی نے ٹھوکر مار کر اسے وہاں سے نکال دیا۔
مگر یہاں جو گھر میں نل ہے وہ اپنا پانی کھو کر بھی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود ہے حنا اس نل کو چپل مار کر کھوکلی شان و شوکت پر غصّہ اتار کر سیری اور تسکین حاصل کرتی ہے ، تو دوسری طرف یہی نل اس کے خواب میں سیندھ لگا کر اس کی جنسی تشنگی کی مبہم علامت بن کر ابھرتا ہے۔اور کبھی یہی نل اور اس کا پائپ اس کے گلے کا پھندا بن جاتا ہے ، جس کی وجہ سے اس کی گھٹن کا احساس شدید ہو جاتا ہے۔جس طرح خاندان کی جھوٹی شان اور شوکت کا احساس حنا کی پیاس بھجانے سے معذور ہے۔اسی طرح یہ نل بھی پانی کی دو بوند ٹپکانے سے محروم ہے۔ اس پر سے ستم یہ کہ اس کا پورا گھرانہ اور یہ نل اپنے وجود کے پورے غرور کے ساتھ موجود ہے ۔ ( یہ بھی پڑھیں البیلا مسافر – مہر فاطمہ)
یہ کہانی بہت ساری نفسیاتی گتھیوں سے گوندھ کر اس سادگی سے بیان کی گئی ہے کہ سرسری انداز میں دیکھنے سے کسی قسم کی پیچیدگی کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ مگر جب رک کر غور کیا جاتا ہے تو سادگی میں پر کاری کا محاورہ سچ ہوتا نظر آتا ہے۔
کہانی میں ایک طرف نل ہے جو حنا کے جذبۂ تنفر کے اظہار کا مرکز ہے تو دوسری طرف خود حنا ہے جو گھر والوں کے جذبہ ٔ تنفر کے اظہار کا محور ہے۔حنا کو نل سے نفرت ہے کہ پانی نہیں دیتا ہے۔اور گھر والوں کو حنا سے شکایت ہے ، حسن اور جوانی کے باوجود کسی کو اپنے عشق میں مبتلا نہیں کر سکتی ۔
کہانی کا المیہ صرف یہی نہیں ہے کہ نہ نل نے کسی کی پیاس بھجائی اور نہ حنا نے کسی کے عشق کی آگ کو بھڑکائی۔ کہانی کااصل المیہ یہ ہے کہ گھر والوں نے آخر تک حنا کی تشنہ زندگی کے کرب کو نہیں سمجھا جبکہ حنا نے نل کی تشنگی اور اس کے وجود کو شدّت سے محسوس کیا اس لیے وہ کہانی کے آخر میں اس سے لپٹ کر رو پڑی۔
یہ کہانی تضادات سے بنی گئی ایک اچھی کہانی ہے۔ایک تضاد تو یہ ے کہ گھر والوں کو اپنے گئے وقتوں کی شان و شوکت اتنی عزیز ہے کہ اس کے لیے کسی ایرے غیرے کا رشتہ منظور نہیں ہے۔دوسرا تضاد یہ ہے کہ وہی گھر والے حنا کو کتاب پڑھتا دیکھ کر مذاق اڑاتے ہیںکی بھلا انٹر نیٹ کے زمانے میں بھی کوئی کتابوں میں سر کھپاتا ہے، تیسرا تضاد یہ ہے کہ حنا کی بھابھیاں حنا سے اس لیے پر خاش رکھتی ہیں کہ اگر اس نے دو چار عشق کیے ہوتے تو آج وہ اپنے کنوارے پن کے عذاب کے ساتھ تنہا جینے پر مجبور نہیں ہوتی۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر فیضی اگر اپنی کہانیوں کی بنت پر اسی طرح توجہ کرتے رہیں گے تو بہت جلد اچھے کہانی کار کے طور پر پہچان بنالیں گے۔
Dr. Afaque Alam Siddiqui
Zubaida Degree College,
Jai Nagar , Shikarpur,
Shimoga, Karnatak
577427
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |