صغریٰ مہدی کا شمار اردو ادب کے مشہور ومعروف ادیبوں میں ہوتا ہے۔خواتین افسانہ نگاروں میں ان کا ایک اہم مقام اس لئے بھی ہے کہ وہ ہمیشہ ہی عورت کی بہتر زندگی اور سماج میں ان کے مقام کے تئیں بیدار رہی ہیں۔ صغریٰ مہدی نے اردو ادب سے لگاؤ وراثت میں پایا۔اردو کے مشہور ادیب ،دانشور اور مفکر ڈاکٹر عابد حسین ان کے ماموں تھے اور مشہور افسانہ و ناول نگار صالحہ عابد حسین ان کی ممانی تھی۔ لہذابچپن ہی سے موصوفہ ان کے ساتھ رہیں اور انہیں کی ہمت افزائی اور حوصلہ افزائی کی بدولت انہوں نے ادب میں اپنا ایک اہم مقام بنایا۔ صغریٰ مہدی کی پیدائش بھوپال میں ۱۹۳۸میں ہوئی۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو سے بھی منسلک بھی رہیں۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۶۹میں کیا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’پتھر کا شہزادہ‘‘۱۹۷۵میں شائع ہوا ۔اس کے یکے بعد دیگرے ،’’جو میرے وہ راجا کے نہیں‘‘ـ (۱۹۸۷)،’’پہچان‘‘(۱۹۹۵)اور ’’پیش گوئی‘‘(۲۰۰۵)میں شائع ہوئے۔افسانے کے علاوہ انہوں نے پانچ ناو ل(پابہ جولا‘‘،’’دھند ‘‘،’’پروائی‘‘،’’راگ بھوپالی‘‘اور ’’جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو‘‘) ،تین تنقیدی کتابیں(اکبر کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ،اکبر الہ آبادی اوراردو ناولوں میں عورت کی سماجی حیثیت) اوربچوںکی تین کتابیں(بعنوان بچوں کے عابد حسین ، بچوں کی صالحہ عابد حسین اور بچوں کے ابّا جان اکبر الہ آبادی ) کے علاوہ بہت سی کتابوں کے ترجمعہ کیا۔ان کا ہندی افسانوی مجموعہ ’’غلابوں والا باغ‘‘شائع ہوکر ہندی ادبی حلقے میں داد وتحسین حاصل کر چکا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ڈاکٹر ابوبکر جیلانی کی تحقیقی وتنقیدی بصیرت (’تفہیم وتشریح‘کی روشنی میں ) – ڈاکٹر ارشاد شفق )
صغریٰ مہدی نے پہلی کہانی بچوں کے رسالے ’’کھلونے‘‘کے لئے لکھی جس کا عنوان’’ہمت کا پھل تھا‘اس وقت وہ آٹھوی جماعت کی طالبہ تھیں۔اس کے بعد ان کی تخلیقات کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا اور ’’بیسویں صدی‘‘،’’بانو‘‘،’’آج کل ‘‘اور ’’سب ساہتیہ‘‘وغیرہ جیسے مشہور رسالوں میں ان کے افسانے متواتر شائع ہوئے۔
صغریٰ مہدی کے افسانوں کے موضوعات زیادہ تر عورت اور اس کے مسائل کے گرد طواف کرتے ہیں ۔ان کے افسانے ان نقطوں کو اٹھاتے ہیں جہاں عورت آزاد نہیں ہے وہ کسی اور کی ملکیت ہے چاہے وہ باپ اور بھائی کی صورت میں ہو یا پھر شوہر اور سسرال کی ۔کیا وہ اپنی کوئی شناخت یاپہچان رکھتی ہیں یا نہیں ان کے کردار کے ذہن میں باربار یہ سوال کردش کرتے رہتا ہے۔ وہ عورت کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر خاموش رہنا پسند نہیں کرتیں۔ انہوں نے عورت کے ساتھ رواں رکھے جانے والے رویئے اور معاشرتی نظریات کو جہاں تنقید کا نشانہ بنایاہے وہیں مرد کی فطرت اور عورت کے تئیں اس کے سلوک اور دھوکہ دہی کو بھی فنکاری سے پیش کیا ہے۔ صغریٰ نے کوٹھیوں میں رہنے والے نوابوں اور سرمایہ داروں کے چہرے سے اصلی نقاب ہٹانے کی کامیاب کوشش کی جو عورت کو عورت سمجھنے کے بجائے ایک داستہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مردکی بے وفائی اورخودغرضی پر’’زخم بھی‘‘،’’مرہم بھی‘‘،’’ملبہ‘‘،’’کہانی پارو کی‘‘،’’ساتویں بیٹی‘‘اور ’’نمک حرام‘‘وغیرہ جیسے اچھے اور معیاری افسانے لکھے۔اس ضمن میں کملیش ان کے افسانوی مجموعے ’’جو میرے وہ راجا کے نہیں ‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ صغریٰ کی اور کہانیوں اور ناولوں کی طرح اس مجموعے (جو میرے وہ راجا کے نہیں )کی زیادہ تر کہانیاں ناری کی زندگی کے ان پہلوؤں کے گرد گھومتی ہیں ،جہاں اس کا وجود آزاد نہیں ہے ۔اس مجموعے کی اکثر کہانیوں میں ہندوستانی ناری اسی طویل اور کٹھن راستے پر چلتی دکھائی دیتی ہے ۔اپنی جگہ کھوجتی ،اپنی پہچان بناتی قدم قدم پر اس کی قیمت چکاتی اور اس راہ میں جو کرب اسے سہنا پڑ رہا ہے ۔اس کو نہ صرف صغریٰ نے محسوس کیا ہے بلکہ اس کو اچھے ڈھنگ سے پیش بھی کیا ہے۔‘‘
صغریٰ نے اپنے افسانوں کا ماحول زیادہ تر گھریلوزندگی سے اخذ کیاہے۔ اس میں موجود انسانی رشتے ،اخلاق وبھائی چارگی، تہذیب ومعاشرت کے اُتار چڑھاؤ اور خامیوں کو انہوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں بھی زیادہ تر معاشرتی اور تہذیبی گراوٹ کے نقوش اُبھرتے ہیں۔ انہوں نے جو کردار تراشے ہیں وہ جدید دور کے معاشرتی کردار ہیں جو اچھے ماحول سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی کسی نہ کسی مسئلے میں ا لجھ کر مسائل کے شکار ہوگئے ہیں۔ ’’بن باس‘‘،’’نمک حرام‘‘ ،’’چوراہا‘‘،’’چوتھا گھونٹ‘‘،’’سمجھوتہ‘‘،’’فیصلہ‘‘اور ’’آخر کیوں‘‘وغیرہ اس قبیل کے افسانے ہیں ۔ ’’بن باس‘‘ان کا اچھا اور معیاری افسانہ ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اندر پھیلی برائیوں کی نشاندہی کی ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ’’باغ وبہار‘‘کے نسوانی کردار :ایک ڈسکورس -ڈاکٹرارشاد شفق )
صغریٰ مہدی کے افسانوں میں مشرقی ومغربی تہذیب کا تصادم نظر آتا ہے۔ ان کے افسانوں کے زیادہ تر کردار شہری ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے بدلتے دور کی معاشرتی اور اخلاقی بنیادوں کی تززلی کو نمایاں کرنے کی کوکشش کی ہے اوراقدار کی پامالی اور نئی تہذیب ونئے معاشرے میں جوز رہے موجودہ دور کے افرادکے شب وروز کے حالات کو نمایاں کرکے دکھایا ہے۔ اس ضمن میں ان کے افسانے ’’پہچان ‘‘،’’نمک حرام‘‘،’’کیا یہ نہیں ہوسکتا‘‘،’’غریب خانہ‘‘اہمیت کے حامل افسانے ہیں۔ جن میں مشرق اور مغرب کی گھتیاں سلجھائی گئیں ہیں۔ انہوں نے فرد اور معاشرے کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا اس لئے ان کے افسانوں کے موضوعات اور ان کا نظریہ دونوں اپنے ماحول اور معاشرے سے مانوس نظر آتے ہیں ۔
معاشرتی اور سماجی زندگی سے پرے ہٹ کر صغریٰ کے یہاں موضوعاتی سطح پر تنوع بھی ملتا ہے۔وہ حب الوطنی کی دلدادہ ہیں اور مشرقی تہذیب ومعاشرت سے انہیں بہت لگائو ہے لیکن نئے زمانے اور نئے ماحول کے تقاضے اور مسائل بھی نئے ہیں جس سے موصوفہ کبھی چشم پوشی نہیں کرتیں۔ انہوں نے نئے معاشرے میں انسانی فطرت میں پیدا ہونے والی تنگ نظری،اخلاقی پستی، دہشت گردی اور سیاسی مسائل کو بھی بڑی کامیابی سے افسانوں میں برتا ہے۔ اس سلسلے کی کہانیوں میں ’’فیصلہ‘‘،’’سمجھوتہ‘‘،’’غریب خانہ‘‘اور’’دوہری برچھائیاں‘‘اچھے افسانے ہیں جو نئے دور کے مسائل سے دوچار ہوکر لکھے گئے ہیں۔
صغریٰ کے افسانوں کی انفرادیت یہ ہے کہ ان کے موضوعات کو کسی ایک دائرے میں محدود نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے کسی خاص مقصد یا کسی خاص نظریئے کے تحت افسانے نہیں لکھے ہیں۔ انہوں نے جہاں عورت کے ساتھ ہونے والے ظلم وجبر کو نمایاں کرکے دکھایا ہے وہیں ازدواجی زندگی کے مسائل ،ماں باپ کا کرب اور اخلاقی رشتوں میں گراوٹ کے الگ الگ پہلو کو اہمیت دی ہے، تاہم ان کے یہاں کرداری اعتبار سے مردوں کے برعکس عورت کا کردار جاندار اور متحرک نظر آتا ہے،جو افسانوی منظر نامے پر آکر قاری سے اپنا وجود منوالیتے ہیں۔
صغریٰ مہدی افسانوں کے ذریعے قارئین کے جذبات واحساسات کو چھولیتی ہیں اور قاری خود بہ خود ان سے قریب ترہو جاتا ہے ۔ا ن کی کہانیوں کی تکنیک بیانیہ ہے مگر ماضی سے حال اور مستقبل کا سفرطے کرتی یہ کہانیاں قاری کے ذہن کو الجھانے کے بجائے انہیں ذہنی آسودگی فراہم کرتی ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ افسانہ نگاروں کی اس بھیڑ میں موصوفہ اپنا قاری خود تلاش کرلیتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر افسانہ نگاراپنا قاری خود تلاش کرلے تو یہ افسانہ نگار اور اس کے افسانے دونوں کی انفرادیت کی دلیل ہے۔
٭٭٭
Dr. Irshad Shafaque
PG Department of Urdu
TDB College, Raniganj،
West Bengal-713347
Ph: 8100035441/7003101909
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |