Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
افسانہ

سکھ کے موسم کا قاصد- صائمہ ذوالنور

by adbimiras دسمبر 17, 2020
by adbimiras دسمبر 17, 2020 0 comment

پنک سوٹ میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔ساتھ میچنگ جیولری نے اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دئیے تھے۔اس نے اپنے سیاہ لمبے بالوں کو ایک چوٹی میں قید کر رکھا تھا۔وہ مسلسل یاور کی نظروں کے حصار میں تھی۔

’’ارے یاور!تمہاری پلیٹ تو ویسے ہی بھری ہوئی ہے،کچھ کھاتے کیوں نہیں…؟‘‘احمر نے اسے ٹوکا تو وہ چونک پڑا۔

’’کیا بات ہے ،کچھ خاموش لگ رہے ہو؟‘‘احمر نے اس کے سنجیدہ چہرے پر نظریں دوڑائیں۔

’’کچھ نہیں ،بس ایسے ہی !‘‘وہ ٹال گیا۔

تبھی چاروں طرف جیسے بے شمار نقرئی گھنٹیاں سی بج اٹھیں ۔یاور نے دیکھا وہ خوبصورت لڑکی کسی بات پر زور سے ہنس پڑی تھی۔

’’یہ لڑکی کون ہے ؟‘‘احمر نے عدیل سے پوچھا۔

’’آئو تمہیں اس سے ملوائوں۔‘‘عدیل اس کی جانب بڑھتے ہوئے بولا۔

’’آئیے آئیے عدیل بھائی!آج تو آپ ہمیں لفٹ ہی نہیں دے رہے ہیں۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے عدیل سے مخاطب ہوئی۔

’’گل یہ میرے دوست ہیں یاوراور یہ احمر۔‘‘

’’اور یہ گل رعنا ہیں،ممی نے انہیں اپنی بیٹی بنا کر ہم پر بڑا ظلم کیا ہے۔‘‘ عدیل نے مصنوعی آہ بھری۔

’’بری بات عدیل بھائی!میں ممی سے آپ کی شکایت کروں گی۔‘‘اس نے بھی مصنوعی خفگی کا اظہار کیا۔

’’ارے نہیں…نہیں پیاری بہنا،پلیز ممی سے کچھ مت کہنا۔‘‘

اس نے گل کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجا کی تو وہ مسکرا اٹھی۔

’’آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘اس نے بظاہر رسمی سا جملہ بولا ۔

’’شکریہ!‘‘وہ بھی بے نیازی سے مسکراتے ہوئے بولی اور پھر وہ عدیل سے محو گفتگو ہو گئی۔یاور اس کی شخصیت کے سحر میں کھویا رہا۔

پاری کے اختتام پر جب وہ دیا اور عدیل سے اجازت لے کر جارہی تھی تب بے ساختہ یاور کا جی چاہا کہ وہ اس نازک سی لڑکی کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر کہیں بہت دور لے جائے مگر خواہشیں اس طرح تو پوری نہیں ہو جاتی ہیں۔پھر وہ بھی وہاں نہیں رکا تھا، گھر لوٹ آیا۔

’’کیا زندگی کی کایا یوں بھی پلٹ جاتی ہے ؟‘‘یاور نے سوچاکل میں کیا تھا؟ ایک عام سا مرد،کوئی فکر نہیں ،کوئی غم نہیںلیکن آج ایک معمولی سی لڑکی نے میری زندگی کی دھارا ہی بدل دی۔

بعض اوقات یہ زندگی بھی کس قدر دشوار ہو جاتی ہے۔خواہش کے باوجود بھی ہم اسے آسانی سے نہیں گزار پاتے۔کچھ لوگ اس معاملے میں بے حد خوش نصیب ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کی قسمت میں سوائے دکھوں کے کچھ نہیں ہوتا۔

میں بھی ان بدنصیب لوگوں میں سے ہوں میرے لاکھ چاہنے پر بھی میری زیست میں رقم بدنصیبی میرا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔میرا ہوتے ہوئے بھی کوئی میرا نہیں،یہ خونی رشتے بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں!

ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے بھی کسی کو میرا علم نہیں ۔کسی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا،کسی کو نہیں معلوم کہ ان کے خاندان کا ہی ایک چراغ آندھیوں کی زد میں ہے۔

’’اف میرے خدایا…!میں کیا کروں؟‘‘

اس نے اپنا چکراتا ہوا سر تھام لیا۔

’’گل…گل بیٹا…کہاں ہو تم…!‘‘

اماں جی کی آواز پر اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور کتاب ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئی۔

’’گل بیٹی!‘‘اماں جی اندر آگئیں:’’دیبا کا فون آیا ہے۔‘‘

’’اچھا…!‘‘اس نے فون ان کے ہاتھ سے لے لیا۔

’’ہیلو دیبا…کیسی ہو؟‘‘

’’ٹھیک ہوں۔ابھی ابھی ایک فنٹاسٹک نیوز سن کر آرہی ہوں ۔‘‘

’’کیسی نیوز؟‘‘اس نے حیرت اور تجسس سے پوچھا۔

’’ابھی یاور بھائی ہمارے گھر آئے تھے اور انہوں نے عدیل بھائی سے تمہیں پرپوز کرنے کی بات کہی ہے۔‘‘

’’کیوں بکواس کر رہی ہو!‘‘

’’بکواس نہیں مائی ڈیئر ،حقیقت ہے۔‘‘

’’ارے گل بی بی!اتنی اچھی خبر اگر تم مجھے سناتیں تو تمہارا منھ لڈوئوں سے بھر دیتی۔مگر تم …خیر جانے دو …ابھی آرہی ہوں میں تمہاری طرف،کہیں جانا نہیں۔‘‘ اس نے تاکید کے ساتھ ہی فون بند کر دیا۔

کچھ ہی دیر بعد دیبا اس کے سامنے تھی اور وہ خاموشی سے سر جھکائے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں الجھی ہوئی تھی۔

’’گل…!‘‘دیبا نے اسے مخاطب کیاتو اس نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

’’پلیز گل!کچھ تو بولو،تمہاری اس خاموشی سے مجھے وحشت ہوتی ہے۔‘‘دیبا نے گل کا ہاتھ تھام لیا۔

’’میں کیا کروں دیبا!میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘اس نے بے بسی سے جواب دیا۔

’’یاور بھائی بہت اچھے ہیں ،بے حد مخلص!‘‘تمہیں ان کے حق میں فیصلہ دے دینا چاہیے۔‘‘

’’ویسے تم کہیں اور تو انٹرسٹیڈنہیں؟‘‘زیبا نے رازدارانہ انداز میں پوچھا۔

’’ارے نہیں دیبا!کیسی بات کرتی ہو ؟میرے نزدیک یہ سب سے بڑی حماقت ہے۔چھچھوری باتیں لگتی ہیں یہ محبت اور عشق وشق۔‘‘گل نے منھ بنایا۔

’’ارے تو کیا شادی کے بعد بھی تم اپنے شوہر سے محبت نہیں کروگی؟‘‘دیبا نے حیرت سے پوچھا۔

’’ارے کیوں نہیں ڈیئر!شادی کے بعد تو شوہر سے محبت فرض بن جاتی ہے۔‘‘

’’تب پھر ٹھیک ہے تم یاور بھائی سے شادی کے بعد ہی محبت کر لینا۔‘‘دیبا نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔

’’لیکن مسئلہ تو پھر بھی وہی رہتا ہے نا دیبا!میں کہاں اور وہ کہاں؟‘‘

’’بقول تمہارے اس اکیلے بندے کا بینک بیلنس کروڑوں پر مشتمل ہے تو اس کے خاندان والے بھلا مجھ جیسی غریب لڑکی کو قبول کر لیں گے،جس نے کبھی بینک کی شکل تک نہیں دیکھی۔جو بھی کماتی ہوں سب خرچ ہو جاتا ہے،تم تو جانتی ہو دیبا!پھر ایسے حالات میں کیسے کسی امیرزادے کی خواہش کر سکتی ہوں؟‘‘اس نے اداسی سے کہا۔

’’تم ان سب باتوں کی فکر کیوں کرتی ہو؟عدیل بھائی نے تمہاری ساری تفصیل انہیں بتا دی ہے۔وہ اس پر راضی ہیں۔رہی ان کے خاندان والوں کی بات تو یہ ان کا مسئلہ ہے وہ خود حل کر لیں گے۔‘‘

’’اچھا اب میں چلتی ہوں ،تم آرام سے سوچ کر جواب دینا۔‘‘

دیبا چلی گئی مگر گل کے ذہن پر منوں بوجھ ڈال گئی۔کچھ دن بڑے آرام سے گزر گئے بغیر اسے ڈسٹرب کیے۔دیبا نے اطلاع دی تھی کہ یاور کچھ دن کے لیے باہر گئے ہوئے ہیں،واپسی پر وہ اپنا مسئلہ اٹھائیں گے،اس طرح یہ معاملہ کچھ دن کے لیے ٹل گیا۔

بہت سوچ سمجھ کر ایک اہم فیصلہ کر لیا تھا اور دیبا کو بتا کر مطمئن بھی ہو گئی تھیں۔دیبا نے اسے مبارکباد بھی دی تھی۔اماں جی نے بھی اسے بہت سی دعائوں سے نوازا تھا،وہ خوش تھی۔

لیکن پھر اچانک ہی وہ سب کچھ ہو گیا جو شاید نہیں ہونا چاہیے تھا۔زندگی کی گاڑی پٹری پر چلتے چلتے اچانک تھم سی گئی تھی۔

اس کے تایا اور چچا جو ملک کے ایک بڑے سرمایہ دار تھے،اچانک ہی اسے لینے آگئے۔وہ حیران رہ گئی۔وہی تایا اور چچا جو اس کے والد کی وفات کے بعد اس سے بے خبر ہو گئے تھے۔ان کی بڑی سی کوٹھی میں اس کے لیے جگہ نہیں تھی۔

وہی تائی اور چچی جنہوں نے معصوم بچی کو اپنی گود میں پناہ دینے کے بجائے دردرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا تھا۔آج ان کی محبت نے یکایک جوش مارا تھا۔وہ ساری نفرتیں اور عداوتیں بھول کر اسے لینے آئے تھے۔کیوں اور کس لیے وجہ جاننے کے لیے گل ہوش میں نہیں تھی۔

اور جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک عالیشان کوٹھی میں تھی۔وہ کوٹھی ،جس میں اس نے پہلی بار آنکھیں کھولی تھیں۔جہاں اس کے والد کی محبت اورماں کی ممتا کی مہک بسی تھی۔ ( یہ بھی پڑھیں یہ بہار کیسی آئی – صائمہ ذوالنور )

اس کے گرد کتنے چہرے تھے!اجنبی اجنبی سے ،مگر سب اپنے تھے۔اس نے خاموشی سے سب کا جائزہ لیا ۔کئی بزرگ تھے،خواتین اور مرد۔اس کی ہم عمر لڑکیاں اور لڑکے بھی تھے۔کئی چھوٹے بچے بھی تھے مگر سب خاموش خاموش ۔مہر بہ لب،اپنے آپ میں نادم اور شرمندہ سے!

جیسے کوئی بڑا گناہ اس سے سرزد ہو گیا ہو!

ان کی آنکھوں میں پیار کا سمندر تھاجو وہ اس پر لٹانے کو بیتاب تھے۔ان کی کھلی ہوئی بانہیں بے قرار تھیں اسے سینے سے لگانے کے لیے!

اور پھر اس کی نگاہیں ایک چہرے پر ٹھہر گئیں۔

محبت سے بھراپُرنور چہرہ…آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ویسی ہی چمک جو اسے اپنے ابو کے فوٹو میں نظر آتی تھی۔

اس کا دل تڑپ اٹھا:’’ابو جی…!‘‘

وہ بے ساختہ ان کے سینے سے جا لگی۔آنسوؤں کا سیلاب سارے بند توڑ کر بہہ نکلا تھا۔

گل کو سینے سے لگائے اس کے سر پر ہاتھ رکھے وہ بھی رو رہے تھے۔پورا کمرہ آنسوئوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا۔درودیوار بھی جیسے اس انوکھے ملاپ پر سسک اٹھے ہوںاور جب آنسوئوں کی برسات تھمی تو گل نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔

نہیں یہ میرے ابو نہیں ہو سکتے۔وہ تو میری پیدائش کے چند ماہ بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے،پھر…پھر یہ کون تھے!

گل نے ان کی جانب دیکھا،ہوبہووہی شکل وصورت:’’آپ میرے ابو نہیں ہو سکتے۔‘‘گل پیچھے ہٹ گئی۔

’’بیٹی!چچا بھی باپ کی جگہ ہوتا ہے۔‘‘ایک بزرگ خاتون نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے کہا:’’اور بیٹی میں تمہارا تایا ہوں ۔‘‘ایک بزرگ نے شفقت سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔

پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا ۔ایک کے بعد ایک وہ سب کی بانہوں کے حصار میں تھی۔دل میں جذبات کا ایک طوفان تھا۔جس پر قابو پانا بڑا مشکل لگ رہا تھا۔ ( یہ بھی پڑھیں  ہاؤس ہوسٹس – پروفیسر غضنفر علی )

اپنی زندگی کے بیس قیمتی سال اس نے یونہی اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے گنوا دئیے تھے اپنوں سے دور رہ کر۔اپنوں کی کمی کا احساس اسے ہمیشہ ستایا کرتا تھا۔اگرچہ اماں جی کی نرم گرم آغوش میں اسے بے حد اور بے حساب پیار ملا تھا۔دیبا اور عدیل نے بہن بھائی کی کمی کا کبھی احساس نہیں ہونے دیا تھالیکن پھر بھی ایک بے نام سی خلش اکثر اسے بے چین کر دیتی تھی اور آج جب قدرت نے اس کی یہ خلش دور کر دی تھی۔ اس کے سارے خونی رشتے اس کے ارد گرد موجود تھے۔خوبصورت اور مشفق چہروں والے،ہنستے مسکراتے اس سے محو گفتگو تھے تب اچانک ہی اسے اماں جی کی کمی کا شدت سے احساس ہوا تو وہ اداس ہو گئی۔مسکراتے ہوئے اس کا چہرہ بجھ گیا۔

’’کیا بات ہے گل!‘‘چھوٹے چچا کی حرا نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

’’کچھ نہیں حرا…بس اماں جی کی یاد آگئی تھی۔‘‘اس نے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔

’’اماں جی…؟اچھا وہ ملازمہ ،حرا کی بڑی بہن حمیرا نے کہا۔

’’حمیرا باجی…!‘‘گل تڑپ اٹھی:’’وہ میری ماں ہیں ۔میرے لیے وہ مقدس رشتہ رکھتی ہیں۔‘‘گل کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔

’’بری بات حمیرا!ایسے نہیں کہتے ،رضیہ تو ہمارے لیے بڑی قابل حترام ہے۔اتنے سال اس نے ہماری بیٹی کو ہر طرح کا آرام اور سکھ دیا۔‘‘تائی اماں نے حمیرا کو سرزنش کرتے ہوئے کہا۔

’’سوری گل!مجھے معاف کر دینا۔‘‘حمیرا نے ندامت سے کہا۔

’’کوئی بات نہیں حمیرا باجی!بس آپ آئندہ خیال رکھیں۔‘‘

…………………

زندگی اس طرح بھی رنگ بدل سکتی ہے گل نے کبھی سوچا نہ تھااور زندگی کا یہ لمحہ اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔اس گھر کے لوگوں کے دل بھی بہت وسیع تھے۔سب اسے بہت پیار کرتے تھے۔وہ بھی ساری پچھلی باتیں بھلا کر ان کی محبت کے رنگ میں رنگ گئی تھی۔

صبح بے حد خوشگوار تھی ۔ساری رات بارش ہوتی رہی تھی جس کی وجہ سے سارے پیڑ پودے دھلے ہوئے ،نکھرے نکھرے سے بے حد بھلے لگ رہے تھے۔گل کھڑکی کے پردے سرکائے لان کا نظارہ کر رہی تھی۔تبھی فون کی گھنٹی بج اٹھی۔’دیبا کا ہی ہوگا‘اس نے سوچا۔

دوسری جانب جو آواز تھی وہ اس کی سماعت میں رس گھول گئی۔

’’کیا میں پوچھ سکتا ہوں آپ نے کس پاداش میں مجھے سزا دی ہے؟‘‘

’’میں جانتی ہوں آپ مجھ سے ناراض ہوں گے یاور!مگر میں مجبور تھی۔یہ سب جو میرے اپنے ہیں ،ایک مدت بعد مجھے ملے تو ان کی بات کا احترام میرے لیے ضروری ہو گیا تھا۔یہاں آنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔‘‘وہ بے بسی سے اپنی مجبوری کا احوال سنا رہی تھی۔

مگر وہ اس سے ناراض تھا ،اس بات سے خفا کہ وہ یہاں کیوں آگئی تھی۔

گل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ایک جانب یاور کی محبت تھی تو دوسری جانب اپنے عزیزوں کی شفقت ،وہ دونوں سے ہی دستبردار نہیں ہونا چاہتی تھی۔

زندگی نے عجیب دوراہے پہ لاکر کھڑا کر دیا تھا!

اس نے دیبا کو فون کیا ۔دیبا اس کی آواز سن کر چلا پڑی:’’تم بہت بے مروت ہو گل!اپنوں میں جاکر ہمیں بھول گئیں ۔‘‘

’’یہ کیا کہہ رہی ہو دیبا…!تمہیں بھول سکتی ہوں بھلا…؟‘‘اس نے افسردگی سے کہا :’’آج دل بہت اداس ہو رہا تھا۔‘‘

’’اداسی کس بات کی اب تو تم بہت خوش ہوگی،اتنے عالیشان محل میں رہتی ہو ،بہترین کھانے کھاتے ہو،قیمتی لباس بھی ہیں تمہارے پاس،پھر کس بات کی پریشانی ہے؟‘‘دیبا کا طنزیہ لہجہ اسے دکھی کر گیا:’’پلیز طنز تو نہ کرو۔‘‘

’’یہ سب تمہارے اپنے ہیں گل!تمہارا خون…وہ خون جو آج سے بیس سال پہلے تمہیں گھر سے نکالتے وقت منجمد ہو گیا تھا۔‘‘

’’بس کرو دیبا…!‘‘گل شدت کرب سے بول اٹھی۔

’’میں تو بس کر دوں گی گل!لیکن تم سے اتنا ضرور کہوں گی کہ ان اپنوں سے ذرا ہوشیار رہنا۔جو آج بیس سال بعد تم پر اپنا پیار لٹا رہے ہیں ،تو یونہی نہیں!‘‘

دیبا نے فون بند کر دیا تھااور وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے سوچ رہی تھی۔

’’تایا ابا،تائی اماں،چچا،چچی،پھپھواور باقی سب لوگ جو مجھ سے اتنا پیار بھرا سلوک کر رہے ہیں …دھوکہ ہے؟یہ جو سب میرا اتنا خیال رکھتے ہیں ،میری ذرا سی تکلیف پر پریشان ہو جاتے ہیں ،یہ سب فریب ہے؟نہیں …نہیں…دیبا!تم کو غلط فہمی ہوئی ہے ،یہ سب لوگ ایسے نہیں ہیں!‘‘

’’تایا ابا نے خود مجھ سے معافی مانگی تھی…تائی اماں نے میرا ہاتھ تھام کر جو اتنے سارے ندامت کے آنسو بہائے تھے ،کیا جھوٹے تھے؟چچی اور پھپھو نے جو اپنی محبت کا یقین دلایا تھا کیا وہ سچ نہیں؟یہ لوگ صرف میری دولت حاصل کرنے کے لیے مجھ پر اتنی شفقت لٹا رہے ہیں؟نہیں ایسا نہیں ہو سکتا،یہ سب اتنے خود غرض نہیں ہو سکتے!‘‘

…………………

’’ارے اتنی زبردست تیاری کے ساتھ کہاں جا رہی ہیںحمیرا باجی!‘‘گل نے ان کے قیمتی لباس اور میچنگ جیولری کو سراہتے ہوئے کہا ۔

’’کہاں سے کیا مطلب ہے…تم نہیں جا رہی ہو کیا؟‘‘حمیرا نے بالوں میں برش کرتے ہوئے ،ہاتھ روک کر حیرانی سے پوچھا ۔

’’مجھے تو علم نہیں کہاں جانا ہے اور نہ ہی کسی نے مجھ سے چلنے کو کہا۔‘‘گل نے ان کے خوبصورت تراشیدہ بالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔

’’کوئی آپ کو بتاتا کیسے؟آپ تو خواب فراموشی میں گم تھیں۔‘‘

اندر آتی ہوئی حرا نے اس کا آخری جملہ سن لیا تھا۔

’’چلو اب جلدی سے فٹافٹ تیار ہو جائو !‘‘

’’جانا کہاں ہے…؟‘‘

’’تم تیار ہو کر آئو پھر بتائوں گی۔‘‘حرا نے اسے دروازے سے باہر دھکیلتے ہوئے کہا۔

’’ارے میم صاحبہ!کہاں واک کرتی پھر رہی ہو ؟تیار نہیں ہوئیں ابھی؟‘‘

’’انکل شیراز کے گھر پارٹی میں جانا ہے۔‘‘عاطرہ نے اسے کوریڈور میں ہی پکڑ لیا۔

’’یہ شیراز انکل کون ہیں…؟‘‘

’’پاپا کے ایک دوست کے بیٹے ہیں۔‘‘

…………………

پارٹی میں عاطرہ نے اسے بہت سے لوگوں سے ملوایا۔تبھی اچانک اس کی نگاہ یاور پر پڑی۔وہ بھی گل کو دیکھ چکا تھا۔گل بے ساختہ اس کی جانب بڑھی مگر یاور اسے نظر انداز کرتا ہوا دوسری سمت مڑ گیا۔

گل کو لگا کہ جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے منظر دھندلا گئے ہوں۔اس نے بمشکل اپنے آنسوئوں پر بند باندھا تھا۔گھر واپس آئی تو لباس تبدیل کرکے بستر میں گھس گئی مگر نیند آنکھوں سے غائب تھی۔روم روم چیخ رہا تھا ،دہائی دے رہا تھا،محبوب کی بے وفائی پر …اور وہ سسک سسک کر اسے خاموش کر رہی تھی۔

کتنے ہی پل وہ بے آواز روتی رہی!

’’یہ زندگی اتنی عذاب کیوں بن گئی ہے؟دل نے اتنی شدت سے تو کسی کو نہیں چاہا تھا اور جسے چاہا تو وہ ہرجائی نکلا۔‘‘اشکوں کا سیلاب ایک مرتبہ پھر بہہ نکلا۔ یاور کی بے نیازی اسے یاد آرہی تھی۔

’’کیا کوئی یوں بھی بدل جاتا ہے!‘‘اس نے بے بسی سے سوچا۔

صبح نہا دھو کر جب وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آئی توآنکھیں شب بیداری کی کہانی کہہ رہی تھیں۔اس نے ڈھیر سارا کاجل آنکھوں میں لگایا تو ان کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو گیا۔

’’ہائے…!کس مظلوم کو قتل کرنے کا ارادہ ہے آج…؟‘‘عاطرہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے استفسار کیا۔

’’جو بھی زد میں آجائے!‘‘اس نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔

تبھی ملازم نے ناشتہ لگنے کی اطلاع دی تو دونوں ڈائننگ ہال میں چلی آئیں!

…………………

اس دن شام میں سب لوگ کہیں گئے ہوئے تھے ۔گل سردرد کا بہانہ کرکے گھر پر ہی رک گئی تھی۔

یاور کی بے وفائی نے اسے اندر سے بالکل توڑ کر رکھ دیا تھا۔بند کمرے سے نکل کر وہ باہر لان میں آگئی۔موسم بہت خوبصورت ہو رہا تھا۔تبھی ایک گاڑی اندر داخل ہوئی اور اس میں سے ایک معمر شخص اتر کر اس کے پاس چلے آئے۔

’’السلام علیکم…!‘‘گل نے کھڑے ہوتے ہوئے انہیں سلام کیا۔

’’وعلیکم السلام بیٹی…!‘‘انہوں نے شفقت سے جواب دیا ۔

’’سب لوگ کہاں ہیں؟‘‘انہوں نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔

’’جی کسی فنکشن میں گئے ہوئے ہیں،آپ بیٹھیں پلیز!‘‘

وہ لانگ چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولے:’’میں نے تم کو پہچانا نہیں!‘‘

’’جی میں محسن خاں صاحب کی بیٹی ہوں۔‘‘

’’کیا…!‘‘وہ ایک جھٹکے سے کھڑے ہوگئے۔

’’تم…تم محسن کی بیٹی ہو…؟‘‘انہوں نے بے یقینی سے پوچھا۔

گل نے حیران ہو کر اثبات میں سر ہلایا۔

’’تم محسن کی بیٹی ہو…میرے محسن کی…میرے دوست کی !‘‘انہوں نے بے قراری سے گل کے سر پر ہاتھ رکھا اور بے ساختہ رو پڑے:’’میری بچی!‘‘

باپ کی یاد میں گل کی آنکھیں بھی اشکبار ہو گئی تھیں۔

’’بیٹی!تم اب تک کہاں تھیں؟مجھے تو یہ بتایا گیا تھا کہ تم کو ملازمہ لے کر کہیں چلی گئی۔میں نے تم کو بہت ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر تمہارا پتہ نہیں لگا سکا۔آج تمہیں یہاں دیکھ کر جتنی خوشی ہو رہی ہے،اس کا تم اندازہ نہیں لگا سکتیں۔‘‘

’’اب تم پر میں کوئی ظلم نہیں ہونے دوں گا۔‘‘انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

’’ظلم…!‘‘گل نے حیرت سے انہیں دیکھا:’’کیسا ظلم…؟‘‘

’’تم نہیں سمجھوگی بیٹی…اچھا اب میں چلتا ہوں۔یہ میرا فون نمبر اور ایڈریس ہے۔تم پہلی فرصت میں میرے گھر آجانا ،وہیں پر تم سے تفصیلی بات ہوگی مگر خبردار کسی کو میرے متعلق بتانا نہیں۔‘‘انہوں نے ہدایت کی۔

’’جی …!‘‘گل نے ان کا کارڈ تھام لیااور وہ دعائیں دیتے ہوئے واپس چلے گئے۔

اگلے دن گل اپنی دوست زیبا کا کہہ کر ان کے گھر چلی آئی۔وہ نہایت محبت سے ملے اور اپنے پاس ہی صوفے پر بٹھا لیاپھر بولے:’’بیٹی!جو باتیں میں تم کو بتانے جا رہا ہوں وہ غور سے سننا۔‘‘

’’جی…!‘‘وہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔

’’بیٹی!یہ اس وقت کی بات ہے جب تمہارا اس دنیا میں وجود نہیں تھا۔محسن میرے بچپن کا دوست تھا۔پڑھائی اور کھیل کے میدان میں ہم ہمیشہ ساتھ ساتھ رہے۔ محسن کو ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اور مجھے وکیل۔لہٰذا بڑے ہوکر ہماری تعلیمی راہیں جدا ہو گئیںلیکن اپنا فارغ وقت ہم دونوں ساتھ ہی گزارتے تھے۔

جس سال محسن نے ایم ۔بی۔بی۔ایس کی ڈگری لی اسی دن اس کی منگنی اس کی خالہ زاد سے کر دی گئی۔محسن اس رشتے پر ذہنی طور پر تیار نہیں تھالیکن امی کی ضد کے آگے وہ مجبور ہو گیا۔

پھر ایک دن اس کی ملاقات تمہاری ماں سے ہوئی ۔مہ جبیں نسوانی حسن کا ایسا شاہکار تھی کہ محسن اس کے آگے اپنا آپ ہارتا چلا گیا۔میں نے اسے سمجھایا بھی تھا کہ تمہاری منگنی ہو چکی ہے،اب یہ سب باتیں تمہیں زیب نہیں دیتیں مگر اس نے کہا کہ وہ مہ جبیں کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جب یہ بات اس کے گھر والوں کے علم میں آئی تو وہ سب بہت ناراض ہوئے۔

تمہار ے دادا نے تو عاق کردینے کی دھمکی بھی دے ڈالی مگر وہ کسی طرح مہ جبیں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوا۔تب ا س کے والدین نے اسے گھر سے نکل جانے کا حکم صادر کر دیا اور چپ چاپ میرے گھر چلا آیا۔

پھر ایک شام وہ اور مہ جبیں نکاح کے خوبصورت رشتے میں بند ھ گئے۔

شادی کے بعد اس نے بہت چاہا کہ وہ الگ رہے مگر میں نے اسے جانے نہیں دیا۔مہ جبیں بھابی کے ساتھ زندگی بڑی خوشگوار ہوا کرتی تھی۔صورت کے ساتھ ہی سیرت کی بھی بہت اچھی تھیں۔

لیکن پھر اچانک ہی ان کی ہنستی بستی زندگی کو کسی کی نظر لگ گئی۔

محسن کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔آنٹی انکل کو پتہ چلا تو وہ اسے اپنے ساتھ گھر لے گئے۔مہ جبیں بھی ان کے ساتھ ہی تھی۔یہ زندگی بعض اوقات تو اتنی خوبصورت لگتی ہے کہ اسے گزارنے کو جی چاہتا ہے اور کبھی کبھی یہی زندگی کسی کے لیے عذاب بھی بن جاتی ہے۔

جو تمہاری اماں کے ساتھ ہوا۔شادی کے بعد وہ ایک سال ہی زندگی کی خوبصورت بہاریں دیکھ سکی لیکن پھر تو زندگی ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھی۔ ان کی مسکراہٹ تو جیسے کہیں کھو گئی تھی۔

محسن ٹوکتا تو وہ دھیرے سے ہنس دیتی:’’آپ میرے ساتھ ہیں تو مجھے کسی صعوبت کا ڈر نہیں ،بس آپ جلدی سے اچھے ہو جائیں۔‘‘

انہی دنوں بھابی کے یہاں نئے مہمان کی آمد تھی ۔محسن خوشی سے پاگل ہو رہا تھا۔بھابی کا بہت خیال رکھتا۔پھر ایک روشن سی صبح بھابی نے ایک پیاری سی بچی کو جنم دیا۔محسن اسے اپنے سینے سے لگا کر بہت رویا۔

’’پگلے!خوشی کے لمحات میں بھی کوئی روتا ہوگا۔‘‘میں نے اسے سمجھایا۔

’’مجھے اس بچی کے نصیب پر رونا آرہا ہے۔‘‘وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔

’’کیوں بے وقوفی کی باتیں کرتا ہے انشاء اللہ ہماری بیٹی کا نصیب بہت اچھا ہوگا۔‘‘

لیکن پھر اس نے مجھ سے ایک وعدہ لیا اور مطمئن ہو گیا۔حسب معمول جب ایک دن صبح میں اس کے گھر پہنچا تو بھابی کی آہ وزاری نے میرا دل چیر دیاوہاں کچھ بھی نہیں بچا تھا۔میرا دوست مجھ سے بچھڑ کر بہت دور جا چکا تھا۔میں نے جھولے میں لیٹی بچی کو گود میں اٹھا لیا جو شاید اپنی یتیمی کے احساس سے بلک رہی تھی۔

پھر تو بدنصیبی کے در بھابی پر کھلتے ہی چلے گئے ۔گھر والوں کے لیے وہ محض ایک فالتو شے بن کر رہ گئی تھیں۔پھر یکایک وہ بیمار رہنے لگیں اور ایک دن نہایت ہی خاموشی سے آنکھیں موند لیں۔

ان کی موت کے بعد بچی پر کسی نے خاص توجہ نہیں دی ۔اسے آیا کے سپرد کر دیا گیا۔میں نے اپنے ساتھ لے جانا چاہا مگر مجھے سختی سے منع کر دیا گیا۔میں نے بھی زیادہ اصرار مناسب نہیں سمجھا مگر میں روز بچی کو دیکھنے ضرور آتا۔

ایک دن اچانک ہی مجھے ایک کیس کے سلسلے میں باہر جانا پڑ گیا ۔ایک ہفتہ بعد جب میں واپس آیا تو سیدھا محسن کے گھر گیا۔وہاں نہ بچی تھی اور نہ اس کی آیا ۔صحیح بات کا علم نہ ہو سکا۔محسن کے بھائی نے صرف اتنا بتایا کہ آیا بچی کو لے کر فرار ہو گئی۔ کہاں…؟یہ کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی۔

میں نے بہت ڈھونڈا ،بہت کوششیں کیں مگر سب ناکام رہیں اور آج پورے بیس سال بعد جب تمہیں سامنے دیکھا تو مہ جبیں بھابی یاد آگئیں ،ہوبہو تمہاری طرح تھیںوہ !

انہوں نے ایک سرد آہ بھری!

’’اب تم بتاؤ ،تم ان لوگوں کے ہاتھ کیسے لگیں؟‘‘انہوں نے اپنی بات کے اختتام پر اس سے پوچھا۔

’’انکل…!پھپھو اماں جی کو بازار میں مل گئی تھیں پھر ان کے ساتھ ہی یہ سب لوگ ہمارے گھر آگئے اور مجھے اپنے ساتھ لے کر ہی گئے۔‘‘گل نے دھیرے سے جواب دیا۔

’’لیکن انکل…!مجھے یقین نہیں آرہا کہ میرے اپنے رشتے دار ایسے ہو سکتے ہیں!‘‘

’’تم ابھی ناسمجھ ہو بیٹی!تم کیا جانو یہ دولت کیا شے ہوتی ہے۔اس بے وقعت سی شے کے لیے بھائی بھائی کی جان لے لیتا ہے،بیٹا باپ کو قتل کر دیتا ہے۔‘‘

آج کل پاکیزہ اور مقدس رشتوں کی پہچان ختم ہو گئی ہے۔بیٹی!کوئی کسی کا نہیں ہوتا سب اپنے مفاد کے لیے سوچتے ہیں۔بے لوث اور بے غرض محبتوں کا رواج دنیا سے ختم ہو گیا ہے۔تم ابھی بہت معصوم ہو بیٹی!تم نہیں سمجھوگی دنیا کی یہ ریت!

انہوں نے گل کو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

گل بے ساختہ رو پڑی:’’انکل!میں ان لوگوں کو ایسا نہیں سمجھتی تھی۔میری توقعات کے برعکس یہ لوگ کتنے کم ظرف ہیں۔‘‘

’’یہی تو بات ہے بیٹی کہ آج کے دور میں ہم کسی شخص کو بھی صحیح سمجھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔‘‘

’’اب تمہیں عقلمندی سے کام لینا ہے ورنہ یہ لوگ تمہیں کسی طرح کا بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘‘

’’یہ کچھ کاغذات ہیں تم ان پر سائن کر دو۔‘‘

’’کیسے کاغذات انکل…!‘‘

’’محسن کے حصے کی جائداد اب تمہارے نام منتقل ہونی چاہیے۔‘‘

’’انکل…!جب پاپا ہی نہیں رہے تو ان کی جائداد لے کر میں کیا کروں گی۔پلیز مجھے نہیں چاہیے یہ سب کچھ۔‘‘وہ پھر رو پڑی۔

’’بیٹی!ابھی سے ہمت ہار رہی ہو…؟‘‘وہ اس کا شانہ تھپتھپا کر بولے: ’’ابھی تو تمہیں سارے خاندان کا مقابلہ کرنا ہے۔‘‘انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر سمجھایا۔

…………………

یہ زندگی کا سفر بھی کتنا عجیب ترین ہوتا ہے۔کبھی تو ایسے لوگوں کا ساتھ ہوتا ہے جن کی قربت کی خوشبو سے ہم سرتاپا معطر ہو جاتے ہیںاور کبھی ایسے ہم سفر ملتے ہیں جن کی ذات سے سوائے دکھوں کے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں وہ جنہیں ہم اپنا کہتے ہیں۔جن سے ہمارا خون کا رشتہ ہوتا ہے۔

گل آنکھیں موندے مختلف سوچوں کے  بھنور میں گھری تھی۔زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟یہ بات اس کے لیے ناقابل فہم تھی۔اس کا دل یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا کہ اس کے اپنے لوگ اتنے کم ظرف ہو سکتے ہیں۔

’’اف خدایا…!‘‘اس کا دماغ پھٹنے لگا ۔بند کمرے میں اس کی سانس رکنے لگی تھی۔

وہ گھبرا کر باہر نکل آئی!

کوریڈور سے گزرتے ہوئے وہ تائی اماں کے کمرے کے سامنے رک گئی۔ اندر سے آتی آوازوں نے اس کے قدم جکڑ لیے۔

’’تمہیں کون سی ساری زندگی گل کے ساتھ گزارنی ہے ۔محسن کی جائداد اپنے نام کروا کر اسے طلاق دے دینا۔‘‘

تائی اماں کی آواز نے جیسے اس کی سماعت میں گرم سیسہ انڈیل دیا ۔

’’اف اللہ میاں جی!یہ سب کیا ہے؟‘‘وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔

بیڈ پر گر کر وہ بے تحاشہ رودی۔

چاروں طرف راستے بند تھے…!

وہ کدھر جائے…؟

تب ایسے میں اجالے کی ایک کرن چمکی۔

اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور انکل شیراز کو فون ملایا۔

دوسری جانب سے ان کی آواز سن کر وہ رو پڑی۔

’’کیا ہوا بیٹی!‘‘وہ پریشان ہو گئے۔

’’انکل…!تائی اماں عمیر بھائی سے میری شادی کا پلان بنا رہی ہیں۔‘‘

’’کیا…؟‘‘ان کی تجسس بھری آواز ابھری۔

’’جی انکل…!وہ یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ شادی کے بعد میرے حصے کی جائداد اپنے نام کروا کر مجھے طلاق دلوا دیں گی۔‘‘گل نے روتے ہوئے انہیں بتایا۔

’’بیٹی…!تم پریشان مت ہو ۔میں ہوں نا تمہارے ساتھ،اب تم اکیلی نہیں ہو۔‘‘

’’میرے خیال میں تم وہاں محفوظ نہیں ہو ۔تم کو یہاں آجانا چاہیے،میرے گھر۔مجھے بھی اطمینان ہو جائے گا۔‘‘

’’جی اچھا…!‘‘گل نے فون بند کر دیا۔

کچھ دیر تک وہ اپنے آپ کو نارمل کرتی رہی۔

پھر تائی اماں کے کمرے میں چلی آئی۔

’’ارے میری بیٹی آئی ہے!‘‘وہ اسے دیکھتے ہی خوشی سے بولیں۔

’’تائی اماں! میں ذرا اپنی فرینڈ کے گھر جا رہی ہوں۔تھوڑی دیر بعد واپس آ جائوں گی۔‘‘

’’ضرور جائو بیٹی!بلکہ میں عمیر سے کہہ دیتی ہوں وہ تم کو چھوڑ آئے گا۔‘‘ان کے لہجے کی شیرینی نے گل کے اندر تک تلخی بھر دی۔

’’اف!کوئی انسان اتنی منافقت کیسے کر سکتا ہے…؟‘‘

وہ انہیں اللہ حافظ کہہ کر جلدی سے باہر آگئی۔

وہ شیراز انکل کے گھر پہنچی تو وہ لان ہی میں بیٹھے مل گئے۔انہیں سلام کرتے ہوئے جب گل نے نگاہ اٹھائی تو حیران رہ گئی۔

ان کے برابر والی کرسی پر یاور اپنی تمام تر وجاہتوں کے ساتھ موجود تھا۔

وہی اجنبی سا رویہ گل کو بے قرار کر گیا۔

بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی یاور!میں نے تو نہیں کہا تھا تم سے کہ مجھ سے محبت کرو،مجھے چاہواور جب میں تمہاری چاہت میں ڈوب جائوں تب تم آسانی سے میری محبت سے دستبردار ہوجاؤ ۔مجھے نظر انداز کرو،ٹھکرادومجھے!

’’اب تمہیں میری پروا نہیں رہی تو میں بھی خود کو کیوں تمہارے پیچھے خوار کروں۔‘‘گل نے ایک عزم سے سوچا۔

یاور شیراز انکل سے اجازت لے کر جا رہا تھا۔گل نے نہایت دکھ سے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔

اور بہت خاموشی سے اپنی محبت کو اپنے اندر ہی دفن کر دیا۔

’’آج کے بعد تمہاری کوئی بات ،کوئی یاد میرے ساتھ نہیں ہوگی۔‘‘اس نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو چپکے سے آنچل میں جذب کر لیے۔

’’آج کے بعد تمہارے نام کا کوئی آنسو میری آنکھ سے نہیں ٹپکے گا۔‘‘اس نے بے حد دکھی ہو کر فیصلہ کیا۔

اور اس فیصلہ کے بعد گل بالکل ہی ٹوٹ گئی۔

زندگی میں کوئی آس نہ رہی ۔ساری امنگیں،آرزوئیں پوری ہونے سے قبل ہی تمام ہو چکی تھیں۔

وہ شیراز انکل سے اجازت لے کر اماں جی کے گھر چلی آئی۔انہوں نے محبت سے اسے گلے لگا لیا۔

تین کمروں والا چھوٹا سا یہ مکان اسے اپنی بڑی پناہ گاہ محسوس ہوا۔

رفتہ رفتہ ذہن پر چھایا جمود بھی کم ہونے لگا تھا۔

ایک دن اماں جی نے اسے بتایا کہ شیراز صاحب نے اپنے بیٹے کے لیے گل کا ہاتھ مانگا ہے۔

’’اماں جی…!وہ حیران رہ گئی۔‘‘

’’بیٹی!تمہارے والد مرنے سے پہلے ان کے بیٹے سے تمہاری نسبت طے کر گئے تھے۔انہیں شاید تمہاری ماں کے ساتھ ہونے والے سانحہ کا اندازہ ہو گیا تھااور شکر ہے پروردگار کا جس نے آج سب کو ملادیا ورنہ میں آخرت میں تمہاری ماںکو کیا منھ دکھاتی۔‘‘ان کا لہجہ طمانیت سے بھرپور تھا۔

اگلے دن شیراز انکل چند لوگوں کی موجودگی میں اس کی مخروطی انگلی میں اپنے بیٹے کے نام کی انگوٹھی پہنا گئے اور پھر بہت جلد ہی اس کی شادی کا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ دیبا نے اس کی ساری دوستوں کو فون کر دیا تھا۔سب کی سب شور مچاتی چلی آئیں۔

’’بے مروت ہمیں خبر بھی نہیں کی اور شادی رچانے بیٹھ گئی۔‘‘زریں نے اس کی کمر پر ایک مکا رسید کیا۔

گل اداسی سے مسکرا دی۔

وہ سب اسے چھیڑ رہی تھیں۔

’’گل…اپنے ’ان‘کا نام ہی بتا دو!‘‘

’’درشن تو پتہ نہیں کب ہوں گے ؟‘‘سمیرا نے اس کا جھکا ہوا سر اوپر اٹھاتے ہوئے چھیڑا تو اس نے کوئی جواب دئیے بغیر سر دوبارہ گھٹنوں میں دے لیا۔

’’توبہ ہے سمیرا!ذرا سا تو صبر کرو۔شادی کے دن درشن بھی کر لینااور نام بھی پوچھ لینا۔‘‘عطیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’لو بھئی!تم انتظار کی زحمت سے بچ گئیں۔ہمارے ہونے والے دولہا بھائی خود ہی آگئے۔ان ہی سے پوچھ لو۔‘‘

دیبا کی آواز پر گل کا جی چاہا اس شخص کو دیکھے جو یاور کا نعم البدل بن کر اس کی زندگی میں داخل ہو رہا تھامگر چاہنے کے باوجود بھی وہ سر نہ اٹھا سکی۔

سمیرا اور عطیہ اسے چھیڑ رہی تھیں۔ان کی کسی بات پر وہ زور سے ہنس دیا۔

’’اف یہ ہنسی…!‘‘گل نے تڑپ کر سر اٹھایا۔

عین اس کے سامنے یاور کھڑا تھا۔

وہ ساکت رہ گئی!

لڑکیاں اس کے کمرے سے جا چکی تھیں۔

وہ اس کے پاس چلا آیا ۔گل نے نفرت سے منھ موڑ لیا۔

’’ارے بھئی!یہ ہم سے کس خوشی میں شرمایا جا رہا ہے؟‘‘وہ شرارت سے بولا۔

’’یہ اب کس ناطے آپ مجھ سے بات کر رہے ہیں؟‘‘وہ غصے سے بولی۔

’’اتنا غصہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔‘‘وہ اپنے پرانے انداز میں مسکرایا۔

’’اور جہاں تک بات رہی آپ کے اور ہمارے ناطے کی ،تو وہ ناطہ تو بہت مقدس اور پیارا ہے۔‘‘

’’نام مت لیں پیار کا …آپ کیا جانیں پیار کیا ہوتا ہے!پیار تو ہماری روح کا سکون ہے…پیار تو وہ معتبر ذریعہ ہے جو دو دلوں کو جوڑتا ہے اور آپ جیسے لوگ تو پیار کو دھوکہ سمجھتے ہیں…ایک خوبصورت فریب…جو کسی کو بھی دیا جا سکتا ہے!‘‘

’’چلے جائیں میری نظروں کے سامنے سے !‘‘وہ چلائی۔

اس کی چیخ وپکار سن کر دیبا اندر چلی آئی۔

’’گل…پلیز ریلیکس ہو جائو۔‘‘دیبا نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے سمجھایا۔

’’تم یاور بھائی کو غلط سمجھ رہی ہو ۔وہ بے وفا نہیں ہیں ،تم سے بہت محبت کرتے ہیں ،تمہیں نہیں پتہ گل !تمہاری جدائی نے کس کرب واذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔تمہارے اچانک لاپتہ ہونے سے وہ کتنا پریشان ہو گئے تھے اور جب اس روز تم پارٹی میں ملیں تو تمہارے رشتے داروں کی وجہ سے وہ تم پر شناسائی کا اظہار نہ کر سکے۔ پھر وہ تمہیں ،تمہارے رشتے داروں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے جدوجہد میں لگ گئے اور اب جب تم آزاد ہو تو یاور بھائی ہمیشہ کے لیے تمہیں اپنا بنا کر لے جا رہے ہیں۔‘‘دیبا نے اسے سمجھایا۔

گل نے حیرت سے اسے دیکھا…!

’’تم تو بالکل ہی پاگل نکلیں۔بھلا کوئی یوں بھی اپنے ہونے والے مجازی خدا کو صلواتیں سناتا ہوگا؟‘‘دیبا نے اس کے سر پر چپت مارتے ہوئے پیار سے ڈانٹا۔

گل نے ناقابل فہم انداز میں یاور کی جانب دیکھا جس کی آنکھوں میں محبت کے تارے روشن تھے۔

اسے ابھی تک اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آیا تھا۔

’’ارے تمہاری باتوں میں مجھے یاد ہی نہیں رہا اماں جی نے کئی کام میرے سپرد کیے تھے۔میں ابھی آتی ہوں۔‘‘دیبا باہر چلی گئی۔

’’آپ خاموش کیوں ہو گئیں؟ابھی تو بہت کچھ کہنے کو باقی ہے۔‘‘گل نے شرمندہ ہو کر سر جھکا لیا۔

’’پلیز !مجھے معاف کر دیں۔‘‘

’’اتنا برا بھلا کہا ہے مجھے ،اتنی آسانی سے معاف نہیں کروں گا۔‘‘وہ اکڑ کر بولا۔

اپنی حماقت میں وہ یاور کو کیا کچھ کہہ گئی تھی۔’’پلیز آپ مائنڈ نہ کریں۔‘‘وہ ندامت سے بولی اور اس ڈر سے کہ کہیں وہ مزید ناراض نہ ہو جائے گل نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔

’’ارے…ارے!یہ کیا غضب کر رہی ہو؟یہ خوبصورت ہاتھ اس لیے تو نہیں کہ ہمارے آگے جوڑے جائیں بلکہ یہ تو اس لیے ہیں کہ آپ ان سے مابدولت کی خدمت کریں۔‘‘اس نے جھک کر اس کے نازک ہاتھ تھام لیے۔

گل نے شرما کر چہرہ گھٹنوں میں چھپا لیا تھا۔

اس کا دل طمانیت سے لبریز ہو گیا تھا۔یاور سکھ کے موسم کا قاصد بن کر جو اس کی زندگی میں شامل ہوا تھا!

…………………

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

adabi meerasadabi miraasadabi mirasادبی میراثافسانہ
0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
یہ بہار کیسی آئی – صائمہ ذوالنور
اگلی پوسٹ
مولانا عرشی کی غزلیں – پروفیسر کوثر مظہری

یہ بھی پڑھیں

بُت اگر بولتے – قیُوّم خالد

جنوری 20, 2025

بھیگے ہوئے لوگ – اسلم سلازار 

جنوری 6, 2025

شیشے کے اُس پار – ڈاکٹر عافیہ حمید

ستمبر 18, 2024

دو دوست /موپاساں – مترجم: محمد ریحان

ستمبر 9, 2024

غریبِ شہر- ڈاکٹر فیصل نذیر

ستمبر 8, 2024

راج دھرم – ڈاکٹر ابرار احمد

اگست 7, 2024

پہلی نظر – تسنیم مزمل شیخ

جون 18, 2024

کائی – قیُوّم خالد

جون 2, 2024

یہاں کوئی کسی کا نہیں – ڈاکٹر ابرار...

مئی 28, 2024

زیادتیاں – تسنیم شیخ

مئی 28, 2024

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (473)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,127)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں