اردو افسانہ دوسری صدی کی دو دہائی مکمل کرنے جارہا ہے اس دوران اردو افسانے پر نت نئے تجربے ہوئے اور اب بھی ہو رہے ہیں۔ دراصل افسانہ اس چھوٹی کہانی کو کہتے ہیںجو آدھ ایک گھنٹے میں پڑھ لیا جائے لیکن اس کے لئے کچھ فنی لوازمات ہیں جس کے بغیر کہانی افسانہ نہیں بن سکتی۔ جیسے پلاٹ،کردار،ماحول فضا، وحدت تاثر،موضوع،اسلوب ،منظر کشی وغیرہ۔افسانہ ایک ایسی فکری داستان کو کہتے ہیں جس میں ایک خاص کردار،ایک خاص واقعہ،ایک تجربے یا ایک تاثر کی وضاحت کی گئی ہو۔نیز اس کے پلاٹ کی تفصیل اس قدر منظم طریقے سے بیان کی گئی ہو کہ اس سے تاثر کی وحدت نمایا ہو۔افسانے کی بدلتی ہوئی قدروں کے پیش نظر یہ تعریف اتنی جامع نہ ہوتے ہوئے بھی کافی حد تک صحیح ہے۔اصل میں افسانہ مغرب کی دین ہے۔اردو میں اس کا داخلہ بیسوی صدی کے اوائل میں ہوا ابتدا میں اردو افسانہ حقیقت نگاری اور اصلاح پسندی کے زیر اثر سفر کرتا رہا جس کی نمائندگی پریم چندکرتے رہے ساتھ ہی رومانیت اور تخیل پرستی جس کی نمائندگی سجاد حیدر یلدرم نے کی ۔ملاحظہ کیجئے خلیل الرحمٰن اعظمی کے الفاظ ۔۔۔۔۔ (یہ بھی پڑھیں افسانہ تنقید کے ابتدائی نقوش – ڈاکٹر نوشاد منظر )
ـ’’ترقی پسند تحریک سے پہلے اردو میں مختصر افسانہ نگاری کے دو واضح میلانات ملتے ہیں ۔ایک حقیقت نگاری اور اصلاح پسندی کا جس کی قیادت پریم چندر کر رہے تھے دوسرا رومانیت اور تخیل پرستی کا جس کی نمائندگی سجاد حیدر یلدرم کر رہے تھے۔‘‘
(اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک از خلیل الرحمٰن اعظمی صفحہ نمبر ۲۰۷)
پریم چند اپنے حقیقت پسند اور اصلاح پسند افسانوں کے ذریعہ سماج کا پریشان حال چہرہ ،گائوں میں پھیلی ہوئی غربت اور اس سے لرزتی ہوئی زندگی کا نقشہ کھینچ کر ایک صحت مند سماج کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ پریشان حال زندگی میں آسودگی کے خواہاںتھے۔دھیرے دھیرے ۱۹۳۶ کا زمانہ آیا اور ترقی پسندی کا غلغلہ بڑھنے لگا ۔ افسانوں کے معیار میں اضافہ ہوا ۔۱۹۳۶ میں پریم چند کی صدارت میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا پہلا جلسہ لکھنوئ میں منقد ہوا جہاں سے ادب میں حسن کے معیار کو بدلنے کی بات کہی گئی اور وہاں سے ادب برائے زندگی پنپنے لگی۔ افسانوی افق پر کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی ،سعادت حسن منٹو،عصمت چگتائی جیسے ادب کے اونچے اونچے مینار وارد ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو افسانہ،ادب برائے زندگی کی ترجمانی کرنے لگا۔پروفیسر وہاب اشرفی ترقی پسند افسانے سے متعلق رقم طراز ہیں ۔ملاحظہ کیجئے۔۔۔۔۔
’’فن کی راہیں متعین ہو چکی تھیں۔ اس لئے اس انقلابی عہد میں بھی افسانہ معیار کی منزلیں تیزی سے طئے کرتا رہااور مغرب کے بہت اچھے افسانوں کا ہم پلہ نظر آنے لگا۔ہمارے افسانہ نگاروں نے معیاری افسانے لکھے اور اردو افسانے کا دامن وسیع کر دیا ۔‘‘
ترقی پسند تحریک کی سیاسی انتہا پسندی نے اجتماعیت کو زخمی کردیا کہ انسان اپنے خارج سے باطن کی طرف مائل ہونے لگا۔نتیجے میں اردو افسانے میں ایک نئے رجہان کا داخلہ ہوا جسے جدیدیت سے موسوم کیا گیا اور روایت سے بغاوت کرتے ہوئے اردو افسانے کے بیانیہ انداز کو پس پست ڈال کر ذات کے مسائل اور وجودیت پر توجہ دی گئی اور جدید افسانہ استعارہ علامت اور تمشیل کے سہارے ادب کے افق پر نمودار ہوا ۔نئے افسانہ کے تعلق سے پروفیسر گوپی چندر نارنگ اپنے مضمون نیا افسانہ ۔۔روایت سے انحراف میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔
’’نئے افسانہ نگار فکر و احساس اور اظہار و اسلوب کے یکسر نئے مسائل سے دو چار تھے ۔ ان کے دلوں میں ایک انجانا کرب ،ایک عجیب خلش اور نئی آگ تھی جو ان کے پورے وجود کو جلائے دے رہی تھی۔خوابوں کی شکست ،سائنس کی تکنیکی جیت لیکن روحانی ہار ،فرد کی بے بسی ،وقت کی گزراں نوعیت لیکن تسلسل ،وجودی ذمہ داری کی دہشت ،باطن کے اسرار کے تجسس ،انام رشتوں کی نوعیت کی پہچان ،شخصیت کے زوال اور آگہی کے آشو ب سے بچنے کی جستجو۔۔۔‘‘
اس تغیر کے ساتھ افسانے کی ہیئت میں تبدیلی رونما ہونے لگی ۔علامتی ،استعاراتی اور تمثیلی افسانے لکھے جانے لگیں۔ اسی دوران تقسیم ہند نے ایک اور مسئلہ پیدا کردیا اور وہ مسئلہ تھا شناخت کا ۔تقسیم کی لکیر سے اجنبیت کا جنم ہوا ۔زندگی اذیت ناک ہوگئی ۔حالات اس قدر کرب انگیز ہوگئے کہ اظہار خیال کے نئے راستے تلاش کئے جانے لگے نتیجے میں علامتوں کا استعمال نا گزیر ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی ترسیل کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا ۔ علامتوں کے لباس پہنے اردو افسانے عام قاری کے سامنے اجنبی بن گئے ۔قاری ان افسانوں سے دوری اختیار کرنے لگا رفتہ رفتہ ادب پر جمود طاری ہوتا گیا اور ایسا لگا کہ اب ادب کے زوال کا وقت آگیا ۔ علامتوں کے استعمال سے غزل کے زیر لب تبسم ،نظم کی ترنم خیزی ،نثر کی شعریت اپنی وجودیت کی خاطر اندر ہی اندر کسمسانے لگیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ۱۹۶۰ کا زمانہ آگیا ۔ اردو افسانے کو ادب میں واپسی کی خاطر ثقیل علامتوں اور استعاروں کے استعمال سے اجتناب کیا جانے لگا اور ادب ایک بار پھر بیانیہ راستے پر چلنے لگا اور تب مابعد جدیدیت کا عہد شروع ہوگیا ۔اب شناخت کا مسئلہ ختم ہو چکا تھا۔ ادب میں نا ہی اجتماعیت کی گونج سنائی دے رہی تھی اور نا ہی انفرادیت کا چُپ سناٹا ۔ بلکہ ان دونوں کی اختلاط سے ایک نئی فضا قائم ہو گئی اور نئے ڈھنگ سے ادب لکھا جا نے لگا ۔ ما بعد جدیدیت میں بیانیہ لئے کے ساتھ استعاروں کا استعمال بھی ہونے لگا لیکن ان استعاروں میں سہل پسندی بھی تھی اور لطافت بھی۔دراصل مابعد جدیدیت کوئی تحریک یا رجحان نہیں تھی بلکہ ایک رویہ تھا ۔ جو ترقی پسندی اور جدیدیت کی شدت پسندی کے بیچ راستہ تلاش کر رہا تھا جس میں بیانیہ انداز بھی غالب تھا اور ترسیل کا مسئلہ بھی ۔ اس ضمن میں گوپی چند نارنگ فرماتے ہے۔۔۔ (یہ بھی پڑھیں نیا اردو افسانہ:علامت سے حقیقت تک (حصہ 1)- ڈاکٹر محمد غالب نشتر )
’’ ما بعد ِ جدیدیت نہ ترقی پسندی کی ضد ہے اورنہ جدیدیت کی اور چونکہ یہ نظریوں کی ادعائیت کو رد کرنے اور طرفوں کو کھولنے والا رویہ ہے ۔ اسکی کوئی بندھی ٹکی فارمولائی تعریف ممکن نہیں ہے ۔ کوئی بھی تعریف کی جائے تو اس سے چھوٹی رہے گی کیونکہ یہ خود نظریوں کی نفی ہے اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ما بعد جدیدیت ایک کھلا ذہنی رویہ ہے ، تخلیقی آزادی کا ، اپنے ثقافتی تشخص پر اصرار کرنے کا ، معنی کو سکہ بند تعریفوں سے آزاد کرنے کا، مسلمات کے بارے میں از سرِ نو غور کرنے اور سوال اٹھانے کا ، ادبی لیک کے جبر توڑنے کا ، ادعائیت خواہ سیاسی ہو یا ادبی اسکو رد کرنے کا اور قرائت کے تفاعل میں قاری کی کار کردگی کا ۔ ‘‘
اس کا اثر تقریباََ دو دہائی تک قائم رہا اور پھر ساختیات کا عمل شروع ہو گیا اور اس دوران نظریات قائم کئے جانے لگے آہستہ آہستہ اردو افسانہ حقیقت پسندی ، رومان پسندی سے آگے بڑھتے ہوئے ترقی پسندی ، جدیدیت ، ما بعد جدیدیت سے ہوتے ہوئے ساختیاتی عمل تک آ پہنچا اور پھر بیسویں صدی کا اختتام ہو گیا۔ اردو افسانے کی ایک صدی مکمل ہو گئی ۔ افسانہ دوسری صدی میں قدم رکھ چکا تھا لیکن اسکے سامنے نا ہی اجتماعیت کا مسئلہ تھا اور نا ہی انفرادیت کا مسئلہ لیکن شناخت کا مسئلہ در پیش ضرور تھا ۔ جدیدیت میں جو شناخت کا مسئلہ قائم ہوا تھا وہ تقسیم ہند کی وجہ سے تھا لیکن اکیسویں صدی میں شناخت کا مسئلہ اس کے اندرون کا ہے ۔ شناخت کے مسئلہ نے وجودیت کے کسوٹی پر لا کھڑا کر دیا ۔
اکیسویں صدی میں ہم بلا شبہ ترقی کے انگنت منازل طئے کر چکے ہیں ۔ نا ممکن کو ممکن کر دکھانے کے جدو جہد برق رفتاری کے ساتھ جاری ہے ۔ آج کے اس الیکٹرونک عہد میں آگے نکلنے کی جو رفتار چل پڑی ہے اس میں وجودیت کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ آ ج ہم شعوری یا لا شعوری طور پر نت نئے تجربات سے دو چار ہو رہے ہیں ۔ اردو افسانہ انکے درمیان سفر کرتا آگے بڑھ رہا ہے ۔ ایسی صورتِ حال میں اب یہ لازمی ہو گیا ہے کہ رومان پسند تخیل سے باہر نکل کر حقیقت کے ان فضاوں کا جائزہ لیا جائے جس میں گوشت پوشت کا انسان رہ کر بھی گم شدگی کی دنیا میں کھو چکا ہے ۔ ایسے میں اخلاقی قدروں کی پامالی ، خود پرستی کی لت اور احساسِ برتری کی سوچ نے انسان کو خود سے دور کر دیا ہے اس کے ساتھ ہی ہوس پرستی اور مادہ پرستی نے اس قدر گہرا نقش چھوڑا ہے کہ انسان اپنی شناخت کو یکسر بھول چکا ہے ۔ قربت میںصدیوں کی دوری کا احساس ہوتا ہے، انسان بھیڑ میں رہ کر بھی تنہائی کا شکار ہے ، حسنِ سلوک سے بے اعتنائی اور فطرت سے دوری نے انسان کو حیوانیت کے قریب لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں انسانیت کی عظمت محض ایک دھوکا لگ رہا ہے ۔ ان تمام حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تخلیق کار پر ایک نئی ذمہ داری آ پڑتی ہے کہ وہ اپنے افسانے کے موضوعات کو بدلے اور سلگتے مسائل کو خوبصورت پیراہن عطا کر کے صفحہ ابیض پر لائے ۔ اب رومان پسند افسانے زندگی کو بہت تلخ لگ رہے ہیں ثقالت بھرے علامتی افسانے ذہن پر ہتھوڑے برسانے کے مترادف ہیں اور قاری بیزاری کا احساس کر رہا ہے ۔ ادب برائے زندگی کی ضرورت آج بھی ہے لیکن نئے امکانات نئے تصورات اور نئے خیالات کے ساتھ۔ ہمارا سماج ترقی یافتہ کہلا رہا ہے لیکن ترقی صرف مادیت کے حصول کو ہی نہیں کہتے بلکہ اخلاقی قدروں کے معیار کو اُٹھانے کو بھی۔ آج کے اردو افسانوں میں بھی حقیقت نگاری کی ضرورت ہے لیکن اُس کے اظہار بیان میں بدلائو کے ساتھ ۔ جیسا کہ ممتاز شیریں رقمطراز ہیں ۔۔۔ (یہ بھی پڑھیں ” کہانی ، تصور حقیقت، علامتی افسانہ ” – پروفیسر ناصر عباس نیّر)
’’حقیقت نگاری کے معنی یہ نہیں کہ جو کچھ سامنے گزر رہا ہو اُسے من و عن بیان کر دیں ، خواہ یہ روکھی پھیکی رپوٹیج کیوں نہ بن جائے ۔ رپوٹیج اور فن میں یہ فرق ہے کہ فنکارانہ چیز تخلیق میں واقعات کے چناؤ، ترتیب اور اندازِ بیان کو بہت بڑا دخل ہے، ‘‘
(میعار، ممتازشیریں ، نیا ادارہ ، لاہور، صفحہ نمبر ۱۲۲)
آج کے افسانوں میں حقیقت نگاری کے ساتھ واقعات کے اسباب و علل ، اندازِ بیان ، زندگی کی رمق اور اظہار کا سچا پن اہمیت کے حامل ہیں جس کے بعد ہی کوئی واقعہ قاری کے ذہن و دماغ میں برپا ہوتا ہے ۔
۔ اکیسویں صدی کا اردو افسانہ یقینا سابقہ تمام لوازمات سے پرے ایسے حقیقی اظہار کا متقاضی ہے جو غیر انسانی حرکت کرنے والوں کے ذہن و فکر پر ہٹھوڑے برسائے ۔ میری نظر میں اب ایسے افسانوں کی قطعی ضرورت نہیں جس میں رومان پسندی ہو، صرف اور صرف تخئل کی کارفرمائیاں ہو اور حقیقت سے کوئی واسطہ نہ ہو کیونکہ اب قاری کا مزاج بدل چکا ہے اور قاری تخیل کی داستانوی دنیا سے فرار چاہتا ہے آج کا افسانہ ہم سے براہ راست داخلی اور خارجی زندگی کے مسائل پر گفتگو کے متقاضی ہے ۔ آج کا مصروف قاری اردو افسانوں میں مختصر میں مکمل اظہار کا خواہشمند ہے تاکہ ادب بھی زندہ رہ سکے اور قاری کے تجسس میں اضافہ بھی ہوتا ہے رہے۔ اکیسویں صدی کے ابھرنے والے نئی نسل کے باشعور افسانہ نگار ایسے خیالات کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔ اردو افسانے میں ایک نئے روئے کی ضرورت ہے جس میں شگفتہ کڑک کے ساتھ ، سہل پسندعلامتوں اور استعاروں کا استعمال بھی ہو ، موضوعات میں تنوع ہو اور اظہارِ بیان میں ندرت کا احسا س بھی ہو ، قاری کے مسائل کے حل کی امید بھی نظر آئے اور ان مسائل سے دو بدو سامنا کرنے کے حوصلے بھی ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اردوافسانہ اپنے سفر میں کامیاب رہے گا۔ آج کا افسانہ ان تمام امکانات کا متقاضی ہے۔
گفتگو سمیٹتے ہوئے یہ کہہ دینا مناسب ہوگا کہ اس الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے عہد میںجہاں انسان بیک وقت کئی کاموں میں مصروف ہے محض اس لئے کہ اسے مادی حصول ہوایسے میں ذہنی تفریح کی خاطر ایسی تحریروں کی ضرورت محسوس کرتا ہے جو اسے دوران قرائت بوجھل پن سے دور سرور و انبساط بخشے تاکہ اسے روحانی مسرت کا احساس ہو کیونکہ انسان شروع سے ہی نئے نئے موضوعات اور سلگتے مسائل پر کہانی سننے کا متمنی رہا ہے۔اپنی بات وقار عظیم کے ان جملوں پر ختم کرتا ہوں۔۔۔۔۔
’’انسان کو اپنے تفریحی مشاغل میں کتر بیونت اور کانٹ چھانٹ کرنی پڑی تو اس کا وہ مزاج جسے کہانی سننے کا چسکا ہمیشہ سے ہے،افسانہ کی ایک ایسی صنف کا طلبگار ہوا جو زندگی اور فن کو اس طرح سموئے کہ انسان کو اس سے ذہنی سرور و مسرت کا سرمایہ بھی ہاتھ لگے، زندگی کے مسائل کو حل کرنے اور اپنے ماحول کو حسین تر بنانے کی آرزو بھی پوری ہو اور اس کے باوجود اتنی مختصر ہو کہ وقت پر اس کی گرفت مضبوط رہے وہ اپنے بے شمار مشاغل میں سے بھی کہانی پڑھنے کا وقت نکال سکے۔زمانے کے یہ سب تقاضے اور انسان کی یہ سب ضرورتیں مختصر افسانہ کی تخلیق کی بنیاد بنیں۔‘‘
(داستان سے افسانے تک)
ڈاکٹر محمد علی حسین شائق
کاشانہ مصطفے
بلاک نمبر ۳ ، کمرہ نمبر۱؍۲
تھانہ روڈ،جگتدل،۲۴ پرگنہ(شمال) مغربی بنگال
e-mail: mahshaiq@gmail.com
Mobile no: 9831530259
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |

