’اداس نسلیں‘ محض ایک مرکب لفظ ہی نہیں امیج ہے۔ یہ امیج قاری کے ذہن میں ناول کی قرأت سے پہلے ہی بن جاتی ہے یا بن سکتی ہے۔ مختلف اشخاص کے تصور میں اس تصویر کی تشکیل میں معاون دائرے، زاویے، لکیریں اور الوان جدا جدا ہوسکتے ہیں لیکن مجموعی کیفیت ’منقار زیرِ پر‘ یا ’منڈکری مار‘ سو رہنے والی ہوگی۔ ناول کی قرأت کے دوران متصور امیج کے امکان کو قاری صفحہ بہ صفحہ تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں بار بار چراغ کی بتی بھڑکتی ہے۔ بانو بار بار تیل ڈالتی ہے اور آخری بار تیل ڈالنے کے بعد دھیمے لہجے میں ہجرت کے دوران کھوئے گئے اپنے بچے ’کمال‘ کے بارے میں بتانے لگتی ہے۔ کمال جو مستقبل ہے، کہیں کھو گیا ہے۔ تخلیقی قوت کو اس کے ملنے کا پورا یقین ہے۔ کیوں کہ متاع گم شدہ کے ملنے کا امکان تو رہتا ہی ہے۔ بازیافت کے اس امکان پرایقان ہی انسان کو منفعل کرتا ہے۔ زندگی کی یہ کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب ’اداس نسلیں‘ ختم ہوجاتی ہے۔ اس مقام پر قاری کو انکشاف ہوتا ہے کہ ناول خاصی چہل پہل اور ایک ایسی زندگی سے عبارت ہے جسے حرکت و عمل کا نام دیا جاسکتا ہے۔ آخر اداس نسلیں کہاں ہیں؟ تھوڑے سے توقف کے بعد پتہ چلتا ہے کہ قاری کو زبردست مغالطہ ہوا ہے۔ اس کے ذہن میں ابھرنے والی اداسی کی تصویر محدود تھی یا پھر اداسی کے معنی محدود تھے۔ حرکت و عمل کا فقدان اداسی کی کیفیت کے لیے شرط نہیں۔ اداس شخص کہیں بھی، کسی بھی سمت منھ اٹھائے جاسکتا ہے اور کبھی بھی Uٹرن لے سکتا ہے۔ وہ کوئی بھی بے معنی یا بامعنی کام کرسکتا ہے، جس کے کرنے میں اس کے شعور کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس کیفیت میں اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔
حرکت و عمل ہمیشہ مثبت نہیں ہوتے بلکہ بسا اوقات مثبت کے دھوکے میں منفی سمت اختیار کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی، قومی تحریکوں اور تقسیم کے سانحے کے دوران ہوا۔ یہاں تین نسلیں ہیں۔ ان کے بعض افراد اس ہنگامے اور اتھل پتھل کے ساتھ ہیں، چند منھ چھپائے اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو اس افراتفری سے بظاہر کچھ سروکار نہیں۔ لیکن مایوس اور اداس سبھی ہیں۔ ناول کے کرداروں میں بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اپنے گِردپیش اور ماحول سے اتنے متاثر نہیں جتنا کہ تقاضا ہے۔ یہاں سب انفرادی داخلی تصادم اور کشمکش کا شکار ہیں جس میں گِرد پیش،ماحول یا زمانے کا کوئی دخل نہیں۔ ناول کا زمانہ ۱۸۵۷ سے شروع ہو کر ۱۹۴۷ پر ختم ہوتا ہے۔
کہانی کا آغاز سو گھروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے گائوں روشن پور کی تاریخ سے ہوتا ہے۔ یہ ناول کا پہلا باب ہے۔ اس تاریخی تفصیل کے لیے بیان کنندہ کا واحد ماخذ گاؤں کا بوڑھا کسان احمد دین ہے۔ یہاں قاری ایک دلچسپ اور پرکشش بیانیہ سے دوچار ہوتا ہے جو آگے مفقود ہوجاتا ہے۔ مثلاً
اس کے بعد کے واقعات کے سلسلے میں داستان گو کے بیان میں بڑی گڑبڑ تھی۔ کبھی وہ کہتا کہ جب دروازہ توڑا گیا تو کچھ موقعوں پر اس نے یہ بھی بیان دیا تھا کہ چند مصلحتوں کی بنا پر باغی ایک حکایت یہ بھی تھی کہ روشن علی خان نے جب کوئی ان حکایات کی صحت کی طرف توجہ دینے کی کسی کو ضرورت یوں محسوس نہ ہوتی کہ اس کے بعد داستان گو کے خیالات کی لڑی پھر سلجھ جاتیزمین گھیرنے کے متعلق دو روایتیں تھیں۔ ایک کے مطابق نواب صاحب نے گھوڑے پر سوار ہو کر دوسری کے مطابق انھوں نے پیدل بھاگنا علاقے کا انتخاب کیسے اور کیوں عمل میں آیا، کئی راویتیں مشہور تھیں جن کا بیان اس کتاب کے احاطے سے باہر ہے ان کی پراسرار بیماری اور موت کے متعلق بھی کئی افواہیں مشہور ہیں۔ لیکن چوں کہ ان کا ہماری کہانی کے ساتھ کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہم اس طرف زیادہ توجہ نہ دیں گے۔
ناول میں فروعات سے ضرورت بھر کام لیا گیا ہے لیکن پہلی عالمی جنگ کے واقعات پر مبنی آٹھویں باب سے گیارھویں باب تک فروعات اکثر بوجھل اور تھکا دینے والی ہیں۔ کیوں کہ یہ فروعات ناول کے اہم کردار نعیم کے تجربے میں قاری کو شامل نہیں کرپاتیں۔ مذکورہ چار ابواب کی اس کے علاوہ کوئی دوسری اہمیت نہیں رہ جاتی کہ آگے چل کر نعیم اپنی طویل ترین مکالمہ نما تقریر کے ذریعے انقلابیوں کو عدم تشدد کا درس دے سکے اور جنگ کے دوران اپنا بایاں ہاتھ گنوا کر قاری کی ہمدردی کا مستحق ٹھہرے۔ نعیم بڑا عجیب و غریب کردار ہے جو اکثر بیشتر کام یا اہم فیصلے یکایک کرتا ہے۔ مثلاً اعلیٰ طبقے کی لڑکی عذرا سے وہ اچانک محبت کرنے لگتا ہے اور عذرا کی طرف سے فوراً ہی مثبت اشارہ بھی ملنے لگتا ہے۔ نعیم کے پاس شوق فضول اور جرأت رندانہ کی کمی بھی نہیں۔ ناول کے جس حصے میں یہ ماجرا بیان ہوا ہے وہاں بیانیہ اور فروعات دونوں ہی بے اثر ہیں۔ ایسے ہی مواقع پر اور نجانے کیوں پورے ناول کی قرأت کے دوران ’آخر شب کے ہم سفر‘ اور ’قرۃ العین حیدر‘ کے سحر سے ذہن کو فرار نہیں ملتا۔ ممکن ہے بیان کے اس موڑ پر غیر شعوری طور پر قاری بالکنایہ، اصل قاری میں تحلیل ہوجاتا ہو۔ یعنی ایک ایسا قاری جو متن کو محض پڑھتا ہے۔ یہاں ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا کسی بھی متن کو ایک ’کامل قاری بالکنایہ‘ مل سکتا ہے۔ مصنف بالکنایہ، قاری بالکنایہ کی ذہنی اپج ہوتا ہے اور بیان کنندہ، مصنف بالکنایہ کی ضرورت۔ یہی ضرورت یعنی بیان کنندہ جب اصل مصنف کا ترجمان بننے لگتا ہے تو قاری اور کہانی کے بیچ بیزاری سر اٹھاتی ہے۔ یا پھر وہی بات ہوسکتی ہے کہ قاری ایک عام قاری میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
خیر پہلے محاربۂ عظیم سے لوٹنے کے بعد نعیم اچانک انقلابیوں سے جاملتا ہے اور ان کے ساتھ دو برس گزارتا ہے۔ یہاں اس کا میل شیلا نامی ایک لڑکی سے ہوتا ہے جہاں پہلی ملاقات اور تھوڑی سی گفتگو کے بعد:
اس نے لکڑی کی انگلیوں سے اس کی ناک کو چھوا۔ یہ تمہاری ناک ہے۔ میں محسوس کرسکتا ہوں۔ یہ تمہاری آنکھیں ہیں ۔ یہ ہونٹ ہیں، یہ گال ہیں، یہ ٹھوڑی ہے۔ یہ گردن ہے۔
نعیم کی اس فطرت سے قطع نظر عمدہ مکالمے نعیم اور شیلا کے درمیان ہوئے۔ نعیم بظاہر مرکزی کردار نظر آتا ہے جو از اول تا آخر معذور ہے۔ لا سمتیت نعیم کی فطرت کا ایسا وصف ہے جو کرداروں کی بھیڑ میں کھو جانے کے باوجود قاری کے ذہن سے نعیم کو محو ہونے نہیں دیتا۔ قاری ’نعیم‘ کو نظر انداز کر کے کسی اور کردار کے بارے میں سوچتا ہے اور ’نعیم‘ قاری کے دائیں بائیں منڈلاتا رہتا ہے۔ اپنی تمام تر خامیوں، خوبیوں، کمینگیوں اور عجلتوں کے ساتھ ’ نعیم‘ اردو ناولوں کا اچھوتا اور ناقابل فراموش کردار ہے۔ اس کردار کے بارے میں محترم شمیم حنفی نے بڑی عمدہ گفتگو کی ہے جو بلراج مین را کے رسالے ’شعور‘ میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ نیاز بیگ، عذرا، علی اور شیلا وہ کردار ہیں جن کے تفاعل کی وجہ سے قاری ناول کی قرأت کے لیے مجبور ہے۔ بالکل غیر متوقع طور پر نعیم اور عذرا کی شادی ہوجاتی ہے۔ معمولی سی بات پر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوتا ہے، عذرا باپ کے گھر ’روشن محل (دہلی)‘ آجاتی ہے اور نعیم ’روشن پور‘ میں اپنی پشتینی زمینوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اسی دوران اس پر فالج کا حملہ ہوتا ہے اور ایک بار پھر میاں بیوی میں اتفاق ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد واقعات کا تسلسل خاصا دلچسپ ہے۔ قاری جوں جوں آگے بڑھتا ہے اس کا سامنا تجزیہ، تحلیل، داخلی مہم یا شعور کے ڈرامے سے ہوتا ہے۔ داخلی مہم کے اس تجربے میں قاری خود بھی شامل ہوجاتا ہے اور دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً فالج زدہ نعیم روشن محل کے ایک کمرے میں لیٹا سوچ رہا ہے:
بالآخر یہ خداے لامقام کی ایک خوبصورت اور انوکھی صبح تھی جو ہر روز کی طرح دنیا پر طلوع ہوئی تھی۔ اس صبح کی تلاش میں ہم کہیں نہیں جاسکتے؟ کیا ہم یہیں اپنے چھوٹے چھوٹے حقیر گھروں میں بیٹھ کر باہر طلوع ہوتے ہوئے دن کو دیکھتے رہیں گے؟ کیا ہم اسے کبھی نہیں چھوسکتے۔ کیوں؟ کیوں؟اس سہانی صبح کے حسن کو محسوس کرنے اور اس کی تعریف کرنے میں کسی اور چیز کی کیا ضرورت ہے؟ یہ مان بھی لیا کہ مذہب ہی ایک رستہ ہے جس کے ذریعے ہم اس ہستی کو محسوس اور تسلیم کرتے ہیں، پھر؟ پھر کیا ہے، کچھ بھی نہیں۔ میں اسی طرح لیٹا ہوا ہوں اور ایک مکھی مجھے تنگ کررہی ہے۔ میری تو سمجھ میں آتا ہے کہ مذہب کے راستے پر چل کر ہم پہلے نظریہ بنالیتے ہیں، پھر عقیدہ آپ سے آپ آجاتا ہے، سچ پر آئے چاہے جھوٹ پر۔
کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے فروعات اور داخلی مہمات ایک دوسرے میں مدغم ہو کر خاص قسم کا اثر پیدا کرتی ہیں جس سے قاری کی فکر فزوں تر ہوجاتی ہے۔ یہ تاثر بے حد سنجیدگی، اداسی اور گہرے تفکر پر مبنی ہے:
رات جو ہمارے اور تمہارے درمیان آزادی اور سفر اور ہزیمت لے کر آتی ہے۔ کتنے فاصلے لے کر آتی ہے۔ تم سورج کی تپش سے بچنے کے لیے رات کو سفر کرتے ہو اور پھر بارش آجاتی ہے۔
دوائوں، دعائوں، عذرا کی محبت، توجہ اور دیکھ بھال کے ذریعے نعیم فالج کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔اس کے بعد ناول میں ایک نئے کردار انیس الرحمن کا اضافہ ہوتا ہے۔ عقل، عقلِ اصل اور عقلِ محض کی علامت بن چکے اس کردار سے جس قدر نعیم مرعوب رہتا ہے اور کسی حد تک خوفزدہ ہو کر چپ رہتا ہے اور بالآخراس کی باتوں کو دھیان سے سننا بھی چھوڑ دیتا ہے اسی قدر انیس سے قاری کو بھی ہول آتا ہے۔ انیس الرحمان کے بارے میں نعیم کا خیال تھا کہ:
اپنے تمام علم اور عقل کے باوصف افلاطون یا کوئی پیغمبر ہوسکتا تھا۔
اور ایک صبح نعیم کو یہ ٹھوس حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ:
انیس اپنی تمام تر حیوانی قوت کے ساتھ اٹھ رہا ہے، بیٹھ رہا ہے، مڑ رہا ہے، کام میں مصروف ہے اور باتیں کررہا ہے، تندہی سے فائلوں میں گم ہے اور انھیں پڑھ رہا ہے اور اٹھا اٹھا کر پرنسپل سکریٹری کے دفتر میں لیے جارہا ہے اور کھڑکی سے باہر جھانک رہا ہے اور ساری دنیا سے نفرت کررہا ہے، دوسرے تمام لوگوں کو اور تمام واقعات کو اپنے طنز، اپنی دنیاداری اور اپنی ہوشیاری میں غرق کررہا ہے، ایک بے حد باضمیر اور ہنس مکھ اور دانا مشین ہے جو اپنے زور پر چلے جارہی ہے۔ ایک حیوان ہے جو محض عادتاً زندہ ہے، کام کررہا ہے، اور یہ شخص، اس نے سوچا، یہ شخص اتنا کچھ جانتا ہے، سب کچھ جانتا ہے، اس کے باوجود دفعتاً اس سیاہ و سفید خلا میں اسے ایک خوفناک، ٹھوس حقیقت نمایاں ہوئی۔ کہ یہ شخص خود غرضی، ذہنی بددیانتی اور انسانی کمزوری کی ایک عظیم علامت ہے۔
اور نعیم نے جان لیا کہ:
]انیس الرحمان[ افلاطون یا کوئی پیغمبر ہوسکتا تھا، لیکن اس کے پاس خدا نہیں تھا ۔۔ چنانچہ وہ دنیا میں پیدا ہونے والی کمترین اجناس میں سے تھا۔
انیس الرحمان کے طویل مکالموں کی وجہ سے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ کہانی میں مصنف داخل ہوگیا ہے یا پھر ایک زیریں پلاٹ در آیا ہے جس کا اصل پلاٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ جب تک یہ کردار ناول کے افق پر نظر آتا ہے قاری کو مسلسل اذیت ہوتی ہے۔ اس کردار کی موجودگی سے بس ایک ہی طمانیت ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے نعیم کو نجات مل گئی۔ اس ٹھوس حقیقت کی آگہی کا ادراک ہوا جس کا ذکر اقتباس میں آیا ہے۔ اور اس صبح نعیم نے یہ بھی جان لیا کہ:
ایک دفعہ کسی نے، پتا نہیں کون تھا، مجھ سے کہا تھا کہ خدا وند تعالیٰ کی دنیا پر ہر صبح نئی دلکشی اور آزادی لے کر طلوع ہوتی ہے۔‘‘ اس نے سیدھا انیس کے چہرے پر دیکھا۔ ’’خدا حافظ۔
سوال کیا جاسکتا ہے کہ تقریباً ۵۰ برس پہلے عبداللہ حسین نے یہ ناول اپنی ہم عصر نسل کے لیے لکھا تھا۔ آج کی نسل انھیں بونس کیوں دے رہی ہے۔ مجھے یہ بات اپیل نہیں کرتی کہ کوئی فن کار ہم عصر یا کسی اور نسل کے لیے فن کی تخلیق کرتا ہے۔ کیوں کہ قاری تو اَن دیکھا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ رائج العصر فنی ہتھکنڈوں کی پیروی کر کے، اجتہاد کرکے یا انحراف کرکے فن کی تخلیق کرتا ہے۔ وہ خواہاں ہوتا ہے کہ اُسے تخلیق کی داد ملے۔ اب اگر ہم عصر نسل یا کوئی اور نسل فن پارے کو مسترد کردے تب بھی تخلیق کار اپنی تخلیق سے دستبردار نہیں ہوتا۔ کیوں کہ تخلیق فن کار کی ہے اور فن کار کے لیے ہے۔ کسی اور کی اس میں کیا دلچسپی۔ انسانی تجسس، دلچسپی اور فکر مندی سے پُر واقعات ہی انسان کو متوجہ کرتے ہیں۔ خواہ انسان کسی نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ مثلاً جب:
’’تم وہاں جاؤ۔‘‘ علی نے چار پائی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ بانو نے پس و پیش کرنی چاہی لیکن اس کی بھاری نگاہوں کے سامنے خاموشی سے جا کر چار پائی پر بیٹھ گئی۔ علی سینے پر ہاتھ باندھے خالی خالی نظروں سے دیے کی لو کو دیکھتا رہا، پھر کونے میں سے ایک رسی اٹھا کر جھونپڑی کے آر پار باندھنے لگا۔ جب باندھ چکا تو ایک موٹا کپڑا اس پر پھیلا دیا جس نے کوٹھری کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔
’’یہ کیا کرتے ہو؟‘‘ بانو کی آواز آئی۔
علی خاموشی سے زمین پر اپنے لیے چادر بچھاتا رہا۔ پھر اس نے کہا: ’’کل سے میں نوردین کے ساتھ رہوں گا۔‘‘
اس رات اسے دیر تک پردے کے دوسری طرف عورت کے آہستہ آہستہ رونے کی آوازیں آتی رہیں۔
بانو نے کیوں پس و پیش کرنا چاہا، پس وپیش کا کیا موقع تھا۔ علی ہاتھ باندھے خالی نظروں سے دیے کی لو کو کیوں دیکھ رہا تھا، وہ خالی خالی نظروں سے پیر کے انگوٹھوں، چھت یا سامنے کی دیوار کو بھی دیکھ سکتا تھا۔ عورت نے دیکھا کہ جھونپڑی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے، پھر اس نے سوال کیوں کیا۔ علی نوردین کے ساتھ کیوں رہے گا۔ عورت کے آہستہ آہستہ رونے کی آوازیں کیوں آتی رہیں۔ اسم عام یعنی ’’عورت‘‘ کا لفظ کیوں استعمال ہوا، جب کہ وہ عورت بانو ہے، بانو جو ماضی کی شیلا ہے، ایک عیسائی لڑکی۔ شیلا بدلتے وقت کے ساتھ پہلے ہندو ہوئی پھر مسلمان۔ یہ وقت یا حالات کا جبر تھا۔ اس نے ہجرت کی کیوں کہ اس کا بیٹا مسلمان تھا۔ لیکن وہ روتی کیوں رہی، بیٹے کی یاد میں یا علی کے طرز عمل کی وجہ سے یا علی کے رویے کے سبب لکڑی کے بائیں ہاتھ والا وہ شخص یاد آگیا جو ماضی کی ایک رات، دروازے پر لگے لکڑی کے تختے کو ہٹا کر اس کے کمرے میں گھس آیا تھا۔ یا پھر وہ ہولناک تنہائی سے اوب چکی تھی اور ابھی باتیں کرنا چاہتی تھی۔ یا بانو کے دل میں بھی وہی خیالات متصادم تھے جو بازیافت کے بعد بیدی کی لاجونتی کے دل میں تھے۔ یہ ہیں وہ امکانات جو قاری کو کہانی کا، کرداروں کا اور واقعات کا شریک سفر بنادیتے ہیں۔ لیکن جب نعیم یہ کہتا ہے:
’’عذرا ہم کچھ بھی نہیں۔ہم بہت چھوٹے چھوٹے اور معمولی لوگ ہیں۔ قدرت کے ہاتھوں میں ہماری زندگیاں بے بس اور کمزور ہیں۔ صرف ہماری مشقت انھیں مضبوط بناتی ہے۔ اور ہماری قوتِ برداشت انھیں مضبوط بناتی ہے اور ہماری دوستی اور رفاقت انھیں مضبوط بناتی ہے اور محبت ۔۔ اس کے بغیر ہم کمزور اور نادار ہیں۔
اقتباس کے ابتدائی تین جملے غور و فکر پر مجبور کرتے ہیں لیکن بعد کے الفاظ یہ لمحہ تا دیر رہنے نہیں دیتے۔ ممکن ہے یہ سچائی ہو جو نعیم نے ذاتی تجربے کی بنا پر اخذ کی ہو۔ ممکن ہے اس عرفان کا تعلق اس کے باپ نیاز بیگ کی زندگی سے ہو۔ مشقت، قوتِ برداشت، دوستی، رفاقت اور محبت کے عناصر سے مضبوطی آتی ہے یا ان کے بغیر ہم کمزور ہیں یہ انکشاف کرداروں یا کہانی کے تعامل سے ہونا چاہیے تھا۔ یہ تعامل اور تفاعل، نیاز بیگ، عذرا، شیلا اور علی کی کہانیوں میں ملتا ہے۔ اور یہی وہ کہانیاں ہیں جو مجبوری، بے بسی اور بے چارگی کے ساتھ ساتھ مشقت، قوتِ برداشت، دوستی، صبر، رفاقت اور محبت ایسے پیغمبرانہ جذبات کی مضبوطی کا احساس دلاتی ہیں۔ نعیم ان کہانیوں کا شاہد ہے اور شاید انھی کے اثر سے وہ بدھ بن گیا یعنی عرفان پا گیا۔
جب ایک دوسرا راوی زندگی کی کسی دوسری کتاب میں آخرِ شب کے ہم سفر کو ڈھونڈتا ہوا محسوس کرتا ہے کہ:
دنیا کے اس ہاٹ میں ماں بیٹھی اپنی پتنگ اڑا رہی ہے۔ لاکھوں ڈوروں میں سے وہ ایک ڈور کاٹ دیتی ہے۔ اور جب پتنگ کٹ کر بیکراں وسعت میں پہنچ جاتی ہے تو ماں ہنس کر تالی بجاتی ہے۔ (آخر ِشب کے ہم سفر)
دیپالی سرکار، کماری اوما دیبی رائے سے کہتی ہے۔ کالی مرچکی ہے، سورج ٹھنڈا پڑنے والا ہے۔ پریتوں کے منھ سے آگ نکل رہی ہے اور سوچی مکھ بھوت ہم سب کے تعاقب میں لگے ہیں۔ ہم سب کو اپنی اپنی جونیں اسی طرح بھگتانا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ نعیم کی سوچ میں رجائیت ہے اور دیپالی سرکار کی آگہی یاس کو جنم دیتی ہے۔ لیکن نہیں، دیپالی سرکار کے راستے کا انت ہردوار ہے۔ یعنی روحانیت، یعنی مذہب۔ ڈور کاٹنے سے پہلے ماں نے یا قدرت نے تربیت بھی دی تھی۔ تربیت کو ٹھکرانے والے اور اپنی جڑوں سے بے گانہ ہونے والے مغرور انسانوں کو زمانہ کچل دیتا ہے۔ ہردوار، روحانیت، مذہب یا ایمان یہی تو اصل راہ ہے۔ اور ایک دن نعیم کو بھی یہی احساس ہوتا ہے کہ راستے کا انت ہردوار ہے:
اور مذہب؟ سچ ہے کہ تخلیق کی نہایت اعلی شکل ہے، اور نہایت دلکش۔ یہ واحد مظہر ہے جہاں خدا، انسان اور روح آپس میں یوں مدغم ہوگئے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
ایمان۔ یہ ایمان ہی تخلیق کرتا ہے اور سینہ در سینہ نسل در نسل، عہد در عہد اسے منتقل کرتا جاتا ہے۔ ہم ایک مذہب کے حق میں اور دوسرے مذہب کے خلاف بہترین دلائل دے سکتے ہیں لیکن ہم ایمان سے یقین نہیں اٹھاسکتے جو سارے مذہب کی روح ہے۔ یہ مشترکہ جائداد ہے۔ یہ لاعلم اور بے بہرہ لوگوں کو زندہ رہنے کا اور مرنے کا غیر متزلزل ارادہ عطا کرتا ہے، ایک آئیڈیل، ایک خواب! وہ شخص جو اپنے دروازے سے باہر کسی شئے کا علم نہیں رکھتا اور جس کی ملکیت میں ایک صحن اور ایک چولھے کے علاوہ کچھ نہیں، ایمان کی ہمراہی میں دفعتاً تمام زندگی ۔۔ اور ۔۔تمام موت۔۔ کے معنی سمجھ جاتا ہے۔
جب دنیا میں پیغمبر آتے تھے تب اور جب پیغمبر آنا بند ہوگئے تب بھی غوروفکر اور سوچ بچار کے لیے قصص کہتے رہنے کی تلقین کی گئی۔ یہی تلقین رہ گئی۔ جو کہانیاں ایمان، روح اور موت سے مملو ہوں گی وہ محلِ بحث رہیں گی۔ کہ تمام بنی نوع انسان کے لیے یہی تو وہ مشترکہ وراثت اور مشترکہ تجربہ ہے جو سینہ بہ سینہ، عہد بہ عہد، نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اور اسی لیے ’’اداس نسلیں‘‘ اپنی اشاعت کے سال سے لے کر آج تک محلِ بحث ہے۔ اور شاید آگے بھی محلِ بحث رہے اگر لوگ خود غرضی، ذہنی بددیانتی، انسانی کمزوری اور عقل کے عظیم چنگل کا شکار نہ ہوجائیں۔
نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد ہیں۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |