اردو ناول اور استعماریت(انیسویں صدی کے ناول کا مابعد نو آبادیاتی مطالعہ) ڈاکٹر محمد نعیم کا ایم فل کا مقالہ تھا جسے کتابی شکل دی گئی ہے۔کتابی صورت میں یہ مقالہ کتاب محل لاہور سے 2017ء میں شائع ہوا۔کتاب کے صفحات کی تعداد 207 ہے۔کتاب کے آخر میں کتابیات اور اشاریہ درج ہے۔انتساب ڈاکٹر سعید بھٹا کے نا م ہے۔کتاب کے ابواب کی تفصیل کچھ یوں ہے:
"توضیح” کے عنوان سے مصنف نے انیسویں صدی میں استعماری عہد کے برِ عظیم کی تاریخ ،سماج،ادب اور ادیب پر اثرات کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ابتدائی اردو ناول پر استعماری قوتوں کے اثرات اور ان کی نوعیت کو سمجھنے کے حوالے سے اس تصنیف کو ایک کوشش قرار دیا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں ما بعد نو آبا دیات :حدود ، تعارف ،اہمیت – امبرین کوثر)
"انیسویں صدی کی اردو دنیا اور استعماری حکمت عملیاں” باب کو اس تصنیف کا پس منظری باب کہا جاسکتا ہے جس میں مصنف نے مختلف حوالوں سے استعماریت کی تعریف و تشریح، استعماریت کے مختلف حربوں،برصغیر میں استعماری عہد اور مختلف شعبوں ہائے زندگی میں اس کے در آنے کی روداد بیان کی ہے۔استعماریت کے عمل سے جہاں دوسرے شعبوں میں تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں اس نے اردو دنیا کے مزاج میں بھی نمایاں پیدا کیں۔ مصنف استعماریت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"استعماریت،یورپی قوموں کا ایشیا ،افریقہ،امریکہ اور آسٹریلیا کے بیشتر حصو پر قبضہ تھا جس کا آغاز تجارت سے ہوا۔۔۔۔استعمار کاری کا عمل محکوم قوموں کے وسائل پر قبضہ تو تھا ہی اس کے علاوہ ان قوموں پر اس نے بڑے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔۔۔۔ہندوستان میں استعمار کاری کا باقاعدہ آغاز ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنگال میں فتح سے ہوتا ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کا یہاں ورود تو سترھویں میں ہی ہوگیا تھا ۔تاہم ایک تجارتی کمپنی سے حکومتی حیثیت تک کا سفر اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں ہی ممکن ہوا۔”(محمد نعیم،2017ءص2-5)
استعماری عہد کے اثرات انیسویں صدی تک قائم رہے۔استعمار کی پالیسیوں نے ہندوستانی سماج کی تقلیب کے حربے کو بڑی کامیابی سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ہندوستان کے زبان و ادب کے بارے میں تصورات کی تشکیل میں بھی استعمار کاروں کی دل چسپیوں نے ان کی تعمیر اور انھیں منقلب کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔انھیں حربوں نے استعماری قوتو ںکو ہندوستان میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔استعماری تعلیم نے زندگی اور ادب کے بارے میں ہندوستانیوں کے تصورات کو بھی تبدیل کیا نئی نئی اصناف ادب نے جنم لیا۔اسی تبدیلی کا نتیجہ ناول کی صنف کے آغاز کی صورت میں نکلا۔انیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے ہندوستان کی مختلف زبانوں میں ناول کے خدوخال نمایاں ہونے شروع ہوئے۔مصنف نے اردو ناول کے آغاز اور اس میں استعماری قوتوں کی اثر اندازی کا بغور و مدلل جائزہ پیش کیا ہے۔مصنف نے (یہ بھی پڑھیں ندا فاضلی کا تخلیقی گاؤں – پروفیسر کوثر مظہری ) ناول کو استعماری عہد کی دین قرار دیاہے۔استعماری قوتوں کے حربوں میں سے ایک بڑا حربہ تعلیم و تربیت کا فروغ تھا۔ اس مقصد کے تحت نصابی ضرورتوں کے لیے تیار کی جانے والی کتب میں متعدد کا تعلق قصہ کہانی سے تھا۔ یقینا یہ قصے ناول نہ تھے مگر جس نثری روایت کی ضرورت تھی اسے ضرور پورا کر رہے تھے۔ مصنف نے باغ و بہار کے قصے میں کرداروں ،جذبات و احساسات اور مسائل و معاملات کو ناول سے قریب تر قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں نقلیات ،لطائف،مضحکات اور حکایات کی مختلف صورتیں ناولانہ حقیقت پسندی سے قریب تر ہیں۔اردو ناول کے ارتقا کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اردو ناول کے ارتقا اور اس کے مزاج میں سرکاری ملازموں نے نمایاں حصہ لیا ان میں ڈپٹی نذیر اؐد،مرزا ہادی رسوا کا نام نمایاں ہے۔نیز تراجم اور اخبارات بھی ناول کے ارتقا کا اہم سبب بنیں۔مصنف نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ اردو ناول کا آغاز اور ارتقا استعماریت کے پہلو بہ پہلو ہوا ہے۔اسے ممکن بنانے میں استعماری حکمت عملیوں کا حصہ اتنا واضح ہے کہ اس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں۔ مصنف نےانیسویں صدی میں اردو کے اصلاحی ناول کا بھی تذکرہ کیا ہے استعماری عہد میں زیادہ تر لکھے جانے والے ناولوں میں اصلاحی ناولوں کی تعداد زیادہ ہے۔ان ناولوں میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناول،رشیدۃ النسا،،سرشارمنشی احمد حسین خان کے ناول شامل ہیں۔"اردو ناول میں مزاحمتی تذبذب” بھی استعماری عہد کے بالمقابل چلتا ہے۔اس حوالے سے نمایاں نام شرر فلورا اور فلورنڈا،سیرِ کہسار،فسانہ آزاد ،مولوی نذیر احمد کا ناول ابن الوقت ،اصلاح النسا،رویائے صادقہ، منشی سجاد حسین کا ناول حاجی بغلول،طرح دار لونڈی مذاحمتی رجحانات کے حامل ناول ہیں ان ناول نگاروں نے اس دور کے پیش نظر کھلم کھلا بغاوت یا انگریزی نظام پر تنقید کم ہی اپنے ناولوں میں کی ہے۔نتائج کے عنوان سے مصنف نے ان مذکورہ تمام موضوعات سے حاصل نتائج کی خلاصہ مختصراً درج کیا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ” غالبؔ کا مابعدنوآبادیاتی مطالعہ ” :خطوط اوردستنبو کے تناطرمیں- محمد عامر سہیل)
کتاب کے آخر میں ،کتابیات و اشاریہ درج ہے۔
مجموعی طور پر اس کتاب میں محمد نعیم نے اردو ناول اور استعماریت کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا ہے۔استعماریت نے ہندوستان میں سماجی تشکیل نو کے لیے جو حربے اپنائے اور فہمِ سماج کی علمیات کو منقلب کرنے کے لیے جو تدابیر اختیار کیں ان کو نشان زد کرنے کے بعد مصنف نے اردو ناول پر ان تبدیلیوں کے ہئیتی اور مؤضوعاتی سطح پر اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |