پرویز شہریار کا شمار اردو کے معتبر افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔وہ گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل افسانے لکھ رہے ہیں ۔ وہ شاعر بھی ہیں ۔ لیکن ان کی شناخت افسانوں سے قائم ہوئ ہے ۔ان کے دو افسانوی مجموعے "بڑے شہرکا خواب” اور "شجر ممنوعہ کی چاہ میں ” شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں ۔ ان کا کم و بیش ہر افسانہ ایک نئ قرأت کا تقاضہ کرتا ہے۔ "سونیا بوٹیک” بھی انہی کہانیوں میں سے ایک ہے۔جو ان کے دوسرے افسانوی مجموعے میں شامل ہے ۔ اس افسانے میں انہوں نے ایک ایسی لڑکی کی کہانی بیان کی ہے ۔جس کا باپ کوئلے کی کان میں مر جاتا ہے ۔ اس کی ماں کی دوسری شادی کر دی جاتی ہے ۔ سونیا کا سوتیلا باپ اس کی ماں کو شراب پی کر بہت مارتا ہے۔ انہوں نے اس افسانے کے ذریعے خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ کہ اگر عورت تعلیم یافتہ ہو ۔تو وہ اپنے حقوق کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ خود کفیل بھی بن جاتی ہے۔ بڑی سے بڑی مصیبت کو بھی بہ آسانی پار کر لیتی ہے ۔ اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔۔(یہ بھی پڑھیں سونیا بوٹیک – ڈاکٹر پرویز شہریار )
"اب وہ اس سے ڈرے گی بھی نہیں ۔کیونکہ وہ دسویں کلاس پار کر چکی ہے۔ اسے سنیتا میڈم کی بات یاد آگئ ۔18 سال کی عمر میں لڑکیاں سیانی ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ کوئ من مانی نہیں کر سکتا ۔قانون بھی اس بالغ لڑکی کے فیصلے کی قدر کرتا ہے” (یہ بھی پڑھیں ناول” اللہ میاں کا کارخانہ” ایک مطالعہ- ہما خان علیگ )
افسانہ نگار نے مکالمے کا حق بھی بخوبی ادا کیا ہے ۔ کس طرح سونیا کے اندر دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد ہمت آجاتی ہے ۔ اور کس طرح وہ اپنے حقوق کو بھی پہچان چکی ہے۔ اس کی عمر بھی اب 18 سال کی ہوگئ ہے۔ اس کے ہر فیصلے کی قدر قانون بھی کریگا ۔ اسے اب کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کی اصل ہمت تو تب معلوم ہوتی ہے ۔ جب اس کا باپ اس کی ماں کو پیسے لینے کے لے مارتا پیٹتا ہے ۔وہی پیسے جو سونیا کے باپ نے اس کے جہیز کے لۓ رکھے تھے ۔ وہ اپنے باپ کو بے خوف ہو کر کس طرح جواب دیتی ہے ۔ اقتباس کچھ اس طرح ہے۔
” آج تو سونیا کے تیور ہی کچھ اور تھے ۔ اس نے اپنے سوتیلے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا۔
"عورت پر ہاتھ اٹھانا کہاں کی مردانگی ہے”
افسانہ "سونیا بوٹیک” ایک منفرد افسانہ ہے۔ افسانے کا پلاٹ بھی گھٹا ہوا ہے ۔ بڑی روانی کے ساتھ قاری پڑھتا چلا جاتا ہے ۔ کہی بھی بے ربطی کا احساس نہیں ہوتا ۔ افسانے کی ابتدا اور انتہا ایسی ہے کہ وہ قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ زبان و بیان بھی عام فہم ہے ۔اسے ایک عام قاری بھی بہ آسانی سمجھ سکتا ہے ۔ ایک افسانہ نگار کی کامیابی اسی بات میں مضمر ہوتی ہے۔ کہ جو کچھ وہ لکھے ۔اس کی ترسیل ہو سکے ۔ یعنی جو بات دل سے نکلے وہ دل تک پہنچنے کا اثر بھی رکھتی ہو۔ اسی طرح کا یہ افسانہ بھی ہے۔
اس افسانے میں کمسن لڑکیوں کی بدلتی دنیا کے پیش نظر جو پیغام دیا گیا ہے ۔ وہ اپنے آپ میں ایک زبردست پیغام ہے۔ لڑکیاں اس نازک عمر میں فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتی ہیں ۔ لیکن اگر انہیں کسی کی مدد مل جاۓ ۔ تو وہ آسمان کی اونچائیاں چھونے لگتی ہیں ۔ جسیے اس افسانے میں سنیتا میڈم ہے ۔جنہوں نے سونیا کی بڑی مدد کی ۔ اور انہی کی وجہ سے سونیا نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔اور ساتھ ہی افسانے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب ایک لڑکی خود تعلیم یافتہ ہوجاتی ہے۔ تو وہ ہر لڑکی کو تعلیم حاصل کرانا اپنا فرض عین سمجھتی ہے ۔۔
آج کے دور میں ہر لڑکی کو یہ کہانی پڑھنا چاہۓ ۔ اور ایک خوف کا بھوت جو لڑکیوں کے اندر بیٹھا ہوتا ہے۔ ان کے اندر ہمت کا مادہ نہیں ہوتا ۔۔۔کسی بھی مصیبت کا سامنا نہیں کر سکتی ۔۔۔ اپنے حق کے لۓ آواز نہیں اٹھا سکتی۔۔ انہیں سونیا کی طرح بننے کے کوشش کرنی چاہے ۔۔۔ ہر کسی کے اندر ایک سونیا موجود ہے ۔۔۔۔ کہانی چاہے کچھ بھی ہوں۔۔۔ لیکن ہمیں ایسی ہی بہادری اور ہمت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہۓ ۔۔۔جس طرح سونیا نے کیا ۔۔۔۔ایک بوٹیک کھولا ہر فیصلے کے خلاف گئ ۔۔بچپن کے لگے رشتے سے بھی انکار کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔یہی ہمت یہی بہادرہ ہر لڑکی میں ہونی چاہۓ ۔۔ اس افسانے کا یک اقتباس ملاحظہ ہوں جو مجھے بے حد پسند آیا ۔۔۔ (یہ بھی پڑھیں عصمت چغتائی: کھلے پنکھ والی افسانہ نگار – ڈاکٹرپرویز شہریار )
‘” مرد تو وہ ہوتے ہیں ،جو اپنی بیوی ،بیٹیوں کی دل سے عزت کرتے ہیں ۔ان پر ہاتھ نہیں اٹھاتے ہیں ۔ ان سے روپے نہیں مانگتے ہیں سمجھے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |