‘اللّٰہ میاں کا کارخانہ’ بچوں پر لکھا گیا اپنے منفرد لب و لہجے کی بنا پرایک کامیاب ناول ہے. اس کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ ایسی عمر کے بچوں پر لکھا گیا ہے جو اپنی شرارتوں اور انگنت سوالات سے جہاں لوگوں کو پریشان کرتے ہیں وہیں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں. ناول کا اسلوب بیانیہ اور سادہ ہے جس کی وجہ سے قاری کو پڑھنے میں اور زیادہ لطف ملتا ہے. ناول کی کہانی ایک ایسے بچے کے ارد گرد گھومتی ہے جو اپنی غربت وافلاس کے سبب اپنی ننھی خواہشات کی تکمیل کے لیے در بدر بھٹکتا رہتا ہے. غلطی کرنے پر اسے گھر پر بھی مار پڑتی ہے، مدرسہ میں حافظ جی بھی عبرت کی چھڑی سے اس کی پٹائی کرتے ہیں. جب اسے مار کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا تو وہ بہت افسردہ ہوجاتا ہے. بعض دفعہ وہ اللہ میاں سے بھی ناراضگی مول لے لیتا ہے. اس کی زندگی میں (یہ بھی پڑھیں محسن خان کا ناول’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ ایک مطالعہ – ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ) پریشانی اس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب اس کے والد کو پاکستان کی خفیہ تنظیم ‘آئی ایس آئی’ کا ایجنٹ بتاکر گرفتار کرلیا جاتا ہے. تھوڑے دنوں میں ماں اور مشفق چچا بھی اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور وہ ادھر سے ادھر مارا مارا پھرتا رہتا ہے. آخر کار جاکر اسی مدرسے اور حافظ جی کے یہاں پناہ لیتا ہے جس میں پڑھنے سے وہ گھبراتا تھا. اگر کرداروں کی بات کی جائے تو ناول نگار نے پوری فن کاری کا ثبوت دیا ہے. جبران جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے. وہ اپنی عمر کے لحاظ سے سب کچھ وہی کرتا ہے جو اسے کرنا چاہیے. باتوں باتوں میں غصہ ہونا، جماعت میں چلے جانے پر ابو کی پٹری پر بیٹھ کر ابو کی نقل کرنا اور چھوٹی بہن پر رعب دکھانا، پڑھائی سے زیادہ کھیل کود میں دلچسپی لینا، اپنی عمر کے بچوں سے لڑنا جھگڑنا، ہر وقت پتنگ لوٹنے کی تدبیر کرنا. یہ وہ عام چیزیں ہیں جو اس عمر کے لڑکوں کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں. ولید اور جمیل کی طرح ان کی بیویوں کے کردار بھی بخوبی نبھائے گئے ہیں. ولید جہاں کم علمی کی وجہ سے جمود کا شکار ہے وہیں جمیل اپنے علم میں گیرائی و گہرائی اور سوچ میں وسعت کے سبب ایک رحم دل اور اچھا انسان ہے. ناول نگار نے عورتوں کے کردار میں پوری فنکاری سے کام لیا ہے. عورتوں میں رخسانہ خالہ، جمیل اور سجاد کی بیوی کا کردار بہت اہم ہے. رخسانہ خالہ کا کردار جہاں رنگ رنگلیوں سے بھرا ہے وہیں جمیل اور سجاد کی بیوی اپنے شوہروں کی دولت پر عیش کرتی ہیں. اپنی تنگ نظری کی وجہ سے سے کسی غریب کو خاطر میں نہیں لاتیں خواہ وہ اپنا قریبی ہی کیوں نہ ہو. اگر دیکھا جائے تو حافظ جی کی بکری بھی ایک بہترین کردار ہے. ناول کا پلاٹ سادہ ہے. آخر میں میں پلاٹ کے اندر کچھ پیچیدگی آئی ہے. ولید کی گرفتاری اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو اگر تھوڑا طول دیا جاتا تو کہانی کا پلاٹ زیادہ بہتر ہوسکتا تھا. قصہ مختصر یہ کہ ‘اللّٰہ میاں کا کارخانہ’ ایک کامیاب ناول ہے. جس طرح سرشار نے فسانہ آزاد میں خوجی کا کردار پیدا کرکے لکھنؤ کی مٹتی تہذیب کو پچایا ہے،ٹھیک اسی طرح محسن خان نے سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں چھوٹے بچوں سے ان کا بچپنا چھیننے کی کوشش کی جارہی اس ناول میں جبران کے کردار سے بچپن کی بھولی بسری یادوں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے.
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |