ابن صفی نے 245 جاسوسی ناول تحریر کیے اس تخلیقی سفر کے دوران انھوں نے بے شمار کردار تخلیق کیے ہیں۔ ان میں اچھے کردار بھی ہیں اور برے بھی۔جاسوس بھی ہیں مجرم بھی اور ان کے معاون بھی۔ جس طرح ہماری چلتی پھرتی جیتی جاگتی دنیامیں انسانوں کی بھیڑ ملتی ہے ان میں مختلف قسم کے انسان ملتے ہیں جن کی ظاہری شکل و صورت کے علاوہ ان کی داخلی، نفسیاتی، ذہنی کیفیت الگ ہوتی ہے،اسی طرح ناول کی دنیا میں بھی مختلف قسم کے کردار نظر آتے ہیں جن میں شریف،مکار، بدمعاش،موقع پرست، سبھی طرح کے کرداروں کی گنجائش ہوتی ہے۔ جاسوسی ناولوں میں دو ہی طرح کے کردار زیادہ اجاگر ہوتے ہیں جاسوس اور مجرم لیکن ابن صفی کی خوبی یہ ہے کہ ناول جاسوسی ہوتے ہوئے بھی ان کے یہاں مختلف قسم کے کردار ہیں۔ ابن صفی کے ناولوں میں مشرقی اور مغربی ممالک کے کردار بھی ہیں۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ ان کرداروں کو ان کے پس منظر میں ہی پیش کیا گیا ہے۔البتہ جولیا اور جوزف اس سے مستثنیٰ ہیں کیوں کہ وہ کسی حد تک مشرقی ہو چکے ہیں۔ ابن صفی کے کردار جس ملک سے تعلق رکھتے ہیں ان کے نام انھیں کے ملک کے مطابق ہوتے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابن صفی کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے کرداروں میں بڑا تنوع پایا جا تا ہے۔ابن صفی کا کوئی بھی کردار اکہرا نہیں ہے۔ ان کے کرداروں میں ایسی پیچیدگی ہے کہ ناول ختم ہونے کے بعد قاری کے حافظے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یوں تو ابن صفی کے ناولوں کی بنیاد مستقل کرداروں پر ہے لیکن ان کے ایسے کرادار جو چند ناولوں میں آئے ہیں ان میں بھی ابن صفی نے کردار نگاری کی ایسی مہارت دکھائی ہے کہ غیر مستقل کردار بھی ایک گہرا تاثر چھوڑتے ہیں۔
ابن صفی نے ایسے منفی کردار بھی تخلیق کیے جو کسی جبر،ظلم،اور احتجاج کی وجہ سے مجرم بن گئے۔ ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ابن صفی کو ایسے منفی کرداروں سے ہمدردی ہے لیکن ہمدردی اپنی جگہ ایسے منفی کرداروں کوانھوں نے کیفر کردار تک ضرور پہنچایاہے۔ ایسا ہی ایک کردار علامہ دہشت ناک ہے۔ جو ’عمران سریز‘کے تین ناولوں علا مہ دہشت ناک، فرشتے کادشمن اور’بے چارہ شہ زور، میں آیا ہے۔علامہ دہشت ناک آواز بدلنے اور بھیس بدلنے کا ماہر ہے۔ کبھی وہ علامہ دہشت ناک بن کر کبھی شہ زور کے روپ میں آکر قاری کو حیران کر دیتا ہے۔ اس کردار کے بارے میں ابن صفی نے خود کہا تھا”بہت دنوں کے بعد ایک ایسا کردارہاتھ لگا ہے جس سے فوراً ہی پیچھا چھڑانے لینے کو دل نہیں چاہتا“(1)۔
علامہ دہشت ناک جو کہ ایک یونیورسٹی میں سماجیات کا پروفیسر ہے۔اس نے اپنے ایسے شاگردوں کی خاصی تعداد بنا رکھی ہے جن کو وہ بظاہر ذہانت کا سبق پڑھا تا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو جرم کی ایسی ترکیبیں سکھا تا ہے کہ جس سے وہ قانون کی گرفت میں نہ آسکیں۔اس کا ماننا ہے کہ ذہانت ہی انسانیت کا سر چشمہ ہے اور جس میں ذہانت نہیں وہ انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے کی طرح ہے۔ بلا شبہ ذہانت ہی انسانیت کا سر چشمہ ہے لیکن علامہ دہشت ناک ذہانت کا غلط استعمال کرتا ہے، وہ پیدائشی مجرم نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ظلم ہوا تھااپنے اوپر ہوئے ظلم کی داستان وہ ہر سال ایسے طلبا کو ضرور سناتا ہے جن کا انتخاب وہ خود کرتا ہے۔اس کا باپ جس گاؤں میں رہتا تھا اس گاؤ ں میں ایک حویلی تھی حویلی کا ایک فرد قتل کر دیتا ہے اس کا باپ گواہی دے دیتا ہے جس کی بنا پر حویلی کے فرد کو پھانسی ہو جاتی ہے۔اس کے باپ کی گواہی کے بعد ان پر جو ظلم ہوا اس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ:
اب یہاں سے اس دین دار کی کہانی شروع ہوتی ہے جوحویلی والوں کا مزارع بھی تھا۔ جانتے ہو اس پر حویلی والوں کا عتاب کس شکل میں نازل ہوا؟ ایک رات جب کچے مکان کے لوگ بے خبر سو رہے تھے…. کچے مکان میں آگ لگا دی گئی اور اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کوئی باہر نہ نکلنے پائے۔ چھوٹے بڑے آٹھ افراد جل کر بھسم ہوگئے تھے۔ جس نے باہر نکلنے کی کوشش کی اسے گولی ماردی گئی اس کنبے کا بس ایک بچہ زندہ بچ سکاتھاوہ بھی اس لیے کہ واردات کے وقت وہ اس کچے مکان میں موجود نہیں تھا۔(2)
وہ بچہ جو بچ گیا تھا وہ خود علامہ دہشت ناک تھا۔کیونکہ اس رات وہ اپنے ننھیال گیا ہوا تھا۔ پھر اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی،یونیورسٹی میں پروفیسر ہو گیا شاعری شروع کی تو تخلص ’دہشت‘رکھا۔دراصل علامہ دہشت ناک انتقام کے جذبے میں اس قدر سما گیا تھا کہ اس کی شخصیت کے جو دریچے تحلیل نفسی کے ذریعہ ابن صفی نے وا کیے ہیں ان کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ علامہ دہشت ناک کے اندر’id‘ بہت بڑھا ہوا تھا نفسیات میں اڈ اس کو کہتے ہیں جو انسان کو لذت حاصل کرنے یا کسی کام کومکمل کرنے کے لیے اکسا تا رہتا ہے۔علامہ دہشت ناک حد سے زیادہ خود اعتمادتھا اور اس کے اندر احساس برتری کا مادہ بہت تھا۔ وہ ذہین بھی بہت تھا لیکن اپنے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتا تھا کیونکہ اس کی نظر میں جو لوگ ذہین نہیں وہ کیڑے مکوڑے ہیں یا ان سے بھی بدتر۔ اس کے بقول اس دنیا میں صرف ذہین لوگو ں کو زندہ رہنے کا حق ہے۔ اس نے حویلی والوں سے اپنے گھرانے کی موت کا بدلہ اس طریقے سے لیا کہ کسی کو بھی یہ نہ پتہ چل سکا کہ ان اموات میں کس کا ہاتھ ہے۔ اس نے حویلی والوں کو مارنے کے لیے ایسا سائنٹفک طریقہ اختیار کیا کہ ان کی اموات بالکل فطری لگے۔ یعنی ان کی اموات کی وجہ کوئی وبا معلوم ہوئی۔ اس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر کچے مکان والوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرایا جا تا تو ایک آدھ جلی ہوئی لاش سے گولی بھی برآمد کی جاسکتی تھی لیکن کوئی بھی یہ ثابت نہیں کرسکتا تھا کہ حویلی والوں کی اموات میں کس کا ہاتھ ہے۔ ذہانت کے زعم میں وہ حویلی کے آخری فرد کو جو کہ باہر تھااور علامہ کی پھیلائی وبا کا شکار نہ ہوسکا تھا کو بھی اس انداز سے مارنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی موت کا شک اپوزشن والوں پر کیا جائے۔ حویلی کا آخری فرد ملک کا ایک سیاست داں ہے علامہ کو اپنے پلان پر پورا یقین تھالیکن جب اس کا پلان فیل ہوجا تا ہے تو اس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے:
حوالات کے کٹہرے کے قریب پہنچ کر اس نے علامہ کوزمین پر اوندھے پڑے دیکھا۔ اس نے اس کو آواز دی تھی۔
علامہ نے سر اٹھا کر دیکھا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں شناسائی کی ہلکی سی جھلک بھی نہ دکھائی دی۔ ان میں ایسی ہی لاتعلقی پائی جاتی تھی جیسے کسی چوپائے نے آنکھ اٹھا کر انھیں دیکھ لیا ہو۔
پھر اچانک وہ چیخ نے لگا تھا۔”ماں . . ..ماں….بابا…بابا… میرے بابا۔“
آواز سچ مچ کسی پانچ یا چھ سال کے بچے کی سی تھی۔
”کمال کی آواز بدلتا ہے! فیاض ہنس کر بولا۔ شہزور اور اس کی اصل آواز میں کتنا فرق تھا“۔
عمران کچھ نہ بولا۔ اس کا تالو خشک ہوا جا رہا تھا۔ حلق میں کانٹے سے پڑنے لگے تھے۔علامہ پھر اسی انداز میں ماں اور بابا کو پکارنے لگا۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔
چلو عمران واپسی کے لیے مڑتا ہوا بولا۔
باہر نکل کر عمران بولا تھا۔ یہ بن نہیں رہا ہے۔ ذہنی طور پر ماضی میں لوٹ گیا ہے۔ بعض صدمے ایسے ہی ہوتے ہیں شاید اسی لیے زندہ تھا کہ ان میں سے آخری آدمی کا خاتمہ کر دے…لیکن نہ کر سکا۔(3)
علامہ جس حالت سے دو چار ہو رہا تھا اس حالت کو نفسیات کی اصطلاح میں مراجعتRegression کہتے ہیں شدید تشویش اور احساس نا مرادی میں مبتلا ہو کر شخص بچکانہ حرکتیں کرنے لگتا ہے۔اور وہ اپنے ماضی میں لوٹ جانا چاہتا ہے جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ علامہ، حویلی کے آخری فرد کو مار نہ سکا یہ اس کا احساس بے بسی تھا،جس کے سبب وہ مراجعت میں پہنچ گیا کیونکہ مراجعت میں ذہنی کشاکش، احساس جرم، تشویش احساس نامرادی جیسے تکلیف دہ احساس سے پیچھا چھوٹ جاتا ہے۔ جاسوسی اور سنجیدہ ناول میں فرق کرنے کے لیے جو مثال دی جاتی ہے وہ دستوسکی کے ناول ’جرم وسزا‘ کی دی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ:
مقبول اور سنجیدہ ناولوں میں جو بنیادی فرق ہوتا ہے اس کی ایک روشن مثال روسی ناول نگار دستوسکی کا مقبول ناولCrime & Punishment” ” ”جرم اور سزا‘‘ ہے۔ اس کا شمار دنیا کے چند بہترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ اس میں بھی ایک قتل کے واقعے کو پیش کیا گیاہے۔ جس طرح بے شمار جاسوسی ناولوں میں قتل کے واقعے کو پیش کیا جاتاہے۔لیکن اس ناول میں قاتل کی ذہنی اور جذباتی زندگی کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ قتل کا واقعہ تفریح کا سامان نہیں بنتا بلکہ قاری کو غور وفکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب ناول نگا ر یہ کہتا ہے کہ ”ہر جرم کسی نہ کسی سماجی ناانصافی کے خلاف ایک احتجاج ہے“ایسی فکر انگیز بات کہہ کر سنجیدہ ناول نگار زندگی میں جو مسائل ہیں ان پر غور وفکر کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔(4)
ابن صفی کا یہ کردار یعنی علامہ دہشت ناک بھی سماجی ناانصافی کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ اس کے ساتھ جو کچھ سماج نے کیا ابن صفی نے اس کا ذکر تفصیل سے ناول کے ابتدا میں کر دیا ہے اور تین ناولوں میں وہ سماج کی نا انصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ابن صفی صرف اس کے ساتھ ہوئے ظلم کا ہی ذکر نہیں کرتے بلکہاس کے انجام پروہ خود بھی افسردہ تھے،ان کے مثبت کردار بھی اور قاری بھی۔ وہ علامہ دہشت ناک کے اس انجام سے افسردہ ہوکر اس کے بارے میں نفسیاتی نقطہ ئ نظر علی عمران کے ذریعہ پیش کرتے ہیں:
ہم سب درندے ہیں مائی ڈیئر فیاض!…اس شخص کے لیے میرا دل رو رہا ہے۔ کاش اس کے انتقامی جذبے نے انفرادی رنگ اختیا رکرنے کے بجائے ایسی تحریکوں کا ساتھ دیا ہوتا جو ظلم اور جبر کے نظام کو مٹادینے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ (5)
ابن صفی کی کہی ہوئی بات اس بات کی دلیل ہے کہ جذبے کو بدلنے سے انسان کسی حد تک سماج کے کام کاہو جاتا ہے اس کردار کی تحلیل نفسی کا طریقہ بھی یہی ہو سکتا تھا اور اس طریقے میں اس کی نجات تھی۔
حواشی:
۱۔ پیش رش، بے چارہ شہ زور،ابن صفی،عمران سریز،
۲۔ علامہ دہشت ناک، ابن صفی،اپریل ۷۶۹۱، جلد ۶۲، اسرار پبلیکشنز،لاہور،ص ۹
۳۔ ایضاً، ص ۳۱۳
۴۔ ابن صفی کا اردو ناول نگاری میں مقام، پروفیسر یوسف سرمست، مشمولہ، سری ادب اور ابن صفی، مرکز برائے اردو زبان،ادب و ثقافت، مولانا آزاس نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد،جون ۶۱۰۲، ص: ۳۴