مابعد جدید یت کے دور میں اردو اصناف میں جس نے سب سے زیادہ اثر قبول کیا ان میں افسانہ اور نظم خاصے اہمیت کے حامل ہیں ۔ نظموں میں یوں تو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہی مختلف تجربے کیے جا چکے تھے، بعد میں نوع بہ نوع کی تبدیلیاں ہوتی رہیں ۔ نثری نظم اس کی تازہ مثال ہے ۔ یہ کوئی تجربہ محض نہیں بل کہ اپنی روایت ہے اور آئندہ دنوں میں اس میں وسعت کی گنجائش زیادہ ہے۔ نثری نظم کو فروغ دینے والے شعرا میں ایک اہم نام جینت پرمار کا ہے۔
جینت پرمار کا نام ادبی حلقوں میں تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ ۱۱؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کا احمد آباد میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم وہیں سے مکمل کی ۔ ان دنوں بینک میں ملازمت کر رہے ہیں ۔ انھوں نے اسّی کی دہائی میں شاعری کی ابتدا کی ۔ تا ہنوز پانچ شعری مجموعے اردو میں اشاعت سے ہم کنار ہو چکے ہیں ۔ پہلا مجموعہ ’’اور‘‘ ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔ دوسرا ’’پنسل اور دوسری نظمیں ‘‘۲۰۰۶ء میں ،تیسرا ’’مانند‘‘۲۰۰۷ء میں ،چوتھا’’انترال‘‘ ۲۰۱۰ء میں اور آخری مجموعہ’’نظم یعنی۔۔۔۔۔۔۔‘‘۲۰۱۳ء میں شائع ہوا۔ جینت پرمار کو ان کی ادبی خدمات کی بہ دولت بہت سے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے جن میں ’’ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، نئی دہلی‘‘۲۰۰۸ء ،’’بھاشا بھارتی سمّان ‘‘۲۰۰۶ء، ’’گجرات اردو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ‘‘۲۰۰۱ء،۲۰۰۶ء اور ۲۰۰۸ء اور بھارت دلت ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ، مدھیہ پردیش۲۰۰۲ ء خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔
جینت پرمار کو شاعری اور مصور ی پر یکساں عبور ہے ۔ جہاں تک مصوری کی بات ہے تو وہ بھی خامشی سے اپنی کہانی سناتی ہے۔ اس کے اندر بھی غم و اندوہ کا الگ انبار ہے، ایک داستان ہے جسے ہم داستان حیات بھی کہہ سکتے ہیں اور جینت پرمار نے شاعری کے ساتھ مصور کے کرب کو بھی جھیلا ہے۔ اس بات کا اندازہ ان کے مجموعوں میں کی گئی مصوری سے بہ خوبی ہوتا ہے۔ شاعری کی مناسبت سے مصوری کی زبان ، حسن کو دوبالا کر دیتی ہے اور موضوعات میں باریک بینی او رگہرائی بھی پیدا کرتی ہے۔
( یہ بھی پڑھیں اردو نظم کا تہذیبی تناظرحالی، اخترالایمان اور میراجی کے حوالے سے- پروفیسر کوثر مظہری )
جینت پرمار کو مسجد کی دیواروں پر تراشی ہوئی قرآن کی آیتوں میں ، فلموں میں، پردۂ سیمیں پر اردو ٹائٹل اور دیواروں پر نقش آیتوں میں پینٹنگ دکھائی دیتی ہے۔ انہی کے بہ قول’’سب سے قبل اردو رسم الخط سنتا ہوں نظم میں اور اس کے بعد نظم سنتا ہوں رسم الخط میں‘‘۔انہوں نے اوائل عمری سے ہی جمالیات سے آگہی حاصل کر لی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان دنوں جمالیات کی اصطلاح یا روایت سے واقفیت بالکل نہ تھی لیکن جمالیات کا ذوق کسی نہ کسی طور پر موجود تھا اور اب یہ ذوق بالیدہ ہو کر صفحات پر نکھرآیا ہے۔ وہ بچپن کے دنوں کو یاد کرتے کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’پتنگ اڑانے کے دنوں میں میرے سماج کا لڑکا یا تو چائے کے ٹھیلے پر ہوتا یا مزدوری کرتا جب کہ میں ڈرائنگ بنایا کرتا تھامٹی کی کچی دیوار وں پر کویلے سے !جو ٹوتھ پیسٹ میں بھی کام آتا تھا۔ گھر کے تھوڑے فاصلے پر مسجد سے آنے والی فجر کی اذان کا لحن میری رگوں میں دوڑنے لگتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مصوری کا شوق بچپن سے تھا۔ فلموں میں پردۂ سیمیں پر اردو ٹائٹل اور مسجد کی دیواروں پر نقش آیتوں میں مجھے پینٹنگ دکھائی دیتی تھی۔‘‘(1)
جینت پرمار کی نظموں کا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے دلت ادب کے حوالے سے نمایاں کا م کیا ہے اور ان کی نظموں میں یہ عناصر بھی صاف طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ دلت ادب کی مناسبت سے ہندی الفاظ کے خاص تہذیب کو انہوں نے اردو کے قالب میں بھی ڈھالا ہے جس کی بہترین مثال ان کی نظم ’’اچھوت‘‘ ہے:
’’تم مجھے چھوتی ہو جانم!
تن پہ گنگا جل چھڑک کر
خود پوتّر ہوگئی
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں دنیا میں ایسی چیز کوئی
جو پوتّر کر سکے مجھ کو !
میں تو پیدا ہی ہوا ہوں اَپوتّر
عمر بھر میں اَپوتّر ہی رہوں گا
اور مر جائوں گا آخر اَپوتّر۔ (2)
اس نظم میں بہ ظاہر دو کردار ہیں جو ایک دوسرے سے محو گفتگو ہیں ۔ پہلا کردار ، واحد حاضر سے اپنی بے بضاعتی کا ذکر کر رہا ہے جب کہ دوسرا کردار خاموشی سے اس کی باتیں ، شکوے، شکایتیں سن رہا ہے۔ پوتّر اوراَپوتّر کی دیواریں سماج نے حائل کی ہیں جب کہ انسان پیدائشی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ واحد متکلم کو یہ احساس شدید طور پر ہے کہ اس کا وجود پوتّر کیوں نہیں ۔ جب کہ وہ بھی دوسروں کی طرح پوتّر ہونا چاہتا ہے لیکن ایسی کیا بات ہے جو ان کے ما بین حائل ہے۔ جینت پر مار نے اس نظم میں سماجی یا برابری کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے مختلف مجموعوں میں دلت کے حوالے سے نظمیں کہی ہیں جن مین مجموعہ ’’پنسل اور دوسری نظمیں ‘‘کی دو نظمیں ’’دلتوں کے لیے ’’اور‘‘دلت کوی کی وصیت ‘‘اور مجموعہ ’’نظم یعنی۔۔۔۔‘‘کی ایک نظم بہ عنوان ’’دلت کویتا‘‘ کو مد نظر رکھا جائے تو ان کا نقطۂ نظر اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ نظم ’’نرک کنڈ کی باس ‘‘ ان کا بیانیہ اور بھی شدید ہو جاتا ہے جب وہ فلش بیک میں جا کر ان یادوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے تعاقب کرتے ہیں :
نرک کنڈ کی باس
میرے اسکول تلک آتی تھی
دھوپ کی چھتری کے نیچے
ننگے پائوں اترتی تھی
نرک کنڈ میں!
جانوروں کے چمرے کو
نمک اور پانی میں بھگو کر
اپنے مریل پائوں سے کر دیتی تھی صاف
بدلے میں وہ
گوشت کے ٹکڑے لے آتی تھی میرے لیے!!
آج بھی جب میں
آفس جانے سے پہلے اپنے جوتے کو
چیری پالش کرتا ہوں تب
اس کی چمک میں
ماں کا چہرہ دکھتا ہے
نرک کنڈ کی باس
میرے آفس تک آتی ہے! (3)
ایک کردار کے بچپن کے حوالے سے نرک کنڈ کی باس کوخود بھی محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس نظم میں سماج کے نچلے طبقے کے لوگوں کی خستہ حالی کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس نوعیت کی نظموں میں جینت پرمار نے دلت ادب کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے بل کہ یو ں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ متعارف کرایا ہے۔ نظم’’میری جنگ روٹی کی نہیں ‘‘ میں انہوں نے مذہبی درجہ بندی کا استہزا کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ بھوکا براہمن ، بھوکا کھشتریہ ، بھوکا ویشیہ تو روٹی کے لیے لڑتا ہے لیکن شودر ان تمام عیوب سے پاک ہے کیوں کہ وہ نفرت کی آگ میں جھلس رہا ہے لہٰذا شودر روٹی کے بجائے اپنی شناخت کے لیے لڑ رہا ہے۔ مذکورہ نظموں کے علاوہ جینت ہرمار کی اور بھی کئی ایسی نظمیں ہیں جہاں انہوں نے سماجی نا برابری کے خلاف مزاحمت کا رویہ اختیار کیا ہے۔ ایسے موقع پر وہ ایک فن کار کے علاوہ محسن انسانیت کے علم بردار کا روپ اختیار کر لیتے ہیں ۔ ان کی نظم ’’دلتوں کے لیے‘‘ ملاحظہ ہو :
تیرے دکھ کے
مہاکاویہ کو
مَیں لکھوں گا
سورج کی
جلتی چھاتی پر! (4)
جینت پرمار کی بنیادی اختصاص دلت ادب کے حوالے سے ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اُن کا پورا فن پارہ انہی بیانا ت سے مملو ہے بل کہ جلوۂ فطرت کی بہترین عکاسی بھی ان کی مختلف نظموں میں بکھری پڑی ہے۔ایسے مواقع پر وہ حسنِ تعلیل کو بہ روے کار لاکر شاعرانہ وصف بھی پیدا کردیتے ہیں۔اس ضمن میں دو نظموں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔دونوں نظموں میں انہوں نے مناظر فطرت سے انسیت اور ذہنی وابستگی کے حوالے سے بات کی ہے۔دونوں نظمیں ملاحظہ ہوں:
مسجد میں
داخل ہونے سے پہلے ہی
دکھائی پڑتی ہے گنبد پر
خدا کے چہرے جیسی صبح
مجھ سے پہلے
سبز گھاس پر
نماز پڑھتے
پھول
تتلیاں
اور
کبوتر۔ (5)
………………
جانے کون سا جرم کیا ہے
کائنات کے کلاس روم میں
ایک پاؤں پر کھڑے ہوئے ہیں
کالے پہاڑ
رگیں تھکن سے ٹوٹ رہی ہیں
بہنے لگا ہے پسینہ ندیوں کی مانند! (6)
پہلی نظم کا عنوان ’’خدا کے چہرے جیسی صبح‘‘ ہے جس میں انہوں نے صبح کے منظر کو بیان کرتے ہوئے اشرف المخلوقات کے ماسوا دوسری مخلوقات کو خدا کی بارگاہ میں سر بہ سجود ہوتے دکھایا ہے۔اس کی ایک توضیح یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ اشرف المخلو قات کو جو فرض انجام دینا تھا ، وہ بھول میں ہیں البتہ دوسری مخلوقات ان کے حکم کے تابع ہیں علاوہ ازیں صبح کی منظر کشی جو حسن تعلیل کے پیرایے میں بیان کی عمدہ کوشش ہے۔ اسی طرح دوسری نظم ’’پہاڑ‘‘ بھی حسن تعلیل کی عمدہ مثال ہے۔ جہاں شاعرانہ علت بیان کرکے پہاڑ کو مجرم ثابت کیا گیا ہے۔
ٍ جیسا کہ مذکور ہوا جینت پرمار کو شاعری کے ساتھ مصوری اور موسیقی سے رغبت ِ خاص ہے جس کا اندازہ مختلف مجموعوں کی ورق گردانی کے بعد ہوتا ہے۔ وہ اکثر نظموں کی مناسبت سے تصویر بھی پینٹ کرتے ہیں تاکہ نظموں کے ساتھ تصویر سے بھی نظم کی تفہیم ممکن ہو سکے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے مشہور شخصیات کے حوالے سے بھی نظمیں کہی ہیںجن میں غالب ، ٹیگور ، سلویا پلاتھ اور کئی دوسرے فن کار خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ غالب اور ٹیگور تو اُن کے محبوب شاعر ہیں جن کے خیالات کو اپنے لفظوں میں سمو دیا ہے۔ ان کے آخری مجموعے ’’نظم یعنی۔۔۔۔۔‘‘کا اختصاص یہ ہے کہ اس مجموعے میںنظموں کی مناسبت سے تصاویر کے علاوہ انگریزی میں ترجمہ بھی شامل ہے جو نظموں کے حسن کو دو بالا کر دیتا ہے ۔ پوری نظموں کا ترجمہ ریاض لطیف نے کیا ہے۔
جینت پرمار کے حوالے سے چند باتیں اور کہی جا سکتی ہیں کہ انہوں نے رنگوں کا استعمال اپنی نظموں میں بہ کثرت کیا ہے۔ سرخ ، کا لا ، سنہری رنگوں کے علاوہ مٹی ، سمندر ، آسمان کے رنگ بھی شامل ہیں ۔ان رنگوں میں استعارات و علامات موجود ہیں ۔ بلراج کومل ’’پنسل اور دوسری نظمیں ‘‘کے پیش لفظ میں یوں رقم طراز ہیں:
’’جینت پرمار کی کچھ نظمیں ان مشاہدات کی دین ہیں جو انہیں بہ طور سیلانی یا تری اپنی یاترائوں کے طفیل حاصل ہوئے ۔ یہ نظمیں محض کیمرے کی تصویریں نہیں ہیں بل کہ مقامات سفر کے بنیادی معنوی محرکات کے رنگوں کی تصویریں ہیں ‘‘۔(7)
رنگوں کے علاوہ عناصر خمسہ پر بھی ان کی عمدہ نظمیں ہیں ۔ ان کی نظمیں ابسرڈ بھی ہیں اور سہل بھی ۔ تجریدی نظموں کی تفہیم میں خاصی دشوری ہوتی ہے لیکن اکثر نظموں کا بیانیہ سادہ و سہل ہے ۔ ایسی ہی سہل نظموں میں ایک نظم ’’Feminism‘‘ہے جو نسائیت کی عمدہ تصویر کشی کرتی ہے :
نورا نے محسوس کیا تھا:
مرد کی وہ کٹھ پتلی نہیں ہے
کب تک اس کی انگلیوں پہ ناچتی رہتی
وجود کا آئینہ ٹوٹتے دیکھتی رہتی !
دل کشکول میں
احساسات کی لاشیں تھیں
لفظوں کے پھول کی لاشیں
جن پھولوں میں باس نہیں تھی
اینٹ اور پتھر کے گھر کی دیواروں میں
اس کی سانسیںگھٹنے لگی تھیں
اک دن اس نے
اپنے ہی گھر کا دروازہ
لات ماکر اتنی زور سے بند کیا تھا
آج بھی اس دروازے کی
آوازیں گونجتی رہتی ہیں!
کئی گھروں کے دروازوں میں !! (8)
جینت پرمار نے ہنری ابسن کے مشہور ڈرامے Dolls houseکے مرکزی کردار ’’نورا‘‘ کو اس نظم کے لیے منتخب کیا جس کی بابت مشہور ہے کہ ناروے کے اسی ڈرامے سے فیمی نزم تحریک کا آغاز ہوتا ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے دیدہ نظری سے نسائیت کی تحریک کے مقصد کو ایک کوزے میں بند کر دیا ہے۔ جینت پرمار کا یہی اختصاص انہیں دوسرے ہم عصر شاعروں سے ممیز کرتا ہے۔
حوالہ جات:
1۔جینت پرمار ۔ قلم دوات اور میں -شعر و حکمت (گوشۂ جینت پرمار )کتاب 10، دورسوم ، جولائی 2009ء۔ مکتبہ شعر و حکمت، حیدر آباد ۔صفحہ نمبر 428
2۔جینت پرمار ۔نظم ’’اچھوت ‘‘۔مشمولہ’’ اور ‘‘۔ موڈرن پبلشنگ ہاؤس ، نئی دہلی ۔1999ء۔ صفحہ نمبر 115
3۔جینت پرمار ۔ نظم’’ نرک کنڈکی باس ‘‘۔ مشمولہ ’’پنسل اور دوسری نظمیں ‘‘۔ سخن کدہ، احمد آباد۔2006ء ۔صفحہ نمبر 46
4۔جینت پرمار ۔ نظم’’دلتوں کے لیے‘‘۔ مشمولہ ’’پنسل اور دوسری نظمیں ‘‘۔ سخن کدہ، احمد آباد۔2006ء ۔صفحہ نمبر 44
5۔جینت پرمار ۔ نظم’’خدا کے چہرے جیسی صبح ‘‘۔ مشمولہ ’’مانند ‘‘۔ سخن کدہ، احمد آباد۔2007ء ۔صفحہ نمبر 61
6۔جینت پرمار ۔ نظم ’’پہاڑ‘‘مشمولہ ’’نظم یعنی ۔۔۔۔۔‘‘سخن کدہ ، احمد آباد۔ 2013ء۔ صفحہ نمبر 41
7۔بلراج کو مل (پیش لفظ)’’پنسل اور دوسر ی نظمیں ‘‘۔ سخن کدہ ، احمد آباد۔ 2006ء ۔صفحہ نمبر28
8۔جینت پرمار ۔ نظم’’ فیمی نزم ‘‘۔ مشمولہ ’’انترال ‘‘ ۔ کرناٹک اردو اکادمی ، بنگلور۔ 2010ء۔صفحہ نمبر 67
٭٭٭
نوٹ: مضمون نگار آر کے ہائ اسکول، چندوا، لاتیہار(جھارکھنڈ) میں اردو کے استاد ہیں۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |