کلیم عاجزؔ کی شاعری کو جو دوامی شہرت حاصل ہوئی ہے وہ بنیادی طور پر ان کی غزلوں کے سبب ہے۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ نقادوں نے ان کی نثرنگاری، رباعیات و قطعات یہاں تک کہ نعت گوئی اور سہرا نگاری تک کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے لیکن ان کی ایک اہم صنفی کاوِش یعنی نظم نگاری پر توجہ مبذول نہیں کی ہے ۔ جب کہ ان کی تحریرکردہ نظموں کی تعداد پچاس(۵۰) سے بھی زیادہ ہے اور ان میں موضوعات کا تنوع بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔
کلیم عاجزؔ کی سخن گوئی کا سب سے تابناک پہلو ان کا شاعرانہ اسلوب ہے جو سہل، رواں دواں، برجستہ، چونکانے والا، زود اثر اور حزن وملال کا مثبت بیانیہ ہے۔انھوںنے دل ودماغ پر گزرنے والے المناک سانحات اور پے در پے پیش آنے والے حادثاتِ زمانہ کو الفاظ ومعنی کے ذریعے ایک لطیف، سبک، کلاسیکی اور جدت طراز پیرائے میں بڑی فنی مہارت کے ساتھ ڈھال دیا ہے۔
اردو شاعری میں ایسی مثالیں جابجا مل جائیں گی کہ ہرفطری شاعر نے اپنے اوائلِ عمری سے ہی قلم کے جوہر دکھانے شروع کردیے تھے۔کلیم عاجزؔ کے ساتھ بھی یہی واقعہ گزرا اور انھوں نے محض تیرہ(۱۳) سال کی عمر میں پہلی غزل کہہ ڈالی تھی۔ پھر ۱۹۴۹ سے انھوں نے باقاعدہ اس صنف کو خصوصیت سے اپنا لیا۔ یہ بھی پڑھیں کلیم عاجز کی ایک غزل کا تجزیہ۔ڈاکٹر محمد مقیم )
عاجزؔ پہلی بار اردو نظم کی طرف اس وقت متوجہ ہوئے جب پٹنہ سائنس کالج کے پرنسپل اور کالج کے ’’بزمِ سخن‘‘ کے صدر ڈاکٹر احسان جلیلؔ نے ان سے ایک استقبالیہ نظم کی فرمائش کرڈالی۔یہ موقع دراصل وہ تھا جب ۱۹۵۷ء میں (سابق صدر جمہوریۂ ہند) ڈاکٹر ذاکر حسین بہار کے گورنر بن کر پٹنہ تشریف لائے۔اس موقع سے کلیم عاجزؔ نے ایک نسبتاً طویل نظم بعنوان ’’مسافر‘‘ سپردِ قلم کی جو ۳۳؍اشعار پر مشتمل تھی۔کلیم کے مطابق ’’مسافر‘‘ سے ان کی مراد اہلِ اردو تھے۔ اس طرح غزل گوئی کی ریاضت کے آٹھ برسوں بعد کلیم عاجزؔ نے بھی نظموں کی دنیا میں پہلا قدم رکھ دیا۔اس نظم کے مقطع میں انھوں نے مرزا غالبؔ سے بھی استفادہ کیاہے۔
کلیم عاجزؔ کی یہ اوّلین نظم ان کے کلیات میں شامل چوتھے شعری مجموعے ’’کوچۂ جاناں جاناں‘‘ میں صفحہ ۵۴۶؍ پر درج ہے۔پہلی ہی جست میں عاجزؔ نے اپنی جودتِ طبع اور فکرِ سخن کے کمالات پیش کرکے اہلِ علم کی توجہ مبذول کرالی تھی۔ یہ نظم چار حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔
چند اشعار ذیل میں درج ہیں ؎
یوں تو قدم قدم پہ شریکِ سفر ملے
رہرو ملے، رفیق ملے، راہبر ملے
جتنے بلند جتنے تناور شجر ملے
بے شاخِ سایہ دار ملے، بے ثمر ملے
………
ہم نہ تو شیخ ڈھونڈ رہے ہیں نہ برہمن
ہم تو بشر کو ڈھونڈ رہے ہیں بشر ملے
ہم چاہتے یہ ہیں کہ چلے پھر ہوائے درد
منھ میں مٹھاس آئے، زباں میں اثر ملے
………
مدت پہ جستجوئے نظر کامراں ہوئی
مدت پہ ایک قدر شناس گہر ملے
جس میں مسیح ملک نے پھونکی ہو روحِ فن
جس کو ابوالکلام سے درسِ ہنر ملے
………
ہم تو کشادہ قلب کشادہ مزاج ہیں
ہم کو تو راہ میں جو ملا دوڑ کر ملے
اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھر ملے
اس نظم میں نظم نگاری کے جملہ لوازمات یعنی ابتدا، ارتقا، صورتِ حال، عروج اور انتہا جیسے سارے مدارج موجود ہیں۔ اشعار اتنے برجستہ ہیں کہ درج بالا آخری شعری کو لوگ غزل کا شعر سمجھ کر لکھتے پڑھتے ہیں۔ سادگی اور پُرگوئی اس پر مستزاد ہے۔
کلیم عاجزؔ خود رقم طراز ہیں:
’’کوئی نظم چاہے خارجی ہو یا داخلی تجربات کا بیان ہو۔ اس میں تجربے، فکر اور جذبات کے علاوہ کسی مضمون آفرینی کا کوئی دخل نہیں، کوئی عمل نہیں… نہ مبالغہ ہے نہ رنگ آمیزی ہے نہ صناعی ہے۔ صناعی جو فکری طور پر بے ساختگی سے داخل ہوتی ہے، اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔‘‘(کلیات، ص ۴۸۲)
عاجزؔ کی نظمیں نعتیہ بھی ہیں اور دعائیہ بھی، البتہ زیادہ تر نظموں کی ہیئت غزل کی ہیئت ہے جو معریٰ بھی ہیں اور مقفّیٰ بھی۔ عاجزؔ کی نظم نگاری کا آغاز اگرچہ ترقی پسند عہد کے زوال کے زمانہ میں ہوا، لہٰذا قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے نعرہ بازی، انقلاب، اشتراکیت اور گھن گرج کے سیلِ رواں سے خود کو بچائے رکھا۔انھوں نے اپنا مطمحِ نظر اس شاعری کو بنایا تھا جو حالیؔ اور آزادؔ کے انجمنِ پنجاب سے شروع ہوکر علامہ اقبالؔ کی لازوال نظموں تک سفر کرتی رہی۔ یہی سبب ہے کہ زمانے کی دیکھا دیکھی میں پڑ کر انھوں نے کبھی بھی آزاد نظم یا انگریزی ہیئت مثلاً ’’سانیٹ‘‘ کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ وہ ترقی پسند تحریک کی بنیادی فکر کا حصہ نہیں بنے۔ ( یہ بھی پڑھیں غزل-کلیم عاجز)
کلیم عاجزؔ کی کلیات میں شامل پانچ شعری مجموعوں میں سے صرف ایک یعنی مجموعہ’’کوچۂ جاناں جاناں‘‘ پورے طور پر نظموں پر مشتمل ہے جب کہ مجموعہ ’’پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا‘‘ میں صفحہ ۷۳۸؍ سے ۷۶۱؍ تک دیباچوں کے ساتھ جستہ جستہ سترہ نظمیں درج کی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھاجائے تو ان کی خالص نظموں کی تعداد ۵۵؍ تک پہنچتی ہے جن میں مرثیے، سہرے اور نعتیں شامل نہیں ہیں۔
عاجزؔ کی نظموں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اسلوب کے لیے اپنے روایتی اور کلاسیکی مزاج کے ساتھ ایک متعدل رکھ رکھاؤ والی تہذیب کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ان کی نظمیں شخصیات، مناظرِ فطرت، وطن پرستی، تیوہار اور مخصوص یوم کو موضوعِ سخن بناتی ہیں۔ان کی کچھ نظمیں طنز وتنقید سے بھی بھرپور ہیں۔ انھوں نے نظموں کے لیے مروّج کئی ہیئتیں استعمال کی ہیں۔
سوگواری کلیم عاجزؔ کی شخصیت کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ سوگواری ایک حقیقت واقعہ ہے جو خود کلامی کا شاخسانہ ہوتی ہے اور جو کسی تحریر کو المناک فضا سازی کے ساتھ بیان کرنے پر شاعر کو ملتفت کرتی ہے۔ اکثر نظموں کے مضامین بلند پروازی، سلاست اور زورِ بیان، سہل ممتنع اور معیاری زبان سے مملو ہوکر قاری کو اپنی کیفیاتی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
اگر عاجزؔ کی دس سرِ فہرست نظموں کا انتخاب کیاجائے تو ان میں ’مسافر‘ کے علاوہ ’جشنِ بہاراں‘، ’جشنِ آزادی‘، ’مبارکباد‘، ’ یومِ شاد‘، ’انجم‘، ’کلیم الدین احمد‘، ’نانک‘، ’زاہدہ‘ اور ’حیدرآباد‘ کو رکھا جاسکتا ہے۔ان نظموں میں عاجزؔ کی شعری انفرادیت ابھرکر سامنے آتی ہے۔ ایک بند دیکھیں:
نغموں کا ارتعاش، یہ سازوں کی تھرتھری
یہ گوپیوں کے گیت، کنہیا کی بانسری
یہ دیر جابجا، یہ برہمن قدم قدم
ہنستے ہوئے یہ بت، یہ چہکتے ہوئے صنم
یہ پیار کے معاملے، یہ لطف کی نگاہ
سب جھوٹ، سب مغالطے، سب جرم، سب گناہ
شاعر ہیں، راز ہائے دروں جانتے ہیں ہم
دنیا کو ہر لباس میں پہچانتے ہیں ہم
(جشنِ آزادی)
یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ان کی نظموں کا کینوس ان کی غزلوں کے مقابلے میں وسیع تر کیفیت رکھتا ہے۔ البتہ وہ نئے نئے لفظوں اور استعاروں کی تگ و دَو میں نظیرؔ اکبرآبادی کی طرح بکٹٹ نہیں بھاگتے۔ حالانکہ لطف اور چاشنی میں مندرجہ ذیل بند نظیرؔ کی یاد تازہ کردیتا ہے ؎
اربابِ ذوق بھی ہیں، سخنور بھی ہیں یہاں
خود گیر و خود نگر بھی ہیں، خود گر بھی ہیں یہاں
رہرو بھی، رہ شناس بھی، رہبر بھی ہیں یہاں
دریائے آگہی کے شناور بھی ہیں یہاں
دوچار آبلے ہی سہی آج پھوڑ دے
تھوڑا سا دل کا خون قلم سے نچوڑ دے
(مسدس)
کلیم عاجزؔ اپنی نظموں کے متعلق یوں خیال آرا ہیں:
’’جو تعارف غزلوںکا ہے وہی نظموں کا بھی ہے۔غزل اشارے ہیں، نظم تفصیل ہے۔ نظم کسی خاص موضوع پر ہیں مگر موضوع کی تکنیک اس میں استعمال نہیں کی گئی ہے، بس خونِ جگر کو محدود نہ کرکے پھیلا دیا گیا ہے۔غزل میں آپ تشبیہیں دیکھتے ہیں، نظم میںآپ مکمل تصویر دیکھتے ہیں۔‘‘(کلیات، ص ۴۸۱)
کلیم عاجزؔ کے استاد علامہ جمیل مظہری ان کی شاعری کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
’’اندازِ فکرمیں جدت اور اندازِ بیاں میں قدامت کلیم عاجزؔ کے تغزل کا مخصوص آرٹ ہے۔ ‘‘
یہی بات ان کی نظموں پر بھی صادق آتی ہے۔ ذیل میں عاجزؔ کی نظموں سے چند بند درج کیے جاتے ہیں۔
کیا شام ہے عید کی سہانی
پھولوں پہ برس پڑی جوانی
سبزے کا بچھا ہے فرش دھانی
ہے رنگ زمیں کا آسمانی
غنچہ جو چمن میں کھل رہا ہے
فطرت کا سراغ مل رہا ہے
(جشنِ عید)
وہ مسکراتے ہوئے کب وہ چہرۂ شاداب
وہ شیر و شکر و خرمہ، وہ جام و ساغر ناب
وہ مشک و عنبر و صندل وہ عود و عطر و گلاب
لہو سے تر ہے یہاں پیرہن، مبارکباد
(مبارکباد)
دل نے کل مجھ سے کہا سوزشِ پنہاںکہیے
کچھ تو رودادِ چراغِ تہہِ داماں کہیے
آپ خاموش اگر مصلحتِ وقت سے ہیں
میں ہی دہراتا چلوں قصۂ دوراں کہیے
آپ شاعر ہیں وہ منظر تو نہ بھولے ہوں گے
رسنِ زلف و رگِ گردنِ خوباں کہیے
وہ شجرہائے خمیدہ لب جو و سر چاہ
اب انھیں ماتمیٔ گنجِ شہیداں کہیے
(جشنِ بہاراں)
کلیم اپنی تہنیتی نظم ’یومِ شاد‘ میں اس طرح گویا ہیں:
تم بجھے اور ساری محفل بجھ گئی
بزم ٹھنڈی ہے ذرا گرماؤ شادؔ
کیا ہُوا اہلِ عظیم آباد کو
آکے دیکھو اور پھر مرجاؤ شادؔ
بے کمالوں پر ہے بارش پھولوں کی
اہلِ فن پر ہے یہاں پتھراؤ شادؔ
شہر یہ شہرِ خموشاں ہو گیا
آؤ آکر فاتحہ پڑھ جاؤ شادؔ
(یومِ شاد)
عاجزؔ کی طنزیہ نظموں میں بطورِ خاص ’’جشنِ بہاراں‘‘ ایک تمثیلی نظم ہے۔ پٹنہ سے منیر شریف تک، زندگی، ڈوب مرنے کا مقام آیا اور بس وغیرہ کو شمار کیاجاسکتا ہے۔ جدتِ فکر کے لحاظ سے ’زاہدہ‘ اور ’انجم‘ جیسی نظموں کو قابلِ مطالعہ کہا جاسکتا ہے ؎
عینک کی دونوں سمت سنہری کمانیاں
قوس قزح کا رنگ نمایاں کیے ہوئے
پھانسی کا سب کے واسطے ساماں کیے ہوئے
آرائشِ لباس و تجلیٔ جسم کو
اک برقع سیاہ میں پنہاں کیے ہوئے
یوں پھر رہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہیں
(زاہدہ)
کلیم عاجزؔ کی نظمیں اردو شاعری کا ایک روشن باب اور ناگزیر حصہ بن کر سامنے آتی ہیں۔
٭٭
Prof. Dr. Md. Tauquir Alam
Former Pro-Vice Chancellor
- M. H. Arabic & Persian University
34, Harding Road, Patna, PIN – 800001
E-mail-proftauqiralam@gmail.com
Mobile : 9934688876
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
سیر حاصل نقد ونگاہ… ?️??️