کوئی بھی عقلِ سلیم رکھنے والا یہ بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ کہانی کی زبان دلچسپی سے خالی نہیں ہوا کرتی اور کہانی یا ناول کا وجود بغیر کہانی پن کے ممکن نہیں۔ ناول یا کہانی کے جو طے شدہ اجزائے ترکیبی ہیں ان میں کمی کسی کو بھی برداشت نہیں ہوتی نہ فن کار کو نہ ناقد کواورنہ قاری کو اب اگر کہانی کی زبان کچھ ایسی ہو کہ پڑھنے والے کو یہ سمجھنے میں مشقت کرنی پڑے کہ پتہ نہیں تخلیق کار کہنا کیا چاہتا ہے یا پھر قاری کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھے اور پھر ایک ناقد اٹھ کھڑا ہو او ر قاری کی انگلی تھام کر یہ کہے کہ در اصل اس طوطا مینا کی کہانی میں جو طوطا ہے وہ طوطا نہیں بلکہ کُتا ہے اورجو مینا ہے وہ مینا نہیں بلکہ کتُیا ہے اور ابھی قاری اپنا دماغ لگاا کر اس کو سمجھنے کی سعی کرنا ہی چاہتا ہی ہوکہ اچانک دوسرا ناقد کھڑا ہو اور پہلے ناقد کو کم عقل کہ کر اس کے ہاتھ سے قاری کی انگلی چھڑادے اور یہ کہے کہ در اصل وہ طوطا جبریل ؑ ہیں اور یہ مینا مخلوقاتِ خدا وندی کا استعارہ ہے پہلے والا ناقد در اصل کم عقل تھا اس لیے اس اسلوب میںپوشیدہ حقائق وہ نہیں سمجھ سکا اور بے چارہ قاری ۔۔۔
’’کھوپڑی چٹخا دینے والی کہانی‘‘ قاری کو نہیں چاہیے قاری تو بس طوطا مینا کی کہانی پڑھ کر خوش ہونا چاہتا ہے اور ہاں اگر کہانی ایسے موڑ پر ختم ہوئی ہو کہ طوطا کا کیا ہوا یا مینا کا کیا ہوا یہ قاری سوتے وقت سوچنے لگے اور طوطا مینا کی کہانی میں وہ خود کی اور اپنے محبوب کی تصویر دیکھنے لگے اور ساتھ ساتھ دنیا والوں کو کوسنے لگے تو یہ اور بات ہے۔ در اصل فکشن پہلے تو فکشن ہی ہونا چاہیے اور جب ایک ناول نگار یہ کہے کہ ایک طوطا ہے تو پہلے تو وہ ایک طوطا ہونا چاہیے اورجب وہ مینا کہے تو وہ گوشت پوشت کی پیاری سی مینا ہی ہونی چاہیے بعد میں اس کے پیچھے آپ معنی کے قافلے بھلے ہی چھوڑ دیں۔
ناول کی تاریخ پر اگر ہم غور کریں تو یہ باور ہوگا کہ اس صنف کا وجود ہی روایت سے انحراف اور نثر میں کچھ نیا کرنے کی غرض سے ہوا۔سولہویں صدی سے اب تک ناول میں بہت سی تبدیلیاں رو نما ہوئیں ۔ ناول کی تعریف بحیثیت صنف اولین دور میں جو طے ہوئی وہ آج بھی مسلم رہے ، یہ تو ممکن ہے مگر اس کے تقاضے آج بھی وہی رہیں یہ قطعاََ ممکن نہیں۔ جوں جوں وقت اور حالات کے مطابق انسان ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا گیا اور ہمہ جہت ترقی اس کا مقدر ہوئی تقاضائے فطرتِ انسانی بھی تبدیل ہوئی۔ آج اکیسویں صدی میں جب انسانی زندگی ایک نئی راہ پر گامزن ہے ، اور انسان اس دور میں جی رہا ہے جہاں حقیقتیں اخلاقیات کے ستّر پردوں کے پیچھے نہیں رکھی جاتیں۔ فطرت کی حقیقتوں سے آنکھیں ملانے کی جرأت رکھنے والی اس نئی نسل کی کہانی سنانے کے لیے وہی فرسودہ اخلاقی ضابطوں کا اگر استعمال کیا جائے تو یہ ادب کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ بھی کہاں کی عقل مندی ہوگی کہ ہم اخلاق کے معیار کو ملحوظ نہ رکھیں اور اپنی تہذیب سے رشتہ منقطع کر کہ نام نہاد ترقی یافتہ بن کر اپنی جڑوں سے کٹ جائیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آج وہ کون سا ادب لکھا جائے جہاں زندگی کی عریاں حقیقت سے ہم آنکھیں بھی ملا سکیں اور اخلاقی قدروں کو بھی ملحوظ رکھیں۔
دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ بلکہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک حقیقت کس زاویہ سے صحیح اور کس زاویہ سے غلط ہے آیا یہ زاویہ کسی طے شدہ نظریہ سے پاک بھی ہے یا نہیں۔ اور صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے سے پہلے حقیقت کا کون کون سا رخ ملحوظِ خاطر رکھا جانا چاہیے۔ ڈرامہ انار کلی میں اکبر نے جب انار کلی کو زندہ دیوار میں چنوا دینے کا حکم دیا تو اکبر بحیثیت باد شاہ اپنے فیصلہ میں درست ، مگر ایک لڑکی کو محض اس جرم میں سزائے موت دینا کہ اس سے کسی شہنشاہ کا بیٹا محبت کرتا ہے غلط فیصلہ ہے۔ ایسے میں صحیح کیا ہے اس کا فیصلہ کرنے کے لیے بادشاہ کے نظریہ کو تسلیم کیا جائے یا شہزادہ کے زاویہ کو درست قرار دیا جائے؟
کسی بھی امر کے صحیح یا غلط ہونے میں زاویہ نظر کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ زاویے اور نظریہ کی ان کارفرمائیوں پر لے سانس بھی آہستہ۔۔۔ کا یہ بیانیہ ایک بڑے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتاہے۔
’’۔۔۔تمہارے ہی سوال سے شروع کرتے ہیں۔ تم چھت پر گئی اور ممی چھت پر آ گئیں ۔ رائٹ۔۔۔‘
’ہاں۔۔۔‘
’ممی کیوں آئیں۔۔۔؟‘
’شک۔۔۔کہ میں کسی سے بات تو نہیں کر رہی۔ کسی سے کچھ چل تو نہیں رہا۔۔۔یعنی ۔۔۔‘
’ال لیگل ۔۔۔ میں مسکرایا_____لیکن ممی آ سکتی ہیں ۔ کپڑے پسارنے یا کسی بھی کام سے۔۔۔لیگل______کوئی شک نہیں_____کسی شک کی گنجائش نہیں۔۔۔‘
ہاں۔۔۔۔
تمہارا موبائل پر بات کرنا ۔۔۔؟
سارہ زور سے ہنسی میرے لیے آب ویسلی ال لیگل۔
’ممی کے لیے لیگل___اب آگے ۔۔۔۔ایسے کچھ اور پوائینٹس سوچو۔۔۔‘
سارہ کی آنکھیں چمک رہی تھیں اسے جانے انجانے ایک دلچسپ کھیل مل گیا تھا______
’آتنک وادی___ وہ زور سے تالیاں بجا کر ہنسی____ میرے ملک کے لیے ناجائز____مگرجس ملک نے بھیجا ____ اس کے لیے جائز۔ وفا دار۔
’اسی طرح ملک کے فوجی سپاہی۔۔۔اور آگے۔۔۔
’یعنی میں اگر Pregnant ہو جاتی ہوں___شادی سے پہلے۔۔۔روانی میں بولتی ہوئی اچانک اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ میرا مطلب ہے کوئی لڑکی جس کی شادی نہیں ہوئی___ال لیگل۔ لیکن شادی کے بعد یہی چیز سارے گھر کی خوشی بن جاتی ہے۔۔۔
سارہ کی نظریں جھکی تھیں۔۔۔ میرے اندر کوئی سنّاٹا نہیں تھا۔ یہ نسل خود کو پہچانتی ہے۔ اس لیے کہیں بھی اپنی کوئی بھی بات سامنے رکھنے سے نہیں گھبراتی
اس کا مطلب ایک ہی چیز ۔ ایک ہی وقت میں جائز اور ناجائز دونوں ہو سکتی ہیں۔۔۔ کیوں سارہ؟‘
’ہاں ددّو۔۔۔‘
یعنی جو تمہارے لیے ابھی نا جائز ہے ۔ وہ کسی کے لیے جائز۔۔۔‘
’ہاں ددّو۔۔۔‘ ‘
(لے سانس بھی آہستہ۔۔۔صفحہ ۱۸)
صحیح اور غلط ، لیگل اور ال لیگل ، ترقی اور اخلاقیات کے گرد گردش کر تی ’لے سانس بھی آہستہ۔۔۔‘ کی کہانی یونانی دیو مالا کے کردار ابراکس کے بنائے نظامِ حیات اور اصول زندگی پر کھری اترتی ہے۔ فلسفہ حیات کے متعلق ابراکس کے اقوال ناول کے شروع میں درج ہیں۔ مندرجہ بالا اقتباس سے اگر ہم جائز اور ناجائز ، غلط اور صحیح کے اصول مرتب کریں تو بہت سی دقتیں پیش آئینگی۔ اصول متعین کرنا یا پھر انسانی آزادی کی باتیں کرنا بہت آسان ہے ۔ در اصل یہ لفظ آزادی بھی زاویہ نظر پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر جب یہ لڑکی خود ماں بنیگی تو ایک ماں کے ان اصولوں اور زاویوں کو کیا خود پر نافذ نہیں کریگی؟ اور پھر تب وہ اپنی بیٹی کو ایک ماں کے نظریہ سے لیگل اور ال لیگل ، صحیح اور غلط کی تعریف متعین کریگی؟ اقتباسِ بالا پر اگر غور کریں تو دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک ہی چیز بیک وقت کسی کے لیے غلط اور کسی کے لیے صحیح ہو سکتی ہے ۔ دوسری یہ کہ نئی نسل اخلاقیات کے دائرہ میں رہ کر اپنی بات رکھنے کا ہنر جانتی ہے۔ یعنی پرانی نسل میں جو عام روایت تھی وہ یہ کہ لوگ اپنی پوری زندگی محض اخلاقیات کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے برباد کر لیتے تھے یا اخلاقی حدود ملحوظ رہیں اس لیے اپنی بات دنیا کے سامنے رکھ ہی نہیں پاتے تھے۔ سماجی نظامِِ حیاتِ انسانی بھی کچھ اس طرح کا تھا کہ اگر کو ئی ان حدود کی پروا کیے بغیر اپنی بات دنیا کے سامنے رکھتا تو اس کو آج کی طرح فرینک اور بولڈ کے بجائے بد تمیز اور بے تہذیب کے القاب سے نوازا جاتا ۔ آج وہ سارے حدودانسانی ترقی کی راہ میں حائل نہیں بلکہ یہ اخلاقی حدود ذیلی حیثیت رکھتے ہیںاگر یہ انسانی ترقی میں معاون نہیں تو ان کا لحاظ بیوقوفی سے زیادہ اور کچھ نہیںسمجھا جاتا۔
اخلاقیات کے تقاضے اپنی جگہ اور قدرت کے تقاضے جن کے ہاتھوں زندگی مجبور ہوتی ہے وہ دوسری طرف ، سماجی اخلاقیات کا معیار ایک الگ اصول۔ ان مختلف اصولوں اورسماجی، معاشرتی، مذہبی ، سیاسی یا اخلاقی اصول یا دائرے جن کو ہم نے خود پر تنگ کر لیے ہیں، کب تک ہم ان دائروں میں زندگی گذار پائنگے ؟ اور کیا ہوگا اگر ہم نے ان دائروں سے باہر کسی مجبوری کی وجہ کر قدم رکھا تو؟ جائز یا نا جائز؟ پھر ایک اور دائرہ اور اس میں ہاتھ پیر مارتا انسان ۔ مشرف عالم ذوقی نے اپنے اس ناول میں اسی طرح کے کچھ سوالوں کا جواب تلاشنے کی کوشش کی ہے۔ بحیثیت ایک ناول نگارسماجی مسائل کا حل پیش کرنا ناول نگار کا کا م نہیں ہوتا۔ اس ناول میں اخلاقیات کی کیا حد ہونی چاہیے اس پر سیدھے سیدھے بات کرنے کے بجائے فنی محاسن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے سماج کی ایک دکھتی رگ پر انگلی رکھنے کی سعی کی ہے اور حالات کا کچھ اس طرح سے جائزہ لیا ہے کہ کرداروں کی مدد سے واقعہ کا ارتقا لا محالہ ہر صفحہ پر قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر قصور کس کا ہے؟ اگر کسی نے کسی اخلاقی گناہ کا ارتکاب کیا تو یہ بہت آسان ہے کہ اس پر یہ فتوٰی لگا دیا جائے کہ وہ گنہگار ہے ۔مگریہ انصاف نہیں ہوگا۔ کیونکہ جب اسی قاری کو یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نے گناہ کس مجبوری کی حالت میں کیا تو اس کے سوچنے کی سمت بدل جاتی ہے۔ اسی تکنیک پر اس ناول کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو فکری اساس کو بحسن وخوبی پیش کرنے میں ذوقی کامیاب ہیں۔ ان کا فکری محور اخلاقیاتِ انسانی ہے ۔ انسان کی نفسیات سے متعلق ایک انوکھے مسئلہ کو اس ناول کا موضوع بنایا گیا ہے۔
اس ناول کی سب سے بڑی خوبی جزیات کا دلچسپ ہونا ہے۔ کلی طور پر اس کا پلاٹ کافی گٹھا ہوا ہے اور کہانی کی بساط بہت پہلے سے اوربڑی دور تک بچھائی گئی ہے۔ ناول کہیں پر بھی بور نہیں کرتا ہے اور وجہ اس کی مجھے یہ لگتی ہے کہ پورا کا پورا ناول مصنف کے ذہن میں پہلے سے تیار ہے اور قلم کی باگ کو مصنف مضبوطی سے لے کر چلتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہم یہ کہیں کہ قلم مصنف کی رہنمائی نہیں کرتا بلکہ مصنف قلم پر پوری طرح حاوی ہے اس لیے قلم کہانی کو اسی سمت لے چلتا ہے جس سمت مصنف لے جانا چاہتا ہے۔شطرنج کی طرح اس نے بساط پہلے سے تیار کر رکھی ہے اور اس کے سارے موہرے اس کے اشارہ کے انتظار میں دست بستہ کھڑے ہیں۔ اسلوب بہت حد تک قرۃالعین حیدر سے قریب ہے ۔ قرۃ العین حیدر کے یہاں زیریں لہر کی کار فرمائی زیادہ ہوتی ہے جب کہ ذوقی کے یہاں اس پر زورِ قلم صرف نہیں کیا گیا ہے۔
جو پیغام مصنف دینا چاہتا ہے اسی کے پیغامبر سارے کردار معلوم ہوتے ہیں اور مصنف سے بغاوت کرنے کی ہمت ذوقی کے اس ناول کے کسی کردار میںنہیں۔ کہانی کا کلائمکس پہلے سے طے شدہ ہے اور اس کا ارتقا مرحلہ وار بھی پوری طرح مصنف کی گرفت میں ہے۔
تخلیق کے بہاو میں ناول نگار نہیں چل رہا ہے ایسا نہیں ہے کہ وہ لکھنے کچھ اور بیٹھا اور ذہن منتشر ہوا اور وہ شعور کی رو میں کچھ کا کچھ کہتا چلا گیا۔ یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ یہ آج کا مصنف ہے اس نے اسٹریٹجی پہلے سے طے کر رکھی ہے۔ قلم کو جس طرف موڑنا چاہتا قلم کو اسی طرف مڑنا پڑتا ہے وہ قلم کے بہکاوے میں نہیں آتا۔ اس نسل کی لائف اسٹائل منظم اور اسٹریٹجک ہو گئی ہے تو ظاہر ہے کہ فن کار بھی اس سے متاثر ہوگا۔ اور اس کے فنی لوازم بھی منظم اور اسٹریٹجک ہونگے۔
ایسے میں ناول نگار کے لیے جو چیزسب سے زیادہ اہم ہوجاتی ہے وہ ہے انسانی سوچ پر گرفت جو بدلتے وقت، نظریہ، اور ترقیاتِ زمانہ کے لحاظ سے تیزی سے تبدیل ہوتی ہے۔ انسان کی سائیکی پر گرفت کے بغیر فکشن نگار ایک اچھا فکشن قطعی تخلیق نہیں کر سکتا۔ نفسیات اور انسان کی سماجی روابط کے انداز میں گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ نفسیات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے Ross Macleay اپنی کتاب The Philosophy of Fiction میں لکھا ہے:
Psychology is not to be forgotten, avoided or dismissed absolutely, or quarantined from philosophy, on the basis of any piecemeal or provisional scientific status
(Page 39)
راس میکلی کے اس بیان کے مطابق نفسیات کو بھلا یا ، یا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، یا سرے سے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا یا اسے فلسفہ سے محض اس وجہ سے الگ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ عارضی طور پر سائنس کا درجہ رکھتی ہے۔ علمِ نفسیات پر عبور یا کم از کم واقفیت ایک فنکار کو اچھا فن پارہ تخلیق کرنے میں معاونت کرتا ہے۔
لے سانس بھی آہستہ۔۔۔ کی کہانی بھی بڑی انوکھی ہے یہ ایک باپ کی کہانی ہے ۔ ایک ایسی بیٹی کا باپ جو ایک عجیب سے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے۔ قاری جب اس باپ کی روداد پڑھتا ہے تو روئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ ایک ایسی نفسیاتی مرض میں مبتلا بیٹی کا باپ اپنی روداد سناتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیے یہ اقتباس:
’’کبھی کبھی بے شرم بن کر خود کو سمجھنا پڑتا ہے کہ میں اس کا باپ ہوں۔۔۔۔مجھے اس کے کچھے دھونے پڑتے ہیں۔ پیشاب اور پاخانے سے لتھ پتھ اس کی چادر دھونی پڑتی ہے۔۔۔کئی بار۔۔۔اس کی آنکھوں میں خوف کی آمیزش تھی۔۔۔وہ سارے کپڑے اتار کر ننگی ہو جاتی ہے۔ اسکی طرف پلٹ کر دیکھنا اللہ کا بھیجا ہوا عذاب لگتا ہے۔ مگر کیا کروں ۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کی گندگی صاف کرنا ۔۔ نہانے کے لیے لے جانا۔۔۔باتھروم میں بھی وہ سارے کپڑے پھینک دیتی ہے۔ اسکے جسم پر آنکھیں موند کر صابن لگانا۔۔۔ آپ ایک مجبور باپ کی کیفیات کا ندازہ نہیں لگا سکتے۔۔ـ‘‘
(لے سانس بھی آہستہ ۔۔صفحہ ۳۴۷)
موضوع کے اعتبار سے، سماجی نظام کے اعتبار سے، نفسیاتی اعتبار سے بیان کرنے کی تکنیک کے اعتبار سے ہر لحاظ سے یہ کہانی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت کا بیان کے پڑھتے وقت قاری کی آنکھیں بڑی بڑی ہو جاتی ہیں اور وہ خود کو ایک حیرت انگیز دنیامیں موجود محسوس کرتا ہے۔نفسیات پر پکڑاور علمِ نفسیات کے مطالعے کے بغیر اس طرح کے مکالمے تخلیق کرنا ناممکن ہے۔
ذوقی نے اس کہانی کا پتہ ساڑھے تین سو صفحات تک نہیں کھولا ہے۔ اور جب اس کہانی کے سارے پتے کھل جاتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ شروع کے مکالمے یونہی لفظی بازیگری نہیں تھے بلکہ ان کا نفسیاتی ، معنیاتی، اور ساختیاتی تعلق پلاٹ کے اس کلائمکس سے ہے جس کا انکشاف اخیر میں ہوتا ہے اور تب قاری اس ناول کو دوبارہ پڑھنا چاہتاہے۔ اور جب دوبارہ پڑھتا ہے تو کہانی پورے آب و تاب سے اس کا استقبال کرتی ہے۔ اور اب چونکہ پتے کھل چکے ہوتے ہیں توہر لفظ کے پیچھے کھڑے معنی کے قافلے تک رسائی ہو جانے کی وجہ کر ہر مکالمہ اور ہر جملہ کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ اس ناول میں زبردست readability ہے ۔ بلا کی complexity اور ساتھ ساتھ اسلوبیاتی اعتبار سے simplicity بھی ہے۔ لے سانس بھی آہستہ۔۔ کچھ اس طرح کی کتاب ہے کہ اس کو تھوڑا تھوڑا جزیات کے مزے لے لے کر پڑھا جائے اگر ایک ساتھ پوری کتاب سرسری پڑھ لیں تو اس کی مثال یوں ہوگی کہ کو ئی شخص بغیر چبائے گوشت کے نوالے نگلتا چلا جائے۔ وہ اس کے مزے سے بھی محروم رہ جائیگا اور اس کا پیٹ بھی خراب ہو جائے گا یعنی صحت کے لیے یہ اچھا نہیں۔ ایک جرمن مقولے کے مطابق کتاب پڑھنے کی بھی کچھ یہی صورت ہوتی ہے ۔مقولہ ہے:
It is not healthy to swallow books without chewing
تکنیک کے اعتبار سے فلیش بیک کا استعمال اس ناول کی کامیابی میں بڑا اہم رول ادا کرتا ہے۔ اگر یہ ناول فلیش بیک میں نہ لکھاگیاہوتاتو شاید اتنا پر اثر کبھی نہیں ہو پاتا۔
تہذیب ایک ایسا موضو ع ہے تبدیلی جس کا مقدر ہے۔ پریم چند نے اس تہذیب پر قلم اٹھا یا جو ہندوستان کا اصلی چہرہ تھا دیہی زندگی کی عکاسی ۔ آگے بڑھیں قرۃالعین حیدر کے یہاںحویلیوں کے ٹوٹتے کھمبے تلے دم توڑتی تہذیب اور اس کی جگہ لیتی نودولتیوں کی بے ہنگم بغیر رکھ رکھا ئو والی تہذیب کی داستان اور اس کے بعد ایک خلا۔ تہذیب کے موضوع پر ایک بڑا خلا پھر آج کا لکھنے والا قلم سنبھالتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے لے سانس بھی آہستہ میں آج کی تہذیب کی عکاسی کی ہے۔ جس طرح برسوں پہلے حویلیوں کی تہذیب کے پرزے اڑے تھے آج بھی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ وہ نئی تہذیب جس کو ہم تصنع سے پاک سمجھتے تھے جس میں وہ نقلی رکھ رکھائو نہیں تھا جو حویلیوں اور فیوڈل نظام سے ہمیں وراثت میں ملی تھی۔ مگر اب اس تہذیب کی بھی قلعی کھلنے لگی۔ پتہ یہ چلا کہ جب ہم نے اپنی پرانی تہذیب کو ردکر کہ نئی تہذیب کی نقاب کشائی کی تھی تو ہم تو بڑے نازاں ہوئے تھے کہ ہم اس تہذیب کی بنیاد ڈال رہے ہیں جس میں اخلاقی رکھ رکھا ئو اور بوجھل حفظ مراتب نہیں بلکہ سچائی کو بے نقاب کرنے اس سے بے خوف ہو کر نظریں ملانے سے اب ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ اب زمانے نے ایک دفعہ پھر کروٹ لی اور نئی نسل نے محسوس کیا کہ یہ نام نہاد نئی تہذیب بھی در اصل اخلاق کا پاجامہ پہنے ہوئے ہے۔ سچائی کا سامنا کرتے وقت یہ تہذیب بھی اخلاقی بندھنوں کی وجہ کر لڑکھڑا جاتی ہے اس لیے ہم خود کو ان بندوں سے آزاد کر لینا چاہتے ہیں ۔ تہذیب کی اس اتھل پتھل نے نام نہاد نئی تہذیب کے علم برداروں کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔ اور وہ اپنا سر دھنتے نظر آرہے ہیں کہ ہائے ہمارے بچوں کو کیا ہوا یہ کس منزل کی طرف جا رہے ہیں؟ مگر یاد کرو وہ دن جب تمہارے اباو اجداد نے تمہیں اخلاقیات کا سبق پڑھایا تھا اور تمہیں حفظ مراتب ، رکھ رکھائو سکھانے کی کوشش کی تھی تو تم نے کیا کیا تھا؟ آج کی نسل جب اسی روایت کو آگے بڑھا رہی ہے تو اتنی تکلیف کیوں ہوتی ہے ۔ اور اگر ہوتی ہے تو یاد کرو وہ دن جب تم نے اپنی نئی تہذیب کا پرچم لہرایا تھا تو اس وقت کی تہذیب کے علم برداروں پر کیا گذری ہوگی۔ اب تمہاری باری ہے۔
تہذیب کا یہ اہم موضوع کوئی چھوٹا موضوع نہیں یہ وہ موضوع ہے جس پر ہمارے مستقبل کا دار و مدار ہے۔مشرف علام ذوقی نئی نسل کی نئی تہذیب کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ملاحظہ کیجیے:
ـ’’سپرمارکیٹ،انڈیاشائننگاور 2050تکانڈیا کو سب سے بڑی طاقت کے طور پر پیشن گوئی کرنے والے بھی نہیں جانتے ۔۔۔ کہ وہ اس پوئر انڈیا کو کہاں لے آئے ہیں۔ تمہارے رنگ برنگے کھلونے جیسے کنڈوم تک۔۔۔ اسکول کے بچے برانڈید انڈر ویر پہنتے ہیں ۔۔ اور پینٹ اتنی نیچے باندھتے ہیں کہ ان کی گرل فرینڈ ان کی برانڈید انڈر ویر کو دیکھ کر خوش ہوسکے۔۔۔پیٹ کے نیچے کی ساری تاریخ اور جغرافیہ زیادہ آزاد ہے دوست۔۔۔ کہاں ہے تمہارا Ethic، نیتی شاستر اور اخلاقیات کے واہیات صفحے۔۔۔تمہارے ٹی وی شوز سیکس کی آزادی کا پیغام لے کر آ رہے ہیں ۔۔۔سچ کا سامنا، روڈیز شو اور ایموشنل اتیاچار جیسے پروگرام۔۔۔یہ چھوٹے چھوٹے بچوں میں سیکس کی بھوک جگا رہے ہیں ۔ کب تک روکوگے اپنی تہذیب کو تم ۔۔۔ یہ تہذیب بلاسٹ کر چکی ہے۔۔۔ پرزے پرزے ٹوٹ چکے ہیں۔۔۔ اب کچھ بھی باقی نہیں ہے کاردار۔۔۔۔۔
وہ ہنس رہے تھے ۔۔۔ اور یقین مانو۔۔۔ تہذیب کے یہ صفحے ہم یا تم نہیں لکھتے ۔۔۔ وہ مسکرا رہے تھے۔۔۔ یہ پہاڑ لکھتے ہیں۔۔۔یہ وادیاں لکھتی ہیں یہ نیچر لکھتا ہے۔۔۔۔چلو ایک بار پھر نیچر میں گم ہو جائیں‘‘
(لے سانس بھی آہستہ۔۔۔ صفحہ ۳۸۸)
اب اقتباسِ بالا کو پڑھ کر ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ذوقی کس کے ساتھ ہیں نئی تہذیب کے یا پھر پرانی تہذیب کے؟ ایک اچھا ناول نگار کبھی خود کو ناول میں شامل نہیں کرتا اور اگر یہ نہیں معلوم ہو پائے کہ ناول نگار کا خود کا فلسفہ حیات کیا ہے تو یہ ایک کامیاب ناول کی دلیل ہے۔ ویسے بھی کتابوں کے معاملے میں کچھ بھی اخلاقی یا غیر اخلاقی نہیں ہوتا ۔آسکر وائلڈ کہتا ہے:
There is no such thing as a moral or immoral book. Books are well written or badly written
اور اس کسوٹی پر یہ ناول کھرا اتر تا ہے۔ یعنی کرافٹ کی رو سے یہ ناول بہت خوب ہے۔اندازِ بیان میں پختگی ایسی کہ قاری عش عش کرے۔ ایک اچھی کتاب کو پڑھتے وقت ایسا محسوس ہونا چاہیے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں ہے جو اس دنیا کے مد مقابل تیا ر کی گئی ہے ۔ اور وہ اس دنیا سے بے خبر ہو جائے۔ ذوقی کے اسلوب میں وہ ندرت ہے کہ پڑھنے والے کو اس طرح کی ایک الگ دنیا میں ہونے کا احساس ہوتا ہے۔تہذیب کے اتھل پتھل ہونے کی کہانی جو آپ نے مندرجہ بالا سطور میں سنی یہ در اصل خارجی دنیا اور اجتماعی سماج کی داستان ہے۔ اسی ناول میں ایک اور دنیا ہے، داخلی دنیا اور انفرادی کشمکش۔ آپ ذرا اس کہانی کے نفسیاتی پہلو پر غور فرمائیے۔
ایک باپ ہے ، اس کی ایک بیٹی ہے ۔ وہ بیٹی ایک نفسیاتی مرض کی شکار ہے ایسی مریضہ جس کو ہمارے سماج میں پاگل کہا جاتا ہے۔ وہ کبھی کبھی اپنے سارے کپڑے اتار کر پھینک دیتی ہے۔ اور بستر پر ہی اضابت کر ڈالتی ہے۔ وہ باپ اس لڑکی کو پالتا ہے ۔ بیٹی دھیرے دھیرے جوان ہوتی ہے۔ وہ باپ ایک باپ تو ہے مگر ایک مرد بھی ہے۔ وہ لڑکی بیٹی تو ہے مگر ایک عورت بھی ہے۔ ایسے میں ایک باپ کے لیے اس بیٹی کو نہلانا اس کے کپڑے دھونا ۔ اس کو باتھ روم لے جانے یہاں تک کہ اس کے جسم میں صابن تک لگانے کی ذمہ داری اس کو نبھانی ہوتی ہے۔ ایسے میں جب اس لڑکی کو سیکس کی طلب ہوتی ہے تو وہ اپنے باپ کو ایک باپ نہیں سمجھتی کیونکہ یہ تو عقل والے لوگ سمجھا کرتے ہیں وہ اس باپ کو ایک مرد سمجھتی ہے اور اپنی طلب کو پورا کرنا چاہتی ہے۔ ایسے میں ایک باپ کے لیے کتنی بڑی آزمائش ہوگی ۔ اس کی نفسیاتی کیفیت کیا ہوگی۔ اس کا تو صرف اندازہ ہی کیا جا سکتاہے ۔ اور ایسے میں جب وہ باپ ایک دن بیٹی کی ضد کے آگے جھک جاتا ہے اور اس کی طلب پوری کر دیتا ہے تو ایسے میں اس کی داخلی کیفیت کے بارے میں ایک عام انسان تو سوچ بھی نہیں سکتا ۔
اب آپ یہ کہینگے کہ بھلا ایسا ہوتا ہے کیا؟ یہ تو اس دنیا کی کہانی نہیں لگتی۔ در اصل اسی دنیا میں اس طرح کی کہانیاں بھری پڑی ہیں ذوقی نے تو ایک مجبور باپ کا المیہ پیش کیا ہے ور نہ یہ دنیا تو اتنی غلیظ بھی ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو اپنی ہوس کا شکار بناتے وقت ایک دفعہ بھی یہ نہیں سوچتا کہ وہ یہ کیا کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر آج (19 june 2012) دل دہلا دینے والی خبر میں نے پڑھی آپ بھی پڑھیے:
June 19 (IANS) Bangalore Police early Tuesday arrested French diplomat Pascal Muzurier on the charge of sexually abusing his minor daughter.
"We have arrested Mazurier and taken him into custody from his residence in the early hours…We will produce him in the court later in the day after medical examination,” Bangalore Additional Police Commissioner (Law & Order) T. Sunil Kumar told IANS here.
Mazurier is the deputy head of
chancery in the French consulate here.
اس طرح کی دلدوز خبریں ہر روز اخباروں میں شائع ہوتی ہیں۔تو یہ کسی ایسی دنیا کی کہانی نہیں جو ایک فکشن نگار کے خیالوں ہی میں زندگی کرتا ہو۔ ایک ایسی نری سچائی بھی ہے جس پر بات کرنے کے لیے بھی بہت ہمت چاہیے اور ایسے میں اس طرح کے موضوع پر ناول لکھنا تو دل گردے کی بات ہے۔
(یہ بھی پڑھیں ’’مٹی آدم کھاتی ہے ‘‘بیانیہ میں ایک نیا تجربہ- شہناز رحمٰن)
اس ناول میں ذوقی نے جس باپ کے کردار کو پیش کیا ہے وہ تو ایک خاص حالات میں وہ گناہ کرتا ہے جس کی سزا ایسی ہے کہ وہ زندگی کا ہر لمحہ گھٹ گھٹ کر جیتا ہے کیونکہ اس کے اندر ایک احساس جرم پل رہا ہوتا ہے۔ اسی نفسیات پر یہ ناول ارتقائی مراحل طے کرتا ہے۔ ذرا غور کریں کہ اگر یہ احساسِ جرم بھی نہ ہوتا تو؟؟؟
شاید اس طرح کی کہانی لکھنے کی ہمت ذوقی بھی نہیں کر پاتے۔
جب ذوقی نے اس موضوع پر ناول تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو اس وقت ان کی داخلی کیفیت کیسی رہی ہوگی وہ کس طرح کی نفسیاتی کشمکش میں مبتلا رہے ہونگے۔ ممکن ہے کہ وہ باپ کہ اس کردار پر پھوٹ پھوٹ کر روئے ہوں۔ اور کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہوگا کہ انہوں نے ان مکالموں کے لیے ہمت کی کمی محسوس کی ہو جس میں طلب پوری کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اور پھر اپنی پوری ہمت یکجا کر کہ وہ بات کہی ہو جو اس دنیا کی تلخ حقیقت ہے۔ ملاحظہ کیجیے وہ حصہ جس میں ذوقی نے وہ مکالمہ پیش کیا ہے:
ــ’’ہاں۔۔۔‘
’اور یہ ۔۔۔۔کہ۔۔۔۔‘ تمہیں لفظوں کی ادائگی میں پریشانی ہو رہی تھی۔۔۔۔اور یہ کہ اس کے اندر تمہارے لیے ۔۔۔۔ایک طلب۔۔۔پیدا ہوئی ہے۔۔۔‘
اس نے لمبی سانس بھری اور دھماکہ کر دیا۔۔۔
’میں نے طلب پوری کر دی۔۔۔۔پوری کر دی۔۔۔۔‘
چھت ناچ رہی ہے۔۔۔آسمان گھوم رہا ہے۔۔۔ساری دنیا اچانک ہلنے لگی ہے۔۔۔
میں خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹتا ہوں۔۔۔
کیا۔۔۔؟
’اور کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔‘
وہ رو رہا تھا۔۔۔ Now she is pregnant۔۔۔۔
میرے ہوش فاختہ تھے ۔۔۔ لگا ، اب گر پڑونگا ۔۔۔دماغ میں نگاڑے زور زور سے بج رہے تھے۔۔۔
میں زور سے چیخا۔۔۔کیا ۔۔۔ وہ تمہارے بچے کی۔۔۔‘
اس نے سر جھکا لیا۔۔۔
بے چینی کے عالم میں، میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔۔۔میں کیا کروں۔۔۔کیا کہوں۔۔۔میں سہمی ہوئی اخلاقیات کے درمیان اس پرندے کی طرح تھا جس کے پر نوچ لیے گئے ہوں۔۔۔
میں شاید رو رہا تھا۔۔۔
یا شاید میرے آنسو خشک ہو چکے تھے۔۔۔
اور دوسرے ہی لمحے میں نے کانپتے ہاتھوں سے اسے تھام لیا۔۔۔‘‘
(لے سانس بھی آہستہ ۔۔صفحہ ۳۹۴)
مندرجہ بالا مکالمہ پڑھتے وقت آپ کو یہ احساس ہوا ہوگا کہ بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں ذوقی کا قلم بھی مکالمہ پوراکرنے کی تاب نہیں لا پاتا۔اور ذوقی جملہ پورا نہیں کر پاتے ۔ جب نفسیات کا اتنا ذہنی دبائو ہو تو ان مکالموں کو ادا کرنا معمولی ہمت کی بات نہیں۔ اس طرح کے مسائل آج کے نئے نہیں پوری دنیا کے ادب میں اس طرح کے مسئلے پر قلم اٹھانے کی ہمت آخر کسی نے اب تک کیوں نہیں کی کہیں اس کے پیچھے وجہ یہی تو نہیں کہ اس موضو ع پر بات کرتے ہوئے زبان کو لکنت آ جاتی ہے۔
اس ناول میں نادرہ کا کردار بہت اہم ہے۔ جب سے وہ پیدا ہوئی تب سے شادی تک وہ مصیبت میں مبتلا رہی ۔ نادرہ عبدالرحمٰن سے محبت کرتی ہے مگر نور محمد کی ماں کے انتقال کے بعد نادرہ نور محمد کے قریب آنے لگتی ہے اورنادرہ کے والد کی دوسری شادی کی وجہ سے نادرہ کے ذہن پر نفسیاتی دبائو بڑھ جاتا ہے۔ حالات کچھ اس طرح پیدا ہوتے ہیں کہ نادرہ کی شادی نور محمد سے ہو جاتی ہے۔ یہ سارے واقعات کہیں نہ کہیں تہذیب کی اخلاقی بندشوں کی وجہ کر عمل میں آتے ہیں۔ دوسری طرف نور محمد عبد الرحمٰن کو اپنا ہمدرد سمجھتا ہے اور اس سے اپنے دل کی ہر بات بتاتا ہے۔ شادی کے بعد نادرہ پر ذہنی اور نفسیاتی دبائو اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ نادرہ کو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ وہ ایک عجیب سی ذہنی کشمکش میں مبتلا رہتی ہے۔ اور پھر اس کو ایک بیٹی پیدا ہوتی ہے جو نگار ہے اور یہ وہی لڑکی ہے جس کی بیماری کا ذکر مندرجہ بالا سطور میں کیا جا چکا۔
وہ لڑکی نگار آخر اس نفسیاتی بیماری کا شکار کیوں ہوئی ؟ اس طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی ۔ در اصل اس کا تعلق بھی تہذیب کی قید و بند سے بہت گہرا ہے۔وہی اخلاقی بندشیں اور ان بندشوں میں گھٹتی زندگی ۔ اب کی نسل ان اخلاقی بندشوں میں گھٹنے کی روادار نہیں۔ وہ ساری بندشیں توڑ دینا چاہتی ہے۔ تو ایک وہ نسل جو خود کی مرضی پر اخلاقیات کو فوقیت دیتی تھی اور دوسری طرف وہ نسل جو اس کے نتیجے بغیر اف کیے برداشت کرتی رہی۔ آخر عبدالرحمٰن نے نادرہ سے شادی کیوں نہیں کی؟ یا پھر نور محمد سے شادی کرتے وقت نادرہ نے یہ صاف صاف کیوں نہیں کہا کہ وہ عبد الرحمن سے محبت کرتی ہے۔ اور جب ان سب کے نتیجہ میں نگار پیدا ہوئی تو ایک باپ کی حیثیت سے اپنی پوری ذمہ داری بغیر اف کیے نور محمد کیوں نبھا تا رہا ان سب سوالوں کے جواب کی کڑی تہذیب کی تبدیلی سے مل جاتی اور ان مختلف تہذیبوں کے مطابق پھر وہی ابراکس کا فلسفہ کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔
اس ناول کے شروع میں جب قاری کو اس پورے واقعے کی کوئی خبر نہیں عبدالرحمن اور اس کی پوتی سارہ کاردار کے بیچ مکالمے میں سارہ کا یعنی نئی نسل کی خود اعتمادی صاف ظاہر ہے۔ نسلوں کے فرق میں آپ اور تم کا بھی فرق مٹ چکا ہے۔ ملا حظہ کیجیے بات چیت کا یہ حصہ:
’’اور تم اب پہلے والے ددّو بھی نہیں رہے۔۔۔ پہلے کتنا کھیلتے تھے میرے ساتھ۔ یاد ہے ددّو۔ کرکٹ بھی کھیلا تھا۔۔۔والی بال بھی ۔۔۔کیرم بھی ۔۔اور ۔۔۔لیپ ٹاپ پر ویڈیو گیم بھی۔۔۔‘
’وقت بدل جاتا ہے سارہ۔۔۔‘
’نہیں بدل جاتا۔۔۔‘
بدلتا ہے۔۔‘ میں اپنی بات پر زور دے کر کہتا ہوں۔ وقت کے ساتھ کھیل بھی بدل جاتے ہیں۔ تمہارے بھی تو کھیل بدل گئے۔۔ کھیل کی جگہ ہاتھوں میں موبائل آ گیا۔۔
’موبائل رکھنا کھیل نہیں ہے
‘’میرے لیے کھیل ہے
’بس تم ہو ہی پرانے زمانے کے۔۔۔‘
’’اچھا ۔۔۔تو میں پرانے زمانے کاہو گیا۔۔۔مگر موبائل تو میرے پاس بھی ہے۔۔۔۔‘
سارہ نے میری آنکھوں میں جھانکا ۔ ایک چمک جاگی تھی اس کی آنکھوں میں۔۔۔اچھا۔۔۔تم کہتے ہو وقت کے ساتھ کھیل بھی بدل جاتے ہیں تو کوئی نیا کھیل کھیلو نا میرے ساتھ۔۔۔۔‘‘
ایک لمحے کے لیے ٹھہر گیا ہوں۔۔۔جیسے نور محمد سے چلتی ہوئی کہانی اخلاقیات کے بوسیدہ صفحے تک آکر منجمد ہو گئی ہو۔۔ ایک چیز جو سارہ کے لیے جائز نہیں میرے لیے جائز۔۔۔ایک چہز جو نور محمد کے ساتھ جائز، میرے لیے ہولناک سے زیادہ عبرتناک۔۔۔کھیل مل گیا تھا ۔۔۔میں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔‘‘
(لے سانس بھی آہستہ۔۔۔صفحہ ۱۷)
اس اقتباس میں دو باتیں بے حد اہم ہیں ایک سارہ کی خود اعتمادی اور دوسرا یہ کہ یہ ناول کا ابتدائی حصہ ہے اور اس میں اس پوری کہانی کے مصنف کے ذہن میں ہونے کا اشارہ مل جاتا ہے۔ کیا ہوا ہوگا؟ کیا ذوقی نے پہلے ہی اس کہانی کا کلائمکس لکھ دیا تھا اور بعد میں اس کے اولین صفحات تحریر کیے۔ اس کا بہتر جواب تو وہی بتا سکتے ہیں ہاں بحیثیت قاری کہ میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ذوقی کے اس ناول کی بُنت بہت فنکارانہ اور ماہرانہ ہے۔
سارہ کی خود اعتمادی اس بات کا اشارہ ہے کہ نئی نسل کس قدر فرینک ہے وہ اپنی بات بے حد خوبصورتی سے رکھنا جانتی۔ وہ Art of expression سے واقف ہے، وہ گھٹ گھٹ کر جینے میں یقین نہیں رکھتی۔ وہ اپنی زندگی بڑی آزادانہ طور پر جینا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس کے اندر ہمت بھی ہے اور جذبہ بھی۔
اس پورے ناول میں کردار نگاری کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس جائزہ میں سب سے زیادہ معاون ساختیاتی طریقِ تنقید ہوگا کیونکہ ہر کردار ایک خاص ماحول کی پیداوار ہے۔ اس ناول کے کرداروں کے بننے بگڑنے اور عمل پیرا ہونے میں ان کرداروں کے پس منظر کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر نگار ایک مریضہ ہے تو اس کے پیچھے اس کی ماں اور اس کے باپ کے ذہنوں پر پڑنے والا stress کار فرما نظر آتا ہے۔ اسی طرح عبد الرحمن اور نور محمد کے کرداروں میں ان کی رقابت کو دخل ہے اور ساتھ ساتھ تقسیمِ ملک اور اس کے بعد کا یہ عہد ایک طرف ان پر اثر انداز ہوتا ہے تو دوسری طرف حویلیوں کی تہذیب میں ان کی پرورش آخر میں حویلی بیث دینا در اصل پرانی تہذیب سے ان کے دست بردار ہونے کا استعارہ ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اس ناول میں مکالموں پر بیانیہ بھاری ہے اور یہ اس کا عیب نہیں کیونکہ جہاں بھی مکالمے ہیں بلا کی اثر انگیزی رکھتے ہیں۔ چونکہ بیانیہ اس ناول میں زیادہ اہم ہے اس لیے بقول گوپی چند نارنگ:
’’ساختیاتی طریقہ کار بیانیہ (Narrative)کے مطالعے کے لیے خاص طور پر موزوں ہے۔اس کی اطلاقی سرگرمی سب سے زیادہ اسی میدان میں ملتی ہے۔بیانیہ کا ایک سرا متھ، اساطیر دیو مالا، کتھا کہانی وغیرہ لوک روایتوں (Folklore)سے جڑا ہوا ہے تو دوسرا ایپک ، ڈرامے، ناول اور افسانے سے جڑا ہوا ہے۔ موخر الذکر اصناف طوالت، پیچیدگی اور فنی تراش خراش میں بیانیہ کے اولین تاریخی نمونوں سے خاصی مختلف ہیں۔تاہم بیانیہ کی طویل تاریخ میں بعض ساختیاتی عناصر مشترک بھی ہیں، مثلاََ پلاٹ، منظر نگاری ،کردار ، مکالمہ انجام وغیرہ۔ ساختیاتی فکر چونکہ نظروں سے اوجھل داخلی ساخت اور کلی تجریدی نظام پر زور دیتی ہے۔ بیانیہ کی مختلف اقسام کا مطالعہ ساختیات کے لیے خاص کشش رکھتا ہے۔ اور ساختیاتی مفکرین نے اس چیلنج کو بخوبی قبول کیا ہے۔‘‘
(فکشن شعریات تشکیل و تنقید ، گوپی چند نارنگ صفحہ ۳۲۱)
اس ناول میں بھی نظروں سے اوجھل داخلی ساخت اور کلی تجریدی نظام پر مصنف کا زور زیادہ ہے اس لیے اگر ہم اس ناول میں موجود کرداروں کے داخلی جذبات کا تجزیہ کریں اور ان کی داخلی کشمکش پر بات کریں تو ہم اس ناول کا مقام زیادہ پر اثر طریقہ سے متعین کر پائینگے۔ چونکہ اس ناول میں خارجی پہلو کم اور داخلی احساسات و محرکات زیادہ ہیں اس لیے ان کی ساختیات کا مطالعہ اس ناول کے مطالعہ میں زیادہ معاون ہوگا۔
اب اس ناول کے ہر کردار اور اس کے وجود میں آنے کے محرکات اور اس کی زندگی کے حادثات و واقعات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اس ناول میں ایک نیا ڈائمنشن ابھر کر سامنے آئیگا اور وہ ہے ایک عورت کا المیہ۔ ایک عورت اس ناول میں نادرہ ہے جو پوری زندگی سکون سے نہیں رہتی اور ہمیشہ ہر طرح کے تغیر و تبدل کا نشانہ بن جاتی ہے۔ نگار کا المیہ یہ ہے کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا اس کا قصور وار کبھی مردوں کو نہیں ٹھہرایا جا سکے گا۔ غلطیاں چاہے کوئی بھی کرے حالات چاہے موافق ہوں یا مخالف حالات، تہذیب اور اخلاقی بندشوں کا شکار سماج میں عورت ہی ہوتی ہے۔ وہ چاہے نادرہ ہو یا نگار یا پھر سارہ کاردار۔ ہمارا سماج بھی عجیب ہے عورت اگر کوئی بھی بڑا کارنامہ انجام دے تو اس کا سارا کریڈٹ مرد کو دے دیا جاتا ہے اور اگر وہ کہیں پر بھی ہلکی سی چوک کر بیٹھے تو سارے الزام کی سزا وار عورت ہوتی ہے۔ اس سماج میں ساری قربانیاں عورتوں ہی سے مانگی گئی ہیں۔ عبدالرحمن اور نور محمد نے اپنی محبت کے لیے کوئی قربانی نہیں دی البتہ فرض کی قربان گاہ پر نادرہ کو ہی قربانی دینی پڑی اور اس کا نتیجہ بھی نگار کو بھگتنا پڑا۔ کیا ہو تا اگر نادرہ نے ایک لڑکی کے بجا ئے ایک بیٹا جنا ہوتا؟ کچھ نہیں ہوتا پھر تو نہ کوئی گناہ ہوتا اور نہ کوئی احساسِ جرم۔ سب کی زندگی مزے میں کٹی ہوتی تب بھی تکلیف اور کرب میں مبتلا اس کی ماں ہی ہوتی۔ یعنی ایک عورت۔
عورت کو اتنا مجبور آخر کس نے بنا دیا ۔ کیا یہ تہذیبوں کی وجہ کر ہیں ۔ یہ تہذیبیں اخلاق کی بڑی بڑی دیواریں بناتی ہیں اور ان میں قید ہوتی ہیں صرف عورتیں۔ مگر ایک اچھی بات یہ ہے کہ تہذیبیں پائیدار نہیں ہوتیں۔ تہذیبوں کے بننے بگڑنے پر اس ناول میں دو کرداروں کے بیچ کا یہ مکالمہ بہت خوب ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’تہذیبیں مرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ ایک تہذیب جہاں ختم ہوتی ہے‘ دوسری تہذیب وہیں سے سانس لینا شروع کر تی ہے۔ ہر تہذیب ایک دوسرے سے مختلف۔ ہڑپا، موہن جوداڑو سے قدیم مصر، بیبی لون، یونان، روم کی تہذیبوں کے اوراق دیکھ لو۔۔۔لیکن یہاں ان پہاڑوں کی اپنی تہذیب ہوتی ہے۔ جو کبھی نہیں بدلتی ۔‘ پروفیسرنیلے مسکرائے۔۔۔کیا تمہارا جدید سائنس ایک چھوٹا سا سبز پتہ بنا سکتا ہے۔۔؟ وہ ہنس رہے تھے۔ نہیں بنا سکتا ۔جینوم اور ڈی ان اے کے اس عہد میں وہ ان ہری بھری شاخوں اور پتوں کو مسل کر ادویات ضرور تیار کر سکتے ہیں۔ جانے کیوں ۔ شروع سے ہی انسانوں نے اپنی ترقی کے لیے ایک ہی راستہ چنا۔۔قدرت سے کھیلو۔۔قدرت کے خزانے کو لوٹو۔۔۔ترقی کا ہر راستہ اس قدرتی خزانے سے ہو کر جاتا ہے۔۔‘میرے سامنے نور محمد کا چہرہ تھا۔۔۔’ابھی آپ تہذیبوں کی بات کر رہے تھے پروفیسر۔۔۔؟
’ہاں۔۔۔تہذیبیں مرنے کے لیے ہوتی ہیں ۔ کوئی کوئی تہذیب بہت جلد مر جاتی ہے۔۔پھر ایک نئی تہذیب سر اٹھاتی ہے۔ ان تہذیبوں میں جینے کے لیے ’ہم اپنی سہولت کے حساب سے مذہب چن لیتے ہیں۔ اصول اور قوانین بنا لیتے ہیں ۔ یہ سب اپنی سہولت کے حساب سے کاردار۔۔۔انسانی رشتے بھی اسی سہولت کی دین ہیں ۔ جنہیں بیحد مہذب ہوتی دنیا میں ہم اپنے حساب سے بناتے اور توڑتے رہتے ہیں۔۔۔یہ رسم و رواج ۔۔۔شادی بیاہ ، بندھن۔۔۔ممکن ہے یہ تہذیب ختم ہو جائے تو نئی تہذیب ان سب کی نئی تعریفیں اپنے حساب سے یا اپنی سہولت کے حساب سے لکھنے لگیں۔‘‘
(لے سانس بھی آہستہ۔۔۔صفحہ ۲۴۔۲۵)
تہذیبوں کے تصادم اور ٹوٹنے بننے کی بحث کے دوران شعور کی رو میں مصنف نے ماحولیات سے متعلق انسان پر جو طنز کیا ہے وہ قابلِ غور ہے یعنی شعور کی رو کا استعمال بھی اس ناول میں جا بجا ہوا ہے اس کی ایک مثال مندرجہ بالا سطور بھی ہیں۔ ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ مصنف نے کسی خاص اسلوب کا استعمال کسی خاص ماحول ، یا خاص وقوعہ کے لیے کیا ہے۔ اس ناول کی بہت بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک well-planned ناول ہے۔ لیکنplanning کی اس خصوصیت کا دائرہ صرف پلاٹ تک ہی محدود ہے۔ طرزِ نگارش طے شدہ معلوم نہیں ہوتا۔
’لے سانس بھی آہستہ۔۔۔‘ اکیسویں صدی کے اوائل میں منظرِ عام پر آنے والے اردو ناولوں میں یقیناََ ایک بڑا اہم نام ثابت ہوگا۔ یا یوں کہیے کہ اردو ادب کی تاریخ میں اکیسویں صدی کے اوائل میں وجود میں آنے والا یہ ناول تاریخی اعتبار سے، تکنیکی اعتبار سے ، اسلوب کے اعتبار سے اور اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
1 comment
بےمثال ناول کابہترین محاکمہ تجزیہ نگارنےناول کاباریک بینی سےمطالعہ کیاہےاوربھرپورانداز میں اس کی اس کی نفسیاتی پیچیدگیوں کاجائزہ لیاہے