رفاقت حیات کا ناول ’’میر واہ کی راتیں ‘‘ایک ایسے کردار کی زندگی سے وابستہ واقعہ پر مبنی ہے جس کی جذباتی کیفیات پیچیدہ صورت اختیار کر گئی ہیں ۔اس کی جبلی خواہشات اتنی شدید ہو چکی ہیں کہ ان کی ا ٓسودگی کے لیے وہ سماجی تقاضوں سے بیگانہ ہو گیا ہے ۔واقعہ بیان کرتے ہوئے اس کردار کے پیچ در پیچ داخلی اضطراب کو جس تسلسل سے بیان کیا گیاہے وہ عمومیت اور حقیقت سے ماوراء ہو کر افسانوی روپ دھار لیتا ہے ۔چونکہ اسی کردار کے شب و روز کے غیر معمولی عوامل اور نت نئے تجربوں سے افسانوی فضا کی تشکیل ہوتی ہے اسی لیے ایسے راوی کا انتخاب کیا گیا ہے جوتمام ترحالات اور محرکات پر نظر رکھ سکے ۔
ناول کی ابتدا مرکزی کردار نذیر کی مرتعش زندگی کی اس رات سے ہوتی ہے جو گذشتہ راتوں سے مختلف ہے ۔اسے اپنی پسندیدہ کہانی ’’ مومل رانا‘‘ بے کیف محسوس ہوتی ہے ۔رسالہ کے صفحات پر لفظوں کے بجائے مبہم خاکے ابھرتے نظر آتے ہیں ۔با لآخرسونے کی کوشش میں ناکام ہو کر وہ چھت کی کڑیاں شمار کرنے لگتا ہے اوران اعداد کو مختلف انداز سے بدل کر پیچیدہ بنادیتا ہے اور پھر اسے مومل اور راناکے واقعہ سے وابستہ کرکے معنی برآمد کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس اذیت ناک رات کے بعد اپنی زندگی میں آنے والے خوبصورت لمحات کی توقع لیے وہ پوری رات مختلف خیالوں اور وسوسوں میں گزار دیتا ہے ۔اس ناول کے راوی نے’ منزل مقصود‘ تک پہنچنے والی رات سے پہلے کی بے چینی سے قصہ شروع کرکے قاری کو اس طرح متجسس کر دیا کہ وہ اس مضطرب صورت حال کے انجام سے روبرو ہونے کے لیے بلا توقف پورا ناول پڑھنے پر مجبور ہو جائے ۔اس نے نہایت ہی اختصار سے ایک ناآسودہ نوجوان کی نفسیاتی کیفیت کا سہارا لے کر واقعات کا ایسا تانا بانا تیار کیا ہے جس میں سماجی ،علاقائی اور ایک مخصوص معاشرے کی آرزوئیں ،تمنائیں اور سماجی حد بند یاں اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ سامنے آ جاتی ہیں ۔ نذیر کے احساسات اور خیالات قاری کے لیے تحیر زا ہیں لیکن ان کے پس پشت کار فرما گہرے ر موز اگر تلاش کر لیے جائیں تو کسی حد تک اس کردار کو سمجھنے کے ساتھ متن کی معنویت میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔اس کے بعض نامانوس احساسات کی وجوہ تو خود متن میں موجود ہیں ،مثلا ًاس مضطرب رات کے بعد اس کی چچی جب جگانے آتی ہے تو وہ اسے پہلے سے زیادہ حسین نظر آنے لگتی ہے ۔اگلے ہی ثانیہ اپنی اس کیفیت کی وجہ بھی دریافت کر لیتا ہے کہ ’’شاید اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے نرم لمس کی وجہ سے وہ ایک دم پہلے سے زیادہ حسین ہوگئی تھی ‘‘۔ رفتہ رفتہ چچی اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے ۔اس کے جسم کی کشش نذیر کو اپنی طرف کھنچتی ہے ۔چچی کے پرخلوص رویے اور اچھے برتاؤ میں اسے مامتا کے بجائے لذت محسوس ہونے لگتی ہے گر چہ وہ خوف زدہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں چچی اس کے ارادے بھانپ نہ لے لیکن کچھ ہی روز میں چچی خود مائل بہ کرم ہوجاتی ہے ۔نذیر اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں سے چوتھے نمبر پرہے ،جو ہر وقت اپنی شرارتوں کی وجہ سے کبھی باپ تو کبھی بڑے بھائیوں سے پٹتا رہتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا ،حسین لڑکیوں کی تاک میں رہنا ،ان کا پیچھا کرتے ہوئے گھر تک چلے جانا ،باپ کے پیسے چرا لینا اس کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ ایک طوائف کی زلفوں کا اسیر ہو جاتا ہے اورباپ کو دھوکہ دے کر ایک بڑی رقم لے کر فرار ہو جاتا ہے ۔اس واقعہ کے بعد اسے چچا کے پاس ٹھری میر واہ بھیج دیا جاتا ہے ۔
میرواہ پہنچنے کے بعد اس کی فطری جبلتیں آسودگی کے لیے مزید سرگرم ہو جاتی ہیں لہذا حصول لذت کے لیے چچی بطور نعمت اسے مل جاتی ہے گرچہ اسے اس بات کا احساس ہے کہ اس کا یہ عمل تہذیبی اور اخلاقی ضابطوں کے منافی ہے لیکن اس کے باوجود وہ موقع بہ موقع چچی کو شہوانی نظروںسے دیکھنے سے خود کو باز نہیں رکھ پاتا۔ چچی کی طرف سے کوئی واضح اشارہ نہ ملنے کی وجہ سے اس کی آرزوئیںاپنی تشنگی دور کرنے کے لیے ایک الگ راہ نکال لیتی ہیں ۔وہ چچا غفور کی دوکان پر آنے والی ہر عورت کی نگاہوں میں اپنے لیے التفات تلاش کرتا ہے ۔کبھی کبھی تو خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آجاتے ہیں۔اس کے علاوہ نذیر کی ایک اور غیر معمولی عادت ہے کہ وہ سفر کرتے ہوئے خوبصورت نسوانی چہرے کی تلاش میں رہتا تاکہ ان آنکھوں میں اپنے چہرے کو ٹٹولتے ہوئے بیزارکن سفر کو یاد گار بنا سکے ۔گرچہ یہ سلسلہ ایک اسٹیشن سے شروع ہو کر دوسرے پہ ختم ہو جاتا مگر ہر سفر ایک خوبصورت یاد کے طور پر اس کے ذہن میں مرتسم ہو جاتاتھا ۔ اسی عادت کی پیروی کرتے ہوئے نذیرکو ایک ایسی عورت مل جاتی ہے جس کی آنکھوں میں اسے اپنا عکس نظر آ جاتاہے ۔یہ وہی عورت ’’شمیم ‘‘ہے جو اس کے لیے متاع جاں بن جاتی ہے۔ شروع میں جس مضطرب رات کا ذکر کیا گیا ہے اس کے بعد شمیم سے ملاقات کی رات آنے والی ہے جس پر اس ناول کی عمارت کھڑی کی گئی ہے ۔
بچپن سے لے کر جوانی تک سیمابی و اضطراری کیفیت رکھنے والے کردار نذیرکے عادات و عوامل پر غور کیا جائے تو وہ فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی اور شخصیت کی نشو و نما میں اس کے طے کردہ مدارج میں فٹ نہ بیٹھنے والے کردار کا استعارہ معلوم ہوتا ہے، جسے مصنف نے خواہشات کے اظہار کی بے ساختگی کی مثال بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر کردار کی نفسیات مختلف ہوتی ہیں لیکن جب کسی کردار کو موضوع بنا کر کو ئی فن پارہ تخلیق کیا جاتا ہے تو اس میں انوکھا اور غیر معمولی پن کا ہونا ضرور ی ہے جو فن کا ر کی تخلیقی حسیت کو مہمیز کرسکے ۔اردو کے افسا نوی ادب میں بے شمار کرداری افسانے اور ناول لکھے گئے اور ان تمام کرداروں میں سب سے مضبوط پہلو ان کا نفسیاتی داؤ پیچ ہے جو انھیں متن کے دیگر افراد سے ممتاز بناتا ہے مگر اس ناول کے مرکزی کردار نذیر میں جو خصوصیات موجود ہیں ان کی تفہیم فرائڈ کے نظریہ کا سہارا لیے بغیر ممکن نہیں ۔کیوں کہ دوسرے افسانوی متون میں کردار کے اعمال و حرکات کے اسباب و علل عموما متن میں ہی تلاش کر لیے گئے ہیں ۔لیکن نذیر کو سمجھنے کے لیے ناول کا بین السطور ناکافی ثابت ہوتا ہے ۔ شمیم سے ملاقات کے لیے پکوڑا فروش نورل جوگی سے دوستی کرنااور اس دوستی کو اعتبار بخشنے کے لیے نورل جوگی کے ساتھ بھانگ اور چرس سے نشہ کرنا اور شمیم کو ملتفت کرنے کے لیے زیور خریدنا وغیرہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لاشعوری محرکات تو قرار دیئے جا سکتے ہیں مگر شمیم سے وصال کے دوسرے روز ہی چچی خیر النساء سے مباشرت کرنے کی تحریک بغیر کسی نفسیاتی جنون کے ممکن نہیں ۔فرائڈ کے مطابق ایسے ہمت افزا اقدام اڈ Id کی قوت کے زیر تحت انجام پاتے ہیں ۔فرائڈ کا خیال ہے کہ اڈ وہ خود کار قوت ہے جو ہر شخص میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے ۔یہ قوت منھ زور اور بے لگام ہوتی ہے ہمیشہ جبلتوں کی تسکین کے سامان تلاش کرتی رہتی ہے ۔اگر تسکین کے طریقے ضابطہ اخلاقیات کے خلاف ہوں تو حصول لذت کے نت نئے راستے ایجاد کرتی ہے جو سماج کے لیے قابل قبول ہوں ۔یہ طریقے علامتی بھی ہوتے ہیں اور با الواسطہ بھی ۔انسان کے بہت سے سفلی جذبات اور منفی رجحانات بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں جو عموماً شکلیں بدل کر آسودہ کیے جاتے ہیں ۔لیکن بعض شدید صورتوں میں براہ راست اور بغیر اخلاقی اصولوں کی پاسداری کے بھی آسودہ کیے جاتے ہیں جس کی بد ترین مثال زنا بالجبراور مباشرت محرم وغیرہ ہوتے ہیں ۔فرائڈ کے اس نظریہ کی روشنی میں نذیر کے کردار کا تجزیہ کیا جائے تو بڑی حد تک متن سے برآمد ہونے والے سوالوں کا حل سامنے آجاتا ہے ۔اس کے علاوہ نذیر کا سوٹ بوٹ والے مرد کے سامنے خود کو کمتر محسوس کرنا،چچا غفور کو رقیب سمجھ کر جان لینے کا خیال پیدا ہونا ،شمیم سے ہم بستر ی کے دوران ایک غیر متوقع صورت حال کی وجہ سے مباشرت نہ کر پانے کو اپنی مردانگی کی کمزوری سمجھنا سامنے کے نفسیاتی عقدے ہیں جو اسے بحیثیت افسانوی کردار ایک تشخص عطا کرتے ہیں ۔
ناول کے واقعات واضح اور محاکاتی ہوتے ہوئے بھی اس کردار کی جذباتی لہروں کی وجہ سے اتنے اشاراتی اور انسلاکاتی ہو گئے ہیںکہ یہ ناول پیچ و خم اور تہہ داری کا ایک مرقع معلوم ہوتاہے ۔واقعات میں ایسا فطری بہاو ٔ ہے کہ قاری یہ محسوس کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ ماضی و حال کب مدغم ہو گئے لیکن اس روانی میں ایک مخصوص طرح کا ٹھہراؤ ہے جو قصے کو وحدت پذیر صورت میں ڈھالتا ہے ۔چچی کے خطوط جسم سے متلذذہونے کے زمانے سے لے کر شمیم کے لیے دیوانگی اور چچی کے جسم کو اپنی ناآسودگیوں کی تکمیل کا ذریعہ بنانے تک کے پورے عرصے میں قاری بھی مصنف کے ساتھ کرداروں کے ہر عمل و ردعمل میں ذ ہنی و فکری طور پر شامل ہو جاتا ہے ۔ناول کی نامانوس فضا کا خاکہ گرچہ قاری کے ذہن میں واضح طور پر نہیں ابھر پاتا لیکن اگر قوت متخیلہ پر ہلکی سی ضرب لگائی جائے تو وہ سندھ کے مخصوص علاقے میں رہنے والے نچلے طبقے کی بیچارگیوں،خواہشوں اور بو العجبیوں کا بیان نہ ہو کر ایشیائی ممالک کے مختلف خطوں کے واقعات معلوم ہو نے لگتے ہیں۔ناول کا جغرافیائی تناظر سندھ کا علاقہ ہے ۔مصنف نے متن میں حقیقت کا رنگ پیدا کرنے کے لیے سندھی علاقوں کے حقیقی نام، علاقائی الفاظ اور مقامی لب و لہجے ،بود و باش، طرز فکر ،عقاید ،باہمی یگانگت ،ایثار اور سچے جذبات کی آمیزش کر دی ہے جس کی وجہ سے متن اور قاری کے درمیان کی حد فاصل ختم ہو گئی ہے اور پھر راوی نے ان کرداروں کی خارجی زندگی اور داخلی کیفیات کے سارے پوشیدہ راز قاری کے سامنے جس اجمالی اور اشاراتی انداز میں بے نقاب کردیئے ہیں وہ اس کی گہری بصیرت کے غماز ہیں۔متن اور قاری کے درمیان کسی طرح کی کوئی اجنبیت باقی نہ رہنے کی صورت میں قاری ناول کے ہر منظر ،ہر کردار کی گفتگو اور ناول کی تخیلاتی جہتوں سے حسب طبیعت محظوظ ہوتا ہے،اور یہ عنصر اس ناول میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ راوی نے واقعات کے بیان میں یہ احتیاط روا رکھی ہے کہ کسی معاملے میں اس کی طرف سے شدت پیدا نہ ہو بلکہ صورت حال کی مناسبت سے خود قاری معاملے کے نشیب و فراز کو سمجھ سکے ۔ناول کے بیشتر وقوعوں میں یہ خوبی بھی مضمر ہے کہ ہر عمل کا فطری رد عمل سامنے آتا ہے ۔بعض مقامات پربیان کنندہ نے ایک ماہر نبض شناس کی طرح متوقع صورت حال کو نہایت ہی مناسب طریقہ سے تبدیل کر دیا ہے ۔ایک شادی شدہ عورت کا شوہر کو دھوکہ دے کر اپنے عاشق سے ملنا اپنے آپ میں بڑا جرأت مندانہ قدم ہے ۔مزید یہ کہ قبرستان جیسی پراسرار جگہ جہاں پر چمگادڑوں کی آوازوں پر بدروحوں کا گمان ہوتا ہو اور ایساغیر رومانی ماحول جس میں کشمکش اور خوف کی زیریں لہریں حواس پر غالب ہوں وہاںدو محبت کرنے والوںکی ملاقات کا منظر پیش کرکے اس میں لذتیت پیدا کرنا ایک چابکدست فن کار کا ہی کمال ہو سکتا ہے کہ۔ان کی ملاقات کاوہ سحر انگیزمنظر ملاحظہ ہو :
’’نذیر نے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا ’’ہمارا آج کا یہ ملاپ ہمارے پیار کی یاد گار رہے گا۔میں اسے زندگی بھر بھول نہیں سکوں گا ۔آج حضرت سچل سرمست بھی ہمارے پیار کے گواہوں میں شامل ہوگئے ۔‘‘اس کا ہاتھ اس کے بازو کے گداز سے پھسل کر اس کے جسم کے نہاں حصوں کو ٹٹو لنے لگا ۔وہ اس کے اور نزدیک آگیا ۔’’دیکھو تم گاؤں کی عورت ہو اور تمہیں ڈرنا نہیں چاہیے ۔‘‘
وہ مزاحمت کرنا چاہتی تھی مگر نذیر کے شریر ہاتھوں نے اس کے حواس معطل کر دیے تھے ۔اس کے بدن کے رگ و ریشے میں ایک بے چینی اور بے اطمینانی سی پھیلتی جا رہی تھی ۔وہ لذت کے ست رنگے پرندے کو اپنے بدن کی تمام پہنائیوں اور تمام دسعتوں میں مائل بہ پرواز دیکھنا چاہتی تھی ۔اس خواہش میں اپنی ملا قات کا محل وقوع تک فراموش کر بیٹھی تھی ۔اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو رہی تھیں ۔اپنے بوجھل پپوٹے بمشکل پوری طرح کھول کر اس نے نذیر کی طرف دیکھا اور پہلی بار اپنے بازو پھیلا کر اسے اپنے بدن سے لپٹا لیا ۔نذیر کے تشنہ لبوں کا بوسہ لینے کے بعد اس نے بمشکل اسے اپنے آپ سے علیحدہ کر دیا ۔الگ ہونے کے بعد نذیر نے گرو پیش پر نظر دوڑائی تو اسے پہلی بار اس محل وقوع کی حرمت کا خیال آیا ۔شب کا نجانے کون سا پہر تھا اور وہ انسانی لاشوں کے مدفن میں اس وقت کیا کر رہا تھا ۔‘‘
(میرواہ کی راتیں ،رفاقت حیات ،سانجھ پبلی کیشنز،پاکستان ،۲۰۱۶،ص:۸۱)
اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ تمام تر قوتوں کے سامنے اس کردار کی جبلت زیادہ فعال اور قوی تر ہے ۔ جنسی لذت کوشی سے مغلوب اور معاشرتی وبشریاتی پاس و لحاظ سے ماوراء ہو کر لمحہ وصال سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اچانک اس جگہ کی حرمت کا خیال آنے اور پھر خاموش ہو جانے سے اس کردار کی نفسیاتی کیفیت پوری شدت کے ساتھ آئینہ ہو جاتی ہے ۔یہاں پر مصنف نے لاشعور کے نہاں خانو ں میں اتر کر صدیوں سے چلے آرہے اخلاقی و تہذیبی ضابطوں کے پابند معاشرے میں سانس لینے والے ایک شخص کے نہایت ہی لطیف نفسیاتی نکتہ کو گرفت میں لیا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں جانگلوس کے مرکزی کردار’’لالی ‘‘کے متضاد رویّے – ڈاکٹر شہناز رحمٰن )
اس ناول کے اختصار اورتاثر کی وحدت و یکسانیت کی وجہ سے یہ کشمکش پیدا ہوتی ہے کہ صنفی اعتبار سے اسے کس زمرے میں رکھا جا ئے لیکن اس کے ہیئتی اجزا اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ مصنف نے ناول کی ہیئت میں ایک نیا تجربہ کیا ہے جس میں حتی الامکان تفصیل سے گریز کیا گیا ہے۔جوچند مہینے کے زمانی عرصہ پر محیط ہے اور مختصر پلاٹ کے اس بیانیہ میں صرف آٹھ کردار ہیں ۔بظاہر جن کی اپنی کوئی خواہش ،نجی ضرورت اور کوئی شناخت نہیں لیکن انھیں کے عوامل سے ناول کی جزئیات میں اضافہ ہوتا ہے اور واقعات کا فطری ارتقاء بھی ہوتا ہے۔وہ ہمہ وقت نذیر کے حوالے سے ہی گفت و شنید کرتے نظر آتے ہیں لیکن رمز و اشارے میں ان کی زندگی کے احوال بھی عیاں ہو جاتے ہیں۔چچی خیر النساء اور شمیم دونوں یکساں المیہ کی شکار ہیں ۔چچی اور غفور چچا کے عمروں میں بڑا تفاوت ہے اور شمیم کا شوہر کسی دوسری عورت میں دلچسپی لیتا ہے ۔اس لیے وہ وہ دونوں جنسی نا آسودگی کے سبب اپنے شوہروں سے بیزار ہو کر نذیر کی جنسی خواہشات کی تسکین میںکوئی تردد نہیں کرتیں ۔زمانہ بلوغ کی جذباتی تشنگی کے نتیجہ میں نذیر کو کنواری لڑکیوں سے وحشت ہوتی ہے بمقابلہ کنواریوں کے وہ شادی شدہ کو ترجیح دیتا ہے ۔ نورل جوگی چند پیسوں کے عوض دلالی کرنے پر راضی ہے اور حیدری محض دوستی کے لحاظ میں اس کا ساتھ دے رہا ہے جبکہ چچا غفور کی حیثیت ایک غیر ضروری شے کی سی ہے ۔اس کے علاوہ اس ناول میں سماجی و تہذیبی مظاہر بھی برائے نام ہیں ۔مزاروں اور درگاہوں پر نشہ میں دھت مست ملنگوں کی پیشگو ئی اور الہامی باتوں کا بیان دوسرے ناولوں کی طرح اس میں بھی بغیر کسی امتیاز کے بیان کیا گیا ہے جس میں اس معاشرے کے مذہبی رجحان کے سوا اور کو ئی گہرا رمز نہیںہے ۔لیکن ان جزئیات کا نذیر کی زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہے جس کی وجہ سے ناول درجہ بدرجہ نقطہ عروج کی طرف بڑھتا ہے ۔اس کے علاوہ جو عنصر ناول کو کامیابی کی دہلیز تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوا وہ ہے انداز بیان ،جس کا اندازہ کم و بیش ناول کے اختصار سے تو ہو ہی جاتا ہے مزید یہ کہ ایک مخصوص علاقے کی زندگی کا نقشہ پیش کرنے کے باوجود مصنف نے کہیں ایسے مکالمے استعمال نہیں کیے جو دوران قرات گراں گزریںیا متن کی تفہیم میں مانع ہو ں۔راوی بہ چشم خود نذیر کے جنسی ارتعاشات کا عینی شاہد ہے یہاں تک کہ وہ مناظر بھی جو خلوت نشینی کے متقاضی ہیں راوی نے انھیں بھی اپنے تخیل اور لسانی موزونیت سے اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ چشم دید واقعہ کی طرح حقیقی محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت کا التباس پیدا کرنے کے لیے کرداروں کے پیشے اور منصب کے لحا ظ سے اور علاقائی لفظیات میں مکالموں کے بجائے لہجے کی برجستگی اور انداز گفتگو سے فطری پن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو بڑی حد تک کامیاب بھی ہے ۔علاقائی الفاظ کا استعمال صرف اس حد تک ہے جو قاری کے لیے دلچسپی اور کشش کا موجب بن سکے ۔
ناول کے مطالعہ کے بعد قاری کا ذہن بے ساختہ یہ سوال کر سکتا ہے کہ ’’کیا نذیر اور دوسرے کرداروں کی زندگی میں جنسی لذت کی حصولیابی کے علا وہ کوئی اور قابل ذکر پہلو نہیں جو ناول میں بیان کیا جاتا ؟ یہی وہ نکتہ ہے جو اس کردار کی تشکیل ،واقعہ کی نوعیت اور ناول کے محدود کینوس کو وسیع تر کر کے اس دنیا کے وجود میں آنے کے محرکات پرتوجہ مرکوز کر دیتا ہے ۔ ایسے میں ناول کا وضاحتی بیانیہ یکایک ابہام و علامات کے ایک لامتناہی سلسلہ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ تشنہ خواہشات کے یہ واقعات صرف نذیر،چچی خیر النساء اور شمیم کا واقعہ نہ ہو کر بے شمار انسانوں کی زندگی کا المیہ بن جاتے ہیں اور یہ ناول اس مہذب معاشرے پر ایک شدید طنزثابت ہوتا ہے جو سماجی معیار اور اخلاقی اقدارکے دباؤ میںانسانی زندگی کے بنیادی تقاضوں کو نظر انداز کرکے مریضانہ حد تک امر و نہی اور اصلاح پر توجہ دیتا ہے۔ کیوں کہ تخلیق کائنات کے بعد تمام مذاہب اور معاشرے نے جبلی خواہشات کی تکمیل کے لیے مختلف سطح کے حدود متعین کیے مگر مہذب ماحول کی خواہش نے انسانوں کو شدت پسندی کی طرف مائل کر دیا جس کے بطن سے بغاوت نے جنم لیا اور نتیجہ کے طور پر شدت عمل اور جذبہ سے بھر پور نذیر جیسے کرداروں کے ذریعہ فرسودہ اخلاقی معیارات کے خلاف ا نحراف کے رویے سامنے آئے ۔
یہ ناول انسانی سماج کی ان گتھیوں کو عیاں کرتا ہے جو خود انسان کی الجھائی ہوئی ہیں ۔ مصنف نے فطرت انسانی کے ادراک کے ذریعہ ان جبلتوں کی کارکردگی کو پیش کیا ہے جس کے سبب ایک کردار عام انسانوں سے ماوراء ہو کر افسانوی جہات کا حامل ہو جاتا ہے ۔اس کردار میں نفسیاتی دباؤ اس طرح عمل آراء ہیں کہ جنسی خواہشات کی تکمیل اس کی زندگی کا مقصد معلوم ہونے لگتا ہے ۔ جذباتی نا آسودگی کی گھٹن نے اس طرح مضطرب کر دیا ہے اس کی زندگی بے سمت را ہوں پر گامزن ہوگئی ہے،جنسی خواہشات اس کے آزانہ نمو کے راستے میں حائل ہیں اور وہ اپنی کسی بھی صلاحیت کو بروئے کار لانے سے قاصر ہے ۔
Dr. Shahnaz Rahman
Aligarh
shahnaz58330@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |